ہمدان کا اٹھا ہاتھ دیکھ کر حورین کی تو جان ہی نکل گئی تھی۔۔۔۔ آنکھیں میچے ہاتھ چہرے کے آگے کئے وہ خوف سے روتے ہوئے چلا رہی تھی۔ '' نہیں پلیز نہیں۔۔۔۔'' اسکی یہ حالت دیکھ جہاں ہمدان کو راحت کا احساس ہوا تھا وہیں اسکی ہنسی بھی چھوٹ گئی وہ اپنا ہاتھ حورین کے ہاتھ پہ تالی بجانے کے انداز میں مارتا قہقہہ لگاتا ہنسے جا رہا تھا۔ ''ہاہاہا۔۔۔۔۔ حور ڈئیر کیا ہوا''۔ ہمدان کے قہقہے مزید بلند ہوتے جا رہے تھے جبکہ حور مارے خوف کے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گئی۔ ''یہ ایسے کیوں بیہیو کر رہے ہیں یا اللہ کیا ہونے والا ہے میری ساتھ''۔ حورین دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتی ٹسمے بہانے میں مصروف تھی۔ جبکہ اب امان کو اسکی حالت دیکھ کہ شاید اس پہ ترس آہی گیا تھا۔ '' ہر ہاتھ کسی کے گال پہ بجنے کے لئے نہیں اٹھتا مائی ڈئیر وائفی''۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتا ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔ حورین کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ وہ اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا۔ ''یہ خوبصورت ہاتھ نہ اٹھتا تو شاید تمہیں حاصل کرنے کی چاہ بھی میرے دل میں نہ جاگتی''۔ ہمدان نے حورین کی ہتھیلی پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ حورین نا سمجھی کی حالت میں اسے دیکھنے لگی۔ ''ارے میری حور جیسی وائیفی۔۔۔۔ میں ان بے غیرت مردوں میں سے نہیں جو عورت پر ہاتھ اٹھا کر بدلہ لینے کو کارنامہ سمجھتے ہیں، بس ایک چھوٹا سا شکوہ ہے حور آخر میری غلطی کیا تھی؟ بندہ پوچھ ہی لیتا ہے پہلے کہ مسٹر مجھے ہیروئن کی طرح تھپڑ مارنے کا بہت شوق ہے کس وجہ سے ماروں''۔ ہمدان اسکی انگلیوں کو چھیڑتا ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا اسکے اس انداز پہ حور کہ چہرے پہ بھی اب ہنسی بکھری تھی دل چاہا تھا اس لمحے وہ ہمدان پہ جان نچھاور کر دے۔ ''پتہ بھی ہے تمہیں کتنی آوازیں لگائی تھی میں نے، جب تم نے نہیں سنا تو مجبوراً تمہیں روکنے کہ لئے ہاتھ پکڑنا پڑا''۔ حورین اب بھی ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ''لیکن مجھے کیوں روکنا چاہتے تھے آپ؟؟ نظروں میں حیرت اور بے پناہ محبت لئے وہ پوچھ رہی تھی۔ '' ہائے۔۔۔۔ اب اس ادا اور قاتل نظروں کے وار کرتی پوچھو گی تو بندہ یہیں فوت ہوجائے گا''۔ ہمدان نے اسکو مزید قریب کرتے شرارت سے کہا۔ '' کیسی فضول بات کی ہے ہمدان ''۔ حور کے منہ سے بے ساختہ نکلا وہ اسے گھور کر رہ گئی۔ '' اچھا سوری ایسے تو نہ دیکھو اب''۔ ہمدان کان پکڑتے کہہ رہا تھا۔ '' تمہیں یاد ہے اس دن تم کچھ بھول گئی یا تم سے کچھ گر گیا تھا؟؟ ہمدان کے پوچھنے پر حورین دماغ پہ ذور ڈال کہ سوچنے لگی۔ '' نوٹس۔۔۔۔ میرے نوٹس ایگزامز میں دو دن رہتے تھے اور میرے نوٹس''۔ حورین نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا شرمندگی کے مارے اسکی نظریں خود ہی جھک گئی تھیں۔ '' جی ہاں مسز حورین ہمدان آفندی میں آپکو وہی نوٹس دینے آیا تھا جو آپ کوریڈور میں غلطی سے گرا آئی تھیں''۔ ہمدان نے تفصیل بتائی۔ '' افف خدایا آئی ایم سوری ہمدان مجھے سچ میں پتہ نہیں تھا میں ڈر گئی تھی کبھی کسی نے ایسی حرکت نہیں کی تو۔۔۔۔ سوری''۔ حورین شرمندگی سے اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی تھی۔ '' ہئے تم سے کسی نے کہا ہے سوری کرنے کو ہاں؟؟ بیوقوف لڑکی اس دن مجھے تمہارے تھپڑ کی وجہ سے تم سے عشق ہو گیا تھا میرے دل نے ضد لگا لی تھی کہ بس یہی بندی جچے کی ہمدان آفندی کے ساتھ جو اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے''۔ ہمدان اسکی پیشانی کو چومتا فخر سے کہہ رہا تھا۔ '' حورین کا چہرہ شرم سے لال ہوا اور دل ایک دم سے مطمئن۔ '' ہمیشہ ایسے ہی اپنی حفاظت کرنا مسز حورین ہمدان آفندی''۔ اسکے گال کو چھیڑ کر کہتے وہ حورین کو گلے لگا ئے اسے محسوس کر رہا تھا حورین کی آنکھوں سے آللہ کا شکر ادا کرتے آنسو بہہ کر ہمدان کے سینے میں جزب ہو رہے تھے۔ رات کی خوبصورت چمک، چاند اور جھلملاتے تارے دونوں کی محبت کے گواہ بن گئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭
عارش اپنی پیکنگ میں مصروف تھا ثانیہ بیگم رو رو کے اپنا برا حال کر چکی تھیں۔ '' ابھی تو حورین کو رخصت کیا ہے اب تم بھی جا رہے ہو میں کیسے رہوں گی تمہارے بغیر''۔ ثانیہ بیگم کے آنسو عارش کے دل پہ گر رہے تھے آسان تو اسکے لئے بھی نہ تھا فیملی کے بغیر کبھی شہر سے باہر تک تو گیا نہیں تھا پھر یہ تو پردیس جانے کی بات تھی در حقیقت تو اسنے یہ فیصلہ حورین کو بھلانے کے لئے کیا تھا۔ '' مما پلیز اگر آپ ایسے کریں گی تو میں کیسے جا سکوں گا''۔ عارش ماں کو گلے سے لگاتا کہہ رہا تھا اسکی اپنی آنکھیں چھلک گئی تھیں۔ '' ٹھیک تو کہہ رہی ہیں ہم سے مشورہ کئے بغیر تم نے اتنا بڑا فیصلہ کر کیسے لیا''۔ شائستہ بیگم بھی افسردہ تھیں۔ '' ضرور حورین کو بتایا ہوگا اس نے لیکن حورین کو دیکھیں اتنی پکی تھی بھنک تک نہ لگنے دی''۔ غضنفر صاحب الگ صدمے میں تھے۔ تین ہی تو بچے تھے گھر میں ان سے ہی گھر کی رونق تھی حورین کے جانے سے پہلے ہی گھر ویران ہو گیا تھا اور اب عارش۔ '' چاچو پلیز سمجھیں نا فیوچر بنانے کے لئے یہ ضروری تھا پھر دو سال کی ہی تو بات ہے وقت پر لگاتا اڑ جائے گا''۔ عارش نے سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ '' تم پیکنگ کرو بیٹا پریشان نہ ہو بھابھی آپ بھی ہمت کریں ایسے رو رو کر بیٹے کو رخصت کریں گی تو بچے کا دل بھی پریشان رہے گا''۔ شائستہ بیگم نے ہی دل کڑا کر کے سب کو سمجھایا ۔ '' عارش بھائی آپ چلے جائیں گے تو میں آگ کا گولا کسے کہوں گا''۔ اشعر نے معصومیت سے کہا تو سب کے چہرے پہ ہنسی آگئی۔ '' ادھر آ تجھے بتاتا ہوں''۔ عارش اسکے پیچھے دوڑا۔ اشعر تھوڑا آگے جا کر خود ہی رک گیا اور عارش کے گلے لگ کے رونے لگا۔ '' عارش بھائی آپ نہ جائیں پلیز مجھے آپکی بہت یاد آئے گی''۔ اشعر چھوٹے بچے کی طرح رو رہا تھا۔ '' ارے تم حور۔۔۔ حورین کی طرف چلے جایا کرنا دو سال کی ہی بات ہے چپ کرو بس چلو اندر''۔ عارش اشعر کو خاموش کراتا اندر کی طرف چل دیا اس لمحے اسے حورین کی یاد شدت سے آئی تھی اور وہ تو جانتی تک نہ تھی کہ عارش لندن جا رہا ہے۔ '' تم حورین کے ولیمے کے نیکسٹ ڈے کا بھی پلین کر سکتے تھے ویسے''۔ ضیافت علی نے عارش کو ڈپٹا۔ ''ہاں اور کیا اب لوگ الگ ہزار سوال کریں گے''۔ ثانیہ بیگم بھی خفا ہوئیں۔ '' ارے یار لوگوں کی ٹینشن چھوڑٰیں اب تو فلائٹ کا ٹائم ہونے والا ہے چار بجے نکلنا ہے میں نے''۔ عارش نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' اچھا ابھی تو تین گھنٹے ہیں ہم حورین آپی کو بلا لیتے ہیں''۔ اشعر نے اپنا آئیڈیا پیش کرتے توپوں کا رخ اپنی جانب کیا۔ '' لو انکی سن لو بالکل ہی کوئی عقل سے پیدل اولاد ملی ہے ہمیں''۔ ضیافت صاحب نے اشعر کو گھوری سے نوازتے کہا۔ '' ٹھیک کہہ رہے ہیں ایک نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ لندن جانے کا فیصلہ کر لیا اور دوسرے موصوف کو عقل ہی نہیں کہ بہن ابھی چند گھنٹے پہلے رخصت ہو کہ اپنے سسرال گئی ہے بلا لیتے ہیں''۔ ثانیہ بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے اشعر کی کلاس لیتےعارش کو بھی کوسا۔ '' بھئی میں نے ایسا کیا کہہ دیا''۔ اشعر نے اضلی لاپرائی سے کہا۔ ''تم تینوں میں صرف میری حورین ہی عقل مند تھی بس ''۔ ثانیہ بیگم نے فخریہ کہا۔ '' اچھا بس کرو اب جلدی سب سمیٹو تم''۔ ضیافت علی نے حکم صادر کیا تو عارش تیزی سے ہاتھ چلاتا پیکنگ مکمل کرنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭
'' حور اٹھ جاؤ نماز کا وقت نکل جائے گا''۔ حورین کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے ہمدان اسے پیار سے کہتا جگا رہا تھا۔ ہمدان کے محبت بھرے انداز نے حور کو فوراً اٹھنے پہ مجبور کردیا تھا نماز کی پابند تو وہ تھی ہی لیکن یہ جان کر کہ ہمدان بھی نماز کا پابند ہے اسکا دل مطمئن ہوا تھا دل میں اللہ کا شکر ادا کرتے وہ نماز کے لئے اٹھ چکی تھی۔ ہمدان مسجد سے نماز پڑھ کے لوٹا تو حورین بالکونی میں جائے نماز پہ بیٹھی سورۃِ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا اسکی سانسوں کو معتر کر رہی تھی حورین کو شروع سے ہے بالکونی میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر فجر پڑھ کر سکون ملتا تھا۔ ہمدان بھی چپکے سے حورین کی خوبصورت آواز میں تلاوت سننے اسکے پاس ہی آ بیٹھا ۔ حورین جب تلاوت کر چکی تو اسنے مسکرا کر ہمدان کو دیکھا جو اسی کو پر شوق نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ '' ایسے کیا دیکھ رہے ہیں''۔ حورین نے مسکراتے ہوئے پوچھا نماز کی طرح دوپٹہ اوڑھے وہ بہت پاکیزہ لگ رہی تھی۔ '' دیکھ نہیں رہا اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ اسنے مجھے تم جیسی بیوی سے نوازا میں ہمیشہ سوچتا تھا اگر مجھے کوئی ایسی لڑکی مل گئی جو اللہ کی عبادت سے دور ہوئی تو میں کیا کرونگا تھینک یو حور تم نے مجھے دینا کا خوش قسمت انسان بنا دیا اللہ نے مجھے میری حور دنیا میں ہی عطا کردی''۔ ہمدان محبت اسے ساتھ لگاتا کہہ رہا تھا کتنی حسین شروعات تھی انکی زندگی کی۔۔۔۔
عارش کے جاتے ہی گھر میں خاموشی نے ڈیرا ڈال لیا تھا سب کے دل میں اداسی نے اپنا بسیرا کررکھا تھا۔ حورین کے لئے ناشتہ لے جانے کی تیاری بھی انتہائی خاموشی میں کی گئی سب کو یہی لگ رہا تھا کہ حورین عارش کے اس فیصلے سے آگاہ تھی اور پھر بھی اس نے سب سے اتنی بڑی بات چھپائی۔ '' حورین بیٹا جلدی سے ریڈی ہو کر نیچے آجائیں آپکی فیملی آچکی ہے''۔ مما ناک کرتی کہہ رہی تھیں۔ حورین نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ '' جی آنٹی میں ریڈی ہوں بس ہمدان چینج کرلیں دو منٹ میں آئی''۔ خوبصورت مسکان سجائے وہ کہہ رہی تھی۔ ہمدان کی مما کو اپنی بہو پہ بے حد پیار آرہا تھا۔ ہمدان کی فرمائش پہ حورین نے ٹی پنک فراک پہنہ تھا جسکے گلے اور سلیوز پر گولڈ کلر میں دبقہ کا کام نفاست سے کیا ہوا تھا۔ کھلے بالوں کے ساتھ کانوں میں جھولتے جھمکے اور شانوں پر سلیقے سے لیا دوپٹہ ساتھ ہی ہمدان کی محبت کا رنگ حورین کو آج حد سے زیادہ خوبصورت بنا گیا تھا شوہر کی سچی محبت حاصل ہو تو ہر بیوی اتنی ہی دلکش اور خوبصورت لگتی جتنی حورین لگ رہی تھی۔ '' بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ''۔ ہمدان کی مما نے پیار سے کہتے حورین کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ واش روم سے نکلتے ہمدان کی شوخ نظریں خود ہر محسوس کرتے ہی حورین مارے حیا کے جھیمپ گئی۔ '' اچھا جلدی سے آجائیں سب آپ دونو کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں''۔ ہمدان کی مما کہتی جا چکی تھی۔ نیچے لاؤنج میں بیٹھے سب لوگ آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھے ہمدان کے گھر سے تمام گیسٹ جا چکے تھے بس اسکی پھپھو اور انکی بیٹی فبیہہ رک گئے تھے۔ '' شکر ہے آپی آگئیں''۔ ہمدان اور حورین کو سیڑھیوں سے اترتا دیکھ اشعر نے کھڑے ہوتے ہوئے خوشی سے کہا۔ جبکہ پاس بیٹھی فبیہہ نے حورین کو نفرت بھری نگاہ سے نوازا تھا۔ '' کیسی ہے میری بیٹی''۔ غضنفر صاحب نے حورین کو گلے لگاتے ہوئے پیار سے کہا۔ '' میں ٹھیک ہوں بابا''۔ حورین نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا سب سے ملنے کے بعد حورین ہمدان کے ساتھ بیٹھنے ہی لگی تھی کہ فبیہہ اس سے پہلے ہمدان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ حورین اسکی یہ حرکت دیکھ کر پل بھر کو ٹھٹھکی اورہمدان کو دیکھ کر رہ گئی ہمدان الگ شاک میں تھا لیکن حورین اگنور کرتی اپنی مما کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ '' چاچی عارش نہیں آیا''۔ حورین نے متلاشی نظروں سے لاؤنج کا جا ئزہ لیتے کہا۔ ''یہ عارش کون ہے جسکا آپکو اتنی بے صبری سے انتظار تھا''۔ اس سے پہلے کہ ثانیہ بیگم کوئی جواب دیتی فبیہہ نے تنزیہ کہتے ٹانگ اڑائی۔ '' دماغ ٹھیک ہے یہ کس انداز میں بات کی ہے تم نے تمیز بھول آئی ہو کہیں؟؟ ہمدان کا پارا اچانک سے ہائی ہوا تھا۔ '' وہ میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا''۔ ہمدان کے بدلتے تیور دیکھ وہ ہڑبڑا گئی۔'' بھابھی ہیں تمہاری سمجھ آئی آئندہ یہ انداز میں نے سنا تو انجام خود دیکھو گی مما ناشتہ لگوائیں اور خیال رہے ٹیبل پر آؤٹ سائیڈرز الاؤڈ نہیں ہیں سو ہماری فیملی کہ علاوا مجھے کوئی نہ دکھے''۔ ہمدان دو ٹوک انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ '' حور چلو ہم ڈائیننگ روم ہی چلتے ہیں بلکہ سب وہیں چل کر باتیں کرتے ہیں کیا خیال ہے بابا''۔ ہمدان پیار سے حورین کا ہاتھ تھامتے مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا، اپنی بیٹی کے لئے ہمدان کی محبت دیکھ کر غضنفر صاحب کی آنکھیں نم ہوئی تھیں اور دل اللہ کے شکر سے مسرور ہوا۔ '' چلیں بھائی صاحب''۔ ہمدان کے پاپا بھی فبیہہ کو گھورتے اٹھ گئے تھے۔ '' فبیہہ اور شاہین کا ناشتہ انکے روم میں بھجوا دیں''۔ ولی آفندی بھی پھر ہمدان کے پاپا تھے اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ یہ لڑکی کیا کرنا چاہتی ہے جبھی ملازمہ کو حکم دیتے ڈائیننگ ہال میں چل دئیے کچھ دیر پہلے جو ماحول کچھ کشیدہ ہوا تھا اب نارمل ہو چکا تھا۔ '' آپی عارش بھائی لندن چلے گئے''۔ اشعر نے سنجیدگی سے بتاتے اسکے سر پہ بم پھوڑا۔ '' کیا۔۔۔۔۔۔۔ کب؟؟ اچانک کس لئے؟؟ حورین سن کر شاکڈ تھی۔ '' تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے تمہیں پتہ ہی نہ ہو''۔ ثانیہ بیگم نے شکوہ کیا۔ '' نہیں چاچی مجھے پتہ ہوتا تو کم از کم اسے سمجھاتی کہ ولیمہ تو اٹینڈ کر کے جائے''۔ حورین نے حیرت سے کہا۔ '' واقعی نہیں پتہ تمہیں ہمیں لگا تم سب جانتی ہو ہم تو خفا بھی تھے تم سے اسی وجہ سے''۔ شائستہ بیگم نے شرمندگی سے کہا۔ '' ارےمجھے۔۔'' '' مجھے پتہ تھا مما عارش نے حورین اور آپ سب کو بتانے سے منا کیا تھا میں مجبور تھا بتا نہیں سکا''۔ ہمدان نے حورین کی بات کاٹتے ہوئے تفصیل بتائی۔ '' بیٹا تم اسے سمجھاتے بھلا ہم کیسے رہیں گے اسکے بغیروہ تو خود کبھی دور نہیں رہا ہم سے''۔ ثانیہ بیگم پھر سے آبدیدہ ہو گئی تھیں۔ '' پھر بھی بتانا تو چاہئے تھا اس آگ کے گولے کو''۔ حورین بری طرح تپی تھی۔اسکے انداذ پہ ہمدان سمیت سب کو ہنسی آگئی تھی۔ '' شرم کریں آپیا ب تو شادی ہو گئی ہے آپکی اب تو بخش دیں عارش بھائی کو''۔ اشعر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔'' بھئی شادی ہونے کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ انسان جینا ہی چھوڑ دے حور پہ تو ویسے بھی ایسی ہی اچھی لگتی ہے''۔ ہمدان نے پیار سے کہتی اپنی حور کی سائیڈ لی۔ ''ہاں تم بھی بس کردو اسکا چمچہ بننا''۔ حورین نے بھی تنک کرکہتے اشعر کو چڑایا۔ سب ہنسنے لگے خوشگوار ماحول میں ناشتہ ہوا اور وہاں پردیس میں عارش تنہا رہ گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭