شرم آپ کو آنی چاہئے جو گھر میں پاکباز حیادار بیوی کے ہوتے ہوئے بدچلن کے ساتھ گلچھڑے اڑا رہے ہو ۔وہ ساری رات اس زلت میں بے آواز روتی رہی۔اسے کیا کرنا تھا وہ بالکل نہیں جانتی تھی مگر یہ طے تھا کے اب یہاں نہیں رہنا اگلے دن خالہ امی اسے خود سے نظریں چراتی اسے مزید شرمندہ کر گئی وہ سارا دن سوچتی رہی کبھی ہاسٹل رینے کا کبھی سوچتی کہیں گیسٹ کے طور پر رہنے لگے کوئی بات اسے دل میں بیٹھ نہیں رہی تھی ۔اس شہر میں رہ کر ہوسٹل میں رہنا بہت مشکل تھا خالہ امی کو اپنے ملنے ملانے والوں کے سامنے کتنی شرمندگی ہوتی ہو گی
زوبیہ تو اب میرے ہی گھر سے رخصت ہو گئی ۔ماہ طلعت کی بیٹی ہے اس کے احسانات مرتے دم تک نہیں اتار سکتی۔اور اب اسی پیاری ماہ طلعت کی لاڑلی بیٹی ہاسٹل میں رہتی تو دس طرح کی باتیں کرتے وہ جتنا سوچ رہی تھی دماغ اتنا الجھ رہا تھا مگر اسی روز رات اخبار دیکھتے ہوئے جب اس کی اشتہار پر نظر پڑی تو ایسا لگا جیسے اس کے مسلے کا حل نکل آیا۔اس نے اگلے ہی روز پی سی وی پوسٹ کر دی اور بے تابی سے جواب کا انتظار شروع کر دیا ۔اسے وہاں سے کال آنے کی کافی امید تھی ۔اس طرح کسی بستی دور میں لیڈی ڈاکٹر کا جانا بہت ہی مشکل تھا
وہاں سے انٹرویو کے لئے کال آئی تب اس نے خالہ امی کو اس کے بارے میں سب بتا دیا۔انہوں نے اوپرے دل سے ڈنٹا ڈپٹا مگر صاف لگ رہا تھا وہ اسکے چلے جانے میں خوش ہیں شاید آج کل وہ خود بھی اس سے یہی کہنے والی تھی مگر کہہ نہیں پا رہی تھی ۔کیسے کہہ دیتی واپس اپنے گھر لوٹ جاؤ وہ جس کی ماں نے اس پر بے شمار احسان کر رکھے تھے اسے اپنے گھر سے جانے کا کیسے حکم سنا دیتی۔اسے خالہ می پر بہت تاس آتا تھا ایک طرف وہ اولاد کے ہاتھوں مجبور تھی دوسری طرف احسان کا بوجھ گھر کا ماحول ویسے بھی کشیدہ چل رہا تھا ۔نہ بھابھی نہ شہلا نہ ہی محسن بھائی اس سے بات کرتے وہ مجرموں کی طرح رہ رہی تھی کئ بار خیال آیا کے اگر وہاں سے کال نہیں آئی تو کیا ہو گا ۔انٹرویو دینے کے پانچ دن بعد اس نے ڈاکٹر آصفہ علی کی کال ریسیو کی آپ پہلی تاریخ سے جوائن کر سکتی ہیں ۔وہ آواز سے پہچان گی انٹرویو کے وقت ڈاکٹر آصفہ وہی تھی جلدی سے سب تیاری کر کے وہ جانے کے لیے تیار ہو گئی ۔ایک اور دربدری ایک اور جلہ وطنی
ویک اینڈ پر ضرور آیا کرنا اسے ایرپورٹ چھوڑنے محسن بھائی آئے تھے اس کے اس طرح جانے سے وہ بہت شرمندہ نظر آ رہے تھے ۔ان کا شرمسار لہجہ رویہ اسے بھی شرمندہ کر رہا تھا ۔رخصت ہوتے ہوئے جب اس نے بھابھی کو سلام کیا بنا جواب دیے اپنے کمرے میں گھس گئی شہلا البتہ اسے خالہ امی کے ساتھ اسے گیٹ تک چھوڑنے آئی۔وہ رسمن چھیٹوں میں ضرور آنا اس نے بھی رسمن ہامی بھر لی۔
جہاز میں اردگرد لاتعلق بیٹھے اسے برسوں پہلے پڑھی نظم یاد آنے لگی
کریں رخ نگر نگر کا
کے سراخ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
وہ سب سوچوں کو جھٹک کر زہین کو پرسکون رکھنا چاہتی تھی ۔ہر فکر سے آزاد ہو کر اس سر زمین میں کھو گئی جو قدرتی حسن سے مالا مال تھی۔
گاڑی اس پر شکوہ عمارت کے سامنے رکی تو وہ ہر سوچ سے آزاد ہو کر اس قدیم و جدید عمارت کو باخور دیکھ رہی تھی اس کا انٹرویو پشاور میں ہی ہوا تھا ۔یہ اس کی خوش قسمتی تھی ان لوگوں نے پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال کا انتخاب کیایہاں آنے سے پہلے اس نے زہین میں جو ہسپتال کا خاکہ بنایا تھا وہ اس سے کئ گناہ حسین اور دل کش تھا اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر آصفہ نے گلے لگا کر گرم جوشی سے استقبال کیا ۔
ویلکم ڈاکٹر زوبیہ،، وہ پچاس ساٹھ کے بچ ہوں گی کالے رنگ کا سوٹ اسکے اوپر بڑی سی شال ہلکی پلکی جیولری میں وہ بہت گریس فل لگ رہی تھی ۔انٹرویو والے دن کے سردسپاٹ تاثرات کی جگہ آج خوشکوار مسکراہٹ نے لی ہوئی تھی
سفر میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟
ڈرائیور سہی وقت پر پہنچا کے نہیں؟
وہ اپنائیت سے ساتھ لے کر چل رہی تھی ساتھ سوال جواب کا سلسہ جاری تھا ۔ان کی باتوں کے جواب کے ساتھ وہ گردو پیش کا جائزہ بھی لے رہی تھی ۔اس سے بات کرتی ہوئی ڈاکٹر آصفہ ایک کمرے میں داخل ہوئی ڈاکٹر شہزور علی نے کھڑے ہو کر استقبال کیا ۔
سفر میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟ ان کے لہجے میں بزرگانہ شفقت تھی ۔وہ ان لوگوں کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئی ڈرائیور سے لے کر اب تک سب کا رویہ بہت پرخلوص تھا اور مہمان نواز بھی ایسا لگ رہا تھا وہ ملازمت کے لئے نہیں دعوت پر آئی ہو۔اس سے بات کرتے وقت تھوڑی تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آصفہ کو چھیڑ رہے تھے
یہ خاتون اصل میں میری بیگم بھی ہیں وہ حیرت سے مسکرا دی تو وہ بھی مسکرانے لگے ۔
اسفند یار کو ہیلتھ منسٹری میں کچھ کام تھا اس لیے وہ اسلام آباد گیا ہوا تھا ۔شاید کل تک آ جائے ۔اب آپ کو پتہ ہی ہے کسی بھی ادارے کالج سرکاری پرائیویٹ ہو یونیورسٹی جب تک اسلام آباد سے تعلقات سہی نہیں رکھے جائیں ادارے چل نہیں سکتے کافی کا سپ لیتے ہوئے انہوں نے کہا ڈاکٹر اسفند یار کو جانتی ہو؟ وہ اس دن انٹرویو کے وقت موجود تھے
اس کے زکر کے ساتھ ہی اسے اس بندے کا پراسرار سا انداز بھی یاد آ گیا
اسفند یار ہی اس ہسپتال کا مالک ہے چھ سال پہلے اسفند میں اور شہزور ہم تینوں نے اس ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی ۔شروع میں ہمارے پاس سہلولت کم تھی ڈاکٹر اور دیگر اسٹاف بھی نہ ہونے کے برابر تھا ہم محنت تو کرتے تھے مگر اتنے پر امید نہیں تھے کہ ہمارے مقصد کی کامیابی بھی ہو جائے گی ۔مگر اسفندیار انتھک محنت پر یقین رکھتا تھا بہت مشکل پسند ہے وہ ۔ہم تھکنے لگتے ہارنے لگتے وہ اپنے ارادوں میں مضبوط تھا اب دیکھ لو اتنے سالوں میں ہمارا ہسپتال ترقی کر چکا ہے ایکسرے الٹراساونڈ دیگر بے شمار ٹیسٹ وغیرہ اب ہم سب اپنے ہاں ہی کر لیتے ہیں یہاں آپریشن تھیٹر بھی تین سال سے شروع ہو چکا پہلے مریضوں کو معمولی ٹیسٹ کے لیے شہر جانا پڑتا تھا اب الله کا شکر ہے یہاں سے سہولتیں موجود ہیں ڈاکٹر آسفہ کے چہرے پر خوشی کے رنگ نظر آ رہے تھے ۔
آپ لوگ یہی کے رہنے والے ہیں؟
ان دونوں کے سرخ سفید رنگت سے اس نے یہی اندازہ لگایا تو پوچھ بیٹھی انگلش دونوں بالکل درست تلفظ میں بول رہے تھے مگر اردو صاف نہیں تھی ۔
ہاں میری پیدائش یہی کی ہے ۔آصفہ البتہ آصفہ البتہ ایبٹ آباد کی رینے والی ہیں میرے بچپن میں ہی ہمارہ فیملی امریکہ سیٹل ہو گئی تھی تعلیم مکمل ہوئی پھر وہیں آصفہ سے ملاقات ہوئی اور پھر شادی بھی ہو گئی ۔یہاں کوئی تھا ہی نہیں جس کے لیے واپس آتے ساری زندگی امریکہ میں بتادی شادی کے بعد بھی ہم پڑھتے رہے ۔خوب ڈگریاں لی بہت علم حاصل کیا بہت دولت کمائی کبھی بھولے سے بھی وطن کو یاد نہیں کیا ۔
میں فلوریڈا یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اسفند یار میرا اسٹوڈنٹ بہت اچھا اور بہت جینس اسٹوڈنٹ تھا اور ساتھ میرا ہم وطن بھی اسی حوالے سے ہماری اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی اس نے وہاں پوسٹ گریجویشن کیا وہ بھی اعزازی نمبروں کے ساتھ ۔وہ جتنا قابل اور اچھا سرجن تھا اسی حساب سے اسے بہت جگہوں سے جاب آفر ہوئی مگر اس نے کسی آفر کو قبول نہیں کیااس وقت مجھے لگا اسفندیار پاگل ہے ۔اسے اپنے فیوچر کیریئر کسی کی دلچسپی نہیں میرے سمجھانے پر دوٹوک انداز میں بولا
میں یہاں غیروں کو زندگی کی نوید سناؤں جب کہ ان کے پاس بہترین معالج کی کمی نہیں اور وہاں میرے چھوٹے سے گاؤں میں وقت پر علاج نہ ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر مر رہے ہیں ۔سوری سر ایسی دنیا دولت مجھے نہیں کمانی یہاں کیریئر ہو گا پیسہ ہو گا نام ہو گا جو میرے اندر رہتا ہے شخص وہ مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا
تب میں پہلی بار چونکہ تھا کتنا مختلف تھا وہ کم سن لڑکااس روز مجھے پچھتاوں نے گھیرا وہ ینک تھا وہاں کی بھاگتی روڑتی زندگی کتنی ساری کشش وہ سب کو تھکرا کر واپس وطن آگیا اور میں ساری زندگی غیروں کی دل جوئی میں لگا رہا
وہ بہت سنجیدگی سے بول رہے تھے اسفندیار کا زکر کرتے ان کے لہجے مبے پناہ شفقت تھی جو اس نے محسوس کی۔جب اسفندیار پاکستان لوٹ رہا تھا تب ہم سوچ چکے تھے یہاں کہ ہسپتال کا ہسپتال کا خواب اسفندیار نے دیکھا تھا ان دونوں میاں بیوی نے وعدہ کیا تھا اس کی تعبیر میں وہ اس کا مکمل ساتھ دیں گے چھ سال پہلے اسفند نے اس ہسپتال کی عمارت تعمیر کی نوید دی یہاں آنے کی دعوت دی ہم لوگوں نے فورا رخت سفر باندھ لیا اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کر چکے تھے اب کوئی زمہداری نہیں تھی وہاں سب کچھ چھوڑ کر بقیہ تمام عمر یہیں بتانے کا فیصلہ کر لیا اس پر دونوں بہت مطمئن تھے ۔
لمبے چوڑے مضبوط قد والے ڈاکٹر شہزور اسے بہت اچھے لگے تھے ان کے چہرے پر داڑھی نماز کے نشان ان کی شخیصت ایک نورانی تاثرات پیدا کرتے ۔
آئیے میں آپ کو باقی اسٹاف سے تعارف کروا دوں ۔کافی پی کر فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر آصفہ نے بتایا یہاں لیڈی اسٹف بہت کم ہے اور سب سے متعارف بھی کروایا ۔یہاں عورتوں کا کام کرنا بہت محیوب سمجھا جاتا ہے ۔کئ دور سے عورتیں آکر کریں یہ بھی بہت مشکل کام ہے ۔یہاں خاتون ڈاکٹر میرے علاوہ کوئی نہیں تھی اور پردے کی اتنی پابند ہیں عورتیں مرد ڈاکٹر سے علاج نہیں کرواتیں
آپ کو اپائنٹ کرنے کی ضرورت اسی لیے پیش آئی میں اکیلی لیڈی ڈاکٹر دن رات کام آرام کا ٹائم نہیں ملتا اسفند نے کہا ہم لیڈی ڈاکٹر کو اپائنٹ کر لیتے ہیں تاکہ آپ پر برڈن کم ہو سکے ۔
وہاں دو ڈاکٹر اور بھی تھے جن میں ایک کو مل چکی تھی ڈاکٹر شہاب سوات کے رہنے والے تھے فیملی ان کی منگوہ میں رہتی تھی دوسرے ڈاکٹر تاجدار خان جن سے ابھی ملاقات نہیں ہوئی تھی سب نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا ۔۔
صبع وہ ازاں کے ٹائم اٹھ گئی تھی نماز کے بعد بہت دیر تک دعا مانگتی رہی آج اس کی جاب کا پہلا دن تھا اپنے رب سے بہتری کی دعا مانگ رہی تھی ناشتہ کر کے تیار ہو کر ہسپتال آگئ سر پر دوپٹہ اسکارف یا چادر کچھ نا کچھ ضرور لیتی تھی ۔