اسلام و علیکم
"نور یہ پہلا خط ہے آپ کے نام آج سے پہلا میں نے جب بھی لکھا بلال کے لیے لکھا کیونکہ وہ بہت بزدل انسان ہے چھوٹی چھوٹی بات پر گھبرا جاتا ہے نور میری جان میں نہیں جانتا کہ یہ خط باقی خطوں کی طرح ضائع ہو جائے گا یا نہیں
مسز آج میں بہت خوش ہوں وجہ آج آفس واپسی پر میں نے آپ کی اور چھوٹی ماں کی بات سن لی تھی کہ میں بابا بننے والا ہوں
میرا دل کیا کہ آپ کو باہوں میں بھر کر بہت پیار دو پھر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ آپ کا سرپرائز خراب جائے گا میں اللہ کا بہت شکر گزار ہو جس نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے نواز ایک ماہ میں آپ کو سوچ کر گزارو گا اور اپنی اولا کو
نور وعدہ کرو اگر میں واپس نہیں آیا یا زندہ واپس نہیں آیا تم اپنا بہت خیال رکھوں گئی کبھی اداس نہیں ہونا کیونکہ مجھے پتا ہے میری جان بہت بہادر ہے باقی باتے تب کرو گا جب تم سے ملاقات ہوگئی اپنا اور میری بیٹی کا بہت خیال رکھنا "
آپ کا وارث
نور نے روتے ہوے خط کو چوما اور اپنے سینے سے لگیا یہ غلطی بات ہے وارث آپ نے کہا کہ آپ میرا سرپرائز خراب نہیں کرنا چاہتا تھا جبکہ آپ کو سرپرائز پتا تھا نور نے سسکیوں کے درمیان کہا اور بے آواز رونے لگی
__________
کچھ ماہ بعد
یہ۔ منظر ہے ایک باغ کا جہاں ہر طرف پھول ہی پھول تھے وہ چلتی ہوئی جا رہی تھی کہ تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئی آپ پھر آگئی اس نے پوچھا تو نور اٹھ گئی وارث کو دیکھ کر مسکرائی اور کہا جی نور واپس چلی جائے وارث نے سنجیدر سے کہا وارث آپ ایسے کرے گئے تو میں رو دو گئی
وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی آخر آپ چاہتی کیا ہے اس نے ہار مانتے ہوے کہا ایک ملاقات بس وہ مسکرای یہ ممکن نہیں جائے اب آپ وارث نے کہا اور وہاں سے چل دیے جبکہ نور اس کو جاتے دیکھا رہی تھی کچھ دور ہی وہ چلا پھر موڑا نور کو دیکھا کر مسکرایا
اتنے میں نور کی آنکھ کھول گئی وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے وہ بیڈ سے اتاری اور الماری کی طرف آئی الماری سے وارث کا یونیفارم نکال اور اس کو اپنے سینے سے لگیا وارث کی خوشبوں اپنے اندر اتاری ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا تو وہ مسکرائی یونیفارم۔ واپس رہا اور الماری سے اپنا وائٹ ڈایس نکلا اچھا سا تیار ہوئی اور روم سے باہر چلی گئی وہ نیچے ائی اور صوفہ پر بیٹھ گئی
___________
بلال رات کو اکثر لیٹ سوتا تھا اس وقت بھی اپنے کمرے میں کچھ کام کر رہا تھا کہ اچانک پانی کی طلب ہوئی لیکن روم میں پانی ختم تھا سو وہ نیچے ایا صوفہ پر نور کو دیکھا کر حیران ہوا کیونکہ وہ وارث کے بعد آج دوسری بار کمرے سے نکلی تھی بلال نے بہت کہ لیکن نور ہر بار یہ کہ کے ٹال دیتی کہ وہ عدت میں ہے سو وہ بھی چپ کر جاتا
نور بچے آنکھ کھول گئی تھی تو بھائی کے پاس اجاتی بلال نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوے کہا تو نور نے آنکھیں کھول کر بلال کو دیکھا اور مسکرائی اس کی مسکراہٹ بلال کو کچھ عجیب لگئی بچے طبعیت ٹھیک ہے بلال نے اس کا ماتھا پر ہاتھ رکھتا ہوے کہا تو وہ ٹھیڈ جبکہ موسم نارمل تھا وہ پریشان ہو جلدی سے اس کی نبض چیک کی تو بہت سلو چل رہی تھی اب وہ گھبرا گیا
نور چلو ہپستال جانا ہے ماما ماما بلال نے اس کو سہارا دیتے ہوے کہا اور حریم کو پکارا نور مدھم آواز میں بولی بھائی جی بچے بلال نے کہا اور اپنا کان نور کے منہ کے پاس لایا ملاقات کا وقت آگیا ہے اجازت دے نور نے کہا اور آنکھیں بند کر لی نور میری جان میرا بچے ڈول پرسنز پلیز ایسی بات نہیں کرتے ڈول پلیز بھائی سے بات کرو نور بھائی کو ڈرد لگ رہا ہے نور نور بلال نے اس کو اپنے ساتھ لگتے ہوے کہا اور نور کی آنکھیں سے آنسو جاری تھے اور سانسیں اور سلو ہو رہی تھی
شو کی آواز سن کر سب باہر آئی احمد جلدی سے بلال کے پاس ایا ڈیڈ یہ مجھے سے بات نہیں کر رہی ہے ڈیڈ اس کو کہے میں مر جاو گا کچھ بولے پلیز بلال نے روتے ہوے کہا بلال چھوڑ اس کو ہمہیں ابھی ہپستال جانا ہے احمد نے کہا اور زبردستی بلال کو نور سے الگ کیا نور کو گاڑی میں بیٹھ حریم اور دعا بھی گاڈی میں بیٹھ گئی بھائی آپ جاے میں بلال کو لے کر آتا ہو احمد نے احد صاحب سے بولا اور پھر گھر کے اندر ایا
بلال زمیں پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا احمد کو اس کی حالت دیکھا کر کچھ ہوا بلال بچے چلو ہپستال جانا ہے احمد نے کہا ڈیڈ وہ چلی گئی وہ مجھے چھوڑا کر چلی گئی شاہ کی پاس وہ کہتی تھی مجھے اجازت دے وہ بغیر اجازت چلی گئی بلال نے اونچی آواز میں کہا تو احمد اس کے پاس ایا لیکن بلال زمیں پر گراگیا اور آنکھیں بند کر لی بلال بلال آنکھیں کھولو بلال بچے احمد نے پریشان ہوتے ہوے کہا پھر خان لال کی مدر سے بلال کو گاڑھی میں ڈالا اور ہپستال کی جانب بڑھا
ہم ماں یا بچے میں سے کیسی ایک کی جان بچا سکتے ہے ڈاکٹر نے باہر اکر خبر دی آپ میری بیٹی کو بچا لیے احد صاحب نے کہا ٹھیک ہے ان پیپر پر سائن کر دے ڈاکٹر نے کہا اور حریم اور دعا نور کی صحتیابی کے لیے دعا کرنی لگئی
ڈاکٹر ڈاکٹر احمد نے کہا آپ ادھر ائے میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں نرس کے کہا جلدی کرے میرے بیٹا کو کچھ نہیں ہونا چاھے احمد غصہ سے بولا نرس بھاگ کر ڈاکٹر کے کمرے میں آئی ڈاکٹر جلدی چلے ایمرجیسی روم میں نرس نے کہا تو وہ چل پری وہ اندر آئی بیڈ پر بلال کو دیکھ کر اس کو شاک لگا بلال وہ زیر لب بولی ڈاکٹر جلدی کرے نرس نے کہا تو وہ ہوش میں آئی اور اس کی طرف بڑھی بلال کا چیک آپ کیا اتنے سالوں کے باوجود بھی وہ نہیں بدلا جبکہ پہلے سے زیادہ وجہی ہو گیا تھا اس نے سوچا پھر ماضی کو یاد کرنے لگی بلال کی یہ حالت کیوں ہوئی اور شاہ کہاں ہے اس نے سوچا
احمد احد صاحب کے پاس ایا اور سارے بات بتائی اللہ یہ کیسی آزمائش ہے ایک طرف بیٹی اور دوسری طرف بیٹا احد صاحب بولے احمد تم جاو بلال کے پاس میں یہاں ہو احد صاحب نے بولا تو احمد وہاں سے چل دیا بھابھی میرا گھر کو نظر لگ گئی ہے حریم نے روتے ہوے کہا حریم حوصلہ رکھوں سب ٹھیک ہو جاے گا دعا نے کہا تو وہ بولی انشاءاللہ
وہ باہر آئی تو احمد باہر موجود تھا احمد کو اس کو دیکھا کر شاک لگا لیکن پھر خود پر کنٹرول کیا میرا بچا کیسا ہے ڈاکٹر احمد نے کہا جبکہ عائشہ کو احمد کا رویہ محسوس ہوا انکل بلال کا نروس بریک ڈوان ہوا ہے اب حالت خطرہ سے باہر ہے ۳ سے ۴ گھنٹے میں ہوش اجاے گا جبکہ احمد نے گہرا سانس لیا
,,,,,,,,,,,,
سوری ہم ان کو بچا نہیں سکے ڈاکٹر نے ان پر بم گرایا اور نرس ایک بچے کو لے کر ان کے پاس ائی بیٹا ہوا ہے اس نے بچا احد صاحب کو دیا وہ سکتے کی حالت میں وہاں سے چل پڑھ
احمد روم کے باہر بیٹھا تھا اس کی نظر احد صاحب پر پڑی جن کی گود میں بچا تھا وہ جلدی سے اٹھ اور ان کی طرف ایا بچے کو اپنے گود میں لیا ماشاءاللہ بھائی یہ تو شاہ کی کاپی ہے احمد نے اس کا ماتھا چومتے ہوے کہا بھائ مبادک ہو میں نانا بن گیا اور آپ داد بن گئے احمد نے خوشی سے کہا
تو احد صاحب کی آنکھیں میں آنسو اگئے احمد نے اب ان کو دیکھا تو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا بھائ کیا ہے احمد نے ڈردتے ہوے پوچھا احمد میری بچی چلی گئی احد صاحب نے کہا
نہیں بھائ ایسا نہیں ہو سکتا وہ نہیں جائے سکتی بھائی میں بلال سے کیا کہوں گا احمد نے روتے ہوے کہا تو احد صاحب نے اس کو گلے سے لگیا دونوں بھائی بہت روے
___________
بلال کو ہوش ایا بلال بچے طبعیت کیسی ہے اب احمد نے اس کی پیشانی چومتے ہوے کہا ڈیڈ گھر چلے بلال نے اس کی بات کو نظراندرذ کرتے ہوے کہا کیوں ابھی طعبیت ٹھیک نہیں ہے تمہاری احمد نے کہا وجہ آپ جانتے ہے بلال نے کہا تو احمد نظریں چرا گیا نہیں میں نہیں جانتا
ڈیڈ مجھے میری ڈول کو رخصت کرنا ہے بلال بولا تو احمد کی آنکھیں میں آنسو اگئے اس ہی وقت روم کا درواذ کھولا اور عائشہ اندر ائی بلال عائشہ کو دیکھا کر حیران ہوا اتنے سالوں کے بعد بھی وہ بدلی نہیں تھی
چلے ڈیڈ بلال نے کہا اور بیڈ سے اتار بلال ابھی تمہیں طعبیت ٹھیک نہیں ہے تم گھر نہیں جا سکتے عائشہ نے کہا تو بلال اس کو جواب دیے بغیر یہ جا وہ جا جبکہ عائشہ کو بلال کے رویہ پر دکھ ہوا
تم ایسے تو نہیں تھے بلال لیکن شائد غلطی میری تھی میں تم سے معافی مانگ لو گئی بہت جلدی عائشہ نے کہا اور اپنے آنسو صاف کیا
،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،
کچھ دن بعد
یہ منظر ایک باغ کا ہے وہ چلتا ہوا نور کے پاس ایا نور بچے ڈول بلال نے کہا لیکن نور سن نہیں رہی تھی اور وہ ایک پھول سے کھیلنے میں مصروف وہ کافی دیر تک اس کو پکارا رہا پھر مایوس ہو کر واپس جانے لگ تو وارث پر اس کی نظر گئی جو ان کی طرف ارہا تھا
تم بھی یہاں اگئے ایک تو میں تم بہن بھائ سے بہت نتگ ہوں وارث نے مسکراتے ہوے کہا شاہ تو مجھے سے بات نہیں کر بلال نے کہا کیوں وارث نے پوچھا تیری وجہ سے یہ مجھے سے بات نہیں کر رہی ہے بلال نے نور کی طرف اشارہ کیا تو وارث مسکرایا
نور چلو وارث نے کہا اور نور کا ہاتھ تھام لیا تو نور مسکرائی بھائی یہ میری امانت ہے آپ کے پاس بہت خیال رکھے گا نور نے کہا اور وہاں سے چل دی
اس ہی وقت بلال کی آنکھ کھولی اس نے منہ سے پسینہ صاف کیا یہ خواب تھا بلال نے کہا اس کی وقت باہر کیسی بچے کی رونے کی آواز ائی وہ حیران ہوتے ہوے باہر نکلا گھر میں بچا دیکھا کر حیران ہوا کیونکہ اس دن کے بعد بلال نے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا تھا
ماما یہ بچا بلال نے حریم سے پوچھا جو بےبی کو چپ کروا رہی تھی اور وہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا یہ نور کا بیٹا ہے حریم نے کہا تو بلال پہلے تو حیران ہوا پھر اس کو اپنے خواب کا مطلب سمجھ میں ایا نور کا اس سے بات نہیں کرنا اور پھر پھول دینا
بلال نے اس کو اپنی گود میں لیا ماشاءاللہ ماما یہ تو بہت پیار ہے بلال نے کہا اور اس کا ماتھا چوما بے بی بلال کے پاس اکر چپ ہو گیا اس کی آنکھ سے ایک آنسو گرا جو اس نے بے دردی سے صاف کیا ماما آپ سو جاو یہ میرے پاس ہے بلال نے کہا بلال تمہاری طعبیت ٹھیک نہیں ہے کیسے سنبھالو گئے بےبی کو حریم نے کہا تو بلال بغیر جواب دیا روم کی طرف بڑھا
کمرے میں آکر اس نے بےبی سے بہت باتے کی اور وہ اس کی باتے سن کر کبھی ہستا تو کبھی روتا پھر بلال کے سینے پر رکھ کر سو گیا تو بلال مسکرایا آج اتنے دن بعد
,,,,,,,,,,,,, ,,,,,,,,,,,,,,
عائشہ ان کے گھر ائی شاہ اور ڈول کا سن کر اس کو افسوس ہوا حریم اس کو دیکھا کر خوش ہوئی کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ عائشہ کی وجہ سے بلال اتنی تکلیف میں رہا ہے
وہ بلال کے روم میں آئی آج بھی اس کا روم ویسا تھا کچھ پرانی یادیے یاد کر کے مسکرائی بلال واش روم میں تھا جب وہ باہر آیا تو عائشہ کو اپنے گھر میں دیکھ کر اس کو غصہ ایا تم یہاں کیوں ائی ہوں بلال نے غصہ سے پوچھا
مجھے شاہ اور ڈول کر سن کر افسوس ہوا عائشہ نے کہا اچھا کر لیا افسوس اب جاو اور آج کے بعد یہاں نظر نہیں آنا بلال نے کہا بلال کیا تم مجھے معاف نہیں کر سکتے عائشہ نے روتے ہوے کہا عائشہ بی بی معاف ان کو کیا جاتا ہے جن سے آپ کا کوئی راشتہ ہو میرا اور تمہارا ایسا کوئی رشتہ
نہیں ہے بلال نے کہا اور ہاتھ سے پکڑا کر اس کو کمرے سے نکلا اور درواذ بند کیا
The end