اسی لیے اسے یہاں کے ماحول سے گھٹن نہیں ہوئی کوریڈر میں اس کی ملاقات شہزور سے ہو گئی تھی ۔
کیسی ہیں آپ؟
ہسپتال میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟
اپناکمرہ پسند آیا؟
اور کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟
اس کے سلام کے جواب کے بعد انہوں نے یکے دیگر کئ سوال کر ڈالے
انہوں نے کچھ اور کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا سامنے آتے اسفندیار کو دیکھ کر چپ ہو گئے وہ تیز قدم کے ساتھ اسی طرف آ رہا تھا وہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ان کا انتظار کر رہی تھی اسلام عیلکم شہزور نے سلام کرتے ہوئے اس نے اس سے ہاتھ بھی ملایا اسے ایسا لگا اس نے اسے پہچانا ہی نہیں ہے اس لئے سر سری نظروں سے بھی اسے نہیں دیکھا تھا ۔
اسلام علیکم اس نے خود ہی اپنی موجودگی کا احساس دلایا وہ ڈاکٹر شہزور کی باتوں میں مصروف تھا اچانک سلام پر چونکا
وعلیکم السلام بڑا مختصر سا جواب دیا بس، ایک نظر اسے دیکھا پھر گفتگو کا سلسلہ وہی سے کر لیا۔وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے اس کے چلے جانے کو شاید وہاں محسوس بھی نہیں کیا گیا ہو۔وہ اسلام آباد کے بارے میں اگاہی کر رہے تھے باقی سب بہت اخلاق والے مگر جس کپاس ملازمت وہ بد اخلاق گزارہ کافی مشکل ہے ڈاکٹر اسفہ کے آجانے تک بہت سوچتی رہی۔
ڈاکٹرآصفہ آ گیں سلام دعا کے فورا بعد مریضوں کے نفسیات کے بارے میں سمجھایا
آپ کو اسفندیار بولا، رہے ہیں ریسیور واپس رکھتے ہوئے انہوں نے اس سے کہا۔
مرد شادی سے پہلے محبت محبت کرتا ہے اور شادی کےبعد بدل جاتا ہے کیوں؟؟
اسکی ایک وجہ فطرت ہے۔۔
عورت کو ہمیشہ مرد سے ضرورت سے زیادہ محبت کی خواہش ہوتی ہے جبکہ اسکے برعکس مرد کو اگر عورت سے بے پناہ ضرورت سے زیادہ محبت مل جائے تو وہ فطرتاً اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔۔ اگر ایک ہی وقت میں اسکا پیٹ محبت سے بھر دیا جائے تو اسے دوبارہ محبت کی بھوک نہیں لگتی, اسے قطرہ قطرہ محبت دی جائے تو وہ خوش رہتا ہے۔۔
دوسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جب عورت شادی سے پہلے ہی مرد کا خیال بیوی کی طرح رکھے گی اور ایسی کوئ بات چھوڑے گی ہی نہیں جو شادی کے بعد آپس میں شیئر کی جاسکے تو یہ جوڑا شادی کے بعد ایک دوسرے سے بیزار ہی ہوگا شادی سے پہلے آپ منگیتر ہوں یا محبوبہ ہوں بیوی بننے کی کوشش نہ کریں جب ایک دوسرے کو شادی سے پہلے ہی جان لیں گے تو بعد میں جاننے کے لیے گفتگو کے لیے کچھ رہے گا ہی نہیں۔۔
یہاں وہ تہنا نہیں پیچھے کوئی ہے جو اس کے لیے دعا کرے گا۔وہ اولاد کے ہاتھوں مجبور ہو گئی ہیں وہ ایک دم ہلکی پھلکی اور بہت خوش تھی ڈاکٹر آصفہ کو بہت فخر سے بتایا، کے میری خالہ امی کا فون تھا ایسا کر کے اس کی انا کو کتنی تسکین ملی تھی کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ لاوارث ہے اس کا کوئی گھر نہیں اس کے دل سے منو بوجھ ہٹ گیا تھا
_______________
اسے جوائین کیے ایک مہنہ ہونے والا تھا کسی حد تک اس نے خود کو اس ماحول میں ایڈجیسٹ کر لیا تھا اب تو لیٹتے ہی اسے نیند آ جاتی بہت بے معنی سوچوں سے اس کا پیچھا چھوٹ گیا تھا ۔
اس روز اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی ڈاکٹر شہاب اور ڈاکٹر تاجدار کی ایک نائٹ ڈیوٹی لگا کرتی تھی اج اس کو ڈاکٹر شہاب کے ساتھ نائٹ ڈیوٹی پر ہونا تھا مگر رات جب اس کے گھر اس کے والد کی بیماری کی اطلاع آئی تو وہ ڈاکٹر شہزور سے اجازت لے کر فوراً روانہ ہو گئے ۔وہ سسٹر رضیہ اور باقی جونیئر نرس کے ساتھ تھی رات کو مشکل کیس نہیں آتے تھے وہ سب جگہ راونڈ لگا کر بچوں کے وارڈ میں آ گئی
کیا ہوا سسٹر آپ کو؟ سسٹر رضیہ کو سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر پوچھا
کچھ نہیں بس وہی سر درد اسے پتہ تھا وہ مگرین کی پرانی مریضہ ہے ۔
ایسا کریں آپ جا کر آرام کریں میں یہاں ہی ہوں ویسے بھی صبع ہونے میں کچھ دیر ہے ۔اس نے گھڑی دیکھ کر کہا جو چار بجا رہی تھی وہ جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی
آپ اکیلی ہو جائیں گی ڈاکٹر شہاب بھی نہیں ہیں ۔ڈاکٹرز کے بعد سب سے زیادہ وہی تجربہ کار تھی اس سے پہلے بھی بڑے بڑے ہسپتالوں میں اس کا وسیع تجربہ تھا ۔تھی نرس مگر فلحال زوبیہ سے زیادہ تجربہ رکھتی تھی ۔آپ بے فکر ہو کر جائیں کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔
انہیں اطمینان دلا کر رخصت کر کے وہ سکون سے بیٹھی بھی نہیں نرس بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی
ڈاکٹر جلدی آئیں ایک پیشنٹ آئی ہے کافی سیریس حالت لگ رہی ہے ۔وہ اسٹیھتسکوپ اٹھا کر اس کے ساتھ بھاگی مریضہ کی حالت بہت خراب تھی فوراً سٹچر ڈال کر اس کے خون کی طرف متوجہ ہوئی۔تھوڑی کوشش کے بعد خون بہنا رک گیا مگر مریضہ کو ہوش نہیں آ رہا تھا ۔اس نے اپنے سارے جتن کر لیے مگر اسے ہوش نہیں آیا تو پہلی بار اس شخص کی طرف متوجہ ہوئی جو اسے لے کر آیا تھا ۔
کیا ہوا تھا اسے؟
سیڑھوں سے گر گئی تھی ۔وہ گڑبڑا کے بولا اس کے پاس اس وقت انکوائری کا ٹائم نہیں تھا نہ اس لڑکی کی ہارٹ بیٹ نارمل تھی نہ ہی ہوش آ رہا تھا اس نے فورن فون کر کے تاجدار ڈاکٹر یا راضیہ کو بلوانے کا سوچا۔ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسفندیار سسٹر کے ساتھ اندر داخل ہوئے وہ اکثر رات کو چل لگا کرتا تھا باقول ڈاکٹر شہاب چھاپہ مارا کرتا تھا یقینا سسٹر نے انہیں ایمرجنسی کیس کا بتایا ہو گا۔وہ تیزی سے مریضہ کے پاس پہنچا جلدی جلدی معائنہ کر رہا تھا ساتھ پوچھ رہا تھا اب تک کیا کر چکے ٹریٹمنٹ اکیلے کسی ایمرجنسی سے نمٹنے سے اسے پسینہ آگیا تھا کسی سینئر کے ساتھ اور اکیلے سنبھالنا کتنا مشکل ہے اسے پہلی بار اندازہ ہوا اور اپنی کمزوری کا بھی پتہ چلا اسے وہ لڑکی اچانک شاک میں چلی گئی تھی یقیناََ زوبیہ خاموشی سے اسفند کو ٹریمنٹ کرتے دیکھ رہی تھی ۔
کافی کوشش کے بعد لڑکی کو ہوش آیا۔ہوش میں آتے ہی تکلیف سے کراہنے لگیخون سر سے بہہ رہا تھا مگر وہ اپنے پیٹ کمر کو پکڑ کر رو رہی تھی اس کے جسم پر نیل پڑے ہوئے تھے آنکھ بھی سوجی ہوئی تھی کچھ دیر میں داوں کے اثر سے غفل ہوئی تو وہ کمرے سے نکل گیا ۔
آپ زرا میرے روم آئیں زوبیہ اس کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں آگئ۔
ڈاکٹر شہاب کہاں ہیں؟ کافی سخت لہجے میں پوچھا
ان کے گھر سے فون آیا تھا ان کے والد کی حالت ٹھیک نہیں تھا ڈاکٹر شہزور سے چھٹی لے گئے وہ نروس ہو کر بولی۔
اور سسٹر رضیہ؟ سر ان کو مگرین کی تکلیف ہو گئی تھی میں نے انہیں آرام کا کہا تھا وہ دل میں سوچ رہی تھی ایسا نہ ہو راضیہ بےچاری کو تھوڑے آرام کے لیے بہت سننا پڑے۔
آپ کو یہ اتھارٹی کس نے دی کے آپ کسی کو چھٹی دیں بہت گہرا کاٹ دار طنزیہ تھا
آپ کو پتہ ہے نا ابھی آپ جونئر ہیں کسی ایمرجنسی کو اکیلے ہینڈل نہیں کر سکتی مگر پھر بھی آپ نے رسک لیا۔اگر آپ کے ناتجربہ کاری سے کوئی جان سے جا سکتا تھا آپ کی انسانی ہمدردی ہو گئی تھی ہسپتال کاریپوٹیشن خراب ہو جاتا ان کی آواز تیز ہو گئی تھی وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑی تھی وہ گہری سانس لے کر سیٹ پر بیٹھ گیا