'' اُٹھ بھی جاؤ سورج سر پہ نکل آیا ہے''۔ شائستہ بیگم نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ '' ہائیں ؟؟؟ کہاں ہے ؟؟ کہاں ہے؟؟ حورین اپنے بال جھاڑتی ہونّقوں کی طرح بیڈ پر اچھلنے لگی۔ '' ارے بیوقوف لڑکی تمہارے سر پہ نہیں آسمان کے سر پہ''۔ شائستہ بیگم نے بیٹی کی حرکت پہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا حورین کی نیند کا تو پتہ ہی تھا۔ '' ارے چاچی بیگم یہ کیوں صبح صبح پاگل بندریا کی طرح بال پکڑے چھلانگیں کھا رہی ہے؟؟ کمرے سے گزرتا عارش دانت نکالے عادت کے مطابق اسکی کلاس لینے آپہنچا۔ '' بس اسی کی کمی تھی۔۔۔۔ یہی۔۔ یہی انسلٹ کروانا ہوتی ہے بس آپ نے وہ بھی اس آگ کے گولے کے سامنے''۔ حورین بھوکی شیرنی کی طرح عارش کی طرف لپکی۔ '' ارے میں نے کیا کِیا؟؟ شائستہ بیگم نے عارش کو بچاتے ہوئے معصومانہ انداز میں کہا۔ ''آپ ٹھیک سے نہیں جگا سکتی تھیں مجھے اور تم ۔۔۔ تم کیا ہر وقت میری جاسوسی میں لگے رہتے ہو چلو جاؤ یہاں سے صبح صبح موڈ خراب کر دیا''۔ حورین کا غصّہ عروج پہ پہنچ چکا تھا۔ '' ارے ارے ریلیکس یار تم تو خوامخواہ غصّہ ہو رہی ہو میں تو مزاق کرہا تھا یار''۔ عارش نے صفائی پیش کرتے ہوئے جان بچانی چاہی۔ '' صبح صبح غصّہ نہیں ہوتے میری جان ورنہ سارا دن برا گزرتا ہے، چلو شاباش فریش ہو کر جلدی سے آجاؤ باہر ناشتہ لگا ہے''۔ شائستہ بیگم بھی اسکا غصّہ کم کرنے کو آگے بڑھیں۔ ''ہونہہ۔۔۔'' وہ منہ بناتی بناتی واش روم کی طرف چل دی تو عارش اور شائستہ نے بھی شکر ادا کرتے باہر کا رخ کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭
'' حورین کو دیکھنے کتنے بجے آنا ہے انہوں نے؟؟ غضنفر صاحب نے بریڈ پر جام لگاتی شائستہ بیگم سے پوچھا۔ ''حورین کو دیکھنے آرہا ہے کوئی؟؟ شائستہ بیگم جواب دیتی اس سے پہلے ہی ثانیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔ ''جی بھابھی کل رات ہی کال آئی تھی بس ابھی آپکو بتانے ہی لگی تھی۔ سوچا ناشتے کی ٹیبل پر ہی سب کو بتا دوں گی''۔ شائستہ بیگم نے تفصیل بتاتے کہا۔ '' گڈ مارننگ بابا جانی، گڈ مارننگ چاچو ، چاچی ''۔ حورین نے ڈائننگ ہال میں داخل ہوتے عادتاً باآواز بلند کہا۔ ''آگئی میری پرنسِز'' غضنفر صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ '' جی بابا جانی''۔ حورین نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ '' بھئی تیار ہو جائیں آپی۔۔۔ آپکو حلال کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے''۔ اشعر نے اسے چھڑتے ہوئے اطلاع پہنچائی۔ ''کیا مطلب؟؟ حورین نے نا سمجھی سے پوچھا۔ '' اشعر تم تو نا بس فضول ہی بولا کرو ''۔ ثانیہ بیگم نے اپنے بیٹے کو ڈپٹا۔ ''میں نے کیا کردیا''۔ اشعر نے مظلوم شکل بناتے ہوئے احتجاج کیا۔ ''چپ بیٹھو ''۔ ثانیہ بیگم نے گھورتے ہوئے اشارہ کیا۔ ''کچھ لوگ آرہے ہیں تمہارے رشتے کے لئے بس اسی کا بتا رہا ہے اشعر''۔ شائستہ بیگم نے شفقت بھرے لہجے میں تفصیل بتائی۔ '' امّی بیگم لیکن۔۔۔۔ بابا جانی ابھی تو میری اسٹڈیذ چل رہی ہیں اتنی جلدی کیا ہے؟؟؟ حورین نے رخ غضنفر صاحب کی جانب موڑ برا سا منہ بناتے کہا۔ ''ابھی ناشتہ تو کرلو بعد میں ڈسکس کرلیں گے یہ سب''۔ ضیافت صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ '' آپ لوگ ہی کریں ناشتہ میں لیٹ ہو رہی ہوں کالج سے بائے۔۔''۔ حورین اپنا بیگ اٹھاتی باہر کی طرف چل دی۔ '' ارے سنو تو۔۔۔۔۔ یہ لڑکی بھی نہ کچھ نہیں کھاتی''۔ شائستہ بیگم نے پریشانی سے کہا جبکہ اشعر بھی حورین کے پیچھے ہولیا۔ '' تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟ ڈرائیور کہا ہے؟؟ عارش کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دیکھ حورین نے تب کر پوچھا۔ '' اطلاعاً عرض ہے کہ ڈرائیور ایک ہفتے کی چھٹی پر ہے''۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے اشعر نے اسے یہ منحوس خبر سنائی۔ ''افف۔۔۔۔ کیا عزاب ہے، اور تم پیچھے نہیں بیٹھ سکتے تھے ''۔ حورین نے اشعر کو گھورا۔ '' بیٹھ جاؤ اب یار سب لیٹ ہو رہے ہیں''۔ عارش نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ '' ہونہہ۔۔۔''۔ حورین بھی منہ بناتی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ '' اشعر تم نے کبھی کسی بندریا کو بال پکڑے بیڈ پر چھلانگیں لگاتے دیکھا ہے''۔ عارش نے اشعر کو مخاطب کرتے ہوئے نظریں بیک مرر پر پرکوز کرتے حوریں کی صبح والی حرکت یاد دلائی۔ ''گاڑی تیز چلاؤ میں لیٹ ہو رہی ہوں''۔ حورین کی آنکھیں غصّہ سے لال تھی۔ '' چلا ہی رہا ہوں ''۔ عارش نے ہنسی دباتے کہا۔ '' گڈ اور چلاؤ وہ بھی خاموشی سے ورنہ چاچو کو ایک میسیج جائے گا تمہاری فضول خرچی کی لسٹ کا پھر بھگتنا خود''۔ حورین اطمینان سے کہتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ '' اس چیز کا مزاق نہیں چل رہا حور، تم ایسا نہیں کرو گی''۔ اب کی بار تپنے کی باری عارش کی تھی۔ '' تو ذرا تمیز اور خاموشی سے ڈرائیو کرو''۔ حورین نے آنکھوں پہ گلاسز سجاتے حکم جھاڑا۔ دونوں کی نوک جھوک سے محضوض ہوتے اشعر کے تو دانت ایسے باہر نکلے ہوئے تھے جیسے کسی نے اسے سزا دے رکھی ہو۔ '' اترو نیچے آگیا تمہارا کالج''۔ عارش نے حورین کو اتار کر جان چھڑائی تو اسکی سانس میں سانس آیا۔
سرونگ ٹرالی سجاتی شائستہ بیگم کے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔ '' لوگ تو بہت اچھے لگ رہے ہیں''۔ ثانیہ بیگم مسکراتے ہوئے شائستہ بیگم سے گویا ہوئیں۔ '' جی بھابھی لڑکا بھی اچھا ہے سب سے بڑی بات اپنا بزنس سیٹ ہے اسکا''۔ شائستہ بیگم نے جلدی میں تبصرہ کرتے کہا۔ '' اچھا جلدی کریں، اور یہ حورین تیار ہوئی کہ نہیں؟؟ میں دیکھ کر آتی ہوں''۔ ثانیہ بیگم پوچھتی خود ہی حورین کے کمرے میں چل دی۔ '' یہ کیا پہن لیا؟؟ کمرے میں داخل ہوتے ہی ثانیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔ ''کیا ہو گیا چاچی، ٹھیک نہیں ہے کیا؟؟ اشعر اور عارش نے مشورہ دیا یہ پہننے کا''۔ حورین نے ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے بتایا۔ ''ارے جینز شرٹ کون پہنتا ہے ایسے موقعے پر پاگل لڑکی؟ اشعر اور عارش کی تو میں بعد میں خبر لونگی تم جاؤ جلدی سے یہ ڈریس چینج کر کے آؤ''۔ ثانیہ بیگم نے اسکے وارڈروب سے شلوار قمیض کا ڈیسینٹ سا جوڑا اسے تھمایا۔ "میں جا رہی ہوں پانچ منٹ میں آ جاؤ''۔ ثانیہ بیگم جلدی میں کہتی چلی گئی۔ '' تم لوگوں سے تو بعد میں نمٹوں گی''۔ حورین پیر پٹختی بدلے کی منصوبہ بندی کرتی تیار ہونے لگی۔ ''ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری حور چلو شاباش ٹرالی لے کے آجاؤ ڈرائینگ روم میں''۔ حورین کو کچن میں اینٹر ہوتا دیکھ شائستہ بیگم اسکی نظر اتارتی پیار سے کہتی باہر نکل گئیں۔ '' السلام و علیکم ''۔ نروس سی حورین ٹرالی گھسیٹتی سب کو سلام کرتی روم میں اینٹر ہو چکی تھی۔ '' ماشاءاللہ آئیے بیٹا کیسی ہیں آپ؟ صوفے پہ بیٹھی عمر رسیدہ لیکن ہیوی میک اپ کے ساتھ فل فیشن میں لپٹی خاتون نے اسے پیار کرتے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ '' بھئی ہمیں تو آپکی بیٹی بہت پسند آئی ہے ہماری طرف سے ہاں ہے بس آپ بھی جلدی سے ہاں کر دیں''۔ ساتھ ہی بیٹھی ڈیسینٹ سی خاتون جو دکھنے میں لڑکے کی ماں لگ رہی تھی مٹھاس بھرے لہجے میں گویا ہوئیں۔ ''ارے اتنی جلدی کیسے''۔ شائستہ بیگم نے گھبراہٹ اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ غضنفر صاحب کی طرف دیکھا۔ ''ہم اور کچھ نہیں سنیں گے بس بھائی صاحب ہمیں جواب چاہئے بس ابھی وہ بھی ہاں میں''۔ لڑکے کے ساتھ بیٹھے شخص جو دکھنے میں لڑکے کے ابا لگ رہے تھے پر جوش ہوکر کہنے لگے۔ ''اب آپ اتنا کہہ رہے ہیں تو ہماری طرف سے بھی ہاں ہے''۔ غضنفر صاحب نے بھی فیصلہ سنا دیا تھا۔ ''لیجئے منہ میٹھا کریں''۔ سب لوگ منہ میٹھا کرنے لگے جبکہ حورین نے کن اکھیوں سے لڑکے کو دیکھا جس سے ابھی ابھی اسکا رشتہ طے ہوا تھا جسے دیکھتے ہی اسکے پیروں تلے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی حورین کی سٹی گم ہو چکی تھی اور مارے خوف کے اسکی آنکھیں پھیل گئی تھی۔'' ہمدان آفندی''۔ بے ساختہ حورین کے منہ سے اسکا نام نکلا جو فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭