"سحریہ کیا کہہ رہے ہیں ہمدان ایسا نہیں کرسکتا''۔ شاہین پھٹی پھٹی آنکھوں سے سحر کو دیکھتی حیرت اور خوف سے کہہ رہی تھی۔ '' یہ تو ہونا تھا شاہین فبیہہ نے چھوٹی حرکت نہیں کی اس بار ہمدان اسے کسی صورت معاف نہیں کرے گا''۔ جواب ولی آفندی کی طرف سے دیا گیا تھا جو کہ کمرے میں داخل ہو تے شاہین کی بات سن چکے تھے۔ '' جو لوگ دوسروں کی خوشیوں کے دشمن بنے پھرتے ہیں ایسے لوگوں کا انجام اس سے بھی دردناک اور اذیت ناک ہونا چاہئے''۔ ولی آفندی غصے سے گویا ہوئے۔ '' بھائی آپ تو ایسا نا کہیں پلیز ہمدان کو سمجھائیں میری بیٹی اس حالت میں نہیں ہے میں ہاتھ جوڑتی ہوں آپکے سامنے''۔ شاہین روتے ہوئے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ ''آپ لوگوں کی بات چیت ہو گئی ہو تو آپ لوگ کمرے سے جا سکتے ہیں ہم انکو اریسٹ کر کے لے جا رہے ہیں طبی معائنہ کے بعد کسی گورنمنٹ ہاسپٹل میں ایڈمٹ کردیا جائے گا انہیں''۔ پولیس آفیسر سختی سے کہتی ساتھیوں کو اشارہ کرتی انہیں باہر نکال چکی تھی۔ '' بھائی ترس نہیں آرہا آپکو میری بچی پر میری حالت پر؟؟ شاہین روتے ہوئے بولی۔ '' ترس مظلوم پہ کھایا جاتا ہے نا کہ ظالم پر''۔ ولی آفندی درشتگی سے کہتے وہاں سے جا چکے تھے جبکہ سحر شاہین کو سہارا دیتی سمبھال رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
''پاپا۔۔۔ میں آپ شے نلاش''۔(پاپا میں آپ سے ںاراض) ہمدان کی گود میں بیٹھی ننھی میرب موٹی موٹی آنکھیں مٹکاتی ہمدان کو نخرے دکھا رہی تھی۔ '' ارے میری ڈول مجھ سے کس لئے ناراض ہے بھئی؟؟ ہمدان نے میرب کے گال پہ پیار کرتے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ''آپ اتانے شالے دن لگا ڈئےاول کل میلا بلڈے ہے اول آپ نے مجھے چھوپنگ بھی نئی کلائی''۔ ( آپ نے اتنے سارے دن لگا دئے اور کل میرا برتھ ڈے ہے اور آپ نے مجھے شاپنگ بھی نہیں کروائی)۔ میرب اپنی اسی ادا سے آنکھیں مٹکاتی شکایتی انداز میں کہہ رہی تھی۔ '' ہاہاہا ۔۔۔۔ تو یہ بات ہے بالکل اپنی مما پہ گئی ہیں آپ پتہ ہے؟؟ وہ قہقہہ لگاتے حورین کو آنکھ مارتے کہہ رہا تھاحورین بھی اسکی اس بات پہ مسکرا دی۔ '' پتہ ہے''۔ میرب مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی مما اور پاپا دونوں ہی میرب کے فیورٹ تھے اور مما جیسی ہونے پہ توویسے ہی اسے فخر تھا۔'' شاپنگ پر شام کو چلنا ہے نا میری ڈول پھر بہت ساری شاپنگ کریں گے''۔ ہمدان نے پیار سے کہا تو میرب ننھے ہاتھ سے ہمدان کے ہاتھ پرتالی مار کر ہنستی ہوئی دادو کو بتانے بھاگ گئی۔ '' ہائے شوہر تھکا ہارا گھر لوٹا ہے پر مجال ہے کہ نظرِ کرم ہی ڈال دیں معصوم پہ''۔ ہمدان حورین کا ہاتھ پکڑتا شوخ لہجے میں بولا۔ '' اتنا خیال تھا تو کیا ضرورت تھی اتنے دن لگانے کی مجھے نہیں بات کرنی جائیں آپ یہاں سے''۔ حورین بھی ہاتھ جھٹکتی ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی جہاں ہمدان حورین اور میرب کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا وہیں حورین کا بھی یہی حال تھا۔ '' لو جی پہلے بیٹی کو منایا پورا گھنٹہ لگا کہ اب بیگم صاحبہ کو مناؤ''۔ ہمدان نے مظلوم شکل بناتے کہا '' اچھا اب زیادہ ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں میں نے بہت مس کیا اسپیشلی آپ کے ساتھ لان میں بیٹھ کر چائے پینا''۔ حورین نے پیار جتاتے کیا۔ '' لو بھلا اس میں کیا بات ہے ابھی چل کر چائے پیتے ہیں لان میں''۔ وہ حورین کا ہاتھ تھامے روم سے نکل کر میڈ کو جائے کا کہتا لان میں چل دیا ۔ ہمدان آج ہی پیرس سے میٹنگ اٹیند کر کے گھر پہنچا تھا میرب کی پیدائش کے بعد ہمدان پہلی بار اتنے دن کے لئے کہیں گیا تھا۔ میرب کی پیدائش کو دو سال ہونے والے تھے فبیہہ سے جان چھوٹنے کے بعد ہمدان اور حورین کی زندگی بہت پر سکون ہو گئی تھی پھر میرب کی پیدائش نے انکی زندگی میں نئے رنگ بھر دئے تھے۔ میرب مما پاپا کے ساتھ ہی دادا اور دادو کی بھی جان تھی، اسکی کلکاریوں سے گھر میں رونق لگی رہتی۔ شائستہ بیگم ، ثانیہ بیگم غضنفر صاحب ،ضیافت صاحب سب کو ہی میرب حور کی طرح عزیز تھی۔ سب ہی میرب کا برتھ دے سیلیبریٹ کرنے کے لئے ایکسائیٹڈ تھے۔
''ارے یہ فلاورز یہاں سیٹ کرنے ہیں پلر کے پاس اور وہ بلیو بیلونز وہاں لگانے ہیں''۔ اشعر ڈیکوریٹرز کو انسٹرکشن دیتا کہہ رہا تھا۔ '' ہاں بھئی تیاری کہاں تک پہنچی پانچ بجنے والے ہیں آٹھ بجے کیک کٹ ہونا ہے پتہ ہے نا؟؟ شائستہ بیگم پر جوش ہوتی پوچھ رہی تھی۔ '' جی جی چاچی بیگم سب ہو جائے گا ٹائم پر فکر ہی نہ کریں''۔ اشعر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میرب کے برتھ ڈے کی تیاری ذور شور سے جاری تھی۔ سب ہی اپنی ڈول کا برتھ ڈے اسپیشل بنانے کے لئے کام میں لگے ہوئے تھے۔ '' مما مدے یہ دلیش جلدی پنا دیں''۔ میرب اپنا اسنو وائیٹ اسٹائل فروک اٹھائے پھر سے حورین کے سامنے کھڑی تھی یہ صبح سے اسکا بیسواں چکر تھا۔ ''اف میرب میری جان اگر میں آپکو ابھی یہ فروک پہنا دوں گی تو کیک کٹ کرنے تک میری فیری کا فروک گندا ہو جائے گا نا پھر میرب کی پکس کیسے اچھی آئیں گی ہاں''۔ حورین نے اسے پیار سے سمجھایا۔ '' اوہ مما یہ ٹو میں نے شوچا ای نئیں''۔ میرب ماتھے پہ ہاتھ مارتی آنکھیں مٹکاتی کہہ رہی تھی اسکے انداذ پہ حورین نے ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ '' ماشاءاللہ میرب آپ بہت کیوٹ ہو''۔ حورین کو اپنی چھوٹی سی ڈول پہ بے پناہ پیار آرہا تھا۔ '' کیوٹ تو میری ڈول بھی کم نہیں ہے ویسے''۔ ہمدان کی آواز پہ حورین نے دلکش مسکراہٹ سجائے پلٹ کر اسے دیکھا۔ '' بہت باتیں بنانی آتی ہیں آپکو ریڈی ہوجائیں آپ جلدی سے''۔ حورین اسے کہتی روم سے نکل گئی۔ '' دیکھا کتنی ظالم ہیں آپکی مما''۔ ہمدان میرب کے گال پہ کس کرتے کہہ رہا تھا۔ '' جالم مما ابھی دادو کو بتا کل آئی''۔ میرب ایکسائیٹڈ ہوتی جالم مما کا ورد کرتی دادو کو بتانے بھاگ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
(چھ ماہ پہلے)
عارش کے اگزامز سر پہ تھے سو وہ اپنی تیاری میں بری طرح مصروف ہو گیا تھا۔ ماہا اور عارش کے درمیان اس دن کے بعد سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی لیکن عارش شان سے ماہا کے بارے میں سنتا رہتا تھا ماہا اسے اچھی لڑکی لگی تھی۔ ماہا بھی اندر ہی اندر عارش کی محبت میں گرفتار ہوچکی تھی۔ وہ عارش کو چپکے چپکے دیکھتی رہتی پتہ نہیں ایسی کونسی کشش تھی عارش میں جو ماہا کو اپنی طرف کھینچتی چلی گئی ماہا اس کے سامنے بے بس ہوگئی تھی۔ جس دن اسے نہ دیکھتی دن گزارنا اسے محال لگتا۔ ایگزامز کا لاسٹ ڈے آن پہنچا تھا۔ ماہا بھی کسی فیصلے پر پہنچ کر عارش کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ یہ انکی یونیورسٹی کا لان تھا سرد موسم، مہکتے پھول اور سامنے کھڑی ماہا ایک پل تو عارش کو حورین کی یاد نے آگھیرا اگلے ہی پل اسنے سر جھٹک کر ماہا کو حیرت سے دیکھا۔ '' یس کوئی کام ہے؟؟ عارش نے بیزاری سے پوچھا۔ '' مجھے بات کرنی ہے تم سے''۔ ماہا نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہا۔ '' اوکے جلدی کہو''۔ وہ جان چھڑانے والے انداز میں کہتا ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ '' عارش آئی لو یو۔۔۔'' ماہا نے آگے بڑھ کر عارش کا ہاتھ تھامتے کہا۔ عارش کو تو یک دم جیسے کرنٹ لگا تھا۔ '' واٹ؟؟؟عارش ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتا حیرت سے اسے دیکھے گیا۔ عارش کے یوں ہاتھ چھڑانے پہ ماہا کو اپنی حرکت پر شرمندگی ہو رہی تھی۔ '' آئی۔۔۔ آئی ایم سوری عارش لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا اگر میں تم سے آج نہ کہتی تو شاید ہی کبھی سکون سے رہ سکتی میں سچ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں اور بہت ہمت کر کے تم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے پلیز میری فیلنگز کو ہرٹ مت کرنا پلیز''۔ وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی کہے جا رہی تھی۔ عارش کی آنکھوں میں پھر سے وہ منظر گھوم گیا تھا جہاں حورین اسکا ہاتھ تھامے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی کتنی ہمت جٹائی ہوگی اس نے، پہل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسکا اندازہ تو عارش کو بھی تھا آخر اتنی بڑی سزا جو بھگتی تھی اسنے اسکو یاد آیا کیسے حورین کی فیلنگز ہرٹ کر کے اسنے اسے آنسو دئے تھے کیسے اسے ہمیشہ کے لئے کھودیا تھا اسنے حورین کو۔ وہ روتی ہوئی آنکھیں آج بھی اسکے دل اور دماغ میں نقش تھی۔ ماہا عارش کے جواب کی منتظر کھڑی تھی۔ '' بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں ہم؟؟ عارش نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا تو ماہا کی بھی سانس بحال ہوئی۔ '' کیوں نہیں''۔ ماہا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ دونوں پاس ہی رکھے بینچ پر بیٹھ چکے تھے۔ کچھ دیر سرد ہوا کے جھونکوں میں خاموشی انکے ساتھ رہی پھر عارش نے ہی سکوت توڑا۔ '' کیا جانتی ہو میرے بارے میں؟؟ عارش اسکی طرف دیکھے بغیر اس سے مخاطب ہوا۔ '' ذیادہ کچھ نہیں جانتی لیکن جاننا چاہتی ہوں، بس اتنا جانتی ہوں کہ تم ایک اچھے انسان ہو اور مجھے محبت ہے تم سے ''۔ ماہا اسکی طرف دیکھتے کہہ رہی تھی۔ '' لیکن مجھے کسی اور سے محبت ہے''۔ عارش نے نرمی سے کہا لیکن ماہا کا دل کسی چھناکے سے ٹوٹا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ '' جان سکتی ہوں کس سے؟؟ وہ بھیگی آنکھوں سے دیکھتی اس سے پوچھ رہی تھی۔ ''حور۔۔ حور سے میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں لیکن۔۔۔''۔ عارش نے سرد آہ بھری۔ ''لیکن؟؟ ماہا نے اسے خاموش بیٹھے دیکھ پوچھا اسے بیچینی ہو رہی تھی۔ '' لیکن وہ کسی اور کی ہو چکی ہے۔ میرے عشق سے منکر ہو کر کسی اور کے عشق میں کھو گئی ہے''۔ عارش کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔ ''اسے قدر نہیں ہوگی تمہاری بہت سیلفیش ہوگی ورنہ ایسا نا کرتی''۔ ماہا حورین کو کوسنے لگی۔ '' شٹ اپ۔۔۔ اسکے بارے میں ایسی بکواس میں کسی کی نہیں سنتا اور مجھے ایسے لوگ نہیں پسند جو پوری بات جانے بغیر اپنی رائے دینے بیٹھ جاتے ہیں''۔ اب کی بار عارش کا لہجہ سخت تھا آنکھوں میں سرخی صاٖ ف واضح تھی۔ '' سوری''۔ ماہا نے اپنی جلد بازی پر شرمندہ ہوتے کہا ۔ '' اسنے بھی ایسے ہی ایک روز میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی محبت کا اظہار کیا تھا، اور میں ۔۔۔ میں نے اسے ہرٹ کیا میری انا کو یہ برا لگا کہ میں کب سے اسے اپنے عشق کی انتہا نہیں بتا سکا اور وہ لڑکی ہو کر میرے سامنے کھڑی ہنستی آنکھوں سے میرا ہاتھ تھامے مجھے کہہ رہی ہے کہ محبت ہے تم سے۔۔۔۔ اتنا۔۔۔اتنا کم ظرف نکلا کہ ایک پل میں اپنی سالوں کی محبت کا منکرِعشق بن بیٹھا یہ بھی نہیں سوچا کہ اسکا کتنا دل دکھا ہوگا۔۔۔ کتنا روئی تھی وہ، مجھے معاف نہیں کیا آج تک اس نے۔ تمہیں پتہ ہے جب اسکی شادی ہونے لگی تو۔۔۔ تو میں نے اس سے اپنے پیار کی بھیک مانگی کتنا تڑپا تھا گڑگڑایا بھی میں لیکن وہ بہت آگے جا چکی تھی میری نفرت میں مجھ سے نفرت کی حد یہ تھی کہ اس نے مجھے غلطی سدھارنے کا ایک موقعہ تک نہیں دیا اور اچھا ہی کیا اسنے میں یہی ڈیزرو کرتا تھا میں ایسی ہی نفرت کے لائق ہوں''۔ عارش کی آنکھیں نم تھیں آواز بھیگی ہوئی یہ پہلی بار تھی کہ عارش نے کسی کو اپنے دل کا حال بتایا تھا۔ '' ماہا جانتا ہوں تم ایک اچھی لڑکی ہو لیکن میں حور کے علاوہ کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر میں تمہاری محبت قبول کر بھی لوں تو بھی اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا کیا تم ایسے انسان کے ساتھ اپنی ساری زندگی گزار سکتی ہو جس کے دل میں تمہارے لئے کچھ بھی نہ ہو بولو؟؟ عارش ماہا کی آنکھوں میں دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ ماہا جو اسکی باتیں سن کر حیران بیٹھی تھی عارش کے سوال پہ چونکی۔ '' میری محبت تمہیں مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کردے گی عارش''۔ ماہا پر عزم انداز میں بولی۔ '' وہ کہتی ہے کہ بہت خوش ہے اپنی لائف میں دیکھتے ہیں چل کر اگر میں اسے قائل نا کر سکا تو میں تمہارا''۔ عارش نے ماہا کو دو ٹوک انداز میں کہا۔ ماہا حیرت سے اسے دیکھے گئی۔''تم نے ابھی کہا کہ وہ کسی اور کی ہو چکی ہے پھر تم کس امید سے یہ کہہ رہے ہو عارش؟؟ ماہا نے بے یقینی سے پوچھا۔ '' میں تمہیں کسی بات کا جواب دہ نہیں میں نے جو کہا اس کا جواب دو ورنہ تم جا سکتی ہو''۔ عارش نے سرد لہجے میں کہا۔ '' اچھا تو میری ایک شرط ہے تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی پاکستان میں تمہارے نام کے ساتھ جاؤں گی''۔ ماہا نے اپنا مطالبہ سنایا۔ '' کیوں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہو ماہا''۔ عارش حیرت سے اسے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ '' قبول ہے تو بولو''۔ وہ اسکا سوال نظر انداز کرتی بولی۔ '' ٹھیک ہے''۔ عارش نے اسکے سامنے ہار مان لی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
گیسٹ آنا شروع ہو گئے تھے میرب بھی ڈول بنی سب کی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔میرب کے دائیں بائیں ہمدان اور حورین کھڑے کیک کٹ کرنے کی تیاری میں تھے، بلیک سوٹ میں ملبوس ہمدان ہمیشہ کی طرح ڈیشنگ لگ رہا تھا اور بلیک ساڑھی کے ساتھ نفیس سا ڈائمنڈ سیٹ ساتھ ہی خوبصورت جُوڑے میں بالوں کو قید کئے حورین دونوں کی جوڑی آج تو قیامت ڈھا رہی تھی۔ ابھی کیک کٹ ہونے ہی لگا تھا کہ اچانک ہال کی لائٹ آف ہو گئی۔ '' یہ کیا ہوااشعر دیکھوذرا''۔ حورین نے ساتھ کھڑے اشعر سے کہا۔ ابھی اشعر جانے ہی لگا تھا کہ لائٹس دوبارا آن ہو گئی اور لائٹس آن ہوتے ہی سامنے کا منظر سب کو حیران کر گیا۔ ''عارش۔۔۔'' حورین کے منہ سے بے ساختہ نکلا عارش حورین کے بالکل سامنے ٹیبل کی دوسری طرف کھڑا تھا۔ '' میرے بغیر کیک کٹ کرنے کا ارادہ تھا حور''۔ عارش نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' عارش میرا بچہ''۔ ثانیہ بیگم نے آکر عارش کو گلے سے لگا لیا سب عارش سے ملنے لگے جبکہ حورین کی نظریں عارش کے ساتھ کھڑی لڑکی پر رک گئیں جو مسلسل حورین کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔ حورین کو اسکی نظریں عجیب لگیں۔ ''ہمیشہ کی طرح اٹینشن سیکر ہی رہنا برتھ ڈے ہمدان اور میری بیٹی کا ہے اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کردیا ہونہہ آگ کے گولے''۔ حورین ، ماہا کی نظروں کو نظر انداذ کرتی عارش کی خبر لینے لگی اسمیں بھی وہ عارش کو یہ جتانا نہ بھولی کہ وہ ہمدان کی ہے۔ '' عارش بدلنے والی چیز نہیں ہے تم تو جانتی ہو اچھی طرح''۔ عارش نے آنکھ مارتے حورین سے کہا۔ حورین کو عارش کا انداذ کچھ مشکوک لگا۔ '' ہممم ڈرامے کرنا نہیں چھوڑے تم نے ''۔ حورین نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' بیڈ انکل آپ تو میلی بل ڈے تھلاب کل نے کچ نے انوائٹ کیا؟؟؟ میرب کا پارا ہائے ہو چکا تھا اپنی ماٹی موٹی آنکھیں گھماتی وہ عارش کو ڈانٹ رہی تھی سب اسکی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دئے۔ ''ہئے ڈول آپ تو بالکل اپنی مما پر گئی ہو''۔ عارش نے پیار سے کہا۔ '' چلو پلیز اب کیک کرنے دیں آپ سب لوگ ویٹ کر رہے ہیں ''۔ حورین نے کہا تو سب اپنی پوزیشن سمبھال کر کیک کٹ کروانے لگے۔ کیک کٹ ہو نے کے بعد سب گیسٹ ڈنر کرنے لگے۔ '' کیا؟؟؟ بیوی ہے تمہاری؟؟ تمہارا دماغ خراب ہے ایسے کیسے شادی کر لی ہم کیا تمہیں منہ کرتے؟؟ عارش کی بات پر ثانیہ بیگم بری طرح تپی تھی۔ '' امی اسکا کوئی نہیں ہے دنیا میں واپسی آنا تھا اور سب اتنا اچانک ہوا کہ بتا ہی نہیں سکا''۔ عارش نے صفائی پیش کی۔ '' ہے تو پیاری۔۔ لیکن تمہیں کم از کم ہمیں بتانا چاہئے تھا۔۔۔ خیر بھابھی آپ دل چھوٹا نا کریں ہم یہاں دھوم دھام سے دوبارہ ا سکی شادی کریں گے''۔ شائستہ بیگم نے خوشی سے کہا تو ثانیہ بیگم بھی خوش ہو گئیں۔ ''ماہا امی کے ساتھ ہی بیٹھو میں آتا ہوں''۔ عارش ماہا کو امی کے ساتھ بٹھاتا حورین کی طرف چل دیا جو ہمدان کے ساتھ کچھ فاصلے پر کھڑی گیسٹز کو الوداع کہہ رہی تھی۔ '' مجھے انداذہ نہیں تھا کوئی ساڑھی میں اتنا بھی حسین لگ سکتا ہے''۔ عارش نے حورین کے سامنے کھڑے ہوتے کہا۔ '' مجھے بھی انداذہ نہیں تھا کہ کوئی اتنا بھی جھوٹا ہو سکتا ہے''۔ حورین کو ہمدان کے سامنے عارش کی تعریف بالکل پسند نہ آئی تو اس نے بات بدلی۔ '' کیا مطلب؟؟ عارش نے نا سمجھی سے کہا۔ '' مطلب یہ کہ اتنے چُھپے رستم ہو یہ لڑکی کون ہے ؟؟ خبر ہی نہیں ہونے دی کسی کو''۔ حورین نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ماہا کی نظرین مسلسل عارش اور حورین پر ٹکی تھیں۔ '' بیوی ہے میری ماہا''۔ عارش نے کہتے ہی حورین کے چہرے پہ کچھ کھوجنا چاہا۔ '' کیا؟؟؟ حورین کی نظریں بے اختیار ہی ماہا کی طرف گھومیں جو ابھی تک اسے ہی دیکھ رہی تھی حورین کو اپنی طرف دیکھتا پا کر ماہا نے اچانک گھبرا کر نظریں چرائی۔ '' واؤ۔۔ فائینلی آپ کو بھی کوئی آپ جیسی مل ہی گئی''۔ حورین نے ہنستے ہوئے کہا اسے واقعی خوشی ہوئی تھی۔ '' میرے جیسی تو خیر مجھے تب تک نہیں مل سکتی جب تک وہ خود میری نہ ہونا چاہے''۔ عارش نے معنی خیز نظروں سے حورین کو دیکھتے کہا تو حورین کی ہنسی کو ایک دم بریک لگی۔ ہمدان نے حورین کی یہ حرکت بہت غور سے نوٹ کی۔ '' ہمدان میرب کو سلانے کا ٹائم ہو گیا ہے جلدی سے گیسٹس کو بائے بائے کریں نا پلیز''۔ حورین ہمدان کا ہاتھ تھامتے سر اسکے کندھے سے ٹکاتی کسی معصوم بچی کی طرح بولی ہمدان کو اس پہ جی بھر کر پیار آیا۔ ''اوکے ڈئیر وائیفی''۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جبکہ عارش کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ عارش کی بات کا جواب حورین نے اس ادا سے دیا تھا کہ عارش کا روم روم جل اٹھا تھا۔ عارش حورین کا یہ انداذ دیکھ واپس ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔
٭٭٭٭٭٭
گھر واپس لوٹ کر بھی عارش کو ایک پل چین نہ آیا تھا حورین کو حاصل کرنے کی خواہش جانے کیوں اچانک سے ذور پکڑ گئی تھی اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ حورین کسی اور کے ساتھ اتنی خوش کیسے ہے؟؟ یا یہ شیطان تھا جو میاں بیوی کو خوش دیکھ ان میں کسی طرح سے جھگڑے کروانا چاہتا تھا ، شیطان کی تو سب سے بڑی خواہش ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ محبت کرنے والے میا ں بیوی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کروا کر جدائی کروائے۔ ماہا الگ حورین سے حسد کا شکار ہو رہی تھی کہ اسکے شوہر کی توجہ کا مرکز حورین ہی رہی اور حورین ماہا کی توقع سے ذیادہ خوبصورت تھی اسلئے بھی ماہا عارش کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ادھر ہمدان کو بھی عارش کے روّیے نے پریشان کردیا تھا۔ '' حور۔۔۔۔ '' ہمدان نے پیار سے حور کو پکارا جو ڈریسنگ ٹیبل سے چیزیں سمیٹ کر ڈراز میں رکھ رہی تھی۔ '' جی۔۔'' حورین نے کام میں مگن رہتے ہوئے جواب دیا لیکن ہمدان کے حور کہنے پہ جو مسکان اسکے چہرے پہ بکھری تھی اس سے ہمدان بھی مسکراتے ہوئے محذوز ہو رہا تھا۔ '' عارش کا رویہ کچھ عجیب نہیں تھا آج؟؟ ہمدان کے پوچھنے پہ حورین نے پلٹ کر ہمدان کو دیکھا اب وہ اسکے ساتھ آ کر بیٹھ گئی تھی۔ '' عجیب کیسے؟؟ حورین نے انجان بنتے کہا۔ '' پتہ نہیں۔۔۔ کچھ عجیب ہی باتیں کر رہا تھا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگا''۔ ہمدان نے اپنے دل کی بات کی۔ '' ہمدان۔۔ آپکو مجھ پہ بھروسہ ہے نہ؟؟ حورین ہمدان کا ہاتھ تھامے پر امید لہجے میں پوچھ رہی تھی عارش کے رویے نے حورین کو بھی ڈرا دیا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ آخر کیا کرنا چاہتا ہے لیکن اتنا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ اسکے ارادے ٹھیک نہیں۔ '' یہ کیسا سوال ہوا بھلا۔ خود سے ذیادہ بھروسہ ہے تم پہ میری حور''۔ ہمدان نے پیارسے اسکا ہاتھ سہلاتے کہا۔ ''میں کبھی آپکا بھروسہ نہیں توڑوں گی لیکن اگر آپکو کبھی ایسی کوئی غلط فہمی ہو تو پلیز مجھ سے ایک بار ضرور پوچھنا کیونکہ شیطان وسوسے ڈال کر گھر تباہ کرنے میں دیر نہیں کرتا اور میں تو آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی''۔ حورین کی آنکھیں نم ہوئی تھیں آواز بھیگ گئی تھی وہ نیچے دیکھے کہے جا رہی تھی۔ '' ارے یہ کیا تم رو رہی ہو پلیز ایسے مت رویا کرو تمہارے آنسو میرے دل پہ گرتے ہیں حور''۔ وہ حورین کو روتا دیکھ تڑپ اٹھا تھا۔ '' سوری۔۔۔ دل بھر آیا پتہ نہیں کیوں۔ چلیں اب جلدی سے اپنے ہاتھ کی کافی پلائیں ورنہ میں پھر سے رو دوں گی''۔ وہ اسے حکم جھاڑتی نم آنکھوں سے مسکراتے کہہ رہی تھی۔ '' جو حکم میری حور کا''۔ ہمدان نے سر جھکاتے کہا تو حورین ہنسنے لگی۔
عارش اور ماہا کا ولیمہ دھوم دھام سے کردیا گیا تھا۔ ثانیہ بیگم، شائستہ بیگم ضیافت علی،غضنفر صاحب سمیت سب ہی نے ماہا کو کھلے دل سے قبول کر لیا تھا۔ سب ہی اسکا بہت خیا ل رکھتے کہ اسکا آگے پیچھے کوئی نہ تھا بچپن میں ہی اسکی فیملی کار ایکسیڈینٹ میں چل بسی تھی جسکے بعد اسکی نانی نے اسے پالا تھا لیکن تین سال پہلے نانی بھی اسے دنیا میں اکیلا چھوڑ گئی تھیں، یہ سب ڈیٹیل شان بہت بار عارش کو بتا چکا تھا یہی وجہ تھی کہ عارش ماہا کو اس روز انکار نہ کر سکا کہ حورین کا دل توڑ کر وہ پہلے ہی عزاب میں تھا اگر ماہا کا دل بھی توڑ دیتا تو اللہ کو کیا منہ دکھاتا۔ '' کب سے تمہیں کہہ رہی ہوں میری حورین سے بات کروا دو میرا موبائل خراب کیا ہوا نہ کسی کو فرصت ہے کہ اسے سیٹ کرو ادے نہ ہی نیا فون دلانے کے لئے وقت''۔ ثانیہ بیگم غصے میں اشعر کی کلاس لے رہی تھیں۔ '' اوہ سوری بھول گیا تھا۔۔۔ میرب کے لئے لان میں جھولا سیٹ کر رہا تھا نا''۔ اشعر نے ماں کی ڈانٹ سے بچنے کے لئے میرب کا سہارا لیا۔ '' اچھا ہو گیا سیٹ؟؟ خیال سے لگوانا کہیں میری ڈول گر نہ جائے''۔ ثانیہ بیگم نے خوشی سے پوچھتے ہوئے ساتھ ہی تاکید کی۔ '' جی سیٹ ہوگیا ہے اچھا یہ لیں بات کریں حورین آپی سے''۔ اشعر نے جواب دیتے ہوئے مابائل ماں کی طرف بڑہایا۔ ''بھابھی حوین کی ساری فیورٹ ڈشز تیار ہیں بس اب آپ اسکے لئے لبِ شیریں بنا آئیں جا کے اس نے خاص فرمائش کی ہے''۔ شائستہ بیگم نے کچن سے نکلتے ہی کہا۔ '' ہاں بس میں جلدی سے جاتی ہوں جب سے شادی ہوئی ہے میری بچی پہلی بار رکنے آرہی ہے اب تو چار پانچ دن روک لیں گے بس اسے''۔ ثانیہ بیگم اپنے منصوبے بنانے لگیں۔ '' جی جی بھابھی کیوں نہیں میں نے اسکا روم بھی سیٹ کردیا ہے''۔ شائستہ بیگم بھی پر جوش تھیں۔ '' مما کوئی گیسٹ آرہا ہے کیا؟؟ ماہا سب کی تیاریاں دیکھ کر پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔ '' ارے نہیں گیسٹ نہیں حورین آرہی ہے، جب سے شادی ہوئی ہے ایک بار بھی رکنے نہیں آئی آج پہلی بار آرہی ہے تو بس اسی کی تیاریاں چل رہی ہیں''۔ ثانیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے تفصیل بتائی۔ '' اچھا۔۔۔'' ماہا کو حورین کی آمد کا سن کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی۔ '' ضرور عارش کی وجہ سے رکنے آرہی ہے ورنہ پہلے کبھی کیوں نہیں آئی''۔ ماہا کڑہتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ '' ارے لو آگئی میری پرینسز''۔ غضنفر صاحب اور ضیافت علی آج گھر پہ ہی تھے حورین کو ہال میں داخل ہوتا دیکھ خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے میرب تو بھاگ کے اپنی نانو کی گودی میں جا بیٹھی۔ ''کیسی ہے میری پرینسز؟؟ غضنفر صاحب نے اسے گلے سے لگاتے پوچھا۔ '' ہمیشہ کی طرح پیاری''۔ حورین نے اپنے انداز میں چہک کر کہا۔ سب سے ملنے کے بعد باتوں کا دور شروع ہوا۔ ماہا کو بھی بے دلی سے مسکرا کر ملنا پڑا حورین نے صاف محسوس کیا تھا کہ حورین کی موجودگی میں ماہا انسیکیور فیل کرتی ہے یہ آج کی بات نہ تھی، جب بھی کہیں حورین موجود ہوتی ماہا کی عجیب نظریں حورین کے ہی تعاقب میں رہتی۔ '' ہمدان کیوں نہیں آیا ساتھ؟ شائستہ بیگم نے پوچھا۔ '' ہمدان مینٹنگ کے سلسلے میں آؤٹ آف کنٹری گئے ہیں جبھی یہاں آنے کی پرمیشن ملی ہے ورنہ آپ کو تو پتہ ہی ہے میرب کے بغیر نیند نہیں آتی انہیں مجھے بھی اسی لئے نہیں آنے دیتے''۔ حورین نے جواب دیا۔ '' میرب کے بغیر یا میرب کی مما کے بغیر''۔ اشعر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ '' ہممم لگتا ہے عارش کی کمپنی میں رہ رہے ہو آج کل اسی لئے چھچھورا پن پھوٹ پھوٹ کے نکل رہا ہے''۔ حورین نے اشعر کو گھوری مارتے کہا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی ظاہر ہے سب ہی جانتے تھے ہمدان کا دل حورین کے بغیر نہیں لگتا تھا اور حورین میڈم صاف بہانا بنا رہی تھی حورین کا چہرہ سب کوہنستا دیکھ شرم سے سرخ ہوگیا تھا ۔ ''ہاہاہا۔۔۔ ہمدان بھائی کو نیند نہیں آتی آپی کے بغیر'' اشعر نے قہقہہ لگاتے کہا۔ '' ویری فنی۔۔۔۔ یہ عارش کہاں ہے ویسے نظر نہیں آ رہا''۔ حورین کے منہ سے عارش کا نام سن کر ماہا کا دل ایسے دھڑکا جیسے حورین عارش کو اس سے پل میں چھین لے گی۔ '' عارش کو دیکھ کے آپ نے کیا کرنا ہے آپ اس سے ملنے آئی ہیں یا گھر والوں سے؟؟ ماہا کی ذبان سے بے ساختہ نکلا انداز تنزیہ تھا۔ ماہا کی بات پر یک دم ہال میں سناٹا چھا گیا سب حیرت سے ماہا کو دیکھنے لگے حورین کو الگ حیرت کا جھٹکا لگا اگلے ہی پل استہزائیہ مسکراہٹ حورین کے لبوں پر پھیل گئی جو ماہا کو کافی کچھ جتا گئی تھی۔ '' ماہا یہ کس انداذ میں بات کررہی ہو تم حورین سے؟؟ ثانیہ بیگم کا لہجہ سخت تھا۔ '' رہنے دیں چاچی۔۔۔۔ عارش کی بیوی ہے بات بھی اسی انداذ سے کرے گی مجھے برا نہیں لگا''۔ حورین نے مسکراتے ہوئے کہا نظریں ماہا پر تھیں جو کہ اپنی بات پر شرمندہ بیٹھی تھی حیرت تو اسے حورین کے پر سکون انداذ پہ ہو رہی تھی۔ جبکہ ہال میں داخل ہوتا عارش ماہا اور حورین کی گفتگو سن کر وہیں رک گیا تھا۔ اسے ماہا سے اس حرکت کی امید بالکل نہ تھی۔ '' ''السلام و علیکم'' عارش نے ہال میں آتے ہی سب کو سلام کیا۔ '' ارے واہ آج تو ہماری قسمت بہت اچھی ہے بڑے بڑے لوگ آئے ہوئے ہیں''۔ عارش نے آتے ہی حورین کو چھیڑتے کہا۔ '' مما یہ وہی بیڈ انتل ہیں نا جنو نے میلی بلڈے کھلاب کی تھی آئی دونت لائک دچ انتل''۔ میرب اپنی موٹی آنکھیں گھماتی ماں سے پوچھ رہی تھی۔ میرب کی بات پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔'' جی ڈول یہ وہی بیڈ انکل ہیں اینڈ آئی ڈونٹ لائیک ہم ٹو۔۔۔۔۔ بالکہ آئی ہیٹ ہم''۔ حورین بظاہر مسکراتے ہوئے میرب کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی لیکن اصل میں سنا عارش اور ماہا کو رہی تھی۔ حورین کی بات پر سب پھر سے ہنسے تھے جبکہ عارش بری طرح تپا تھا اسنے ماہا کو غصے سے گھورا۔ '' میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر باتیں کریں گے۔ ماہا میرا ڈریس نکال دو چل کر''۔ عارش ماہا کو بلاتا اوپر کی طرف چل دیا ماہا بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔ '' کیا سمجھتی ہو تم خود کو ہاں؟؟ تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی حورین سے ایسے بات کرنے کی؟؟؟ ماہا کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ اسے کندھوں سے پکڑے دھاڑا تھا۔ '' وہ۔۔۔ آئی ایم سوری عا۔۔'' ماہا کی بات ادھوری تھی کہ عارش پھر سے دھاڑا۔ '' شٹ اپ۔۔۔۔ کیا کہا تھا تم نے تمہاری محبت مجھے حورین کو بھولنے پر مجبور کردے گی؟؟؟ تمہاری محبت مجھے صرف حورین کی نظروں میں مزید گرا سکتی ہے لیکن میرے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی سمجھی تم؟؟ عارش آپے سے باہر ہوا تھا وہ ماہا کو بیڈ پہ دھکا دیتے اپنا سر پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ '' کیا سوچے گی وہ میرے بارے میں کہ میں نے اسکی محبت کی جو تذلیل کی تھی اسکی داستانیں ہر ایرے غیرے کو سنا رکھی ہیں؟؟ میں کیا سمجھا تھا تمہیں اور تم کیا ہو ماہا؟؟ عارش نے بے بسی سے ماہا کو دیکھا۔ ''سوری عارش پلیز آئیندہ ایسا کچھ نہیں کروں گی جس سے تمہارا دل دکھے''۔ ماہا کے چہرے پہ عارش کو کھونے کا خوف صاف نظر آرہا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ '' میرا دل نہیں حورین کا دل نہ دکھے تمہاری وجہ سے کبھی بھی سمجھی؟؟ عارش نے انگلی کا اشارہ اسکی طرف کرتے کہا۔ '' سمجھ گئی''۔ ماہا آنسو صاف کرتی بولی۔ '' حلیہ ٹھیک کرو اپنا اور نیچے چلو''۔ وہ اسے حکم جھاڑتا چینج کرنے چل دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭
آج حورین کو یہاں تین دن ہو گئے تھے، ہمدان کو ابھی واپس آنے میں دو دن تھے۔ دن میں دس بار تو ہمدان حورین اور میرب کو دیکھنے کے لئے کال کرتا کہ اسکی جان جو دونوں میں اٹکی تھی۔ میرب اپنی نانو کے ساتھ سو گئی تھی تو حورین چہل قدمی کرنے لان میں آگئی۔ لان میں لگے پھول حورین کو بہت پسند تھے شادی سے پہلے اسکا ذیادہ وقت انہی پھولوں کے ساتھ گزرتا انکا خیال رکھتے، ان سے باتیں کرتے، حورین پھولوں کی خوشبو محسوس کرتی ہمدان کی سوچوں میں گم تھی کہ جانے کب عارش اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔ عارش کو سامنے کھڑا پا کر حورین گھبرا کر تھوڑا پیچھے ہوئی۔ '' تم یہاں کیا کر رہے ہو اس وقت؟؟ حورین نے عارش سے پوچھا۔ '' جو تم کر رہی ہووہی کر رہا ہوں''۔ عارش نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ بالکونی میں کھڑی ماہا دونوں کو ساتھ کھڑا دیکھ کسمسا کر رہ گئی اور لان کی طرف بھاگی کہ چھپ کر انکی باتیں سن سکے۔ '' میں تو ہمدان کو یاد کر رہی ہوں ''۔ حورین نے تنزیہ کہا۔ '' ہمدان کا نام ہر بات میں لینا ضروی ہے کیا''۔ عارش بری طرح تپا تھا۔ '' ہاں ضروری ہے جیسے سانس لینا ضروری ہوتا ہے ویسے ہی اسکا نام لینا بھی ضروری ہے عشق کرتی ہوں ان سے سچا عشق''۔ حورین اسکی آنکھوں میں جھانکتی اعتماد سے کہہ رہی تھی۔ '' جھوٹ عشق تو تم مجھ سے کرتی تھی ''۔ عارش نے غصے سے کہا۔ '' ہاہاہا۔۔۔ تم نے خود ہی اپنی بات کا جواب دے دیا'' کرتی تھی''۔۔۔۔'' حورین اپنے آخری جملہ پر ذور دیتی تنزیہ ہنسی۔ '' میں جانتا ہوں تم صرف مجھے دکھانے کے لئے یہ سب ڈھونگ کر تی ہو حقیقت میں تم ہمدان سے محبت نہیں کرتی حور''۔ وہ جیسے خود کو تسلی دینا چاہتا تھا۔''پہلی بات تو یہ کہ میرا نام حورین ہے تو دوبارہ حور نا سنوں دوسری بات یہ کہ عشق ہوا تھا کسی زمانے میں لیکن پھر تم ہی نے احساس دلایا کہ تم قابل نہیں تھے اسکے، پھر نفرت ہوگئی تم سے لیکن اب۔۔۔۔ اب تو وہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہمدان کی حور کو انکی محبت کے سوا کچھ یاد ہی نہیں''۔ حورین نے جتاتے ہوئے کہا۔ ''تم سمجھ نہیں رہی تم تم چھوڑ دو ہمدان کو ہم شادی کرلیں گے تم تم طلاق۔۔۔'' عارش دیوانوں کی طرح کہتے حورین کا ہاتھ تھامنے لگا۔ '' تڑاخ۔۔۔۔۔'' ذوردار تھپڑ عارش کے منہ پے پڑا تھا۔'' کیا بکواس کی تم نے؟؟ اتنے گر گئے ہو تم؟؟ تم نے سوچی بھی کیسے اتنی گھٹیا بات''۔ حورین اسے تھپڑ رسید کرتی غصے سے دھاڑی تھی۔'' ماہا کو دیکھا ہے تم نے اسکی نظریں دیکھی ہیں ہاں؟؟ وہ چلائی تھی۔ '' وہ مجھے ایسے دیکھتی ہے جیسے میں نے اس سے کچھ چھین لیا ہو، مجھ سے اتنی ان سیکیور کیوں ہے پتا ہے؟؟ کوئی بھی عورت یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسکے شوہر کے دل میں کسی اور کی محبت ہو کتنے دل توڑو گے تم کتنے؟؟ تمہیں صرف تم ہی نظر آتے ہو دنیا میں دوسروں کی فیلنگز انکی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتی تمہارے لئے؟؟ وہ اس سے پوچھ رہی تھی اور عارش ابھی تک حورین کے ری ایکشن پہ شاکڈ کھڑا تھا۔ '' حورین میں۔۔۔ '' عارش نے کچھ کہنے کو لب کھولے۔ '' تم کوئی محبت نہیں کرتے مجھ سے تم نے بس ضد لگا لی ہے کہ مجھے خوش نہیں رہنے دو گے، اگر مجھ سے محبت ہوتی تو یوں میری رسوائی کے منصوبے نہ بناتے میری عزت کا خیال رکھتے اور ماہا سے شادی کی ہامی تم کسی صورت نہ بھرتے۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے عارش سراب کے پیچھے بھاگنا بند کرو اس سے پہلے کے ماہا کی محبت کو بھی کھو دو کیونکہ ہمدان سے مجھے صرف میری موت ہی مجھے دور کر سکتی ہے''۔ حورین اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہی تھی وہ دل سے چاہتی تھی ماہا کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو اور عارش بھی اپنی زندگی میں خوش رہے۔ عارش بے یقینی سے حورین کو دیکھ ریا تھا۔ ماہا بھی حورین کی باتیں سن کر اپنے رویے پر شرمندہ کھڑی تھی۔ تبھی حورین کا موبائل بجا کوئی انجان نمبر تھا جسے کچھ سوچتے ہوئے حورین نے اٹینڈ کرلیا۔ '' ہیلو'' حورین نے کال اٹینڈ کرتے ہی کہا۔ '' ہیلو جی مسز ہمدان؟؟ دوسری طرف کسی کی گھبرائی ہوئی آواز تھی۔ '' جی آپ کون؟؟ حورین نے پوچھا۔ ''ہمدان سر کا کار ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے انکی کنڈیشن بہت سیریس ہے آپ پلیز جلدی سے اس ایڈریس پہ پہنچیں''۔ کہتے ہی کال منقطع کردی گئی تھی۔ '' ک۔۔کیا۔۔ ہمدان''۔ حورین ایک پل تو شاکڈ رہ گئی۔ اگلے ہی پل اسکے موبائل پہ ایڈریس موصول ہوا تو وہ ہوش میں آئی۔ '' ڈرائیور گاڑی نکالو جلدی''۔ وہ جلدی میں ڈرائیور کو آواز لگاتی گاڑی کی طرف بھاگی چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ '' کیاہوا حو'' عارش نے پوچھنا چاہا۔ '' تم۔۔۔ اپنی منحوسیت کا سایہ مجھ سے اور ہمدان سے دور رکھو اور خبردار میرا نام مت لینا دوبارہ ماہا کو سوار کرو خود پر اسے اسکے حق دو جاؤ یہاں سے''۔ وہ انگلی اسکی طرف کئے روتے ہوئے غصے سے کہتی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ عارش وہیں شرمسار کھڑا تھا۔ ''یہ کیا کیا میں نے میں کیسے اتنا گھٹیا ہو گیا کیسے سوچ لیا میں نے یہ سب حور شادی شدہ ہے جانتے ہوئے بھی اسکی زندگی برباد کرنے کی کوشش کی''۔ وہ خود کو کوس رہا تھا کہ ماہا نے آکر اسکا ہاتھ تھام لیا جس پہ عارش نے گرفت اور مضبوط کردی۔ ''آئی ایم سوری ماہا۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ ایک نئی شروعات کے لئے تیار ہو؟؟ عارش نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔ '' کیوں نہیں اگر حورین ہم دونوں کو معاف کردے تو ہم بھی پر سکون شروعات کر سکتے ہیں۔ میں نے حورین کو بہت غلط سمجھا اور وہ وہ تو بہت اچھی ہے دل کی اتنی صاف ''۔ ماہا شرمندگی سے آنسو بہا رہی تھی۔ عارش نے اسے سینے سے لگا لیا تو ماہا نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
٭٭٭٭٭٭
''جلدی چلیں کریم بابا'' حورین فکرمندی سے کہہ رہی تھی آواز بھیگی ہوئی تھی وہ مسلسل ہمدان کا نمبر ڈائل کر رہی تھی جو پاورڈ آف آ رہا تھا۔ حورین کی سانس رکنے لگی تھی۔ '' یا اللہ میرے ہمدان کی حفاظت کرنا''۔وہ دل میں دعائیں کرتی ڈرائیور کو جلدی جلدی کی تلقین بھی کر رہی تھی۔ '' پہنچ گئے بیٹا بس''۔ ڈرائیور نے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ '' کریم بابا یہ کہاں لے آئے ہیں آپ یہ ہاسپٹل تھوڑی ہے''۔ حورین نے فکرمندی سے کہا۔اتنے میں کسی نے کھڑکی پہ ناک کیا۔ '' میم جلدی چلیں سر کی کنڈیشن سیریس ہے بہت''۔ حورین نے اس شخص کی بات سنتے ہی گاڑی کا گیٹ کھولا اور اس شخص کے ساتھ چل دی۔ آنسو بہے جا رہے تھے وہ شخص بھاگتا ہوا اندر جا رہا تھا حورین بھی دیوانہ وار اسکے پیچھے بھاگتی جا رہی تھی دنیا سے بیگانی وہ جلد سے جلد ہمدان کے پاس پہنچنا چاہتی تھی۔ ایک روم کے باہر پہنچ کر وہ شخص رک گیا اور حورین سے کہا کہ سر اندر ہیں آپ اندر چلی جائیں۔ جیسے ہی حورین اندر داخل ہوئی تو گھبرا گئی روم کی لائٹس آف تھیں۔ حورین کو اچانک عجیب خوف کے احساس نے آن گھیرا، اسے لگا کچھ غلط ہونے والا ہے۔ '' ہمددان۔۔'' حورین نے کامپتی آواز سے پکارا۔ '' یس مائی ڈئیر وائیفی''۔ ہمدان کی آواز کے ساتھ ہی روم کی لائٹس آن ہوئی تھی۔ روم میں ہر جگہ پھولوں سے سجاوٹ کی ہوئی تھی اور جہاں حورین کھڑی تھی اسکے قدموں سے لے کر ہمدان تک جانے کے لئے پھولوں سے رستہ بنایا گیا تھا۔ '' ہیپی ویڈنگ اینیورسری حور''۔ ہمدان نے پیار سے کہہ کر بانہیں کھول لی حور پھولوں سے بنے راستے پہ بھاگتی ہوئی ہمدان کے گلے جا لگی۔ '' جان نکال لی تھی میری ایسا مزاق کون کرتا ہے''۔ حورین نے ہچکیوں سے روتے ہوئے ہمدان کے سینے پہ مکہ مارا۔ '' آہ۔۔۔ ظالم حور ''۔ ہمدان نے ایکٹینگ کرتے ہوئے سینے پہ ہاتھ رکھا جیسے بہت ذور سے مکا لگا ہو۔ '' یہاں پہنچنے سے پہلے اگر میں مر جاتی تو''۔ حورین نے غصے میں بھیگی آنکھوں سے گھورتے کہا۔ '' ششش کیسے کہہ لیتی ہو تم اللہ نا کرے تمہیں کچھ ہو یار''۔ ہمدان کے دل کو کچھ ہوا تھا جبھی حورین کے ہونٹون پہ انگلی رکھ کے اسے خاموش کروایا۔ '' میری کیا حالت ہو رہی تھی پتہ ہے''۔ حورین کو واقعی ہمدان کی اس حرکت پر بہت غصہ آرہا تھا۔ '' اچھا سوری نا پرامس پھر کبھی ایسا نہیں ہوگا میں تو بس سرپرائز دینا چاہتا تھا اپنی حور کو''۔ ہمدان نے شرارتی انداز میں کہتے ہوئے حورین کے آنسو صاف کئے۔ ''اتنی محبت کرتی ہو کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگی چلی آئی ''۔ ہمدان نے اسکے گال پہ آئی لٹ کو چھیڑتے ہوئے محبت سے پوچھا ۔ '' زندگی ہیں آپ میری میرا سب کچھ کیسے نا آتی''۔ حورین پھر سے روہانسی ہو گئی تھی۔ '' میری جان اب رونا نہیں ہے بس اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اسنے ہمیں بے شمار خوشیاں جینے کا موقع دیا''۔ ہمدان نے اسے گلے لگاتے کہا۔ '' ہاں اور اللہ کا شکرکریں کہ میں نے آتے ہی آپکے منہ پے مکا رسید نہیں کیا''۔ حورین نے ہنستے ہوئے کہا تو ہمدان بھی ہنسنے لگا۔ '' بہت خطرناک لڑکی ہو بھئی تمہارا تھپڑ آج تک یاد ہے''۔ ہمدان نے ہنستے ہوئے حورین کو چھیڑا۔ '' سوری بھول جائیں نا وہ تھپڑ''۔ حورین شرمندہ ہوئی۔ '' اچھا ایک شرط پہ بھولوں گا''۔ ہمدان نے کچھ سوچتے ہوئے شرارت سے کہا۔ '' کس شرط پہ؟؟ حورین نےسر اٹھا کے ہمدان کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔ ''آج تم مجھے اللہ کا شکر اد ا کرنے کا موقعہ دو کہ انہوں نے ہمیں کیوٹ سے بیٹے سے نوازا''۔ ہمدان حورین کو دیکھتا شوخ لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ''ہمدان آپ نا۔۔۔'' ہمدان کی بات پر حورین نے جھیمپ کر ہمدان کے سینے میں منہ چھپا لیا۔ ہر چیز خوبصورت تھی صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ،سچی محبت اور یقین کی بدولت۔
ختم شد