(پیدائش : جھنگ:1895 وفات :جھنگ :31مارچ1974 ،مدفن کر بلا حیدری ۔جھنگ شہر )
یہ 1966کی بات ہے جب میں نے اپنے گائوں کے مڈل سکول سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔گائوں کے نزدیک کوئی ثانوی مدرسہ نہ تھا اس لیے میرے والدین نے مجھے جھنگ کے ایک بڑے ثانوی مدرسے میں جماعت نہم میں داخل کرایا اور اسی مدرسے کے دارالاقامہ میں میرے قیام و طعام کا بندوبست بھی کر دیا۔گائوںکے محدود ماحول سے نکل کر جب شہر کی پر ہجوم فضا میں پہنچا تو کوئی پرانا آشنا چہرہ دکھائی نہ دیا ،ہجوم غم میں دل کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔اس بدلے ہوئے ماحول میںنئے دوستوں اور رفقائے کار کی تلاش تھی جو اس تنہائی میں ڈھارس بندھائیں اور گھر سے ساٹھ میل کی دوری اور پرانی یادوں کی گرفت سے نکال کر نئے زمانے نئے صبح و شام پید اکرنے کا حوصلہ دیں۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ دارالاقامہ میں مجھے ارشد علی خان ،عزیز احمد خان،پرویز اقبال ،محمد اسلم،غلام محمد سرگانہ ،ظفر اللہ خان اور محمد سرور جیسے دوستوں کی رفاقت میسر آئی۔ دارالاقامہ میںمولا بخش اور شمشاد جیسے کہنہ مشق باورچیوں نے گھر کے کھانوں کے مزے کی یاد بھلا دی او ر طعام کے ایک انوکھے ذائقے سے آشنا کیا۔ نامور ماہر تعلیم او ر ثانوی مدرسے کے سینئیر استادعبدالحلیم انصاری دارالاقامہ کے مہتمم تھے۔ان کے چھوٹے بھائی حبیب الرحمٰن میرے ہم جماعت تھے۔ اس کے باوجود ہم سب کا بھری محفل میں دل ہی نہ لگتا تھا ہر وقت کسی کی کمی محسوس ہوتی تھی ۔جماعت نہم کے داخلے جاری تھے اسی دوران دو نئے مقامی طالب علم کیا آئے کہ پوری جماعت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ان میں سے ایک کا نام غلام قاسم خان اور دوسرے کا نام محمد سلیم خان تھا ۔ان دونوں طالب علموں نے مڈل کے امتحان میں پورے ریجن میں علی الترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔یہ نئے ہم جماعت نہ صرف علمی سطح فائقہ پر فائز تھے بل کہ اللہ کریم کے فضل و کرم سے مالی اعتبار سے بھی مستحکم تھے۔اپنی خاندانی شرافت اور عظمت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ مقامی طالب علم ہر سہ پہر کو دارالاقامہ پہنچتے ،چند دوستوں کو ساتھ لیتے ا ور ہیر کے شہر لے جاتے۔ہم مل کر مطالعہ کرتے اور شام کا کھانا بھی اپنے ان دوستوں کے گھر سے کھاتے۔اس دوران مجھے محمد سلیم خان کے والد ڈاکٹر محمد کبیر خان اور غلام قاسم خان کے والد غلام علی خان چین سے ملاقات کا موقع ملا۔قدرتِ کاملہ نے ان دونوں بزرگوں کو خاک کو اکسیر کرنے اور غبارِ راہ سے جلوہ ہا تعمیر کرنے کی صلاحیت سے نوازا تھا۔ یہ بزرگ کردار اور وقار کا ہمالہ تھے جن کے فیضانِ نظر سے مقدر بدل جاتے۔ انھوں نے استحقاق سے کہیں بڑھ کر ہماری پذیرائی اور قدر افزائی کی ان کی شفقت سے آج بھی دامنِ دل معطر ہے۔وہ ہم سب کو اپنے بچوں کی طر ح عزیز رکھتے تھے اورہماری ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔
جھنگ شہر میں جس خاندان نے ایک ہزار سال سے انسانیت کے وقار ،سر بلندی ،بے لوث خدمت ،خلوص اور دردمندی کو شعار بنا رکھا ہے وہ ڈاکٹر محمد کبیر خان کاخاندان ہے۔ دنیا میںجب آفتاب ِ اسلام کی ضیا پاشیوں کاآغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی اس علاقے میں بھی اسلام کی روشنی سے کُفر کی ظُلمتیںکافور ہو گئیں۔ڈاکٹر محمد کبیر خان کے خاندان کا پیشہ تجار ت،تدریس اورحکمت تھا۔صدیوںسے ان کے بزرگ تجارت کی غرض سے عرب مما لک میں جاتے رہتے۔ اس خاندان نے فروغِ علم و ادب کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔غلام علی خان چین کا خیال تھا کہ اس علاقے میں اسلام کا آفاقی پیغام بعثت نبویﷺ کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا۔ڈاکٹر محمد کبیر خان کا خاندان ان قدیم ترین خوش نصیب خاندانوں میں شامل ہے ،جنھوں نے712 میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے بہت پہلے اسلام قبول کیااور اسلام کی ابد آشنا تعلیمات کے فیضان سے متمتع ہوئے۔ ان کے خاندان نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیااور قائداعظم کی قیادت میں آزادی کے قافلے میں شرکت کر کے طلوع صبح بہاراں کو یقینی بنانے کی جد جہد کی۔غلامی کے مہیب دور میں جب خزاں کے سیکڑوں اعصاب شکن مناظر نے محکوم قوم کے اعصاب کو شل کر دیا تھا محمد کبیر خان نے اپنے نو جوان ساتھیوں سے مل کر فروغِ گُلشن و صوت ِ ہزار کے موسم کی آمد کی راہ ہموار کرنے کی مساعی میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔جھنگ شہر میں جن پُر عزم نو جوانوں نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچایا ،ان میں حاجی محمد یوسف ، کبیر انور جعفری ،سید جعفر طاہر ، امیر اختر بھٹی،محمد شیر افضل جعفری ، رانا عبدالحمید خان، حکیم یار محمد ،غلام علی خان چین، اللہ دتہ سٹینو،سید مظفر علی ظفر ،غلام محمد رنگین،خادم مگھیانوی، شوکت حیات کُپلانہ ،غلام فرید کُپلانہ،اللہ داد،محمو د بخش بھٹی ،احمد بخش ،خدا بخش ،ملک محمد عمر حیات ،حکیم احمد بخش نذیر ،اللہ دتہ حجام ،حاجی غلا م محمد ، حکیم امیر الدین ،حکیم شیر محمد ،رانا سلطان محمو د،حکیم محمد صدیق ،رانا نذر محمد ،مرزا محمد وریام،حکیم محمد اسماعیل ،حکیم طالب حسین اور محمد بخش آڑھتی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔محمد کبیر خان نے جب ہوش سنبھالا تو پُورا بر صغیربر طانوی استبدادکے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔اُن کے آبا واجداد نے علی گڑھ تحریک کی حمایت کی اور سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار کے قومی فلاح کے منصوبوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ محمد کبیر خان کے والدین نے اپنے اس فطین بچے کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی۔ دینی تعلیم شہر کے ممتاز علما سے حا صل کی ۔زمانہ طالب علمی میں محمد کبیر خان نے ہر امتحان میں اپنی محنت ،لگن اور مستعدی سے ہمیشہ امتیازی کام یابی حاصل کی۔ محمد کبیر خان نے اپنی ابتدائی تعلیم جھنگ میں مکمل کی اس کے بعد لاہور روانہ ہوئے وہاں سے میڈیسن اورسرجری کی تعلیم حاصل کی ۔ ایک فطین طالب علم کی حیثیت سے وہ ہر امتحان میں اول آتے یہی وجہ ہے کہ اساتذہ ان کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرتے ۔ ان کے والدین، اساتذہ اور تمام ہم جماعت ان کی قابلیت کے معتر ف تھے ۔میڈیسن اور سرجری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نوجوان ڈاکٹر نے جھنگ میں محکمہ صحت میں ملازمت کا آغاز کیا۔جذبہء خدمت سے سرشار اس با ہمت نوجوان ڈاکٹر نے دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کو اپنی زندگی کا نصب ا لعین بنایا اور غریبوںاور بیماروں کے ساتھ جو درد کا رشتہ اور عہدِ وفا استوار کیااسے علاجِ گردش ِلیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل کیا۔ نوجوان محمد کبیر خان نے زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان کے دوران اپنے علاقے کے عوام میں مثبت شعور وآگہی پیدا کرنے کے سلسلے میں جو خدمات انجام دیں انھیں بر صغیر کی قومی قیادت نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔انھوں نے علامہ اقبال سے 1930میں اپنے طالب علم ساتھیوں سمیت الہ آباد میں ملاقات کی اور ان کے تاریخی خطبہ الہ آباد کو سن کر اپنے دل میں ایک ولولہء تازہ محسوس کیا۔اپنے نوجوان ساتھیوں اور تحریک پاکستان کے پُر جوش حامیوں کے ساتھ مِل کر وہ 23۔مارچ 1940کو لاہور پہنچے۔منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک )میں انھوں نے مسلم لیگ کے اس تاریخی جلسے میں شرکت کی ،جس کی صدارت قائد اعظم نے کی اور جس جلسے میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔وہ اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ان کی آنکھوں نے بر عظیم کے مدبر قائدین اور مصلحین کو دیکھا اور ان کی ولولہ انگیز تقاریر سنیں ۔جب قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تو پُورے بر عظیم کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔علی گڑھ تحریک سے وہ بہت متاثر تھے اور سر سید احمد خان کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔بر عظیم سے بر طانوی استعمار کے خاتمے کے لیے جو مسلمان رہنما سر گرمِ عمل تھے وہ ان سے مسلسل رابطے میں رہتے۔ جن ممتاز رہنمائوں سے ملنے کا انھیں اعزاز حاصل ہوا ان میں مولوی فضل حق، مولانا ظفر علی خان ، الطاف حسین حالی ،سردار عبد الرب نشتر اورمولانا حسرت مو ہانی کے نام قابل ذکر ہیں۔وہ یہ بتا کر بہت خوشی محسوس کرتے تھے کہ انھوں نے ایک آزاد وطن کے قیام کی جد و جہد میں مقدور بھر حصہ لیا۔
جھنگ شہر کے قدیم علاقے جو کہ طوفانِ نوح کی باقیات کا منظر پیش کرتے ہیں یہاں نجی سطح پر اعلا معیار کا پہلاشفاخانہ قائم کرکے ڈاکٹر محمد کبیر خان نے خدمت میں عظمت کی درخشاں مثال پیش کی ۔قیامِ ہاکستان سے پہلے اس شہر میں عطائیوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔ بے شمار طوطے والے نجومی ،رمال،عامل، جنتر منتر کرنے والے ،عطائی،ماندری اور ٹونے ٹوٹکے کرنے والے سفہاہوسِ زر کے اسیر تھے اور سادہ لوح لوگوں کو صحت اور علاج کے نام پر لُو ٹنے اور اپنی تجوری بھرنے میں مصروف تھے۔ اس مسموم ماحول اوراعصاب شکن حالات میں جذبہء خدمت سے سرشار ایک مستند ،مستعد اور قابل معالج کی آمد سے علاقے کے لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔جھنگ شہر کے مصروف ترین تجارتی مرکز نور شاہ بازار میں واقع اس شفاخانے میں مسلسل چھے عشروں تک علاج معالجے کی سہولت دستیاب رہی۔ ابتدا میں یہ شفاخانہ شام کو عصر کے بعد کُھلتا اور رات گئے تک یہاں مریضوں کا علاج جاری رہتا ۔سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر محمد کبیر خان نے اس شفاخانے کو ہمہ وقت کُھلا رکھا۔شفاخانے کے ساتھ ہی ایک کشادہ مکان میں مریضوں کے قیام کا انتظام بھی تھا ۔ اس مکان میں بجلی ،پانی ،غسل خانے اور بیت الخلا کی سہولت میسر تھی۔ مریضوں کے قیام کے لیے یہ جگہ بلامعاوضہ دستیاب تھی ۔مفلس ،نادار اور مفلوک الحال مریضوںکوکھانا بھی مفت فراہم کیا جاتا تھا ۔ ڈاکٹر محمد کبیر خان نے انسانی ہمدردی،بے لوث محبت ،بے باک صداقت ، انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمحِ نظر بنایا ۔انھوں نے ہوس ِزرسے اپنا دامن کبھی آ ٓلودہ نہ ہونے دیا ۔حریت فکر و عمل اور حریتِ ضمیر کو زادِ راہ بنانے والے اس مر د ِ حق پرست نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے مہیب سناٹوں ،سفاک ظلمتوں اور ہوائے جورو ستم میں بھی حوصلے ،اُمید اور وفا کی شمع فروزاں ر کھی۔
ڈاکٹر محمد کبیرخان ایک درویش منش اور فرشتہ صفت انسان تھے۔وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ہر قسم کی عصبیت سے بالا تر رہتے ہوئے انھوں نے زندگی بھر دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا اور اُن زخموں کے اندمال کی مقدور بھر کوشش کی۔میلاد چوک جھنگ شہر کے نزدیک سڑک کے کنارے واقع ایک مکان میں یہ عظیم انسان مقیم تھا۔انگریزی لباس میں ملبوس یہ سفید ریش بزرگ معالج جب اپنے سر پر کُلاہ اور طرہ دار پگڑی باندھ کر باہر نکلتا تو اس کے احترام میں سب لوگ رُک جاتے اور انھیں جُھک کر سلام کرتے۔ضعفِ پیری کے باعث ان کی کمر میں ذرا سا خم تھا وہ کُھونڈا ٹیکتے ہوئے آہستہ آہستہ چلتے اور توقیر کی مجسم صورت میںسب کے دلوں کو مسخر کر لیتے۔اپنے مطب میں پہنچ کر وہ سب سے پہلے شفاخانے میں داخل زیر علاج مریضوں کا معائنہ کرتے ،ان کی خیریت دریافت کرتے اور انھیں حو صلے اور صبر کی تلقین کرتے۔ ڈاکٹر محمد کبیر خان بولتے تو باتوں سے پُھول جھڑتے اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر ان کی باتیں سنتے ۔وہ باوضو ہو کرشفاخانے میں اپنی نشست پر بیٹھتے اور مسلسل زیرلب آیاتِ کریمہ اور درود پاک کا ور دکرتے رہتے۔نظر کی عینک لگا کر مریضوں کو غور سے دیکھتے اور ان کی نبض پر ہاتھ رکھتے اور ساتھ ہی مریض کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کرتے۔جب وہ مریض کی نبض پر ہاتھ رکھتے تو مسیحائی کی تاثیر مریض کے قلب اوروح کی گہرائی میں اُتر جاتی اور وہ اپنے ا ندرزندگی کی ایک نئی حرکت و حرارت محسوس کرتا۔جب دن ڈھلتا تو کھانے اور نماز کے لیے مختصر سا وقفہ ہوتا اس کے بعد رات گئے تک وہ شفاخانے میں موجود رہتے۔شفاخانے کے ساتھ ہی ایک مسجد تھی جہاں وہ با جماعت نماز ادا کرتے ۔دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کو جو اعلا ترین معیار انھوں نے پیش کیا وہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔انسانی ہمدردی ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی،کسی انسان کو کانٹا بھی چُبھتاتو تڑپ اُٹھتے اور اس کے کرب کا مداوا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے۔اپنی بے مثال خدمات ،فیض کے کاموںاور نیکیوں کی بنا پر انھیں جو عزت ،وقار اورمقبولیت نصیب ہوئی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔
آج سے نصف صدی پہلے طبی سہولیات کے اعتبار سے جھنگ کی حالت پتھر کے زمانے کی یاددلاتی تھی۔اس شہر میں عطیہء خون دینے ،بے بس ولاچار ،مفلس و قلاش اور خستہ حال مریضوں کے علاج کے لیے مالی امداد فراہم کرنے،آفات ِ نا گہانی کی صورت میں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی مساعی ،ایک جدید ہسپتال کے قیام کے سلسلے میں اجتماعی سطح پر جوکام ہوا ڈاکٹر محمد کبیر خان اس کے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں۔دریائے چناب میں 1950اور 1973میں آنے والے سیلابوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔دریا کی طوفانی لہروں کا آٹھ فٹ بلند ریلا شہر میں داخل ہو گیا جس کی تباہ کاریوں کے باعث نشیبی بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔سیلاب کے بعد بالعموم کئی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں ۔ سب سے پہلے ڈاکٹر محمد کبیر خان نے ذاتی حیثیت میں متاثرہ علاقوںمیں ابتدائی طبی امداد فراہم کی اور دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی۔ اس آفتِ نا گہانی نے مجبور انسانوں کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دیں ۔سیلاب سے متاثرہ غریب لوگوں کو انھوں نے نہ صرف مفت ادویات فراہم کیں بل کہ ان کے قیام و طعام کا بھی انتظام کیا۔ان کی یہ خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور جریدہء عالم پر ان کا دوام ثبت رہے گا۔
ڈاکٹر محمد کبیرخان نے فروغ ِ تعلیم کے سلسلے میںجو فقید المثال جد و جہد کی وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔وہ علی گڑھ تحریک سے بہت متاثر تھے،اس لیے جدید سائنسی اور فنی تعلیم کو وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھتے تھے۔ اپنی بصیرت سے انھوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ علم وادب اور سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے نا گزیر ہے ۔انھوں نے تعلیم نسواںکی اہمیت کواجاگر کیا اور پردے کی پابندی پر زوردیا۔اپنے معتمد ساتھیوں کے تعاون سے انھوں نے تعلیم کے بارے میں عوام میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ان کی تحریک پر حاجی محمد یوسف نے جھنگ شہر میں نوجوان طالب علموں کو ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سکھانے کا ایک نجی ادارہ قائم کیا ۔ 1960میں روشنی کا سفر شروع کرنے والے اس ادارے میں غریب طالب علموں سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی تھی ۔یتیم اور غریب طلبا و طالبات کی اعلا تعلیم کو یقینی بنانے کی خاطر ڈاکٹر محمد کبیر خان نے اپنے تمام وسائل استعمال کیے۔ وہ اس رازداری سے ان شاہین بچوں کی سر پرستی کرتے کہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوتی۔وہ چاہتے تھے کہ الم نصیبوں کے احساس محرومی کو اس طرح ختم کیا جائے کہ ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اوروہ پورے اعتماد کے ساتھ عملی زندگی میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔انسانیت کا وقار اور سر بلندی ان کا مطمحِ نظر تھا ۔وہ جس خلوص ،دردمندی،انسانی ہمدردی اور ایثارکے ساتھ مجبوروں اور محروموں کی دست گیری کرتے اس کے اعجاز سے دلوں کو ایک ولوہء تازہ نصیب ہوتا۔ان کی اصلاحی اور فلاحی مساعی نے ید بیضا کا معجزہ دکھایااور سیکڑوں غریب طلبا و طالبات اپنی تعلیم مکمل کر کے مفید شہر ی بنے۔ڈاکٹر محمد کبیر خان کے بارِ احسان سے اس علاقے کے با شعور عوام کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔
ڈاکٹر محمد کبیر خان کو قدرتِ کاملہ کی طرف سے ذوق سلیم سے متمتع کیا گیا تھا۔کتابوں سے ان کی محبت ان کے ذوق سلیم کی مظہر تھی۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں تین ہزار کے قریب نادر و نایاب کتب موجود تھیں۔ بعض قدیم مخطوطے ،مشاہیر ادب کے مکاتیب اور ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تخلیقات کو انھوں نے اپنے کتب خانے میں بڑی احتیاط سے محفوظ کر رکھا تھا۔ جن ممتاز ادیبوں کی تحریریںا ن کے پاس موجود تھیں ان میں غلام محمد رنگین،یوسف شاہ قریشی،بلال زبیری،صدیق لالی، ڈاکٹر عبدالسلام، مجید امجد ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،سید مظفر علی ظفر ،خادم مگھیانوی،کبیر انور جعفری،رام ریاض ،سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری،محمد حیات خان سیال،ڈاکٹر سید نذیر احمد ،رانا عبدالحمید خان،غلام رسول شوق،مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر محمد ظفر خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ایک وسیع المطالعہ دانش ور کی حیثیت سے عالمی ادبیات پر ان کی گہری نظر تھی۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے پوری توجہ سے مطالعہ کیا تھا ۔اردو کے کلاسیکی ادب کو وہ بہت پسند کرتے تھے۔پاکستان کی تما م علاقائی زبانوں کے ادب بالخصوص لوک داستانوں اور لوک گیتوں کے بارے میں ان کی معلومات لائق صد رشک و تحسین تھیں۔اُردو ادب کی تحریکوں کو وہ جمود کے خاتمے کے لیے بہت مفید سمجھتے تھے۔انھوں نے رومانوی تحریک ،ترقی پسند تحریک اور حلقہء ارباب ِ ذوق کے زیرِ اثر تخلیق ہونے والے ادب کو بہت اہم سمجھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اردو ادب کی ان تحریکوں سے اردو ادب کی ثروت میں جواضافہ ہواوہ اپنی مثال آپ ہے۔
پنجابی زبان کے صوفی شعرا کا کلام ڈاکٹر محمد کبیر خان کو بہت پسند تھا ۔ پاکستان کی مختلف علاقائی زبانوں کے عظیم شعرا کے کلام کاانھوں نے بڑ ی دلچسپی سے مطالعہ کیا ۔انھیں ارد و، انگریزی ،پنجابی ،عربی ،فارسی ،سندھی ،پشتو ،بلوچی ، ہندی،کشمیری ، ہندکواورسرائیکی زبانوں پر دسترس حاصل تھی ۔انھوں نے بابا فرید، بلھے شاہ،شاہ حسین ، خوش حال خان خٹک ،قلندر مہمند،خواجہ غلام فرید، وارث شاہ،میاں محمد بخش ،شاہ عبداللطیف بھٹائی ،رحمان بابا اور مست توکلی کی شاعری کو مقامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیا ۔ حضرت سلطان باہو کے ابیات وہ بہت توجہ سے پڑھتے۔انھیں حضرت سلطان باہو کے بہت سے ابیات زبانی یاد تھے۔ڈاکٹر سید نذیر احمد جب گورنمنٹ کالج ،جھنگ کے پر نسپل تھے تو انھوں نے کوشش کی کہ ابیات باہو کا ایک مستند نسخہ مرتب کیا جائے ۔اس سلسلے میں اُنھوں نے ڈاکٹر محمد کبیر خان سے بھی مشاورت کی اور اہم بنیادی مآخذتک رسائی حاصل کی۔مرزا اسداللہ خان غالب کی شاعری کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا۔ایک مرتبہ انھوں نے مرزا اسداللہ خان غالب کے اس شعر کی بہت تعریف کی اور اسے گنجینہ ء معانی کا طلسم قراردیا :
وداع ووصل جداگانہ لذتے دارد
ہزار بار برو،صد ہزار بار بیا
پروفیسرمحمد حیات خان سیال نے جب ا سی شعر کا صوفی غلام مصطفی تبسم کا لکھا ہوا پنجابی ترجمہ سنایا تو انھوں نے اس ترجمے میں پائی جانے والی تخلیق کی چاشنی کو بہت سراہا ۔
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سوہنیا جا ہزار واری آجا پیاریا تے لکھ وار آجا
ڈاکٹر محمد کبیر خان مذہب اسلام کے شیدائی اور توحید و رسالت کے سچے عاشق تھے۔انھوں نے قرآن حکیم کی تفسیر ،حدیث کی کتب اورتاریخ اسلام کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اُن کے ذاتی کتب خانے میں تفسیر ،حدیث ،تاریخ ِ اسلام ،عالمی ادبیات اور طب کی دو ہزار کے قریب نادر کتب موجود تھیں ۔فریضہء حج کی ادائیگی کے بعد ان کی زندگی میں فکر و نظر کا ایک انقلاب رونما ہو گیا ۔ان کا زیادہ وقت عبادت اورانسانیت کی خدمت میں گزرتا۔ صبح کی سیر ان کا معمول تھا ،وہ علی الصبح سرگودھا روڈ کی جانب و اقع سر سبز و شاداب کھیتوں میں چلے جاتے جہاں طیور،ان کے نغمے، ندی ، گُل ہائے رنگ رنگ اور تتلیاں حسنِ فطرت کو حقیقی رنگ میں پیش کر رہے ہوتے تھے۔ طائرانِ خوش نوا کو ان مرغزاروں میں زمزمہ خواں دیکھ کر ان پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ شہر میں جب کوئی محفل حمد و ِ نعت منعقد ہوتی، وہ اس میں باوضو کر شامل ہوتے اورشعرا کا حمدیہ اورنعتیہ کلام سن کر قلبی اور روحانی سکون محسوس کرتے۔مولانا ظفر علی خان کا نعتیہ کلام انھیں بہت پسند تھا ۔ان کی کئی نعتیں انھیں زبانی یاد تھیں ۔قوالی کو بھی وہ پسند کرتے تھے ۔قرآن حکیم کی تلاوت مصر کے ممتاز قاری عبدالباسط کی آواز میں سنتے تو ان کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔توحید اوررسالت کا عشق ان کا امتیازی وصف سمجھاجاتا تھا ۔
اللہ کریم نے ڈاکٹر محمد کبیر خان کو ایک دردمند دل سے نوازا تھا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دکھی انسانیت کے مصائب و آلا م کی کسک ،ٹیس اور در داُن کے جِگر اور ریشے ریشے میں سما گیا تھا ۔وہ ایک عظیم انسان تھے ،وطن ،اہلِ وطن اورپُوری انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اورقلبی وابستگی ان کا سب سے بڑا اعزاز اور امتیاز سمجھاجاتا ہے۔جذبہء انسانیت نوازی ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف تھا۔ان کی زندگی میں دکھی انسانیت کے مسائل کو محوری حیثیت حاصل تھی۔ان کا پیغام انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت پر مبنی تھا۔انسانیت کا وقار ،سر بلندی ،انسانیت نوازی ،علم دوستی ،ادب پروری ،دردمندوں اور ضعیفوںسے محبت زندگی بھر ان کا دستور العمل رہا ۔ایک عظیم محبِ وطن کی حیثیت سے انھوں نے اہلِ وطن کی بے لوث خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایااور کبھی اپنا دامن ہوسِ زر سے آلودہ نہ ہونے دیا۔انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی کو وہ لین دین کے بجائے صرف دین ہی دین سمجھتے تھے۔فروغِ گُلشن و صوتِ ہزار کا موسم دیکھنے کی تمنا میں انھوں نے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔وہ جانتے تھے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ہوتے ہیں اس کے با وجود انھوں نے طلوع ِ صبح ِ بہاراںکی اُمید میںحوصلے اور عزم صمیم کی شمع فروزاں رکھی ۔ان کے اس انداز فکر کے اعجاز سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی اورروشنی کاسفر جاری رہا ۔وہ چاہتے تھے کہ ارض وطن پر وہ فصلِ گُل اُترے جو خزاں کے مسموم اثرات سے محفوظ ہو ۔ان کا خیال تھا کہ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ منزل پر ان لوگوں نے غاصبانہ طور پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے جو سرے سے شریکِ سفر ہی نہ تھے۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات کے نتیجے میں سمے کے سم کے ثمر نے سارا سماں مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھا دیاہے۔وہ پورے عزم کے ساتھ نشیبِ زینہء ایام پر عصا رکھتے ہوئے بے ثمر رتوں میں بھی شاخِ تمنا پر کامرانی کے گل ہائے رنگ رنگ دیکھنا چاہتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ وطن محض چمکتی ہوئی سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارتوں کا نام ہر گز نہیں بل کہ یہ تو اہلِ وطن کے اجسام اور روحوں سے عبارت
ہے۔اپنے مزاج کے اعتبار سے ہ نرم دِل اور نرم خُو تھے۔وہ ملاقاتیوں کی باتیں بڑے تحمل سے سُنتے اور دھیمے لہجے میں ان کو جواب دیتے اور ان کو مطمئن کر دیتے۔
نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر انھوں نے بھر پور توجہ دینے کی تلقین کی۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ نئی نسل ہی روشنی کا سفر جاری رکھے گی،ان کی صلاحیتوں پر انھیں کامل یقین تھا۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی امیدوں کا یہ چمن جس کو انھوں نے اپنے خُونِ جگر سے سینچا ہے سدا پھلا پھولا رہے۔اپنی زندگی کے حسین شب و روز دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت میں صرف کرنے کے بعد وہ بے حد مطمئن و مسرور رہتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ا نسان کی تخلیق کا مقصد ہی دردِ دل ہے جو شخص دُکھی انسانیت کے رنج و کرب کو دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوتا وہ انسان نہیں بل کہ سادیت پسندی کا مریض اور درندہ ہے ۔ وہ دِل دریا کو سمندر سے بھی گہرا سمجھتے تھے ،اس کی غواصی کر کے وہ زندگی گزارنے کے طریقوں کا گوہرِ مراد حاصل کرنے میں کام یاب رہے ۔اُن کی زندگی شمع کی صورت گزری ،مہیب سناٹوں کے خاتمے اور سفاک ظُلمتوں کو کافور کرنے کے سلسلے میں اُن کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔وہ نماز با جماعت باقاعدگی سے ادا کرتے اور خالقِ کائنات کا دِل کی گہرائیوں سے شکرادا کرتے کہ اس کے فضل و کرم سے انھیں ہر درد مند دل کی مسیحائی کی توفیق ملی۔وہ عجز و انکسار کا پیکر بن کر یہ بات بر ملا کہتے کہ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ قادرِ مطلق نے انھیں الم نصیبوں ،بیماروں اور دکھی انسانوں کی خدمت کے لیے منتخب کیا ۔وہ خدمت میں عظمت کے قائل تھے اس لیے وہ ہمہ وقت انسانیت کی خدمت کے کاموں میں مصروف رہتے۔ان کی عظمت کا راز ان کی دیانت ،صداقت اور بے لوث خدمت میں پوشیدہ ہے ۔ ہمیشہ مدلل گفتگو کرنا ان کا شیوہ تھا،وہ جب بولتے تو باتوں سے پُھول جھڑتے۔ان کی خوش کلامی او ر گُل افشانیء گفتار سامعین کو مسحور کر دیتی اور ان کے ساتھ طویل نشست بھی مختصر سی لگتی۔وہ رویے اور چال چلن میں اصلاح کے حامی تھے لیکن ان کا اصرارتھا کہ اصلاح کے عمل کا آغاز ہر شخص کواپنی ذات سے کرنا چاہیے۔ا س دنیا میں ہر شخص خوب سے خُوب تر کی جستجو میں مصروف ہے۔اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کر کے اپنی ذات میں خُو بیاں جمع کرنے میں کام یاب ہو جائے تو ممکن ہے کسی کی خوب تر کی جستجوثمر بار ہوجائے۔وہ عجز وانکسار کا پیکر تھے ،ان سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا ان کا امتیازی وصف تھا۔وہ ہر ملاقاتی کی عزت کرتے اور اس کے وقار کو ملحوظ رکھتے۔ مہمان کا اٹھ کر استقبال کرتے اور اس کی عزت و تکریم اس طرح کرتے کہ مہمان خود کو بہت ہی اہم شخصیت سمجھنے لگتا۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد کبیر خان نے اپنی زندگی دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ دردمندوں اورضعیفوں کے ساتھ بے لوث محبت کو وہ اپنی متاع عزیزسمجھتے تھے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے ان کی خدمات کا ہر شخص معترف تھا۔غریب بیمار کی کُٹیا کی تیرگی دور کرنے کی خاطر وہ اپنے گھر کو پُھونکنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ایثار کے ایسے پیکر اب دنیا میں نا پید ہیں۔ خدمت ِ خلق کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔یتیم اور غریب بچیوں کی شادی کے موقع پر ان کے جہیز کے لیے بیش قیمت اشیا وہ ذاتی حیثیت میںمکمل رازداری کے ساتھ بچیو ں کے گھر پہنچاتے اور نیک تمنائوں کے ساتھ غریب اور یتیم بچیوں کو اس کے سسرال رخصت کر کے سجدہء شکر ادا کرتے۔ مجبور اور دکھی انسانیت کے ساتھ انھوں نے جو عہد ِ وفا استوار کیا اُسے علاجِ گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اُس پر عمل پیرا رہے۔ان کے جذبہء انسانیت نوازی نے ان کو حیات ِجاوداں عطا کی ا ور جریدہء عالم پر ان کا دوام تا ابد ثبت رہے گا۔
جھنگ میں ادبی محافل کے انعقاد میں ڈاکٹر محمد کبیر خان نے اہم کردار ادا کیا۔علم و ادب سے انھیں والہانہ محبت تھی یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے ادیبوں کے ساتھ ان کے قریبی مراسم تھے۔جھنگ شہر میں ان کی رہائش گاہ پر ہر ماہ ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا جاتا تھا۔پروفیسر محمد حیات خان سیال ان ادبی نشستوںکی روحِ رواں تھے۔ان ماہانہ ادبی نشستوں میںاس دور کے جوممتاز ادیب اوردانش ور شرکت کرتے ان میں ارشاد گرامی،عبدالحلیم انصاری،فیض محمدخان ارسلان،محمد فیروز شاہ،غفار بابر ،مظفر علی ظفر ، صاحب زادہ ر فعت سلطان، خادم مگھیانوی ،آغا نو بہار علی خان ، سردار باقر علی خان ،صدیق لالی ،چراغ مولائی ،سمیع اللہ قریشی ،محمد شیر افضل جعفری،سید جعفر طاہر،کبیر انور جعفری،رام ریاض،محمد خان نول،نوراحمد ثاقب ،اقتدار واجد ،میاں اقبال زخمی،دیوان احمد الیاس نصیب ،مہر بشارت خان،گدا حسین افضل،غلام مرتضیٰ شاکر ترک، اورسجاد بخاری شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد کبیر خان مہمان ادیبوں کے لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کرتے ،ان کی پُر تکلف ضیافت کا اہتمام کرتے اورتخلیقِ ادب کے سلسلے میں اُن کی خدمات کا بر ملا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تخلیقی فعالیت کی تحسین کرتے۔اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر محمد کبیر خان کوجس ذوق سلیم سے نوازا تھا اس کا اظہار ان کی تحریروں میں بھی ہوتا ہے۔ وہ باقاعدگی سے ڈائری تحریر کرتے تھے اور اپنی زندگی کے معمولات کے بارے میں اپنی یادداشتیں محفوظ کرتے تھے ۔ان کی ارد ونثر جہاں زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کی آئینہ دار ہے وہاں یہ اظہار اور ابلاغ کا اعلا معیار بھی پیش کرتی ہے۔ان کی خود نوشت ’’ہستی اپنی حباب کی سی ہے‘‘ان کی زندگی کے تمام نشیب و فراز سامنے لاتی ہے ۔اس خود نوشت کا پیش لفظ ممتاز ماہرِ تعلیم پروفیسر محمد حیات خان سیال نے تحریر کیا ۔ میں نے یہ خود نوشت ڈاکٹر محمد کبیر خان کے ذہین اور دانش ور فرزند محمد شریف خان(ایم ایس سی،ایل ایل بی) کے پاس دیکھی اور مجھے اس پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کا موقع ملا ۔ محمد شریف خان نے اپنے عظیم والد کی خود نوشت کا یہ مسودہ کسی ناشر کو اشاعت کے لیے دیا اورطباعتی اخراجات کے لیے مطلوبہ رقم بھی ادا کر دی ۔ اس کے چند ماہ بعد محمد شریف خان نے داعیء اجل کو لبیک کہا ۔حیف صد حیف محمدشریف خان کی اچانک وفات کے بعد اس خود نوشت کا کہیں سراغ نہ مِل سکا ۔ وہ متفنی ناشر ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس کے ساتھ ہی تمام حقائق اب خیال و خواب بن کر رہ گئے ہیں۔سیلِ زماں کی مہیب موجیں زندگی کی مسلمہ صداقتوں،گزشتہ صدی کی تاریخ کے اہم واقعات اورایک عظیم انسان کی یادداشتوں پر مشتمل ان صفحات کو بہا لے گئیں جن پر گزشتہ آٹھ عشروں کی تسبیحِ روز وشب کا دانہ دانہ شمار کیا گیا تھا ۔
معاشرتی زندگی کو سکون اور امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے سلسلے میںڈاکٹر محمد کبیر خان نے صدقِ دل سے جد وجہد کی۔زندگی کی اقدار عالیہ کا تحفظ انھیں دل و جاں سے عزیز تھا۔انھوں نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو اُجاگر کیا اور خواتین کو پردے کی پابندی کی جانب متوجہ کیا۔مسلسل چھے عشروں تک انھوں نے اصلاح ِمعاشرہ کے لیے عوام میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی ۔ان کی مساعی کے نتیجے میں سماجی برائیوں کو معاشرتی زندگی سے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملی۔ ان کی یہ پُر خلوص کوششیں ثمر بار ثابت ہوئیں اورآج بھی قدیم جھنگ شہر کے کسی بازار یا شاہراہ پر کوئی خاتون بے پردہ دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں کے لوگ مذہب کی ابد آشنا آفاقی تعلیمات پر دل و جاں سے عمل کرتے ہیں ۔سماجی برائیوں کے مسموم اثرات سے گلشن ہستی کو محفو ظ رکھنے کے لیے انھوں نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر سخت محنت کی۔ان کی کوشش سے اس شہر کے لوگوں کو منافع خوری ، ناپ تول میں کمی ،چوری چکاری،ٹھگی ،فریب کاری ،ذخیرہ اندوزی ، بھتہ خوری ،جوا ،بے جوڑ شادیوں ،گھریلو تنازعات ،مقدمہ بازی،وٹہ سٹہ کی شادی ،جہیز کی لعنت ،اقربا پروری، فیشن ،عریانی اور فحاشی،منشیات کی لعنت ،سفارش اوررشوت ستانی جیسی قباحتوں سے نجات دلانے میں مدد ملی۔ہجومِ غم میں بھی وہ دل کو سنبھال کر منزلوں کی جستجو میںمصروف رہتے۔ ڈاکٹر محمد کبیر خان نے الم نصیبوں کو طلوع صبح ِ بہاراں کی نوید سنائی۔آج ہم اس قدیم شہر میں فروغ ِ گلشن و صوت ِ ہزار کا جو حسین موسم دیکھتے ہیں اسے ڈاکٹر محمد کبیر خان اور ان کے معاونین کے خواب کی تعبیر سمجھنا چاہیے۔آج اس قدیم شہر کے گھر گھر میں ترقیوں کے جو چرچے ہیں اور بلند معیار تعلیم اور نئی نسل کی کامرانیوں کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے اس کے پس پردہ تاریخ کا وہ لائقِ تحسین مسلسل عمل ہے جس میں ڈاکٹر محمد کبیر خان اور ان کے معتمد ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ایسے عظیم اور نایاب لوگ کسی بھی قوم اور ملک کا بیش بہا اثاثہ ہوتے ہیں۔اگر ہم ملکوں ملکوں بھی تلاش کریں تو ایسے نابغہء روزگار لوگ کہیں نہ ملیں گے۔ڈاکٹر محمد کبیر خان سے مل کر زندگی کی برکات اور رعنائیوں سے محبت کے جذبات کو تقویت ملتی تھی۔ اب ایسا عظیم شخص کہاں سے لائیں جسے ڈاکٹر محمد کبیر خان جیسا کہا جا سکے۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں حالات نے جو رخ اختیار کیا اس کے باعث مظلوم عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔یہ نیرنگی ٔسیاست دوراں ہی تو ہے کہ منزلوں پر ان استحصالی عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جنھوںنے سفر کی صعوبتوں کو کبھی برداشت ہی نہ کیا اور سد ا گوشہء عافیت میں خواب استراحت کے مزے لیتے رہے۔ عقابوں کے نشیمن میں زاغ وزغن گھس گئے اور مجبوروں کے چام کے دام چلائے ۔فقیروں کے حالات تو جوں کے توں رہے لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بے ضمیروں کے وارے نیارے ہو گئے۔ارض ِ پاکستان کی جانب آنے والے مہاجرین آگ اور خون کا دریا عبور کر کے یہاں پہنچے
تھے ۔ مہاجرین کی آباد کاری کے لیے نجی سطح پر ڈاکٹر محمد کبیر خان اور ان کے احباب نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں ۔اس دردمندی،انسانی ہمدردی اور خلوص کے اعجاز سے دشتِ ستم کے آبلہ پا مسافروںکو کِشتِ مسرت میں دم لینے کا موقع ملا ۔مہاجرین کی طبی امداد ،سر چھپانے کی جگہ اور ان کے لیے خوراک کا انتظام کرنے میں ڈاکٹر محمد کبیر خان نے بہت ایثار سے کام لیا۔کئی بیوائیں ، کم سِن یتیم بچے اور بیمار مہاجر ین ان کے ایک مکان میں مقیم تھے جہاں ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ ایسے یادگارِ زمانہ لوگوں کی بے لوث خدمت اورایثار کی ایسی درخشاں مثالیں دیکھ کر ہر دور میں دلوں کو ایک ولولہء تازہ نصیب ہو گا اور ذہنی افق کووسعت نصیب ہو گی۔تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔
31۔مارچ 1974کی صبح پروفیسر غلام قاسم خان نے مجھے بتایا کہ ہمارے بچپن کے دوست محمد سلیم خان کے والد اور شہر کے سب سے بڑے معالج ڈاکٹر محمد کبیرخان کی طبیعت نا ساز ہے۔ہم دونوں ان کی عیادت کے لیے اسی وقت ان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ ان کے بیٹوں محمدعظیم خان اور محمدشریف خان سے ملاقات ہوئی ،وہ بے حد پریشان تھے۔ہمیں ساتھ لے کر وہ سڑک کے کنارے واقع اپنے قدیم ا ٓبائی مکان کے پہلے کمرے میں پہنچے جہاں ڈاکٹر محمد کبیر خان ایک چارپائی پر لیٹے تھے۔ہمیں دیکھ کر وہ اُٹھ بیٹھے ،ہمیشہ کی طرح مسکرا کر ہمیں خوش آمدید کہااور ہم دونوں کو پیار سے تھپکی دی۔ انھیں معمولی بخار تھا،ان کا لہجہ دبنگ تھاتاہم ضعف پیری کے باعث قدرے مضمحل دکھائی دئیے۔ گزشتہ کچھ روز سے وہ مریضوں کا طبی معائنہ گھر پر ہی کرتے تھے ۔اس روز صبح کے وقت انھوں نے دس مریضوں کی طبیعت دیکھی اور ان کے نسخے لکھے ۔ان کی وضع داری اور مہمان نوازی کا سلسلہ جاری تھا۔ان کے حکم سے ان کے بیٹوں نے چائے اور مشروبات سے ہماری تواضع کی۔ایک ان جانے خوف نے ہمیں دبوچ لیا تھا،ہم بوجھل قدموں سے واپس اپنے گھر روانہ ہوئے۔شام کو ڈاکٹر محمد کبیر خان کے نہ ہونے کی ہونی کی خبر سن کر دِل سے اک ہوک سی اُٹھی۔آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگیں اور ایسا محسوس ہوا جیسے سورج سوا نیزے پر آ گیا ہو۔ اُن کے بیٹے محمد شریف خان نے ہمیں بتایاکہ ڈاکٹر محمد کبیر خان نے عصر کی نماز پڑھی ، کچھ آیات ِ کریمہ کی تلاوت کی، اور بڑے اطمینان کے ساتھ درو دپاک کے ورد میں مصروف ہو گئے ۔ سب احباب ان کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے اور ان کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ انھوںنے سب احباب کی طرف ممنونیت کی نگاہ سے دیکھا، اپنی اولاد کو دعا دی اور بُلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔اسی دوران ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ ہم نے ڈاکٹر محمد کبیر خان کا آخری دیدار کیا ،ان کے چہرہ پر سکون اور مطمئن تھااور لبوں پر سدا بہار مسکراہٹ تھی ۔ دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کو شعا ر بنانے والا ایک عظیم انسان ہمیں دائمی مفارقت دے گیا۔نوجوان نسل کو سفاک ظلمتوں میں راستہ دکھانے والانیر تاباں غروب ہو گیا ۔علم و ادب ،طب اور حکمت کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے بے رحم ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔ دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ا یسے نادر و نایاب عظیم انسان پھر اس دنیا میں کبھی نہ آئیں گے ۔ شہر کے اہم تجارتی مراکز ان کی وفات کے سوگ میں بند ہو گئے ۔ان کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار تھا اور ہر آنکھ اشک بار تھی،ہزاروں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ کر بلا حیدری جھنگ شہر کی زمین نے اُس آسمان کواپنے دامن میں چھپا لیا جو گزشتہ سات عشروں سے دکھی انسانیت کے سر پر سایہ فگن تھا۔اللہ کریم ا ن کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ،آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے اور سبزہء نورستہ ان کی ابدی آرام گاہ کی نگہبانی کرتا رہے۔جب تک دنیا باقی ہے ڈاکٹر محمد کبیر خان کا نام اُن کی نیکیوں کی وجہ سے زندہ رہے گا اور جریدہء عالم پر ان کا دوام ثبت رہے گا ۔ان کی نیک اولاد ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے روشنی کے اس سفر پر گامزن ہے جس کا آغاز اُن کے عظیم والد نے سو سال قبل کیا تھا ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں