اگلے روز ڈاکٹر شہزور کے ساتھ بچوں کی وارڈ کا رؤانڈ لگا کر واپس آ رہی تھی ۔جب اسے اطلاع ملی کے اس سے ملنے کوئی آیا ہے۔
کون آگیا؟
وہ حیران پریشان اپنے کمرے کی طرف آئی۔ڈاکٹر شہزور اپنے روم چلے گئے ۔
ارے تم لوگ؟؟؟ سائم اور کشمالہ کو دیکھ کر خوش تو ہوئی مگر ڈاکٹر اسفندیار کا خوف بھی لاحق تھا ۔
لگتا ہے آپ ہمیں دیکھ کر خوش نہیں ہوئی ۔کشمالہ نے اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے شکوہ کیا ۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔تم لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی ہوں مسلہ یہ ہے ہسپتال میں ڈسپلن کچھ ضرورت سے زیادہ ہیں ڈیوٹی ٹائم میل جول پر سخت پابندی ہے ۔
اف اتنی سختی
ارے یہ تو کچھ بھی نہیں تم ایک دن یہاں گزار کر دیکھو ساری سختیاں بھول نہ جاؤ تو میرا نام زوبیہ نہیں ۔وہ مزے سے بولی۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی آپ کسی سے مل بھی نہیں سکتی ۔آپ لوگ ایڈمسنیشن کے خلاف پروٹسٹ کیوں نہیں کرتے کشمالہ نے اسے اکسایا
بچوں ابھی آپ لوگوں نے ہمارے بک باس کو نہیں دیکھا اس لیے بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہو ہٹلر کو جانتے ہو؟ دونوں نے گردن ہلادی بس اس سے جا کر سلسلہ نصب ملتا ہے ۔ڈاکٹر اسفندیار اس نے ڈرانے والے انداز میں بتایا کشمالہ ہنس پڑی۔
اتنے خطرناک آدمی ہیں ۔؟
صرف خطرناک نہیں وحشت ناک دہشت ناک بہت کچھ بس سمجھ لو جو بھی ناک ہیں سب وہی ہیں ۔اسی لئے تم اب چلتے نظر آؤ دو گھنٹے بعد میری ڈیوٹی اف ہو گی۔اگر تم لوگ فارغ ہو تو کل والی جگہ ملتے ہیں ۔۔
یہاں آنے کے بعد کسی کو اسفندیار کے بارے میں کمنٹس دیے تھے ۔اور اپنی باتوں کو انجوائے بھی کیا ۔ان دونوں سے مل کر بچگانہ باتیں کر کے اچھا لگ رہا تھا دو گھنٹے بعد دونوں سے ملنے کے اتفاق کرتے مسکرا کر اٹھ گئے ۔آپ کی اسفند یار سے کوئی پرابلم ہے اس نے چونک کر نفی میں نہیں سر ہلایا
پھر آپ بار بار گھڑی کیوں دیکھ رہی ہیں وہ لوگ جنرل وارڈ میں کھڑے تھے اس نے مریضوں کے سامنے سخت لہجے میں کہا تھا حالانکہ اس نے چپکے سے واچ دیکھی تھی ۔مگر انہوں کیسے پتہ چل گیا تھا وہ تو ڈاکٹر شہاب کو کچھ سمجھا رہا تھا رضیہ بھی پاس کھڑی تھی
کیا بتایا ہے ابھی میں نے کون سی میڈی دینی ہے رات وہی انداز جو سکول میں سر کرتے ہیں اب خیر وہ اتنی بھی غیر دماغی سے نہیں کھڑی تھی بے شک اسے بچوں سے ملنے کی جلدی تھی مگر اس کی تمام باتیں توجہ سے سنی تھی اس کے منہ سے درست دوا کا نام سن کر اس کا غصہ کم ہوا۔تینوں چلتے کوریڑور میں آئے اسفندیار نے سر گھما کر بولا
آپ کی ڈیوٹی ختم تھی مگر پھر بھی مجھے یہ انداز پسند نہیں میرے سامنے بار بار گھڑی دیکھ کر بزی کے تاثرات دیں مجھے غصہ آتا ہے ۔آئی ہوپ کے اب احتیاط کریں گی ۔
اس کا موڈ بری طرح خراب ہو گیا گھڑی کیا دیکھ لی اتنی باتیں سنا دی اس سے پہلے کب اس نے وقت کی پروا کی تھی ۔الٹا وہ دوسروں کے حصے کی ڈیوٹی دے دیا کرتی تھی ۔کبھی تعریف نہیں کی۔ان سے وعدہ نہ کیا ہوتا تو کہیں جانے کا موڈ نہیں تھا وہ گھنٹہ لیٹ ہو گئی تھی اس یقین نہیں تھا وہ لوگ وہاں انتظار کر رہے ہوں گے ۔یا چلے گئے ہوں گے ۔مگر پھر بھی اسے جانا تو تھا ۔بڑی جلدی آ گئی اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت تھی سائم طنزیہ لہجے میں بولا۔وہ وارننگ دینے والے انداز میں انگلی اٹھا کر بولی
پہلے ہی تم دونوں کی وجہ سے ڈانٹ کھائی ہے
آپ کو ڈانٹ پڑی؟ کس نے ڈانٹا؟
دونوں بضد ہوئے اس نے سب کہہ سنایا اب میری توبہ جو گھڑی پہنوں
بہت فضول آدمی ہے اتنی سی بات پر طوفان کھڑا کر دیاکشمالہ نے کہا تو وہ منہ بگاڑ کر بولی چھوڑ دفع کرو اس زکر کو کیوں خون جلائیں۔
کشمالہ گھر سے چیز سینڈوچ اور تھرماس میں کافی لائی تھی باتیں کرتے تینوں نے بھر پور انصاف کیا ۔
_______________
حجت کو اپنے روم پا کر اسے بہت خوشی ہوئی
کیسی ہو تم؟
میں تم سے ملنے آنا چاہ رہی تھی مگر سچ پوچھو تو تماری ساس اور شوہر سے ڈر لگتا ہے وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر پاس بیٹھاتے ہوئے بولی۔مجھے سمجھا رہی تھی شوہر سے مت ڈرا کرومارے تو ہاتھ پکڑ لو خود اتنی ڈرپوک ہیں وہ شکایتی انداز میں بولی میرا دیوار یہاں مالی کا کام کرتا ہے اسی لیے کھانا دینے کا بہانہ کر کے آئی ہوں۔ورنہ مجھے گھر سے باہر قدم نہیں رکھنے دیتے دیور بہت اچھا ہے میرا خیال رکھتا ہے اس میں بتا کے آئی ہوں میں آپ سے ملنے جا، رہی ہوں تم نے پہلے نہیں بتایا تمارا دیور یہاں کام کرتا ہے ہمت کر کے اسی کے ساتھ آ جاتی
وہ شرمندگی سے بولی ہاں یہ بتانا مجھے یاد نہیں رہا
تم آرام سے بیٹھو یہ بتاؤ کیا کھاؤ، گی
کچھ نہیں بس آپ سے ملنے آئی ہوں آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگتا ہے جو میں کسی سے نہیں کر پاتی آپ سے کر لیتی ہوں آپ بہت پیار سے سن لیتی ہیں ۔
اس کے کہنے پر وہ تھوڑی افسردہ سی ہو گئی ۔
ہاں بس سن لیتی ہوں یا لمبی تقریر جھاڑ دیتی ہوں مزہ تب ہے عملی مدد بھی کروں کچھ
میرے لیے یہی بہت ہے میرے پاس تو ایسا بھی کوئی نہیں جس سے دل کی بات کر سکوں
اب میں چلتی ہوں دیر ہو گئی تو اماں نہیں چھوڑے گی ۔
بس دس منٹ ہی بیٹھ کر اٹھ گئی ۔اسے رخصت کرنے وہ ہسپتال کے گیٹ تک آئی۔اس کے دیور سے بھی سلام دعا ہوئی اس کے جانے کے بعد کتنی دیر تک اس کے زہین میں اسی کی آواز گنجتی رہی۔
دن کو مارتا ہے رات اچانک اسے مجھ پر پیار آ جاتا، ہے میرا بس چلے ایسی جگہ چلی جاؤں جہاں اسکی کبھی شکل تک نظر نہ آئے۔اپنے زخم دکھاتے اسے کس طرح روتے روتے بات کی تھی ۔وہ ہسپتال مریضوں میں مصروف کے باوجود اس کی طرف دھیان رہتاپتہ نہیں کیوں ہر بار حجت کو دیکھ کر چودہ پندرہ سال کی زوبیہ کیوں یاد آ جاتی حالانکہ دونوں کے حالات میں زمین آسمان کا فرق تھا شاید ایک بات زوبیہ اور حجت میں مشترکہ تھی زندگی سے مایوس اندر ہی اندر مرناکسی سے کچھ نہیں کہنا حجت کا جسم زخمی تھا اس کو لگا اس کی روح زخمی ہو گئی ۔
بہادر کو میرے کردار پر شک ہے وہ سمجھتاہے میں آوادہ بدچلن ہوں صاف کپڑے پہن لوں تو گالیاں دیتا ہے کے کسے دکھانے کے لیے سجی ہے ۔
اب کے بار کلاس فیلو کے ساتھ چکر چلایا پتہ نہیں ایسی لڑکیوں کی طرف مرد کیسے کھنچے چلے آتے ہیں ۔
زوبیہ کے برسوں پرانے ذخم پھر سے تازہ ہونے لگے تھے ۔اس رات وہ تکیے میں منہ چھپا کر گھنٹوں روتی رہی۔
_______________
تین چار دن ہو گئے تھے اسے کشمالہ اور سائم سے ملے ہوئے شاید وہ لوگ واپس چلے گئے ہوں مگر تھوڑی ہی دیر میں کمرے کی کھڑی سے کشمالہ کو آتا دیکھ کر اس کی سوچ غلط ثابت ہوئی ۔اؤ بھئ میں سمجھی تم لوگ چلے گئے ہو گئے وہ باہر نکل کر انہیں بولی۔
گے نہیں کل جانے والے ہیں اسی لیے سوچا جانے سے پہلے آپ سے مل لیں پہلے ہسپتال گئی پتہ چلا آپ کی نائٹ ڈیوٹی تھی آپ آرام کر رہی ہیں وہ جلدی جلدی بول رہی تھی جیسے بھاگنے کی تیاری ہو۔
چلو اندر چل کر بیٹھتے ہیں اور آج سائم نظر نہیں آ رہا وہ اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔سائم گھر ہے بول رہا تھا آپ نے آنے سے منع کر دیا ہے ۔آج آپ کو ہمارے ساتھ لنچ کرنا پڑے گا کوئی بہنہ نہیں چلے گا ہم نے امی سے کھانے کا اہتمام کروا لیا ہے ۔اگر آپ اب نہیں آئی تو پوزیشن گرے گی میری اور بی بی جان جو انتظار کر رہی ہیں بولیں گی تمہاری زوبیہ نخریلی ہے
مجھے جانے میں اعتراض نہیں مگر ایسے جانا اچھا نہیں لگتا ناں تم لوگ اگلی بار اؤ گے تو ضرور آؤں گی۔کشمالہ اس کا ہاتھ جھٹک کر مڑ گئی
ارے بات تو سنو رکو تو سہی وہ اسے آوازیں دے رہی وہ اندھا دھند بھاگی چلی گئی ۔
اچھا میں آ رہی ہوں وہ شکت خور لہجے میں بولی کشمالہ اچھل کر یاہو نعرہ لگانے لگی۔
پتہ تھا مجھے آپ کبھی بھی میری بات نہیں ٹال سکتے ۔یو آر سو سویٹ زوبیہ آپی
اچھا مکھن لگانے کی ضرورت نہیں منہ اٹھا کر کسی کے گھر جانا اسے بالکل پسند نہیں تھا ۔
آپ کو ڈریس چینج کرنا ہے تو کر لیں وہ چادر اوڑھ کر نفی میں سر ہلا کر گیٹ سے باہر آ گئی ۔دونوں کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سٹاٹ کر دی
تمہارے کھر کون رہتا ہے؟ اسے نئے لوگوں سے ملنے میں بہت ہچکچاہٹ تھی ۔صرف سائم ممی بیبی جان اور لالہ لالہ اس ٹائم گھر نہیں ہوتے۔اتنے میں گھر پہنچ آیا، وہ اس کے ساتھ چلتی گھر کی تعریف کرتی گئی گاڑی کی آواز سنتے ہی سائم نا جانے کہاں سے نمودار ہو گیا ۔شکر آپ آ گئی ورنہ امہ بی جان کے سامنے ہماری انسلٹ ہو جاتی۔وہ بھی کشمالہ کی طرح اس کے آنے سے بے تحاشا خوش تھا ۔وہ ایسے کر رہے تھے جیسے برسوں سے شناسائی ہو ۔بی جان یہ دیکھیں یہ ہیں آپی زوبیہ ہماری نئی فرینڈ ایک خاتون بھاری جسم وہ بی جان تھی کشمالہ کی طرح نیلی آنکھوں والی اس کی امیڈمپل والی۔بہت تعریف کر رہے تھے بی جان نے پیار سے گلے لگا کر کہا۔امی بھی گرم جوشی سے مل کر بیٹھنے کو بولا۔اس نے اب تک کتابوں میں پڑھا تھا پہاڑوں میں رہنے والوں کے دل بھی پہاڑ جیسے کھولے بڑے ہوتےاب ہع کوئی اتنی محبت سے ملا اسے تجربہ ہو گیا حیران رہ گئی ۔
ڈاکٹرنی کہہ کر اسے عزت دی وہ ان لوگوں کی محبت اپنائیت سے بہت متاثر ہوئی
اسفی کو بہت شوق ہے اسکی بھتیجی ڈاکٹر بنے ورنہ میں نے تو کہا گھر میں ایک ڈاکٹر کافی ہے اتنے میں لاونج کا دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا ۔
اسلام وعلیکم اتنی مانوس آواز اس نے سر اٹھا کر دیکھا دل چاہا کئ غائب ہو جائے ۔
اچھے وقت پر آئے اسفی لنچ گھر ہی کر جانا۔اسے دیکھ کر جو حیرت ہوئی اسفندیار نے اسے چھپا بھی لیا تھا ۔پہلے شرمندگی کی لپیٹ میں تھی پھر کشمالہ اور سائم پر بہت غصہ آیا۔
اگر یہ مزاق تھا تو انتہائ بیہودہ تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا ان دونوں کے سر پھوڑ دے وہ ہاتھ مل رہی تھی ۔جبکہ اسے نظر انداز کر کے بی جان کی بات کا جواب دینے لگا۔
آپ کھانا لگوائیں مجھے اسٹیڈی میں کچھ کام ہے وہ کشمالہ کی امی گیتی سے کہہ کر سیڑھیاں چڑ گیا ۔
تم آرام سے بیٹھو میں کھانا لگوا کر آتی ہوں ۔میں لنچ کے لیے ضرور رکتی مگر میری ڈیوٹی شروع ہونے والی ہے ۔یہ تو کشمالہ اچانک آئی اور بضد ہوئی کے اس کے ساتھ چلوں تو کھڑے کھڑے آ گئی ۔تکلف کی کوئی بات نہیں میں پھر آؤں گی۔
وہ فورا اٹھ گئی کشمالہ نے اس کے جھوٹ پر کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر خاموش ہو گئی ۔
ارے پہلی بار آئی ہو ایسے بنا کچھ کھائے کبھی نہیں جانے دوں گی ۔بی جان ناراض ہوئی۔
تم یہاں مہمان ہو اصولا سائم کشمالہ سے پہلے تمیں انوائیٹ کرن چاہئے تھا ۔
آج اجازت دے دیں پلیز ڈیوٹی کا مسلہ نہیں ہوتا تو میں ضرور رکتی۔سائم کشمالہ خاموشی سے بات چیت سن رہے تھے بی جان نے مزید اصرار نہیں کیا مگر گیتی کو اشارہ کیا جو زوبیہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکا