ڈاکٹر زوبیہ خلیل! آپ یہاں جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں ۔
پچھلے سے مسلسل خاموش بیٹھے اس بے پناہ بارعب شخصیت کے مالک بندے نے اچانک سوال کیا تھا انٹرویو میں بیٹھے تین افراد میں سے مسلسل دوہی افراد اس سے سوالات کر رہے تھے اس نے چونک کر وضاحت طلب نظروں سے اسکی جانب دیکھا ۔میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے جو آپ پشاور چھوڑ کر اس دور افتادہ بستی میں جاب کرنا چاہتی ہیں؟
اس نے خود ہی اپنی بات کی وضاحت کر دی۔
یہ اس کا پہلا انٹرویو نہیں تھا ۔وہ اس سے پہلے بے شمار جگہوں پر دے چکی تھی ملازمت کرنا بھی نیا تجربہ نہیں تھا ۔مگر یہاں اپنے بالکل سامنے اس وسیع میز کے پیچھے بیٹھے اس بندے میں پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی کہ وہ تھوڑی سی نروس ہو گئی۔حالانکہ وہ خود کو تیار کر کے آئی تھی ایسے سوالات کے لیے ۔۔مگر اس وقت معلوم نہیں کیوں ایسے لگا تھا جیسے وہ اس سے جھوٹ نہیں بول پائے گی ۔وہ اپنی زہیں آنکھوں سے نہ صرف اس کا جھوٹ پکڑ لےگابلکہ شاید ساری سچائی بھی جان لے ۔اس نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا
اس لیے کے آپ کے ایڈ میں دیا گیا سیلری پیکیج اور دیگر مراعات میرے لیے Attractive تھیں ۔میں ہاوس جاب کے بعد پچھلے ایک سال کے دوران گورنمنٹ جاب حاصل کرنے کے لئے خاصی کوشش کر چکی ہوں ۔جس میں سواے ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔اگر پرائیویٹ جاب ہی کرنی ہے تو ایسی جگہ کیوں نہ کروں جہاں مجھے میری محنت کا بہتر معاوضہ مل رہا ہو۔
گھر سے سوچ کآئے ہوئے انسان دوستی خدمت خلق وطن خدمت اور دکھی انسانیت کا دور قسم کے الفاظ اسے یکسر بھول گئے تھے ۔جھوٹ تو خیر اب بھی اس نے بولا تھا مگر گھر سے سوچ کر آئی ہوئی دھواں دھار تقریر وہ نہیں کر پائی۔اس کے چہرے پر اپنی بات کا ردعمل دیکھنا چاہا تو سوائے سپاٹ چہرے کے کچھ نظر آیا ۔یہ یقیناً انڈریو کا آخری سوال تھا۔کیونکہ اس سوال کا جواب دیتے ہی اسے اجازت مل گئی تھی ۔بلاشبہ یہ اس کی زندگی کا سب سے طویل انڈریو تھا ۔
دائیں طرف بیٹھی خاتون ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر بقیہ دونوں حضرات کو خدا حافظ کہتی بیگ کندھے پر ڈال کر کمرے سے نکل گئی ۔
انٹرویو کے دوران خاتون نے بھی اور دوسرے ڈاکٹر صاحب نے بھی بات چیت کے ساتھ ساتھ فائل میں لگی اسکی سند کو باغور جائزہ لیا مگر وہ عجیب آدمی تھا اس نے نہ تو فائل کو ہاتھ لگایا نہ ہی پیشہ وارانہ سوال کیا حالانکہ وہ دونوں اس سے بہت سے سوالات کرتے رہے تھے ۔
کتنا عجیب سا تھا وہ بندہ۔بظاہر یوں لگ رہا تھا جیسے کہیں کھویا ہوا ہولیکن ایسا تھا نہیں ۔گھر آنے کے بعد بھی کافی دیر تک وہی کے بارے میں سوچتی رہی۔
وہ پوری طرح وہاں موجود تھا اور میرے ہر انداز اور ہر ہر جملے کو تول رہا تھا ۔اندازہ لگا رہا تھا کہ میں کتنے پانی میں ہوں ۔مجھے اپنے پیشے سے متعلق کتنی معلومات ہیں اسے کاغذوں پر لکھی ڈویثرن اور گریڈز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ میرے اندر موجود ہر اچھائی ہر برائی ہر خوبی اور ہر خامی کو دیکھ رہا تھا گھوج رہا تھا ۔
کیسا رہا تمارا انٹرویو؟
خالہ امی نے اس کی شکل دیکھتے ہی سوال کیا
بس، دعا کریں وہاں موجود ایک صاحب سے میں نے پوچھا تھا وہ بتا رہا تھا میرے علاوہ بھی تین لیڈی ڈاکٹرز انٹرویو دے چکی ہیں ۔اور آج بھی میرے آنے کے بعد بھی دو اور ڈاکٹر کو انٹرویو کے لئے آنا، تھا ۔وہ تھکے ہارے انداز میں بستر پر گر گئی ۔
خوامخواہ درد سر لے رہی ہوتم اچھی بھلی تو چل رہی تھی یہاں تمہاری جاب چلو بھئ مانا کہ بہت عالیشان نہیں ہے لیکن نہ سے ہاں تو ہے پھر الله نے چاہا تو یہی پر اچھی جاب مل جائے گی ۔
اسے اس لمے خالہ امی پر بہت ترس آیا حالانکہ دل سے وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ اسے وہاں جاب مل جائے لیکن بے چاری مجبور تھی
تقریبا پندرہ دن پہلے اس کی نظر اخبار میں دیے گئے اشتہار پر پڑی تھی ان دنوں وہ اسی اھیڑبن میں مصروف تھی کہ ایسا کیا کرے کے یہاں سے چلی جائے اور خالہ امی کا بھرم بھی رہ جائے ۔ایک سال پہلے جب وہ کراچی سے پیشاور خالہ امی کے پاس آئی تھی تو اس نے سکھ کا سانس لیا تھا وہاں کے گھٹن اور اجنی ماحول سے نکل کر یہاں کے اپنائیت بھرے ماحول میں اسے بہت اطمنان نصیب ہوا تھا ۔
خالو کو کچھ سال ہوئے تھے فوت ہوئے
خالہ امی کا گھرانہ ایک مڈل کلاس گھرانہ تھا دو بڑی بیٹیوں کی شادی وہ کر چکی تھی اور اب کھر میں محسن بھائی اور شہلا کے بچے تھے اس نے ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھ لیا تھا محسن بھائی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شہلا کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتیں وہ پچھلی ہر بات بھول چکی تھی تھوڑی کوشش کے بعد اسے پرائیویٹ ہسپتال جاب بھی مل گئی تھی ۔خالہ امی کی محبت ایک جگہ مگر وہ ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی اسے اندازہ تھا کے محسن بھائی کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ ان پر اپنا بار بھی ڈال دے ۔خالہ امی شہلا کی شادی کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف رہتی تھی ایسے میں وہ اپنی وجہ سے ان لوگوں پر کوئی بوجھ ڈالنا ہر گز منظور نہیں تھا جاب مل جانے پر اس نے سکون کا سانس لیا۔
زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی جب تک محسن بھائی کی شادی نہیں ہو گئی تھی ۔ان کی شادی ہوتے ہی زوبیہ کا سارا سکھ چین جاتا رہا روبی بھابی کو شروع دن سے ہی پتہ نہیں اس سے کیا دشمنی ہو گئی تھی شروع میں تو وہ ان کے رویے کو سمجھ نہیں سکی۔مگر جب اگے پیچھے کئ مرتبہ طنزیہ جملے کسے تو وہ حیران رہ گئی ۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کس بات پر خار ہے اپنی طرف سے اس نے خوشکوار تعلقات استوار کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی کوشش کارآمد ثابت نہیں ہو سکی۔شروع والے طنزیہ الفاظ براہ راست کاٹ دار گفتگو میں تبدیل ہو گئے ۔
یہاں تک تو اس نے برداشت کیا تھا وہ ان کی باتوں پر خاموشی اختیار کر کے جھگڑے کو طویل نہیں ہونے دیتی تھی ۔یہی کے وہ اکیلی کب تک لڑے گی آخر خود ہی ہمت ہار جائے گی ۔مگر اسکی خام خیالی جلد ہی غلط ثابت ہوئی ۔پہلے محسن بھائی بعد میں شہلا کو بھی انہوں نے اس انداز سے دل برگشتہ کیا اور وہ دیکھتی رہ گئی ۔ایک گھر میں رہتے ہوئے محسن بھائی سوائے سلام کے جواب کے اس سے کوئی بات نہیں کرتے تھے کتنا برا لگ رہا تھا ان کا رویہ اسے وہ اسے نظرانداز کر کے خالہ امی سے پہلے کی طرح بات کرتے اسے یوں سمجھتے جیسے وہ موجود ہی نہیں
ابھی وہ محسن بھائی کے سلوک سے افسرده تھی کہ شہلا کو بھی اس نے بدگمان کردیا۔وہ اس دن کلینک سے خلاف معمول جلدی آ گئی تھی لاونج میں بیٹھے بھابی اور شہلا نے اسے نہیں دیکھا تھا اندر داخل ہوتے ہی اپنا نام سن کر وہ ٹھٹک کر رہ گئی ۔
اس لڑکی کے ہوتے ہوئے تماری شادی کبھی نہیں ہو سکتی ۔سوچو ایسی کیا بات ہے کہ ایک بار آنے کے واپس پلٹی ہی نہیں امی بھی اسی وجہ سے سخت پریشان ہیں ابھی پرسوں جو رشتہ محسن کے دوست کے گھر سے آیا تھا پتہ ہے ان لوگوں نے کیا کہا ہے
وہ شہلا کے پاس بیٹھی ہمدردانہ انداز میں کہہ رہی تھی وہ سر جھکائے ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔
اس لڑکے کی والدہ نے کہا ہے کہ آتے ہوئے جس لڑکی کو گیٹ پر دیکھا تھا اس کا رشتہ ہو جائے تو ہمیں بہت خوشی ہو گی۔حالانکہ تم کوئی شکل کی بری نہیں نہ وہ کوئی حور پری ہے مگر ایسی لڑکیوں کو مروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے سب گر آتے ہیں کچھ تو ادا دیکھائی ہو گئی جو گیٹ پر دیکھ کر ہی عاشق ہو گیا وہ کھڑی سب سن رہی تھی کانوں میں صرف دو الفاظ بار بار گونج رہے تھے ایسی لڑکیاں؛؛ ااس کا دل چاہا وہ ان کا گربان پکڑ کر پوچھے کیسی لڑکیاں وہ کس قسم کی لڑکیوں کا زکر کر رہی تھی
اس رات وہ کتنے عرصے بعد اپنے رب سے شکوہ کناں ہوئی تھی
کب میری سزا معاف ہو گی ۔آخر کب؟ تو بہت غفورو رحیم ہے اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرے تو تُو اس کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے اور میں اتنے برس سے اپنے گناہ کی معافی مانگ رہی ہوں مجھ پر رحم فرماکیا میرا ماضی کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا جو میری زندگی کے شرمناک باب رد نہیں ہو سکتے آخر یہ زلت کب تک سہنی پڑے گی ۔
اپنے آنسو اپنے اندر چھپا کر وہ سب کاموں میں حصہ لے رہی تھی جو اس نے اس گھر کو اپنا ماننا شروع کر دیا تھا وہ کفایت ختم ہو گئی تھی شہلا برائے نام بات کرتی کوئی ضروری ہو تو خالہ امی کا رویہ بس پہلے جیسا تھا وہ لوگوں کے ساتھ میل جول میں خاصی روکھی مشہور تھی وہ رشتے والے کیا کوئی بھی مہمان آتا تو ڈرائینگ روم میں پھٹکتی بھی نہیں ایسے میں اس پر الزام کے شہلا کے رشتے اسے سوچ کر بھی شرم آ رہی تھی ۔کتنا، گھٹیا الزام لگایا تھا اس کا بہت بار دل چاہا کہ شہلا کو سمجھائے پیاری شہلا تم اداس اور نا امید مت ہو جب تمہارے نصیب کھلیں گے ہر رکاوٹ آپ ہی آپ دور ہو جائے گی ۔اور ضروری نہیں آنے والے تمہیں نا پسند کر دیتے ہیں ہو سکتا ہے ابھی درست وقت نہیں آیا جو الله نے تماری شادی کے لیے مقرر کر رکھا ہے
مگر وہ ایک دم اتنی دور ہو گئی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی بات نہیں کر پا رہی تھی اس روز وہ کلینک سے واپس آ رہی تھی جب رشتے والوں نے اسے گیٹ پر دیکھا تھا ۔اور سوائے رسمی سلام دعا کے بالکل بھی نہیں رکی تھی مگر بھابی نے جو نفرت کا بیج بویا وہ پھیل رہا تھا وہ چپ چاپ سب دیکھ رہی تھی مگر کسی انتہائی فیصلے کا اس نے نہیں سوچاجب تک بھائی محسن کی طرف سے انتہائی گھٹیا الزام نہیں لگایا گیا اس دن بس اتنا ہوا تھا تیز بارش میں اسے گھر آنا مشکل لگ رہا تھا اس نے محسن بھائی کو فون کر کے کہا تھا کہ واپسی میں اسے پک کر لیں۔اسے اور محسن بھائی کو ایک ساتھ اتا دیکھ کر بھابی نے آسمان سر پر اٹھا لیا ان کے کمرے سے چیخنے چلانے کی آوزیں آ رہی تھی وہ باآسانی سن پا، رہی تھی شرم آنی چاہیے تمیں ایسا الزام لگاتے ہوئے وہ بھابھی سے بھی اونچا بول رہے تھے ۔