اس زیمی کے بچے کو چھوڑوں گا نہیں میں ۔۔۔۔ گدھا انتظار ہی کر لیتا تھوڑا سا۔۔۔ میں کونسا ذیادہ لیٹ ہوگیا تھا ۔۔۔
لیکن نہیں جی گدھوں نے کبھی کسی کی سنی ہے جو میری سنتا ۔۔۔۔ ایڈیٹ۔۔۔ تو مل جا بس آج مجھے۔۔۔۔
اللہ اللہ۔۔۔۔
عرزم بڑبڑاتے ہوئے اپنے دھیان میں تیز تیز قدم اٹھاتے گرائونڈ سے کلاس کی طرف جا رہا تھا جب اچانک کسی سے ٹکرایا ۔۔۔ اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ۔۔۔۔
جیسے ہی اس نے نظر اٹھائی سامنے ایک بارہ یا تیرہ سالہ لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔ سفید رنگت، لمبی اور گھنی پلکیں، جو اندر کالی آنکھوں کی چمک کو ڈھانپ رہی تھیں ۔۔۔ چھوٹی سی ناک جو یقینا اس وقت غصے سے سرخ تھی ۔۔۔ تیکھے نین نقش، پھولے ہوئے گلابی رخسار ۔۔۔ وہ ایک لمحے کو دیکھ کر مہبوت ہوا تھا لیکن صرف ایک لمحے کو کیونکہ اس کا موٹاپا اس کی تمام خوبصورتی پر غالب آ چکا تھا
۔۔
دوسری طرف وہ لڑکی عرزم کو دیکھ رہی تھی جو دیکھنے میں گندمی رنگت، گرین آنکھیں، پتلی سی ناک ، نین نقش میں مغروریت چھلک رہی تھی جبکہ موٹاپا اس لڑکی سے کم ہی تھا۔۔۔ اس لڑکی نے ایک لمحے میں اس کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔۔۔
اندھے ہو؟؟؟؟
لڑکی نے غصے اپنی ناک کا پھلا کر پوچھا۔۔۔
عرزم نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورا۔۔۔۔
نہیں آنکھیں کرائے پر دے کر آیا ہوں ۔۔۔۔
عرزم نے دانت پیس کر کہا۔۔۔
موٹے پہاڑ لڑکی سے بات کرنی کی تمیز نہیں ہے کیا؟؟؟
اس لڑکی نے اس کے موٹاپے پر طنز کیا۔۔۔۔
تو تم کیا ہو؟؟؟ موٹی ولایتی بھینس ۔۔۔۔ جس کی آنکھوں پر موٹاپے کی پٹی بندھی ہے۔۔۔۔
عرزم تو بگڑ ہی گیا تھا اس کے طنز پر۔۔۔۔
یو ۔۔۔ تم نے مجھے بھینس بولا۔۔۔ ابھی بتاتی ہوں۔۔۔
یہ بول کر وہ لڑکی آگے بڑھی اور عرزم کے کالے بال دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کا سر ذور ذور سے ہلایا ۔۔۔جواب میں عرزم نے بھی اس کے کالے لمبے بال جن کی چٹیا بنی تھی ذور سے تھام کر کھینچے ۔۔۔۔
دونوں کو ایسے دیکھ کر اردگرد کی سٹوڈنٹس اکھٹے ہونا شروع ہوگئے تھے ۔۔۔
ایک لڑکی بھاگ کر اس لڑکی تک پہنچی اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر بولی ۔۔۔۔
روحی چھوڑ دے پرنسپل کو کسی نے شکایت کر دی ہے ۔۔۔ وہ یہیں آ رہے ہیں ۔۔۔
رحاب کا یہ سننا تھا کہ اس نے ایک لمحے میں عرزم کے بال چھوڑے اور اپنے بال عرزم سے چھڑوا کر وہاں سے ایسے بھاگی جیسے وہاں تھی نہیں۔۔۔
عرزم نے شاکڈ نظروں سے اس کا ری ایکشن دیکھا تھا ۔۔۔
اتنے میں وہاں زیام آگیا اور عرزم کا غصہ پھر سے تازہ ہوگیا تھا۔۔۔۔
دفعہ ہو جائو یہاں سے کمینے انسان۔۔۔ لعنت ہے تیرے جیسے دوست پر جو کبھی وقت پر میرے ساتھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔
زیام نے ایک حیران و پریشان نظر اس پر ڈالی جس کے گندمی چہرے میں سرخی گھل رہی تھی۔۔۔
ہوا کیا ہے؟؟؟؟
کچھ نہیں ہوا تو دفعہ ہو یہاں سے۔۔
عرزم نے ایک ہاتھ سے اسے پیچھے کیا اور وہاں سے گرائونڈ کی طرف واپس جانے لگا جب زیام نے آ کے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔
بکے گا کہ ہوا کیا ہے؟؟؟
عرزم نے اسے ایک نظر گھورا جس کا زیام پر کوئی اثر نہیں ہوا اور پھر ایک لمبی سانس لی۔۔۔ اور اسے سب بتانا شروع ہوگیا۔۔۔۔
عرزم نے جیسے ہی اپنی بات ختم کی زیام نے قہقہ لگایا ۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔سریسلی ۔۔۔ اس لڑکی نے تم جیسے ہٹلر کے بال کھینچے ۔۔۔۔
تو میرا دوست ہے یا دشمن؟؟؟
عرزم نے اسے گھورا تھا۔۔۔
دونوں ۔۔۔
زیام علوی مجھے لگتا ہے آپکا پٹائی کا موڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
عرزم نے دانت پیسے تھے ۔۔۔
اچھا اچھا سوری۔۔۔
زیام نے بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کرکے اس سے معذرت کی تھی ۔۔۔۔
اس موٹی سانڈ سے میں ایسا بدلہ لوں گا کہ دیکھتی رہ جائے گی۔۔۔۔
پتہ نہیں کہاں سے آ کے ٹکرا گئی ۔۔
اس موٹی سانڈ کا نام کیا ہے؟؟؟
زیام نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
مجھے کیا پتہ کیا نام ہے اس کا ؟؟؟ ہاں اس کی دوست اسے روحی بول رہی تھی ۔۔۔
عرزم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
چلو بھول جائو سب۔۔۔
زیام نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کینٹین کی طرف چل دیا ۔۔۔۔
ہم اب یہاں کیوں آئے ہیں؟؟؟
پانی پینے۔۔ کیونکہ تیرا غصہ ٹھنڈا کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔
زیام نے پانی کی بوتل اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔
کلاس مس کر دی میری وجہ سے تم نے۔۔۔۔۔
عرزم نے تاسف سے کہا۔۔۔
سر اکرام چھٹی پر ہیں اور کوئی بھی کلاس مس نہیں ہوئی کیونکہ دو دن بعد سپورٹس گالا سٹارٹ ہو رہا ہے تو پورا سکول اس میں ہی بزی ہے۔۔۔ کلاسز کم ہو رہی ہیں اور تو اس بار بھی دوڑ میں حصہ لے رہا ہے سمجھے۔۔۔
زیام نے آخری بات مسکرا کر رعب اے کہی تو عرزم نے مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلادیا ۔۔۔۔
گڈ اب چل جا کر اپنا نام لکھوا سر فیضان کو جو سپورٹس کے ہیڈ ہیں ۔۔۔۔
زیام نے کہا تو عرزم اٹھا اور دو قدم چل کر رک گیا۔۔۔
ویسے میں ریس میں حصہ لے کیوں رہا ہوں کیونکہ جیت تو کبھی میری نہیں ہوگی۔۔۔
عرزم مایوسی سے بولا تو زیام نے ایک نظر اسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔
ریس میں کبھی بھی حصہ ہار کے ڈر سے نہیں لو کیونکہ جیت نا سہی ایک سیکھ ہماری منتظر ہوتی ہے۔۔۔
اور جیت سے زیادہ ہمیشہ سیکھ کے لئے حصہ لو۔۔۔۔
تم ہر دفعہ مجھے اپنی باتوں سے اس ریس کا حصہ بنا دیتے ہو۔۔۔ اور میں ہر بار کی طرح اس بار بھی ہارنے کے بعد تمہاری پٹائی کرنے والا ہوں۔۔۔۔
اس بار ایسا نہیں ہوگا۔۔۔
زیام کے لہجے میں یقین تھا جبکہ عرزم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دونوں سر فیضان کے آفس کی طرف چلے گئے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
رحاب نے نکاح کے لئے ہاں تو کہہ دی تھی لیکن اب اسے ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔ اس کا دل گھبرا رہا تھا کہ آیا وہ ٹھیک کر رہی ہے یا نہیں ۔۔۔
ایک طرف ماں باپ کی عزت تھی تو دوسری طرف سات سال پرانی محبت یعنی اس کا پرنس تھا۔۔۔۔
انتخاب کا مرحلہ دشوار تھا ۔۔۔دل اور دماغ آپس میں جنگ لڑ رہے تھے ۔۔ آنکھیں بند کر کے اس نے لمبی سانس لی اور خود کو ریلیکس کیا۔۔۔۔
پرنس جو پندرہ منٹ بعد دوبارہ کمرے میں آیا تھا اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور چہرے پر ہنوز نقاب برقرار تھا۔۔۔
یقینا تم میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
رحاب نے ایک نظر اس کی گرین آنکھوں میں دیکھا اور بولی۔۔۔۔
یہ انتظار تو سات سالوں سے کر رہی ہوں آج تو اس انتظار کو منزل ملنے والی ہے۔۔۔
سائین کرو ۔۔۔
پرنس نے ایک نظر اسے دیکھا اور فائل اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
رحاب نے ایک آخری بار حسن نیازی اور حاشر کے بارے میں سوچا اور پھر سر جھٹک کر فائل پکڑی اور سائین کرنے سے پہلے بولی۔۔۔
پین؟؟؟
فائل کے اندر ہی ہے۔۔۔
کیا ہمارا نکاح مولوی نہیں پڑھائے گا؟؟؟؟
نکاح نامہ چیک کر لو اگر تمہاری کوئی شرط یا حق مہر اپنی مرضی سے لکھوانا چاہو تو دیکھ لو۔۔۔
پرنس کے لہجے میں سنجیدگی تھی ۔۔۔
یقین کرتی ہوں تم پر۔۔۔ اور میرا یقین ہی مجھے اس فائل کو کھولنے سے منع کر رہا ہے۔۔۔
سامنے کبرڈ میں سے اگر کوئی چادر وغیرہ ملتی ہے تو خود کو ڈھانپ لو کیونکہ مولوی صاحب یہیں آ کر نکاح پڑھوائیں گے۔۔۔
پرنس نے کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ رحاب کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار نکلے تھے۔۔۔۔
رحاب نے پرنس کے کہے کے مطابق الماری سے چادر لی اور خود کو ڈھانپ لیا۔۔۔۔
تقریبا پانچ منٹ بعد پرنس مولوی کے ساتھ وہاں داخل ہوا ۔۔۔ رحاب بیڈ پر بیٹھی تھی جبکہ پرنس اور مولوی صاحب نے کمرے میں موجود صوفے پر نشست سنبھالی تھی ۔۔۔
مولوی نے نکاح کے لئے جونہی کلمات ادا کیا رحاب کے دل کی دھڑکن ایک دم رکی تھی۔۔۔۔
رحاب حسن ولد حسن نیازی آپکا نکاح عرزم حیدر ولد حیدر حسن سے مبلغ پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟؟؟؟
رحاب نے سر اٹھا کر ایک دفعہ پرنس کو دیکھا تھا۔۔۔
نہیں اس کی آنکھیں برائون ہیں روحی ۔۔۔ وہ عرزم کوئی اور ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے یہ عرزم حیدر کوئی اور ہو۔۔۔۔
رحاب نے دل میں سوچا ۔۔۔
لیکن منہ سے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔
مولوی نے دوبار وہی الفاظ دہرائے تو رحاب نے سر جھکا لیا اور بولی۔۔۔
ق۔۔قق۔۔۔قب۔۔۔قبو۔۔۔۔قبول ۔۔ہے۔۔۔
مولوی صاحب نے تینوں دفعہ وہی کلمات دہرائے تھے ۔۔ رحاب نے تینوں دفعہ اٹکتے ہوئے قبول ہے کہا تھا۔۔۔
مولوی نے اب اپنا رخ پرنس کی طرف کیا اور اس کے سامنے نکاح کے کلمات دہرائے ۔۔۔
پرنس نے بھی تینوں دفعہ قبول ہے بول کر نکاح مکمل کیا تھا۔۔۔ مولوی صاحب نے دونوں سے نکاح نامے پر سائین لئے تھے اور پھر پرنس کے گلے لگ کر اسے مبارکباد دی اور پھر وہاں سے چلے گئے ۔۔۔ جبکہ پرنس نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ لاک کیا تھا۔۔۔
لاک کی آواز پر رحاب نے ایک جھٹکے سے جھکا سر اٹھایا تھا ۔۔۔ اور اپنے سامنے پرنس کو کھڑے پایا تھا جس کی آنکھوں استحقاق بول رہا تھا رحاب کو ایک لمحے سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔
پرنس کے بڑھتے قدم رحاب کو بیڈ سے اٹھنے پر مجبور کر گئے تھے ۔۔۔۔
مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔
رحاب جلدی سے بولی۔۔۔
رے۔۔۔ پہلے مجھے یقین تو ہو لینے دو کہ تم ہمیشہ کے لئے میری ہوچکی ہو۔۔۔۔
پرنس۔۔۔پلیز۔۔۔
رحاب نے منت سے کہا تھا۔۔۔
کیا اپنے پرنس کا دیدار بھی نہیں کرو گی؟؟؟؟
پرنس نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔ اور رحاب سے دو قدم کے فاصلے پر رک گیا۔۔۔
رحاب نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
اس فاصلے کو اب تمہیں ختم کرنا ہے۔۔۔۔ رے۔۔۔۔
رحاب نے جونہی اپنا ہاتھ اس کے نقاب پر رکھا لائٹ چلی گئی اور پرنس جانتا تھا کہ اس کے بعد رحاب کی دوسری بڑی کمزوری اندھیرا ہے۔۔۔ رحاب ڈر کر اس کے سینے سے لگی تھی۔۔۔
پلیز پرنس مجھے ڈر لگ رہا ہے لائٹ آن کرو۔۔۔۔
اب یہ لائٹ تب آن ہوگی جب تمہاری زندگی مکمل اندھیرے میں ڈوب چکی ہوگی ۔۔۔۔
پرنس نے رحاب کے کانوں میں سرگوشی کی ۔۔۔ اس دوران اس کے لب رحاب کی کان کی لو کو چھو گئے تھے جس سے رحاب کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی ۔۔ اس سے پہلے وہ پرنس کی بات کا مطلب سمجھتی پرنس نے اسے گرد حصار کو مضبوط کر دیا تھا ۔۔۔ رحاب کی ساری سوچیں مفلوج ہوگئیں تھیں یاد تھا تو بس اتنا کہ اس کا پرنس اس کے پاس ہے۔۔۔
شادی مبارک ہو مسز عرزم ۔۔۔۔
رحاب نے مسکرا کر خود کو مزید پرنس کے نزدیک کر لیا تھا یہ جانے بغیر کہ اب قسمت اس سے اس کا سب کچھ چھیننے والی ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشر۔۔۔ حاشر۔۔۔۔
حاشر سویا ہوا تھا جب اجالا بیگم نے اسے جگایا ۔۔۔
حاشر نے موندی موندی آنکھیں کھولیں تھیں ۔۔۔ اور سامنے ہی اجالا بیگم کی پریشان صورت نظر آئی۔۔۔
ماما۔۔۔ کیا ہوا ؟؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی؟؟
حاشر ایک دم اٹھ کر بیٹھا اور پریشانی سے اجالابیگم سے پوچھنے لگا ۔۔۔
اجالا بیگم نے نم آنکھوں سے حاشر کو دیکھا اور اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں ۔۔۔
ماما کیا ہوا ہے ؟؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟؟؟ پاپا ٹھیک ہے نا؟؟؟
حاشر روحی ابھی تک گھر نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔
الفاظ تھے یا گویا اجالابیگم نے دھماکہ کیا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب ہے آپکا؟؟؟ روحی کہاں ہے ماما؟؟؟
حاشر نے ایک نظر کمرے میں موجود گھڑی کو دیکھا جہاں رات کے دس بج رہے تھے ۔۔۔۔ اور پھر پریشانی سے پوچھا ۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم؟؟؟ صبح وہ یونی گئی تھی لیکن اس کے بعد واپس نہیں آئی۔۔۔۔۔
اجالا بیگم روتے ہوئے بولیں۔۔۔
ماما یہ بات آپ مجھے اب بتا رہی ہیں؟؟؟
حاشر نے بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا۔۔۔
مجھے لگا تھا وہ اپنی دوست نتاشا کے ساتھ ہوگی ۔۔۔ کیونکہ کل رات ہی وہ تمہارے سامنے حسن سے اس کے گھر رکنے کا کہہ رہی تھی لیکن حسن نے منع کر دیا تھا۔۔ چھے بجے تک جب وہ واپس نہیں آئی تو میں نے نتاشا کو کال کی اور اس نے بتایا کہ روحی آج یونی ہی نہیں گئی ۔۔۔ میں بہت پریشان ہوگئی تھی۔۔۔ حسن بھی آج صبح ہی کسی میٹنگ کے لئے پشاور چلے گئے تھے اور تم بھی نو بجے گھر آئے تھے اور آتے ہی سو گئے ۔۔۔ میں نے کافی انتظار کیا تمہارا کہ تم کپڑے چینج کر کے آئو لیکن تم نہیں آئے تو میں یہاں آگئی۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔ آپ پریشان نہیں ہوں۔۔۔ میں ڈھونڈتا ہوں اسے۔۔۔
حاشر کا اپنا دل گھبرا رہا تھا لیکن اجالابیگم کو تسلی دی ۔۔۔ تاکہ ان کی طبیعت ذیادہ خراب نہ ہو۔۔۔۔
حاشر مجھے میری روحی لا دو۔۔۔ پتہ نہیں کہاں اور کس حال میں ہوگی؟؟؟
میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔
ماما۔۔۔پلیز کوئی غلط سوچ اپنے ذہن میں میں مت لائیں وہ بالکل ٹھیک ہوگی۔۔ میں جا رہا ہوں اسے ڈھونڈنے ۔۔۔ آپ پلیز اس کے لئے دعا کریں۔۔۔۔
حاشر یہ بول کر باہر چلا گیا جبکہ اجالا کا دل ڈوب رہا تھا۔۔۔
یااللہ میری بچی کی حفاظت کرنا۔۔۔
آمین۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا ایک بج گیا تھا جب حاشر واپس آیا تھا۔۔۔ سرخ آنکھیں اس کے ضبط کی گواہی دے رہیں تھیں ۔۔۔۔
اجالا بیگم سامنے ہی لائونج میں بیٹھیں تھیں ۔۔۔ حاشر جیسے ہی لائونج میں داخل ہوا اجالا ایک لمحے میں اس تک پہنچی تھی اور بے تابی سے بولی تھی ۔۔۔۔
حاشر روحی کہاں ہے؟؟؟
ماما۔۔۔ آپ پلیز پہلے بیٹھ جائیں ۔۔
حاشر نے ان کی نم آنکھوں اور کانپتی ہوئی ٹانگوں کو دیکھ کر کہا تھا۔۔۔۔اور انہیں صوفے پر اپنے ساتھ بٹھایا تھا۔۔۔۔
حاشر ۔۔۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے پلیز بتا دو روحی کہاں ہے؟؟؟
ماما۔۔۔ مجھے وہ نہیں ملی ۔۔۔ اور میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے؟؟؟
حاشر وہ صبح سے نکلی ہوئی ہے پتہ نہیں کہاں ہے؟؟؟
اجالابیگم کی پریشانی اب آنسوئوں میں ڈھل گئی تھی۔۔۔۔۔
ماما۔۔۔ پلیز حوصلہ کریں ۔۔۔ مل جائے گی آپکی روحی۔۔۔ میں پاپا کو کال کرتا ہوں اب وہی کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔
حاشر نے یہ بول کر اپنا موبائل نکالا اور حسن نیازی کو کال کی۔۔۔
حسن نیازی جو اس وقت سو رہے تھے موبائل کی آواز پر اٹھے اور حاشر کا نام دیکھ کر چونک گئے۔۔۔
حاشر کی کال اس وقت؟؟؟
حسن نیازی خود سے بڑبڑائے اور حاشر کی کال ریسیو کی۔۔۔
اسلام وعلیکم پاپا۔۔۔۔
کیسے ہیں آپ؟؟؟
حاشر نے کال تو کر لی تھی لیکن اب ہمت کی کمی شدید محسوس کر رہا تھا۔۔۔ آخر جانتا تھا کہ باپ کا جلالی روپ دیکھنے کو ملے گا ۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ۔۔۔ اور کیا آدھی رات کو تمہیں یاد آیا ہے کہ میں نے باپ کا حال پوچھنا ہے ۔۔۔۔۔
حسن نیازی نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
پاپا۔۔۔ وہ ۔۔۔۔
حاشر نے اتنا بول کر سختی سے لب بھینچے تھے ۔۔۔ اس سے پہلے حسن کچھ بولتے انہیں اجالا کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔۔۔ وہ ایک دم اٹھے تھے۔۔۔۔
حاشر تمہاری ماما رو کیوں رہی ہیں؟؟ سب ٹھیک ہے نا؟؟ روحی ٹھیک ہے نا؟؟؟
حسن نیازی کی آواز میں بے چینی تھی ۔۔۔۔
پاپا وہ روحی ۔۔۔۔۔ اور اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ۔۔۔۔
حاشر نے بمشکل باپ کو ساری بات بتائی تھی ۔۔۔۔
حسن نیازی کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔۔۔
میری بیٹی صبح سے غائب ہے اور تم ماں بیٹے کو اب یاد آیا ہے ؟؟؟
حسن نیازی کی دھاڑ پر حاشر بھی ایک لمحے کے لئے کانپ گیا تھا۔۔۔۔
وہ پاپا۔۔۔ وہ۔۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔ حاشر۔۔۔ تم دونوں کی وجہ سے اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا زندہ زمین میں گاڑ دوں گا سب کو۔۔۔۔۔
اگلے دو گھنٹے میں ۔۔ میں واپس آ رہا ہوں۔۔۔ تب تک ایس پی شہباز خان سے بات کرو اور اسے بولو کہ اس بارے میں کسی کو پتہ نہ چلے ۔۔۔۔۔۔
یہ بول کر حسن نیازی نے کال ڈراپ کر سی تھی جبکہ حاشر نے موبائل بند کر کے ٹیبل پر رکھا اور اجالا بیگم کو گلے لگا کر انہیں تسلی دینے لگا۔۔۔۔۔
اگر روحی خود سے کہیں چلی گئی ہوئی تو پھر؟؟؟؟
حاشر کے دماغ میں اچانک خیال آیا جسے اسے نے سختی سے جھٹکا تھا۔۔۔
نہیں وہ حاشر حسن نیازی کی بہن ہے وہ ہمارا یقین نہیں توڑے گی۔۔۔
زندگی بڑے سے بڑا امتحان بھی تب لیتی ہے جب ہم کسی پر اندھا اعتبار کرتے ہیں ۔۔۔ اور جب یہی اندھا پن دور ہوتا ہے تو ہم لوگوں کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں رہتا۔۔۔۔ اور نیازی ہائوس کے مکینوں کو یہ بات سمجھ آنے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح جب رحاب اٹھی تو اس کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اس نے بے ساختہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا۔۔۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو خود کو کمرے میں اکیلا پایا ۔۔۔۔ کل کے سارے واقعات اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگے تھے ۔۔۔
کل رات پرنس کی قربت میں وہ سب کچھ بھول گئی تھی ۔۔۔۔ اچانک اس کے دماغ میں ایک خیال آیا جس کے تحت وہ ایک دم بستر سے اٹھی تھی اور ایک ہاتھ سے اپنے سر کو تھام رکھا تھا ۔۔۔۔
پرنس۔۔۔ پرنس۔۔۔۔۔
رحاب نے کافی آوازیں دیں لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔
رحاب کا دل ڈوب کر ابھر رہا تھا ۔۔۔
وہ کمرے سے باہر آئی تو سامنے ایک چھوٹا سا لائونج تھا جہاں ٹیبل پر اس کا موبائل اور بیگ تھا ۔۔۔۔
وہ جلدی سے ٹیبل کے پاس پہنچی اور موبائل دیکھا جو سوئچ آف تھا ۔۔۔
پرنس ۔۔۔۔۔ کہاں ہو تم؟؟؟
رحاب نم آنکھوں سے اردگرد دیکھتے ہوئے اسے پکار رہی تھی ۔۔۔
موبائل آن کیا تو دیکھا صبح کے گیارہ بج رہے تھے ۔۔۔۔۔
اس کا مطلب میں کل سے ادھر ہوں۔۔۔۔
رحاب خود سے بڑبڑائی ۔۔۔۔
جونہی موبائل آن ہوا حاشر کے تین سو مس کالز ۔۔۔ جبکہ حسن نیازی کی پچاس کے قریب مس کالز تھیں ۔۔۔۔ رحاب کا دل گھبرا رہا تھا۔۔۔ یہ سوچ ہی اس کے لئے سوہان روح تھی کہ اس کا باپ اور بھائی اسے کل سے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ سوچتی لائونج میں موجود بیرونی دروازے پر کسی نے بیل دی۔۔۔ رحاب تیزی سے اٹھی تھی ۔۔۔
لگتا ہے پرنس آگیا۔۔۔۔۔
رحاب خود سے بڑبڑائی اور جلدی سے دروازہ کھولا تھا۔۔۔۔ لیکن سامنے موجود کسی اجنبی شخص کو دیکھ کر اسے شرمندگی ہوئی تھی ۔۔۔۔
جی کس سے کام ہے آپکو؟؟؟
رحاب نے جلد ہی خود کو کمپوز کرتے ہوئے اعتماد سے پوچھا۔۔۔
اوو بی بی ۔۔۔ کام تو مجھے کسی سے نہیں ۔۔۔ یہ میرا فلیٹ ہے ۔۔۔ آج بارہ بجے تک اس کو خالی کر دینا ۔۔۔
سامنے والا شخص حقارت سے رحاب کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔
کک۔۔۔کس شخص کی بات کر رہے ہیں؟؟؟؟
رحاب کے دل نے شدت سے دعا مانگی تھی کہ وہ اس کا پرنس نہ ہو۔۔۔۔۔
کوئی پرنس نامی بندہ تھا۔۔ نقاب میں تھا ۔۔۔۔ اب ذیادہ سوال جواب مت کرو اور بارہ بجے سے پہلے ہی اس فلیٹ کو خالی کر دینا ۔۔۔۔۔
اس شخص کی نظروں میں رحاب خود کے لئے نفرت اور حقارت دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
رحاب نے فقط اپنا سر اثبات میں ہلایا اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔
اتنا بڑا دھوکہ۔۔۔۔ اتنی بڑی سزا۔۔۔۔ میری غلطی کی اتنی بڑی سزا تم مجھے کیسے دے سکتے ہو پرنس ؟؟؟ تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔۔۔۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم اپنی رے کو خود سے دور نہیں کرو گے۔۔۔۔ میں بھی کتنی پاگل تھی جو تمہاری باتوں پر یقین کر لیا ۔۔۔۔۔۔ کاش کہ میں نے تمہاری بات نہ مانی ہوتی ۔۔۔۔ اور خود کو تمہارے حوالے نہ کیا ہوتا تو شاید آج اپنے باپ اور بھائی کے سامنے سر اٹھا سکتی۔۔۔۔۔
رحاب اونچا اونچا بول کر رو رہی تھی ۔۔۔ کوئی اس کی سسکیوں کو سننے والا نہیں تھا۔۔۔
نہیں مجھے پاپا اور بھائی کو سب کچھ بتانا ہوگا۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں وہ ضرور پرنس کو میرے لئے ڈھونڈ لیں گے۔۔۔۔ لیکن ڈھونڈا تو انہیں جاتا ہے جو کھو گئے ہوں جو خود سے کہیں چلے جائیں وہ واپس کب آتے ہیں؟؟؟
رحاب شکستہ سی حالت میں اٹھی تھی اور وہی چادر لے کر خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر موبائل اور بیگ لے کر وہاں سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں کبھی بھی کسی بھی وقت اللہ ہمارا غرور توڑ سکتا ہے۔۔ انسان کو کبھی بھی دنیاوی رشتوں یا چیزوں کو لے کر فخر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ رشتے اور چیزیں اسی دنیا میں رہ جانی ہے ۔۔۔۔ ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر کرو کیونکہ وہ زندگی ہمیشہ کے لئے ہوگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
آج سپورٹس ڈے تھا ۔۔۔۔ سکول کو رنگ برنگی غباروں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔ مہمان خصوصی حیدر حسن تھے۔۔۔۔ جو آج ایک سال بعد اپنے بیٹے کو سیکھنے والے تھے ۔۔۔ وہ ہر سال سپورٹس پر ہی سکول آتے تھے اور عرزم کو دیکھتے تھے جو مسلسل انہیں اگنور کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے پانچ سو میٹر کی ریس تھی ۔۔۔۔ پھر دو سو میٹر کی جس میں عرزم نے حصہ لیا تھا۔۔۔
پانچ سو میٹر کی ریس کے بعد دو سو میٹر کی ریس کے شرکاء کے نام ہمارے جا رہے تھے ۔۔۔ جب حسن حیدر کی نظر عرزم پر پڑی ۔۔۔ جو ایک لڑکے ساتھ مسکراتے ہوئے آ رہا تھا۔۔۔ حیدر حسن کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی جسے وہ سر جھکا کر چھپا گئے تھے۔۔۔۔ لیکن عرزم کی نظر جیسے ہی حیدر حسن پر پڑی اس کے ماتھے پر لاتعداد شکنوں کا جال بنا تھا۔۔۔
کیا پاکستان میں صرف میرا پاپا ہی مشہور ہستی ہیں جن کو یہ سکول والے ہر سال بلا لیتے ہیں ۔۔۔۔
عرزم زیام کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے بولا ۔۔۔۔ تو زیام بے ساختہ مسکرایا ۔۔۔
پاپا ہیں وہ تمہارے۔۔۔ تھوڑی شرم کر لو۔۔۔ تمہیں تو فخر ہونا چاہیے کہ تم ان کے بیٹے ہو۔۔۔
زیام نے اسے سرزنش کی۔۔۔۔
ہاں ایسا باپ جو صرف پیسے کے پیچھے بھاگتا ہے۔۔۔ جس کو پرواہ نہیں ہے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے کیا نہیں؟؟ زندگی میں اگر اولاد کے لئے وقت بھی آپکے پاس نہ ہو تو مجھے نہیں لگتا بڑھاپے میں کوئی بھی اولاد ایسے باپ کا سہارا بنتی ہے۔۔۔۔۔
عرزم نے غصے سے کہا جبکہ زیام نے ایک ہلکی سی چپت اس کے پھولے ہوئے گال پر رسید کی۔۔۔۔
اب ذیادہ شیکسپیئر نہ بن۔۔۔ اور دفعہ ہو ریس کے لئے۔۔۔ میری گڈ وشز تمہارے ساتھ ہیں ۔۔۔۔
زیام یہ بول کر کلاس جہاں اس کی کلاس بیٹھی تھی وہاں چلا گیا جبکہ عرزم گرائونڈ میں اپنی پوزیشن پر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔
یااللہ ۔۔آج زیمی کو پٹنے سے بچا لینا آمین۔۔۔
عرزم نے ایک نظر زیام کو دیکھا اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔
اس سے پہلے ریس شروع ہوتی عرزم کا دھیان رحاب کی طرف چلا گیا جو وائٹ ٹرائوزر اور وائٹ شرٹ جس پر بلیو لائیننگ تھی والا سپورٹس ڈریس پہنے ریس میں حصہ لینے والوں کو چئیر اپ کر رہی تھیں ۔۔۔ اور دو لڑکیاں مزید اس کا ساتھ دے رہی تھیں ۔۔۔۔
اس ڈھول کو یہاں کیا بجنے کے لئے کھڑا کیا ہے سکول والوں نے۔۔۔
عرزم نے دل میں سوچا اور پھر ریس کی طرف متوجہ ہوگیا ۔۔۔۔
ریس جیسے ہی شروع ہوئی عرزم نے بھاگنا شروع کر دیا ۔۔ لیکن اپنے بھاری جسم کی وجہ سے وہ سب سے پیچھے تھا۔۔۔ اس نے ایک نظر زیام کو دیکھا جو مسلسل مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کمینے تیری مسکراہٹ کے لئے تو عرزی جان بھی دے سکتا ہے تو یہ ریس کیا چیز ہے۔۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا اور پھر اللہ کا نام لے کر بھاگنا شروع کیا۔۔۔۔
وہ تیز تیز بھاگ رہا تھا جب اچانک اس محسوس ہوا کہ جیسے شوز کے اندر سے اسے کچھ چب رہا ہے ۔۔۔ لیکن وہ لب بھینچے بھاگتا رہا یہاں تک ریس کا اختتام ہوا ۔۔۔ پہلی دو پوزیشن نہ سہی لیکن اس بار غیر متوقع طور پر اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
زیام تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہا تھا جبکہ عرزم ریس کے ختم ہوتے ہی زیام کے پاس آیا لیکن اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ حیدر حسن اور زیام دونوں نے محسوس کی تھی ۔۔۔۔
میں جیت گیا زیمی۔۔۔۔
عرزم نے زیام کو گلے لگایا تو زیام ایک دم پیچھے ہوا ۔۔۔
شوز اتار ۔۔۔۔
زیام نے اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار واضح طور پر دیکھے تھے ۔۔۔۔ اور سمجھ گیا تھا کہ جوتوں میں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے ۔۔۔
کیوں کیا ہوا؟؟؟
عرزم نہیں چاہتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ کم ہو اس لئے وہ جان بوجھ کر ناسمجھی سے بولا۔۔۔۔
اس کا اتنا کہنا تھا کہ زیام نیچے جھکا اور بنا کسی کی پرواہ کئے عرزم کا دایاں پائوں اٹھا کر اپنے دائیں گھٹنے پر رکھا اور شوز کے تسمے کھولے ۔۔۔ لیکن جیسے ہی اس نے شوز اتارا اس کا ہاتھ کانپ گیا تھا کیونکہ اس کی پائوں میں ایک چھوٹا سا کیل چبا ہوا تھا جو کافی اندر تک چلا گیا تھا جس کے باعث اس کا سارا پائوں لہو لہان تھا۔۔۔۔
زیام نے عرزم کی طرف دیکھا جو نظریں چرا گیا تھا۔۔۔۔
گدھے ہو تم۔۔ الو کے پٹھے ہو تم ۔۔۔ کیا تمہیں درد محسوس نہیں ہوا تھا؟؟ اب دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے۔۔۔۔
زیام کی آواز آخری بات پر بھرا گئی تھی۔۔۔ جبکہ عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولا۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوا۔۔۔ ابھی ڈاکٹر سے بینڈیج کروا لیتا ہوں ۔۔۔ اب اٹھ جا کیونکہ سارا سکول ہمیں ہی دیکھ رہا ہے۔۔۔ اور میں فضول میں شرمندہ ہو رہا ہوں۔۔۔۔
عرزم کا اتنا بولنا تھا کہ زیام نے اردگرد دیکھا ۔۔۔ سب لوگ تقریبا انہی کی طرف متوجہ تھے سوائے رحاب حسن کے جو اپنے گروپ کی لڑکیوں کے ساتھ باتوں میں بزی تھی ۔۔۔۔۔
زیام اٹھا اور ایک نظر حیدر حسن کو دیکھا جو سکول پرنسپل کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔۔۔
چل یار ڈاکٹر کے پاس چلیں ۔۔۔
عرزم نے بھی حیدر حسن کو دیکھ لیا تھا ۔۔ پتہ نہیں کیوں لیکن اس کا دل دکھا تھا حیدر حسن کی لاپرواہی پر۔۔۔۔
زیام نے آہستہ سے سر کو جنبش دی اور اس کا دایاں بازو کندھے پر رکھ کر اسے سہارا دیتے ہوئے ڈاکٹر کے کیمپ کی طرف چلے گئے تھے جو کہ سپورٹس پر سپیشل بنوایا گیا تھا۔۔ بچوں کو بروقت طبی امداد پہنچانے کے لئے یہ کیمپ گرائونڈ کے آخری حصے پر بنایا گیا تھا۔۔۔
عرزم نے ایک آخری نظر اپنے باپ پر ڈالی جو ابھی بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ پرنسپل سے بات کر رہے تھے۔۔
انہیں کیوں میری پرواہ ہونے لگی بھلا۔۔۔۔
عرزم نے تلخی سے سوچا۔۔۔۔ اور کیمپ میں داخل ہوگیا۔۔۔
مسٹر عاطف مجھے آپ کی معذرت نہیں چاہیے ۔۔۔ مجھے سپورٹس ہیڈ سے ملوائیں ۔۔۔ کیا انہوں نے گروائونڈ کا جائزہ نہیں لیا تھا۔۔۔
حیدر دھیمی مگر سخت آواز میں بول رہے تھے۔۔۔ دور سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ باتیں کر رہے ہیں اور عرزم کو بھی یہی لگا تھا کہ اس کا باپ لاپرواہ ہے۔۔۔
سوری سر۔۔۔ لیکن ہم نے گرائونڈ آج صبح ہی اپنی صفائی والی ٹیم سے چیک کروایا تھا۔۔۔۔
پرنسپل کی آواز میں شرمندگی تھی ۔۔۔۔
آپکی اس ٹیم کی لاپرواہی کی وجہ سے میرے بیٹے کا ٹنا خون نکل رہا ہے اور آپ بول رہے ہیں سوری۔۔۔
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس وقت میں اپنے بیٹے سے کس قدر شرمندہ ہو رہا ہوں کہ میں ایک ایسے سکول پر انویسٹ کر رہا ہوں جہاں اتنی لاپرواہی ہوتی ہے۔۔۔
فرض کریں اگر میرے بیٹے کی جگہ آپکا بیٹا ہوتا تو۔۔ اگر اسے چوٹ لگے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟؟؟
حیدر حسن کسی صورت اپنے اندر کے غصے کو دبا نہیں پا رہے تھے۔۔۔۔
سوری سر۔۔۔ میں اپنی ٹیم کی طرف سے آپ سے معذرت کرتا ہوں۔۔۔۔
حیدر حسن نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا ورنہ دل تو انکا اس انسان کا گلہ دبانے کا کر رہا تھا جس کی وجہ سے انکے بیٹے کو چوٹ لگی تھی ۔۔۔۔
جب تک سپورٹس ہوتی رہیں عرزم اور زیام ڈاکٹر کے پاس ہی رہے کیونکہ زیام عرزم کو وہاں سے ہلنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔
زیمی تو پٹے گا اب مجھ سے۔۔۔۔
عرزم نے زیام کو گھور کر کہا تو زیام نے سنا ان سنا کر دیا۔۔۔۔
زیمی پلیز یار اب تو پرائز ملنے والے ہیں پلیز جانے دے نہ؟؟؟
عرزم ایک دفعہ پھر منتوں پر اتر آیا تھا جبکہ ڈاکٹر ان دونوں کی محبت بھری نوک جھونک دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
نہیں بول دیا نہ۔۔۔۔
زیام نے اسے گھور کر کہا۔۔۔۔
ڈاکٹر انکل پلیز آپ اسے سمجھائیں نہ کی مجھے ذیادہ چوٹ نہیں لگی ۔۔۔
عرزم نے ڈاکٹر کو دیکھ کر کہا۔۔۔
بیٹا آپکا دوست ٹھیک بول رہا ہے آپکو ریسٹ کرنا چاہیے۔۔۔ لیکن آپ کو وعدہ کرنا ہوگا کے پرائز کے بعد آپ ذیادہ چلیں گے نہیں ورنہ آپکا زخم خراب ہوسکتا ہے۔۔۔۔
اور نہیں تو کیا ۔۔۔۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ کیل ذیادہ اندر نہیں گیا ۔۔۔۔۔ورنہ پتہ نہیں تمہارے پائوں کا کیا حال ہوتا۔۔۔
زیام معصومیت سے بولا جبکہ عرزم اور ڈاکٹر بے ساختہ مسکرائے ۔۔۔
اچھا بس پرائز لینے سٹیج تک جائوں گا پلیز۔۔۔۔
اب کی بار عرزم نے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے درخواست کی ۔۔۔ تو زیام نے بے ساختہ ڈاکٹر کی طرف دیکھا جو مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلا کر زیام کو مطمئن کر گئے تھے۔۔۔
ٹھیک ہے چلو۔۔۔۔
زیام نے کہا اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے پھر سے سہارا دیا اور سٹیج کے پاس ایک چئیر پر بٹھا کر خود اپنی سیٹ پر واپس چلا گیا کیونکہ اسے اجازت نہیں تھی اس کے ساتھ سٹیج پر جانے کی۔۔۔۔
جیسے ہی عرزم حیدر کا نام پکارا گیا عرزم لب بھینچ کر اٹھا اور بمشکل سٹیج کی سڑھیاں چڑھتے ہوئے سٹیج پر پہنچا اور سپاٹ چہرے کے ساتھ حیدر حسن سے اپنا میڈل وصول کیا۔۔۔۔
تھینکیو سو مچ سر۔۔۔۔
پائوں کیسا ہے اب؟؟؟
حیدر حسن نے بمشکل مسکراتے ہوئے پوچھا کیونکہ ان دونوں کی کیمرہ مین تصویر بنا رہا تھا اور دونوں کا دھیان کیمرے کی طرف تھا۔۔۔۔۔
بے فکر رہیں معذور بچے کے باپ کہلانے سے بچ گئے ہیں آپ۔۔۔
عرزم کے لفظوں پر حیدر کا میڈل پہناتا ہاتھ بے ساختہ کانپا تھا جب کہ دل مانوں کسی نے چیر کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ میڈل لے کر سٹیج سے اترا اور زیام کا سہارا لے کر ہاسٹل کی طرف چلا گیا۔۔۔۔۔ یہ دیکھے بغیر کے اس کا باپ بمشکل اپنے آنسو روک رہا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔