ولیمہ کا فنکشن بھی بہت اچھے سے گزر گیا تھا حورین وائیٹ فیری ٹیل فراک میں بہت حسین لگ رہی تھی سر پہ ٹکے وائیٹ دوپٹہ کے ساتھ گردن اور کانوں میں نفیس سا ڈائمینڈ سیٹ بھی حورین کے آگے ماند پڑ رہا تھا۔ فنکشن کے دوران ہی حورین فبیہہ کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ وہ کن نظروں سے ہمدان کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن تسلی اس بات کی تھی کہ ہمدان نے اسے نظر اٹھا کہ دیکھنا تک گوارا نہ کیا تھا وہ تو اپنی حور کے حسن میں کھویا ہوا تھا۔ دن گزتے جا رہے تھے اور حورین کے لئے بڑا انکشاف ہوا تھا کہ فبیہہ ہمدان کے گھر میں ہی رہتی ہے۔ حورین کی مما کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی تبھی غضنفر صاحب نے اسے کال کر کے گھر آنے کا کہا تھا۔ '' ہمدان مما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ جلدی آجائیں پلیز''۔ حورین کی آواز سے فکر صاف جھلک رہی تھی۔ '' حور ڈئیر ابھی تو بہت امپورٹینٹ میٹنگ اسٹارٹ ہونے والی ہے تم ایسا کرو ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ میں واپسی پر پک کرلوں گا ہاں''۔ ہمدان اپنی مجبوری سے آگاہ کرتے اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ '' اٹس او کے لیکن ہمدان میں مما کے پاس ہی رک جاؤں آج پلیز؟؟ حورین کو پتہ تھا وہ اسکے بغیر رہ نہیں سکتا لیکن پھر بھی ہمت کر کہ پوچھ ہی لیا۔ '' ہائے کیوں میری جان لینے پہ تلی ہو سارہ دن آفس رہو اور رات کو بھی تمہیں نہیں دیکھوں گا تو جان نکل جائے گی میری''۔ وہ بے چین ہوا تھا۔ ''ہمدان پھر آپ نے فضول بات کی جائیں اب تو میں پو را ہفتہ نہیں آؤں گی واپس''۔ وہ منہ پھلائے خفگی سے بولی۔ '' ایسے کیسے میں اٹھا کہ لے آؤں گا وہ بھی سب کہ سامنے آخر کو اکلوتی بیوی ہو میری''۔ ہمدان نے اسے چھیڑتے ہوئے دھمکی چڑھائی۔ '' اچھا آج رک جاؤ جسٹ مما کی وجہ سے اجازت دے رہا ہوں ''۔ ہمدان نے جتاتے ہوئے کہا۔ '' لو یو ہمدان''۔ حورین خوشی سے کہہ کر کال کٹ کرتی تیار ہونے لگی۔ ہمدان آفس سے لیٹ گھر آیا تھا چائے پینے کا سوچ کر اسنے کچن کا رخ کرلیا۔ کچن میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر فبیہہ پر پڑی جو پانی پی رہی تھی۔ '' ہائے ہمدان کیسے ہو آج کل تو نظر ہی نہیں آتے گھر میں خیر تو ہے''۔ فبیہہ بڑی خوش نظر آرہی تھی ظاہر ہے آج حورین گھر جو نہیں تھی۔ '' ہئے فیب میں ٹھیک ہوں ''۔ ہمدان نے خود کو نارمل رکھتے مختصراً جواب دیا۔ ''آئی نو مائی ڈئیر میرے ساتھ تم نے ٹھیک ہی ہونا ہے''۔ فبیہہ نے مکروہ مسکراہٹ سجائے اسکے قریب ہوتے کہا۔ '' فیب بکواس بند کرو اپنی اور ذرا دور ہٹو''۔ وہ اسے غصے سے کہتا خود ہی پیچھے کو ہوا۔ چائے کپ میں ڈالنے کے لئے کپ رکھا ہی تھا کہ فبیہہ ذبردستی اسکے سینے سے جا لگی ہمدان کی کمر کچن کے دروازے کی طرف تھی جبکہ فبیہہ کا رخ دروازے کی طرف یہ سب شیطانی فبیہہ نے اتنی جلدی میں کی کہ ہمدان کچھ سمجھ ہی نہ سکا اسنے ذور سے دھکا دیتے فیب کو خود سے دور کیا'' ہاؤ ڈئیر یو''۔ وہ دھاڑا تھا ابھی اسنے کچھ اور کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ سامنے کھڑی حورین کو دیکھ کہ ایک دم اسکا سانس رک گیا جو حیران کھڑی اپنے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی '' اوہ بیوی کو دیکھ کہ مجھے چھوڑ دیا اور پچھلے آدھے گھنٹے سے جو مجھسے چپکے ہوئے تھے وہ کیا تھا''۔ فبیہہ حورین کو دیکھتے ہی اپنی اوقات دکھانے لگی وہ بے شرموں کی طرح آگ لگانے میں مصروف تھی۔ '' تڑاخ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ذوردار تھپڑ کی آواز کچن سمیت پورے ہال میں گونجی تھی۔ ہمدان اسے دیکھ کہ رہ گیا تھا۔
حورین کے ذوردار تھپڑ نے اسکا گال سن کر دیا تھا۔ '' حورین۔۔۔۔ میری بیٹی کو ہاتھ لگانے کی تمہاری جرات کیسے ہوئی''۔ شاہین جو ولی آفندی اور سحر کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئے تھے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ جو اپنے گال پہ ہاتھ رکھے شاکڈ کھڑی تھی اپنی ماں کی آواز سن کر فبیہہ کو اور شہہ ملی وہ مظلومیت کی دیوی بنی کھڑی ہوگئی۔'' دیکھ رہے ہیں بھائی اپنی بہو کی بدتمیزی''۔ شاہین بیگم خونخوار نظروں سے حورین کو گھورتی کہہ رہی تھی۔ '' یہی تھپڑ اگر آپ نے اپنی بیٹی کو لگایا ہوتا تو حورین کو اسے تمیز سکھانے کی ضرورت نہ پڑتی''۔ ہمدان کی آواز دھیمی تھی لیکن لہجہ سخت وہ بھلا کیسے حورین کا ساتھ نہ دیتا اس نے بیوی ہونے کی حیثٰیت سے بالکل ٹھیک کیا تھا ایسے لوگوں کو اگر وقت پر انکی اوقات دکھا دی جائے تو آگے کے لئے شطانی کرنے کے تمام در بند ہو جاتے ہیں اور خاص کر اگر شوہر ساتھ دے تو انکا خوبصورت گھرانہ ایسی سازشوں سے بچ سکتا ہے ایسا ہی حورین اور ہمدان نے کیا تھا۔ '' یہ اپنی بیٹی سے کیوں نہیں پوچھتی آپ؟؟ حورین نے فبیہہ کی طرف دیکھتے کہا۔ '' تمیز سکھائیں اسے پھپھو، اور بابا آج اور ابھی یہ لوگ ہمارے گھر سے جا رہے ہیں اگر یہ نہیں گئے تو میں حورین کو لے کر چلا جاؤں گا ''۔ ہمدان اپنا فیصلہ سناتا کچن سے نکل چکا تھا۔ چائے وہیں شیلف پر رکھی رہ گئی تھی۔ '' کیا کہہ رہے ہو تم ہوش میں تو ہو؟؟؟ چار دن کی آئی لڑکی نے ایسا کیا بھڑکا دیا کہ ہم سے اتنے متنفر ہو رہے ہو''۔ شاہین سے اتنی بے عزتی کہاں برداشت ہونی تھی۔ '' یہ دیکھ لیں پھپھو خود سمجھ آجائے گا''۔ حورین اپنا مابائل شاہین کہ سامنے کرتی کہہ رہی تھی۔ جسکی اسکرین پر کچھ دیر پہلے کی ویڈیو چل رہی تھی جو فبیہہ کے ارادے بھامپ کر حورین نے چھپ کر بنائی تھی اسمیں صاف نظر آرہا تھا کہ حورین کا ہاتھ کس وجہ سے اٹھا تھا۔ ویڈیو دیکھتے ہی شاہین کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔ '' ماما یہ۔۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔ م۔۔ میں نے کچھ نہیں''۔ ''تڑاخ ''۔۔۔۔۔۔ابھی اسکی بات بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ ایک اور تھپڑ اسکے گال پہ پڑ چکا تھا۔'' ماما۔۔۔ '' وہ حیرت سے ماں کو دیکھے گئی۔ '' شٹ اپ۔۔۔ کہاں کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں؟؟ تمہیں شرم نہیں آئی اتنی گری ہوئی حرکت کرتے ہوئے، شرم آرہی ہے تمہیں اپنی اولاد کہتے ہوئے بھی''۔ وہ واقعی اپنی بیٹی کی حرکت پہ بہت شرمندہ تھی۔ '' بھائی مجھے معاف کردیں حورین بچے آپ بھی مجھے معاف کردیں پتہ نہیں میں غصے میں کیا کچھ کہہ گئی''۔ شاہیں نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ '' پھپھو یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں چھوٹوں سے معافی نہیں مانگا کرتے اور بعض اوقات کمی تربیت میں نہیں ہوتی انسان کی نیچر کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے بگڑنے میں''۔ حورین انہیں صوفے پر بٹھاتی کہہ رہی تھی۔ '' ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بیٹا لیکن افسوس میں اپنی ہی اولاد کو سمجھ نہ سکی''۔ وہ افسردہ ہوئیں۔ '' بھائی آپ ہماری ٹکٹس کروادیں ہم کل ہی واپس امریکہ جا رہے ہیں''۔ شاہین بھی اپنا فہصلہ سنا چکی تھیں۔ فبیہہ سب کے بیچ شرمسار سی کھڑی تھی، بدلے کی آگ اس کے دل میں ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
عارش لندن آتو گیا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ حورین کی محبت جو سالوں سے اسکے دل میں گھر کئے بیٹھی تھی اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ سارہ دن مصروف رہنے کے باوجود بھی حورین اسکے حواسوں پربری طرح سوار رہتی اور یہ احساس تو اسے اب ہوا تھا کہ یہاں آنے کے بعد حورین کیلئے اسکی محبت میں مزید شدت آگئی ہے۔ '' کیا کردیا ہے تم نے حور، کیوں کیا میرے ساتھ ایسا معافی مانگ تو رہا تھا غلطی ہو گئی تھی اتنی بڑی سزا ۔۔ اتنی بڑی سزا کیوں دی اپنا نام کسی اور کے ساتھ کیسے منسوب کر سکتی ہو تم حور، تمہیں تو عارش کا ہونا تھا''۔ وہ خود سے باتیں کرتا حور نامہ پھر سے دہرا رہا تھا یہ اسکا روز کا مشغلہ تھا نیند ویسے بھی حور نے ا س سے چھین لی تھی۔ '' حور تم نے میرا جینا حرام کر کے رکھ دیا ہے''۔ عارش اسکی تصویر دیکھتا کہہ رہا تھا۔ وہاں اسکی دوستی ذیشان سے ہو گئی تھی جو اسکا رومیٹ بھی تھا۔ شان ور عارش کا ذیادہ وقت ساتھ ہی گزرتا۔ ماہا جوکہ انکی کلاس فیلو تھی عارش کی خاموش طبیعت اسے کچھ خاص پسند نہ تھی۔ '' یہ کتنا عجیب انسان ہے پتہ نہیں کہاں کھویا رہتا ہے''۔ وہ عفرا سے کہہ رہی تھی۔ '' عجیب کیا ہے اسمیں بھئی؟؟ اچھا بھلا ڈیشنگ بندہ ہے کاش''۔ عفرا جو پہلے دن سے ہی اسکی دیوانی تھی اسے حسرت بھری نگاہ سے تکتے کہہ رہی تھی۔ '' فضول باتیں نہ کیا کرو عفرا''۔ ماہا کو اسکی یہ عادت بالکل پسند نہ تھی۔ '' چلو چل کہ پوچھیں تو یہ ہے ہی ایسا یا اپنا امیج بنانے کے لئے ڈرامے کرتا ہے''۔ ماہا کو عارش کی پرسرار طبیعت کو جاننے کی بےچینی تھی۔ '' ہیلو'' وہ اب عارش کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ '' ہائے'' جواب شان کی طرف سے آیا تھا جس پہ ماہا جی بھر کہ بد مزہ ہوئی تھی جبکہ عارش نے اسکی موجودگی کو ایسے نظر انداز کیا تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو۔ شان سے تو تھوڑی بہت بات چیت ہو جایا کرتی تھی لیکن عارش سے بات کرنے کی اسکی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ '' ہیلو عارش''۔ ماہا نے کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑہایا۔ عارش نے سر اٹھا کہ اسے سرسری سا دیکھا۔ '' ہیلو''۔ کہتا پھر سے کتاب میں جھانکنے لگ گیا۔ ماہا کا دل چاہا اسے ایک جھامپڑ رسید کرے اتنا بھی کیا ایٹیٹیوڈ بھلا۔ '' یہ اتنا رووڈ بیہیو کرنے کی کوئی خاص وجہ''۔ ماہا بری طرح تپی تھی۔ '' مجھ سے مخاطب ہیں آپ؟؟ عارش نے اپنے کام میں مصروف رہتے پوچھا۔ ''جی بالکل آپ ہی کوئی بڑے ایٹیٹیوڈ بوائے بنے بیٹھے ہیں یہاں''۔ ماہا نے چڑ کر کہا۔ '' پہلی بات تو یہ کہ میں آپکو جانتا تک نہیں ، دوسری بات آپکو جاننے مجھے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے، اور تیسری بات آئندہ براہِ مہربانی اس طرح مجھ سے فری ہونے کی کوشش مت کیجئے گا''۔ وہ تحمل سے کہتا جانے لگا۔ '' سمجھتے کیا ہو تم خود کو ہاں''۔ ماہا کو اپنی اس عزت افزائی پہ آگ ہی لگ گئی تھی وہ دانت پیسے کہہ رہی تھی۔ '' وہی جو مجھے خود کو سمجھنا چاہئے''۔ وہ اسکی جانب دیکھے بغیر کہتا وہاں سے جا چکا تھا۔ '' ہاہہہ بلڈی ایروگینٹ ''۔ ماہا بھی تن فن کرتی کیفے ٹیریا کی جانب چل دی تھی۔ '' تو ٹھیک ہے بھئی بندی صرف ہائے ہیلو ہی کرنا چاہ رہی تھی کرلیتا تیرا کیا جاتا تھا''۔ شان اسے کوس رہا تھا۔'' تمہیں اتنا شوق ہے تو تم کرلو ہائے ہیلو''۔ عارش اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتا کہہ رہا تھا۔ ''یار پاگل ہے تو تواتنی خوبصورت لڑکی خود چل کر تیرے پاس آئی تھی، تو نے وہ نہیں سنا کہ آتی ہوئی لکشمی کو ٹھکرایا نہیں کرتے''۔ شان اپنے ہی انداز میں ہنستا ہوا کہہ رہا تھا۔ '' اپنے گھر میں بہن ہو تو ایسی باتین زیب نہیں دیتی''۔ عارش کا لہجہ اس بار تھوڑا سخت تھا جو شان کو شرمندہ کرگیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
عارش بظاہر اپنی اسپیشلائیزیشن میں مصروف تھا عارش کی فیملی اسے بے حد مس کرتی حورین ہمدان کی محبت سے بھرپور زندگی گزار رہی تھی اب تو ننھے مہمان کی آمد کی خبر نے ہمدان اور حورین دونوں کی فیملیز کی زندگی میں نیا رنگ بھر دیا تھا۔ جہاں ہمدان اللہ کا شکرگزار تھا وہیں حورین بھی اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی۔ فبیہہ اور اسکی ماما کو کسی وجہ سے کچھ دن مزید ہمدان کے گھر ہی رکنا پڑ گیا تھا اور آج انہوں نے بالآخر روانہ ہونا تھا۔ حورین ٹیرس پہ کھڑی تھی جب فبیہہ ناک کرتی اسکے روم میں آگئی ۔ '' تم یہاں''۔ حورین کو اسے یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی یہ پہلی بار تھا جب فبیہہ حورین کے کمرے میں آئی تھی۔ ہمدان اسے کمرے میں کہیں دکھائی نہ دیا تھا۔ '' وہ حورین آئی ایم سوری مجھ سے پتہ نہیں یہ سب کیسے ہوگیا''۔ فبیہہ حورین کو دیکھتے سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ '' اٹس اوکے۔۔۔ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا یہ اچھی بات ہے''۔ حورین نے کھلے دل سے اسے معاف کردیا تھا۔ '' ہاں مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے جبھی میں اپنی غلطی سدھارنے آئی ہوں''۔ فبیہہ کے لہجے اور انداز میں حورین کو وہی مکروہ شیطانی ارادے نظر آئے حورین کمرے کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ فبیہہ نے اسے وہیں روک لیا۔ '' اتنی بھی کیا جلدی ہے حورین ذرا مجھے غلطی پوری طرح سدھارنے تو دو''۔ اسکے لیجے میں شیطانیت بھری تھی۔ '' فبیہہ یہ۔۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو چھڑو مجھے''۔ حورین ایک دم خوفزدہ ہو کہ خود کو اسکی گرفت سے چھڑانے لگی۔ '' آج کہ بعد ہمدان صرف میرا ہوگا بائے ڈئیر حورین''۔ وہ اسے چلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ حورین کی آنکھوں میں خوف تھا''حور میں تمہارے بغیر جینے کا ساچ بھی نہیں سکتا'' ہمدان کے الفاظ بے ساختہ اسے یاد آئے ہمدان سے جدائی اسکے ساتھ جڑی ننھی جان کی سانسیں ایک پل میں سب سوچتے حورین کی آنکھیں خوف سے بھیگ گئی تھی'' حور'' ہمدان کی آواز اسکی سماعتوں میں گونجی تھی اور وہ اسے ٹیرس سے دھکا دے چکی تھی۔'' نن۔۔۔نہی۔۔نہیںںںںں ہمدان''۔ واشروم سے فریش ہو کر نکلتا ہمدان حورین کی گھبرائی آواز پہ ٹیرس کی طرف لپکا لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی۔