ڈاکٹر دائود رہبر نے 5۔اکتوبر 2013کو داعی ء اجل کو لبیک کہا۔ڈئیر فیلڈ بیچ فلوریڈا کے ایک نر سنگ ہوم میں اس یگانہء روزگار فاضل نے اپنے آبائی وطن پاکستان سے چونسٹھ برس باہر رہنے کے بعد عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ڈاکٹر دائود رہبر 1926میں ماڈل ٹائون لاہور میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اپنے عہد کے ممتاز دانش ور تھے ۔ڈاکٹر شیخ محمد اقبال 29۔اکتوبر 1894کو پیدا ہوئے اور 1948میں وفات پائی ،ان کے والد نے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال (پیدائش : 9۔نومبر 1877وفات :21۔اپریل 1938)کے ساتھ قلبی وابستگی ،والہانہ محبت اور روحانی عقیدت کی بنا پر اپنے فرزند کا نام محمد اقبا ل رکھا۔اس فطین طالب علم نے جامعہ پنجاب سے ایم ۔اے عربی کی ڈگری حاصل کی اور برطانوی حکومت کے محکمہ تعلیم کی طرف سے سٹیٹ سکالر شپ حاصل کیابرطا نیہ میں کیمبرج یونیورسٹی میں گریجویشن کے عرصے میں محمد اقبال کو بر طانیہ کے جن نامور ماہرین تعلیم اور عربی زبان کے ممتاز اساتذہ سے استفادہ کا مو قع ملا ان میں آر ۔اے نکلسن ،ایڈورڈ ۔جی ۔برائون اور انتھونی ایشلے بیون کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد 1922میں ان کا تقرر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں فارسی ادبیات کے پروفیسر کی حیثیت سے ہوا جہاں انھوں نے چھبیس برس تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ڈاکٹر شیخ محمد اقبا ل اورینٹل کالج لاہور کے پر نسپل بھی رہے ۔ڈاکٹر دائود رہبر کی عمر تین برس کی تھی جب ان کی والد ہ 13۔جولائی 1929کو انھیں دائمی مفارقت دے گئی ۔ان کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبا ل نے ان کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی ۔ڈاکٹر دائود رہبر پاکستان کے نامور براڈ کاسٹر ضیا محی الدین کے چچا زاد بھائی تھے ۔ ضیا الدین محی الدین کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے چھوٹے بھائی تھے ۔بعض اخبارات میںشائع ہونے والی یہ خبر کہ علامہ اقبال کے صاحب زادے ڈاکٹر دائود رہبر فلوریڈا میں انتقال کر گئے (1)میں دوالگ الگ شخصیات کو آپس میں یو ںملا دیا گیا ہے کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے ۔اسی امر کی جانب ممتاز شاعر اور ادیب تنویر پھول نے بھی اشارہ کیا ہے (2)۔ ڈاکٹر دائود رہبر کی عیسوی اور ہجری تاریخ وفات لکھنے کے بعد تنویر پھول نے اخبار کی اس شہ سرخی پر گرفت کی ہے (2)۔انھوں نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اگرچہ نام ایک جیسے ہیں لیکن ان د وشخصیات کے مقام اور کام جداگانہ ہیں اس لیے ان کا آپس میں خلط ملط کرنا درست نہیں۔ڈاکٹر دائود رہبر اپنے والد سے بہت متاثر تھے ۔ ڈاکٹر دائود رہبر نے اپنے والد کی سات سو صفحات پر مشتمل سوانح حیات ’’ٖFaith of a lay Muslim‘‘ لکھی جو کہ ویب سائٹ Amazon .com پر قارئین ادب کی دسترس میں ہے ۔ایک دردمند ادیب کی حیثیت سے تنویر پھول نے یہ تاریخ وفات لکھ کر ڈاکٹر دائودہبر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے :
’’عم زاد ضیا محی الدین کاشف قد دائود رہبر ‘‘ )سال عیسوی :2013 )
تاریخ وفات سال ہجری
زمانے سے اے پھول رخصت ہوا وہ
جو تھا اہل دانش ،جو اعلی ٰ سخن ور
ہماری نظر سے وہ روپوش ہے اب
یہ تاریخ ہے ’’غیب دائود رہبر ‘‘ ( ’’غیب دائود رہبر‘‘ سال ہجری : :1434)
دائود رہبر کو بچپن ہی سے تخلیق ادب سے دلچسپی تھی انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں اردو شاعری میںطبع آ زمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتدائی تعلیم کے مدارج میں انھوں نے اپنے اساتذہ اور ہم جماعت طالب علموں کے دل اپنی شاعری سے جیت لیے ۔ تاریخی گورنمنٹ کالج ،لاہور (موجودہ گورنمنٹ کالج ،یونیورسٹی )سے 1947 میںعربی زبان و ادب میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کے اعلا تعلیمی معیار او ر ا متیازی کا م یابی کی بنا پر دائود رہبر کو میکلو ڈریسرچ سکالر شپ سے نوازا گیا۔ایم ۔اے عربی کے بعد ان کو پنجاب یو نیورسٹی اورینٹل کالج ،لاہور میںعربی زبان و ادب کی تدریس پر مامور کیا گیا۔یہیں سے شعبہ تدریس میں ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔اس زمانے میں ان کے والد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال پنجاب یو نیورسٹی اور ینٹل کالج ،لاہور کے پر نسپل کے منصب جلیلہ پر فائز تھے ۔ا س علاقے میں علوم شرقیہ کی تدریس میں ان کی کا وشیں تاریخ کا اہم باب ہیں ۔1949 کے اوائل میں دائود رہبر نے اعلا تعلیم کے لیے برطانیہ جانے کاعزم کیا اور کیمبرج یو نیورسٹی میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم برطانیہ میں کیمبرج یو نیورسٹی میں دائود رہبر کو پی ایچ۔ڈی کے دوران تاریخ ، فلسفہ ،عالمی ادبیات ،لسانیا ت اور تقابل ادیان کے موضوع پر اپنے ذوق سلیم کے مطابق مطالعہ اور تحقیق کے فراواں مواقع میسر آئے۔دوران تحقیق ان کے رہنما پروفیسر ریو بن لیوی(Prof.Reuben Levy)نے اپنے اس فطین شاگرد کی صلاحیتوں کو صیقل کیا اور اس کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ اس نے اپنے اشہب تحقیق کی جو لانیوں کی دھوم مچا دی ۔ان کے اساتذہ نے ان کی افکار تازہ میں گہری دلچسپی اور تحقیقی و تنقیدی فعالیت کا بر ملا اعترا ف کیا اور علم و ادب کے فروغ کے سلسلے میں ان کے جذبات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھااور ان کی بہت حوصلہ افزائی کی ۔کیمبرج یو نیورسٹی سے پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور پہنچے جہاں وہ پہلے ہی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ۔لاہور میں ان کا یہ قیام بہت مختصر رہا کیونکہ 1954میں کینیڈا کی میکگل یو نیورسٹی (Mc Gill University )نے انھیں سینئیر ٹیچنگ فیلو مقرر کیا۔بیرون ملک ا س تعلیمی دورے کی دعوت کا اہتمام عالمی شہرت کے حامل ممتاز ماہر تعلیم اور دانش ور پروفیسر ولفرڈ کینٹ ول سمتھ(Prof.Wilfred Cantwell Smith )نے کیا۔ ٹورنٹو (کینیڈا )میں مقیم پروفیسر ولفرڈ کینٹ ول سمتھ (پیدائش :21۔جولائی 1916وفات :7فروری 2000) تقابل ادیان کے موضوع پر ان کی علمی فضیلت کاایک عالم معترف تھا۔مذاہب عالم کے آغاز و ارتقا اور تقابل ادیان کے موضوع پر ڈاکٹر دائود رہبر نے پروفیسر ولفرڈ کینٹ ول سمتھ کے خیالات سے بھرپور استفادہ کیا ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس موضوع پر ڈاکٹر دائود رہبر کی مستقبل کی تحقیق کا آغاز یہیں سے ہو تا ہے ۔اس کے بعد حکومت پاکستان نے ڈاکٹر دائود رہبر کو اردو اور مطالعہ پاکستان کی بیرون ملک چئیر کے لیے منتخب کیا اور ان کا تقرر انقرہ یو نیورسٹی (ترکی )میں کر دیا۔ترکی میں اپنے قیام (1956-1959)کے دوران انھوں نے مختلف جامعات میں تقابل ادیان ،اردو زبان کے ارتقا اور تہذیبی و ثقافتی موضوعات پرمتعدد توسیعی لیکچرز دئیے جنھیں بے حد پذیرائی ملی ۔اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر دائو د رہبر نے اپنی تعلیمی استعداد میں اضافے پر بھی اپنی توجہ مر کوز رکھی ۔وہ علم و ادب کے فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے ۔اس سلسلے میں انھوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کونی کٹ (Connecticut) سے 1833میں روشنی کے عظیم الشان سفر کا آغاز کرنے والے اس عہد کے معروف تعلیمی ادارے ہارٹ فورڈ سیمینری فائونڈیشن (Hartford Seminary Foundation)میں اپنے لیکچرز کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔اسی ادارے سے 1938میں ممتاز علمی ،ادبی ،ثقافتی ا ور تحقیقی مجلے دی مسلم ورلڈ (The Muslim World)نے اپنی با قاعدہ اشاعت کا آغاز کیا ۔یہ مجلہ دنیا کے پینسٹھ ممالک میں نہایت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔اس ادارے میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ آج کی کثیر المذاہب دنیا میں معاشرتی زندگی میں اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فر اوانی ہی سے امن و سکون کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے ۔ڈاکٹر دائود رہبر نے ا پنے توسیعی لیکچرز میں اس امر پر زور دیا کہ سماجی زندگی میں افراد کو باہمی محبت ،خلوص ،یک جہتی ،تعاون اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو رو بہ عمل لانا چاہیے ۔ابتد میں ا س ادارے میں ان کا تقر وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے ہو ا۔اس کے بعد ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کی خدمات پانچ سال (1962-1966)کے لیے حاصل کر لی گئیں ۔یہاں اپنے عرصہء ملازمت کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر دائود رہبر کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور کیاگیا۔ اس بار وہ یونیوررسٹی آ ف وسکانسن ماڈیسن (University of Wisconsin-Madison) میں دوسال کی مدت کے لیے ہندوستانی علوم کی تدریس کے لیے منتخب ہوئے۔اس جامعہ کا موٹو ’’اللہ ہمارا نور ‘‘(God our Light)ہے ۔اسی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اقوام عالم نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہاہے یقیناً وہی خدا ہے جو نظر بھی رکھتا ہے اور سماعتیں بھی،یہاں تک کہ وہ نیتوں کے حال سے بھی کامل آ گہی رکھتا ہے اور اسی قادر مطلق کی قدرت سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اللہ ہی وہ نور ہے جو زمینوں اور آسمانوں کو منور کرتا ہے ۔1848میں قائم ہونے و الی نو سو چھتیس (936)ایکڑ پر پھیلی ہوئی اس یو نیورسٹی میںتینتالیس ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جہاں مختلف علوم کے اکیس سو کے قریب ماہر اساتذہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اس جامعہ میں اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر دائود رہبر کو اپنی دلچسپی کے متعدد امور کے بارے میں وافر معلومات حاصل ہوئیں۔خاص طور پر ہندوستانی مو سیقی کے بارے میں یہاں جو شعبہ قائم ہے ا س کے ساتھ مستقل ربط اور با قاعدہ تعلیم اور مطالعہ کے اعجاز سے وہ کلاسیکی ہندوستانی مو سیقی کے بارے میںکئی اسرار و رموز سے آگاہ ہوئے ۔مستقبل میں ہندوستانی مو سیقی پر انھوں نے جو معرکہ آرا کام کیا اس کا آغاز یہیں سے ہوا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر دائود رہبر کو وہاںکے علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی ۔وہاں کی جامعات میںان کے توسیعی لیکچرز کا سلسلہ جاری رہا ۔1968میں ڈاکٹر دائود رہبر نے 1939میں قائم ہونے والی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بو سٹن یو نیورسٹی (Boston University)میں تدریسی خد،مات کا آغاز کیا ۔یہاں وہ عربی زبان اور تقابل ادیان کی تدریس پر مامور تھے ۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پرائیویٹ شعبے کی یہ بہت بڑی یو نیورسٹی ہے جس میں تینتیس ہزار (33000)طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیںاور ان کی تربیت کے لیے تین ہزار آٹھ سو (3800)فیکلٹی ممبران سر گرم عمل ہیںجس طرح پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سا ئنس دان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام گورنمنٹ کالج جھنگ کے فارغ التحصیل ہیںاسی طرح بو سٹن یو نیورسٹی کا اعزاز و امتیاز یہ ہے کہ اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے ولے سات دانشوروں نے مختلف شعبوں میں نوبل انعام حاصل کر کے اس جامعہ کو معزز و مفتخر کر دیا ۔ بوسٹن یونیورسٹی (B.U) میں ان کی یہ ملازمت1991میں ان کی ریٹائر منٹ تک جاری رہی ۔بوسٹن یو نیورسٹی میں ان کی علمی فضیلت کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد ڈاکٹر دائود رہبر نے اپنا زیادہ تر وقت فلوریڈا میں مطالعہ اورتصنیف و تالیف میں گزارا ۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
’’سلام و پیام ‘‘یہ کتاب سنگ میل پبلشرز،لاہور کے زیر اہتمام سال 1996میں شائع ہوئی ۔اس کتاب میں وہ تمام مکاتیب شامل ہیں جو ڈاکٹر دائود رہبر کو ان کے احباب ،قریبی ساتھیوں،مشاہرین اورمعاصرین کی جانب سے مو صول ہوئے ۔اس نوعیت کے مکاتیب پر مشتمل دو اور جلدیں بھی علی الترتیب سال 2004اور سال 2009میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصہء شہود پر آئیں۔ان دلچسپ مکاتیب کے مطالعہ سے مشاہیر ادب کے انداز فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ڈاکٹر دائود رہبر نے خود جو مکاتیب اپنے معاصرین کو تحریر کیے انھیں بھی شائع کیا ۔اپنی نو عیت کے اعتبار سے مرزا اسداللہ خان غالب کے خطوط کے بعد یہ ایک اہم کام ہے۔ان خطوط میں ڈاکٹر دائود رہبر نے غالب کے اسلوب کی پیروی کی ہے جو غالب کے ساتھ ان کی محبت کی دلیل ہے ۔ان میں سے متعدد خطوط ایسے ہیں جو اپنے عہد کی نامور تاریخی شخصیات کے بارے میں اہم حقائق کو سامنے لاتے ہیں۔مثا ل کے طور پر مولوی عبدالحق کے نام لکھے گئے مکاتیب قاری پر فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے چلے جاتے ہیں۔
’’پرا گندہ طبع لوگ ‘‘اس کتاب میں ڈاکٹر دائود رہبر کے لکھے ہوئے ممتاز شخصیات کے خاکے شامل ہیں ۔اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز ،لاہور نے سال 2000 میں شائع کیاان کی اہم کتاب ’’تسلیمات ‘‘جنوبی ایشیا میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کے بارے میںہے اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز، لاہور نے سال 2004 میں شائع ۔’’کلیات ‘‘ڈاکٹر دائود رہبر کی مکمل شاعری پر مشتمل ہے ۔ ان کی شاعری کی کتاب ’’کلیات ‘‘سال 2001میں پاکستان پرنٹرز ،کراچی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ۔سات سو صفحات پر مشتمل یہ کلیات اس حساس تخلیق کار کے شعری تجربوں کی مظہر ہے ۔اس میں اپنے دل پر گزرنے ولے تمام موسموں کی مرقع نگاری اس فنی مہارت سے کی گئی ہے کہ جی چاہتا ہے لفظی مرقع نگاری کرنے والے اس با کما ل تخلیق کار کے ہاتھوں کی بلائیں لے لیں۔جنوبی ایشیا کی مو سیقی کے موضوع پر ’’باتیں کچھ سریلی سی ‘‘یہ کتاب سال 2001میں شائع ہوئی اس کے علاوہ ’’نسخہ ہائے وفا ‘‘ بھی موسیقی کے بارے میں ہے ۔موسیقی کے ساتھ ڈاکٹر دائود رہبر کا معتبر ربط چار عشروں پر محیط ہے ۔سر اور تال کے ساتھ اس سنگت پر وہ ہمیشہ مطمئن و مسرور رہتے ۔ موسیقی کے ہر موضوع پر ڈاکٹر دائود رہبر کی رائے کو ہمیشہ درجہ ء استناد حاصل رہا ۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک مشاق مو سیقار چھپا ہوا تھا جو موزوں ترین موقع پر باہر آ کر اپنے فن کے جو ہر دکھاتا ۔ڈاکٹر دائود رہبر کو طنبورہ (تان پورہ )بجانے میں مہارت حاصل تھی ۔وہ طنبورہ ترچھا رکھنے کے بجائے اسے عمودی صورت میں تھام کر انگلی کے بجائے انگو ٹھے سے طنبورے کے تار چھیڑتے تو یہ ساز زندگی کے ساز اور دلوں کی دھڑکن سے ہم آ ہنگ ہو جاتا ۔ ان کی فنی مہارت اور موسیقی کے فن پر ان کے عبور کی وجہ سے سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔وہ غزل بھی خود ہی چھیڑتے اور ساز بھی خود ہی بجاتے اور اس طرح نہایت بے تکلفی سے عمر رفتہ کو آواز دیتے ۔یہ مو سیقی ہی تھی جس نے ڈاکٹر دائود رہبر میں یہ استعداد پید اکر دی کہ وہ زندگی کی حقیقت سے آ شنا ہو کراپنی دنیا آپ پیدا کرنے ،مسائل زیست کو سمجھنے اور موج حوادث سے ہنستے کھیلتے ہوئے گزر جانے کا عزم کر لیتے تھے ۔خاص طور پر غم و آلام کے مسموم ماحول میں موسیقی دل کے تار ایسے چھیڑتی ہے جس سے پھوٹنے والے نغمے قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں اور سماعتوں پر اس کے ہمہ گیر اثرات مسلمہ ہیں۔گیت اور نغمے ،سر اور تال ،آہنگ اور لے کے معجز نما اثر سے خود اعتمادی کا عنصر نمو پاتا ہے اور ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کا حو صلہ پیدا ہوتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر دائود رہبر نے اپنے احباب ،اپنی ذات بل کہ پوری کائنات کے ساتھ ربط کے لیے مو سیقی کی زبان کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب کہ ہوس نے نوع انساں کو بے حسی اور انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے،مو سیقی اور شاعری کے اعجاز سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کیا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر دائود رہبر کی زندگی میں کئی سخت مقام آ ئے لیکن ہر بار وہ مو سیقی اور شاعری کو زاد راہ بنا کر منزل تک پہنچنے میں کام یاب ہو گئے ۔ان کا خیال تھا کہ حالات کی زہر ناکی کا تریاق شاعری اور مو سیقی میں تلاش کرنا چاہیے ۔ان کی کتاب زیست کے ہر ورق پر موسیقی اور شاعری کے استحسان کے انمٹ نقوش ثبت ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قارئین ادب پر یہ حقیقت واضح ہو تی چلی جائے گی کہ فکر و عمل کو مہمیز کرنے میں شاعری کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ اچھی اور عصری آگہی سے معمور شاعری کے وسیلے سے فہم و ادراک کی خداداد صلاحیتوں کو قارئین ادب کے شعور کا اہم حصہ بنا کر اصلاح کی ایک صورت سامنے لانے میںمدد ملتی ہے ۔ ڈاکٹر دائود رہبر نے عالمی ادبیات کے مطالعہ سے اپنے مزاج میں ایک شان استغنا پیدا کر لی تھی۔وہ اپنی مٹی سے محبت کرنے پر اصرار کرتے تھے ۔اردو زبان و ادب اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی سے ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کی پہچان بن گئی ۔جنوبی ایشاکی موسیقی کے ارتقا پر ان کی تحقیق بہت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔
ڈاکٹر دائود رہبر نے مرز ااسداللہ خان غالب کے اردو زبان میں لکھے ہوئے مکاتیب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔یہ کتاب جو کہ چھے سو اٹھائیس(628) صفحات پر مشتمل ہے اسے سٹیٹ یونیورسٹی آ ف نیو یارک پریس نے 1987میں شائع کیا ۔ان کی معرکہ آرا تصنیف ’’ کلچر کے روحانی عناصر ‘‘ان کے تبحر علمی اور تفحص بیان کی شان دار مثا ل ہے ۔ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور تاریخ کے مسلسل عمل پر ان کی گہری نظر تھی ۔’’کلچر کے روحانی عناصر‘‘ میں انھوں نے نہ صرف کلچر کے ارتقا پر عمومی نگاہ ڈالی ہے بل کہ ا س کے پس پردہ کارفرما عوامل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ہے ۔ بر عظیم کے کلچر پر اسلا م،ہندو مت ،بدھ مت اور چینی اثرات کے بارے میں وہ کھل کر لکھتے ہیں۔ان سب کو الگ الگ ابواب میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔اس کتاب کا پانچواں باب مہاتما بدھ کے بارے میں ہے جس میں بدھ مت کے چین ا ور بر عظیم پر تہذیبی اور ثقافتی اثرات کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس کے بعد جو باب ہے اسے حاصل بحث کی حیثیت حاصل ہے ۔اپنے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر دائود رہبر نے مدلل انداز میں گفتگو کی ہے اور غیر جانب دارانہ انداز میں کلچر کے روحانی اندازا ور ان کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں اپنی غیر جانب دارانہ رائے دی ہے ۔الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے وہ سخت خلاف ہیں ۔ کلچر کے روحانی عناصر کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ایک معاملہ فہم نقاد کی حیثیت سے ڈاکٹر دائود رہبر نے تقلید کی روش سے بچتے ہوئے ایک نئے انداز میں افکار تازہ کی جستجو میں پورے انہماک کا ثبوت دیا ہے روحانیت کے بحر بے کراں کی غواصی کرنے والوں پر انھوں نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کسی کو روحانی عناصر کے گہر ہائے آب دار کی جستجو ہے تو اسے یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ یہ روحانی عناصر کسی ایک مقام سے دستیاب ہونا بعید از قیاس ہے ۔ کلچر کے روحانی عناصر کی خوشہ چینی کرنے والوں کو اپنے مقصد کے حصو ل کی خاطر اسلامی کلچر ،ہندو کلچر ،عیسائی کلچر اور بدھ کلچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں یہ جلوہ گر دکھائی دیں گے ۔
تاریخ ،ادب ،سوشیالوجی ،علم بشریات اور مذاہب عالم کے اہم موضوعات پر ڈاکٹر دائود رہبر کے خیا لات قارئین کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے ما نند ہیں ۔ایک ہفت اختر شخصیت کی حیثیت سے ڈاکٹر دائود رہبر نے جس موضوع پر بھی قلم تھام کر لکھنے کا قصد کیا ید بیضا کا معجزہ دکھایااپنے عمل اور آہنگ سے انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ سنگ و خشت سے جہاں کبھی پیدا نہیں ہو سکتے بل کہ جہان تازہ کی نمود کی خاطر افکار تازہ کی تو نگری بے حد ضروری ہے اردو ادب اور فنون لطیفہ کی ترویج و اشاعت کے لیے انھوں نے مقدور بھر مساعی کیں ۔عملی زندگی میں قلم کی حرمت کو ملحوظ رکھنا ، حریت ضمیر سے جینا اور حریت فکر کا علم بلند ر کھناہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔اس وقت پوری دنیا میں ڈاکٹر دائود رہبر سے اکتساب فیض کرنے والے لا کھوں طالب علم موجود ہیں جو ان کے نہ ہونے کی ہونی اپنی اشک بار آ نکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس یگانہء روزگار فاضل نے دونوں زبانوں کی ہر صنف ادب میںاپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔
جب تک ان کی صحت بر قرار رہی علمی اور ادبی محافل میں شرکت کرنا ڈاکٹر دائود رہبر کا معمول تھا ۔اگرچہ بیرون ملک مقیم ادیبوں سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ مسلسل اور باقاعدہ نہیں تھا لیکن یہ بے ترتیب تعلقات بھی اپنی دلکشی ،جاذبیت ،خلوص اور رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کے مظہر ہوتے تھے ۔افتخار نسیم کے ہاں ایک ادبی نشست میںڈاکٹر دائود رہبر بھی موجود تھے۔کہیں بھی کوئی خوب صورت عکس اور منظر دیکھتے تو انھیں وطن اور اہل وطن کی تصویر دکھائی دیتی ۔اسی طرح کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی وہ اپنی گل افشانیء گفتار سے وطن اور اہل وطن کی بات کر کے تزکیہ نفس کی صورت تلاش کر لیتے ۔سمے کے سم کے ثمر نے انھیں نڈھا کر دیا تھا۔وطن اور اہل وطن کے مسائل کے بارے میں گفتگو کے دوران ایک صاحب نے بیرون ملک کام کرنے والے لوگوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے نامور شاعر حفیظ جون پوری کا یہ شعر پڑھا تو حاضرین نے بڑی توجہ سے یہ شعر سنا اور سب پر رقت طاری ہو گئی :
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اس کے بعد افتخار نسیم نے جب مو قع کی مناسبت سے اپنا یہ شعر پڑھا تو سب حاضرین نے پر نم آ نکھوں سے داد دی ۔ڈاکٹر دائود رہبر کی آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں اور افتخار ر نسیم نے حاضرین کی فرمائش پر کئی بار یہ شعر پڑھا :
اداس بام کھلا در پکارتا ہے مجھے
جلا وطن ہو ںمرا گھر پکارتا ہے مجھے
ڈاکٹر دائود رہبر کے اسلوب کا مطالعہ کرنے والے ادب کے طالب علم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ڈاکٹر دائود رہبر ایک آزاد منش سیلانی تخلیق کار ہیں جو اپنی آزادمرضی سے جس صنف ادب میں چاہیں قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہو جاتے ہیں ۔نشیب زینہء ایام پر عصا رکھتے ہوئے وہ وہ اپنے تخلیقی سفر پر زندگی بھر رواں دواں رہے ۔اردو نثر میں ان کے اسلوب کے چند نمونے پیش ہیں :
سب سے پہلے اسلامی کلچر کی تشکیل کے بارے میں ڈاکٹر دائود رہبر کی گل افشانیء گفتار کا عالم دیکھیے ’’اسلامی کلچر کی معجون کا نسخہ اگر کوئی حکیم لکھے تو اس میں تین اجزا کا شامل کرنا ضروری ہو گا۔ایک تولہ تسنن ،ایک تولہ تشیع اور ایک تولہ تصوف ۔تینوں اجزا اس میں پڑیں تو مفر ح معجون بنے ‘‘ کلچر کی تفہیم کے سلسلے میںڈاکٹر دائود رہبر نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے :’’فنون لطیفہ اپنی جگہ سہی ،لیکن کلچر زندگی کی ہانڈی پکانے کی ترکیب کا نام ہے ۔کلچر کی ہانڈی کا ایک خاص مسالہ ملت کا حافظہ ہے جس میں اس سارے زمانے کی گونج ہے ۔‘‘ ڈاکٹر دائود رہبر کا خیال ہے کہ کلچر جسمانی غذا اور روحانی غذا سے نمو پاتا ہے ۔یہ دونوں غذائیں کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں ؟اس کے بارے میں ڈاکٹر دائود رہبر نے اپنے شگفتہ انداز میں جو کچھ بتایا ہے وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے :
’’جسمانی غذا کے لیے ہم ناشپاتی درخت سے توڑ کر کھائیں گے ،پیاس بجھانے کو تربوز کا رس نچوڑ کر پئیںگے ۔‘‘ ’’روحا نی غذا ہم کو پالتو بلی کی خر خر سے ملے گی یا لہلہاتی ہوئی گھاس کے منظر سے ۔اڑتی چڑیا کو دیکھ کر ہمارا باطن مسکراتا ہے ۔قیس عامری مجنوں نہ ہوتا اگر دشت نہ ہوتا۔سند باد جہازی کے لیے سمندر لازم ہوا۔‘‘ ڈاکٹر دائود رہبر نے ہندو کلچر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ہندو کلچر کی ساری فضا دیو مالا کی چہل پہل سے معمور ہے ۔ایسی سوسائٹی جو دیو مالا سے منہ موڑے ہندو عوام کے مزاج کی سوسائٹی نہ ہو گی ۔‘‘
( اوپر دئیے گئے ڈاکٹر دائود رہبر کے نثر پاروں کا ثانوی ماخذ درج ذیل ہے )(3)
ایام گزشتہ کی کتاب کا مطالعہ ہر شخص کو مرغوب ہوتا ہے ۔ڈاکٹر دائود رہبر نے اپنی تحریروں میں بیتیء لمحوں کی چاپ کی جس درد مندی سے لفظی مر قع نگاری کی ہے اسے پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ ناسٹلجیا کے احساس نے اس زیرک تخلیق کار کے فکر و خیال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔اس کے با وجود انھوں نے ہر مقام پر اپنی انفرادیت کو بر قراررکھا ہے ۔د نیانے تجربات وحوادث کے روپ میں جو کچھ انھیں دیا اسے انھوں نے پوری دیانت سے الفاظ کے قالب میںڈھال کر پیش کیا ۔ایام گزشتہ کے واقعات کو عہد حاضر کے حالات کے ساتھ مربوط کر کے پیش کرنا اور اس طرح عصری آ گہی کو پروان چڑھانے کی سعی کرناان کے اسلوب کا اہم وصف ہے ۔ٖ اپنی عملی زندگی میںڈاکٹر د ائود رہبر نے اپنے عہد کے جن عظیم انسانوں سے اکتساب فیض کیا ان میں مولوی عبدالحق ،مولوی محمد شفیع اور مولانا صلاح الدین احمد کے نام قابل ذکر ہیں ۔علم و ادب کے یہ آفتاب و ماہتاب ایک عالم کو اپنی تابانیوں سے بقعہء نور کرنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو چکے ہیں ۔ڈاکٹر دائود رہبر کی تحریروںاور تخلیقات میں جہاں بھی ان نابغہء روزگار ہستیوں کا ذکر آتا ہے ن کی عقیدت صاف دکھائی دیتی ہے ۔
اپنی تحریروں میں ڈاکٹر دائود رہبر نے ایام گزشتہ کے واقعات پر پڑ جانے والی ابلق ایام کے سموں کی گرد کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے ۔تاریخ کے طوماروں میں دبے تلخ حقائق کی جستجو میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔انھوںنے توہم پرستی کے تار عنکبوت کو ہٹا کر حقائق کی گرہ کشائی پر توجہ مر کوز کر دی ۔ان کی خواہش تھی کہ ہمارے تخلیق کار تاریخی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ماضی کے واقعات کے بارے میں مثبت شعور وآ گہی کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔اس قسم کی سوچ سے ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملتی ہے ور اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہو سکتا ہے ۔ادب اور کلچر کے حوالے سے ان کی سوچ کا اہم پہلو یہ تھا کہ اقوام عالم کی تاریخ کے مختلف ادوار میں تہذیب و ثقافت اور معاشرتی اقدار و روایات کے ارتقائی مدارج کے متعلق حقیقی شعور کو پروان چڑھایا جائے ۔ ہلاکت آفرینی کے موجودہ زمانے میں ایک حساس تخلیق کار کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ زندگی کو درپیش مسائل کا درد مندی اور خلوص سے تجزیہ کرے اور مایوسی کا قلع قمع کر کے طلوع صبح بہاراں کی نوید سنائے ۔اردو نثر ہو یا شاعری ہر صنف ادب میں جس بے تکلفی کے ساتھ انھوں نے اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو پیرایہء اظہار عطا کیا ہے وہ انھیں ایک صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔ان کے اسلوب کی نمایاں خوبی عصری آگہی ہے ۔
ڈاکٹر دائود رہبر کے اسلوب میں جہاں ماضی کے واقعات کا پرتو دکھائی دیتا ہے وہاںز مانہء حال کے تمام اہم واقعات اور مستقبل کے امکانات کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی ہے ۔مستقبل کے بارے میں آئینہ ء ایام کی جو ہلکی سی تصو یر ان کی تحریروں میں دکھائی گئی ہے ،وہ جہد و عمل کی راہ دکھاتی ہے ۔ زندگی کی اقدار عالیہ میں سے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ڈاکٹر دائود رہبر نے ایک اہم قدر سے تعبیر کیا ۔ انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندے قابل نفرت ہیں ۔جب کسی معاشرے میں شقاوت آمیز نا انصا فیاں اس قدر بڑھ جائیں کہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا تصور خیال و خواب بن کر رہ جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ بے حسی کا شکار ہے اور یہ لرزہ خیز ،اعصاب شکن ا ور الم ناک کیفیت کسی بھی قوم کے لیے بہت برا شگون ہے ۔
تقدیر کے چاک کو سوزن تد بیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔اس عالم آب و گل میں ہر نفس فنا کی زد میں ہے اور بقا صرف رب ذوالجلال ولاکرام کو حاصل ہے ۔اس کے باوجود ہم دائمی مفارقت دے جانے والوں کے غم میں اپنے جذبات حزیں کا اظہار کر کے اپنے دلوں کو ان کی یادوں سے آباد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جو لوگ راہ جہاں سے گزر جاتے ہیں ہم ان کی خوبیوں کو یاد کر کے ان کے حضور اپنے آنسو ئوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹر دائود رہبر جیسے علم دوست تخلیق کار لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیںاور اندھیروں کی دسترس سے دور روشنی کے ما نند ہمیشہ اجالوں کو ہر سو پھیلانے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔جس جادہ سے ہمارے رفتگاں کی یادیں وابستہ ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس تخلیق کار کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس کے افکار میں سمندر کی سی بے کراں وسعت پائی جاتی تھی ۔اس دنیا کی سرائے سے جو بھی نکلے پھر کبھی نہ پلٹے ۔ڈاکٹر دائود رہبر اب اس دنیا میں نہیں رہے ،اب تو ان سے وابستہ یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔رستہ دکھانے والا یہ ستارہ اب غروب ہو چکا ہے ۔اب دنیا میں ایسے لوگ کم یاب نہیں بل کہ نایاب ہیں ۔فرشتہء اجل نے اس تخلیق کار سے قلم چھین لیا جس نے گزشتہ چھے عشروں سے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو شعار بنا رکھا تھا۔زندگی کا یہی انجام ہے جسے دیکھ کر لفظ ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیںاور سب محو حیرت ہیں کہ زندگی کا ساز بھی کیسا عجب ساز ہے جو مسلسل بج رہا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔اپنی انگلیوں سے ستار پر ساز بجانے والے اس دردمند مو سیقار کی زندگی کے تارفرشتہ اجل نے اس طرح توڑے کہ اب سکوت مرگ طاری ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔
اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں سبھی آ خر
حاصل سیر جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے
مآخذ:
(1)پاکستان پوسٹ ،نیویارک ،امریکہ ،شمارہ 1072،Vol #1،10۔اکتوبر تا 16۔اکتوبر 2013،صفحہ 1۔
(2)تنویر پھول :تاریخ وفات ڈاکٹر دائود رہبر ،مشمولہ اردو نیٹ جاپان ،22۔اکتوبر 2013۔
(3) بہ حوالہ انتظار حسین :بندگی نامہ ،کالم ’’ایک روشن دماغ تھا نہ رہا ‘‘مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس ،لاہور ،11۔اکتوبر 2013،صفحہ 12۔