یہ آپکی پہلی غلطی ہے اس لئے اگنور کر رہا ہوں مگر نکسٹ ٹائم میں معاف نہیں کروں گا کوئی ایمرجنسی ہے کوئی پرابلم ہے مجھے کسی وقت بھی بتایا جا، سکتا ہے کوئی اور میسر نہیں تو میں آ سکتا ہوں ۔
آئی ایم سوری اس نے بری نیت سے کچھ نہیں کیا تھا مگر غلطی تو ہوئی تھی ۔
اب آپ جا، سکتی ہیں دراز کھول کر ڈھونڈنے ہوئے کہا
اور ہاں ایک اور بات وہ دروازے سے نکلنے والی تھی پیچھے سے آواز پر رکی ایک ڈاکٹر اور عام آدمی میں اتنا فرق تو ہونا چاہیے کہ خون دیکھ کر گھبرا جائے پھر وہ ڈاکٹر کیا ڈاکٹر ہوا وہ اسی مصروف انداز میں بول رہا تھا وہ سن کر چپ سر جھکائے کمرے سے نکل آئی تھی ۔اس نے جو کیا وہ غلط نہیں تھا اسے بھی بہت رونا، آ رہا تھا وہ نالائق ثابت ہوئی تھی خود پر شرمندہ تھی ۔
___________
اگلے روز سسٹر راضیہ سے ملاقات ہوئی اس نے ڈرتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا مگر وہاں کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں تھا ۔رات اپ نے مجھے بیج دیا پیچھے ایمرجنسی ہو گئی بلا لیتی۔انہوں نے خود زکر کیا تو وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔آپ کو کچھ کہا ڈاکٹر اسفندیار نے؟ وہ مسکرائی کافی کچھ کہا مگر غلط نہیں کہا۔آپ نیو تھی میں منہ اٹھا کر چلی گئی میرا کام تھا ڈاکٹر اسفندیار کو خبر کرتی وہ ڈانٹ کھا کر بھی سکون میں تھی ۔وہ حیران تھی شاید یہ لوگ ڈانٹ کھا کھا کر عادی ہو گئے ۔جس کی وجہ سے دونوں نے ڈانٹ کھائی اس کی حالت اب کافی بہتر تھی
کیا ہوا تھا تمارے ساتھ؟ گر گئی تھی وہ مختصر بولی۔مگر مجھے یہ سیڑھیوں سے گرنے کی چوٹ نہیں لگ رہی تمارے جسم پر نیل کیسے پڑے۔کہہ تو رہی ہوں گر گئی تھی ۔وہ چڑچڑے انداز میں بولی۔مگر لہجہ شکست تھا ۔
دیکھو مجھے صیحع صیحع بتاؤ مجھے ایسا لگ رہا ہے کسی نے تشدد کیا ہے کیا کسی نے مارا تھا؟ وہ جو ساتھ تھا کون تھا؟ تمہارا باپ تھا؟ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوستانہ انداز میں کئ سوال کر ڈالے۔
وہ میرا شوہر تھا وہ تلغ لہجے میں بولی۔وہ سکتے کی حالت منہ کھولے اسے دیکھتی رہ گئی ۔شوہر۔۔۔۔؟وہ تو پندرہ سولہ کی تھی وہ پچاس سے اوپر کا تھا ہاں شوہر بہت شوق ہو رہا آپ کو سننے کا تو سب سنا دوں کل میرے شوہر اور ساس دونوں نے مل کر مارا تھا وجہ یہ تھی نماز پڑھنے لگ گئی ساس کو ٹائم سے کھانا نہیں ملا۔دعا مانگتے ہوئے شوہر نے بال سے گھسیٹے ہوئے ماں کے پاس لے گیا پھر دونوں نے مارا مار تو میں روز کھاتی ہوں کبھی غلطی تو کبھی بے قصور سر میرا سیڑھیوں سے گر کر نہیں پھٹاساس نے سر پر قینچی ماری تھی شوہر نے پیٹ کمر پر لاتیں ماری تھی ۔پھر مار کھاتے بے ہوش ہو گئی مجھے نہیں پتہ ہوش آیا تو یہاں تھی۔اسے لگا ہو گا مر ننہیںجاؤں تو یہاں لے آیا۔وہ آنکھ ٹپکائے اتنے سکون سے بتا رہی تھی جیسے کسی اور کی کہانی ہے وہ بری طرح کانپ گئی اتنی سی بچی اتنے ظلم۔جس کی عمر کھلنے کودنے کی ہے تمہارے ماں باپ کچھ نہیں کہتے داماد کو ۔؟کافی دیر بعد وہ خود کو بولنے پر امادہ کر پائی۔وہ کیا کہیں گے ان کا قرض چڑھا ہوا ہے بہادر خان کا بھی دس ہزار تھا مر کر بھی نہیں چکا سکتے تو مجھے پیش کر دیابہادر خان کو ۔اس کی آنکھوں کا درد دیکھ کر اس کا دل بھر آیا وہ آخر زاروقطار رو پڑی اور سب سنا دیا اس کو بہت غصہ آ رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا ان ظالموں کا سر کچل دے۔______________
پرسوں رات جو لڑکی ایڈمنٹ ہوئی تھی اس کا کیا حال ہے اس کے پوچھنے پر زوبیہ نے اطمینان محسوس کیا کل جب سے وہ اس سے مل کر آئی تھی اسفندیار سے بات نہیں ہوئی تھی ان کو بتا چاہ رہی تھی سارے زمانے پر رعب رکھتے ہیں زرا اس کے شوہر کی کھنچائی تو کریں ۔پہلے سے بہت بہتر کافی رکورکیا، اس نے ۔ویری گڈ وہ ریسیور اٹھا کر جواباً بولا تو وہ فوراً بول پڑی مجھے آپ سے اس کے بارے میں ایک بات کرنی تھی ۔نمبر ملاتے اس کے ہاتھ بے ساختہ رک گئے ۔
کیجئیے ریسیور واپس رکھ کر پوری متوجہ ہو گیا ۔
پرسوں جو آدمی اسے لایا، تھا وہ اس کا شوہر تھا آپ کو معلوم ہے وہ مکار آدمی جھوٹ بول رہا تھا ۔کہ سیڑھوں سے گری۔اس بات یہ ہے کہ اس کی ماں اور اس نے مل کر اس بے چاری کو مارا ہے آپ نے نوٹ کیا اس کی آنکھ کیسے سوجی ہوئی تھی جسم پر جگہ جگہ نیل پڑے تھے وہ اس کی طرف دیکھ کر روانی سے بولتی چلی گئی ۔وہ جو بہت سنجیدگی سے سن رہا تھا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا۔
آپ یہ سب مجھے کیوں بتا، رہی ہیں یہ ان کا پرسنل معاملہ ہے اس سے ہمارا تعلق نہیں تعلق کیسے نہیں ہے ابھی ہم اس کا علاج کریں گے پھر یہاں سے نکل کر اسی جہنم میں جائے گی ۔پھر وہی ظلم ستم ایسے میں تو اس کو علاج کی بھی ضرورت نہیں ہے اچھا ہے وہ بغیر علاج کے مر جائے ۔کم سے کم روز ستم سے جان تو چھوٹ جائے گی ۔وہ پہلی بار بغیر نروس ہوئے اس، سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی تھی ویسے تو بہت لکچر دیا جاتا، ہے اس کا درد اپنے آپ میں محسوس کریں ۔
آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں وہ پرسکون انداز میں بولا۔
آپ اس کے شوہر کو بولا کر زرا ڈانٹ ڈاپٹ کریں آپ کو پتہ ہے شوہر کی مار پیٹ کی وجہ سے اس کا دو بار ابارشن ہو چکا ہے وہ جواباً سنجیدگی سے بولی
بات یہ ہے ڈاکٹر زوبیہ ہمارا کام ہے مریض کا علاج کرنا مانتا ہوں یہ اسپتال میں نے خدمتِ خلق کے لئے بنایا ہے مگر حقوقب نسواں بنانے کا کوئی پروگرام نے
اگر کسی کا شوہر اسے مارتا پیٹتا ہے تو اس کے گھریلوں معاملہ ہے اس میں ٹانگ اڑانے کا آ پ کو حق ہے نا مجھے آپ کو میرا یہی مشورہ ہے آپ پروفیشنل پر توجہ دیں
اس کو جواب دے کر دوبارہ فون کی طرف لپکا۔جلتے بھنتے وہ کمرے سے باہر نکل گئی سب کتنی تعریف کرتے ڈاکٹر اسفندیار یہ سفاک بے رحم انسان ہیں۔۔ نہیں کرتے نہیں میں خود کرو گئی بات اس کے شوہر سے ۔
رات کو وہ اس لڑکی حجت کے پاس آئی اس سے بھی یہی بات کی وہ بہت ڈر گئی آپ اس سے کچھ نہیں بولنا وہ مجھے اور مارے گا۔
ارے کیسے مارے گا میں اس کا دماغ درست کر دوں گی تم ایسے ڈرا مت کرو بوڑھا کھوسٹ تو ہے وہ اب مار کے لیے ہاتھ اٹھائے ہاتھ پکڑ لینا۔وہ جوشیلے انداز میں بول رہی تھی وہ روتے روتے ہنس پڑی۔
میں ایسا نہیں کر سکتی مگر لگتا ہے آپ اپنے شوہر سے کبھی نہیں ڈریں گی۔وہ بے چارہ آپ سے ڈرے گا۔وہ بے تکلفانہ انداز میں بات کرنے لگی۔اسکی بے تکلفی سے کی بات اسے ایک منٹ کے لئے سن کر گئی ۔کیا میری زندگی میں کسی شخص، کی آمد ہو سکتی ہے ۔کوئی میرے لیے بھی الله نے بنایا ہو گا ۔
اس نے اس کے شوہر کو تو کچھ زیادہ نہیں مگر دبے الفاظ میں بولا یہ بہت کمزور ہے اس کا بہت زیادہ خیال رکھا کریں اتنی خوبصورت اور کم عمر بیوی ملی ہے اس کی قدر کریں وہ اس کی تمام ہدایت سر جھکا کر سنتا رہا ۔
_______________
اس نے اپنی پہلی تنخواہ ملنے پر خالہ امی کو پیسے بھی بھیجے تھے ایسا کر کے اسے بہت خوشی ہوئی ان کے گھر کے حالات اس سے پوشیدہ نہیں تھے ان پیسوں سے شہلا کے جہیز کے لیے کچھ نہ کچھ لے لیں گی ۔اپنی محنت کی کمائی کسی اپنے پر خرچ کر کے اسے روحآنی خوشی ہو رہی تھی ۔
کافی دیر وہ بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔تنگ آ کر ہسپتال سے باہر نکل آئی اتنے دنوں میں پہلی بار بار آئی تھی اسے احساس ہوا کے کتنے ٹائم بعد کھلی فضا میں سانس لے رہی ہے
موسم انجوائے کرتے ہوئے وہ کافی اگے نکل آئی تھی
سائم ان پھولوں کے پاس میری ایک تصویر لو ایک خوبصورت نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا اردگرد کوئی نظر نہیں آیا مگر آواز پاس سے آ رہی تھی ۔اس نے اگے جھک کر دیکھا ڈھلان کے نیچے ایک لڑکی لڑکا کھڑے تھے اور کتنی تصویریں کھچواؤ گی میں تھک گیا لڑکا بے لڑکا بے ذاری سے بولا۔
تمہاری دوستوں کو یہاں کی فوٹو دیکھنے کا شوق ہے میں تمہاری ماڈلنگ سے تنگ آ گیا ہوں اب ردخت پر بندروں کی طرح لٹک کر رہ گئی ہے باقی پوز سب ہو گئے ۔اچھا تم رہنے دو میں گلِریز سے بنوا لوں گی دو چار تصویریں کیا کھنچ لی دماغ خراب ہو گیا ہے وہ جواباً بولی وہ جب سیدھی مڑی تو زوبیہ پر نظر پڑی زوبیہ دوستنہ مسکرا دی۔
ہیلو وہ لڑکے کو چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس آ گئی
ہیلو مسکرا کر اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا لڑکا تعجب سے دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔
میں کشمالہ ہوں اور آپ؟ بڑے مزہب انداز میں انگلش میں سوال کیا ۔میں زوبیہ خلیل ہوں لڑکا بھی پہنچ آ
زوبیہ خلیل وہ نام دوہراتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی ۔آپ کا نام سنا سنا لگ رہا ہے ۔
ہاں شاید تم نے کسی سے سنا ہو میں یہاں ہسپتال میں نئی اپائنٹ ہوئی ہوں وہ مسکرا دی۔
او اچھا تو آپ ہمارے علاقے کی نئی لیڈی ڈاکٹر ہیں وہ خوش ہو کر بولی اس نے مسکرا کر گردن ہلا دی۔
ویلکم ڈاکٹر زوبیہ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر ۔
بائی داوے میں سائم لڑکا تھوڑا روکھے انداز مربولا شاید اتنی دیر نظر انداز کرنا اسے برا لگا۔
ہاں یہ میرا چھوٹا بھائی ہے بے چارے کو جلنے کی پرانی بیماری ہے ۔وہ سائم کی طرف دیکھتے مسکرا کر بولی انداز سرا سر چڑانے والا تھا ۔
ہاں یہ موٹی میری بڑی بہن ہے وہ کھلکھلا کر ہنسے لگی۔
اب تم لوگ لڑنا مت شروع کر دینا۔
کہاں پڑھتی ہو تم؟
میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں پڑھتی ہوں فرسٹ ائیر میں ہوں
او ڈیایم سی میں زبردست میں نے بھی وہیں سے کیا وہ اپنے تعلیمی ادارے کا نام سن کر خوش ہو گئی سائم بھی ان کے پاس بیٹھ گیا ۔
آپ کراچی سے آئی ہیں وہ حیران ہو کر پوچھ رہا تھا ۔
نہیں آئی تو پشاور سے ہوں پہلے کراچی میں رہتی تھی ۔میرے پرینٹس کی ڈیتھ ہو گئی ہے تو خالہ کے پاس پشاور رہتی ہوں وہی رٹا رٹ جواب جو لوگوں کو دیا کرتی تھی ۔آپ کو پڑھی کے لیے بھیجا ہو گا
فادر کی ڈیٹھ ہو گئی ہے بس امی ہیں لالہ ہیں بی بی جان ہیں ۔ان تینوں کو ہمیں پڑھانے لکھانے کا بہت شوق ہے ۔کشمالہ سنجیدگی سے بولی۔چیونگم کھائیں گی آپ؟ دونوں کو افسردہ دیکھ کر سائم نے معلوم بالنا چاہا۔کشمالہ شاید اپنے بابا کو بہت مس کرتیی تھی ۔
دونوں بہن بھائی زندہ دل ہنس مکھ تھے ۔زوبیہ کو بہت دن بعد مختلف کمپنی ملی۔اس لیے اسے مزہ آ رہا تھا ۔دو ڈھائی گھنٹے گزار دیے ان کے ساتھ ۔کیسے گزر گئے پتہ نہیں چلا۔
ان سے رخصت ہو کر واپس ہسپتال آئی دیر تک ان بہن بھاائی کی شرارتیں سوچ کر انجوائے کرتی رہی ۔