حیدر حسن حسب معمول ناشتے کے لئے جیسے ہی ڈائینگ ٹیبل پر آئے سامنے کا منظر دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔۔۔ ان کی پیشانی پر بیک وقت ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے غصے کو کنٹرول کیا اور سپاٹ چہرہ لئے اپنی نشست پر براجمان ہو گئے۔۔۔
گڈ مارننگ ڈیڈ۔۔۔۔۔۔
عرزم حیدر نے خلاف توقع ناشتے سے ہاتھ روک کر انہیں مخاطب کیا تھا۔۔ جبکہ ساتھ بیٹھے زیام کا رنگ ایک پل میں فق ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حیدر حسن کبھی بھی اسے اپنے بیٹے کے ساتھ دیکھ کر خوش نہیں ہوں گے۔۔۔۔۔ دوسری طرف حیدر حسن نے غصے سے سرخ آنکھوں سے ایک نظر عرزم کو دیکھا تھا اور پھر اپنی بیوی کو دیکھا جو کچھ بھی کہنے سے انہیں اشاروں اشاروں میں ہی روک رہیں تھی۔۔۔۔۔۔
مارننگ ۔۔۔۔۔
حیدر حسن نے اتنا ہی جواب دیا اور ناشتہ کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔
ڈیڈ آپکو معلوم ہے آج آپکے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے کا یونیورسٹی میں پہلا دن ہے۔۔۔ اور آپ نے اسے وش ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
عرزم نے مصنوعی خفگی سے شکایت کی حالانکہ جانتا تھا وہ ضبط کے کن مراحل میں ہوں گے۔۔۔
حیدر حسن کا چہرہ ایک پل میں سرخ ہوا تھا ۔۔۔۔
عرزم حیدر گڈ لک فار یور نیو لائف۔۔۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تم وہاں بہت کچھ سیکھو گے اور ہاں دوستی کن لوگوں سے کی جاتی ہے یہ بھی سیکھ جائو گے۔۔۔۔
حیدر حسن نے طنزیہ انداز میں آخری بات زیام علوی کی طرف براہ راست دیکھ کر کی تھی ۔۔۔
زیام علوی جو ان کے دیکھنے پر سر جھکا گیا تھا ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور کسی بھی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
عرزم نے اسے کافی آوازیں دیں جن کو سنا ان سنا کر گیا۔۔۔
کاش ڈیڈ کہ آپ میں تھوڑی سی انسانیت بھی ہوتی۔۔۔۔
عرزم نے سرخ آنکھوں سے حیدر حسن کو دیکھ کر سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔ جبکہ حیدر حسن نے ہاتھ میں پکڑے جوس کے گلاس کو زمین پر پھینکا اور اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر بولے۔۔۔۔
کاش میں نے تم سے اتنی محبت نا کی ہوتی ۔۔۔۔ تو آج تمہارا بیٹا میرے سامنے یوں بدتمیزی نا کر رہا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
حیدر حسن نے غصے سے فائزہ کو دیکھا اور وہاں سے چلے گئے۔۔۔ جبکہ فائزہ بمشکل اپنے آنسو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔
یااللہ اس گھر کو اور اس گھر میں رہنے والوں کو سکون عطا فرما۔۔۔۔
بے ساختہ انہوں نے دل میں دعا مانگی تھی۔۔۔۔ اور یہ دعا تو شاید وہ تب سے مانگ رہی تھیں جب سے ان کے لاڈلے بیٹے نے ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔۔۔۔۔
حیدر حسن، حسن گروپ آف انڈسٹریز کے مالک، اپنے ماں باپ کے لاڈلے اور اکلوتے بیٹے،جن کی شادی ان کے ماں باپ نے ان کی پسند سے ان کی کلاس فیلو سے فائزہ سے کر دی تھی۔۔۔ فائزہ ایک نہایت ہے سلجھی ہوئی لڑکی تھی ۔۔ شادی کے دس سال بعد اللہ نے ان کو ایک بیٹے سے نوازہ تھا۔۔۔ جس کا نام حیدر حسن نے عرزم رکھا تھا۔۔ فقط پانچ سال کی عمر میں عرزم نے اپنے دادا اور دادی کو ایک کار ایکسیڈنٹ میں کھو دیا تھا۔۔ باپ کے نزدیک وہ شروع سے ہی کم رہا تھا۔۔۔ فائزہ بیگم کے قریب رہ کر بھی اسے اپنی زندگی میں خلا سا محسوس ہوتا تھا۔۔۔ اور یہ خلا دس سالہ زیام علوی نے پورا کیا تھا۔۔۔۔ عرزم حیدر کی زندگی میں حیدر حسن کو اگر کسی کا وجود ناپسند تھا تو وہ زیام علوی۔۔۔ اور یہ بات عرزم باخوبی جانتا تھا اس لئے تو وہ انہیں زچ کرنے کے لئے زیام علوی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتا تھا۔۔۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی دوستی گہری ہوتی گئی اور عرزم حیدر کی زندگی میں کسی کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔۔ مختصر یہ کہ عرزم حیدر کے لئے دوستی کا دوسرا نام زیام علوی تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیمی ۔۔۔۔( زیام ) ۔۔۔۔ میری بات سن یار۔۔۔۔
عرزم اس کے پیچھے سڑک پر بھاگتے ہوئے بولا۔۔۔ دوسری طرف زیام جو سر جھکائے تیز تیز چل رہا تھا ایک دم رکا لیکن مڑا نہیں ۔۔۔۔
زیمی۔۔۔ میری طرف دیکھ۔۔۔۔
عرزم اس کے سامنے کھڑا ہوا اور اس کے جھکے سر کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
تم جانتے ہو عرزم کہ میں اس معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔۔
وہ بھرائے لہجے میں بولا۔۔۔۔
اور تم یہ بات اچھے سے جانتے ہو کہ جس دن تم نے خود کو اس معاشرے کے آگے جھکا دیا اس دن عرزم حیدر اپنے ہاتھوں سے اپنی سانسیں چھین لے گا۔۔۔۔۔
زیام نے بے بسی سے سر اٹھایا تھا اور عرزم کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
تم اس دنیا کے واحد شخص ہو جو مجھے قابل احترام سمجھتے ہو۔۔اور۔۔۔۔
نہیں میں تمہیں قابل احترام نہیں سمجھتا بلکہ تم قابل احترام ہی ہو۔۔۔ اور ایک بات تمہاری دنیا مجھ تک اور میری دنیا صرف تم تک ہی محدود ہے ۔۔۔۔ اور اس میں کسی تیسرے کی کوئی جگہ نہیں سمجھے۔۔۔۔۔
عرزم نے اسے خود سے لگاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
اور اگر کبھی کوئی تیسرا آگیا تو۔۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔
تو تم جانتے ہو میں اس تیسرے کو سرے سے ہی ختم کر دوں گا۔۔۔۔
عرزم نے سنجیدگی سے جواب دیا تو زیام اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔۔
اچھا چلو یونی چلیں ۔۔۔ تمہاری وجہ سے پہلے ہی لیٹ ہوگئے ہیں۔۔۔ اب اگر مزید لیٹ ہوئے تو تمہارا ہٹلر باپ ہمیں یونیورسٹی سے نکلوا دے گا۔۔۔۔۔۔۔
عرزم اسے گاڑی کی طرف لے جاتے ہوئے مذاق میں بولا جبکہ زیام نے مسکرانے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہناز۔۔۔شہناز۔۔۔۔۔
اجالا بیگم نے کیچن میں کام کرتی ملازمہ کو آواز دی۔۔۔۔
شہناز جو کیچن میں ناشتے کی تیاری کر رہی تھی بھاگتے ہوئے لائونج میں آئی اور مئودب انداز میں بولی۔۔۔
جی بڑی بیگم ۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی کو اٹھا دو۔۔۔ اسے یونی کے لئے تیار بھی ہونا ہے۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
شہناز یہ بول کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔
کیا بات ہے بھئی اکیلے اکیلے چائے پی جا رہی ہے؟؟؟
حسن نیازی جو ابھی جاگنگ سے لوٹے تھے سامنے لائونج میں اپنی بیوی کو چائے پیتے دیکھ کر بولے۔۔۔۔
تو آپ بھی آ جائیں۔۔۔ منع کس نے کیا ہے؟؟؟؟
منع تو کسی نے نہیں کیا۔۔۔ البتہ اگر چائے کی جگہ ایک کپ اورنج جوس مل جائے تو مزہ آ جائے گا۔۔۔
ڈی ایس پی حسن نیازی صاحب ۔۔۔ آپ کی صحت کے معاملے میں آپکی بیوی بہت ہی حساس ہے ۔۔۔ اگر آپکو تھروٹ انفیکشن نا ہوتا تو آپ جوس پی سکتے تھے۔۔۔۔ لیکن ابھی فلحال آپکو چائے اور جوس کی بجائے دودھ پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔
اجالا نے مسکراتے ہوئے حسن سے کہا ۔۔۔۔
اس سے پہلے حسن کوئی جواب دیتے ان کی لاڈلی بیٹی کے کمرے سے چلانے کی آواز آئی۔۔۔۔اور وہ وقت ضائع کئے بغیر اس کے کمرے میں پہنچے تھے۔۔۔۔ جبکہ اجالا بیگم بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔ سامنے کا منظر دیکھ کر دونوں میاں بیوی معاملے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔
سامنے شہناز اپنے دائیں گال پر ہاتھ رکھ کر رو رہی تھی جبکہ رحاب اس پر چلا رہی تھی ۔۔۔۔
کیا ہوا ہے ؟؟؟؟
حسن نے سنجیدگی سے اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
یہ تو آپ اس بچ سے پوچھیں۔۔۔۔
رحاب ساری تمیز بالائے طاق رکھ کر غصے سے چیخی تھی ۔۔۔ جبکہ اجالا نے بے ساختہ اسے ٹوکا تھا۔۔۔۔
بی ہیو یور سیلف روحی۔۔۔ یہ کس قسم کی لینگویج استعمال کر رہی ہیں آپ؟؟؟؟
میں اس گھٹیا لینگویج استعمال کروں گی اگر آپ نے میرے معاملے میں بولنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔
رحاب جسٹ ریلیکس بیٹا۔۔۔۔
حسن نیازی نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو اجالا نے افسوس سے حسن نیازی کو دیکھا جو اپنی بیٹی کی غلطیوں پر اسے ٹوکنے کی بجائے بڑھاوا دے رہے تھے۔۔۔۔
شہناز تم میرے ساتھ آئو۔۔۔۔
اجالا یہ بول کر وہاں سے چلی گئی جبکہ حسن نیازی نے بے بسی سے اپنی بیوی کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔
بڑی بیگم قسم لے لیں آپ۔۔۔ میں نے بی بی جی کو کچھ بھی نہیں کہا تھا ۔۔۔ میں نے تو صرف ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تھا اور انہوں نے غصے میں مجھے تھپڑ مار دیا۔۔۔۔
شہناز روتے ہوئے سر جھکا کر بولی ۔۔۔ تو اجالا نے تاسف سے رحاب کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا۔۔۔
شہناز روحی کی طرف سے میں تم سے معذرت کرتی ہوں۔۔ تم جانتی ہو وہ بہت ضدی ہے جب اس کی ضد پوری نہیں کی جاتی تو وہ ایسے ہی اپنا غصہ کسی نا کسی پر نکالتی ہے۔۔ مجھے افسوس ہے کہ آج اس کے غصے کا شکار تم بن گئی ۔۔۔ میں معافی چاہتی ہوں شہناز وہ۔۔۔۔۔
بڑی بیگم آپ مجھے شرمندہ مت کریں۔۔۔ میں جانتی ہوں بی بی جی شروع سے ہی ایسی ہیں ۔۔۔ مجھے بس ایک چیز کا ہی افسوس ہوتا ہے کہ حسن صاحب نے ان کی تربیت اچھی نہیں کر رہے۔۔۔۔۔
شہناز تم جائو اور ناشتہ تیار کرو۔۔۔
اجالا نے اپنی آنکھوں میں موجود نمی چھپانے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں ۔۔۔۔۔
شہناز نے ایک افسوس بھری نظر اجالا پر ڈالی اور وہاں سے کیچن میں چلی گئی تھی۔۔۔۔
کاش حسن میں تم سے محبت میں اتنی با اختیار ہوتی کہ تم سے جڑے رشتوں کو خود سے محبت پر مجبور کر دیتی لیکن میں جانتی ہوں یہ کاش ۔۔۔۔ کاش ہی رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
روحی آپ کو اس طرح بی ہیو نہیں کرنا چاہیے تھا آپکی ماما ہرٹ ہوئی ہیں۔۔۔۔
حسن نے رحاب کو بیڈ پر بٹھا کر سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
بابا۔۔۔ شی از جسٹ یور وائف ناٹ مائے مام ۔۔۔ سو ڈونٹ کال ہر مائے مام۔۔۔
روحی۔۔۔۔
حسن نیازی نے تاسف سے اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھا۔۔۔۔
بابا مجھے ریڈی ہونا ہے یونی کے لئے ۔۔۔
رحاب نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
حسن نے غور سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔۔۔۔
دودھیا رنگت، کالی آنکھیں، باریک گلابی لب، تیکھے نین نقش، کال بال جن کو پونی میں قید کیا ہوا تھا، اور ویسٹرن ڈریس پہنے وہ حسن کا مکمل پیکر تھی لیکن تہذیب سے شاید دور دور تک واقف نہیں تھی۔۔۔
اوکے۔۔۔
حسن یہ بول کر باہر چلے گئے ۔۔۔ جانتے تھے کہ ان کے بے جا لاڈ پیار اور ضد نے اس کو بگاڑ دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو چل میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں ۔۔۔
عرزم نے زیام کو یونیورسٹی گیٹ پر اتار کر کہا۔۔۔
زیام ابھی دو قدم ہی چلا تھا جب آگے سے کسی سے بری طرح ٹکرایا۔۔۔
اس سے پہلے وہ سمجھتا کہ کس سے ٹکرایا ہے سامنے نے والے نے اس کے دائیں گال پر تھپڑ رسید کر دیا۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے یعنی رحاب حسن کو ٹچ کرنے کی؟؟؟؟
وہ یقینا بولی نہیں غصے کی زیادتی سے چیخی تھی۔۔۔۔ جبکہ زیام اس کے عمل پر ہقہ بقہ رہ گیا تھا۔۔۔۔
دیکھیں۔۔۔ مس۔۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔۔۔ لیکن میں پھر بھی آپ سے معذرت کرتا ہوں۔۔۔۔
زیام نے بمشکل خود کو جلدی سے کمپوز کیا اور جلدی سے معذرت کی کیونکہ وہ جانتا ہے عرزم اگر یہاں ہوتا تو اس لڑکی کا حشر ہو چکا ہوتا ۔۔۔۔۔
بلڈی مڈل کلاس۔۔۔
رحاب نے ایک تنفر بھری نظر اس پر ڈالی اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
جبکہ زیام نے آنکھیں بند کر کے اپنے آنسوئوں پر بند باندھا تھا۔۔۔۔
تو ابھی تک یہاں کھڑا ہے۔۔۔
عرزم نے زیام کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
ہاں تیرے بغیر اندر جانے کا دل ہی نہیں کیا۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔ لیکن عرزم کو اس کی مسکراہٹ میں موجود مصنوعی پن صاف نظر آگیا تھا۔۔۔۔
تم اکیلے نہیں ہو۔۔۔ اللہ کے بعد تم اس دنیا مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ محسوس کرو گے۔۔۔۔
عرزم مسکرا کر بولا۔۔۔ تو زیام اسے دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔ وہ حیران نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عرزم حیدر اس کے ہر لمحے پر نظر رکھتا تھا بس اب وہ اس لڑکی کے خیریت کے لئے دعا مانگ رہا تھا۔۔۔۔ جس نے اسے تھپڑ مارنے کی غلطی نہیں بلکہ عرزم کی نظر میں گناہ کیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم زیام کو لے کر سیدھے کلاس روم کی طرف گیا ۔۔۔ دو دن پہلے ہی وہ یونیورسٹی آ کر اپنے ڈیپارٹمنٹ اور سبجیکٹ کے متعلق ساری انفارمیشن اکھٹی کر کے گیا تھا۔۔۔ عرزم زیام کا ہاتھ پکڑے اسے کلاس کی طرف لے گیا ۔۔۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی وہ فرسٹ رو کے سیکنڈ کالم میں موجودہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے دائیں طرف ہی زیام کو بٹھا دیا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ عرزم اس سے گیٹ پر ہونے والے واقعہ کے بارے میں پوچھتا ایک نسوانی آواز نے ان دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔
ایکسکیوزمی ۔۔۔۔ مسٹر یہ میری سیٹ ہے ۔۔۔سو گیٹ اپ ۔۔۔
دونوں نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تھا ۔۔۔
رحاب حسن کو سامنے دیکھ کر
جہاں عرزم کے چہرے پر غصے کی سرخی آئی تھی وہیں زیام کا رنگ ایک پل میں فق ہوا تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ اس لڑکی کے بچنے کی دعا شدت سے کر رہا تھا۔۔۔۔
کیا دونوں سیٹس آپ کی ہیں؟؟؟
عرزم نے حتی المقدور اپنے لہجے کو نارمل رکھا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ پہلے ہی دن کوئی سیکنڈل نہیں چاہتا تھا۔۔۔ لیکن شاید مقابل اس کے ضبط کا مزید امتحان لینا چاہتی تھی اس لئے بولی۔۔۔۔
ہاں دونوں سیٹیس میری ہیں ۔۔۔
خلاف توقع عرزم خاموشی سے اٹھا تو زیام بھی اس کی تقلید میں اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔۔۔۔
عرزم بنا کچھ کہے لاسٹ رو میں جا کر بیٹھ گیا تو زیام نے ایک نظر اسے دیکھا جو مارے ضبط کے اپنی آنکھیں بند کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔
عرزی۔۔۔ (عرزم)۔۔۔ یار چھوڑ ۔۔۔
زیمی کیا اسی لڑکی نے صبح تم پر ہاتھ اٹھایا تھا؟؟؟؟
عرزم نے سخت مگر دھیمی آواز میں اس کی بات درمیان میں کاٹ کر پوچھا ۔۔۔۔
یار عرزی وہ میری ہی غلط۔۔۔۔
ہاں یا نہ؟؟؟
عرزم نے دوبارہ اسی لہجے میں پوچھا ۔۔۔
ہاں۔۔۔۔ لیکن تم اسے کچھ نہیں کہو گے۔۔۔۔۔
زیام جلدی سے بولا۔۔۔
کیونکہ وہ جانتا تھا عرزم اس کے معاملے میں بہت پوزیسیو ہے۔۔۔
اور تمہیں لگتا ہے تم پر ہاتھ اٹھانے والوں کا ہاتھ سلامت رہے گا۔۔۔۔
عرزم نے سرخ آنکھوں سے زیام کو گھورا۔۔۔
یار جانے دے نا۔۔۔ ویسے بھی میں تو بھول بھی گیا ہوں۔۔۔
زیمی تم بھول سکتے ہو میں نہیں۔۔ اس نے غلطی کی ہے اسے سزا بھی ملے گی۔۔۔ اور ویسے بھی تم اچھے سے جانتے ہو میں اپنا قتل بھی معاف کرسکتا ہوں لیکن تم پر اٹھنے والی ہر انگلی کو سرے سے ہی کاٹ دوں گا۔۔۔۔
عرزم نے جتنے آرام سے یہ بات کی تھی زیام اتنے آرام سے سن نہیں سکا۔۔
میں تمہیں بول رہا ہوں اگر تو نے کچھ بھی کیا تو میں تم سے ناراض ہو جائوں گا۔۔۔
اچھا میرے باپ نہیں کرتا کچھ۔۔ خوش۔۔۔
عرزم ایک دم اپنے لہجے کو نارمل کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
ہاں بہت ذیادہ ۔۔۔۔
زیام علوی تم دنیا کے واحد شخص ہو جو میرے لئے انمول ہو۔۔۔۔
جانتا ہوں کوئی نیا ڈائلاگ سیکھ کر آئو۔۔۔
زیام نے فخریہ انداز میں کہا۔۔۔
ویسے انمول کا مطلب کیا ہے؟؟؟؟
زیام مسکراہٹ دبا کر بولا تو عرزم نے اسے گھورا۔۔۔
اس سے پہلے عرزم کوئی جواب دیتا کلاس میں داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھ کر اس کا موڈ اچھا خاصہ آف ہو گیا تھا جبکہ زیام کا چہرہ ایک پل میں سپاٹ ہوا تھا۔۔۔۔
گڈ مارننگ سر۔۔۔۔
مارننگ۔۔۔۔
ہاں تو کلاس۔۔۔ آج چونکہ آپ کا پہلا دن ہے اس لئے آج صرف سب کا انٹروڈکشن ہوگا ۔۔۔۔ فرسٹلی آئی انٹروڈیوسڈ مائے سیلف۔۔۔۔
میرا نام ڈاکٹر شاویز علوی ہے۔۔۔ میری ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سرفہرست ہے۔۔۔ میں پچھلے پانچ سالوں سے اس یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں۔۔۔۔ اور میرا فیورٹ سبجیکٹ اسلامک اکنامکس ہے۔۔۔ لیکن میں آپ کومائیکرواکنامکس پڑھائوں گا۔۔ امید کرتا ہوں آپ لوگ میرے ساتھ پڑھائی کو انجوائے کریں گے۔۔۔۔
اب آپ لوگ اپنا اپنا تعارف کروائیں ۔۔۔۔
مائے نیم از رحاب حسن ۔۔۔ آئی گاٹ سیکنڈ پوزیشن ان آئی سی ایس فرام گوجرانوالہ بورڈ ۔۔۔
رحاب نے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تو شاویز علوی نے ستائشی انداز میں اسے دیکھا اور سراہا۔۔۔
گڈ۔۔۔
سب نے باری باری کلاس میں اپنا تعارف کروایا۔۔۔ جیسے ہی عرزم کی باری آئی وہ اٹھا اور بولا۔۔۔۔
میرا نام عرزم حیدر ہے۔۔۔ اور میں نے ایف اے پنجاب کالج سے سیکنڈ ڈویثزن سے پاس کیا ہے۔۔
شاویز علوی نے بنا کوئی تاثر کے سر ہلا کر نیکسٹ کہا تھا۔۔۔
میرا نام زیام علوی ہے اور میں نے ایف اے پنجاب کالج سے سیکنڈ ڈویثزن سے پاس کیا ہے ۔۔۔۔۔
شاویز علوی نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور پھر کلاس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔۔۔۔
اکنامکس کے بارے میں تھوڑی سا بتا کر وہ کلاس سے چلے گئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی رحاب کلاس سے نکلی اس کا رخ سیدھا کینٹین کی طرف تھا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ اس کی ایک دوست نتاشا تھی۔۔۔ جو دو سال پہلے ہی اس کے سٹیٹس کی وجہ سے بنی تھی ۔۔۔
وہ دونوں باتیں کرتی جا رہی تھیں جب ہی رحاب کے پائوں کے نیچے ایک ٹوٹی ہوئی شیشے کی بوتل آئی جس کے باعث اس کا بیلنس بگڑا اس سے پہلے وہ گرتی اس نے خود کو بچانے کے لئے دیکھے بغیر ایک فٹ کی دوری پر موجود کھلی ہوئی کھڑکی کا سہارا لیا تھا۔۔۔ جیسے ہی اس نے کھڑکی کو پکڑا اس کو اپنا ہاتھ کسی تیز دار آلے سے چیرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
نتاشا جو اس سے دو قدم آگے تھی
اس کا خون سے رنگا ہوا ہاتھ دیکھ کر مڑی اور حواس باختہ ہو گئی۔۔۔۔
رحاب نے درد کو ضبط کرنے کے لئے لب بھینچ لئے تھے۔۔۔
اووو۔۔۔ مائے گاڈ۔۔۔ روحی یہ کیا ہوا ہے؟؟؟
آئی ڈونٹ نو۔۔۔۔۔
رحاب کی تکلیف اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی ۔۔۔ نتاشا نے بنا تاخیر کئے اس کا بازو تھاما اور بولی۔۔۔۔
ہمیں فرسٹ ایڈ لینی ہے ابھی چلو میرے ساتھ۔۔۔۔
رحاب بنا چوں چرا کئے اس کے ساتھ چل دی۔۔۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی مسلسل اسے دیکھ رہا ہے اس نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔۔۔۔ شاید میرا وہم ہو۔۔۔۔
رحاب نے سوچا۔۔۔
میں کب سے تمہارا کینٹین میں انتظار کر رہا ہوں اور تم یہاں کھڑے ہو۔۔۔۔
زیام نے عرزم کو دیکھ کر گھور کر بولا ۔۔۔۔
عرزم جو کوریڈور میں کھڑا تھا ایک دم مڑا ۔۔۔
کچھ کام ادھورہ رہ گیا تھا وہ ابھی پورا کیا۔۔۔ تم جانتے تو ہو اپنا کام مکمل کئے بغیر مجھے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
عرزم نے مسکرا کر کہا تو زیام نے اسے ناسمجھی سے دیکھا۔۔۔۔
میں سمجھا نہیں ۔ تم کونسی فلاسفی جھاڑ رہے ہو۔۔۔
یار بندہ اکنامکس پڑھنے کے بعد فلاسفی ہی جھاڑ نے کے قابل ہی کہاں رہتا ہے؟؟؟
عرزم نے مصنوعی دکھ سے کہا۔۔ جبکہ زیام نے اس کی بے تکی بات پر اسے گھورا۔۔۔
یار ڈرا تو نا۔۔۔ تجھے پتہ تو ہے میرا چھوٹا سا ننھا سا پیارا سادل ایویں ڈر جاتا ہے۔۔۔
کسی دن واقعی میں تجھے ایسا ڈرائوں گا کہ تو واقعی ڈر کا مطلب سمجھ جائے گا۔۔۔۔
زیام نے دانت پیس کر کہا۔۔۔۔
آئی ایم آنرڈ ۔۔۔۔۔
۔ ( یہ میرے لیے اعزاز ہوگا)
عرزم کی غیر سنجیدگی پر زیام نے بے ساختہ نفی میں گردن ہلائی ۔۔۔۔۔
گدھے کبھی بھی نہیں سدھرتے۔۔
زیام بڑبڑایا ۔۔۔
آئی ایگری۔۔۔۔ تمہاری مثال سامنے ہے۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے بھاگا تھا۔۔ کیونکہ زیام اسے مارنے کے لئے اپنی آستینیں فولڈ کر رہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔