میری منزل سے کہہ آؤ
مسافر تھک گیا تیرا
وہ جس نے ہاتھ تھاما تھا
ہمیشہ ساتھ چلنے کو
اسے تو وقت کی آندھی اڑا کے لے گئی کب سے
وہ میرا چاند مل جائے
تو اسکو بھی بتا دینا
قہر ڈھاتے ھوئے سورج کا آنچل اوڑھ رکھا ھے
تمہاری چاندنی سے جو
بلا کا عشق ہوتا تھا
محبت چھوڑ دی وہ بھی
میرے گلشن سے گزرو تو
گلابی سر خ پھولوں کو میرا پیغام دے دینا
کہہ جس خوشبو کو مٹھی میں
چھپا ئے پھر رہا تھا میں
میری زخمی ہتھیلی سے نکل کر اڑ گئی یکسر
میرے خوابوں کو دیکھو تو
دلاسہ انکو دے دینا
ابھی آنکھوں میں آنسو ہیں
عذاب ِ دید سے پلکیں ابھی تک ہیں اذیت میں
ذرا سا صبر آئے تو
میں واپس لوٹ آؤں گا
میری منزل
میرے خوابوں
میرے چندا
میرے گلشن
مجھے تم بھول مت جانا
بلال اپنے کمرے میں کچھ کام کر رہا تھا کہ کمرے کا درواذ نوک ہوا ٹائم دیکھا تو ۱۲ بج رہے تھے پہلا خیال نور کا ایا وہ جلدی سے اٹھا اور درواذ کھولا تو سامنے احمد موجود تھا ڈیڈ بلال نے کہا احمد اندر ایا تو اس کے پیچھے احد صاحب بھی تھے ڈیڈ بڑے پاپا سب ٹھیک ہے نہ بلال نے حیران ہوتے ہوے پوچھا
نور کی آنکھ کھولی تو کمرے میں اندھیر تھا اس نے کڑوٹ لی وہ اب حریم کے ساتھ ہی سوتی تھی نور اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے پانی پیا اور گہرا سانس لیا
اور اپنے خواب کے بارے میں سوچنے لگئی پھر مسکرائ تو وارث آخر کار آپ واپس آریے ہے جلدی سے اٹھی اور روم سے باہر نکالی یہ خبر وہ سب سے پہلے بلال کو دینا چاہتی تھی سو وہ اس کے روم کی طرف بڑھی
کمرے کا درواذ نوک ہوا تو وہ سب چوکے بلال خود پر کنٹرول کرتا درواذ کی طرف بڑھا تو سامنے نور موجود تھی بھائی مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے نور نے خوش ہوتے ہوے کہا اور اندر ائی احمد اور احد صاحب کو دیکھا کر وہ حیران ہوئی آپ لوگ یہاں سب ٹھیک ہے نہ نور نے پوچھا ہاں بچے سب ٹھیک ہے ہم کچھ آفیس کے بارے میں بات کر رہے تھے آپ سوئی نہیں ابھی تک احمد نے نور کے سر پر ھاتھ پھیرتے ہوے کہا
میں تو سو گئی تھی ابھی آنکھ کھولی ہے سوری مجھے ابھی بھائ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے چلے بھائ نور نے کہا پر نور بلال ابھی کچھ اور کہتا احمد بولا جائے بلال بہن کی بات سن او احمد کے لہجہ میں کچھ تھا جس کو بلال نے محسوس کیا
________________
نور بلال کو لے کر باہر ائی بھائی میں نے ابھی خواب میں دیکھ کے وارث واپس آگئے ہے اففف بھائ میں بہت خوش ہوں آخر اللہ میری سن لی نور نے خوش ہوتے ہوے کہا جبکہ بلال خاموش رہا ارے میں نے تو ابھی کوئی تیاری نہیں کی نور نے اپنے سر پر ھاتھ مارتے ہوے کہا بھائ آپ کچھ نہیں کہے گئے نور اس کو خاموش دیکھ کر بولی تو بلال نے ضبط کرتے اس کو اپنے ساتھ لگیا خوش رہو یہ الفاظ وہ ہی جاتا ہے کہ اس نے کیسے ادا کیے
اچھا میں چلتی ہوں ابھی بہت ساری تیاری کرنی ہے نور نے مسکراتے ہوے کہا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ بلال خالی خالی نظروں سے اس کو جاتے ہوے دیکھ رہا تھا
_____________
بلال روم میں واپس ایا درواذ بند کیا اور زمیں پر بیٹھ گیا آنکھیں سے آنسو جاری ہوے احمد اس کے پاس ایا کیا کہ رہی تھی وہ احمد نے پوچھا
ڈیڈ وہ تو اس سے محبت کرتی ہے اور آپ کو پتا ہے نا محبت میں الہام ہوتے ہے اس کو بھی ہو گیا وہ تیاری کر رہی ہے شاہ کی واپس آنے کی ڈیڈ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ڈیڈ اس نے مجھے سے وعدہ کیا تھا کی ہم جو کرے گئے ساتھ کرے گئے ہم ایک ساتھ سکول گئے ایک ساتھ کالج ایک ساتھ آرمی
وہ اکیلے کیسے شہید ہو سکتا ہے کیسے کیسے ڈیڈ وہ مجھے کہتا تھا میں بزدل ہو ڈیڈ اس کو کہے کہ میں ٹوٹ گیا ہوں واپس اجاے ڈیڈ پلیز میں اس کے بغیر کیسے رہوں گا اور نور وہ تو محبت کرتا تھا نور سے میں کیسے سنبھالو گئے کیسے ڈیڈ کیسے بلال نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
آجا پھر لڑے کھلونوں کے لیے میں ہاروں
تو جیت جائے آجا پھر کرے شرارتے تو بھاگے
میں مار کھاوے میھٹی سی وہ گالی
تیری سنے کو بیکارا ہوں
تیرا یار ہو میں تیرا یار ہو
احمد نے اس کو اپنے ساتھ لگیا شششش بلال چپ آج جیتنا رونا ہے رو لو دیکھوں بلال میں آرمی میں ہوں بھائ بھی تم بھی لیکن میرا شاہ خوش نصیب ہے کہ وہ شہید ہوا مجھے فخر ہے شاہ پر ہم شہید کی موت پر ماتم نہیں کرتے یہ آنسو شکر کے ہونے چاھیے نہ کے غم کہ شاہ اپنے خون کے آخری قطرہ تک لڑہا اور آخر میں وہ شہید ہوا میرا اور بھائی صاحب کا سر فخر سے بلند کر گیا
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیئے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کی فضایئں اسلام کہتی ہے
آے راہ حق کے شہیدو
وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں اسلام کہتی ہے
اے راہ حق کے شہیدو
_____________
نور کمرے میں۔ آئ تو وارث کی وہ بات یاد آئ جو وہ جانے سے پہلے کر کے گیا تھا
نور جب میں واپس او تو آپ وائٹ کلر کا ڈریس پہلنا اور اچھا سا تیار ہونا وارث نے کہا تو نور مسکرائ اور کچھ جناب نور نے پوچھا جی اور سب کے سامنے مجھے سے کہنا وارث میں آپ سے بہت محبت کرتی ہے وارث نے شرارت سے کہا وارث نور اس کو آنکھیں دیکھئیں تو وہ مسکرایا جی جان وارث بہت برے ہے آپ نور نے مکار مارتے ہوے کہا اہ مسز کبھی یہ بھی کہ دیا کرے آپ بہت اچھے ہے وارث نے کہا
تو وہ مسکرای
اووو مسٹر جلدی سے واپس آجائے نور نے الماری سے ڈریس نکالتے ہوے کہا
_______________
سارا دن نور کی نظریں درواذ پر رہی یہ انتظارا بھی کنتا درد دیتا ہے کبھی وہ وارث کی یادوں میں کھو جاتی تو کبھی اس سے شکوہ کرتی کبھی کہتی کہ وارث جب آپ او گئے میں آپ سے ناراض ہو جاو گئی تو کبھی کہتی نہیں اب میں آپ کو خود سے دور جانے نہیں دو گئی اففف اور کنتا انتظارا کروا گئے اپ
نور بیٹا میں کب سے دیکھ رہی ہو تم کچھ بے چین ہو کیا بات ہے طعبیت ٹھیک ہے میری بیٹی کی حریم نے پوچھا ہاں کیا بات ہے بیٹا اب دعا نے پوچھا
طعبیت ٹھیک ہے میری بری ماں بس وارث کا انتظارا کر رہی ہو نور نے کہا کیا شاہ انے والا ہے حریم اور دعا حیران ہوئی پتا نہیں ماما پر میرا دل کہتا ہے کہ وارث آج ضرور آئے گئے نور نے کہا نور جاو روم میں ٹھیوری دیر آرام کر لو حریم نے کہا جی اچھا نور نے ایک آخری نظر درواذ پر ڈالی اور اپنے روم کی طرف بڑھی
کنتی محبت کرتی۔ ہے یہ شاہ سے دعا نے کہا جی بھابھی۔ لیکن شاہ بھی بہت کرتا ہے اس سے محبت حریم نے جواب دیا حریم آج میرا بھی دل کہتا ہے شاہ ائے گا دعا نے کہا اپ کے منہ میں گھی شکر بھابھی حریم نے مسکراتے ہوے کہا
___________
کچھ دیر وہ لیٹی کہ اچانک اس کے دل کی ڈھکن تیز ہو گئی وہ جلدی سے اٹھی اب تو یہ دل بھی میرے اختیارا میں نہیں ہے وارث نور نے مسکراتے ہوے کہا اور روم سے نکالی بھاگ کر نیچے آئ نور آرام سے حریم چیخی
ماما بڑی ماما وہ آگئے نور نے مسکراتے ہوے کہا
اس ہی وقت گھر میں ایمبولینس داخل ہوئی نور درواذ تک ائی ایمبولینس دیکھ کر نور سکتے میں آگئی
__________
کچھ ہی دیر میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ کپیٹن "وارث علی شاہ نے آپریشن کے دوران جام شہید نوشن فرمائی ہے " گھر کے لان میں میڈیا والے اور بہت سے لوگ موجود تھا جن میں سے کیے راشتہ دار اور کیے جاننے والے تھے ہر آنکھ اشکبار تھی نور اب بھی درواذ کی دہلیزں پر کھڑی تھی آنکھیں سے آنسو جاری تھے بلال اب اس کی طرف ایا تو نور واپس گھر کی طرف بڑھی
میری دہلیزں سے ہو کر ہوائیں جب گزارتی
یہاں کیا دھوپ کیا ساوں ہوائیں بھی برساتی
ہے ہم پوچھوں کیا ہوتا ہے بینا دل کے
جینیے جانا بہت آئی گئی یادے
نور کمرے میں ائی تو الماری کی طرف بڑھی الماری میں سے ایک چادر نکالی اور نقاب کیا پھر روم سے باہر آئی بلال نے اس کو باہر اتا دیکھا کر وہاں سے سب لوگوں کو پیچھے کیا اور میڈیا والوں کو گھر سے جانے کا کہا اب لان میں بس گھر والے تھا نور چلتی ہوئی تابوت کے پاس آئی جس میں موجود وہ شخص آرام کی نیند سو رہا تھا یقینا وہ اس کا شوہر ہی تھا اس کا وارث
نور نے اس کو دیکھا تو اس کو لگا وارث سو رہا ہے وہ ابھی اس کو کہے گئی وارث تو وہ آنکھیں کھول لے گا اور کہے گا جی مسز
کافی دیر وہ وارث۔ کو دیکھتی رہی وارث کے چہرے پر ایک الگ ہی نور تھا پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے ماتھے سے بال پیچھے کیے ہمیشہ کی طرح نور کے آنسو زمیں پر گررہے تھے
"وارث اتنی دیر کر دی انے میں دو ماہ گزر گئے وارث دو ماہ میں نے سوچا تھا آپ سے شکوہ کرو گئی ناراض ہو گئی یہ انتظارا بہت اذہت دیتا ہے وارث ایک سرپرائز دینا تھا آپ کو وارث نور نے کہا اور اپنے لب وارث کے کان کے پاس لے گئی وارث آپ بابا بننے والا ہے نور نے کہا اور اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے آپ چاھتے تھا نا میں وائٹ کلر پہنو یہ دیکھے اور میں سب کہ سامنے کہتی ہوں کہ وارث مجھے آپ سے بہت محبت ہے بہت نور نم آنکھوں سے مسکرائی
آپ کی خواہش پوری ہو گئی آپ کو شہید کا مرتبہ مل گیا مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوی ہو نور نے کہا اور وہاں سے اٹھ گئی
جائے وارث میں نے آج آپ کو ہر وعدہ سے آزدا کیا خدا آپ کا آگے کا سفر آساں کرے نور نے کہا اور گھر کی طرف بڑھی حریم نے اس کے پاس آنا چاھ لیکن نور نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ وہی ہی رک گئی شششش ماما میرے وارث سو رہے ہے ان کو نتگ نہیں کرے ہم شہید کی موت پر ماتم نہیں کرتے نور نے حریم کو اونچی آواز میں رونے سے منع کیا
اور ایک آخری نظر تابوت پر ڈالی
تو کیا ہوا جدا ہوے مگر ہے
خوشی ملے تو تھے تو کیا ہوا موڑے راستے
کچھ دور سگہ چلے تو تھے
دوبارا ملے گئے کیسی موڑ پر جو
باکی ہے جو بات ہوگئی کبھی چلو
آج چلتے ہے ہم پھر ملاقات ہوگئی
کبھی پھر ملاقات ہوگئی کبھی
چلو آج چلتے ہم
نور بلال کے پاس آئی وہ جو ساری رات روتا رہا لیکن نور کی باتے سن کر پھر سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے نور نے اس کے آنسو صاف کیا بھائ جائے اپنے دوست کو رخصت کرے خوشی خوشی نور نے کہا اور اندر کی طرف بڑھی
مسز۔۔، نور،، جان وارث کیسی نے اس کو آواز دی نور نے چونک کر پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا سو وہ خاموشی سے اندر چلی گئی
__________
یہ رات کا وقت تھا ہر طرف اندھیر کا راج تھا اور اس گھر کے مکینوں پر قیامت آکر گزار گئی تھی پورے گھر میں خاموشی تھی ایسی خاموشی جو کہ طوفان سے پہلے ہوتی ہے
وہ چلتا ہوا اندر ایا اس کے کمرے کی طرف ایا اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی نور جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اس۔ نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور خود وہ اس کے پاس زمیں پر بیٹھ گیا نور نے دعا ختم کی وہ زمیں پر بیٹھا زمیں کو گھورا رہا تھا نور۔ نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھا وہ دونوں ہی بے آواز رونے لگئے
کچھ دیر بعد۔
بلال کے اپنے آنسو صاف کیے اور نور کو خود سے الگ کیا اس کے آنسو بھی صاف کیا وہ اٹھا اور پانی لایا اس نے پانی نور کو دیا بہت دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی بلال بات کرنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا تھا لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی سو وہ خاموشی سے پھر اٹھا اور ٹیبل سے ٹرے لی
ایک نیوالا بنایا اور نور کے منہ کے قریب لایا تو نور نے نفی میں سر ہلایا بچے ضد نہیں کرو صبح سے بھوکی ہو کچھ کھا لو بلال نے بے بسی سے کہا بھائ دل نہیں کر رہا۔ نور نے کہا تو بلال نے گہرا سانس لیا پلیز چندا بلال نے کہا تو نور چپ کر کے اس کے ہاتھ سے کھانے لگئی
بھائ باقی سب کیسے ہے سب نے کھانا کھایا نور نے کھانے کے دوران پوچھا بڑی ماما کی طعبیت بہت خراب تھی ڈاکٹر نے انجکیشن دیا ہے اور ماما بڑے پاپا اور حنسں کو ڈیڈ نے سنبھالا ہے مجھے میں اتنی ہمت نہیں تھی بھائی آپ نے کچھ کھایا تو بلال آنکھیں چڑائیں گیا تو اب نور نے نیوالا بنایا اور اس کے منہ کے قریب لی گئی تو بلال بغیر چو چے کیا کھا گیا
بلال نے برین ٹیبل پر واپس رکھے نور کو نیچے سے اٹھیا اور صوفہ پر بیٹھیا اس کو میڈیسن دی نور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا بلال نے کچھ دیر خاموش رہنے کہ بعد شکوہ کیا
(گھر میں یہ بات بس دعا اور حریم کو پتا تھی کہ نور ماں بننے والی ہے )
بھائ وارث کے جانے سے ایک دن پہلے مجھے پتا چلا تھا سو سوچا ان کو سرپرائز دو گئی نور نے کہا
نور بچے خوش رہوں بلال نے کہا اور ایک خط نور کو دیا
بھائ یہ کیا ہے نور نے پوچھا نور یہ وارث نے لکھا تھا جانے سے پہلے ہم آپریشن میں جانے سے پہلے ایک حظ لکھتے ہے اگر زندہ واپس نہیں آتے تو یہ خط گھر والوں کو دیا جاتا بلال نے ضبط کرتے ہوے کہا
نور میرا بچے یہ آپ کے نام ہے آپ کو صبر کرنا ہے میں کچھ دیر تک او گا بلال نے کہا اور روم سے نکل گیا جبکہ نور نے گہرا سانس لیا
__________