نابغہ ء روزگار شاعر ،محقق،مترجم ،نقا د ،دانش ور ،ماہر تعلیم اور ما ہر لسانیات پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی طویل علالت کے بعد 17۔جون2012کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔پاکستانی ادبیات کے اس آفتاب جہاں تاب کو سخی حسن شہر خموشاں کراچی میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔اس خاک نے اس آفتاب کو اپنے دامن میں چھپا لیا جس نے سفاک ظلمتوں کو کافور کیا اور اذہان کی تطہیر و تنویر میں اہم کردار ادا کیا ۔ان کی وفات سے فروغ علم و ادب کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔اردو سندھی لسانی روابط کی حب الوطنی کی آئینہ دار درخشاں روایت کو شدید ضعف پہنچا ۔وطن اور اہل وطن اور بنی نوع انسان سے بے لوث اور والہانہ محبت کرنے والا حریت فکر کا عظیم مجاہد ہمیں دائمی مفارقت دے گیا ۔وہ عظیم تخلیق کار جس نے اپنی چالیس سے زائد تصانیف سے پاکستانی ادب کی ثروت میںاضافہ کیا نہایت خاموشی سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔اردو زبان اور سندھی زبان کے ا س جری تخلیق کار نے اپنے جان دار ا ور مسحور کن اسلوب سے دلوں کو مسخر کر کے پوری دنیا سے اپنی تخلیقی مہارت اور زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ قدرت کا لوہا منوایا۔شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شہرہء آفاق تصنیف ’’شاہ جو رسالو ‘‘ کو اردو کے قالب میں ڈھال کر انھوں نے جو فقید المثال کارنامہ انجام دیا وہ تاریخ ادب میں آب زرسے لکھنے کے قابل ہے ۔سندھی زبان کے ادب کو اپنی اٹھارہ وقیع تصانیف سے ثروت مند بناکر انھوں نے بلا شبہ ستاروں پہ کمند ڈالی ہے ۔پرو فیسر محمد آفاق احمد صدیقی کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خا طر تمام عمر جدو جہد کرتے رہے ۔ان کی علم دوستی ،ادب پروری اور انسانی ہم دردی کا ایک عالم معترف تھا ۔انھیں ساٹھ کے قریب قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ جریدہء عالم پر ان کا دوام ثبت ہو چکا ہے ۔پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’پرائڈ آف پرفارمنس ‘‘ اور سندھ کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’شاہ عبد اللطیف بھٹائی ایوارڈ ‘‘بھی انھیں ملا ۔ان کی یہ کامرانیاں ا س بات کا ثبوت ہیں کہ علمی ،ادبی اور تہذیبی و ثقافتی شعبوں میں ان کی فتوحات میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔ان کی رحلت پر پوری دنیا میں دلی رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور مقتدر حلقوں کے علاوہ زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد کی جانب سے بھی جذبات حزیں کا اظہار کیا گیا۔جو کہ ان کی ہمہ گیر مقبولیت اور مستحکم شخصیت کا اعجاز ہے ۔ان کی ذات کو ایک زندہ دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل تھی ۔وہ علم و ادب ،تاریخ ،ادیان ،تہذیب و ثقافت،تنقید و تحقیق ،تعلیم و تعلم اور فلسفہ کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ اب ان کے بعد ان کے پائے کی کوئی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ان کی وفات نے اہل علم و دانش کو ایک مستقل نوعیت کی محرومی کا شکار بنا دیا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فروغ علم و ادب ،لفظ کی حرمت ،حریت فکر و عمل اور وفا کے سارے ہنگامے اور ان سے متعلق تمام حقائق خیال و خواب ہو چکے ہیں۔مسلسل
سات عشروں تک پرورش لوح و قلم میں مصروف رہنے والے اس یگانہء روزگار فاضل کی وفات نے روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا ۔آج ان کے غم میں دیدہء گریاں کے غم کی کیفیت سوہان روح بن گئی ہے ۔اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے ۔فضائوں میں ہر سمت ان کی یادوں کی مہک رچی بسی ہوئی ہے ،جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم
محمد آفاق احمد صدیقی 4۔مئی 1928کو مین پوری (بھارت )میں پیدا ہوئے۔یہ قصبہ فرخ آباد کے قریب واقع ہے جو کہ اتر پردیش میں شامل ہے ۔ان کا تعلق علاقے کے ممتاز اور معزز علمی و ادبی خاندان سے تھا ۔ان کے والد محمد اسحاق(عرف للو بھیا)ایک وسیع المطالعہ عالم تھے ۔وہ اردو ،فارسی ،عربی ،ہندی اور کئی مقامی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ۔انگریزی زبان و ادب سے بھی انھیں بہت لگائو تھا ۔علاقے کے تمام طلبا ان سے اکتساب فیض کرتے۔ان کو شعر وشاعری سے گہری دلچسپی تھی ان کے تین شعری مجموعے ’’درد دل ‘‘ ، ’’درد جگر ‘‘ اور ’’ درد دگر ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے جن کی بہت پذیرائی ہوئی ۔ابتدا میں انھوں نے محکمہ ریلوے میں ملازمت کی لیکن جلد ہی یہ ملازمت چھوڑ دی ۔1917میں وہ محکمہ پولیس میں بہ طورآفیسر بھرتی ہوئے لیکن یہ ملازمت بھی انھوںنے 1932میں چھوڑ دی ۔انھیں برطانوی استعمار کی لڑائو اور حکومت کر و کی پالیسی سے اختلاف تھا۔محمد آفاق احمد صدیقی نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کی ۔یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ نواحی قصبے کمال گنج کے سرکاری مدرسے میں داخل ہوئے اور ورنیکلر فائنل کا امتحان 1942میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور انھیں اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر وظیفہ بھی ملا۔زمانہ طالب علمی ہی سے ان کے شعری ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ۔ان کے اساتذہ نے اس ہو نہار طالب علم کی خوب حوصلہ افزائی کی ۔ان کے استاد مولوی بنے خان سر خوش اپنے اس شاگرد کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے ۔ اردو ،فارسی ،ہندی اور اردو کے اس قابل استاد نے اپنے شاگرد کو سکول کی بزم ادب کا سیکرٹری مقرر کیا ۔ابتدائی جماعتوں میں انھوں نے اپنی شاعری سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔انھوں نے متعدد انعامات حاصل کیے ۔اس طرح ان کے شعر ی ذوق کو صیقل کرنے میں ابتدائی تعلیم نے اہم کردار ادا کیا ۔میٹرک کے لیے وہ گورنمنٹ ہائی سکول فتح گڑھ چھاونی میں داخل ہوئے ۔ان کے خاندان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا تھا ۔تعلیمی اخراجات کو پورا کرنا ایک کٹھن مرحلہ بن گیا ۔نو عمر محمد آفاق احمد صدیقی نے تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹی کلاسز کے طلبا کو ٹیوشن پڑھا کر بڑی حد تک مالی مشکلات پر قابو پا لیا ۔اس طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔پیہم محنت سے ان کے جوہر کھلتے گئے وہ ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ خانہ ء فرہاد میں روشنی کی کرن ضرب تیشہ کی مرہون منت ہے ۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے قائل تھے ۔کسی بھی باب رعایت سے داخل ہو کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں سے وہ سخت نفرت کرتے تھے ۔زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں ترقی پسند تحریک اور تحریک پاکستان سے قلبی لگائو تھا ۔انھوں نے ان تحریکوں سے جو عہد وفا استوارکیا اسے علاج گردش لیل ونہار سمجھتے ہوئے تمام عمر اس پر کا ر بند رہے ۔انھوں نے زندگی کے مصائب و آلام کو بڑے قریب سے دیکھا تھا ۔یہ تمام کیفیات ان کے تجربات ،مشاہدات اور احساسات کی اساس بن گئیں ۔
قیام پاکستان کے بعد محمد آفاق احمد صدیقی اپنے خاندان کے واحد فردتھے جنھوں نے ارض پاکستان کی جانب ہجرت کی ۔ان کے خاندان کے باقی تمام افراد نے بھارت ہی میں قیام کا فیصلہ کیا ۔ہجرت کے وقت انتقال آبادی کے موقع پر جو فسادات ہوئے اور جس بے دردی سے املاک اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا انھیں دیکھ کر وہ بہت دل گرفتہ ہوئے ۔ان کے والد انھیں دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اور ان سے قلبی وابستگی اور دلی پیار کرتے تھے ۔اس بات کا انھیں قلق تھا کہ جب انھوںنے اپنے والد کی رضامندی کے بغیر پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا تو ان کے والد کو بہت صدمہ ہوا اور وہ اس جدائی کی تاب نہ لاتے ہوئے چند ماہ بعد چل بسے ۔ وہ اپنے پیارے والد کی تجہیز و تکفین میں بھی شامل نہ ہو سکے۔ وطن سے محبت کی خاطر انھوں نے یہ صدمہ بھی برداشت کر لیا اور والد کے لیے دعائے مغفرت کر کے نئے عزم سے تعمیر وطن میں مصروف ہو گئے ۔وطن کو وہ اپنے جسم اور روح کی طرح عزیز رکھتے تھے ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
محمد آفاق احمد صدیقی نے اپنی اعلیٰ تعلیم پاکستان میں مکمل کی ۔یہاں انھوں نے سندھی اوراردو زبان و ادب میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔پاکستان پہنچنے کے بعد وہ کچھ عرصہ کراچی میں مقیم رہے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سکھر منتقل ہو گئے اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔سکھر میں ان کا تقرر بہ حیثیت معلم اردو سینٹ میریز ہائی سکول میں ہوا ۔انھوں نے سکھر میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا اور اس شہر کی علمی اور ادبی فضا میں پائے جانے والے جمود کا خاتمہ کر دیا ۔اپنے ممتاز ساتھیوں کے اشتراک سے انھوں نے پرورش لوح و قلم پر بھر پور توجہ دی اور عوام میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ان کے رفقا میںحسن حمیدی ،شیخ ایاز ، محسن بھوپالی ،فتح اللہ عثمانی اور نکہت بریلوی جیسے جلیل القدر تخلیق کار شامل تھے ۔تعمیر وطن کے کاموں میں انھوں نے گہری دلچسپی لی ۔سکھر میں انھوں نے مسلم ایجو کیشن سوسائٹی کی بنیا د رکھی ۔اس سوسائٹی نے اس علاقے میں تعلیم عام کرنے کے سلسلے میں انتھک کام کیا۔ان کی شبانہ روز محنت سے اس علاقے میں سوسائٹی نے چودہ مدارس کا سنگ بنیا د رکھا گیا۔اس طرح ان جدید تعلیم اداروںکے قیام سے یہاں تعلیمی انقلاب آ گیا۔گھر گھر میں تعلیم اور ترقی کے چرچے ہونے لگے اور دلوں کو ایک ولولہ ء تازہ نصیب ہوا ۔1971کے بعد حکومت پاکستان نے ان تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور رفتہ رفتہ یہ تعلیمی ادارے نوکر شاہی کی ریشہ دوانیوں کے باعث اپنے معیار اور وقار سے محروم ہو گئے ۔ جلد ہی ان کا ا نتخاب بہ حیثیت لیکچرر اردو ہو گیا اور وہ محکمہ تعلیم کالجز میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے ۔ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے وہ پر نسپل کے عہدے تک پہنچے اور گورنمنٹ کالج میر پور خاص (سندھ )سے بہ حیثیت پر نسپل ریٹائر ہوئے ۔ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد وہ مستقل طور پر کراچی منتقل ہو گئے ۔کراچی میں انھوں نے ’’اردو سندھی ادبی فائونڈیشن ‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلس کی داغ بیل ڈالی ۔ان کے اس کام کو پسندیدگی کی نگا ہ سے دیکھا گیا اور ادیبوں کی طرف سے انھیں زبردست پذیرائی ملی۔پاکستان بھر کے ممتاز ادیبوں سے ان کے رابطے تھے ان میں ڈاکٹر نثاراحمد قریشی ،پروفیسر بشیر سیفی ،ڈاکٹر محمد ریاض ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ،محمد شیر افضل جعفری ،رام ریاض ،سید جعفر طاہر ،غلام علی چین ،رانا سلطان محمود ،امیراختر بھٹی ،کبیر انور جعفری ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،محمد فیروز شاہ، ارشاد گرامی،پروفیسر محمد حیات خان سیال ،مہر بشارت خان ،شیر محمد ،مظفر علی ظفر اور سمیع اللہ قریشی کے نام قابل ذکر ہیں ۔اردو سندھی ادبی فائونڈیشن نے ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا اور متعدد کتب ،مسودات اور مخطوطے اس کی کوششوں سے ز یور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئے ۔وہ تاریخ کے مسلسل عمل پر پختہ یقین رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ سیل زماں کے تھپیڑوں سے کوئی بھی اولی الامر محفوظ نہیں رہ سکتا۔تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیل زماں کی مہیب لہروں اور گرداب میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں ۔اس کے با وجو دلفظ کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی کیوں کہ زندہ اور سچا لفظ تہذیبی بقا کی علامت ہے ۔
ادیبوں اور ادب کے طالب علموں سے ان کو جو قلبی لگائو تھا وہ ان کی شخصیت کو نکھار عطا کرتا ہے۔ اپنے عہد کے بڑے ادیبوں ،عظیم دانش وروں اور ادب کے شائقین کے ساتھ مراسم بڑھا کر وہ اپنے
لیے اطمینان اور ذہنی سکون کی ایک صورت تلاش کر لیتے تھے ۔ادبی نشستوں میں شرکت کرنا اور ان کے انعقاد میں گہری دلچسپی لینا ان کا معمول تھا۔وہ خود ایک بڑے شاعر تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑے انسان بھی تھے۔نو آموزشعرا کی حوصلہ افزائی کرنا ان کا شیوہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہی چراغ مستقبل کی امید ہیں ۔ان کے پاس جس کسی نے بھی اپنی کسی کتاب کا مسودہ ارسا ل کیا، انھوں نے اس کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے فوری طور پر ارسا ل کر دی ۔اس سلسلے میں وہ کسی رعایت کے قائل نہ تھے ۔الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔انھوں نے ہمیشہ وہی لکھا جو ان کے ضمیر کی آواز تھی ۔تنقیدی نشستوں میں ان کی وقیع رائے کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ۔مصر کے عرب طلبا اور طالبات کو اردو پڑھانے کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی الازہر (قاہرہ)میں تدریسی کامرانیوں کے وہ بہت مداح تھے ۔اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کووہ اپنی ذمہ داری خیال کرتے اور اس کام میں حصہ لینے والے احباب کی خدمت کو وہ ایک ایسی نیکی سے تعبیر کرتے جس کا اجر عظیم بارگاہ رب العزت سے ضرور ملے گا ۔شبلی نعمانی کی سیرت النبیﷺکو وہ سیرت نگاری کا بلند پایہ نمونہ قرار دیتے تھے۔محمد آصف خان کی تحریک پر وہ کلیات شاہ حسین کا منظوم اردو ترجمہ لکھنا چاہتے تھے لیکن حیف صد حیف کہ محمد آصف خان کے اچانک انتقال کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اردو زبان ایک عظیم پنجابی صوفی شاعر کے منظوم اردو ترجمے سے محروم ہو گئی ۔ اسیر عابد کے منظوم پنجابی ترجمہ دیوان غالب کو انھوں نے پسند کیا۔سید جعفر طاہر کے کینٹوز کو اردو میں ایک منفرد شعری تجربہ قرار دیتے تھے ۔محمد شیر افضل جعفری کے لسانی تجربے کو وہ پسند کرتے تھے اور یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ اردو زبان میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کر سکے ۔محمد شیر افضل جعفری نے اردو زبان میں پنجابی زبان کے الفاظ کو استعمال کیا اور اسے جھنگ رنگ کا نام دیا تھا ۔ان کے اس لسانی تجربے کو بہت پذیرائی نصیب ہوئی ۔
جھیں جھیں کتنی چنگی ہے کاٹھ کنواں سارنگی ہے
مستقبل کی اردو بھی افضل کی نیرنگی ہے (محمد شیر افضل جعفری )
اردو کلاسیکی شاعری ،جدید اردو شاعری ،عالمی ادبیات ،پاکستانی زبانوں کے ادب ،عربی ،فارسی اور سندھی ادب پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی ۔وہ قومی تہذیب و ثقافت اور ماضی کے عظیم تاریخی ورثے کو بہت اہم سمجھتے تھے ۔ اپنی خیال افروز اور فکر پرور شاعری سے انھوں نے قارئین کے احساس و شعور کو نئے آفاق سے روشناس کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان کے اخلاق حمید ہ کا واضح پرتو ان کے اسلوب میں موجود ہے ۔وہ ترجمے کے اعجاز سے دو تہذیبوں کے باہم ملاپ کی صورت تلاش کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں تہذیبی و ثقافتی اقدار اور زندگی کے مختلف رویوں کے متعلق ایک قابل فہم انداز فکر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔۔ان کا شعری مزاج اپنے عہد کے معاشرتی ،ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی مہک اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔
جب تک ترے جمال کی رعنائیاں رہیں کیا کیا نہ میری حوصلہ افزائیاں رہیں
یاد آئی جب کبھی ترے لہجے کی نغمگی دھیمے سروں میں گونجتی شہنائیاں رہیں
آفاق وہ نہیں ہے تو کیا رونق حیات کہنے کو لاکھ انجمن آرائیاں رہیں
زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔زندگی نے تجربات و حوادث کی شکل میںان کو جو جذبات ،مشاہدات اور احساسات عطا کیے ،وہ ان کے لیے ایک اہم شعری موادبن گئے ۔اسی کی اساس پر وہ اپنے قصر شاعری کی تعمیر کرتے ہیں ۔ان کے فکر و خیال کے سوتے زندگی کے مسائل اور واقعات سے پھوٹتے ہیں ۔ان کے خیالات قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں ۔ان کی شاعری متعدد نئے تجربات کے یقینی ابلاغ کی صورت میں قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔ان کے شعری تجربات قاری کو ایک منفرد ،متنوع ،دل کش اور مانوس تجربے سے آشنا کرتے ہیں ۔ان کا شگفتہ ،عام فہم اور پر لطف پیرایہ ء بیان ایک ایسے وسیع تر تناظر میں سامنے آتا ہے جو قاری کو شعور اور فکر وخیال کی وسیع و عریض وادی میں مستانہ وار گھومنے کی دعوت دیتا ہے ۔وہ دل کی بات اس خلوص سے لبوں پر لاتے ہیں کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے ۔ان کی دروں بینی اور جذبوں کی صداقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔وہ اپنی داخلی کیفیات کو مخفی نہیں رکھتے بل کہ اپنے جذبات واحساسات کو من و عن الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اپنے متنوع تجربات سے قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتے ہیں ۔
ہوک سی اٹھی دل میں آنسوئوں نے شہ پائی دیکھ اے غم دوراں پھر کسی کی یاد آئی
بے کھلی کلی دل کی بے کھلے ہی مرجھائی تم کہاں تھے گلشن میں جب نئی بہار آئی
دل کے ایک گوشے میں تیرے پیار کی حسرت جیسے شہر خوباں میں کوئی شام تنہائی
کون ہاں وہی آفاق جانتے ہیں ہم اس کو ہو شیار دیوانہ ،با شعورسودائی
پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے ۔ان کی کتب کو دنیا بھر میں شرف پذیرئی ملا۔ان کی علمی ،ادبی ،صحافتی اور قومی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔انھوں نے تراجم ،شاعری ،تنقید ،تحقیق اور تدریس کے شعبوں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ان کی تصانیف کی متعدد جہتیں ہیں جو کہ ان کے صاحب اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے ۔انھوں نے تمام اصناف ادب میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی ترجمہ نگاری نے ان کو منفرد اور ممتاز مقام عطا کیا ۔سندھی کلاسیکی شاعری بالعموم اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا بالخصوص اردو زبان میں جو ترجمہ اس عظیم تخلیق کار نے کیا ،وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ا ن تراجم کے اعجاز سے جہاں فکر و خیال کو ندرت ملتی ہے وہاں اس کے بصیرت افروز مباحث سے علوم کو ایک جہان تازہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ ان تازہ افکار کے وسیلے سے قاری کو نئے خیالات ،نئے تصورات اور نئے علوم سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا ہے ۔انھوں نے اپنے مسحور کن اسلوب سے ذہنی بالیدگی اور وسیع النظری کو یقینی بنایا ۔ان کے تراجم نے اردو زبان وادب کو متعدد نئے ،منفرد ،حسین اور سدا بہار اسالیب سے روشناس کرایا ۔ انھوں نے اردو زبان کے ذخیرہ ء الفاظ میں تراجم کے ذریعے اضافہ کیا ۔ان کی اس علمی خدمت کے ذریعے اردو زبان کے دامن میں گل ہائے رنگ رنگ کی فراوانی ہو گئی ۔نئے مضامین اور موضوعات کی آمد سے تخلیقی یکسانیت اور جمود کا قلع قمع ہو گیا ۔تجربات ،مشاہدات ،ابلاغ اور اسالیب کے نئے در ہو تے چلے گئے ۔اردو میں تر جمہ نگاری کی جو شمع انھوں نے فروزاں کی اس کی بہ دولت سفاک ظلمتیں کافور ہو گئیں اور تراجم کی لہر سے ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ان کی تصانیف نے اردو زبان و ادب کے قارئین اور تخلیق کاروں کو جدت تخیل اور فکر ی تنوع کی وہ راہ دکھائی جس سے وہ پہلے نا آشنا تھے ۔ان کی درج ذیل تصانیف ان کے لیے شہرت عام اور بقائے دوام کا وسیلہ ثابت ہوں گی ۔
ادب جھروکے (مضامین)،ارمغان عقیدت ،ادب زاویے ،احوال سچل (انتخاب کلام سائیں سچل سرمست )،بابائے اردووادیء مہران میں ،بوئے گل نالہء دل (شیخ ایاز کا اردو کلام )،بڑھائے جا قدم
ابھی (سال اشاعت1965)،بساط ادب (تنقیدی و تحقیقی مضامین )،پیام لطیف (شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام اور پیام )پاکستان ہمارا ہے (ملی نغمے )،تاثرات (تنقیدی مضامین)،جدید سندھی ادب ،جدید سندھی ادب کے اردو تراجم (تحقیق)،ریگ زار کے موتی (شمالی سندھ کے شعرا)،ریزہء جاں (شعری مجموعہ ) سال اشاعت 1966،سیرۃالبشر (تہذیب کا سفر )،سر لطیف (گیت )،شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور عصر حاضر ،شخصیت ساز (مضامین)،شاعر حق نما (سچل سرمست کی شاعری اور شخصیت )،شاہ جو رسالو: تصنیف شاہ عبداللطیف بھٹائی (منظوم اردو ترجمہ )،صبح کرنا شام کا (خود نوشت )سال اشاعت 1998،عکس لطیف (شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شخصیت اور شاعری )سال اشاعت 1974،قلب سراپا (شاعری )سال اشاعت 1964،کوثر و تسنیم (حمد و نعت )سال اشاعت 1949,،کلاسیکی ادب :ایک مطالعہ ، شاہ عبداللطیف لطیف کی شاعری اور شخصیت (تحقیق اور تنقید )،شکیلہ رفیق : فن اور شخصیت (تنقید )۔
پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم تھے ۔اپنے شاگردوں کو وہ اپنی اولاد کی طرح محبت اور شفقت سے نوازتے ۔ان کا ناصحانہ انداز نو خیز طلبا پر گہرا اثر چھوڑتا اور ان کی لوح دل پر ان کی دردمندی اور خلوص سے لبریزگفتگو کے انمٹ نقوش مرتب ہوتے ۔اپنے عزیزوں کو وہ اکثر یہ بات بتایا کرتے کہ جب دولت ہاتھ سے چلی جائے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کچھ بھی نقصان نہیں ہوا ۔انسان محنت شاقہ سے کھوئی ہوئی دولت اور گم شدہ زرومال اور میراث حاصل کر سکتا ہے ۔جب کسی جسمانی عارضے کے باعث انسانی صحت میں ضعف کے آثار دکھائی دیں تو یہ بات قابل توجہ ہے اور یہ جان لینا چاہیے کہ معمولی نقصان ہو گیا ہے جس کی تلافی دوا ،علاج اور پرہیز سے ممکن ہے ۔اس کے بر عکس جب کوئی انسانی متاع کردار سے عاری ہو جاتا ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ وہ بد نصیب شخص متاع زیست گنوا بیٹھا۔اس کی شخصیت راکھ کے ڈھیر میں بدل جاتی ہے جس میں کچھ باقی نہیں رہتا ۔یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ جس کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی کی کوئی صورت نہیں۔معاشرتی زندگی میں قحط الرجال کے باعث زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو شدید ضعف پہنچا ہے ۔شعبہ ء ادب میں لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوںنے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔چربہ ساز ،سارق اور کفن دزد عناصر نے جعل سازی اور مکر کی چالوں سے ہوس زر اور جلب منفعت کو وتیرہ بنا رکھا ہے ۔ان حالات میں جوہر قابل کا کوئی پرسان حال نہیں۔پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی اس لرزہ خیز اعصاب شکن صورت حال سے بہت دل برداشتہ تھے اور اکثر اپنے عزیزوں کو یہ نصیحت کرتے کہ تخلیق ادب کو کبھی منفعت بخش خیال نہ کرنا یہ تو سراسر جی کا زیاں ہے ۔معاشرتی زندگی میں ادیبوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر وہ بہت دل گرفتہ رہتے تھے ۔اس مناسبت سے وہ غالب کا یہ شعر اپنے دبنگ لہجے میں پڑھتے تو سامعین کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔
ہمارے شعر ہیں اب صر ف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
اللہ کریم نے پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی کو بردباری ،تحمل ،حق گوئی و بے باکی ،خلوص و درد مندی ،حب الوطنی اور انسانی ہمدردی کے اوصاف سے متمتع کیا تھا ۔وہ ایک وسیع المطالعہ ،وسیع النظر اور وسیع المشرب انسان تھے ۔ان کے دل کی دھڑ کن سے ایک ہی نغمہ پھوٹتا تھا اور یہ صدا آتی تھی کہ میرا پیغام بے لوث محبت ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔وہ بلا امتیاز سب سے والہانہ محبت کرتے ۔ہر قسم کے لسانی ،علاقائی ،نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے وہ عمر بھر دور رہے ۔ان کی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ روش کی بنا پر بعض لوگ انھیں سیکولر خیالات کا حامل گردانتے ۔ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ توحید ،رسالت اوراسلام کی آفاقی تعلیمات پر یقین کامل رکھتے تھے ۔ان کی حمدیہ ،نعتیہ،اور ملی شعری اس کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ملت اسلامیہ کی فلاح انھیں دل و جان سے زیادہ عزیز تھی ۔وہ لسانی ، نسلی ،مذہبی اور فر قہ وارانہ تعصبات اورہر قسم کی انتہا پسندی کو ملکی سا لمیت اور بقا کے خلاف سمجھتے تھے ۔ایک عظیم محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں تمام عمر قومی تعمیر و ترقی کے لیے سخت جد وجہد کی۔ وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور سلوک کرتے اور ان سے مل کر ہر ملاقاتی خود اپنی نظروں میںمعزز اور مفتحر ہو جاتا۔ وہ مس خام کو کندن اور ذرے کو آفتاب بنانے والے معلم تھے ۔ ان کے شاگرد ان کے فیضان نظر سے ترقی کے مدارج طے کرتے چلے جاتے اور ہمیشہ ان کے مداح رہتے جس خلوص ،دردمندی اور قلبی وابستگی سے وہ پتھروں کی تراش خراش سے انھیں در نایاب میں بدل دیتے وہ ان کی معجز نما شخصیت کی انفر ادیت کی دلیل ہے ایسا با عمل عالم اور با کمال معلم ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا ۔ان کے لاکھوں شاگر د اپنے استاد کے بارے میں یہ رائے دیتے ہیں۔
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اپنی آہ سحر سے خرد افروزی کا معجز نما کرشمہ دکھانے والے پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے تمام عمر اپنی خو د داری ،انا اور استغنا کا پرچم سر بلند رکھا ۔جبر کا ہر اندا زمسترد کرنا ان کا شیوہ تھا ۔فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہو نا ان کے نزدیک جبر سے بھی زیادہ قبیح اور اہانت آمیز فعل تھا۔وقت کے فراعنہ کو ان کی اوقات یا دلانے میں انھوںنے کبھی تامل نہ کیا ۔در کسریٰ پر صدا کرنے والوں اور کوڑے کے ڈھیر سے جا ہ و منصب کے استخواں تلاش کرنے والے سگان راہ سے انھیں شدید نفرت تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ جامد و ساکت اہرام ،کھنڈرات اور سنگلاخ چٹانوں میں موجود حنوط شدہ لاشیں انسانیت کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ بے بس ،مظلوم اور قسمت سے محروم انسانوںکے مصائب و آلام مجسموں ،کٹھ پتلیوں اور پتھروں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں ۔پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی کی زندگی قناعت کی عمدہ مثال ہے ان کی گزر اوقا ت پنشن کی معمولی رقم اور کتابوں کی حقیر رائیلٹی پر ہوتی تھی ۔اس تنگ دستی کے با وجود انھوں نے کسی قسم کی لابنگ اور جی حضوری کا سہارا نہ لیا ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ذیا بیطس کے عارضے میں مبتلا ہو گئے ۔وہ رفتہ رفتہ وقت کی تہہ میں اترتے چلے گئے اور بے مہری عالم کو دیکھ کر اپنی یاد داشت تک کھو بیٹھے ۔اور پھر ان کی چشم کے مرجھاجانے کا سانحہ ہو کے رہا اور وہ زینہ ء ہستی سے اتر کر قلزم خوں پار کر گئے ۔اس خود غرض ،بے حس ،ابن الوقت اور مفاد پرست معاشرے نے ایک زیرک ،فعال ،مستعد اور دردمند تخلیق کار کو جیتے جی مار ڈالا ۔حریت فکر کے ایک مجاہد کو زندہ در گور کردیا ۔اپنی زندگی کے آخری ایام انھوں نے جس کس مپرسی کے عالم میں گزارے وہ مقتدر طبقے کے لیے لمحہ ء فکریہ ہے ۔ ہر دور میں حریت ضمیر سے جینے والوںکے لیے پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی کا کردار لائق تقلید رہے گا ۔انھوں نے دل پہ جبر کیا اور لب اظہار پہ تالے لگا لیے اور کسی کی بے اعتنائی ،بے توجہی اور کینہ پروری کے بارے میں کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔ صبر کی روایت میں انھوں نے لب کبھی بھی وا نہ کیے اور جبر کے سامنے کبھی سر نہ جھکایا ۔ یہ درست ہے کہ کاروان حسین ؓ کو ہمیشہ صعو بتوں کا سفر درپیش رہا ہے جب کہ وقت کے شمر اور یزید چین سے مسند نشین رہتے ہیں ۔پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے عمر بھر کسی کا بار احسان نہیں اٹھایا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں ایک توازن اور اعتدال کی صورت پیدا کر لی تھی ۔اسی لیے وہ اپنا خو د ہی احتساب کر لیتے تھے ۔اپنی ذات کے حوالے سے وہ نفس کشی کے قائل تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ نفس امارہ پر قابوپا کر انسان کئی مصائب و آلام سے نجات حاصل کر سکتا ہے ا نھوں نے ہمیشہ قوم کے ضمیر کی ترجمانی کی اور حرف صداقت لکھنے کو اپنا نصب العین بنایا ۔انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت سے ایک ایسی با وقار ذہنی فضا پیش کی ،جس کے مثبت اثرات سے دلوں کو مرکزمہر و وفا کرنے میں مدد ملی ۔ان کی شاعری میں جو نئی احساساتی کیفیت جلو ہ گر ہے وہ ان کے متنوع اور منفرد شعری تجربات کی مرہون منت ہے ۔آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہوس زراور جلب منفعت نے انسانیت کو انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے معاشرتی زندگی کی
ان قباحتوں سے دامن بچائے رکھا ۔تخلیق فن کے لمحو ں میں جس خلوص ،درد مندی ،تہذیب و شائستگی اور گل افشانی گفتار کا مظاہرہ کرتے ہیںوہ انھیں اپنے معاصر شعرا میں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے ۔ ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن ان کی نظر ہمیشہ فراز پر رہی۔مشکلات سے ہراساں ہو کر دل شکستہ ہونا ان کے نزدیک بزدلی کی علامت ہے ۔انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور زندگی کی حیات آفریں اور درخشاں روایات کی سر بلندی کی خاطر انھوں نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا ۔وہ چاہتے تھے کہ عظیم صوفی شعرا نے انسانیت کے بارے میں جو آفاقی تصور پیش کیا ہے اسے گھر گھر پہنچایا جائے اس طرح عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں یقینی مدد مل سکتی ہے ان کی عظیم شخصیت کی بے مثال خوبیاںجن میں وضع داری ،خلوص ،وفا ،ایثار ،دردمندی اور محبت شامل ہیں ان کے اسلوب میں نمایا ں ہیں۔ دائمی مفارقت دینے والوں کو یاد رکھنا اور ان کے بارے میں اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرنا ایک جان لیوا دکھ ہے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی اور تقدیر کے وار ہیں جو سب پس ماندگان کو مستقل محرومی اور الم نصیبی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔جب بھی کوئی رفیق عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیتا ہے مجھے یو ں محسوس ہوتا ہے،میرے وجود کا ایک حصہ مجھ سے الگ ہو کر اس عزیز کے ساتھ لحد میں سما گیا ہے ۔اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آنے والاہے جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا اور ہم بھی رفتگاں سے جاملتے ہیں۔موت جو درد لا دوا دے جاتی ہے اس کا مداوا کسی صور ت ممکن نہیں ۔ہم اپنے دلوں کو رفتگاں کی یاد سے عطر بیز رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔رفتگاں کی یادوں کے زخم کبھی بھر نہیں سکتے جب تک دم میں دم ہے ان کی یادیں نہاں خانہ ء دل میں اپنے وجود کا اثبات کرتی رہیں گی اور ہمیں زندگی کی کم مائیگی کا احساس دلاتی رہیں گی ۔ اس عظیم تخلیق کار کی یاد میں اپنے جذبات حزیں پیش کرتے وقت مجھے ان کے یہ اشعار یاد آئے جو ان کی یاد میں پیش کیے جا رہے ہیں ۔
ہے وہی دنیا وہی ہم ہیں مگر تیرے بغیر سونے سونے سے ہیں یہ شام و سحر تیرے بغیر
راس کیا آئے گی کوئی رہ گزر تیرے بغیر کیسے طے ہو گا یہ غربت کا سفر تیرے بغیر
روشنی تھی جن چراغوں سے وہ سارے بجھ گئے ماتمی ہیں آج سب دیوار و در تیرے بغیر
رو بہ رو اک ڈھیر ہے مٹی کاباقی کچھ نہیں اب نہ گھروالے سلامت ہیں نہ گھر تیرے بغیر
کھو گئیں وہ صورتیں سب جانی پہچانی ہوئی کس کو دیکھوں اور کیاآئے نظر تیرے بغیر
رہ گیا ہوں پھڑ پھڑا کر زندگی کے جال میں ایک پنچھی کی طرح بے بال و پر تیرے بغیر
چھوڑ کر اس حال میں او جانے والے دیکھ تو بوجھ کتنا ہے دل آفاق پرتیرے بغیر