آج کا پورا دن بہت مصروف گزرا تھا زاہدہ تائی نے فرزانہ پھپھو کو اسپتال بھیج دیا تھا اب رخسار سویرا کی ساری پیکنگ کروا رہی تھی چند گھنٹوں میں انہیں ائیر پورٹ کیلئے نکلنا تھا ابھی وہ سویرا کو شوہر کے دل میں اترنے کے طریقے بتا رہی تھی جب تھکا تھکا سا شہریار کمرے میں داخل ہوا ۔۔
" شیرو دیکھو میں نے تمہاری دلہن کی ساری پیکنگ کردی ہے ۔۔۔" وہ اس کے پاس آکر بولیں
" آپی فار گاڈ سیک اسے میری دلہن کہنا بند کریں ۔۔۔" وہ تپ کر بولا سویرا کا چہرا پھیکا پڑ گیا تھا
" لو بھلا ہمارے یہاں تو نئی نویلی دلہن کو دلہن ہی کہتے ہیں اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے ۔۔" وہ خفیف سی ہو گئیں جبکہ سویرا خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی
"اچھا شاہو سنو ! سویرا کا خیال رکھنا وہ ادھر اکیلی ہو گی، اس پردیس تم ہی اس کا سب کچھ ہو گے ۔۔"
"آپی وہ کوئی چھوٹی سی بچی نہیں ہے کہ مجھے اس کی دیکھ بھال کرنی پڑے کھانا پینا اور چھت دے دونگا اس سے زیادہ کی امید مت رکھیں ویسے بھی صرف سال بھر کی تو بات ہے ۔۔۔" وہ جا کر اپنا بیگ ایک کونے پر رکھتے ہوئے کپڑے نکال کر تیار ہونے چلا گیا ۔۔
شام ڈھل رہی تھی اس وقت سب ہی سویرا اور شہریار کو چھوڑنے ائیر پورٹ آئے ہوئے تھے
پلین کاٹن کے ہلکے نیلے رنگ کے سادہ سے ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس کسی بھی غیر ضروری آرائش و زیبائش کے بھی سویرا کا وجود دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیراں کررہا تھا اس کے مہندی لگے دودھیا ہاتھ پیر سب کی توجہ کھینچ رہے تھے سادہ سے چمکتے چہرے پر میک اپ کے نام پر صرف ہلکی گلابی لپ اسٹک لگی ہوئی تھی کمر تک آتے کالے سیاہ بالوں کی سادہ سی چوٹی باندھے وہ شہریار کے پہلو میں کھڑی ہوئی تھی
جیل سے جمے ہوئے بال بلیک پینٹ وائٹ شرٹ اور بلیک ٹائی میں ملبوس شہریار نے اپنا کوٹ ایک ہاتھ میں ڈالا ہوا تھا اس کی مضبوط کلائی میں راڈو کی گھڑی جگمگا رہی تھی کانوں میں بلیو ٹوتھ لگائے ہوئے وہ اپنی سیکریٹری سے اپنا استنبول میں میٹنگ کا پلان ڈسکس کررہا تھا
" شیرو اب بس بھی کرو فلائٹ اناؤنس ہو گئی ہے ۔۔۔" سلیم صاحب نے اسے ٹوکا
سب سے مل کر وہ سویرا کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص مغرور انداز میں اندر بورڈنگ کیلئے چلا گیا
وہ دونوں پلین میں بیٹھ چکے تھے سویرا کا یہ پہلا سفر تھا اسے ڈر لگ رہا تھا لیکن اس سنگدل سے وہ اپنی فیلنگ شئیر کرنے سے ڈر رہی تھی تبھی ایک غیر ملکی ائیر ہوسٹس مسکراتے ہوئے ان کی سیٹ پر آئی
" میم ٹیک آف ہو رہا ہے آپ سیٹ بیلٹ باندھ لیں ۔۔۔"
سویرا نے اثبات میں سر ہلایا اور بیلٹ باندھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ بیلٹ بھی بار بار اس کے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے پھسل رہی تھی تبھی شہریار نے اس کی جانب دیکھا جو سیٹ بیلٹ سے الجھی ہوئی تھی ۔۔۔
" پیچھے ہٹو ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا
سویرا دم سادھے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور شہریار نے جھک کر اس کی سیٹ بیلٹ لگائی
" ایسے لگاتے ہیں اب آگے مجھے شرمندہ مت کروانا ۔۔۔" وہ اس کی کالی سیاہ چمکدار آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
وہ چپ چاپ اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی
جیسے ہی جہاز نے ٹیک آف کیا سویرا کے حلق سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی اس نے ڈر کے مارے ساتھ بیٹھے شہریار کا ہاتھ تھام لیا
" کیا بدتمیزی ہے !! " شہریار نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا
" تم چیخ کیوں رہی ہو ؟؟ انسانوں کی طرح سفر کرو اب ایک لفظ نا نکلے تمہارے حلق سے ۔۔" وہ غرایا
شہریار کے ساتھ استنبول تک کا سفر سویرا کی زندگی کا ایک کٹھن ترین سفر تھا پورے سفر میں وہ اس کی تنقیدی نگاہوں کا شکار رہی تھی پلین ایک لمبے سفر کے بعد استنبول لینڈ کرچکا تھا یہاں ان کا چار گھنٹے کے ٹرانسٹ تھا شہریار اسے لیکر وی آئی پی ویٹنگ لانچ میں پہنچا
" سنو لڑکی تم ادھر ہی میرا ویٹ کرو جب تک میں واپس نہ آجاؤں خبردار جو ادھر سے ہلی ۔۔۔" وہ اسے لانچ میں بٹھا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر چلا گیا اس نے استنبول کی فلائٹ ہی اس لئیے لی تھی کہ اسے اپنی کمپنی کے ترک کمپنی سے مرجر کے ڈاکومنٹ سائن کرنے تھے وہ ائیرپورٹ سے باہر نکل چکا تھا سویرا کو اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔
__________________________________________
وہ آجکل بہت خوش تھی شیری دن میں کم از کم ایک بار اس سے رابطہ ضرور کر رہا تھا آج صبح سے ہی اس کا موڈ بہت بہت خوشگوار تھا ابھی بھی وہ گنگناتے ہوئے تیار ہو رہی تھی اس کا ارادہ شیری کے گھر جا کر پودوں کو پانی دینے کا تھا سفید ٹخنوں سے اونچی کیپری پینٹ اور گلابی ٹاپ پہن کر اس نے اپنے سنہرے بالوں میں برش مارا اور فون اٹھاتی ہوئی باہر نکل گئی
ابھی گاڑی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا ۔۔۔
" جونس کالنگ ۔۔۔۔" اس نے ایک نظر بجتے ہوئے فون پر ڈالی اور ایک گہری سانس لیکر آرام سے کار کی سیٹ سے پشت لگا کر فون ریسیو کیا
" ہیلو فرینڈ کیسی ہو ؟؟"
" میں ٹھیک تم سناؤ کدھر ہو ۔۔۔"
" میں بس آفس آیا تھا شہریار نے استنبول سے ڈاکومنٹ بھیجے تھے وہ سائن کرنے تھے یو نو تمہارے فیانسی نے تو کمال کردیا ۔۔۔"
" شیری ترکی میں ہے ۔۔۔" وہ بڑبڑائی
" ہاں کیوں کیا تمہیں نہیں پتا ؟؟ " جونس نے پوچھا
" ہمم ہاں نہیں وہ رات کو کچھ ذکر تو کیا تھا پر میں نیند میں تھی ویسے وہ لندن کب تک آرہا ہے ؟؟۔۔۔" عروہ نے ہڑبڑا کر بات سنبھالتے ہوئے کہا
" ڈونٹ وری عروہ !! ہوسکتا ہے وہ تمہیں سرپرائز دینا چاہتا ہوں ؟؟" جونس نے اسے تسلی دی
" ہاں شاید !!! " عروہ نے بجھے دل سے کہا اور فون کاٹ دیا
اب وہ شہریار کو فون ملا رہی تھی ۔۔۔۔
________________________________________
کبھی وصل توکبھی جُدائی چاہتا تھا
خُدا جانے وہ شخص کیا چاہتا تھا
جیتے جی جس نے مار ڈالا مجھے
میں ہمیشہ سے اُسکی بھلا چاہتی تھی
کیاخوب میری چاھت تھی اس سے
میں اُسکی روح تک رسائی چاہتی تھی
حق تو یہ تھا کہ اب ملاقات ہو
مگر افسوس وہ کہاں چاہتی تھی
بنااس تمناکے ، کہ چاہی جاؤں.....
میں اِک شخص کو بے پناہ چاہتی تھی
(عاقب بٹ )
وہ کافی گھنٹوں سے اکیلی بیٹھی ہوئی شہریار کا انتظار کررہی تھی اس نے بچپن سے ہی شہریار کا نام اپنے نام سے جڑا دیکھا تھا وہ کبھی کبھی خوابوں میں خود کو سب سے دور شہریار کے ساتھ بستا دیکھتی تھی جہاں نا پھپھو تھی اور نا ہی کوئی اور اسے طعنہ دینے والا رات کی تنہائیوں میں اکثر اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ہوئے اس نے شہریار کو سوچا تھا پر وہ تو شاید کسی اور ہی دنیا کا باسی تھا اس نے تو کبھی بھی اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اسے تو شاید علم بھی نہیں تھا کہ ایک بیوقوف اور بزدل سی لڑکی اسے اپنے دل میں بسائے ہوئے اس کے پلٹنے کا ، اپنے اچھے وقت کا انتظار کررہی ہے ۔۔۔
" میں بھی کتنی بیوقوف ہوں سوچا بھی کیسے کہ آپ کبھی مجھ سے محبت کرینگے ۔۔"
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب کسی نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
" ہیلو بیوٹیفل !! اکیلی ہو ؟؟ " ایک لمبا تڑنگا سفید فام مرد اس کو گھور رہا تھا
___________________________________
وہ وکیل کے آفس سے سارے ڈاکومینٹ سائن کرکے انہیں جونس کو فیکس کرنے کے بعد فارغ ہوا ہی تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا اس نے فون پر نظر دوڑائی تو عروہ کال کر رہی تھی ۔۔۔
کانوں میں بلیو ٹوتھ لگا کر اس نے گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو ائیرپورٹ چلنے کا حکم دیا اور پھر کال لی
"ہیلو ۔۔۔"
"کہاں ہو تم ؟ "عروہ نے چھوٹتے ہی سوال کیا
"میں اپنے کام سے باہر نکلا ہوا ہوں ! کیوں خیریت ؟ "
" شیری سچ بتاؤ کدھر ہو تم ؟؟ وہ جونس کہہ رہا تھا تم استنبول میں ہو "
" ہاں میں آفس کے کام سے استنبول آیا ہوں اس میں کون سی بڑی بات ہے ؟ ۔۔۔"
" تو پھر مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ "
" اوہ کم آن عروہ تم میری سیکریٹری نہیں ہو جو میں تمہیں اپنا ٹائم ٹیبل فیکس کیا کرو ! آئندہ مجھ سے اس طرح بازپرس مت کرنا ۔۔۔"وہ الجھا
" اکیلے ہو ؟ "
"سمجھو اکیلا ہی ہوں ۔۔"
"واااٹ ؟؟ کہیں تمہارے ماں باپ نے زبردستی تمہاری شادی تو نہیں کروا دی کسی دیسی گنوار سے ؟؟ " وہ چیخ اٹھی
" واٹ ربش یہ تمہیں ہوا کیا ہے ؟ کس طرح کی باتیں کررہی ہو ؟ کیا مجھ پر بھروسہ نہیں ہے؟ "
" بھروسہ اور مرد ذات پر ؟؟ کبھی بھی نہیں خیر چھوڑو یہ بتاؤ کب واپس آرہے ہوں ؟ سچی آئی ایم مسنگ یو آ لاٹ !! پتہ ہے جب تم آؤ گے نا تو میں ائیر پورٹ پر ہی تمہیں پک کرونگی پھر ہم ساتھ گھر چلینگے میں تمہیں جی بھر کر دیکھوں گئی ۔۔۔" وہ کھنکتی ہوئی آواز میں پلان بنا رہی تھی
" عروہ !!! " اس کے چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں تھیں
" شیری !! جان عروہ سے آگے بھی تو کچھ بولو ۔۔"
" مجھے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے تم ایزی رہو جب فلائٹ کنفرم کرواؤ گا تو تمہیں انفارم کر دونگا ۔۔۔" باتیں کرتے کرتے ائیرپورٹ آگیا تھا اس نے فون بند کیا اور ڈرائیور کو بل پے کر کے لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا اندر داخل ہو گیا
________________________________________
ایک لمبا تڑنگا مرد ہاتھوں میں کڑے ،گلے میں چین ،لمبے سنہرے بالوں کی پونی بنائے سویرا کو خباثت سے دیکھ رہا تھا
" ہے بیوٹیفل !! " وہ اس کے قریب ہوا
" تنہا ہو ؟؟ میں بھی اکیلا ہوں آج !! پھر کیا خیال ہے ۔۔۔" وہ آنکھ دباتے ہوئے بولا
اس سے پہلے وہ سویرا کے مزید قریب ہوتا ایک ہاتھ اس کے شانے پہ آکر رکا
"اینی پرابلم مین ؟؟؟ یہ میرے ساتھ ہیں ۔۔۔"ایک ڈیسنٹ سا بمشکل تیس سال کا مرد کھڑا تھا
" سوری مین !! مجھے لگا یہ پری اکیلی ہے کئی گھنٹوں سے اسے اکیلا بیٹھا دیکھا تو فرینڈ شپ کرنے آگیا ۔۔۔۔"
" اب پتا چل گیا ہے تو نکلو یہاں سے ۔۔۔" وہ روڈلی بولا اس کو ٹالنے کے بعد وہ اس ڈری سہمی لڑکی کی طرف مڑا جو اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے مسلسل آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی
" ہیلو مس !! " اس انگریز نے اپنا ہاتھ مصافحہ کیلئے اس کامنی سی لڑکی کی طرف بڑھایا
وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے کھڑی ہو نے لگی
" اوہ سوری !!میں بھول گیا تم ایشین مسلم گرلز ہاتھ نہیں ملاتی ہوں جا کہا رہی ہو آؤ بیٹھو باتیں کرتے ہیں ویسے بے بی تم اکیلی ہو تمہارے پیرنٹس کدھر ہیں ۔۔۔" وہ بے تکلفی سے کہتا ہوا اس کے ساتھ بیٹھ گیا
سویرا کو اس کا انداز ذرا برابر بھی اچھا نہیں لگا اس نے شہریار کی تلاش میں چاروں جانب نگاہ دوڑائی پر وہ کہیں نہیں تھا
" میرا نام اینڈی ہے لندن جا رہا ہوں اور سنو وائٹ تمہارا نام کیا ہے ؟؟ " اس نے بڑی دلچسپی سے اس کے چہرے کی گھبراہٹ کو نوٹ کیا
" سویرا شہریار ۔۔" وہ دھیرے سے بولی
" اچھا یہ بتاؤ تم کہاں سے آرہی ہو اور کدھر جارہی ہو ویسے لگتا ہے اکیلے سفر کررہی ہوں اور اکیلا بندہ بور ہوجاتا ہے ۔۔۔۔"
وہ چپ چاپ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی مسلسل ادھر ادھر دیکھ رہی تھی
" تم نے بتایا نہیں کہ کہاں جارہی ہو ؟؟ "
" لندن ۔۔۔" وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولی
" واٹ آ کو انسیڈنٹ !! میں بھی لندن جارہا ہوں اور تم بھی اور پتا ہے اگر ہمسفر اچھا ہو تو سفر تیزی سے گزرتا ہے ۔۔"
سویرا نے کوئی جواب نہیں دیا بس چپ چاپ بیٹھی رہی
" کیا میں تمہیں کافی کی آفر کرسکتا ہوں ؟؟ " وہ پوچھ رہا تھا سویرا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح سے اس مصیبت سے جان چھڑائے
" نہیں پلیز مجھے کافی نہیں پینی آپ جائیں یہاں سے میرے ہسبنڈ آنے والے ہونگے ۔۔۔" وہ تھوڑا مضبوط لہجے میں بولی
" ہسبنڈ ؟؟؟ ڈونٹ ٹیل می تم میرڈ ہو ۔اور کیسا ہسبنڈ ہے تمہارا جو تمہاری جیسی سمپل لڑکی کو اکیلا چھوڑ کر نا جانے کہاں ہے ۔۔۔" اینڈی حیران ہوا
" وہ بس آتے ہی ہونگے ۔۔۔۔" سویرا نے کہا تبھی اسے شیشے کے پار سے شہریار نظر آیا
" وہ آگئے ہیں اب آپ جائیں پلیز ۔۔۔۔" وہ بولی
اینڈی نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا وہ انگلینڈ کے موسٹ وانٹڈ بیچلر ، بزنس ٹائیکون شہریار کو پہچان چکا تھا
" مس یہ میرا کارڈ رکھ لو ، تم بہت معصوم ہو اگر کبھی بھی کسی مشکل میں پڑو تو مجھے ضرور کال کرنا ۔۔۔" وہ جیب سے وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے وہاں سے چلا گیا
سویرا نے بیدلی سے ایک نظر کارڈ پر ڈالی ..
Dr .Professor Andrew Smith
Queen Mary University of London (QMUL)
اس نے کارڈ اپنے پرس میں ڈالا اور شہریار کا انتظار کرنے لگی جو اسی طرف آرہا تھا
" چلو فلائٹ اناؤنس ہو گئی ہے ۔۔۔" اس نے آتے کے ساتھ ہی حکم دیا اور سویرا اس کی تقلید کرتے ہوئے بورڈنگ کیلئے آگے بڑھ گئی ۔۔۔
___________________________________________
پلین ہیتھرو ائیرپورٹ پر لینڈ کر چکا تھا سویرا شہریار کے ساتھ ساتھ چلنے کی بھرپور کوشش کررہی تھی امیگریشن کاؤنٹر پر سوال جواب کے بعد شہریار سویرا کو لیکر ائیرپورٹ کے احاطے سے باہر نکلا تو فوراً ہی اس کا باوردی ڈرائیور گاڑی لئیے سامنے آیا ۔۔۔
" گڈ ایوننگ سر اینڈ میم ۔۔۔۔" ڈرائیور نے اتر کر سلام کرتے ہوئے ان دونوں کے لئیے دروازہ کھولا
شہریار نے سویرا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ کر دروازہ بند کیا
گاڑی تیزی سے مختلف راستوں سے گزر رہی تھی لندن کی بھیگی شام ایک پرسکون سا منظر پیش کررہی تھی چاروں جانب سبزہ ہی سبزہ راہ چلتے ہر رنگ و نسل کے لوگ ۔۔۔سویرا انہماک سے باہر دیکھ رہی تھی کچھ دیر بعد گاڑی ایک خوبصورت پھولوں سے ڈھکے شاندار سے مکان کے باہر رکی ۔
شہریار خاموشی سے گاڑی سے اپنا سامان اتار کر سیدھا اندر چلا گیا وہ ایک لمحے کو ڈرائیور کے سامنے سبکی کے احساس سے سن سی رہ گئی
تبھی ڈرائیور کا فون بجا
" یس سر ، شیور سر ۔۔۔"
" میم آپ کا لگیج ۔۔۔" ڈرائیور نے اس کا سوٹ کیس ڈگی میں سے باہر نکالا
وہ خاموشی سے اپنے سوٹ کیس کو اٹھانے کے لیے جھکی ہی تھی کہ ڈرائیور نے سوٹ کیس اٹھایا
" آئیے میم آپ کو اندر تک چھوڑ دوں ۔۔۔"
وہ ڈرائیور کی رہنمائی میں اس عالیشان عمارت میں داخل ہوئی اندر ایک بڑے گول کمرے میں ڈرائیور نے اس کا سوٹ کیس رکھا اور تعظیم بجا لاتے ہوئے باہر چلا گیا
گھر کیا تھا ایک شیشہ سے بنا محل تھا آف وائٹ کمبینیشن کا قیمتی فرنیچر مہنگی پینٹنگز سے سجی دیواریں ایک بڑی دیوار پر شہریار کی تصاویر لگی ہوئی تھیں اسکوائش ، پولو گراؤنڈ ، یونیورسٹی اور کئی شیلڈ لیتی ہوئی تصاویر تھیں یہ تو اسے بھی معلوم تھا کہ شہریار ایک بہت ہی جینیئس اور لائق اپنے ارادوں میں اٹل اور قطعی فیصلے کرنے والی نیچر کا مالک ہے اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی اپنی لیاقت کے جھنڈے گاڑے تھے جس کی خبریں بابا سائیں سب کو دیتے رہتے تھے وہ دور ضرور تھے مگر اس سے لاتعلق ہرگز نہیں تھے۔۔
________________________________________
شہریار گھر کے اندر داخل ہوا پیچھے مڑ کر دیکھا تو سویرا ساتھ نہیں تھی
" اب کیا میڈم کو انویٹیشن دینا پڑیگا ؟؟ " وہ جھنجھلا یا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھا
اس نے اپنے کمرے میں آکر سکون کا سانس لیا پھر فون نکال کر ڈرائیور کو سویرا کو اندر لانے کا حکم دیکر فون بیڈ پر اچھالتے ہوئے کیبنٹ کی جانب آرام دہ لباس نکالنے کے لیے بڑھا
شاور لیکر ریلیکس ہوکر وہ ڈنر کا ارادہ کرتے ہوئے باہر نکلا تو سویرا کو چپ چاپ سوٹ کیس کونے پر رکھے صوفہ پر بیٹھا دیکھ کر چونک گیا اس مصیبت کو تو وہ بھول ہی چکا تھا
" تم ابھی تک ادھر ہی ہو ؟؟ چینج بھی نہیں کیا ؟ " وہ اس کے سر پر کھڑا پوچھ رہا تھا
" وہ میں میں ۔۔۔۔" وہ اٹکی
" دیکھو لڑکی !! وہ سامنے بائیں طرف گیسٹ روم ہے آج سے وہ تمہارا کمرہ ہے جاؤ اپنا سامان ادھر رکھو ۔۔۔" شہریار نے اسے گیسٹ روم کا راستہ دکھایا
وہ پژمردگی سے سامان اٹھا کر اس کے بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھی وہ کمرہ بھی اس مکان کی طرح عالیشان تھا اب جو بھی تھا اسے نا جانے کتنے عرصے تک اس گھر میں جس کی وہ مالکن تھی مہمان بن کر رہنا تھا اس نے اپنا سوٹ کیس کھولا سامنے ہی اس کے یونیورسٹی کے داخلے کے کاغذات رکھے ہوئے تھے اس نے ان پیپرز کو نکالا اس کی آنکھیں انہیں دیکھ کر جگمگا رہی تھیں
Miss Sawera Farooq
First Year Medicine
Queen Mary University of London
یہ تھا اس کے اچھے مستقبل کا دروازہ جو تایا سائیں نے کھولا تھا اس نے کاغذات چوم کر واپس رکھے اور ہلکے سبز رنگ کا کرتا سفید پاجامہ نکال کر شاور لینے چلی گئی ۔۔
شہریار اٹالین اسٹائل کچن میں کھڑا پاسٹا بنا رہا تھا ابھی سبزیاں اور میٹ فرائی کرنے رکھا ہی تھا کہ اس کا فون بج اٹھا ۔۔۔
عروہ کا نام جگمگا رہا تھا
اس نے فون آف کیا اور پاسٹا مکس کر کے ٹیبل پر رکھا اور ڈنر کرنے لگا کھانے سے فارغ ہو کر وہ اٹھا اس کا رخ گیسٹ روم کی طرف تھا جو بھی تھا سویرا اس کی کزن تھی اس کے پیارے چاچو کی اکلوتی بیٹی وہ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن ایک کزن کے لحاظ سے ، وہ نہیں چاہتا تھا کہ سویرا اس سے کوئی امیدیں وابستہ کرے
وہ ہلکے سے ناک کر کے اندر داخل ہوا ۔۔۔
وہ شاید اسی وقت شاور لیکر باہر نکلی تھی بنا دوپٹے کے اس کے وجود کی ساری دلکشی نمایاں تھیں لمبے سیاہ چمکدار گیلے بال اس کی نازک کمر پر کسی آبشار کی طرح چھائے ہوئے تھے ہلکے سبز لباس میں اس کی گوری رنگت چمک رہی تھی اس لمحہ وہ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ اگر وہ سویرا کے بجائے کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس نے اسی وقت پرپوز کر دینا تھا ۔۔
" یہ میں کیا سوچ رہا ہوں یہ میرے مقابلے میں ایک بچی ہے ۔۔۔۔"خود کو سرزنش کرتے ہوئے اس نے سر جھٹکا اور زور سے کھنکھارتے ہوئے سویرا کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا
سویرا جو ایک طویل گرم شاور لیکر خود کو فریش محسوس کرتی ہوئی اپنے بال سلجھانے کا سوچ رہی تھی مردانہ کھنکھارنے کی آواز سن کر چونک گئی تیزی سے مڑی تو دروازے میں کھڑے شہریار کو دیکھ کر چونک گئی اس کی نظریں خود پر جمی دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ دوپٹہ کے بغیر کھڑی ہے اس کا چہرہ تیزی سے سرخ ہوا اس نے پلٹ کر بیڈ پر سے دوپٹے کو اٹھا کر اپنے وجود کے گرد لپیٹا
شہریار اس کی بوکھلاہٹ اور چہرے پر چھلکتے ہوئے سرخ رنگ کو بغور دیکھتے ہوئے کمرے کے وسط میں بچھے صوفہ سیٹ کے پاس آکر رکا ۔۔
" بیٹھوں مجھے تم سے کچھ اہم باتیں کرنی ہیں ۔۔"وہ ایک صوفہ پر بیٹھتا ہوا بولا
سویرا جھجھکتے ہوئے نظریں جھکائے صوفے پر آکر بیٹھ گئی
" تم اچھی طرح جانتی ہو یہ بے جوڑ رشتہ ایک مجبوری کے سوا کچھ نہیں ہے اور اب ہمیں ایک سال تک اکھٹے رہنا ہے تو بہتر ہے کچھ باتیں ابھی طے کر لیں ۔۔۔" شہریار نے بات کا آغاز کیا
"جی ۔۔۔۔" سویرا نے اثبات میں سر ہلایا
"تم مجھ سے ، میرے دوست احباب سے ، سب سے دور رہو گئی اگر کبھی کسی سے سامنا ہو بھی گیا تو میں تمہیں اپنی کزن کہہ کر متعارف کروانگا تم بھولے سے بھی ہمارے سو کالڈ رشتے کا کسی سے بھی ذکر نہیں کروگی انڈر اسٹینڈ ؟؟ " وہ اس کی سیاہ چمکتی ہوئی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہا تھا
"جی ۔۔۔۔" سویرا نے تیزی سے اثبات میں سر ہلایا
" دیکھو لڑکی !! تم جانتی ہو کہ ہماری شادی ایک معاہدے کے تحت ہوئی ہے تم آرام سے ادھر رہو چاہو تو اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کرو خود کو مضبوط بناؤ اور جیسے ہی حالات سازگار ہوتے ہیں ہمارے راستے الگ ہو جانے ہیں لیکن تم اپنی تعلیم مکمل ہونے تک مجھ پر انحصار کر سکتی ہوں ، مجھے تم سے ہمدردی ہے یقین مانو مجھے تم ہر ترس آتا ہے کہ کس طرح تم ایک ڈمی کی طرح رہتی ہوں جس نے جہاں بٹھایا بیٹھ گئی جو کہاں مان لیا خود کو بدلو اور ہاں میں ہر وقت گھر میں نہیں ہوتا تم ڈرائیور کے ساتھ آس پاس کے راستے سمجھ لو کچھ کھانے پینے کا دل چاہے تو کچن میں جا کر بنا کر کھا سکتی ہو ۔۔ " وہ اٹھ کھڑا ہوا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔
_________________________________________
شہریار سویرا کو گئے دو دن ہوچکے تھے اور شہریار نے بس اپنے پہچنے کی اطلاع دی تھی سویرا سے بات نہیں کروائی تھی ۔۔
رخسار کافی دیر سے شہریار کا فون ملا رہی تھیں پر فون تھا کہ مل کر ہی نہیں دے رہا تھا
" شاہ بی بی ، ہوسکتا ہے اتنے لمبے سفر کے بعد وہ تھک کر سو گیا ہو ۔۔۔"
" شاباش ہے رخسار !! ادھر میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے بلڈ پریشر نے الگ ناس مارا ہوا ہے اور ایک یہ ہماری بہو بیگم دشمنوں کو فون ملانے میں لگی ہوئی ہے ۔۔۔" فرزانہ نے اندر آتے کے ساتھ ہی رخسار کی کلاس لی
"فرزانہ !! اب بس کرو کیوں بچی کے پیچھے پڑی ہو پر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ایسا نا ہو کہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے ۔۔۔" شاہ بی بی نے سنجیدگی سے ٹوکا
" شاہ بی بی !! مجھے تو لگتا ہی نہیں ہے کہ آپ میری سگی ماں ہیں ۔ہر وقت اس منحوس سویرا کیلیئے تڑپتی رہتی ہیں کبھی تو میرے لئیے بھی کچھ سوچ لیا کریں اکرم کی ٹینشن سے بلڈ پریشر بڑھتا چلا جارہا ہے دیکھنا میں ایسے ہی کسی دن چل بسو گی ۔۔۔"
" خدا کا خوف کرو فرزانہ !! کیسی باتیں کرتی ہو اب تو اکرم کی طبیعت بھی بہتر ہے ۔۔۔"
" شاہ بی بی میرا بیٹا بے اولاد ہے میں اب اپنے پوتے کو کھلانا چاہتی ہوں دادی بننا چاہتی ہوں ۔۔"
" دونوں بچے نارمل ہیں جب اللہ کرم کریگا اولاد بھی ہو جائے گی ۔۔ " شاہ بی بی نے رسان سے سمجھاتے ہوئے کہا
" سنا ہے ولایت میں بے اولادی کا اچھا علاج ہوتا ہے ؟؟ " فرزانہ عیاری سے بولیں
_________________________________________
تم کیا جانو غم کیا ہوتا ہے
بےبسی کیا چیز ہوتی ہے
آنسوؤں کی زبان کیا ہوتی ہے
سسکیوں کی کہانی کیا ہوتی ہے
کبھی دل کو کرچیوں میں تقسیم ہوتے دیکھا ہے
تم تو سنگ دل ہو
بلا کے بے رحم ہو
مگر تم سے کیا شکوہ
تم اس رب کے آگے
کیا حیثیت رکھتے ہو
یہ میرا نصیب ہے کہ
اک موڑ پر آکر رکی ہے زندگی
آگے جس کے گہرا اندھیرا ہے
غموں کی چادر تنی ہے
دکھوں کی گہری کھائی بنی ہے
مگر اس سب سے زیادہ
یقین مجھ کو ہے دعاؤں پر
اس رب کریم پر
اسکی رحمت کی نظر پر
کہ ایک دن بہار بن کے آۓگا
خوشیوں کی برسات لاۓگا
بہہ جاۓ گی جس میں
ہر بری یاد ماضی کی
وہ روشن سویرا جلد ہی آۓگا
جو میرے چہرے پہ مسکان دے کہ جاۓگا
(شزا خان)
سویرا کی آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا وہ کچھ دیر غائب دماغی سے لیٹی رہی پھر اسے یکایک خیال آیا کہ وہ اب شہریار کے گھر میں تھی ، رات شہریار نے اسے پڑھائی شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا اپنی مدد آفر کی تھی پر ان کے رشتے کی نفی کرکے پر جو بھی تھا اس نے کوئی پابندی نہیں لگائی تھی منحوس نہیں کہا تھا ۔
رات وہ کھانا کھائے بغیر سو گئی تھی اور اب بھوک سے اس کی بری حالت تھی وہ آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھی یہ اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا وہ ہمت کر کے منھ ہاتھ دھو کر بال سمیٹتی ہوئی دوپٹہ اوڑھ کر کمرے سے باہر نکلی
پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا اس نے دیوار پر نصب گھڑی میں وقت دیکھا تو صبح کے چھ بج رہے تھے وہ جھجھکتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتی آگے بڑھی لاونج کے ساتھ ہی ایک نہایت خوبصورت بڑا سا اٹالین کچن تھا وہ اندر آئی
فرج کھولا سارے کیبنٹ چیک کئیے سوائے بریڈ انڈے دودھ جوس ریڈ بل انرجی ڈرنکس اور کین فوڈ کے کچھ بھی نہیں تھا ابھی وہ کھڑی سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز گونجی تھوڑی ہی دیر میں ٹریک سوٹ میں ملبوس پسینے پسینے ہوا ماتھے پر بکھرے بال لئیے شہریار کچن میں داخل ہوا وہ شاید جوگنگ کرکے آرہا تھا۔۔۔
" اسلام علیکم ۔۔۔" سویرا نے دھیمے سے سلام کیا
اس نے کچن میں آکر سر ہلاتے ہوئے سویرا کے سلام کا جواب دیا اور فرج سے جوس نکال کر گلاس میں انڈیلا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھا
سویرا نے اس کے جانے کے بعد اطمینان کا سانس لیا اور ناشتہ کی تیاری شروع کی پیاز دھنیا ٹماٹر اس کچن میں کچھ بھی نہیں تھا اس نے انڈے فرائی کئیے توس سیک کر مکھن نکال کر رکھا ہی تھا کہ نک سک سے تیار خوشبوئیں بکھیرتا ہوا شہریار کچن میں آیا سویرا نے ٹرے اس کی جانب بڑھائی
شہریار کہاں ناشتے کا عادی تھا اس کا معمول تو بلیک کافی اور مفن کے ناشتے کا تھا پر اس نے پہلے ہی دن ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا اور چپ چاپ ناشتہ کرنے لگا
"سنو !! نو بجے تک میری سیکریٹری اینا آئیگی تم اس کے ساتھ جا کر اپنا بینک اکاؤنٹ کھلوا لو اور یہ پیسے رکھو اپنے لئیے کچھ شاپنگ کر لینا میں نہیں چاہتا میرے ملازمین گھر میں تم جیسے میوزیم میں رکھنے والے مجسمہ کو دیکھیں اپنا میک اوور کرو اور اینا کے ساتھ جا کر اسکول وغیرہ کی معلومات لو ۔۔۔" وہ نوٹوں کی ایک بڑی گڈی میز پر رکھ کر اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دئیے بغیر چلا گیا
وہ چاہتے ہوئے بھی اسے نہیں بتا سکی کہ اس کا بینک اکاونٹ تایا سائیں پہلے ہی کھلوا چکے ہیں اور وہ اسکول نہیں یونیورسٹی جائیگی جس میں اس کا داخلہ بھی میرٹ کی بنیاد پر میڈیکل یونیورسٹی میں ہوچکا ہے ۔۔۔
_________________________________________