دروازہ کیوں
اماں آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔۔ارمان سے شادی وہ میرا اچھا دوست ہے بس۔۔۔۔
پورا دن سب نے خاموشی میں ہی گزارا اگلے دن صبح ناشتے پر صبا نے بات چھیری۔۔۔۔ارمان کو بھی بلا لیا تھا جو ابھی سڑھیوں سے اترتے حور کی بات سن چکا تھا۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔ارمان نے ماحول خوشگوار بنانے کے لیے سب کو سلام کیا جس سے سب اسکی طرف متوجہ ہوۓ۔۔۔
اچھا ہوا بیٹا تم آگے ہو۔۔۔۔۔میں تمھاری اور حور کی شادی کا سوچ رہی ہوں کیا تمھیں اعتراض ہے۔۔۔۔صبا نے بنا بات کو گھومانے کے صاف بات کی۔۔۔۔۔
صبا تم کیا کہہ رہی ہو یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔کیوں ممکن نہیں میں تو یہی چاہتی تھی میری بیٹی میرے آنکھوں کے سامنے رہے اور ارمان سے بہتر کوٸی اوپشن ہوسکتا ہے سمن۔۔۔۔
ماما مگر میں ہادی۔۔۔۔۔وہ ناراض تھی اس سے مگر پیار بھی تو کرتی تھی۔۔۔۔۔کل سے ناجانے کتنی کال کر چکا تھا ہادی مگر اسنے کال نہیں اٹھاٸی۔۔۔۔اور آخر فون بند کردیا
چپ حور بس آج بول دیا آٸیندہ نہیں بھول جاٶ اسے تم۔۔۔۔تم دونوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔۔۔۔
تم بتاوں ارمان کیا کرو گے حور سے شادی۔۔۔۔آپیا وہ۔۔۔۔وہ کیا ارمان بولو ۔۔۔۔۔۔۔جی میں تیار ہوں اپیا شادی کے لیے۔۔۔
ٹھیک ہے اسی جمعے تم دونوں کا نکاح ہوگا۔۔۔۔۔مگر ماما میں ارمان سے شادی نہیں کرسکتی ارمان تم بھی تو کچھ بولو تم کیسے کرسکتے ہو
ماما بات تو سنیں۔۔۔۔۔صبا کو اپنا فیصلہ سنا کر اوپر جاتا دیکھ کر حور نے صبا کو پکارا۔۔۔۔
اور اگر تمھیں اپنی ماں سے ذیادہ اس سے محبت ہے تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔میرے مرنے کے بعد کر لینا اس سے شادی۔۔
ماما کیا کہہ رہی ہے میں آپ سے ذیادہ کسی سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔میری جان میں تمھاری بھلاٸی کے لیے ہی کہہ رہوں۔۔۔
انسان محبت کے بنا ذندہ رہ سکتا ہےمگر عزت کے بنا نہیں۔۔۔۔اور یہ ہماری خوشفہمی ہوتی ہے کہ چند دن۔۔۔۔ گھنٹے۔۔۔۔ مہینے۔۔۔سال ساتھ گزار لی تو اب ہم انکے بنا رہ ہی نہیں سکتے ہم جیتے اور اسکی زندہ مثال تمھاری ماں ہے۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ روکی نہیں اور پیچھے سب اسے جاتے دیکھتے رہے اور پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے گے۔۔۔۔
********
حور میری جان۔۔۔حور کمرے میں جانے کے ساتھ بیڈ پر اوندھی لیٹ کر رونے لگی۔۔۔۔۔
اپیا ماما ایسا کیوں کر رہی ہے میری جان تو اپنی امی کی حالت کو بھی دیکھ کون سی ماں ہوگی جان بوجھ کر اپنی اولاد کو جہنم میں ڈالے اور سوچ جہاں تیری ماما کی عزت نہیں وہاں تیری کیا ہوگی مگر اپیا آخر ہواکیا تھا۔۔۔۔۔وہ صبا خود بتاۓ گی۔۔۔۔اب بول کوٸی ذبرداستی نہیں ہے۔۔۔۔ہاں یا ناں۔۔۔
حور کو کہا لگا۔۔دیکھاٶ حور دیکھاٶ ماما کو۔۔۔۔۔وہ روتی آنکھوں سے اسکے زخم پر پٹی کررہی تھی ۔۔۔۔۔ماما بڑا والا پڑاٹھا۔۔۔۔میں تمھارے لیے ماں باپ دونوں ہوں ت۔۔۔۔۔ھیں کوٸی بھی مسلہ ماما کو بتا نا۔۔۔۔۔ماما دیکھے ارمان اٸسکریم نہیں دے رہا۔۔۔۔ماما میں اپ کے پاس سوجاٶ۔۔۔اسے صبا کا لاڈ پیار کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔۔وہ اپنی ماں کو چھوڑ کر ہادی کو نہیں چن سکتی تھی۔۔۔۔آپ ماما کو کہہ دیں میں تیار ہوں۔۔۔
حور نے فون کھولا تو ہادی کی اتنی کال دیکھ کر کال بیک کا ارادہ کیا مگر اسی وقت کال آٸی اور حور نے اٹھا کے سلام کیا۔۔۔
کہاں تھی یار میں نے کتنی کال کی۔۔۔۔فون کیوں بند کیا بات تو کرتی میں تمھیں سب بتادیتا۔۔۔۔اب فاٸدہ نہیں ہے اور میرے ہونے والے شوہر کو پسند نہیں ہے کے میں کسی اور لڑکے سے بات کروں اس لیے آٸندہ کال مت کرنا۔۔۔
کیا فضول بول رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ہادی کا یہ سن کر دماغ گھوم گیا پھر بھی وہ بات کو مزاق میں اڑانے لگا۔۔۔
اچھا اب تم بدلے لو گی جیسے میں نے نہیں بتایا تم ایسے تڑپاٶ۔۔۔۔۔گی۔۔
نہ میں بدلہ لے رہی ہوں اور نہ ہی ایسا کوٸی شوق رکھتی ہوں۔۔۔۔بس یہی بتانے کے لیے کال کررہی تھی اور اگر یقین نہ آۓ تو اس جمعہ کو آجانا میرے نکاح پر۔۔۔۔حور بول کر فون رکھ چکی تھی۔۔
ہادی کو لگا کے کسی نے کان میں سیسہ ڈال دیا ہو۔۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوۓ فون پر نمبر ملانے لگا۔۔۔۔اور دو بیل پر کال اٹھالی گی۔۔۔۔۔ہاۓ برو کیسے ہو آپ۔۔۔۔۔انگریز کی اولاد ماں کو فون دے سوری بھاٸی جان وہ مارکیٹ گی ہیں۔۔۔۔
وہاں پر بھی میری ماں سے کام کروا رہا ہے۔۔۔۔اسلیے بلاتا ہے
آگی آگی بس۔۔۔ماما آ پکے لاڈلے کا فون ہے۔۔۔۔دو مہینے سے اپ وہاں ہے یاد بھی ہے کے نہیں ایک اور بیٹا بھی ہے اور بڑا بھی ہوگیا...
اسکی شادی کا سوچنے کی بجاۓ، اپ چھوٹے کے لاڈ اٹھا رہی ہے اب آپ کی ٹکیٹ کرو دی ہے میں نے کل کی آپ جلدی آۓ بہت ضروری ہے۔۔۔
________
حور کے گھر میں تیاریاں شروع تھی۔۔۔اس دن کے بعد کسی نے اس ٹوپک پر بات نہیں کی تھی۔۔۔۔۔سب خاموش تھے حور ماں کی محبت میں چپ تھی تو سمن اور ارمان صبا کی وجہ سے۔۔۔۔خوش کوٸی نہیں تھا۔۔صبا بھی بیٹی کی محبت اور فکر میں یا شاٸد پھر جذبات میں آکر غلط فیصلہ کرنے جا رہی تھی۔۔۔۔
❤❤❤❤❤
کیوں بلایا ہے ہادی اتنی جلدی میں سب خیریت ہے۔۔۔۔۔فون پر کچھ بتایا بھی نہیں۔۔۔۔ماما مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔۔۔۔۔ ہاں بولو کیا ہوا۔۔۔۔ہادی آمنہ بیگم کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔۔۔
ماما میں نے ایک لڑکی پسند کی۔۔۔۔ارے واہ میرا بیٹا تو بڑا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔تو مسلہ کیا ہے ہم رشتہ لے جاتے ہے۔۔۔آپ پوچھے گی نہیں کے لڑکی کون ہےمیں۔۔۔۔۔ارے میرے بیٹے نے پسند کی ہے تو اچھی ہوگی ۔۔۔۔۔۔ماما وہ چاچو کی حور ہے۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔کیا یہ سن کر آمنہ بیگم کرنٹ کھا کر اٹھی۔۔۔۔
دماغ صحیح ہے حورین کہا سے آٸی یہاں پر۔۔۔۔۔اور ہادی نے اپنی ماں کو ساری بات بتادی۔۔۔۔۔تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا میں اسے ملنا چاہتی ہوں مجھے لے چل ماما ابھی ٹاٸم تو دیکھے ہم کل صبح جاٸیں گے۔۔۔۔۔۔اپ بھی اتنی لمبی فلاٸٹ سے آٸی ہیں آرام کریں تھوڑا۔۔۔۔شب خیر۔۔۔۔۔
❤❤❤❤
چلیں ہادی۔۔۔۔۔صبح فجر پڑھ کر اپنے گھر کی سلامتی کی دعا کرتی وہ۔۔۔ہادی کے کمرے میں آکھڑی ہوٸی۔۔۔۔۔ماما ابھی تو چھے بجے ہیں ابھی تو کوٸی اٹھا بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔
ہادی میں نےیہ رات بہت مشکل سے کاٹی ہے میں۔۔۔۔ تو مایوس ہوگی تھی مگر میرا رب بہت کریم ہے اسنے مجھے مایوس نہیں ہونے دیا۔۔۔
میں واری جاٶ اپنی ماں کی محبت پر میری پیاری اماں جان آپ دو ماہ امریکہ کیا رہ کر آٸی بھول گی ہیں کیا یہ کراچی ہے 10 بجے سے پہلے تو کوٸی اٹھتا نہیں۔۔۔۔
ایسا نہ ہو اس گستاکی پر رشتہ ہی نہ دیں۔۔۔ایسے کیسے میرا ہیرے جیسا بچہ ہے اور صبا تو تجھ سے کتنا پیار کرتی ہے وہ ماضی کے خوبصورت دنوں میں کھوگٸےتھے۔۔۔
تمھیں ہمیشہ میری ڈانٹ سے بچاتی تھی وہ چوکلیٹ کی لالچ میں داوای پیلا دیتی تھی۔۔۔۔ایک دن تمھاری اور حور کی لڑاٸی ہوٸی۔۔۔۔تھی اور تم اسکے پیچھے بیلن لے کر بھاگ رہے تھےاور خود سڑھیوں سے گرگٸے۔۔۔۔۔اس دن صبا نے تمھارا جتنا خیال رکھا۔۔۔اس سے ذیادہ حور نے رکھا تھا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی اور تم نے بھی بہت فاٸدہ اٹھایا تھا معصوم بچی کا۔سارا ہوم ورک اس سے کرواتے اسکے ہاتھ سے کہانا کھاتے اور تو اور بچاری کا لنچ بھی کھا جاتے تھے اوروہ معصوم میری بچی یہ سوچ کر نہیں بولتی میری وجہ سے اسے لگا ہے۔۔کوٸی معصوم نہیں ہے وہ اب تو آپ ملیں گی نہ پتہ لگے گا شیرنی ہے پوری۔۔۔۔۔اور دونوں ہی ہنسنے لگے
اب صرف باتیں کرو گے بھی یہ چلو گے بھی مجھے اب انتظار نہیں ہوتا چلیں ماما آپ تیار ہوجاٸین ناشتہ کرکے چلتے ہیں۔۔۔۔
❤❤❤❤
صبا بھی بوٹیک کے لیے نکل رہی تھی۔۔۔۔وہ حور کا ڈریس خود ڈیزاٸن کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ جب ڈوربیل بجی اور سمن دروازہ کھولنے گی تو سامنے ہادی کو دیکھ حیران ہوتی پوچھنے لگی۔۔۔۔آپ یہاں کیا۔۔۔۔۔۔وہ بول ہی رہی تھی کے صبا کی آواز ےآٸی کون ہے سمن۔۔۔۔
آنٹی یہ میری ماما اسلام و علیکم ۔۔۔۔آٸیں اندر صبا جو اپنا سامان بیگ میں ڈال رہی تھی۔۔۔سمن کے پکارنے پر سامنے دیکھا تو بس دیکھتی رہ گی منہ سے الفاظ ادا نہیں ہورہے تھے۔۔۔۔
دونوں آنکھیں نم ہوچکی تھی۔۔۔۔۔آمنہ بیگم آگے بڑھی اور صبا کو گلے سے لگا لیا اور دونوں کا رونا شروع ۔۔۔۔کچھ دیر گزری کے ہادی
بسں کردیں آپ لوگ اب اگر تھوڑا اور روٸی نا تو لوگ seaview کی جگہ یہاں آٸیں گے۔۔۔۔۔
یہ تو اب بھی ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔بلکل میری پیاری چاچی جان آپ کا ہادی بلکل ویسا ہی ہے۔۔۔۔۔وہ اسکا ماتھا چومتی پھر اسے دیکھنے لگی اللہ نظر بد سے بچاٸیں۔۔۔۔۔۔کیسی بہن تھی بنا بتاۓ نکل گی ایک کال کرلیتی میں آجاتی انی جلدی کیوں کی ۔۔۔۔۔۔آمنہ بیگم نے بولنا شروع کیا اور صبا سر جھکاۓ ان کے شکوۓ سن رہی تھی۔۔۔۔
تجھے یاد ہے صبا تو کہتی تھی کے میرا نام ہی تیری ماما جیسا نہیں ہے میں ہوں بھی تیرے لیے انھی کی جگہ تو سب بھول کر چلی گی یہ نہیں سوچا تیرے جانے کے بعد ہم سب کا کیا ہوگا۔۔۔۔۔بابا وہ تیرے غم میں دنیا چھوڑ گے۔۔۔۔
کیا۔۔۔صبا اب آمنہ بیگم کو دیکھتی حیرانی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔جن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔
وہ تو پہلے دن سے جانتے تھے کے تو ایسی نہیں ہے۔۔۔۔سب نے تجھے بہت ڈھونڈا اب وہ سب بیٹھ چکے تھے۔۔۔۔
مگر تو و پتہ نہیں کہا چلے گے تھے اللہ نے تیرے صبر کا بدلہ لے لیا صبا۔۔۔۔تیرے ساتھ غلط کرنے والوں کو ان کی سزا مل رہی۔۔۔۔
۔۔اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔۔بے شک بڑا کرنے والوں کو انکے گناہوں کی سزا مل جاتی ہے۔۔۔۔۔
معاف کر دے۔۔۔۔
نہیں بھابھی مگر میرا اتنا ظرف نہیں ہے۔۔۔۔میں اپنے بچے کو قاتلوں کومعاف کردوں وہ۔۔۔۔لوٹا سکتی ہے میرے دس سال جو میں نے اکیلے گزارے۔۔۔۔نہیں نہیں وہ روتے ہوۓ آنسو صاف کرتی آمنہ بیگم کے گلے لگ گی۔۔۔۔۔بھابھی اپ کو پتہ ہے میں واپس آجاتی مگر جب ڈاکٹر نے کہا کے سوری ہم نہیں بچا سکے میں مر گی تھی۔۔۔۔آپکو پتہ ہے اپنے بچے کو کھونا بہت مشکل ہے نگر میں پھر بھی ذندہ ہوں اب تک صرف حور کے لیے میں اسے اس ظالم دنیا میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔۔۔۔
صبا میں جانتی ہوں تمھارا دکھ بہت بڑا تھا مگر اللہ کی رضا سے بڑھ کر تو کچھ نہیں۔۔۔۔بے شک وہی زندگی دینے والا ہے اور وہی زندگی لینے والا ہے۔۔۔۔
یہ زندگی اسکی امانت ہے اور اللہ کے فیصلوں میں کا کیوں نہیں کہتے بس ہمیں دعا کرنی چاہیے اللہ ہمارے حق میں بہتر کرے۔۔۔
ہم نہیں جانتے ہمارے لیے کیا بہتر ہے وہ بہتر جاننے والا ہے۔۔۔۔
ان لوگوں نے میری ذات کو داغ دار کیا اور وہ جو مجھ سے محبت کے دعوے کرتا تھا۔۔۔۔وہ تماشاٸی بن کر سنتا رہا۔۔۔۔اوررر۔۔۔۔ وہ وووہ
وہ صرف سن نہیں رہا تھا یقین کر رہا تھا اسے مجھ پر بروسہ نہیں تھا میں کہہ رہی تھی مگر نہیں۔۔۔۔۔
اسے میرا character certificate چاہیے تھا۔۔۔۔ بھابھی اسے کاغذ کے ٹکڑوں پر اعتبار تھا مگر میرے کہے پر نہیں۔۔۔۔۔یہ تھی محبت۔۔۔۔ایسی ہوتی ہے محبت۔۔۔
وہ بھی خوش نہیں تھا اس نے وہ پیپر نہیں کھولے تھے جلاۓ تھے میرے سامنے وہ محبت کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے۔۔۔
بس کردیں بھابھی اسکی طرف داری کرنا چھوڑ دیں۔۔۔۔۔آپ کو یہاں بھی اسی نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔
نہیں صبا اسے پتہ بھی نہیں ہے کہ میں یہاں آٸی ہوں مجھے تو ہادی نے بلایا تھا۔۔۔
وہ تڑپتا ہے آج بھی صبا۔۔روتا ہے اپنے رب سے روز تم لوگوں کی سلامتی مانگتا ہے ۔۔۔ کہتا کسی سے نہیں ہے مگر میں ن اسے تیری یاد میں روتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔دس سال کی سزا کافی ہے۔۔۔۔۔
بس کردے بھابھی بس۔۔۔
اسکا تڑپنا۔۔۔۔۔تڑپنا۔۔۔۔اسکا رونا۔۔۔۔رونا۔۔۔اور جو میں ترپی میں روی دس سال تک اس کا کیا بھابھی ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے آنسو صاف کرتی کہنے لگی۔۔۔
نازش آپا کے بیٹے کو برین ڈیومر (brain tumer) ہو گیا تھا۔۔۔۔۔اللہ نے اسے بھی اسی چیز پر ترپایا جو چیز اس نے تجھ سے چھینی۔۔۔
اکلوتے بیٹے کی موت پر صاقب بھاٸی(نازش آپا کے شوہر) نے غم اور غصے میں آپا کو طلاق....
وہ تو بیٹے کی موت کے غم میں مبتلا ھی اسکے بعد طلاق کا داغ انھیں پاگل کر گیا تھا۔۔۔۔۔وہ پاگل ہوگی تھی گھر سے باہر نکل جاتی۔۔۔۔۔خود کا ہوش ہی نہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔آمنہ بیگم بولے جارہی تھی سمن اور صبا دونوں کے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔
ایک دن ایسے ہی وہ گھر سے نکلی اور لوگوں کے کندھے پر واپس آٸی۔۔۔۔۔بھابھی میرا رب گواہ ہے میں نے انھیں کبھی بددعا نہیں تھی۔۔۔
میرا رب بہت غفورورحیم ہے صبا وہ اپنے بندے کے ساتھ کی زیادتی کرنے والوں کوسزا دیتا ہے۔۔۔۔۔ان کو معاف کردیں تاکہ وہ بھی سکون سے اپنے رب حقیقی کے پاس چلی جاٸیں۔۔۔
ایک انسان کے لیے محتاجی بہت بڑی سزا ہے صبا وہ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس گی ہے مگر سکندر اپنی ماں سے منہ مورے بیٹھا ہے۔۔۔
بابا کے جانے کے بعد انھیں فالج ہوگیا جوان بیٹی کا دکھ انھیں روز جیتا اور مارتا ہے۔۔۔۔۔ انکو معاف کردو۔۔۔۔صبا تم معاف کردوگی تو اللہ ان کو معاف کردے گا۔۔۔۔
بھابھی میں نے کبھی انکا بڑا نہیں سوچا ہے بھابھی اور میں نے ان کو معاف کیا اللہ ان کی آزماٸش کم کرے۔۔۔۔اور اب اسے زیادہ میں کچھ نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔
میں آج ایک اور کام سے بھی آٸی ہوں۔۔۔۔بچپن سے حور میری مانگ تھی۔۔۔۔وقت اور حالت بدلے مگر آج پھر دونوں مل گے اسے اللہ کی طرف سے اشارہ سمجھو کیا ہم اس رشتے کو آگے بڑھا سکتے ہیں اتنا حق تو رکھتی ہوں نا میں۔۔۔۔آمنہ بیگم نے التجاٸی نظروں سے صباکو دیکھا۔۔۔
بھابھی کسی باتیں کر رہی ہیں آپ میری ماں کی جگہ ہیں آپ کا نام ہی امی سے نہیں ملتا صرف اپکی عادات اور اخلاق بھی امی جیسا ہے۔۔۔مگر اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔جو ہو گیا سو ہوگیا۔۔۔۔
گڑھے مردے اکھاڑنے سے کچھ نہیں ملے گا سواۓ تکلیف کے۔۔۔۔آپ بیٹھے پہلی بار میرے گھر آٸی ہیں کھا کر جایا گا۔۔۔
نہیں صبا کھانا نہیں....
بھابھی میں نے حور کا رشتہ کردیا۔۔۔۔۔۔اس جمعہ نکاح ہے حور اور ارمان کا۔۔۔۔
مجھے خوشی ہوگی ا گر آپ نکاح میں آٸیں گی۔۔۔۔چاچی پلیز میں حور سے۔۔۔۔
ہادی کے بولنے پر صبا اسکے پاس آٸی۔۔۔۔۔ہادی مجھے بھی تم سے پیار ہے مگر یہ میرے بس میں نہیں ہے بھول جاو تم اسے ۔۔۔
حور سڑھیوں سے اتر رہی تھی کے سامنے ہادی کو کہتا۔۔۔۔میں پیار کرتا ہوں حور سے۔۔۔۔۔حو ر بھی تڑپ ہی گی تھی دل میں کسی کو رکھ کر کسی اور سے شادی کرنا۔۔۔۔آسان تو نہیں ہوتا
یہ تو خیانت ہے اس شخص کے ساتھ جو ہم سے شادی کرۓ اور بدلے میں ہم اسے وہ محبت بھی نہ لوٹا سکیں۔۔۔۔
حور نیچھے آگی اور آمنہ بیگم اسے دیکھ کر گلے لگا لیا۔۔۔۔۔میری بچی۔۔۔۔۔بڑی امی۔۔۔۔۔۔حور کے کہنے پر آمنہ بیگم اسکے چہرے پر ہاتھ پھیڑتی۔۔۔۔
ماتھا چوم کر پرس سے پیسے نکال کر حور کا صدقہ اتاڑ کر ہادی کو پیسے دیا۔۔۔۔غریبوں کو دے دینا۔۔۔۔
چلو ہادی۔۔۔۔آمنہ بیگم کہہ کر روکی نہیں۔۔۔۔
دروازے پر پہنچ کر۔۔۔۔صبا کی آواز پر روکی۔۔۔۔۔
میں۔۔۔۔بھابھی آپ کو سوچ کر بتاٶں گی۔۔۔۔
میں انتظار کروں گی۔۔۔۔