رحاب ایک ٹیکسی کی مدد سے اپنے گھر پہنچی تھی۔۔۔ چوکیدار نے رحاب کو دیکھا تو پہلی نظر میں پہچان ہی نہ سکا۔۔۔ کیونکہ بلیک جینز پر سفید گھٹنوں سے اوپر آتی شرٹ پہنے، پیشانی پر پٹی ، سرخ اور سوجی ہوئی آنکھیں، خود کو چادر سے اچھے سے ڈھانپے وہ کہیں سے مغرور رحاب نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔
رحاب نے ایک نظر چوکیدار کو دیکھا اور پھر آہستہ سے چلتے ہوئے لائونج تک آئی۔۔۔ جیسے ہی وہ دروازے سے اندر داخل ہوئی سامنے کا منظر اسے مزید پشیمان کر گیا ۔۔۔
اجالابیگم مسلسل رو رہی تھیں جبکہ حاشر انہیں خود سے لگائے تسلی دے رہا تھا۔۔۔ اور حسن نیازی اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھامے زمین کو گھور رہے تھے۔۔۔۔
رحاب نے کافی ہمت کر کے حسن نیازی کو پکارا ۔۔۔۔۔
پا۔۔۔پا۔۔۔۔
رحاب کی آواز پر لائونج میں موجود تینوں نفوس نے بے ساختہ دروازے پر کھڑی رحاب کو دیکھا تھا۔۔۔۔
اجالا بیگم بھاگ کر اس کے پاس پہنچی تھیں ۔۔۔
روحی۔۔۔۔
یہ بول کر اسے اپنے گلے سے لگایا اور پھر دیوانہ وار اس کے چہرے پر بوسے دینے لگیں ۔۔۔۔
رحاب تو ایسے جیسے بے حس ہوگئی تھی۔۔۔ حسن نیازی نے آگے بڑھ کر اجالابیگم کو رحاب سے دور کیا۔۔۔ اور سخت تاثرات لئے رحاب سے مخاطب ہوئے ۔۔۔۔۔
کہاں تھی تم؟؟؟؟
رحاب نے ایک نظر ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔۔۔۔
کیا ہوگیا ہے حسن۔۔۔؟؟؟ آپکو نظر نہیں آ رہا میری بچی کو اتنی چوٹ لگی ہے اور آپ نے اسے بیٹھنے بھی نہیں دیا اور سوال جواب شروع کر دئیے۔۔۔۔۔
رحاب سے پہلے ہی اجالابیگم سنجیدگی سے بولیں اور پھر رحاب کا بازو پکڑ کر اسے اندر لے گئیں ۔۔۔ صوفے پر بیٹھ کر انہوں نے رحاب کی پیشانی پر لگی بینڈیج پر بوسہ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشر بھی اس کے سر پر لگی بینڈیج کو دیکھ کر پریشان ہوا ۔۔۔
روحی بچے کیسی ہو؟؟؟؟
حاشر نے نرمی سے اسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
بھا۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔
رحاب حاشر کا نرم رویہ دیکھ کر پگھل گئی اور اتنا ہی بول کر زارو قطار رو دی ۔۔۔۔۔ حاشر نے اس کی سر پر بوسہ دیا اور اسے رونے دیا۔۔۔
حسن نیازی نے گھر آتے ہی اپنے ذرائع استعمال کر کے رحاب کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔۔۔ رحاب تو نہیں ملی لیکن اس کی گاڑی ٹریس ہوگئی
تھی ۔۔۔ گاڑی کی کنڈیشن دیکھ کر حسن نیازی نے یہی اندازہ لگایا تھا کہ رحاب کو کوئی شخص ہاسپٹل لے گیا ہوگا۔۔۔ لیکن ایک بات جو ان کو مسلسل پریشان کر رہی تھی کہ اس کا موبائل سوئچ آف تھا اور لوکیشن بھی وہیں کی تھی جہاں سے گاڑی ملی تھی ۔۔۔ اگر کوئی اسے ہاسپٹل لے کر گیا تو کسی نے ان سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔۔۔۔؟؟؟ بہت سی منفی سوچوں میں ان کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
حاشر نے رحاب کا سر تھپتھپایا اور بولا۔۔۔۔۔
روحی تم ٹھیک ہو نا؟؟؟؟
بھائی میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
رحاب نے ایک نظر حاشر کے چہرے کو دیکھ کر جواب دیا۔۔۔
اگر میں نے بھائی یا پاپا کو سب سچ بتا دیا تو کیا وہ اسی طرح محبت سے پیش آئیں گے؟؟ نہیں ان کی غیرت کبھی گوارہ نہیں کرے گی ۔۔۔۔ میں انہیں سچ نہیں بتا سکتی۔۔۔۔۔
رحاب حاشر کے چہرے کو دیکھ کر سوچ رہی تھی جب حاشر نے اسے مخاطب کیا۔۔۔۔
روحی کہاں تھی تم؟؟؟ ہم لوگ کل سے پریشان ہیں؟؟ اور یہ چوٹ کیسے لگی ہے تمہیں؟؟؟
بھائی وہ کل جب یونی جا رہی تھی تو ایک ٹرک نے غلط ٹرن لے لیا تھا اسی ٹرک سے بچتے ہوئے میری گاڑی ایک درخت کو ہٹ کر گئی اور اس سے پہلے میں کچھ سمجھتی میرے حواس میرے ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔ جب ہوش آیا تو خود کو ہاسپٹل کے بیڈ پر پایا۔۔۔ ڈاکٹرز نے چیک اپ کے بعد مجھے ڈسچارج کر دیا اور ڈسچارج کرتے وقت مجھے بتایا کہ کوئی آدمی مجھے وہاں چھوڑ گیا تھا اور آتے ہوئے ایک نرس نے مجھے میرا بیگ اور موبائل دیا تھا جس کی بیٹری شاید ڈیڈ ہوگئی تھی۔۔۔ میں نے کیب لی اور سیدھے گھر آگئی۔۔۔۔
رحاب کی من گھڑت کہانی پر حسن نیازی نے سکون کا سانس لیا تو حاشر بھی کچھ مطمئن ہوا لیکن اجالا بیگم اس کے ہاتھوں کئ لرزش سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔۔ لیکن فلحال وہ سب کے سامنے اس سے نہیں پوچھ سکتی تھیں ۔۔۔۔
بھائی میں آرام کر لوں۔۔۔ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔
رحاب نے مزید سوالات سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا تو حسن نیازی نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے۔۔۔۔
جائو آرام کرو ۔۔۔۔
رحاب نے بمشکل مسکرا کر انہیں دیکھا اور پھر آہستہ سے چلتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
اجالا روحی بالکل ٹھیک ہے اب تم بھی آرام کرو جا کر۔۔۔۔
حسن نیازی نے اجالا بیگم سے کہا تو وہ اپنا سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے چلی گئیں۔۔۔
حاشر وہاں سے جانے لگا جب حسن نیازی بولے۔۔۔۔
حاشر۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا روحی سچ بول رہی ہے لیکن اس کی گاڑی کی حالت اور پیشانی پر لگی چوٹ اس کے جھوٹ کو سچ بنا رہی ہے۔۔۔۔ مجھے بس یہ جاننا ہے کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا؟ اور تم چونکہ اس کے قریب ہو تو تم جاننے کی کوشش کرو۔۔۔۔
حسن نیازی کی بات پر حاشر نے بے یقینی سے انہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
لیکن پاپا وہ جھوٹ کیوں۔۔۔۔
حاشر ۔۔۔۔ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔ اور یہ میرے اندر کا باپ نہیں بلکہ ایک پولیس آفیسر بول رہا ہے۔۔۔
حسن نیازی نے اس کی بات کو درمیان میں کاٹ کر کہا۔۔۔۔
اور اگر وہ سچ بول رہی ہو تو پھر ؟؟؟
سچائی آپ سے آپکا اعتماد نہیں چھینتی جبکہ جھوٹ آپ کا بات کرنے کا سلیقہ چھین لیتا ہے۔۔۔۔ اور مجھے ایک وکیل کو کم از کم بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ رحاب جھوٹ بول رہی تھی یا سچ؟؟؟ یہ بات تمہیں اس کی کپکپاہٹ دیکھ کر سمجھ جانی چاہیے تھے۔۔۔۔ وکالت آپکو عقاب کی نظر دیتی ہے ۔۔ایک قابل وکیل ۔۔۔ انسان کو دیکھ کر پہچان جاتا ہے کہ اس کا جرم کیا ہے۔۔۔ اور یہ نظر سب وکیلوں کے پاس ہوتی ہے بس فرق یہ ہوتا کہ آپ اس نظر کا استعمال کیسے کرتے ہیں؟؟؟
حاشر نے شرمندگی سے سر جھکایا ۔۔۔
جائو اور جا کر آرام کرو ۔۔۔۔
حسن نیازی یہ بول کر وہاں سے اپنے کمرے میں چکے گئے تھے جبکہ حاشر کی سوچوں کا دائرہ رحاب کی طرف منتقل ہو گیا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
سپورٹس کو گزرے تقریبا ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور اس ایک ہفتے میں عرزم کا پائوں کافی حد تک ٹھیک ہوگیا تھا۔۔۔ زیام اس ایک ہفتے میں اکیلا ہی سکول جاتا تھا ۔۔۔۔ ہفتے کا دن تھا عرزم آج بھی ہاسٹل ہی تھا کیونکہ اب اس سوموارسے سکول جانے کا تھا۔۔۔۔ ہاسٹل کے روم میں وہ کافی بور ہو رہا تھا اس لئے چہل قدمی کے لئے ہاسٹل سے تھوڑی دور ایک پارک میں آگیا جہاں اس کی نظر رحاب پر پڑی۔۔۔۔
رحاب بلیک کلر کی ٹاپ پر ریڈ جیکٹ پہنے ۔ڈارک بلیو جینز پہنے۔۔ بالوں کی ٹیل پونی کئے، کانوں میں ہینڈ فری لگائے شاید کسی سے بات کر رہی تھی۔۔۔ وہ اس سے کافی فاصلے پر ایک بینچ پر۔بیٹھ گیا۔۔۔۔ اور اس کے اتار چڑھائو نوٹ کرنے لگا۔۔۔۔
کبھی وہ مسکرا کر بات کر رہے تھی تو کبھی اپنی چھوٹی سی ناک چڑھا رہی تھی ۔۔۔ عرزم اس کے تاثرات کو کافی انجوائے کر رہا تھا۔۔۔۔
رحاب کو خود پر کسی کی نظریں محسوس ہوئیں تو بے ساختہ اس نے اردگرد دیکھا لیکن جیسے ہی اس کی نظر عرزم پر پڑی اس نے عرزم کو گھورا ۔۔۔۔ عرزم نے مسکرا کر اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ایک چیخ کے ساتھ عرزم نے چہرہ موڑا تھا ۔۔۔اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے بے ساختہ قہقہ لگایا۔۔۔ کیونکہ سامنے ہی ایک کتا رحاب کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا اور رحاب چیختی ہوئی آگے آگے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔ پارک میں باقی لوگوں کا بھی یہی حال تھا کیونکہ اس کتے کا سائز چھوٹی بلی جتنا تھا ۔۔۔
عرزم قہقہ لگانے میں مصروف تھا جب ایکدم اس کی ہنسی کو بریک لگی کیونکہ رحاب اچانک سے اس سے ٹکرائی تھی اور دونوں زمین پر گرے تھے۔۔۔۔
ہائے میں مرگیا ۔۔۔موٹی اٹھو میرے اوپر سے۔۔۔۔
عرزم رحاب کو گھور کر بولا۔۔۔
رحاب نے اپنی بند آنکھیں جس کو اس نے سختی سے بند کیا تھا کھولیں اور خود کو عرزم کے اوپر دیکھ کر شرمندہ ہوگئی۔۔۔۔۔
ایم سوری۔۔۔۔
رحاب شرمندگی سے کہتے اٹھی تھی جبکہ عرزم تو اس کی معصومیت دیکھ کر غش کھا گیا تھا۔۔۔
رحاب نے خوف سے اردگرد دیکھا تو وہ کتا کہیں نہیں تھا رحاب نے شکر کا کلمہ پڑھا اور وہاں سے جانے لگی جب اچانک پھر سے وہ کتا سامنے آگیا ۔۔۔ رحاب ایک چیخ مارتے ہوئے عرزم کے پیچھے چھپی تھی ۔۔۔
پلیز مجھے اس کتے سے بچا لو۔۔۔۔
رحاب کانپتے ہوئے عرزم سے بول رہی تھی جبکہ عرزم نے حیرانی سے اسے دیکھا جس کے چہرے کی رنگت بدل رہی تھی۔۔۔۔
تم ایک کتے سے ڈر رہی ہو؟؟ سٹرینج؟؟؟ ویسے اس دن مجھے مارتے وقت تو کہیں سے ڈرپوک نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔ پہلے سوری بولو پھر بچائوں گا اس کتے سے۔۔۔۔۔۔
عرزم مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔۔
رحاب نے اسے گھورنا چاہا لیکن جیسے ہی اس کی نظر کتے پر پڑی وہ رونے والی ہوگئی۔۔۔۔
سس ۔۔سوری۔۔۔۔ پلیز مجھے بچا لو۔۔۔
رحاب نے بے دھیانی میں ہی اس کا ہاتھ پکڑا تھا ۔۔۔ عرزم تو اس کے یخ ٹھنڈے ہاتھ محسوس کرکے ہی شاکڈ رہ گیا تھا۔۔۔۔اب اسے معاملہ سریس لگ رہا تھا۔۔۔ اس نے رحاب کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھا جیسے اسے تحفظ کا احساس دلا رہا ہو۔۔۔۔ رحاب کے فق چہرے کر دیکھ کر عرزم نے اس کی حالت کا اندازہ لگا لیا تھا اور اسے بینچ پر بٹھایا ۔۔۔ اتنے میں وہ کتا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔
رحاب مسلسل کانپ رہی تھی۔۔۔
تم ایک چھوٹے سے کتے سے ڈر رہی ہو؟؟؟
عرزم نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
رحاب کی آنکھوں سے آنسو گالوں پر نکل رہے تھے اور وہ اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑ رہی تھی شاید اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔
عرزم نے اسے پانی کی بوتل پکڑائی جسے وہ پارک آتے ہوئے ساتھ لایا تھا۔۔۔۔ رحاب نے کانپتے ہاتھوں سے بوتل پکڑی اور پانی پیا۔۔۔ اس دوران عرزم نے کوئی دوسرا سوال نہیں پوچھا تھا کیونکہ اتنا وہ جان گیا تھا کہ وہ جواب دینے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب رحاب کی طبیعت سنبھلی تو اس نے عرزم کو دیکھا جو بے یقینی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
پتہ نہیں کیوں لیکن بچپن سے ہی مجھے کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے اور یہ ڈر اب ایک فوبیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔۔۔ کتوں کو دیکھ کر میری کنڈیشن ایسی ہو جاتی ہے۔۔۔
رحاب کو خود نہیں معلوم تھا کہ وہ عرزم کو کیوں سب بتا رہی ہے۔۔۔۔
رحاب بتاتے ہوئے سر جھکا کر اپنی آنسو صاف کر رہی تھی۔۔۔۔
اور عرزم سوچ رہا تھا اس دن جو اس نے رحاب کا چہرہ دیکھا تھا وہ سچ ہے یا جو آج وہ دیکھ رہا تھا وہ سچ ہے۔۔۔۔
اب تم ٹھیک ہو؟؟؟
عرزم کافی خاموشی کے بعد بولا ۔۔۔۔
ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
رحاب بمشکل مسکرا کر بولی۔۔۔۔
سوری اس دن کے لئے ۔۔۔ اس دن مجھے تمہیں مارنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔
رحاب شرمندگی سے بولی تو عرزم کو جھٹکا لگا۔۔۔۔
اٹس اوکے میری بھی غلطی تھی اس دن سو میری طرف سے بھی سوری۔۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
تمہارا نام کیا ہے؟؟؟؟
عرزم نے تھوڑے وقفے کے بعد پوچھا۔۔۔۔
رحاب حسن۔۔۔۔۔
رحاب نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
اس نے میرا نام کیوں نہیں پوچھا؟؟؟
عرزم نے دل میں سوچا۔۔۔۔
کیا تم مجھے گرلز ہاسٹل تک چھوڑ دو گے ؟؟؟
رحاب نے معصومیت سے پوچھا تو عرزم نے مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔
شیور۔۔۔۔
یہ بول کر وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔۔
تھینکس فار ہیلپ لائک آ پرنس ۔۔۔۔
رحاب گرلز ہاسٹل کے دروازے پر پہنچ کر بولی ۔۔۔۔
مائے پلئیر ۔۔۔۔
عرزم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔
ویسے نام کیا ہے تمہارا؟؟؟
رحاب کے پوچھنے پر عرزم کو ایک شرارت سوجھی ۔۔۔۔
پرنس نام ہے میرا۔۔۔۔
سیریسلی؟؟؟؟
رحاب نے بے یقینی سے پوچھا ۔۔۔
یس ایم سریس ۔۔۔۔۔
عرزم نے بمشکل اپنی قہقے کو ضبط کیا تھا۔۔۔۔
اوکے میں چلتی ہوں۔۔۔
رحاب یہ بول کر وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ عرزم نے اس کے جاتے ہی قہقہ لگایا ۔۔۔۔
یہ ڈھول تو بیوقوف ہے۔۔۔۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا اور وہاں سے بوائز ہاسٹل کی طرف چلا گیا۔۔۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کی ایک شرارت اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہونے والی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
عرزم اور زیام یونی گرائونڈ میں بیٹھے تھے ۔۔۔ عرزم آج خلاف معمول خاموش تھا جو زیام اچھے سے محسوس کر رہا تھا۔۔۔ زیام صبح سے اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ صرف ہوں ہاں میں جواب دے رہا تھا۔۔۔۔۔
عرزی۔۔۔۔ یار کیا ہے صبح سے چپ ہو ؟؟؟ میں تمہاری سڑی ہوئی شکل دیکھ کر بور ہو رہا ہوں۔۔۔۔
زیام نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا۔۔۔
زیمی ۔۔۔ تم اس دنیا میں سب سے ذیادہ یقین کس پر کرتے ہو؟؟؟؟
عرزم نے سنجیدگی سے پوچھا تھا لیکن زیام کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔۔۔۔
اس کا جواب تم اچھے سے جانتے ہو۔۔۔ عرزی۔۔۔۔ لیکن اگر لفظوں سے تمہاری تسلی ہو سکتی ہے تو سنو۔۔۔۔ میرے لئے یقین کا معنی ہی عرزم حیدر ہے۔۔۔۔ اعتبار کے الف سے لے کر یقین کے نون تک مجھے عرزم حیدر کے علاوہ کچھ نہیں نظر نہیں آتا۔۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔۔۔۔۔
عرزم پھیکا سا مسکرایا تھا۔۔۔۔
تمہارا اعتبار اگر ٹوٹ گیا تو ؟؟؟؟
ناممکن ہے۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ اگر تم نے میرا اعتبار توڑا تو میں خود بھی ٹوٹ جائوں گا اور مجھے ٹوٹتے ہوئے عرزم حیدر کبھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔
یونو زیمی تم میرے لئے اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہو۔۔۔
عرزم نے مسکرا کر زیام کو دیکھا تھا۔۔۔ زیام نے اس کی آنکھوں میں نمی چمکتی ہوئی محسوس کی تھی ۔۔۔۔
ہاں وہ تو میں ہوں ۔۔۔ خیر یہ باتیں چھوڑ اور یہ بتا آج اداس کیوں ہو؟؟؟
زیام نے اس کے سر کے بال بکھیر کر پوچھا ۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔
عرزم نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔۔
اس کی یاد آ رہی ہے کیا؟؟؟
زیام کی بات پر عرزم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔
اگر میرے منہ سے سننا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔ کیا ۔۔۔رے۔۔۔ کی یاد آ رہی ہے؟؟؟؟
زیام نے اس کی آنکھوں میں موجود سوال پر کہا۔۔۔
وہ بھولی کب تھی؟؟؟
خلاف عادت ۔۔۔ رحاب کے ذکر پر چڑنے کی بجائے اس نے بے بسی سے اعتراف کیا۔۔۔۔
دیکھو عرزی تمہیں اسے بھولنا ہوگا کیونکہ بقول تمہارے اب اس کی شادی ہوگئی ہے۔۔۔ اور وہ خوش ہے اپنی زندگی میں۔۔۔۔۔
زیام نے اسے سمجھانا چاہا تو عرزم کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی۔۔۔۔
وہ واقعی معصوم تھا۔۔۔۔ اسے دنیا کے فریب اور دھوکے سمجھ میں ہی نہیں آ سکتے تھے۔۔۔ عرزم نے اسے رحاب کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔ اور شاید کبھی بتانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا۔۔۔
عرزم نے اسے کچھ جھوٹ اور کچھ سچ ملا کر رحاب کے بارے میں بتا دیا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں زیام کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
اور اگر وہ ناخوش ہو تو؟؟؟
عرزم کی بات پر زیام نے مسکراتے ہو اسے دیکھا اور بولا ۔۔۔۔
تو تمہیں اس کی خوشی کے لئے اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔۔۔۔
محبت میں آزمائش کیوں ہوتی ہے زیمی؟؟؟؟
اس کیوں کا جواب اگر خود سے پوچھو گے تو شاید مل جائے کیونکہ میری نظر میں محبت اور آزمائش ایک دوسرے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔۔
خیر یہ باتیں چھوڑو اور چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں۔۔۔۔
یہ بول کر زیام نے عرزم کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور وہاں سے دونوں پارکنگ کے طرف آئے جہاں تین چار لڑکوں کا ایک گروپ کھڑا تھا ۔۔۔۔
عرزم نے ان کی طرف دیکھا جو زیام کو دیکھ کر آپس میں کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔ عرزم نے اگنور کیا اور زیام کو لے کر گاڑی تک پہنچا ۔۔۔ اس سے پہلے وہ گاڑی میں بیٹھتے پیچھے سے کسی نے انہیں پکارا۔۔۔
ایکسکیوزمی ۔۔۔۔
دونوں نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔ زیام نے ناسمجھی جبکہ عرزم نے سپاٹ چہرے سے مقابل کو دیکھا۔۔۔
ان چار لڑکوں میں سے ایک لڑکا ان سے مخاطب تھا۔۔۔۔
جی بولیں۔۔۔۔
زیام نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
آپ کے فادر کا نام جسٹس جہانگیر علوی ہے نا؟؟؟؟
اس لڑکے نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
جی میرے پاپا کا نام جسٹس جہانگیر علوی ہے۔۔۔
زیام نے نرمی سے جواب دیا جبکہ عرزم ابھی بھی سرد تاثرات چہرے پر سجائے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔
تم چھوٹے والے ۔۔۔ مطلب تم سچ میں نامرد۔۔۔۔۔۔
اس لڑکے کے الفاظ ابھی منہ میں تھے جب عرزم نے ایک ذور دار پنچ اس کے منہ پر مارا ۔۔۔۔ جبکہ زیام نے لب بھینچ کر سر جھکایا تھا۔۔۔۔
عرزم نے بغیر کچھ سنے اس لڑکے کو مارنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ باقی کے تینوں لڑکے ان دونوں کو چھڑا رہے تھے۔۔۔۔۔ زیام نے عرزم کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے لے جانے لگا عرزم نے وارننگ دیتی آنکھوں سے اس لڑکے کو دیکھا تھا۔۔۔۔
زیام گاڑی میں بیٹھا اور عرزم گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آیا ۔۔۔۔
گاڑی کی ڈرائیونگ سے پتہ چل رہا تھا عرزم بمشکل اپنا اشتعال کنٹرول کر رہا تھا۔۔۔ زیام نے ایک نظر عرزم کو دیکھا جس کا چہرہ ضبط کے مارے سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔۔
عرز۔۔۔۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔ جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔
وہ زیام کو دیکھے بغیر دھاڑا تھا۔۔۔
زیام بے بسی سے مسکرایا تھا۔۔۔
تھوڑی دور جا کر اس نے گاڑی ایک جھٹکے سے روکی تھی ۔۔۔۔
زیام کا سر بمشکل ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔۔۔۔
اس نے ایک نظر عرزم کو دیکھا جو مسلسل اپنا ماتھا مسل رہا تھا۔۔۔۔
ہائو ڈیر ہی۔۔۔۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی؟؟؟
عرزم غصے سے چیخا تھا ۔۔۔۔
تو کیا غلط کہا اس نے۔۔؟؟؟
زیام کے الفاظ گویا جلتی پر تیل کا کام کر گئے تھے۔۔۔ عرزم نے زیام کی گردن کو اپنے دائیں ہاتھ سے دبوچا تھا۔۔۔۔۔۔ اور دبی دبی آواز میں غرایا تھا۔۔۔۔
مجھے مجبور مت کرو زیمی کہ میں تمہاری زبان بھی کاٹ کر تمہارے ہاتھ میں رکھ دوں۔۔۔۔
زیام نے دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ عرزم نے جب اس کی مزاحمت دیکھی تو خود بخود اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔۔۔۔
زیام نے لمحے کی تاخیر کئے بنا اپنی گردن اس سے چھڑوائی تھی اور لمبے لمبے سانس لے کر خود کا نارمل کیا تھا۔۔۔۔۔
وحشی ہو تم۔۔۔۔
زیام ناراضگی سے بولا تھا۔۔۔
ہاں بالکل ہوں لیکن صرف زیام علوی کے معاملے میں۔۔۔۔
عرزم ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
عرزم تم مجھے مجبور مت کرو کہ میں خود کو ختم کر لوں۔۔۔۔
زیام کے لفظوں پر عرزم نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ لیکن جلد ہی بے یقینی کی جگہ غصے نے لے لی تھی ۔۔۔۔
زیام علوی تمہاری زندگی پر تم سے زیادہ حق عرزم حیدر کا ہے اس لئے آئندہ سوچ سمجھ کر بولنا۔۔۔ تمہارے لئے اگر کوئی اس طرح کے گھٹیا الفاظ استعمال کرے گا تو تم جانتے ہو اسے سزا عرزم حیدر ناچاہتے ہوئے بھی دے گا۔۔۔۔
مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی تم پلیز مجھے گھر چھوڑ دو۔۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔
اور تم جانتے ہو میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔۔۔
ٹھیک ہے میں خود چلا جائوں گا گھر۔۔۔
زیام یہ بول کر گاڑی سے اترنے لگا لیکن گاڑی کا دروازہ لاک دیکھ کر غصے سے عرزم کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
دروازہ کھولو۔۔۔۔۔
زیام دانت پیس کر بولا۔۔۔۔
اچھا سوری ۔۔۔۔۔
عرزم سوری ایسے بولا جیسے اس پر احسان کر رہا ہو۔۔۔۔
مجھے تم جیسے پاگل انسان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا بھاڑ میں جائو تم اور تمہارا سوری۔۔۔گاڑی کا لاک اوپن کرو۔۔۔
زیام آج بری طرح ہرٹ ہوا تھا اس لئے ناچاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ سرد ہو گیا تھا۔۔۔۔
زیمی۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کے میں کیوں تمہارے معاملے میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں۔۔۔ تم میرے دوست نہیں ہو بلکہ میری اس دنیا میں سانس لینے کی وجہ ہو۔۔۔ میں خود پر اٹھنے والی انگلی تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن اگر کوئی زیام علوی پر انگلی اٹھانے گا تو گویا وہ جان سے جائے گا۔۔۔۔
عرزم نے آخری بات زیام کی آنکھوں میں دیکھ کر کہی تھی ۔۔۔۔
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے؟؟؟؟
زیام نفی میں سر ہلا کر بولا تھا ۔۔۔کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ عرزم حیدر کا جنونی روپ کافی سالوں بعد وہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جب پہلی دفعہ کسی لڑکے نے سکول میں تمہارے لئے یہ الفاظ استعمال کئے تھے تو تم جانتے ہو میں نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا ؟؟؟
عرزم پراسرار سا مسکرایا تھا ۔۔۔۔ جبکہ زیام نے نفی میں اپنی گردن ہلائی تھی ۔۔۔۔ وہ اس لڑکے کو بالکل یاد نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ کیونکہ اس لڑکے کا اگلے دن کافی برا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں اس کی آواز چلی گئی تھی ۔۔۔۔ اور وہ زندگی بھر کے لئے معذور بھی ہوگیا تھا ۔۔۔۔
اس جنون کو اس لڑکے نے آواز دی ہے زیمی ۔۔۔ میں چاہ کر بھی اسے سزا دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ اور پلیز یہ ڈرنا بند کرو ورنہ اس کی زبان تمہارے ہاتھوں سے کٹوائوں گا۔۔۔۔۔۔
عرزم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا جبکہ زیام فق چہرے سے اسے دیکھا تھا۔۔۔
عرزی پلیز اسے چھوڑ دو ۔۔۔۔
زیام نم آنکھوں سے التجا کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
تم نے اس لڑکی کے لئے بھی ایسے ہی التجا کی تھی اور نتیجا وہ تمہیں ذیادہ نقصان پہنچا گئی اب اگر میں اس لڑکے کو چھوڑ دوں گا تو مجھے یقین ہے کل کو وہ تمہیں مزید ہرٹ کرنے کی کوشش کرے گا ۔۔۔ اور میں تمہیں ہرٹ ہونے کیسے دے سکتا ہوں۔۔۔۔ ؟؟؟
عرزم نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔۔
عرزی۔۔۔ تمہیں میری قسم ہے اگر تم نے اس لڑکے کو کچھ بھی کرنے کا سوچا تو میں اس بار واقعی خود کو ختم کر لوں گا۔۔۔۔۔
زیام کے الفاظ عرزم کو ضبط کے مشکل ترین مراحل پر لے گئے تھے ۔۔۔
عرزم نے ایک شکوہ کناں نظر زیام پر ڈالی اور گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔۔
زیام نے شکر کا سانس لیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہی ایک طریقہ تھا عرزم حیدر کے جنون کو روکنے کا۔۔۔۔ لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتا تھا اس کے جنون کو روک کر اس نے کا طوفان کو دعوت دی تھی ۔۔۔ کیونکہ اگر وہ جان جاتا تو کبھی عرزم کو لفظوں کی زنجیروں میں قید نہیں کرتا ۔۔۔۔
عرزم خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا ۔۔۔۔ زیام کا گھر جیسے ہی آیا اس نے گاڑی کو بریک لگائی ۔۔۔زیام گاڑی سے اترنے لگا جب عرزم ونڈ سکرین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
اگلی بار اپنی قسم کو میرے قدموں کی زنجیر مت بنانا زیام علوی ۔۔۔ کیونکہ ہر بار میں یہ زنجیر نہیں پہنوں گا ۔۔۔۔
رات کو آٹھ ہوئے چاکلیٹ آئسکریم لے آنا اور دو لارج پیزا بھی ۔۔۔۔
زیام مسکراتے ہوئے بولا تھا اور گاڑی سے اترا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رات کو معافی مانگنے جناب نے لازمی طور پر حاضر ہونا ہے۔۔۔
میں نہیں آ رہا رات کو۔۔۔۔
عرزم زیام کو دیکھے بغیر بولا ۔۔۔۔
ساتھ میں کوک بھی پلیز۔۔۔ بڑے دن ہوئے ہیں پارٹی کئے۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے بھاگا تھا کیونکہ عرزم اسے بگڑے تیوروں سے گھور رہا تھا۔۔۔
میں کیسے تمہیں سمجھائوں زیمی یہ دنیا معصوم لوگوں کو زندہ لاش بنا دیتی ہے۔۔۔ اور میں تمہیں زندہ لاش بنتے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔
عرزم نے دل میں سوچا اور گاڑی سٹارٹ کر دی اب اس کا رخ گھر کی طرف تھا ۔۔۔ جہاں وہ اپنا غصہ نکالنا چاہتا تھا کیونکہ رات کو وہ واقعی زیام سے معافی مانگنے والا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔