مجھے یاد ہے وہ دن جب تم نے مجھے چھوڑا تھا۔۔۔۔
جو اک پل نہیں رہتی تھی تیرے بن
اسے کس طرح سے توڑا تھا
جسے عادت تھی دن رات تمھاری
تم نے اس سے کس طرح منہ موڑا تھا
دلا کر اپنی محبت پر یقین
تم نے ہی اسکا ہاتھ چھوڑا تھا
ان راتوں کی خاموشیوں میں سسکیاں لیتے ہوۓ
اس نے تم سےتعلق رکھنے کے لیے ہاتھ تک جوڑا تھا
تم جانتے تھے وہ ہرگز نہیں چھوڑے گی تمھیں
شاٸد اسی لیے لا پرواہی سے تم نے اسے روندھا تھا
نہیں دی تھی تمھیں بددعا اس نے پھر بھی
اب تم لوٹ کر کیا دیکھتے ہو کہ وہ زندہ کیسے ہے
جس کا وجود خود تم نےاس سے چھینا تھا😥
______
خبردار اگر ہاتھ بھی لگایا تو تمھیں کیا لگتا ہے سکندر مرزا داڑھی بڑھا لینے سے اپنے گناہ چھپا لو گے نہیں۔۔۔۔۔آنسو خود بہ خود باہر آرہے تھے جیسے دس سال کا غصہ صبر سب آج ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔۔
سڑھیاں اترتی حور کے پیڑ وہی تھم گے تھے۔۔۔۔وہ تو انجان تھی ہر بات سے۔۔۔
سمن جو پانی لینے گی تھی صبا کی آواز ر پر بھاگ کر آٸی اور بولنے لگی۔۔۔۔
صبا یہ وہ ہادی کے چاچو۔۔۔سمن کی بات مکمل بھی نہیں ہوٸی تھی صبا پھر بولنے لگی۔۔۔۔
اووووووہہ اب تم مجھ سے میری بیٹی چھینے آۓ ہو شرم آنی چاہیے اور مقابل کھڑا شخص تو بس اسے دیکھے جا رہا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ معجزے ایسے بھی ہوتے ہیں جیسے وہ پچھلے دس سالوں سے ڈھونڈ رہا تھا وہ ایسے اچانک۔۔۔۔
ماما آپ کیا کہہ رہی ہے مجھے کیوں چھینے گے۔۔۔۔
وہاں موجود ہر شخص حیران تھا سواۓ ہادی کے جو حور کو پہلے دن ہی پہچان گیا تھا اور پھر اسکی پوری چھان بین کر کے جب اسے پتا چلا کے یہ اسکے چاچو کی بیٹی حور ہے تو دوستی برھاٸی اتنی کے محبت ہوگی۔۔۔۔اوروہ سب صحیح کرنے جا رہا تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ اتنا سخت ریکشن ہوگا۔۔۔۔
حور نے تو شاٸد غور ہی نہیں کیا تھا کہ سامنے موجود شخص کون ہے شاٸد غور دیتی تو یاد آتا مگر ابھی وہ اپنی ماں کے لہجے اور باتوں کوسمجھنے کی کوشش کر رہی تھی
حور تم اوپر جاٶ۔۔۔۔صبا نے سے کہا
مگر ماما وہ۔۔۔تم نے سنا نہیں اوپر جاٶ۔۔۔۔۔صبا کی آواز اور تیز ٸی تو سمن حور کو اوپر جانے کا اشارہ کیا جو سڑھیوں پر کھڑی ہوکر باتیں سنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
صبا کیا ہوگیا ہے کون ہے یہ اور کیوں چھینے گے حور کو۔۔۔۔
سمن یہ وہی ہے جس نےمیری زندگی بے رنگ کردی۔۔۔۔وہ سسکیوں میں رو رو کر بول رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور یہ سمجھتا ہے میں اسے پہچان نہیں پاٶں گی اسے کہو جاۓ یہاں سے اور کبھی مر کر نہ آۓ۔۔۔وہ رو رو کر دیوار سے ٹیک لگا چکی تھی۔۔۔
آپ پلیز جاٸیں یہاں سے۔۔۔سمن دونوں مخاطب ہوکر کہنے لگی۔۔
مگر آنٹی۔۔۔پلیز ابھی اسکی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ چاچو چلیں
نہیں۔۔۔ وہ کب سے سب کچھ سن رہا تھا اب بولا تھا
وہ آہستہ آہستہ قریب آرہا تھا۔۔۔۔دور رہو مجھ سے صبا اسے قریب آتا دیکھ کر چلاٸی۔۔۔۔
ایم سوری۔۔۔۔سکندر کے منہ سے معافی نکلی تھی مگر کیا دو بول انسان کے بیتے زخم بہردیتا ہے کیا اتنے دکھ جو اٹھاۓ صبا نے ان دو الفاظوں سے بہر جاٸیں گے۔۔۔۔
سوری۔۔۔۔۔صبا تالیاں بجاتی آگے آٸی بلکل سکندر کے سامنے واہ سکندرمرزا واہ۔۔۔۔۔ کیا بات ہے تمھاری تمھیں لگتا ہے یہ دو لفظ بول کر تمھیں معافی مل جاۓ گی۔۔۔۔۔وہ رو بھی رہی تھی اپنی آنکھوں میں آۓ آنسو پونچھی جو پھر نکل آتے۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ چلاٸی کمرے میں موجود ہر شخص حیران تھا......
صبا کا ہاتھ سکندر کے گرابان پر تھا اور وہ اسے روک بھی نہیں رہا تھا۔۔۔۔
اوپر کھڑی حور تو بلکل سکت ہوچکی تھی۔۔۔۔کے اسکی ماں نے اسے اتنے سال جھوٹ بولا اسکی فیملی تھی۔۔۔۔
تمھیں لگتا ہے میں تمھیں معاف کردوں گی کبھی نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔
وہ ہاتھ سےدھاکا مارتی خود اپنے آنسو پونچھنے لگی۔۔۔۔اور مقابل کھڑا شخص اسکے دھکے سے مشکل سے دو انچ پیچھے گیا
چلے جاٶ یہاں سے چلے جاٶ۔۔۔۔۔قاتل ہو تم قاتل میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی
ہادی یہ سن کر حیران اور پریشان ہوا ۔۔۔۔۔۔ حور کی حالت بھی کچھ الگ نہیں تھی اسے تو اک کے بعد ایک جھٹکا مل رہا تھا
صبا سمبھالو خود کو۔۔۔۔۔صرف سمن ہی تھی جو اس ٹینشن میں بھی تہمل سے حالات بہتر کرنے کی کوشش ررہی تھی.....
صبر کروں اتنے سال سے صبر ہی تو کر رہی تھی لیکن اب بس۔۔۔۔وہ چیخ رہی تھی اور اسکی آواز میں کیا کچھ نہیں تھا نفرت اتنی نفرت کے سامنے والا بھی تڑپ اٹھتا
قاتل ہے یہ شخص میری خوشیوں کا میرے خوابوں کا میرے جذبات کا میری وفاٶں کا وہ روتے روتے بول رہی تھی اور نڈھال ہوتی جا رہی تھی قاتل ہے یہ میری محبت کا میرررر۔۔۔۔ے ےےےے میرےےے اب اسکے آنسووں میں تیزی آگی تھی میرے بچے کا۔۔۔۔۔
یہ الفاظ تھے کے کیا وہاں موجود ہر شخص ہی حیران تھا۔۔۔۔ سواۓ سمن کے وہی تو تھی جو اسے اس رات تیز بارش میں صبا کو ہاسپٹل لے گی تھی۔۔۔
اور اسے خبر ہوٸی کے اسکی اولاد دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوگی اور اسے مارنے والے اور کوٸی نہیں اسکے اپنے خونی رشتے تھے۔۔۔۔
ماما آپ یہ کیا کہ رہی ہے آپ نے تو کہا تھا نا۔۔۔۔ حور بولنے لگی جو ہر بات سے انجان تھی
جھوٹ کہا تھا میں نے جھوٹ۔۔۔۔۔ وہ اسے بیچ میں روک کر خود ہاتھوں سے چہرہ چھپاتے رونے لگی۔۔۔۔
اسے کہو سمن یہاں سے چلا جاۓ اور کبھی مر کر نا آۓ چلو حور وہ حور کا ہاتھ پکڑتی اوپر لے جاتی رہی۔۔۔۔
اور سمن سکندر اور ہادی کو جانے کا کہہ کر واپس اوپر صبا کے پاس چلی گی۔۔۔۔
چلیں چاچو۔۔۔۔ہادی ے اسے پکارہ جو ابھی بھی صبا کی باتوں پر حیران کھڑا تھا۔۔۔۔۔
ہہہہمممم۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں پر موجود حور اور صبا کی فریم والی فوٹو اٹھا کر وہ گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
❤❤❤❤❤
اوپر جاتے ہی حور کا ہاتھ چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں چلے گی۔۔۔۔۔ حور بھی بہت پریشان تھی کیا تھا جو اسے اتنا کچھ چھپایا ماما نے ایسا کیوں کیا اور ہادی نے بھی مجھ سے جھوٹ بولا وہ جانتا تھا یا نہیں
یہ سب کیا ہے میرا سر وہ اپنے ہاتھ سے سر دباتی بولنے لگی۔۔۔اور پین کلر کہا کر لیٹ گی
حور دروازہ کھولو۔۔۔۔ سمن کی آواز آٸی مگر وہ تو دنیا سے غافل گہرینیند میں سو گی تھی۔۔۔۔
ابھی وہ صبا کے دروازے پر بھی دستک دے کر آٸی تھی مگر وہاں سے بھی یہی سنے کوملا تھا پلیز سمن چلی جا اکیلا چھوڑ دے مجھے۔۔۔۔
صبا کمرے میں گی تو اسکا ضبط ٹوٹا اور وہ گھٹنوں میں سر دیا رونے لگی کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اسکے ساتھ گزارے لمحے۔۔۔۔
روکو وہی۔۔۔اور جاٶ.....نہیں نہیں رکو بھی نہیں جاٶ اپنی اس تانیہ کے پاس سکندر اسے دیکھے گیا شادی کے جورے میں اسی کے بیڈ پر پورے حق اس پر حق جمع رہی تھی اب کھڑے گھور کیا رہے۔۔۔۔۔۔۔ہو شرم نہیں آتی ۔۔۔۔۔ کسی کی بیوی کو اسے دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔ اسکی بات پر سکندر زور سے ہنستے ہوۓ اسکے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔
چلیں جب تک تمھارا شوہر نہیں آتا تو ہم بات کر رہے۔۔۔۔ٹھیک ہے مگر جلدی جلدی بولو ٹاٸم نہیں ہے ابھی میرا وہ کھڑوس میاں آگیا تو تمھاری خیر نہیں۔۔۔😶
تم نے مجھے کھڑوس کہا۔۔۔۔یار اچھا اچھا سوری نہ صبا کانوں کو ہاتھ لگاتی کہنے لگی۔۔۔۔۔
مجھے اٸسکرٸم کھانی ہے اٹھو۔۔۔۔صبا سکندر کے سر پر کھڑی اسے نیند سے اٹھارہی تھی۔۔۔۔
صبوووو کل صبح پکا ابھی سونے دو یار۔۔۔۔۔۔ نہیں اٹھو مجھے کھانی ہے کوٸی پیار نہیں کرنا مجھ سے دیکھ لو حور دیکھ لو اپکی ماما وہ اور نکلی آنسو بہاتی اس سے پہلے سکندر اٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا اور پیچھے صبا ہنستی رہی میرا پیارا😍
نکل جاٶ تم جیسی لڑکیاں ہمارے گھر کے لاٸق ہی نہیں تھی۔۔۔۔تم بد کردار ہو۔۔۔میں جھوٹ نہیں بول رہی میرا یقین کرو۔۔۔میں جھوٹ نہیں بول رہی سکندر سکندر۔۔۔۔۔ اسکے آنسو اور تیزی پکر گے تھے کیا کیا یاد نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔
سمن نے پھر نوک کیا صبا حور دروازاہ نہیں کھول رہی یہ سنتے ہی صبا نے دروازہ کھولا اور آنسو پونچ کر حور کے مرے کی طرف بجایا۔۔۔مگر اندار سے نہ تو آواز آٸی اور نہ کسی نے کھولا۔۔۔۔
______
نہیں کھول رہی ہے حور۔۔۔۔سمن کہی کچھ ہو۔۔۔اللہ نہ کرے صبا رکو میں دوسری چابی لاتی ہوں تم رو نہیں صبا
جب اندر گے تو حور کو سوتا پایا تو دونوں کی جان میں جان آٸی۔۔۔۔۔صبا وہی حور کے پاس گی اسکے سر پر بوسا دیا اور وہی بیڈ کے نیچھے بیٹھ گی اور سمن بھی اسکے پاس ہی آگی صبا۔۔۔۔ہمت کرو ایسے کرو گی توحور کو کیا ہوگا۔۔۔۔۔
مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔تم تو جانتی ہومیں نے حور کو اس سب سے دور رکھنے کے لیے میں نے کیا کچھ نہیں کیا تم جانتی ہو نہ۔۔۔۔میں نے کہا تھا دل گھبرا رہا ہےکچھ تو ہونے والا ہے۔۔۔وہ اب بھی رو رہی تھی اب بس سمن تم ارمان کو کال کر کے بلالو میں نے اک فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔
کیا صبا۔۔کیسا فیصلہ۔۔سمن نےپوچھا۔۔۔
ارمان کو بلاٶ۔۔۔۔سب کو اک ساتھ بتاٶں گی۔۔۔۔
❤❤❤❤
چاچو وہ میں۔۔۔۔تو جانتا تھا حور صبا کی بیٹی ہے پھر بھی نہیں بتایا۔۔۔سکندر ہاتھ میں پکڑی فریم کو دیکھتے ہوۓ ہادی سے بات کررہا تھا۔۔۔۔
جی چاچو آپ کا دکھ مجھ سے کبھی چھپا نہیں تھا۔۔۔ہاں ٹھیک ہے آپ نے کبھی نہیں ذکر کیا مگر آپ کی الماری میں آج بھی انکے کپروں کی جگہ کھالی ہے کیوں۔۔۔کیوں کے آپ کو اللہ پر یقین تھا کہ وہ انسان کو اسکی برداشت سے ذیادہ نہیں آزماتا پھر وہ تو محبت کرنے والوں کے ساتھ ہے اور محبت بھی وہ جو اتنی پاکیزہ ہو۔۔۔پھر اللہ آپ سے آپکی محبت کیسے چھینتا اور وہ تو غفورو رحیم ہے معاف کرنے والا ہے بے شک وہ اپکی غلطیوں کو معاف کرے گا۔۔۔۔ہادی کی ایسی باتیں سن کر سکندر نے ہادی کو دیکھ کر مسکرایا مگر اسکی آنکھ سے آنسو بھی بہا۔۔۔۔
بے شک مرد اسکے لیے ہی روتاہے جس سے محبت کرتا ہے اور وہ تو کتنی بار رویا تھا اپنے رب کے سامنے صرف اپنی محبت کے لیے مگر آج صبا کے الفاظ اسکا دل چیر گے تھے۔۔۔۔قاتل ہو تم قاتل میرے بچے کے چلے جاٶ یہاں سے جاٶ۔۔۔۔۔صبا کی آواز کانوں سے لگی تو اس نے پھر آنکھیں سختی سے بند کردیں۔۔۔
چاچو کیا یہ سچ ہے چاچو آپ مجھ سے شٸیر کرسکتے ہے میں آپ کی کوٸی مدد کرسکو۔۔۔۔۔ساحل پر گاڑی روکتے ہوۓ وہ اترے اور جوتے ہاتھمیں کرتے آگے بڑھنےلگے۔۔۔
آج سے دس سال پہلے اس گھر میں قیامت ٹوٹی تھی۔۔چھوٹے موٹے جھگڑے ہر گھر میں ہوتے ہیں۔۔۔مگر نفرت کا بیج بونے والے آم کہاں توڑتے ہے اللہ کی لاٹھی بےآواز ہے۔۔۔وہ ساحل کی مٹی کو اٹھاتا اور آتی ہوٸی لہر میں بہا دیتا۔۔۔۔انسان مٹی سے بن کر اپنے آپ پر کتنا غرور کرنے لگتا ہے نا
دیکھ لیا سکندر اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کی حرکتیں میں توپہلے ہی بولتی تھی بدچلن ہے۔۔۔۔۔بس آپا بھولیں نہیں یہ میری بیوی ہے۔۔۔۔نازش کی زہر اگلتی باتیں کسی کا بھی دل چھلنی کرنے کے لیے کافی ہوتی مگر وہاں پرواہ کیسے تھی ۔۔
پوچھو اس سے کے کس نے بلایا تھا اسے۔۔۔وہ زبیر کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی جو اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے زخم صاف کرنے میں لگا تھا جو ابھی سکندر کی مار کے نشان تھے۔۔
صبا صرف حیرانی سے ان مکار لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو اسکی عزت کے ٹکرے ٹکرے کر کے بڑے آرام سے کھڑے تھے۔۔۔۔
تمھیں یقین نہیں آتا یہ تصاویر دیکھ لو۔۔۔۔اسکے بعد بھی یقین نہیں آتا وہ اسکے سامنے ہاتھ آگے کرتی تصاویر دیکھانے لگی
بس کردے آپا بس۔۔۔۔کیوں غیرت مر گی ہے تیری جو اس بدکردار کے ساتھ رہے گا دے طلاق اور فارغ کر اسے۔۔۔۔
آپا وہ میرے بچے کی ماں بنے والی ہے۔۔۔وہ میری ۔۔۔
تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھی بات پر یقین نہیں ہے تیری بہن تجھ سے جھوٹ بولے گی مجھے تو پہلے ہی شک تھا میں تو صرف تیرے لیے چپ تھی۔۔۔۔کیا پتہ کس کی اولاد ہو اور۔۔۔
بسسسسسس۔۔صبا چیخی۔۔۔۔۔بسسسسس۔۔۔۔
اک اور لفظ نہیں مجھے کہا تو برداشت کرلیا میں نے مگر اپنی اولاد پر انگلی اٹھانے نہیں دونگی میں۔۔۔۔
اور تم کسی کے کچھ بھی کہنے سے مان لو گے تمھیں مجھ پر یقین نہیں ہے یہ جھوٹ بول رہی ہے سب جھوٹ۔۔۔میں تمھیں سچ بتاتی ہوں سکندر میری اک باربات سن لو۔۔۔۔۔
میں نے اسے نہیں بلایا تھا۔۔۔۔۔۔صبا پھر سکندر کے سامنے بولنے لگی۔۔۔۔۔تو نازش نے پھر جلتی پر تیل چھڑکا جس سے ایسا شولا بھرکا کے ہنستے بستے گھر کو جلا ڈالا۔۔۔۔۔ تو اسے کیسے پتہ تم گھر میں اکیلی ہو۔۔۔۔
ہم نے تو بہت کہا کے چلو ہمارے ساتھ اکیلے کیا کرو گی مگر مانی نہیں۔۔۔جھوٹ بول رہی ہے آپ اپ نے خود کہا تھا کہ۔۔۔۔صبا پھر سکندر کے پاس گی اپنی پاکیزگی کی صفاٸی دینے۔۔۔۔مگر وہ شخص کیا کرتا اک طرف ماں بہن تھی تو دوسری طرف بیوی۔۔۔۔
اچھا تو اب میں اپنے بھاٸی سے جھوٹ بولوں گی چلو تم کہتی ہو تو مان لیتے ہیں مگر اماں وہ تو جھوٹ نہیں بولیں گی نہ۔۔۔۔۔کیںوں اماں ہم نے نہیں بولا تھا اسے کے چلے وہ اپنی ماں کی طرف منہ کرتی آنکھ دکھاتی بولنے لگی۔۔۔۔
اور اسکی ماں بھی بیٹی کی محبت میں ہاں ہاں کرتی رہی۔۔۔۔۔اتنی ہی پاک باز ہے نہ تو ثبوت دے۔۔۔۔بولو ہے کوٸی ثبوت۔۔۔۔
وہ روتی رہی میرے سامنے۔۔۔۔۔مجھ سے کہتی رہی وہ۔۔۔۔پتہ ہے وہ مجھے چھوڑ کر کیوں گی۔۔۔رو اپنی آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتا فریم پر ہاتھ پھیرتا کہہ رہا تھا۔۔۔۔
میں اس سے نارض نہیں ہوں۔۔۔ اس نے صحیح کیا مجھ جیسے کے ساتھ رہنا ہی نہیں جو اعتبار ہی نہ کرے اسکے ساتھ رہے بھی کیوں ۔۔۔۔ہماری شادی بھی بہت مشکل سے ہوٸی تھی اور بہت منایا تھا میں نے اماں اور اپا کو مجھے لگا وقتی ناراضگی ہے اپا کی مگر مجھے نہیں پتہ تھا اپا اسے اپنی انا کا مسلہ بناہیں گی اور وہ میری بیوی اور بچوں سے نفرت کرنے لگی ہے اتنی کے وہ اتنا بڑا جھوٹ بولیں گی ۔۔۔
مگر جب دل پتھر ہوجاٸیں تو انسان انسانیت بھی بھول جاتا ہے۔۔۔۔یہ بھی بھول جاتا ہے کہ سامنے والا کون ہے۔۔۔
چھوڑ یہ سب میں بہت خوش ہوں تو نے مجھے میری محبت سے ملا دیا۔۔۔۔۔۔مگر تجھے مجھے پہلے بتانا چاہیے تھا۔۔۔۔اب میں کیسا لگتا آپ سے آپکی بیٹی رشتہ مانگتے ہوۓ ۔۔۔۔۔وہ شرماتے ہوۓ بولا جس سے ماحول میں خوشگواری پیدا ہوٸی۔۔
اب آپ فکر نہیں کریں ہم مل کر کچھ کریں گے تاکہ چاچی اور حور پھر گھر آجاٸیں۔۔۔۔
مگر چاچو اپکی بیٹی مجھ سے بہت ناراض ہوگی۔۔۔میں نے اسے کچھ بتایا نہیں تھا نہ اور ویسے بھی غصے کی بڑی تیز ہے پہلے دن ہی جھاڑ دیا تھا مجھے۔۔۔وہ یونی کا وہ دن یاد کر کے خود ہی ہنس گیا۔۔۔۔
شرم کرو میرے سامنے میری بیٹی کی براٸی کر رہےہو۔۔۔۔اب آپ سسر والی فیلنگ لا رہے ہیں۔۔۔۔اور وہ دونوں ہنسے چلیں اب
نہیں تم جاٶ میں آجاٶ گا تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے وہ بھی سکندر کی حالت کو دیکھتے ہوۓ وہاں سے نکل گیا۔۔۔