سال 2017کے وسط میں کراچی میں مقیم پاکستان کے ممتاز ادیب ،محقق،نقاد،ماہرِ تعلیم اور دانش ور پروفیسر عزیز جبران انصاری کی وقیع تصنیف ’’ عروض اور تقطیع‘‘ کو جبران اشاعت گھر، کراچی نے عمدہ سفید کاغذ پر کمپیوٹر کمپوزنگ ،مضبوط جلد بندی، پُر کشش طباعت اور معنویت سے معمور گرد پوش کے ساتھ نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے ۔دو سو چالیس صفحات پر مشتمل مفید عروضی مباحث سے لبریز اس معرکہ آرا تصنیف کو مصنف نے اُرد وکے ممتاز شاعر سید محمد مہدی رئیس امروہوی (شہیدِ اُردو) (۱۹۱۴۔۱۹۸۸) اور اہلِ سخن کے نام منسوب کیا ہے ۔ کتاب کی تاریخ اشاعت کو ظاہر کرنے والے دو موثرقطعات پر وفیسر عزیز جبران انصاری اور قمر وارثی نے لکھے ہیں ۔ سال ۲۰۱۷ کے وسط تک پروفیسر عزیز جبران انصاری کی اُنیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں جب کہ چار کتابیں اشاعت کے آخری مر حلے میں ہیں۔ان کتابوں کی اشاعت سے اُردو زبان و ادب کی ثروت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے ِ ۔پروفیسر عزیز جبران انصاری کی جن تصانیف کو دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے زبردست پزیرائی ملی ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
جانِ غزل (شعری مجموعہ)،۱۹۷۷،صحرا کے سراب(شعری مجموعہ)۱۹۸۲،رموزِ شاعری (فن عروض)۱۹۸۶،کربِ آ گہی(شعری مجموعہ)۱۹۹۰،آئینۂ ایام(قطعات)۱۹۹۹،جہانِ عقیدت(نعتیہ مجموعہ)۱۹۹۹،چند اُردو سخنورانِ سکھر (سکھر کے گیارہ شعرا کا تذکرہ)۲۰۰۰،اصنافِ شاعری اور شاعری کی صنعتیں (تحقیق)۲۰۰۰،موسموں کی رِم جِھم (شعری مجموعہ)۲۰۰۲،تضاد (افسانے)۲۰۰۴،گلستانِ مدحت(نعتیہ مجموعہ کلام)۲۰۰۶،چھیڑ خوباں سے ۲۰۰۸،کھٹے میٹھے( فکاہیے ،افسانے)۲۰۱۰،آج بھی اِنتظار ہے تیرا(عہدِ شباب کی رومانی شاعری کا انتخاب)۲۰۱۱،لہو لہو اُجالا(انقلابی اور مزاحمتی شاعری کا انتخاب)۲۰۱۱،بے لاگ(۱۹۷۸ تا ۲۰۱۳شائع شدہ کالموں کا انتخاب،چھیڑ چھاڑ(طنزیہ و مزاحیہ شاعری)۲۰۱۶،حُسنِ عقیدت(حمدیہ و نعتیہ شاعری )۲۰۱۶،عروض اور تقطیع (تحقیق و تنقید)۲۰۱۷۔
پروفیسر عزیز جبران انصاری کا شمار پاکستان کے اُن وسیع المطالعہ اور کثیر ا لتصانیف ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی تصانیف کا قارئینِ ادب نہایت شدت سے انتظار کرتے ہیں ۔ انھیں جدید لسانیات سے گہری دلچسپی ہے اور انھوں نے لسانیات کے نئے دبستانوں سے بھر پور اِستفادہ کیا ہے ۔انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت جدید یدیت ،مابعد جدید یت، ساختیات،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔ اُنھوںنے دنیا کے جن ممتاز ماہرین لسانیات کے تصورات کو اپنے لسانی موضوعات میں جگہ دی ہے ان میں ایڈورڈ سعید(Edward Said)، ( رولاں بارتھ(Roland Barthes)، ژاک دریدا( Jacques Derrida)،سوسئیر(Ferdinand de Saussure)،رومن جیکب سن ( Roman Jakobson)،نو م چومسکی( Noam Chomsky) اور کلاڈ لیوی سٹرا س ( Claude Levi Strauss) شامل ہیں۔ تخلیقی زبان کے حوالے سے وہ نو م چومسکی کے خیالات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی تخلیقی فعالیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ان کی درج ذیل چار تصانیف زیر طبع ہیں:
رنگِ امروز و فردا،نقدو نظر ،گلزار سخن (پاکستانی شعرا کا تذکرہ)،سو نام ور شعرائے سندھ کا منتخب اُردو کلام(ترتیب و مقدمہ کے ساتھ)
جوہر ِ اندیشہ کی تمازت کو محسوس کرتے ہوئے اکثریہ کہا جاتا ہے علم عروض کا تعلق بھی مشق سخن کی قلبی روداد کی موزونیت یا غیر موزونیت سے وابستہ حقائق عرض کرنے والوں سے ہے۔ وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے والے حساس تخلیق کا ر جب آہنگ و صوت، رنگ ، عطر بیزی اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو عرض ِ نوائے حیات کی صورت میں ، ترنم، تر تیب اور وزن سے مزین کر کے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر تے ہیں تو اظہار و ابلاغ کو وہ ہمہ گیر وسعت ، جامعیت اورندرت نصیب ہوتی ہے جس کے معجزنما اثر سے نثر کی بیزارکُن یکسانیت کا قلع قمع ہو جاتا ہے اور شعر کی قلب و روح کو مسخر کرکے ذہن و ذکاوت کو مہمیز کرنے والی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کو معطر کردیتا ہے۔ وادی و مرغزار میں شگفتہ بر گِ گل پر پڑے شبنم کے موتی جب تک پر توِ خور اور ستم کش ہاتھوں کے جورسے محفو ظ رہتے ہیں ان قطروںکی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی چمک، دل آویزی،عنبرفشانی اور شگفتگی بر قرار رہتی ہے، لیکن جب یہی بیش بہا قدرتی گوہر سمے کے سم کے ثمر کی زد میں آتے ہیں تو کلیوں ،غنچوںاورشگوفوں پر موجود کے یہی جھملاتے تابندہ ستارے اور آب ِحیات کے قطرے ہمیشہ کے لیے عدم کی بے کراں وادیوں کی مسموم فضا میں تحلیل ہو جاتے ہیں ۔شاعری میں کلام ِ موزوں کے تعین و ترتیب کے حوالے سے الخلیل ابن احمد البصری کوعلم ِعروض کا بنیاد گزار سمجھا جاتا ہے ۔اس وسیع المطالعہ عرب ادیب ،زیرک محقق،نقاد،دانش ور اور تخلیق کار نے عربی زبان کے ممتاز کلا سیکی و جدید شعر اکے کلام کا عمیق مطالعہ کیا اورصدیوں سے مروّج لا تعداد اوزان کو محض پندرہ اوزان تک محدود کرکے پوری دنیا سے اپنی خداداد بصیرت اور تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔الخلیل ابن احمد البصری(Born: C .718-Oman,Died:C.791Basra) نے کتاب العروض کی صورت میںجو فقید المثال شعری کا مرانی حاصل کی اُسے دیکھ کر اہلِ علم و دانش دنگ رہ گئے اور اسی بصیرت افروز تحقیق کے اعجاز سے جریدۂ عالم پر اس فطین تخلیق کار کا دوام ثبت ہو گیا۔ عربی زبان کی اولین فرہنگ کی ترتیب بھی اسی فلسفی اور معلم کا اعزاز ہے ۔تاریخ ادب میں مذکور ہے کہ الخلیل ابن احمد البصری کی زندگی بھی عجب کش مکش میں گزری۔یہ حساس تخلیق کار کبھی سوز ساز رومی سے سرشار ہوا تو کبھی پیچ و تاب رازی اس کے در پئے ہو گیا۔جب وہ تخلیقِ شعر اور اس کے پسِ پردہ کارفرما لا شعوری محرکات پر دادِ تحقیق دے رہا تھا اس زمانے میں وہ مکہ میں مقیم تھا ۔مکہ اور گرد و نواح کے شہروں کے ادیب اس لافانی محقق کے اشہب قلم کی جولانیوں سے بہت متاثر تھے اور اس سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔سر زمین حجاز میںخانہ کعبہ کو عروض بھی کہا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ سے قلبی وابستگی ،روحانی عقیدت اور والہانہ محبت کی بنا پر الخلیل ابن احمد البصری نے تخلیقِ شعر کے فنی مباحث سے متعلق اپنی فکر پرور اختراعات کوتبرک کے طور پر علم عروض سے تعبیر کیا۔ تخلیق ِ فن کے لمحوں میںشاعری کے اوازن میں تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ جاری رہتا ہے ، علم عروض اسی کے مطالعہ پر محیط ہے ۔ پروفیسرعزیز جبران انصاری کے ذوق ِسلیم،تحقیقی و تنقیدی بصیرت اورتبحر علمی کا ایک عالم معترف ہے ۔اپنی اس کتاب میں انھوں نے اشعار کی تقطیع کے قواعد پر بھر پور روشنی ڈالی ہے اور یہ بات سمجھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے کہ اشعار کو ٹکڑوںمیں تقسیم کرنے کے بعدمتعلقہ بحر کے ساتھ ان کی مطابقت کیسے کی جاتی ہے ۔ عربی ،فارسی اور اردو زبان میں شعر کی تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات ،وزن، موزونیت، ارکان، تقطیع،زحاف، سالم، مثمن،مسدس اورمربع کے حوالے سے تمام حقائق کو یک جا کر دیا ہے ۔ سالہا سال کی تحقیق کے بعد عربی اور فارسی زبان کے ماہرین عروض جن اوزان پر متفق ہیں اور وہ سب کے سب لمحۂ موجود تک اُردو شاعری میں مستعمل ہیں وہ اُنیس اوزان بھی اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ پروفیسر عزیز جبران انصاری نے ان حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے کہ متحرک کے بالمقابل متحرک اور ساکن کے بالمقابل ساکن اجزا اور حروف کو لانے سے کیا صورت حال وقوع پذیر ہوتی ہے ۔شاعری کے رمز آ شنا اور تقطیع کے جُملہ اسرار و رموز پر دسترس رکھنے والے نقاد کی حیثیت سے انھوں نے واضح کر دیا ہے کہ نقاد کے لیے تقطیع ایسی فعالیت ہے جس میں حروف ملفوظ کی گنتی کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرکات اورسکون کو بہ ہر حال لائق اعتنا سمجھا جاتا ہے ۔اس عمل میں حروف اور حرکات کی مطابقت کاالتزام بعید از قیاس ہے ۔
کتاب ’’عروض اور تقطیع‘‘اٹھارہ ابواب پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کے آغاز میں ’’مصنف ایک نظر میں ‘‘بہت اہم ہے جس میں پروفیسر عزیز جبران انصاری کے مطالعۂ احوال میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے تمام حقائق یک جا کر دئیے گئے ہیں۔ اس کے بعد کتاب کا مقدمہ بھی موضوع کی تفہیم میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے ۔ان ابواب میں تحقیقی مباحث ،نظری تنقید اور عملی تنقید کے ارفع معائر سامنے آتے ہیں وہ قاری کو افکارِ تازہ کے حوالے سے جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں۔پہلا باب عروض کی ابتدا ،بحروں کے ارکان اور ارکان کے اجزا پر مشتمل ہے ۔دوسرے باب میں بحروں میں استعما ل ہونے والے زحافات (مفرد و مرکب ) یعنی اشعار کے ارکان میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس عمل میں اشعار میں کسی حرف کو حذف کرنا،کسی حرکت کا گرنا یا کسی حرف کا اضافہ کر کے شعر کی معنویت میں اضافہ کرنا شامل ہے۔ تیسرے باب میں مختلف بحور ،ان کی اقسام ،رباعی اور اس کے ارکان کی تفصیل پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔کتاب کے چوتھے باب میں شعر کی تقطیع کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔اس باب میں تقطیع کے قواعد سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔یہ باب جن دلچپ حقائق سے متعلق ہے ان میں دورانِ تقطیع ایک حرف کا دو مرتبہ زیر غور لانا، کلمہ کے اختتام پر موجود ہائے مخفی کا دورانِ تقطیع ساقط ہو جانا،واؤ غیر ملفوظ کی کیفیت، شعر کے مصرع میں دو ساکن حروف (مد،نون غنہ)کا پایا جانا، شعر کے مصرع کے درمیان میں تین ساکن حروف کی موجودگی ، شعر کے مصرع کے اختتام پر دو ساکن کی موجودگی اورسبب ،وتد اور فاصلہ سے وابستہ امور۔ اُردو میں مستعمل مختلف بحور اور ان کے زحافات سے بننے والی اقسام کی تفصیلی تقطیع پانچویں باب میںشامل ہے ۔اس باب میں بحر ہزج اور اس کی اقسام کی تقطیع بھی شامل ہے ۔دیگربحور اور ان کی اقسام کی تقطیع ،عملی تقطیع، کلام برائے مشق کا احوال جن ابواب میں شامل ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
باب :۶، بحر رمل اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب: ۷، بحر رجز اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۸،بحر کامل کی تقطیع،باب:۹،بحر متدارک کی اقسام کی تقطیع،باب :۱۰،بحر متقارب اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۱۱،بحر مضارع اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۱۲،بحر قریب اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۱۳،بحرخفیف اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۱۴،بحر مجتث اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۱۵،بحر منسرخ اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب:۱۶،بحر سریع اور اس کی اقسام کی تقطیع،باب: ۱۷،بے لاگ کالم،باب:۱۸،کلام برائے مشق (غزلیات ،منظومات)
پروفیسر عزیز جبران انصاری کی اس تصنیف کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت کُھل کر سامنے آ تی ہے کہ خلوص اور دردمندی کے جذبات سے سرشار ایک تخلیق کار تخلیق ِ فن کے لمحات میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کرتا ہے ۔وہ اُن جذبات و احساسات کی لفظی مرقع نگاری کرتا ہے جن کے اظہار و ابلاغ کی جستجواسے کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔یوں صریر خامہ نوائے سروش کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شاعر کے ارادی افعال کی تنظیم سے موزوں کلام منصۂ شہود پر آ تا ہے ۔ بادی النظر میں شاعری اپنی نو عیت کے اعتبار سے ساحری ہے اور قصرِ شاعری واقعتاًشعر ہی کی اساس پر استوار ہے جس کے استحکام ،دِل کشی اور بو قلمونی میں عروض کا کلیدی کردار ہے ۔عروض کے جملہ اراسرار و رموز اور گنجینۂ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے لیے تقطیع نا گزیر ہے ۔ شعر کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ان کی بحر کے ارکان سے مطابقت پیدا کرنا تقطیع کہلاتا ہے ۔اس عمل میں یہ امر سدا پیش ِ نظر رہتا ہے کہ متحرک کے مقابل متحرک لایا جائے جب کہ ساکن کے مقابل ساکن حروف و اجزا کو جگہ دی جائے ۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ علمِ عروض کے وسیلے سے شاعری کے مختلف اوزان اور اس میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دو کلمات کے درمیان حرکت اور سکون میں یکسانیت کی کیا کیفیت جلوہ گرہے ۔مصنف نے اس کتاب میں اوزانِ عروض کا نہایت باریک بینی اور احتیاط سے مطالعہ کیا ہے ۔مصنف نے اس امر پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ مختلف شعرا کا موزوں کلام اوزانِ عروض کی فہرست میں شامل کون سے وزن کے مساوی قرار دیا جا سکتا ہے ۔عملی تنقید کے دوران مصنف نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی عہد کے شاعر کے کلام کی عروضی جانچ پرکھ کے لیے وزن پر توجہ نا گزیر ہے ۔اس مقصد کے لیے ماہرین ِ عروض نے کچھ الفاظ متعین کر رکھے ہیں جنھیں ارکان کہا جاتا ہے ۔ان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شاعری کی مختلف بحروں کی ترکیب انہی آ ٹھ ارکان کی مرہونِ منت ہے ۔
گزشتہ گیارہ برس سے سہ ماہی ادبی مجلہ ’’بے لاگ‘‘پروفیسر عزیز جبران انصاری کی ادارت میں با قاعدگی سے کراچی سے شائع ہو رہا ہے ۔ صحت مند تنقید و تحقیق اور افکارِ تازہ سے معطر تخلیقات کی نمو،ترویج و اشاعت اس رجحان ساز ادبی مجلے کا امتیازی وصف اور بنیادی نصب العین رہاہے ۔ شاعری کی جانچ پرکھ اور عروضی مسائل کے سلسلے میں وہ کسی رعایت کے قائل نہیں ۔اپنی عملی تنقید میں انھوں نے ہمیشہ معیار پر اصرار کیا ہے ۔اس مجلے کا مقبول سلسلہ’’تیکھا کالم‘‘قارئینِ ادب میں بے حد مقبول ہے ۔زیر مطالعہ کتاب ’’عروض اور تقطیع ‘‘کے سترہویں باب میں سہ ماہی ’’بے لاگ‘‘کی زینت بننے والے ’’تیکھا کالم‘‘ کے تقطیع سے متعلق حصوں کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔یہ حصہ مجلہ ’’بے لاگ‘‘ کے چار برس ( اپریل ۔جون۲۰۱۳ء تاجنوری۔مارچ۲۰۱۷ء ) کے شماروں میں شامل ’’تیکھا کالم‘‘ پر محیط ہے ۔اس سے قبل مصنف کی تنقیدی تصنیف ’’بے لاگ ‘‘میں بھی ’’تیکھا کالم‘‘کو شامل کیا گیا ہے ۔مذکورہ کتاب(بے لاگ)میں تیکھا کالم پندرہ برس (۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۳ ء)کی علمِ عروض اور تقطیع کی تفہیم و تدریس کی پیہم کاوشوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے ۔ پروفیسر عزیز جبران انصاری نیعروض اور تقطیع سے متعلق مباحث کو جس عالمانہ انداز میں آ گے بڑھایا ہے وہ ان کی ذہانت اور استقامت کی دلیل ہے ۔ علم بشریات اور ادب کی جمالیات سے انھیں گہری دلچسپی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات کا مطالعہ کرتے وقت تخلیق کار کی زندگی ،ماحول اور معاشرت پر بھی طائرانہ نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی سوچ تعمیری رہتی ہے اور کسی بھی شخص کی تخریب سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تنقید میں کسی ایک موضوع پر اس قدر جامعیت ،ندرت ،تنوع اور صد رنگی کے مظہر گُل ہائے رنگ رنگ کا یک رنگی کا مظہر اورقریۂ جاں کو معطر کر دینے والادل کش گل دستہ مرتب کرناتاریخِ ادب کا اہم واقعہ ہے ۔اردو شاعری میں عروض اور تقطیع پر تحقیقی کام کرنے والے محققین کے لیے چشم کشا صداقتوں اور تاریخ ادب کے حقائق سے لبریزیہ کالم ہر دور میںاہم بنیادی مآخذ ثابت ہوں گے۔ اردو شاعری میںعروض اور تقطیع پر مسلسل بیس برس تک انجمنِ خیال سجائے رکھناپروفیسر عزیز جبران انصاری کا ایسا اعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم دکھائی نہیں دیتا۔انھوں نے اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے ذوق ِسلیم سے متمتع قارئینِ ادب میںعروض اور تقطیع کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کے سلسلے میں جو خدمات انجام دیں وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔
بر صغیر میں مطلق العنان بادشاہوں کی حکومت ہو یا سامراج کا مسلط کردہ نو آبادیاتی دور آزادی ٔ اظہار پر قدغنیں عائد کرنا معمول کی بات رہی۔پس نو آبادیاتی دور کے ادب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس خطے میں آزادیٔ اظہار کی صورت ِ حال ہر دور میںغیر اُمید افزا رہی ہے ۔پروفیسر عزیزجبران انصاری ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ہر قسم کے جبر کو مسترد کرتے ہوئے ،حریت فکر و عمل کو زادِ راہ بنا کر حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے سدا اسوۂ شبیر کوپیش نظر رکھنے والے اس قناعت پسند محبِ وطن پاکستانی ادیب نے تخلیقِ ادب کو معیار اور وقار کی جس رفعت سے آ شنا کیا ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ برطانوی استعمار کے خاتمے کے بعد اس خطے کے ادیبوں کا فکری المیہ یہ رہاکہ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں ادبی انجمنوں نے ستائش باہمی صورت اختیار کر لی ۔پروفیسر عزیز جبران انصاری نے اس نوعیت کے مسموم ماحول اور بیزار کُن روّیے پر ہمیشہ گرفت کی اور اسے مسلمہ تنقیدی معائر سے انحراف قرار دیا۔ تحقیق ،تنقید اور تجزیہ غیر جانب داری،مدلل غور و فکر اور منصفانہ اندازِ فکر کا متقاضی ہے ۔ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق اہم موضوعات ،ادبی نشستوںکے واقعات اور تخلیقی رجحانات کو ’’تیکھا کالم‘‘میں زیر بحث لاتے ہوئے پروفیسر عزیز جبران انصاری نے اِن تمام امور کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔ وہ شاعرانہ الہام ،مابعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور سائنسی انداز فکر کو اقتضائے وقت کے مطابق سمجھتے
ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر کسی معاشرے میں ادیب،محقق ،مورخ اور نقاد انصاف کا ترازو ہاتھ میں لینے کے بعد اس میں ڈنڈی مارنے کی مہلک غلطی کے مرتکب ہوں تو تاریخ میں اس کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔تخلیقی اعتبار سے تو موزوں شاعری کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسے ساحری کا درجہ حاصل ہے مگر جہاں تک شاعری کی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی کا تعلق ہے اِسے زندگی کے اہم واقعات کی ترجمان اور حقائق کی نگہبان قرار دینا درست ہو گا۔ شاعری قلبی جذبات وجدانی کیفیات اور روحانی کشف کو اس موثر انداز میںسامنے لاتی ہے کہ قاری اس کی مسحور کن اثر آ فرینی میں کھو جاتا ہے اور اسے یہ کیفیات اپنے دلِ حزیں میں موجزن محسوس ہوتی ہیں ۔ پروفیسر عزیز جبران انصاری کی اس تصنیف کے مطالعہ سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ انھوں نے حسن کی موزوں انداز میں لفظی مرقع نگاری کی جو راہ دکھائی ہے وہی حقیقی شاعری ہے جو سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو ا لیتی ہے ۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------