فاتحین کی حیثیت سے بر صغیر میں مسلمانوں کی آ مد ( 712ء ) کے ساتھ ہی اس خطے میں تہذیبی ،ثقافتی،معاشرتی زندگی اور لسانی سطح پر ایک انقلاب بر پا ہو گیا۔ راجوں ،مہاراجوں کے راج محل اور راج دھانی کی ساری کتھا کہانی ہی بدل گئی ۔نئے زمانے اور نئی صبح شام کا آغاز ہو نے سے ادب او ر فنون لطیفہ کو ایک جہانِ تازہ سے آ شنا کرایا گیا۔گوٹھ ،گراں ،دیہات اور قصبات کی جامد زندگی کو چھوڑ کر نئی شہر بسانے پر توجہ مرکوز ہو گئی ۔ محمد تغلق کی دکن آمد ( 1327 ء ) اور دولت آباد شہر کے بسنے کے ساتھ ہی اِس خطے میں لسانی تغیر و تبدل کا ایک ہمہ گیر سلسلہ شروع ہو گیا۔ فکر و نظر کے اِس انقلاب کے نتیجے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو نئے شہر بس گئے اُن میں احمد آباد، احمد نگر،اورنگ آباد،جون پور ،حیدر آباد ،دولت آباد ،فتح پور سیکری اور شاہ جہان آباد کو لسانیات کے ارتقا کی وجہ سے شہرت مِلی ۔خلجی ،تغلق ،لودھی،قطب شاہی ،عادل شاہی اور مغل دور میں اس خطے میں لسانی ارتقا کا عمل تیزی سے جاری رہا۔مسلمان فاتحین نے اپنی زبان یہاں پر مسلط نہیں کی بل کہ اُن کی زبان اور مقامی بولیوں کے امتزاج سے ایک نئی زبان کی نمو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حسن بہمنی نے جب تغلق حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اِس کے نتیجے میں دکن کے کچھ علاقوں میں سلطنت بہمنی قائم ہو گئی ۔اس عرصے میں دکن میں پروان چڑھنے والی زبان موجودہ اُردو کے بہت قریب ہے ۔یہاں جو زبان پروان چڑھی اُس نے جن مقامی بولیوں سے اثرات قبول کیے اُن میںتلگو اور مراٹھی قابلِ ذکر ہیں ۔ جنوبی ہند کے باشندے ایک عرصے سے شمالی ہند کے تہذیبی و ثقافتی تسلط سے ناخوش و بیزار تھے ۔دکن کے باشندوں نے اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھنے کی مقدور بھر سعی کی ۔دکنی لہجے پر مراٹھی اور گجراتی زبانوں کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔گولکنڈہ میں قطب شاہی دور میں دکنی زبان کو سازگار ماحول میسر آیا ۔یہاں وجہی اور غواصی جیسے تخلیق کاروں نے اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں ۔بیجاپور کے بادشاہوں نے بھی اِس نئی زبان کے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی ۔ یہاں جن تخلیق کاروں نے اس نئی زبان کی ثروت میں اضافہ کیا اُن میں شاہ میراں جی شمس العشاق ( خوش نامہ ) کانام نمایاں ہے ۔ان تخلیق کاروں کی تخلیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ اُنھوں نے جو ذخیرہ الفاظ استعمال کیا اُس کے سوتے بر صغیر کی بولیوں ہی سے پھوٹتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نئی زبان نے متعدد فارسی،عربی اورترکی الفاظ کوبھی اپنے دامن میں سمو لیا ۔قارئیں کی دلچسپی کی خاطر ذیل میں اس لسانی انجذاب کااحوال پیش کیا جاتاہے ۔
قدیم دکنی
جدیداردو الفاظ
قدیم دکنی
جدید اردو الفاظ
کان
کہاں
بڈھائے
بڑھائے
دستے
نظر آتے
بھریا
بھرا ہوا
اجوں لک
ابھی تک
بجنا گ
جُدائی
رخن
طرف
بست
چیز
یاں
یہاں
بولیچ ہیں
بولتے ہیں
پات
پتے
بسلایا
بٹھایا
بھر
باہر
بِھیتر
درمیان
ہمنا
ہم کو
بیگچ
جلدی سے
کوں
کو
پرتے
مطابق
سجن
معشوق
تلملے
تلملائے
اس پو
اس پر
ٹھار
جگہ
گگن
آسمان
جیواں
جی
بہوت
بہت
جہلانچہ خاطر
جاہلوں کی خاطر
اتھا
تھا
جاہلاں
جہلا
تمن
تم کو
چکلیا
زور سے دبانا
نین
آنکھ
چلنت
چال
کدھن
سمت ، جانب
چِمتی
چیونٹی
جکوئی
جو کوئی
حوساراں
ہو شیاروں
سمد در
سمندر
حوت
روشنی
رسن
زبان
خوبیج
خوبیاں
نیں
نہیں
دھات
طرز /طرح
منج
مُجھ
دھنی
مالک
وو
وہ
دِیوا
شمع
یو
یہ
دِستا
دِکھائی دیتا
کنے
پاس
دُسرا
دوسرا
اس حد لگن لیا ہے
اس حد تک لیا ہے
دُسریاں
دُوسروں
انپڑے
پہنچانا
دھایا دھات بات
طرز کی بات
اجھیگا
رہے گا
میرا کہنا
میرا کہا
اودھرم
بے دھرم
دیکھنے دیوے
دیکھنے دے
انجیتا
ان جان /نہ جاننے والا
ہِلنے جُلنے باج
ہِلے جُلے بغیر
ایساح ہے
ایسا ہے
منے
مُجھے
اڑنا
مشکل میں ہونا
کتا
کوتاہ
اچھنا
ہوتا
کھڈا
گڑھا
اُچا سکتی
اُٹھا سکتی
سمدی
سمدھی
اَچھکلی
ہو گی
باندنا
باندھنا
انگے
آگے
کیدر
کِدھر
قدیم دکنی الفاظ
جدید اردو الفاظ
قدیم دکنی الفاظ
جدید اردو الفاظ
سادُ و
سادُھو
گڑا
گڑھا
چڑاؤ
چڑھاؤ
بڑائی
بڑھائی
سیڑی
سیڑھی
لٹھو
لٹو
اُلٹھا
اُلٹا
پلٹھانا
پلٹانا
تکڑا
ٹکڑا
تھٹھرنا
ٹھٹھرنا
دیڑھ
ڈیڑھ
تاٹ
ٹاٹ
تھنڈ
ٹھنڈ
چُننا
چُونا
پَھکا
پھیکا
رات دیں
رات دن
ریل جھیل
ریل پیل
سور
سورج
سرنگ
خوش رنگ
سمجیا
سمجھا
سنمکہ
آمنے سامنے
سب سوں ملیاں
سب سے مِلا
سرجنہار
پیداکر نے والا
سنگاتی
ساتھی
سراں تے
سر ہانے
سینچ
سننے سے
کاکلوت
حرص
کاڑ
نکال کر
کوڑ
دغا/ جھوٹ
کج فامی
غلط فہمی
کسیچہ
کسی میں
کیتک
کتنے
لوکاں
لوگوں
مایا
سمایا
مانک
موتی
منگتا
چاہتا
مورک
بے وقوف
میانے
درمیان
مینچ
میں ہی
نوی
نئی
نظر سٹے
نظر پڑے
نانوں
نام
نھنواں کا کھیل
بچوں کا کھیل
وہیچ
وہی
ہمنا
ہم کو
ہتی
ہاتھی
سور
اور
سوں
سے