ہمدان کے دماغ میں ٹیرس کا جو منظر گھوم رہا تھا وہ بہت خطرناک تھا۔ '' یا اللہ خیر ہو''۔ ہمدان ٹیرس کی طرف بھاگا جہاں فبیہہ ایک بار تو حورین کو دھکا دینے میں ناکام ہو چکی تھی اور اب وہ دوسری بار اپنی پوری قوت کے ساتھ حورین کو دھکا دینے آگے بڑھی تھی جیسے ہی فبیہہ نے حورین کو دھکا دینا چاہا ہمدان نے برق رفتاری سے آگے بڑھ کر حورین کو اپنی طرف کھینچا اور نتیجے میں فبیہہ جو پوری جان لگا کر حورین سے جان چھڑانے کے خواب سجائے اسے دھکا دے رہی تھی نہ سمبھلتے ہوئے خود ٹیرس سے نیچے جا گری۔ حورین خوف ذدہ سی ہمدان کے سینے پہ سر رکھے روئے جا رہی تھی جبکہ ہمدان فبیہہ کی حرکت پہ حیران کھڑا تھا۔ '' ہمدان ف۔۔۔ فبیہہ''۔ اچانک حورین کو ہوش آیا تو وہ بے یقینی کی کیفیت میں ٹیرس کی طرف لپکی۔ '' ہمدان کا دماغ بھی اس وقت جاگا جو حورین کو کھودینے کے خوف سے سن ہو چکا تھا۔ ٹیرس سے دونوں نے نیچے دیکھا تو فبیہہ بے سُدھ سی پڑی تھی خون بہے جا رہا تھا۔ فبیہہ نے جو گڑھا حورین کے لئے کھودا تھا وہ اسی میں خود جا گری تھی۔ ہمدان اور حورین جلدی سے نیچے کی جانب دوڑے، تب تک وہاں سرونٹس بھی جمع ہوچکے تھے حورین جلدی سے ایمبیولینس کو کال کرتی لان تک آئی تھی۔ شاہین بیگم اور سحر کو بھی سرونٹس نے اطلاع پہنچا دی تھی سب حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا۔ شاہین بیگم کبھی اوپر ٹیرس کی جانب دیکھتی کبھی اپنی بیٹی کو جسکی سانسیں ابھی چل رہی تھیں۔ '' کیا بگاڑا تھا میری بیٹی نے تمہارا مجھے پتہ ہے تم نے دھکا دیا ہے میری بیٹی کو ٹیرس سے، جا تو رہے تھے ہم یہاں سے''۔ وہ حورین کو کوستی آگے بڑھی تھیں۔ '' پھپھو بہتر ہے ہوش میں رہ کر بات کریں اور کون کس کو گرا رہا تھا یہ اپنی بیٹی سے پوچھئے گا''۔ شاہین کو حورین کی طرف بڑھتا دیکھ ہمدان حورین کے سامنے آکھڑا ہوا تھا وہ خونخوار نظروں سے دیکھتا انہیں وارن کر رہا تھا شاہین بییگم نے کچھ کہنے کو لب کھولے جبھی ایمبولینس آگئی۔ ''شاہین میں بھی ساتھ چلتی ہوں تمہارے''۔ سحر نے شاہین کو ایمبیولینس میں بیٹھتے دیکھ کر کہا۔ '' اس احسان کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ دعا کریں میری بچی کو کچھ نہ ہو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا'' غصے سے کہتی وہ فبیہہ کو لے کر ہاسپٹل جا چکی تھی۔ '' ہمدان یہ کیا ہو رہا ہے اس گھر میں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا''۔ سحر پریشان سی اپنے بیٹے کو دیکھ کر پوچھ رہی تھی۔ '' مما فبیہہ بالکل پاگل ہو چکی ہے اسنے حور اور میرے اس معصوم بچے کی جان لینے کی کوشش کی ہے جو ابھی اس دنیا میں آیا تک نہیں اگر میں حور کے پاس نہ پہنچتا تو وہ اسے۔۔۔ '' ہمدان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئےاسکی آنکھیں نم تھی حور کو پیار بھری نگاہ سے دیکھتے ہمدان نے مظبوطی سے اسکا ہاتھ تھام لیا جیسے اگر ہاتھ چھوٹ گیا تو مر جائے گا۔ ''مما فبیہہ میرے روم میں آئی تھی اسنے کہا اس سے غلظی ہو گئی ہے اسے سدھارنے آئی ہے ہمدان کو روم میں نا پا کر اسے لگا ہوگا ہمدان روم میں نہیں ہیں جبھی اسنے مجھے ٹیرس سے دھکا دینے کی کوشش کی میں کسی طرح اسکے حسار سے نکل گئی لیکن اس پر تو شاید کوئی جنون سوار تھا اسنے دوبارہ دھکا دینے کی کوشش کی تو ہمدان نے مجھے بچا لیا اور وہ۔۔۔ وہ نیچے گر گئی، مما اسے کچھ نہیں ہوگا نا؟؟ اسنے سحر کو تفصیل بتاتے ہوئے پوچھا۔ حورین کو فبیہہ کے لئے افسوس ہو رہا تھا جو بھی تھا حورین کا دل اتنا سخت نہیں تھا۔ '' کچھ نہیں ہوگا اسے حور اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسنے میری حور کے ساتھ جو کرنے کی کوشش کی ہے اسکا حساب اسے چکانا ہوگا''۔ ہمدان کی آنکھیں آگ برسا رہی تھیں۔ '' یہ لڑکی اتنی گر جائے گی مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا یہ وہی فیب ہے''۔ سحر نے افسردگی سے کہا۔ '' مما آپ ہاسپٹل جائیں پھپھو جتنا بھی کہیں آپ نے وہیں رہنا ہے خیال رہے فیب کہیں غائب نہیں ہونی چاہئے''۔ ہمدان مما سے کہتا حور کو روم میں لے آیا تھا سحر بھی ہاسپٹل نکل گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
''مجھ سے سوال کرنے کی تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی'' وہ اسکی کلائی پہ گرفت مظبوط کرتے دھاڑا تھا آنکھوں میں جیسے خون اترا تھا۔ '' ہمددان''۔ حورین اسکی دھاڑ پر کانپ کر رہ گئی بے یقینی کی کیفیت میں اس سے صرف اتنا ہی کہا گیا۔ '' آئندہ مجھ سے سوال کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا اور خبردار فبیہہ کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالا تو تمہاری یہ خوبصورت زبان کچھ کہنے کے لائق نہیں رہے گی''۔ وہ غصے سے کہتا اسے بیڈ پہ دھکا دیتا روم سے نکل گیا جبکہ حورین ہمدان کا یہ نیا روپ دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی آنسو تھے کہ تواتر سے بہے جا رہے تھے۔ '' حور''۔ عارش اسے ذور سے پکارتا اٹھ بیٹھا تھا۔ چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ ''یہ کیسا خواب تھا حور ٹھیک تو ہے، کہیں ہمدان اسکے ساتھ ۔۔۔ نہیں نہیں حور ٹھیک ہوگی ''۔ وہ خود کو تسلی دیتا موبائل پہ حور کا نمبر ڈائل کر چکا تھا۔ '' حور کیسی ہو''۔ عارش نے کال اٹینڈ ہوتے ہی پوچھا۔ '' حور بالکل ٹھیک ہے عارش اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟؟ دوسری جانب ہمدان کو پا کر عارش کو اور تشویش ہوئی۔ '' کچھ نہیں بس حورین کی یاد آرہی تھی تو سوچا بات کرلوں حورین کہا ہے؟؟ عارش نے جانچتے انداز میں پوچھا۔ '' حور سو۔۔۔۔" '' کس کی کال ہے ہمدان''۔ ہمدان ابھی جواب دینے کو تھا کہ حور کی آواز عارش کے کانوں میں پڑی۔ '' لیں جی جاگ گئی حور لو بات کرو''۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے موبائل حورین کو پکڑایا '' ہیلو ''۔ حور کی آواز سے عارش کے دل کو اندر تک تسکین پہنچی تھی وہ جو کل اسکے عشق کی منتظر تھی آج منکرِ عشق ہو گئی تھی ہاں اسکی آواز سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہمدان کے ساتھ خوش، اسکے عشق میں مطمئن ہے۔ '' کیسی ہو حور''۔ عارش چاہتا تھا وہ آج بھی اسے اسی طرح اپنا حال بتائے جیسے پہلے بتایا کرتی تھی لڑتی جھگڑتی لیکن اسے ہر بات بتاتی اسی حور سے بات کرنے کی تڑپ دل میں جاگ اٹھی تھی۔ '' میں ٹھیک ہوں عارش تم کیسے ہو؟ حورین کی آواز میں آج رونما ہوئے واقعی کی وجہ سے ذرا سی پریشانی شامل تھی۔ '' میں بہت خوش ''۔ عارش نے اپنا درد چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ '' ہمم۔۔۔ پتہ چل رہا ہے جتنے خوش ہو''۔ حورین نے نارمل رہتے ہوئے کہا لیکن عارش کو لگا جیسے حور نے اسکے دل پہ چوٹ کی ہو۔ '' تنز کر رہی ہو؟؟ عارش پوچھے بنا نا رہ سکا۔ '' میں بھلا کیوں کرنے لگی تنز؟؟ خیر سناؤ وہاں کوئی گوری تو نہیں سیٹ کرلی ہاں جسکی خبر گھر میں پہنچانے کے لئے آگ کے گولے کو میری ہیلپ چاہیے''۔ حورین نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا ہمدان کو اسکے اس انداز پہ ہنسی آگئی جبکہ عارش بری طرح چڑا تھا۔ '' کیا فارغ جوک مارا ہے، میرے دل کی صرف ایک ہی دشمنِ جاں ہے اور اسے تم بہت اچھی طرح جانتی ہو''۔ عارش نے شرارتی مسکراہٹ سجائے اسے چھیڑتے کہا۔ '' شٹ اپ عارش فضول ہانکنے کی ضرورت نہیں ہے ذیادہ اچھا''۔ حور کو اسکی بات پر کرنٹ ہی تو لگا تھا۔ ''ہاہاہا۔۔۔ میں نے ایسا کیا کہہ دیا یار اچھا سوری مزاق کر رہا تھا''۔ عارش نے قہقہہ لگاتے اسکے بگڑتے تیور دیکھ کہ بات بنائی۔ '' آپ پلیز دفع ہو جائیں بائے ہونہہ''۔ حورین اسکی کلاس لیتی منہ بسورتی کال کٹ کر چکی تھی۔ '' حور''۔ عارش کا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ '' بیوقوف لڑکی کیا کردیا میرے ساتھ تم نے''۔ وہ موبائل اسکرین کو تکتا کہہ رہا تھا۔ حورین سے بات کر کے اسے بہت سکون ملا تھا مسکراہٹ اسکے چہرے پہ ایلفی کی طرح چپک گئی تھی۔ ناشتے پہ فبیہہ کی طرف سے کی گئی کارروائی سے اشعر اسے آگاہ کر چکا تھا جبھی عارش نے حورین کی فکر میں ایسا خواب دیکھا تھا۔ خود تو وہ ایک بار حور کا دل توڑ چکا تھا لیکن کوئی اور حور کا دل دکھائے یہ اسے کسی صورت قبول نہیں تھا۔ حور سے بات کر کہ اسے اب تسلی ہو گئی تھی کہ ہمدان اسے کبھی دکھی نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
'' پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے''۔ نرس نے آکر بتایا تو شاہین اور سحر کی سانس میں سانس آئی ۔ فبیہہ کی ٹانگ فریکچرہو گئی تھی اور سر پہ چوٹ آئی تھی کچھ خراشیں چہرے اور بازو پر آئی تھیں۔ خون کافی بہہ گیا تھا لیکن اب اسکی حالت خطرے سے باہر تھی۔ سحرساری تفصیل شاہین کو بتا چکی تھی لیکن وہ ماں تھی جب تک اپنی بیٹی کے منہ سے سچ نر سن لیتی اسے یقین کہاں آنا تھا۔ '' کیسی ہے میری بیٹی ''۔ شاہین بیگم نے روتے ہوئے اسکے ماتھے پہ پیار کرتے پوچھا۔ '' اب کی بار فبیہہ نے شرمندگی سے رخ موڑ لیا تھا۔ '' مما میں اس پیار کے قابل نہیں ہوں''۔ فبیہہ نے روتے ہوئے کہا وہ واقعی شرمندہ تھی۔ ''فبیہہ بی بی کون ہے؟؟ شاہین نے بیچھے مڑ کر دیکھا تو لیڈی پولیس آفیسر روم میں داخل ہوتے پوچھ رہی تھی۔ '' ج۔۔جی۔۔ میری بیٹی ہے فبیہہ کیوں پوچھ رہی ہیں اسکا''۔ شاہین کو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔ ''انکے خلاف ایف آئی آر فائل ہوئی ہے''۔ پولیس آفیسر کے جملے پہ جہاں شاہین حیران ہوئی تھی وہیں فبیہہ کی ریڑھ کی ہڈی تک سن ہو گئی تھی۔ سحر خاموش کھڑی سب دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھیں ہمدان اسے ایسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔