چھبیس مارچ 2011کو مجھے پروفیسر سمیع اللہ قریشی کے سانحہء ارتحال کی اطلاع ملی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔گزشتہ چار عشروں پر محیط باہمی احترام اور محبت کے تمام تاج محل سیل زماں کی مہیب موجوں میں بہہ گئے۔گل چین ازل نے گلشن علم و ادب سے وہ پھول توڑ لیا جس کی عطر بیزی سے پچھلے ساٹھ برس سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ مہک رہا تھا۔علم و ادب کا وہ خورشید جس کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی ،عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔جھنگ کے دبستان ادب کا ایک اور ما ہ منیرقضا کے مہیب بادلوں میں اوجھل ہو گیا۔ادب میں حریت فکر ،روشن خیالی،مثبت شعور و آگہی،حریت ضمیر سے جینے کی روش کو شعار بنانے والا یہ نابغہ ء روزگار ادیب کیا گیا کہ بہار کے دن ہی ہم سے مستقل طور پر روٹھ گئے ۔حسرت و یاس کا ایک ایسا عالم ہے جس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔دل کی ویرانی کا اب کیا مذکور ہے ۔ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کی کوئی امید بر نہیں آتی۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی المناک وفات پر علمی و ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی،بزم ادب سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے ۔ایک عظیم دانشور اور ماہر تعلیم کی رحلت سے فروغ علم و ادب کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔معاشرتی زندگی میں امن و آشتی ،خلوص و مروت،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کا عملی پیکر اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔ان کی شخصیت کی مسحور کن جاذبیت ان کی انفرادیت کی مرہون منت تھی ۔وائے محرومی کہ یہ منکسر المزاج،قناعت اور صبر و استغنا کا بے مثال نمونہ اپنی تمام تابانیوں سمیت زیر زمیں جا چکا ہے ۔حسن سلوک اور خلوص کے اس قدر ارفع معیار کا حامل انسان اب کہاں؟
پروفیسر سمیع اللہ قریشی6جون1936کو اسلام پو ر قاضیاں میں پیدا ہوئے۔یہ گائو ں مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں واقع ہے ۔ان کے خاندان کو پورے علاقے میں عزت اور وقار حاصل تھا۔یہ گھرانہ اپنی علمی و ادبی کامرانیوں اور شرافت کی وجہ سے ممتاز مقام کا حامل تھا۔ابتدائی عمر سے انھیں شاندار علمی ماحول میسر آیا۔ان کے گھر میں اس زمانے کے مقبول ادبی مجلے آتے تھے ان میں عالم گیر،خیام،ادب لطیف،زمانہ،ادبی دنیا اور شاہ کار قابل ذکر ہیں ۔ بچپن ہی سے انھیں شاعری سے دلچسپی تھی ۔جب وہ ثانوی کلاس کے طالب علم تھے تو ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔یہ شعر انھوں نے نو برس کی عمر میں کہا تو ان کے اساتذہ ان کے اسلوب اور زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس پر حیرت زدہ رہ گئے ۔
دلدار کے کوچے میں جو دیدار کو پہنچے رک جائو یہ کہتا ہو ا درباں نظر آیا
قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے لاہور پہنچا اور بازار حکیماں ،بھاٹی گیٹ میں واقع ایک مکاں میں قیام کیا ۔ادبی مجلہ نقوش کے مدیر محمد طفیل بھی اس زمانے میں اسی محلے میں رہتے تھے ۔حکیم احمد شجاع نے اس محلے کو لاہور کا چلیسی کہا اور اس کے مکینوں کے علمی و ادبی ذوق کہ بہ نظر تحسین دیکھا۔1951میں وہ اسلامیہ کالج سول لائنز ،لاہور میں بی۔اے میں داخل ہوئے اور اس کے بعد جامعہ پنجاب ،لاہور سے اسلامیات میں ایم۔اے کیا۔25۔نومبر 1959کو انھوں نے بہ حیثیت لیکچرر اسلامیات گورنمنٹ کالج بہاول نگر سے ملازمت کا آغاز کیا۔اس کے بعد وہ 9۔اکتوبر 1963کو عظیم اور تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچے۔یہ وہ زمانہ تھا جب جھنگ کو شہر سدا رنگ کی حیثیت سے پوری دنیا میں اہم مقام حاصل تھا۔جھنگ کی ادبی کہکشاں کی ضیا پاشیوں سے نگاہیں خیرہ ہوتی تھیں۔ان میں سید جعفر طاہر ،سید غلام بھیک نیرنگ،حفیظ ہوشیارپوری،عبدالعزیز خالد،خادم رزمی،مجید امجد،کبیر انور جعفری،شیر افضل جعفری،امیر اختر بھٹی ،صاحب زادہ رفعت سلطان،غلام علی چین،رانا سلطان محمود،خیر الدین انصاری،محمد حیات خان سیال،شارب انصاری،پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)،قیصر رومانی،ڈاکٹر سید نذیر احمد،حکمت ادیب ،مرزا معین تابش،بیدل پانی پتی،احمد تنویر،فضل بانو ،طاہر سردھنوی،خادم مگھیانوی،سید مظفر علی ظفر،آغا نو بہار علی خان اور خواجہ شائق حسن کے نام قابل ذکر ہیں ۔جھنگ میں ہفتہ وار ادبی نشستوں کے باقاعدہ انعقاد میں پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے گہری دلچسپی لی ۔انھوں نے اپنی ایک ادبی تنظیم بھی قائم کی جس کا نام مجلس سلطان باہو تھا۔اس مجلس نے ادبی فعالیت کو سازگار فضا فراہم کی اور عوام میںمثبت شعور و آگہی بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
پروفیسر سمیع اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پوشیدہ ہے ۔ان کی خطر پسند طبیعت نے سعیء پیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات قرار دیا۔ملکی اور بین الاقوامی سطح کے متعدد علمی و ادبی مقابلوں میں انھوں نے حصہ لیا اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بددولت ہر مقابلے میں کامیاب و کامران رہے ۔ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں متعد د ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں سے چند اہم حسب ذیل ہیں:
ساندل ایوارڈ 1991،پنجاب ٹیچرز فورم ایوارڈ،جام درک ایوارڈ 1992،مسعود کھدر پوش ایوارڈ2002،
پاکستان میں انھیںہر علمی ،ادبی اور مذہبی کانفرنس میں مدعو کیا جاتا تھا ۔قومی سیرت کانفرنس میں وہ کئی بار بہ طور مندوب اور مقالہ نگار شامل ہوئے۔عالمی اردو کانفرنس اور مشاعروں میں بھی انھوں نے ہمیشہ شرکت کی اور انھیں زبردست پذیرائی ملی۔ان کی بیس کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں ۔ان میں سے اکثر پر انھیں انعام سے نوازا گیا ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کتابوں کے شیدائی تھے ۔وہ کتابوں سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے ۔ان کی دیکھ بھال ،گرد پوش ،جلد بندی اور صفائی میں سلیقے پر اصرار کرتے تھے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کا کتب خانہ جس میں نادر و نا یاب کتب کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے ۔ان کی دیکھ بھال اور حصول میں انھوں نے ذاتی دلچسپی لی ۔پاکستان کے اس بہت بڑے علمی خزانے کو دریائے چناب کے سیلا ب نے دو مرتبہ نا قا بل تلافی نقصان پہنچایا۔جھنگ دریائے چناب کے مشرقی کنارے پر واقع ہے ۔پہلی مرتبہ 1950میں دریا کی طوفانی لہریں شہر میں داخل ہو گئیں اور سب کچھ بہا کر لے گئیں ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کا کتب خانہ اس سیلاب میں بہہ گیا۔اس کے بعد سیلاب سے بچائو کے لیے ایک بیس فٹ چوڑا اور تیس فٹ اونچا حفاظتی بند شہر کے ارد گرد تعمیر کیا گیا ۔اہل شہر مطمئن ہو گئے کہ اب وہ دریا کی طغیانی سے محفوظ ہو گئے ہیں ۔سادہ لوح لوگوں کو کیا معلوم کہ جب راہ نہیں پاتے تو نالے چڑھ جاتے ہیں ۔اس طرح 12 ۔اگست1973کو دریائے چناب کی قیامت خیز لہریں حفاظتی بند کو بہا لے گئیں ۔اور سیلاب کا بیس فٹ بلند ریلا رات کی تاریکی میں پورے شہر سے بغل گیر ہو گیا ۔اس سیلاب میں بے پناہ مالی نقصان ہو ا۔بے بس انسانوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔دس دن کے بعد دریا کا پانی قد ر ے اترا تو پروفیسر سمیع اللہ قریشی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچے،کالج میں ابھی آٹھ آٹھ فٹ پانی کھڑا تھا وہ ایک کشتی پر سوارہو کر آئے تھے ۔ کتب خانے کے مہتمم چودھری محمد صدیق ان کے ہمراہ تھے ۔تمام ملازمیں درجہ چہارم بھی کھنچے چلے آئے۔سب نے جان کی بازی لگا کر تمام کتابیں کمروں کی چھت پر منتقل کیں ۔
چلچلاتی دھوپ میں بیٹھے پروفیسر سمیع اللہ قریشی زار و قطار رو رہے تھے ۔ایک ایک کتاب اٹھاتے ،پاکیزہ اور اجلی چادر سے اسے پونچھتے اس کا ایک ایک ورق الٹتے اور آپس میں چپکے ہوئے نم آلود اوراق کو الگ کرتے اور ان علم کے موتیوں کو آنسوئوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ۔وہ گلوگیر لہجے میں آہ بھر کر کہتے :
ـ ’’ اب ایسی نادر و نایاب کتب کہا ںسے آئیں گی ؟۔ان کتب کا تو دوسرا ایڈیشن بھی نہیں چھپا۔اور یہ غیر ملکی کتب تو اب کہیں سے نہ مل سکیں گی ۔اب محققین اور اساتذہ کس طرح ان بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کر سکیں گے؟اسی کا نام تو تقدیر ہے ۔اگر تقدیر ہر لحظہ ،ہر گام انسانی تدبیر کے پرخچے نہ اڑا دے تو پھر وہ تقدیر کیسے کہلا سکتی ہے ؟‘‘
پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے اپنے رفقائے کار کے تعاون سے گورنمنٹ کالج جھنگ کے تاریخی کتب خانے کی اسی فی صد کتب کو بچانے میں کامیابی حاصل کی ۔یہ ان کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جو اس ادارے کی تاریخ میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔اپنے لہو سے ہولی کھیلنا اور کالے کٹھن دکھوں کے پہاڑ تن تنہا اپنے سرپر جھیلنا اور ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنا ان کاشیوہ تھا۔دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسے بے لوث انسان اب کہیں نہیں ملیں گے ۔
معاشرتی زندگی میں انسان افراد معاشرہ کے ساتھ اپنے رویے اور لین دین سے پہچانا جاتا ہے۔یہی وہ مقیاس ہے جو اس کی شخصیت کو وقار اور اعتبار کے انمول خزینے سے متمتع کرنے کا وسیلہ ہے۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی ذات میں لین بہت ہی کم مگر دین کی فراوانی تھی ۔وہ سراپا دین ہی دین تھے اور دینے اور عطا کرنے کا یہ سلسلہ یک طرفہ تھا۔وہ سب کے لیے فیض رساں تھے۔جہاں تک ممکن ہوتاوہ دوسروں کے لیے فیض کے اسباب تلاش کر ہی لیتے ۔جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب شائع ہوتی تو دنیا بھر سے ان کے ہزاروں شاگرد اور مداح اپنے تعریفی کلمات سے نوازتے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے قریبی رفقائے کار کو وہ اپنی تصنیف اپنے دستخط ثبت کرکے پیش کرتے اور ساتھ ہی کوئی نصیحت بھی درج کر دیتے۔ان کے اس قسم کے اصلاحی اقدام دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوتے۔ایک عرصہ تک ان کی یادوں کی مہک قریہء جاں کو معطر رکھتی۔وہ کثیر المطالعہ شخص تھے ،عالمی شہرت کے حامل جرائد،ادبی مجلات اور اخبارات ان کے ہاں آتے۔ان کا مطالعہ کرنے کے بعدوہ ان میں شائع ہونے والے اہم مضامین مختلف لوگوں کو فی الفور ارسال کرتے تا کہ وہ بھی ان سے استفادہ کر سکیں۔یہ ان کے ذوق سلیم کی دلیل ہے۔جب ان سے ملاقات ہوتی تو وہ ان مضامین کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کرتے اور اس طرح تنقید کے ذریعے تمام مسائل کی گتھیاں سلجھاتے۔فروغ علم و ادب کے لیے ان کا یہ انداز دوسرے لوگوں سے تقلیدی طور پر بھی ممکن نہیں۔ان کی تمام کتابوں کو مختلف انعامات سے نوازا گیا ۔اپنی تصانیف پر ملنے والی انعام کی رقم انھوں نے ہمیشہ غریب اور مستحق طلبا کی تعلیمی ضروریات پر خرچ کی۔ہر سال وہ دس بارہ طالب علموں کی داخلہ فیس اپنی گرہ سے ادا کرتے۔سرکاری فنڈ سے مستحق طلبا کی مقدور بھر مالی امداد کرتے اور انھیں کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیتے۔ان کی علم دوستی کے اعجاز سے متعدد طلبا نے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کیے اور اس وقت ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔
خدا ترسی،انسانی ہمدردی ،ایثار اور سخاوت کا جو معیار پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے قائم کیاوہ اپنی مثال آپ ہے ۔ان کے وسائل محدود تھے اس کے باوجود وہ معاشرے کے پس ماندہ،مفلوک الحال ،غریب اور قسمت سے محروم دکھی انسانیت کی بھلائی کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میںمصروف رہتے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں بلڈ ڈونیشن سوسائٹی کو انھوں نے فعال بنایا۔اس کے بعد مقامی ہسپتالوں میں بلڈ بنک کے لیے خون اور غریب اور نادار مریضوں کے لیے ادویات کی فراہمی کی ایک صورت پیدا ہو گئی۔وہ ہر سال خود بھی خون کا عطیہ دیتے اور ان کی تحریک پر ہزاروں نوجوان ہمہ وقت دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے مستعد رہتے۔یوں تو غریبوں کے لیے ہر موسم ہی کٹھن ہوتا ہے مگر خون منجمد کر دینے والی سردی ان کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی ہر سال موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور جاتے اور لنڈا بازار سے ہر سائز کے گرم کپڑے اپنی گرہ سے بڑی تعداد میںخرید لاتے ۔ان میںجرسیاں،سویٹر،کوٹ،مفلر ،دستانے،جرابیں اور ٹوپیاں وغیر شامل ہوتیں۔گرم کپڑوں کا یہ بھاری بھرکم گٹھڑ وہ اپنی رہائش گاہ کے بر آمدے میں رکھوا دیتے۔اس کے بعد درجہ چہارم کے تمام ملازمین اور مستحقین کے لیے صلائے عام تھی ۔ہر کوئی اپنی ضرورت ،پسنداور سائز کے مطابق گرم کپڑے اٹھا لیتا۔جب یہ لوگ باہر نکلتے تو ان کے ہاتھوں میں گرم کپڑے ہوتے اور چہرے پر ممنونیت کی لہر اور دل میں محبت اور احترام کی کثرت۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی نم ناک آنکھوں سے ان غریبوں کے لیے دعاکرتے اور اکثر کہتے ساری دنیا بدل رہی ہے مگر غم زدوں کا حال تو جوں کا توں ہے ۔آہ ہمارے معاشرے کے وہ بے حس گردن فراز جو کسی مفلس و نادار شخص کو تن ڈھانپنے کے لیے اپنا ایک چیتھڑا دینے کے روادار بھی نہیں۔کاش وہ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی زندگی سے کوئی سبق سیکھیں۔
وطن ،اہل وطن اور مذہب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا ایک عالم معترف تھا۔انھوں نے ریٹائرمنٹ سے ایک برس قبل فریضہ حج کی سعادت حاصل کی ۔اس موقع پر میں ان سے ملنے گیا تو انھیں حسب معمول چاق و چوبند اور ہشاش بشاش پایا۔مہمانوں کے لیے وہ دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے تھے ۔انھوں نے میرے لیے پر تکلف چائے کا انتظام کیا۔اور اپنی آپ بیتی ’’ بیتے لمحوں کی چاپ‘‘ اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے عطا کی ۔مجھے الوداع کہتے ہوئے وہ کہنے لگے :
’’میں نے طویل عرصہ درس و تدریس میں گزارا،اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہا لیکن میرے دامن دل پر کوئی داغ ندامت بالکل نہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حج بیت اللہ کی سعادت مجھے نصیب ہو چکی ہے ۔میرے بچے اب روزگار والے اور اپنے گھر بار والے ہو چکے ہیں ۔اس قادر مطلق نے میرے ہر خواہش پوری کی ہے ۔اس وقت میری دل میں نہ کوئی حسرت ہے اور نہ ہی کوئی نا آسودہ خواہش۔ہم اپنے رب کی نعمتوں کا کس طرح شکر ادا کریں ۔جس قدر انعام و اکرام مجھ پر پروردگار عالم نے کیے ہیں ،میں ان کا جس قدر شکر ادا کروں ،کم ہے ۔ہمیں اپنی حقیقت اور اپنے خالق کی عظمت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے‘‘
خوش اخلاقی کو وہ ایک نیکی سے تعبیر کیا کرتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ انسان کو اپنی آرزوئوں،امنگوںاور دلچسپیوںکو توازن اور اعتدال کی حدود میں رکھنا چاہیئے۔اگر کوئی شخص زندگی میں توازن او راعتدال کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اسے اپنی جان پر دوہرا عذاب سہنا پڑتا ہے ۔وہ اپنی بے بصری ،کور مغزی کے نتائج کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر ہمہ وقت کڑھتا بھی رہتا ہے ۔وہ ذہنی بالیدگی کے لیے جدت اور تنوع کو نا گزیر خیال کرتے تھے ۔تقلید کی روش کو وہ خود کشی کی ایک صورت سمجھتے اور اس بات پر اصرار کرتے کہ خضر کا سودا چھوڑ کر نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔زندگی کو وہ سر آدم اور ضمیر کن فکاں کی ایک قابل قدر صورت سمجھتے تھے ۔
آثار قدیمہ سے پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو بہت دلچسپی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ قدیم ٹیلوں اور کھنڈرات میں ما ضی بعید کے متعد د آثار پائے جاتے ہیں۔ان کی وقیع تصنیف ’’سر زمین جھنگ آثار و ثقافت‘‘ آثار قدیمہ سے ان کی گہری دلچسپی کی مظہر ہے ۔آثار قدیمہ سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ پرانی عمارات اور کھنڈرات تک طویل سفر کر کے پہنچتے اور وہاں سے پرانی اشیا او رفوسل تلاش کرتے۔شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک کا ایک حصہ جھنگ کے ایک قدیم قصبہ بھون کے پاس سے گزرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہاں موجود کھنڈر چار ہزار قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہاں ایک چڑیل بھاگو کے قیام کی داستان زبان زد عام رہی ہے ۔اس جگہ پر ایک پل ہے جس کے نیچے انسانی اعضا اور کھوپڑیوں کی موجودگی یہ ظا ہر کرتی کہ وہ آدم خور چڑیل تھی ۔کوئی بھی شخص اس علاقے کا رخ نہ کرتا ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے اس تمام علاقے میں آثار قدیمہ کی کھوج سے یہ ثابت کیا کہ اس علاقے میں ایک قدیم قبرستان تھا جسے دریائے جہلم کی طغیانیوں سے شدید نقصان پہنچا ۔یہ تمام اعضا اور انسانی کھوپڑیاں انھی بوسیدہ قبروں کی باقیات ہیں ۔سکندر اعظم کا ایک جرنیل سلوکس یہاں سے گزرا تھا۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یونان میں حسن کی دیوی کو ہیر(Heer)کہا جاتا ہے ۔اس نے یہاں ایک مندر تعمیر کیا جسے ہیر دیوی کا مندر کہا جاتا تھا۔مقامی لوک داستان یعنی ہیر اور رانجھے کی داستان محبت کو وہ وارث شاہ کا ایک من گھڑت قصہ بتاتے تھے ۔اس لڑکی کا نام تو عزت بی بی تھا اور اس کے مبینہ آشنا کا نام مراد بخش تھا۔ان کا کہنا تھا کہ تاریخی اعتبار سے یہ داستان بالکل اسی طرح کی ہے جیسے انار کلی اور اکبر کی داستان جسے ولیم فنچ نے بد نیتی کی بنیاد پر من گھڑ ت انداز میں بیان کیا مگر خافی خان جیسے محقق اور مورخ جو اکبر کے معاصر تھے ان کے ہاں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔وہ سائنسی تحقیق اور سائنسی انداز فکر کے حامی تھے ۔ہر قسم کی توہم پرستی اور مفروضات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکناہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔
تخلیق ادب میں ان کی دلچسپی تمام عمر برقرار رہی۔موضوع اور مواد کے اعتبار سے انھوں نے ہمیشہ جدت کو پیش نظر رکھا۔تخیل اور تصور کی جدت اور تنوع ان کے اسلوب کا نمایاں وصف رہا۔ان کے ہاں محبت کے جذبات کی فراوانی ہے ۔یہ محبت بے لوث انداز میں تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے اور وہ جذبہء انسانیت نوازی سے سرشار ہو کر سارے جہاں کے درد کو اپنے جگر میں موجزن محسوس کرتے تھے۔جبر کا ہر انداز مسترد کرکے انسانیت کے وقار اور سربلندی کی خاطر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرکے انھوں نے ثابت کر دیا کہ کاروان حسین کو ہمیشہ صعوبتوں کے سفر میں رہنا ہوتا ہے ۔اس کے باوجود انھیں یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآخر سر نگوں ہو کر رہتا ہے ۔ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک ظلم سے بھی زیادہ اذیت ناک اور اہانت آمیز فعل ہے۔وہ کبھی کسی فرعون یا نمرود سے مرعوب نہ ہوئے ۔وہ ہمیشہ میرٹ کی بالادستی پر زور دیتے تھے ۔چور دروازے سے داخل ہو کر جاہ و منصب کی ہڈیوں کے متلاشی سگان آوارہ سے انھیں سخت نفرت تھی ۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ باب رعایت سے داخل ہو کر کلیدی عہدوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں نے توقوم کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے
گورنمنٹ کالج جھنگ کا ادبی مجلہ کارواں جو 1926سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اس مجلے نے متعدد نامور ادیبوں کو پروان چڑھایا۔پروفیسرڈ اکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر وزیر آغا اپنے زمانہ طالب علمی میں اس رجحان ساز ادبی مجلے کی مجلس ادارت میں شامل رہے ۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے کارواں کو سوئے منزل جادہ پیما رکھا۔پہلے یہ کتابت میں شائع ہوتا تھا ۔اس کے بعد یہ ٹائپ میں شائع ہونے لگا۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے اسے جدید عصری تقاضوں کے مطابق کمپیوٹر کمپوزنگ میں 1985میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ۔اس زمانے میں جھنگ میں یہ سہولت دستیاب نہ تھی اس لیے مکتبہ جدید لاہور سے اس کی کمپوزنگ کرائی گئی۔اس مجلے کو کاروان ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اردو،پنجابی اور انگریزی زبان میں شائع ہونے والے اس مجلے میں انتہائی معیاری تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔جب پروفیسر سمیع اللہ قریشی پرنسپل کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے اس میں ایک درجہ چہارم کے ملازم حاجی احمد بخش کا بیس صفحات پر مشتمل انٹرویو شامل کیا ۔اس کا عنوان تھا گورنمنٹ کالج جھنگ کی کہانی حاجی احمد بخش کی زبانی۔حاجی احمد بخش نے 1926میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے ملازمت کا آغاز کیا اور تمام عمر اسی ادارے میں گزار دی ۔اسی عرصے میں قدیم طلبا کے انٹرویوز بھی کارواں کی زینت بنے اور انھیں بہت پسند کیا گیا ۔یہ لو گ چراغ سحری تھے یہ انٹر ویوز تاریخ کا موء قر و معتبر حوالہ ہیں۔یہ وہ قدیم طالب علم تھے جو 1930سے1940تک کے عرصے میں اس عظیم مادر علمی میں زیر تعلیم رہے ۔ان ضعیف لوگوں کے انٹر ویوز پر راقم السطور کو مامور کیا گیا۔جن مشاہیر کے انٹرویو کرنے میں کامیابی ہوئی ان میں سردار باقر علی خا ں بھی شامل تھے جو انڈین سول سروس کے مقابلے کے امتحان میں اول آئے اور ملتان کے کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ان کی آپ بیتی کا مسودہ ’’ قصہ ایک درویش کا‘‘ ان کے آبائی گائوںٹھٹھی لنگر میں ان کے کتب خانے میں موجود ہے ۔محمد خان جو پوسٹل سروس میں اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے۔حاجی محمد یوسف جو برطانوی فوج میں افسر تھے اور دوسری عالمی جنگ میں جاپان ،برما،عراق اور مصر کے مختلف محاذوں پر نازیوں کے خلاف نبرد آزما رہے ۔مہر شوکت حیات کپلانہ،مہر غلام فرید کپلانہ ،امیر اختر بھٹی اور متعدد اہم شخصیات کے انٹرویوز کیے گئے ۔حیف صد حیف یہ سب حقیقتیں اب خیال و خواب ہو گئیں ۔یہ سب آفتاب و ماہتاب اب ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکے ہیںلیکن ان کے سوانح کو کاروان کے اوراق میں محفوظ کر کے جو اہم تاریخی دستاویز مرتب کی گئی ہے اس کا تما م اعزاز پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو جاتا ہے ۔
قیام پاکستان کے وقت جب ان کا خاندان ہجرت کرکے لاہور پہنچا تو وہ سب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے ۔ان کے والد علیل تھے گھر کے روزمرہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اس چھوٹے سے بچے(سمیع اللہ قریشی)کو چھابڑی لگانی پڑی ۔وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سنگترے بیچا کرتے تھے ۔ایک بار جب وہ صدا لگا رہے تھے ’’ اچھے سنگترے۔۔۔۔اچھے سنگترے ‘‘ تو ایک صاحب بصیرت شخص نے اس بچے کو گلے لگا لیا دعا دی اور کہا ’’ ہاں واقعی اچھے سنگ ترے۔۔۔اچھے سنگ ترے ‘‘یہ کہہ کر وہ بزرگ زار و قطار رونے لگا اور اس کی دعا سے بچے کی دنیا ہی بدل گئی ۔یہ واقعہ داتا گنج بخش کے روضے کا سامنے پیش آیا۔ سمیع اللہ قریشی گھر آیا تو والد نے وضاحت کی کہ بزرگ کا مقصد یہ تھا کہ جو بھی اچھے سنگ (رفاقت)کو اختیار کرتا ہے وہ آلام روزگار کے سیل رواں کی مہیب لہروں میں بھی تیر کر کنارے تک پہنچ جاتا ہے ۔اس واقعہ نے نو عمر سمیع اللہ قریشی کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔وہ تما م عمر اچھی صحبت کے شیدائی رہے ۔ہر ظالم پہ لعنت کرنا اور ہر مظلوم کی حمایت کرنا ان کا شیوہ رہا۔وہ فرد کے ہاتھوں فرد کے استحصال کے سخت خلاف تھے۔ان کا خیال تھا کہ ہوس زر نے انسان کو انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اس کا ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اخوت کی جہاںگیری اور محبت کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کے مسئلے نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو انسان شناسی میں مہارت حاصل تھی ۔وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ ملاقاتی کس مزاج اور طبع کا شخص ہے۔ان کا یہی یقین ان کو تہذیب و تمدن کے ارفع معیار کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتا۔انسان شناسی کی جس صلاحیت سے وہ متمتع تھے اس کی ایک مثال میں نے بھی دیکھی ۔ایک معمر ضعیفہ ان سے اکثر ملنے آتی تھی ۔اس کی عمر سو سال کے قریب تھی ۔میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اس ضعیفہ نے عنفوان شباب میں گھر سے باہر ایک غلط قدم اٹھایااور اب گزشتہ اسی سال
سے منزل سے نا آشنا خاک بہ سر در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے ۔اس وقت وہ ضعیفہ بھی موجود تھی جس کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں تھی اور لٹی محفلوں کی دھول سے اس کا چہرہ اور تار تار دامن گرد آلود تھا ٓایسے انسان کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن اس کا جگر روح اور پورا جسم کرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔وہ ضعیفہ جب تک زندہ رہی اس کی کفالت کی ذمہ داری پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے خود سنبھال رکھی تھی ۔اس معمر عورت کی وفات 2002میں ہوئی ،اس کی تجہیز و تکفین کے تمام اخراجات پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے خود برداشت کیے ۔ اپنے رفقا اور شاگردوں کے ہمراہ اس کے جنازے میں شامل ہوئے اور زار و قطار رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے ’’ تمھارا اندازہ غلط نکلا فضیلت بانو کہ تمھارا رونے والا کوئی نہیں بچا۔نہ صرف میں بلکہ میرے ساتھی اور میرے شاگرد بھی تیری محرومیوں ،بے چارگی اور کسمپرسی کے عالم میں عدم کے کوچ کے لیے چپکے سے رخت سفر باندھ لینے پر اشکبار ہیں ‘‘۔جب اس کی قبر لحد میں اتاری گئی تو ہم سب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ’’ عزیزو اس لمحے اور اس مقام کو کبھی فراموش نہ کرنا۔سیل زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں ۔‘‘ان کی زندگی شمع کے مانند تھی جو جانگسل تنہائیوں اور تاریکیوں میں راستہ دکھاتی ہے ۔ان کا وجود دکھی انسانیت کے لیے اللہ کریم کا بہت بڑا انعام تھا۔وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ظلم سہنا اور اس کے خلاف مزاحمت اور بغاوت نہ کرنانہ صرف ظلم کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے بلکہ یہ منافقت کی ایک صورت بھی ہے ۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ جو بھی شخص ظلم پر لعنت نہیں کرتا وہ خود لعین ہے اور جو جبر کو مسترد نہ کرے وہ دین کی آفاقی تعلیمات سے انحراف کرتا ہے ۔
پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی طبیعت میں محبت کا ایک منفرد روپ نظر آتا تھا ۔ایک طرف تو وہ حسن و رومان کے دلدادہ تھے تو دوسری طرف تخلیقی محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔محبت کے یہ دونوں روپ ان کی شخصیت کو ایک تنوع عطا کرتے ۔ان کی محبت میں ایک انانیت جلو گر رہی جو ہر لمحہ ترو تازہ اور شگفتہ دکھائی دیتی ہے ۔پروفیسر عبدالباری عباسی جو ان کے محرم راز رہے بتایا کرتے تھے کہ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کوبھی ایک نیک سیرت دوشیزہ سے محبت ہو گئی اور انھوں نے اس سے جو عہد وفا استور کیا اسے علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر صدق دل سے عمل کیا۔یہی خاتون بعد میں ان کی شریک حیات بنی ۔اسی کے نام پر ان کی رہائش گاہ اب بھی موجود ہے جس پر لکھا ہے ’’النصرت‘‘۔مجھے اس خاتون سے ملنے کا موقع ملا ہے ۔ان کے مزاج میں کامل ہم آہنگی دیکھ کر یقین ہو گیا کہ انسان شناسی میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔اس محبت نے ان کی شخصیت کو نکھار عطا کیا۔یہ محبت بہت مساوی اور منصفانہ بنیاد پر استوار رہی دونوں محبت کے بدلے ایک دوسرے کو محبت سے لبریز رویے سے سرشار کرتے رہے ۔اسی میں ان کی کامیاب زندگی کا راز مضمر ہے ۔
اپنی زندگی میں وہ ہر قسم کی عصبیت سے دور رہے ۔وہ اسلامیا ت کے پروفیسر تھے ۔اپنے لباس کے انتخاب میں وہ وضع داری کا خیال رکھتے ۔ وہ اکثر انگریزی لباس پہنتے ۔ وہ کلین شیو تھے ۔تھری پیس سوٹ اور ٹائی میں ان کی شخصیت نہایت با رعب او رپر وقار نظر آتی ۔اپنے مذہبی عقائد میں وہ اعتدال پسند تھے ۔اپنے بیٹے کا نکاح انھوں نے خود پڑھایا۔وہ ہر محفل میں اپنی بات دلائل کی بنیاد پر منوانے کی استعداد رکھتے تھے ۔دوسروں کی بات تحمل سے سننا اور ٹھوس دلائل سے جواب دینا ان کا شیوہ تھا۔
اس عالم آب و گل کی حقیقی معنویت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے والا دانش ور آج ہمارے درمیان نہیں رہا۔پروفیسر سمیع اللہ قریشی کہا کرتے تھے کہ بے لوث محبت کے اعجاز سے نار کو بھی گلزار بنایا جا سکتا ہے ۔ہم انسانوں کا پیرہن سفر کی دھول ہی تو ہے ۔انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والے اس جلیل القدر استاد کی خدمت میں اپنے جذبات حزیں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ایک عظیم استاد کے افکار کی صداقت کا نغمہ قلب اور روح کی دھڑکن سے تا ابد ہم آہنگ رہے گا ۔جب تک دنیا باقی ہے ایسے اساتذہ کے اسلوب کی تقلید کی جاتی رہے گی جن کا حسن اخلاق فکر و خیال کی وادی کے ہر رہرو کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گا ۔ٖ فضائو ں میں ہر سمت ان کی دلکش کی یادیں بکھری ہوئی ہیں ۔ہم جس سمت بھی نگاہ دوڑاتے ہیں پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے جو ہمیں متوجہ کرکے کہتی ہے ۔
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی