عروہ انتہائی حیرت سے شہر یار کو آفس کے سے باہر جاتا دیکھ رہی تھی !! آج پہلی دفعہ شہریار نے پیش قدمی کی تھی اسے چھوا تھا اور پھر صرف ایک فون کال کے لئے اسے بے دردی سے خود سے الگ کر کے چلا گیا تھا اسے حد سے زیادہ بےعزتی کا احساس ہو رہا تھا آنکھیں نم ہو رہی تھی اس نے سائیڈ پر پڑا اپنا پرس اٹھایا سن گلاسس آنکھوں پر لگائے اور باہر نکل آئی !! پارکنگ میں دور دور تک شہریار کی گاڑی کا نام و نشان تک نہیں تھا یعنی وہ اسے چھوڑ کر جاچکا تھا وہ پژمزدہ انداز میں چلتی ہوئی اپنی گاڑی تک آئی پرس سیٹ پر پھینکا اور خود سیٹ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ کر سر سٹیئرنگ سے لگا کر رونے لگی ۔۔۔
کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اس کی خوبصورت سبز آنکھیں رونے سے سرخ ہو چکی تھی ایک گہرا سانس بھر کر اس نے خود کو کمپوز کیا اور پاس پڑا فون اٹھایا
"چار گھنٹے !! مجھے ادھر بیٹھے چار گھنٹے ہو گئے اور اس ظالم نے ایک فون بھی نہیں کیا !!"وہ ٹائم دیکھتی ہوئی بڑبڑائی
کچھ سوچ کر اس نے شہریار کا نمبر ملایا جو مسلسل بزی جا رہا تھا
" شیری کال می !! " اس نے ٹیکسٹ کیا
کافی دیر تک کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے سلگتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی اور شہریار کے گھر کی جانب روانہ ہو گئی ۔۔۔
شہریار کے بڑے سے محل نما گھر کے ڈرائیو وے پر اس نے گاڑی پارک کی اور نیچے اتر کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مین دروازے پر پہنچ گئی
بیل بجانے سے پہلے اس نے اپنی انگلیاں بالوں میں چلاتے ہوئے انہیں درست کیا ۔۔
بیل بجائی اور جلدی سے اپنی شرٹ کو کھینچ کر درست کیا سلوٹیں دور کی !! بیل کا جواب نہیں آیا اس نے لیونگ روم کی کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش مگر دبیز پردوں کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آیا وہ پلٹ کر گاڑی کی طرف گئی اور اپنے پرس سے گھر کی چابی نکالی اور واپس اوپر آئی اب وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکی تھی پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا
" ہیلو !! شیری کہاں ہو ؟؟؟ " وہ آوازیں دیتی ہوئی آگے بڑھی اندر ہی شہریار کا بیڈروم تھا جسکا دروازہ ہلکا سا وا تھا اندر سے اس کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔۔
وہ دھیرے سے آگے بڑھی سامنے ہی شیری جینز پہنے بنا شرٹ کے کانوں میں ہیڈفون لگائے اپنے آفس اسٹاف کو ہدایات دے رہا تھا ساتھ ہی ساتھ بیڈ پر ایک سوٹ کیس کھلا پڑا تھا جس میں وہ کپڑے رکھ رہا تھا شاید کسی بزنس ٹرپ پر جا رہا تھا ۔۔۔
وہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی لمبا چوڑا ورزشی جسامت والا شیری !! ایسے ہی تو وہ اس پر نہیں مر مٹی تھی بنا آواز کئیے وہ دھیرے سے آگے بڑھی اور شہریار کے برہنہ شانے سے سر ٹکا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔
شاہ بی بی سے بات کرنے کے بعد شہریار اپنا مائنڈ بنا چکا تھا اس نے سب سے پہلے استنبول جانا تھا اپنی ایک بہت اہم میٹنگ کو جلدی سے نپٹا کر وہی سے پاکستان روانہ ہونا تھا !! وہ بھی تڑپ رہا تھا اپنے ماں باپ سے ، اپنی بہن سے ، سب سے بڑھ کر اپنی جان سے پیاری دادی شاہ بی بی سے ملنے کے لئے ، سارے کاموں سے نپٹ کر سیٹ بک کروا کر وہ نہا کر نکلا کےاسے رات کی فلائٹ سے ترکی روانہ ہونا تھا بستر پر بیگ رکھے وہ اپنی پیکنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیکریٹری کو ہدایات دے رہا تھا تب ہی اچانک کسی نے اس کے شانے پر سر رکھا وہ تیزی سے پیچھے مڑا۔۔۔
"تم !! تم اس وقت ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ " فون بند کرکے وہ عروہ کی جانب پلٹا
" میں کب سے تمہیں کال کر رہی تھی میسجز بھی چھوڑے کیا تم نے چیک نہیں کیا۔۔۔" اس نے ٹھنک کر کہا
" کیسے میسجز میں مصروف تھا بہر حال کہو کیسے آنا ہوا ؟ " وہ ٹی شرٹ اٹھاتے ہوئے بولا
"رہنے دو نا !! میں ہی تو ہوں " وہ اس کے ہاتھ سے شرٹ لیتی ہوئی بولی
"اپنی لمٹ میں رہو مجھے شادی سے ایسی بےتکلفی پسند نہیں !! " یہ کہہ کر اس نے اپنی شرٹ اس کے ہاتھ سے چھینی اور پہن لی
" اوہ !! اور آج صبح آفس میں جو میرے ساتھ بےتکلفی کا مظاہرہ کیا اسے کس کھاتے میں ڈالو گئے مسٹر شہریار ؟؟ " وہ غرائی
" دیکھو عروہ !! سویٹ ہارٹ میں اس وقت بزی ہوں تین گھنٹے میں مجھے فلائٹ پکڑنی ہے ایک دو ہفتے میں میں واپس آجاونگا پھر کھل کر بات کرینگے ۔۔۔" اس نے سمجھایا
" شیری تم کدھر جا رہے ہو ؟؟ مجھے بتائے بنا ۔۔" وہ دو ہفتے کا سن کر حواس باختہ ہوئی
" میں ایک کام سے استنبول جا رہا ہوں وہاں تین دن ٹہر کر پاکستان جاؤنگا ۔۔۔"
" پاکستان !!!نہیں شیری ایسا مت کرو تم نے تو کہا تھا تم اپنے بابا سائیں کو یہی بلاوگے علاج کیلئے ۔۔۔۔"
" عروہ !!! میرا جانا ضروری ہے بس دو ویک کی تو بعد ہے پھر میں واپس ادھر آجاؤں گا تمہارے پاس ۔۔۔"
"نہیں شیری میں میں !!! " وہ کہتے کہتے رک گئی اور پلٹ کر جانے لگی
شہریار نے تیزی سے اس کی کلائی تھام کر اسے روکا
" کہا جا رہی ہو ؟؟ "
"میں گھر جا رہی ہوں !! "
"کیوں!! اپنی بات تو مکمل کرو ۔۔۔"
"شیری ہاتھ چھوڑو مجھے ابھی گھر جا کر پیکنگ کرنی ہے ڈیڈ سے بات کرکے سیٹ بک کرانی ہے !! "
" تم کہاں جا رہی ہو ؟؟ "
" تم نہیں ہم !! میں تمہارے ساتھ جا رہی ہوں پہلے استنبول پھر پاکستان ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولی
" دماغ درست ہے تمہارا ۔۔۔میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتا ۔۔۔" وہ تپ گیا
"مگر کیوں ؟؟؟ پیار کرتے ہو مجھ سے شادی کیلئے پرپوز تک کرچکے ہو !! تو پھر ساتھ لے جانے میں کیا قباحت ہے ؟؟ یا پھر میں یہ سمجھوں کہ تم مجھ سے اتنے عرصے سے فلرٹ کررہے تھے ؟؟ " وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی
" عروہ !! جاؤ جو کرنا ہے کرو ۔۔۔" وہ ضبط کرتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹک کر بولا
عروہ ایک نظر اس کے غصہ سے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گئی
______________________________________
وہ کانوں پر بلیو ٹوتھ لگائے مسلسل رخسار آپی سے باتوں میں مصروف تھا
" آپی آپ خود کو ایک بار تو میری جگہ رکھ کر سوچیں شادی زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہوتا ہے اور میرے سر پر تو آپ سب نے ایک ناپسندیدہ ہستی کو تھونپ دیا ہے ۔۔" وہ انہیں سمجھا رہا تھا
" شیرو کوئی اور راستہ نہیں ہے ؟؟ کیا تم واقعی اسے نہیں اپناؤ گئے ؟؟ "
"نہیں ...میرے نزدیک اس کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور آپ بیفکر رہیں میں اسے کسی ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بناؤ گا بس ایک سال ہی کی تو بات ہے کرلونگا برداشت ۔۔۔"
"تم اتنا منفی کیوں سوچ رہے ہوں سویرا کو ایک موقع دیکر تو دیکھو یقین کرو وہ ایک وفا شعار بیوی ثابت ہوگی تمہاری زندگی میں خوشیاں بھر دے گی ۔۔ "
" آپی پلیز مجھے سبز باغ دکھانا بند کریں مجھے کسی وفا شعار ٹائپ بیوی کی ضروت نہیں ہے اس لئیے براہ مہربانی مجھے قائل کرنے کی کوشش مت کریں۔ ۔۔"
" شاہو !! اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا دیکھنا ایک دن تمہاری زندگی میں اس کی بہت اہم جگہ بن جائے گی تمہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت ہو جائیگی پھر میں دیکھوں گی کہ تم کیسے محبت سے منھ موڑو گئے ؟ ڈرو اس وقت سے جب تم سویرا سے محبت کی بھیک مانگو گے ۔۔ "
"سیریسلی آپی !! آپ مجھے بہت انڈر ایسٹیمیٹ کررہی ہیں بہرحال آپ کی اطلاع کے لئیے میں اپنی وائف ٹو بی سلیکٹ کرچکا ہوں ۔۔۔۔"
ابھی وہ بات کرہی رہا تھا جب ڈرائیور نے گاڑی ائیرپورٹ اینٹرینس پر روکی ۔۔
" سر !! ائیر پورٹ آگیا ہے ۔۔۔" باوردی ڈرائیور نے اتر کر دروازہ کھولا
اس نے فون بند کیا اور بڑے اطمینان سے کاندھے پر ٹریول بیگ لئیے ہاتھ میں بریف کیس لیکر نیچے اترا سن گلاسز آنکھوں پر لگائے اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا اندر داخل ہو گیا
ہیتھرو دنیا کا ایک مصروف ترین ائیر پورٹ جہاں منٹ منٹ پر فلائٹس لینڈ اور ٹیک آف کرتی ہیں یہاں ہمہ وقت ایک گہما گہمی سی نظر آتی ہے ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے
وہ تمام سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اب آرام سے اپنا کوٹ اتار کر آستینیں فولڈ کرکے ویٹنگ لاونج میں بیٹھ کر اپنے بریف کیس سے لیب ٹاپ نکال کر ای میلز کرنے میں مصروف تھا جب اسے اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ۔۔۔
_______________________________________
عروہ انتہائی غصہ میں گھر واپس آ گئی تھی شہریار کی سیکرٹری سے اس کا ٹریول پروگرام فلائٹ ڈیٹیل لیکر اپنی آن لائن بکنگ کروا چکی تھی اور اپنے ڈیڈ سے ضد کرکے اب ائیر پورٹ جانے کیلئے تیار کھڑی تھی اس کی مام نے اسے آخری لمحے تک سمجھانے کی کوشش کی پر وہ نہیں مانی ۔۔۔
" عروہ ڈارلنگ ایک بار پھر سوچ لو تم پاکستان میں کیسے رہو گی ؟؟ دو دن بھی نہیں ٹک سکو گئی ادھر ۔۔۔"
" مام پلیز !! میں کسی بھی قیمت پر شیری کو ادھر اکیلا نہیں جانے دے سکتی آپ تو مجھے سمجھیں !! " اس نے سنجیدگی سے کہا
" تم آج تک پاکستان نہیں گئی ہو ادھر کا ماحول بہت الگ ہے آخر تم ادھر کیسے رہو گی ذرا سی دھول تمہیں برداشت نہیں ہوتی اور ادھر تو ۔۔۔۔"
" مام پلیز !! " عروہ نے انہیں ٹوکا
" میں کوئی ادھر رہنے نہیں جارہی بس شیری کے پیرنٹس سے مل کر اسے اپنے ساتھ لیکر واپس لے آؤ نگی ۔۔۔" عروہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا
وہ اپنی مام کے گال چومتی ڈیڈ کو بائے کہتی باہر نکل گئی جہاں اس کے ڈیڈ کا ڈرائیور اسے ائیر پورٹ لے جانے کیلئے تیار کھڑا تھا
ائیرپورٹ پہنچ کر وہ تمام سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اب ویٹنگ لاونج میں شہریار کو ڈھونڈ رہی تھی جب اس کی نظر شہریار پر پڑی جو سامنے ہی صوفہ پر بیٹھا لیب ٹاپ پر مصروف تھا وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک سی گئی جیل سے سیٹ کئیے ہوئے گھنے بال وجیہہ چہرے پر سنجیدگی لئیے وہ دور سے بھی لاکھوں میں ایک نظر آرہا تھا
اس نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر درست کیا پرس میں سے گلوس نکال کر خود کو فریش اپ کرنے کے بعد وہ شہریار کی جانب بڑھی قریب پہنچ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ تیزی سے پلٹا
" عروہ !! تم ۔۔۔"شہریار کی آنکھوں میں ناگواری امڈ آئی
" کیوں کیا ہوا ؟؟ مجھے دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی ۔۔" عروہ اس کے سامنے آکر بولی
" عروہ سیریسلی اٹس ٹو مچ !! میں کام سے جا رہا ہوں فن ٹرپ پر نہیں جو تم میرے ساتھ چلو ہر بات کی حد ہوتی ہے ۔۔۔" وہ غصہ دباتے ہوئے بولا
" شہریار !! تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں مجھے ڈر لگتا ہے سنا ہے دیسی پیرنٹس بہت خطرناک ہوتے ہیں اگر تمہارے بابا نے تمہاری زبردستی شادی کردی تو ؟؟ میں تو مر جاؤنگی نا ؟؟ " اس کا لہجہ بھرا گیا
" سو اٹ مینس یو ڈونٹ ٹرسٹ می ؟؟ " وہ سرد لہجے میں بولا
" ایسا مت کہو ٹرسٹ کرتی ہوں !! بہت ٹرسٹ کرتی ہوں جبھی تو کسی بھی رشتے کے بغیر تمہاری راہ پر چل رہی ہوں ۔۔۔" اس نے شہریار کے کندھے پر سر رکھا
جینز شرٹ میں ملبوس سنہرے بالوں کو پشت پر بکھرائے وہ لاؤنچ میں بیٹھے لوگوں کی توجہ کھینچ رہی تھی شہریار کے چہرے پر ناگواری کی رمق سی چمکی
" کیا تمہیں میری پریشانی کا بھی کچھ اندازہ ہے مجھے بزنس میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے استنبول میں ، اس کے بعد فوراً پاکستان روانگی ہے مجھے اپنے بابا کو ہسپتال میں دیکھنا ہے ان کو علاج کیلئے ساتھ لانے کی کوشش کرنی ہے ایک تو ادھر پہلے ہی سارے لوگ بہت کنزرویٹو ہیں اوپر سے بغیر شادی کے کسی لڑکی کا اس طرح میرے ساتھ آنا تو ؟؟ تم میرے لئے صرف اور پرابلمز کھڑی کرو گی۔۔" شہریار اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بولا
"سچ کہو تمہیں میرا اپنے ساتھ آنا برا لگ رہا ہے نہ یہی بات ہے نا ؟؟ " عروہ کی سبز آنکھوں میں نمی امنڈ آئی
"تم اچھی طرح جانتی ہو ایسی بات نہیں ہے میری تم سے کمٹمنٹ ہے اور میں کمٹمنٹ نبھانے والا بندہ ہوں چلو اپنا سامان سمیٹو ہو بورڈنگ اناؤنس ہو رہی ہے۔۔۔" وہ لیب ٹاپ بند کر کے بیگ میں ڈالتے ہوئے اپنا کوٹ اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو گیا
________________________________________
" شاہ بی بی !! اگر وہ ایک سال بعد بھی نا راضی ہوا تو ۔۔۔" زاہدہ کے لہجے میں اندیشے تھے
" جی شاہ بی بی آپ ایک بار پھر سوچ لیں ایسا نا ہو سال بعد اس نے اگر سویرا کو خدا ناخواستہ چھوڑ دیا تو ۔۔۔" رخسار بھی فکر مند تھیں
" ایسا کچھ نہیں ہوگا یہ بات خاندان کے شملہ کو اونچا رکھنے کیلئے ضروری تھی ویسے بھی شاہو کی رگوں میں ہمارا خاندانی خون دوڑ رہا ہے جب ایک بار شادی ہو جائے گی تو وہ پھر کبھی بھی برداشت نہیں کریگا کہ اس سے منسلک عورت اس کی عزت کو کوئی ایرا غیرا دیکھے دوسری شادی بیاہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کی غیرت اسے کبھی بھی ایسا فیصلہ لینے نہیں دیگی ۔۔ " شاہ بی بی کے لہجہ میں مضبوطی تھی مان تھا
" لیکن سویرا کے وجود کو تو اس نے نکاح کے بعد بھی تسلیم نہیں کیا تھا وہ تو اسے پہلے دن سے چھوڑنے کی رٹ لگائے بیٹھا ہے آپ دیکھ لیں شاہ بی بی کہیں پھر ہماری طرف سے زیادتی نا ہو جائے ۔۔۔" زاہدہ سنجیدگی سے بولیں
" اسی لئیے تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے جب تک وہ سویرا کو دیکھے گا نہیں جانے گا نہیں تو فیصلہ کیسے کریگا ؟؟ ایک سال تو کچھ نہیں ہوتا بس ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے محبت کو وحی بن کر دل میں اترنے کے لئے!! اور مجھے پورا یقین ہے شاہو کے دل میں ایک دن سویرا راج کریگی " شاہ بی بی نے رسان سے سمجھاتے کہا
سویرا جو سب کو رات کے کھانے کیلئے بلانے آئی تھی اندر سے آتی آوازوں کو سن کر اپنی جگہ منجمد سی ہوگئ یہ قسمت اس کے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہی تھی اس کی سگی دادی اسے ایک سال کیلئے داؤ پر لگا رہی تھیں
وہ چپ چاپ پلٹ گئی اور مائی کو اندر کھانے کے لئیے سب کو بلانے کے لیے بھیج کر خود میز لگانے لگی
فرزانہ پھوپھو ہسپتال میں بابا سائیں کے پاس تھیں باقی سب افراد رات کے کھانے کیلئے میز پر موجود تھے سویرا بھی چپ چاپ سر جھکائے بیدلی سے پلیٹ میں چمچہ ہلا رہی تھی جب شاہ بی بی کی آواز گونجی
" ٹھیک دو روز بعد شاہو واپس آرہا ہے اس کے آتے ہی ہم سویرا کی رخصتی کردینگے !! زاہدہ تم مہمانوں کی لسٹ بنا لو اور رخسار تم شاہو کا کمرہ کھلوا کر درست کروا لو باقی آپ مرد حضرات کل اسپتال چلیں اور سلیم سے مشورہ کر کے تیاری شروع کریں ساتھ ہی ساتھ سویرا کا پاسپورٹ اور ویزا کروائیں ۔۔۔" انہوں نے اعلان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سب میں کام بانٹ دئیے
_______________________________________
رات کا وقت تھا سب کھانا کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے زاہدہ تائی اور رخسار آپی شاہ بی بی کے ساتھ ان کے کمرے میں چلی گئی تھی وہ سارے کام سمیٹ کر چپ چاپ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔
بڑے سے صحن میں آتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس سے ٹکرائے موسم سرد تھا ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی وہ چپ چاپ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئی
اس کے وجود پر اداسی چھائی ہوئی تھی ایک عجیب سی
یاسیت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا ماں جیسی تائی امی کا بدلتا رویہ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا خود ساختہ انا اسے بہت تیزی سے ہر رشتے سے دور کر رہی تھی اس کا ذہن شدید قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا سر درد سے پھٹا جا رھا تھا دل بھر آیا تھا کالی سیاہ آنکھیں برس رہی تھیں وہ سب کچھ خود پر سہہ تھی
" کاش بابا آج آپ زندہ ہوتے !! تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا اتنی ذلت !! اللہ میاں مجھے میرے بابا کے پاس بھیج دے ۔۔۔" وہ رو پڑی
ٹھنڈ اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی پہ در پہ چھینکیں آنی شروع ہو چکی تھی وہ ہمت کرکے اٹھی اور اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھی
کمرے میں داخل ہو کر وہ خود کو سر سے پیر تک لحاف میں پیک کر کے لیٹ گئی تھی مگر سردی کم نہیں ہوئی اس کا پورا وجود سردی سے کانپ رہا تھا ۔۔۔
" سویرا !! اٹھو جلدی سے دودھ پی لو تم نے کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا آج ۔۔۔" رخسار کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ہی تھی کہ اس کے لحاف میں پیک وجود کو دیکھ کر قریب آئیں سر سے لحاف اٹھایا تو اس کا تپتا ہوا سرخ چہرہ دیکھ کر چونک گئیں
" سویرا چندا کیا ہوا ؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ " انہوں نے پریشانی سے اسے دیکھا
سویرا نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر انہیں دیکھا تو وہ اس کی لال سرخ آنکھوں کو دیکھ کر بےحد پریشان ہوگئیں تیزی سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا
" یا اللہ تمہیں تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے !! تم ایک منٹ ویٹ کرو میں دوا لے کر آتی ہوں " وہ اسے اچھی طرح سے لحاف اوڑھاتے ہوئے بولیں
" رخسار آپی رہنے دیں میں بہت ڈھیٹ ہڈی ہوں اتنی آسانی سے نہیں مرنے والی ۔۔" وہ بھرائے۔
__________________________________
صبح کا وقت تھا جب رخسار شاہ بی بی کے کمرے میں وضو کروانے کے لیے آئیں
" سویرا کدھر ہے ؟؟ " انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا
"بی بی جان اسے رات سے بخار ہے میں نے دوا دی تھی ابھی سو رہی ہے ۔۔۔" رخسار ان کے لئیے جائے نماز بچھاتے ہوئے بولیں
" ٹھیک ہے وہ جیسے ہی اٹھے اسے ہمارے پاس بھیج دینا ۔۔۔" انہوں نے نیت باندھنے سے پہلے حکم دیا
رخسار اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی
رخسار کچن میں تیزی سے ملازمہ کی مدد سے سب کا ناشتہ تیار کروا رہی تھیں آج سویرا کی غیر موجودگی کی وجہ سے سب کاموں میں دیر ہو رہی تھی سب کو ناشتہ کمروں میں بھجوا کر وہ سویرا کیلیئے دودھ ڈبل روٹی ٹرے میں رکھ کر کچن سے نکلی ہی تھیں کہ مین دروازے سے فرزانہ پھوپھو اندر داخل ہوئی
"السلام علیکم پھپھو جان !! " رخسار نے جھٹ سے سلام کیا
وہ اشارے سے جواب دیتی ہوئی تنے ہوئے چہرے کے ساتھ شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں
"کیا ہوا رمیز !! پھوپھو اتنے غصہ میں کیوں ہیں ؟؟ " رخسار نے پوچھا
" کچھ نہیں بھابھی بس اکرم بھیا نے انہیں رات ہی شہریار بھائی کے آنے کی اطلاع دے دی تھی اماں نے ہسپتال میں بڑی مشکل سے رات کاٹی ہے" رمیز نے رپورٹ دی
" اچھا دیور جی تم جا کر فریش ہو میں ناشتہ بھجواتی ہوں ۔۔۔" رخسار ٹرے لیکر سویرا کے کمرے کی طرف بڑھیں
_____________________________________
" شاہ بی بی یہ میں کیا سن رہی ہوں آپ شاہو کہ ساتھ اس کرم جلی کو رخصت کر رہی ہیں ؟؟ " وہ چادر اتار کر پرس کو میز پر پٹختے ہوئے بولیں
" نا سلام نا دعا ؟؟ فرزانہ آتے کہ ساتھ ہی سوال ؟؟ یہ مت بھولوں کہ تم ہم سے مخاطب ہو اور ہم کسی کو جواب دہ نہیں !!! " شاہ بی بی سرد لہجے میں بولیں
" معذرت چاہتی ہوں لیکن کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟؟ آپ کو پوری دنیا میں بس یہی لڑکی ملی تھی میرے شاہو کے لیے؟؟ کیا سارے گاؤں کی لڑکیاں مر گئی ہیں اپنی برادری میں بھی کوئی لڑکی نہیں ملی جو اس منحوس کو زبردستی میرے بچے کے گلے باندھ رہی ہیں ۔۔۔" فرزانہ پھٹ پڑیں
" شاہو ہمارا بھی بچہ ہے اور یہ کوئی نیا فیصلہ تو نہیں !! نکاح تو ان دونوں کا بہت پہلے ہی ہوچکا ہے اب تو بس رخصتی ہی باقی ہے اور اس میں برائی بھی کیا ہے؟؟ " شاہ بی بی تحمل سے بولیں
"میں کہتی ہوں کیا یہی دنیا سے نرالی منحوس لڑکی میرے بھتیجے کے لئے رہ گئی تھی اپنے باپ کو تو کھا چکی ہے اب دیکھنا یہ میرے شاہو کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے !! میرے خوبرو لائق بھتیجے کیلیئے کیا یہی رہ گئی تھی ؟؟ اور نکاح کا کیا ہے کبھی بھی توڑا جا سکتا ہے میں تو کہتی ہو آپ ابھی بھی وقت ہے اس بے جوڑ رشتے کو ختم کر دیں ۔۔۔"
"فرزانہ بس کرو تمہاری زبان کے آگے تو خندق ہے اب یہ فضول گوئی بند کرو !! میری سویرا تو اتنی خوبصورت نیک دل اور حساس لڑکی ہے جو ڈھونڈنے سے بھی نا ملے ، سب کا خیال رکھنے والی طبیعت کی بھی بہت نیک ہے دیکھنا شادی کے بعد شاہو کو سنبھال لے گی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بولیں
" آپ نے شاہو سے پوچھا ؟؟ یا اس بار بھی خود ہی فیصلہ کرلیا ہے ؟؟ " فرزانہ نے پوچھا
" شاہو سے پوچھ کر ہی رخصتی طے کی ہے " شاہ بی بی روکھے لہجے میں بولیں
" سب سے پوچھ لیا ساری باتیں طے کر لی اور مجھے کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا بس یہی عزت رہ گئی ہے میری کہ اب مجھ سے باتیں چھپائی جاتی ہیں۔۔" وہ روہانسی ہو گئی
" بس فرزانہ بہت ہوگیا جاؤ !! اب میں آرام کروں گی اور شادی میں خوشی خوشی شریک ہو سکتی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ آرام سے اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ خبردار جو میرے بچوں کی خوشیوں میں کوئی ٹانگ اڑائی ۔۔۔"
________________________________________
عروہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی
" کم آن عروہ !! دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ " وہ جھنجھلا کر بولا
" شیری سچ کہو تم مجھ سے پیار کرتے ہو نا ؟؟ "وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی
" عروہ ہنی !! تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں پیار عشق ان فضولیات پر یقین نہیں رکھتا میرے نزدیک انڈرسٹینڈنگ فرینڈ شپ اہم ہے اور جب ہم شادی کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو اب اتنی بے اعتباری کیوں ؟؟ "
" شیری میں تمہارے معاملہ میں بہت حساس ہوں پتا نہیں کیوں پر تمہیں کھونے سے ڈرتی ہوں ۔۔" وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے نزدیک آئی
" عروہ !! میں اس ٹرپ سے واپس آجاؤں تو تمہاری اس بے اعتباری کا علاج کرتا ہوں ۔۔" اس نے کہا
" بس ایک وعدہ کرو !! " عروہ نے اس کے گلے کے میں ہاتھ ڈالے
" چاہے جیسے بھی حالات ہوں چاہے کچھ بھی ہو جائے پر تم کبھی بھی مجھے نہیں چھوڑوں گئے ہمیشہ میرے رہو گئے ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی
" لیٹس گو عروہ دیر ہو رہی ہے ۔۔۔" شہریار نے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا
" پہلے وعدہ کرو شیری !! " وہ ضدی لہجے میں بولی
" اوکے پرامس !! بس اب خوش ؟؟ "
" جینٹلمین پرامس ؟؟ " عروہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا
" اوکے بابا جینٹلمین پرامس !! اب چلیں ؟؟ میں فلائٹ مس نہیں کرنا چاہتا ۔۔" وہ زچ ہو کر رہ گیا تھا
" ٹھیک ہے شیری !! یاد رکھنا تم نے مجھے زبان دی ہے !! اب تم جاؤ اور جلد واپس آنا اپنے پیرنٹس کو ہماری شادی کیلئے منا کر آنا ۔۔۔" عروہ اپنا ٹکٹ پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے بولی
" تم نہیں آرہی ؟؟ " وہ حیران ہوا
" نہیں میں تمہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی اور نا ہی یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھے ان سیکیور ٹائپ لڑکی سمجھو ۔۔اب تم جاؤ میں تمہاری واپسی کا انتظار کرونگی ۔۔" وہ اداسی سے بولی
فلائٹ کی بورڈنگ اناؤسمنٹ بار بار ہو رہی تھی وہ اسے گڈ بائے کہتا ہوا تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلا گیا
___________________________________
رخسار آہستگی سے سویرا کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا انہوں نے کھڑکی سے پردے ہٹائے تو سورج کی کرنیں چھن چھن کرتی اندر داخل ہو گئی وہ ٹرے سائیڈ پر رکھ کر سویرا کے پاس آئیں لحاف ہٹا کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بخار تھوڑا کم تھا
" سویرا چندا اٹھو !! " انہوں نے پیار سے اسے جگایا
سویرا نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور رخسار کو دیکھ کر سلام کرتی ہوئی اٹھ بیٹھی
" چلو شاباش اٹھو جلدی سے منھ ہاتھ دھو کر آؤ " وہ اس کا بستر ٹھیک کرتے ہوئے بولی
سویرا خاموشی سے اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی کچھ دیر میں وہ تولیہ سے منھ پوچھتی باہر نکلی
"سویرا !! یہ تھوڑا سا دودھ پی لو اور ساتھ میں یہ ٹیبلیٹ لے لو طبیعت بہتر ہو جائے گی " رخسار نے نرمی سے کہا
وہ اثبات میں سر ہلاتی دودھ کا گلاس اور دوا اٹھا کر پینے لگی رخسار یک ٹک اس کے معصوم کمسن حسن کو دیکھ رہی تھیں واقعی اگر قسمت اچھی نا ہو تو بےپناہ حسن و جمال بھی کسی کام کا نہیں ہوتا
" اچھا سنو شاہ بی بی تمہیں یاد کررہی تھیں ان سے جا کر مل لو میں جب تک تمہارے لئیے سوپ بنواتی ہوں ۔۔۔"
"رخسار آپی !! پلیز آپ تو میرا ساتھ دیں شاہ بی بی کو منع کریں کہ وہ ایسا نا کریں اس طرح تو میں ساری زندگی سر اٹھا کر نہیں جی سکوں گی میرا سارا غرور خاک میں مل جائے گا آپ جانتی تو ہیں وہ کتنے انا پرست ہیں یوں زبردستی مجھے ان پر مسلط مت کریں پلیز تمام عمر کے لیے میری ہی نظروں سے نہ گرائیں ۔۔۔" سویرا ان کے ہاتھ تھام کر رو پڑی
" سویرا گڑیا !! تم اتنا منفی مت سوچوں دیکھنا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا اور اگر شاہو نے تمہیں تنگ کیا تو تم اکیلی نہیں ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہی ہیں چندا !! " رخسار نے بڑے پیار سے اس کے آنسو پونچھے
چلو شاباش جلدی سے شاہ بی بی سے مل آؤ ۔وہ انتظار کر رہی ہیں " رخسار باہر نکلتے ہوئے بولیں
________________________________________
" اسلام علیکم !! شاہ بی بی آپ نے یاد فرمایا تھا ۔۔" سویرا نے اندر داخل ہوتے ہی کہا
"آؤ بیٹی ادھر میرے پاس آکر بیٹھو ۔۔ " انہوں نے اپنے پہلو میں اس کیلیئے جگہ بنائی
"سویرا بیٹی!!! تم جانتی ہو ہم خاندانی لوگ ہیں ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی ہے اس کے کچھ اصول ہیں کچھ روایات ہیں جن کی پاسداری ہم سب کا فرض ہے ۔ہم اپنی لڑکیوں کی شادی خاندان سے باہر نہیں کرتے اور تمہارا نکاح تو بہت پہلے ہو چکا ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ ہم تمہارے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔۔ "
" شاہ بی بی !! " وہ ہچکچائی
" کیا ہوا سویرا !!! یہ ایسی کون سی انوکھی بات ہے جو تم اتنا پریشان ہو رہی ہو یہ رشتہ تو بہت پہلے سے طے تھا رخصتی تو بس ایک فارمیلٹی ہے "
"شاہ بی بی میری سمجھ میں نہیں آرہا میں کیا کہوں کیسے آپ کو سمجھاؤں " وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے بےبسی سے بولی
" سویرا جو تمہارے دل میں ہے وہ کہو ۔ اپنے دل سے ہر اندیشہ کو نکال پھینکو خوشیاں تمہارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرو ۔۔۔" شاہ بی بی رسانیت سے بولیں
" مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے وہ اس رشتے کو پسند نہیں کرتے ۔۔۔" سویرا نے بمشکل کہا
"دیکھو بچے ہر انسان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے مانا کے تم لوگوں کے مزاج میں فرق ہے سوچ بھی مختلف ہے لیکن شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جاتا ہے تم پریشان مت ہو جب اس پر ذمہ داری پڑھے گی تو وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔" انہوں نے سنجیدگی سے سمجھایا
" مگر !! " سویرا نے سر اٹھایا
"زندگی ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں اس لیے بجائے رونے دھونے کہ کیوں نہ تم اپنے دل کو یہ تسلی دوں کہ تم یہ مرحلہ طے کر سکتی ہو خوشیوں پر تمہارا بھی حق ہے ہاتھ بڑھاؤ اور سمیٹ لو۔۔۔" انہوں نے اس کی بات کاٹی
سویرا خاموشی سے سر جھکا کر رہ گئی
" کل رات تک شہریار پہنچ جائیگا بس پھر جلد ہی یہ رسم ادا کر دی جائیگی اب تم جاؤ اور خوش رہنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔"
_________________________________________
استنبول میں ایک کامیاب بزنس ڈیل سائن کرنے کے بعد وہ پاکستان کیلئے روانہ ہوچکا تھا اب اس کا دماغ آگے کا لائحہ عمل سوچ رہا تھا وہ کسی بھی صورت سویرا کو اپنے ساتھ لانا نہیں چاہتا تھا بس کسی بھی بہانے اسے پاکستان چھوڑ کر واپس آنے کا وہ پکا ارادہ کر چکا تھا
_______________________________________
آج صبح سے ہی پوری حویلی میں ایک گہما گہمی مچی ہوئی تھی رخسار آپی اور اکرم بھائی ائیرپورٹ روانہ ہوچکے تھے ۔ شاہ بی بی خود ملازمین کو ہدایات دے رہی تھیں باورچی خانے کا مینیو بھی انہوں نے ہی ترتیب دیا تھا اور اب اپنے کمرے میں انہوں نے سویرا کو طلب کیا
" اسلام علیکم !! شاہ بی بی " سویرا دروازہ کھٹکھٹا کر اجازت لیکر اندر داخل ہوئی
" وعلیکم اسلام !! آؤ بیٹی ۔۔۔۔" انہوں نے بغور اس کا جائزہ لیا جو ملگجے سے لباس میں ملبوس تھی چوٹی میں سے بال نکل رہے تھے چہرہ پر پژمردگی سی چھائی ہوئی تھی
" سویرا یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ؟؟ اللہ کے کرم سے تمہارے سر کا سائیں واپس آرہا ہے اور ان بی بنو کو دیکھو ؟؟ نا لباس ڈھنگ کا ہے سر پر کنگھی تک نہیں کی ہوئی اور ہاتھ کان سب خالی !! اتنی بدشگونی مت پھیلاؤ جاؤ جا کر حلیہ درست کرو اور ہاں شہریار کا کمرہ اپنی نگرانی میں کھلوا کر درست کروا لینا بچہ شام تک آجائیگا اسے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیئے ۔۔۔" انہوں نے تسبیح گھماتے ہوئے حکم دیا
شاہ بی بی سے کچھ بھی کہنا عبث تھا وہ آنسو پیتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی اس کا رخ شہریار کے کمرے کی طرف تھا جو سالوں سے بند پڑا تھا لیکن زاہدہ تائی ہفتے کے ہفتے اس کمرے کی صفائی اور ڈسٹنگ کرواتی رہتی تھی وہ بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی کمرے کے دروازے تک آئی ناب پر ہاتھ رکھا تو دروازہ کھلا ہوا تھا اندر زاہدہ تائی ملازمہ سے صفائی کروا رہی تھیں
" ارے سویرا !! اچھا ہوا بیٹی تم آگئی اب اپنی نگرانی میں یہ کمرہ درست کروا لو اور اس کے بعد سیدھا میرے پاس آنا ۔۔۔" انہوں نے آگے بڑھ کر پیار سے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا
" جی تائی امی !! میں دیکھ لونگی !! " سویرا نے سعادت مندی سے جواب دیا
___________________________
پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اسے مٹی کی مانوس سی خوشبو کا احساس ہوا یہ فضائیں اپنے اندر ماں کی آغوش جیسی گرمی سموئے ہوئے تھیں وہ ان فضاؤں میں سانس لیتے ہی بےچین ہو اٹھا اتنے سال کی خود ساختہ جلا وطنی کی سزا تو اس نے خود اپنے لئیے منتخب کی تھی لیکن شاید چار سال پہلے لیا گیا یہ فیصلہ اس کیلئے بہتر ثابت ہوا تھا آج وہ ایک کامیاب بزنس مین کی حیثیت سے کھڑا تھا جس سے ملنے کیلئے بڑی بڑی کمپنیاں کوشاں رہتی تھیں ۔۔
اتنے عرصے بعد وہ اپنے گھر لوٹ رہا تھا ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو سامنے ہی کشمیری شال میں لپٹی ہوئی سوبر سی رخسار آپی اور خوبرو سے اکرم بھائی اس کا انتظار کررہے تھے ۔۔۔
" اسلام علیکم !! " وہ تیزی سے ان کے قریب آیا
" وعلیکم اسلام " اکرم بھائی نے آگے بڑھ کر اسے گرم جوشی سے گلے لگایا
رخسار یک ٹک اسے دیکھ رہی تھیں چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد ، کھلتا ہوا گندمی رنگ جیل سے سیٹ بال سفید بےداغ شرٹ پر ٹائی لگائے آستینیں فولڈ کئیے ہوئے نیوی بلیو کوٹ ایک بازو پر ڈالے وہ مردانہ وجاہت کا جیتا جاگتا شاہکار لگ رہا تھا
" شکر اللہ کا اس نے تمہارا دیدار تو کروایا !! ماشاءاللہ تم تو وقت کے ساتھ مزید نکھر گئے ہو ۔۔۔" رخسار آپی اس کے سینے سے لگتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں بولیں
" رخسار !! اب بس کرو دیکھو شاہو پریشان ہو رہا ہے باقی کے گلے شکوے تم گھر جا کر کرلینا ۔۔۔" اکرم بھائی نے اپنی جذباتی سی بیگم کو ٹوکا
" آپی !! چلیں مجھے جلدی سے اسپتال لیکر چلیں مجھے بابا سائیں سے ملنا ہے شاہ بی بی کے سینے سے لگ کر اپنی سالوں کی تشنگی مٹانی ہے ۔۔" وہ رخسار کو اپنے بازوؤں کے حلقہ میں لیکر آگے بڑھا جہاں اکرم بھائی ڈرائیور کے ساتھ اس کا انتظار کررہے تھے
" چاند بخش !!! پہلے اسپتال کی طرف چلو !! " اکرم بھائی نے ڈرائیور کو ہدایت دی
_______________________________________
سویرا نے ملازمہ کے ساتھ مل کر سارا کمرا اپنی نگرانی میں صاف کروایا تھا یہ ایک بہت بڑا عالیشان کمرہ تھا جس کا آبنوسی فرنیچر اور دبیز قالین اس کی شان و شوکت مزید بڑھا دیتا تھا ۔۔اس کمرے کے ساتھ ہی اسٹڈی روم اور ڈریسنگ روم تھا کمرے کی کھڑکی پائیں باغ کی جانب کھلتی تھی ۔۔۔
سویرا نے سارے پردے تبدیل کئیے اور بیڈ شیٹ بھی نئی بچھائی باغیچہ سے پھول منگوا کر گلدان میں سجائے اور پھر توصیفی نگاہوں سے کمرے کا جائزہ لیکر باہر نکل گئی ۔۔
" سویرا بی بی آپ کو چھوٹی مالکن بلا رہی ہیں ۔۔" سیڑھیوں کے پاس اسے ملازمہ نے روک کر پیغام دیا
" ٹھیک ہے ۔۔ " وہ جواب دیتی ہوئی زاہدہ تائی کے کمرے کی جانب چلی گئی ۔
بڑے سے بیڈ پر زاہدہ رنگ برنگے ملبوسات پھیلائے ہوئے بیٹھی تھیں جب اجازت لیکر سویرا اندر داخل ہوئی
"تائی امی !! آپ نے بلوایا تھا؟؟ " اس نے پوچھا
" سویرا بیٹی یہ دیکھو!! یہ کچھ کپڑے ہیں تمہارے لئیے شہر سے منگوائے ہیں ۔۔۔" انہوں نے بیڈ پر بکھرے برینڈڈ ملبوسات کی طرف اشارہ کیا
سویرا نے ایک نظر ان دلکش رنگوں کے قیمتی جوڑوں پر ڈالی
"تائی امی!! اس سب کی کیا ضرورت تھی ؟؟ " وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
" سویرا تم میری بیٹی ہی نہیں بلکہ اکلوتی بہو بھی ہو اور میں چاہتی ہوں کہ تم سب سے الگ اور منفرد نظر آؤ تاکہ شہریار کی نظر میں آ سکوں جانتی ہو نا وہ اتنے عرصے ولایت میں رہ کر آرہا ہے میں چاہتی ہوں میری بہو سے جب وہ ملے تو دیکھتا ہی رہ جائے ۔۔۔" انہوں نے پیار سے سمجھایا
سویرا نے بجھے دل سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ ملبوسات اٹھائے یعنی اس کی محبت اور شخصیت کہیں نہیں تھی جو بھی تھا وہ شہریار کی پسند شہریار کی خواہش پر تھا وہ تو بس ایک کٹ پتلی تھی جو شاہ بی بی اور زاہدہ تائی کے ہاتھوں کی جنبش پر حرکت کررہی تھی
" اچھا سنو آج شام یہ نیلا والا سوٹ پہننا میرے شیرو کو نیلا رنگ بہت پسند ہے ۔۔۔" انہوں نے ہدایت دی
یہ قیمتی کپڑے اسے بھیک کی طرح ملی ہوئی عزت سے کم نہیں لگ رہے تھے ایسی عزت جس کا بار اٹھانا اس کے لئیے بہت کٹھن ثابت ہو رہا تھا وہ جانتی تھی کہ شہریار اسے مجبوراً اپنی زندگی میں شامل کررہے ہیں ۔۔
________________________________________
گاڑی اسپتال کے مین اینٹرینس پر رک چکی تھی وہ تینوں گاڑی سے اتر کر اندر داخل ہوئے
" شہریار پہلے تم اندر جا کر بابا سائیں سے آرام سے مل لو میں کچھ دیر میں رخسار کے ساتھ آتا ہوں ۔۔" اکرم بھائی نے کہا
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کمرے کا پوچھ کر آگے بڑھ گیا
" آپ نے مجھے کیوں روکا ؟؟ " رخسار نے سوال کیا
" میری پیاری بیگم !! تمہارا بھائی اس وقت بہت اموشنل ہورہا ہے بہتر ہے بابا سائیں سے اکیلے میں ملے اپنے دل کی بھڑاس نکال لے کچھ ان کی سنے کچھ اپنی سنائے !! جب تک آؤ میں تمہیں اچھی سی چائے پلواتا ہوں ۔۔۔"
_______________________________________
اسپتال پہنچ کر وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پرائیویٹ روم میں داخل ہوا آج ایک طویل عرصے کے بعد وہ اپنے بابا سائیں سے ملنے والا تھا
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر بیڈ پر گئی جہاں بارعب سے بابا سائیں آنکھیں بند کئیے لیٹے ہوئے تھے دائیں بازو میں ڈرپ لگی ہوئی تھی وہ اسے پہلے کی نسبت بہت کمزور لگے وہ آہستگی سے چلتا ہوا ان کے پاس آیا اور دھیرے سے ان کا ڈرپ لگا ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگایا ۔
" شہریار ؟؟ آگئے بیٹا ؟ " بابا سائیں اس کی خوشبو پہچان چکے تھے
" بابا سائیں ! آپ بلائیں اور میں نا آؤ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے میں تو برسوں سے اس انتظار میں تھا کہ کب آپ اور شاہ بی بی مجھے پکارتے ہیں "وہ شکوہ کناں لہجے میں بولا
" اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ " شہریار نے فکر مندی سے ان کا حال پوچھا
" طبعیت !! تو اب تم آگئے ہو تو خود ہی بحال ہو جائے گی بس خدا سے ایک ہی دعا ہے کہ مجھے اتنی مہلت ضرور دے کی میں تمہیں اور سویرا بیٹی کو اپنی زندگی میں ہنستا بستا دیکھ سکوں ۔۔ "
" بابا سائیں کیسی دل گرفتہ باتیں کرتے ہیں آپ ؟؟ آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گے اور ان دونوں کی رخصتی ولیمہ میں شریک ہونگے ۔۔" رخسار اندر آتے ہوئے بولیں
" اکرم میاں !! بڑے ڈاکٹر سے بات کرکے مجھے ڈسچارج کرواؤ مجھے شہریار کے ولیمے کی تقریب رکھنی ہے ۔۔۔" بابا سائیں نے کہا
" پر بابا سائیں !! وہ آپریشن ؟؟ "
" آپریشن کرواؤنگا لیکن دعوت ولیمہ کے بعد !!" وہ ضدی لہجے میں بولے
کافی دیر تک وہ سب باتیں کرتے رہے پھر اجازت لیکر حویلی کی طرف روانہ ہوئے
________
حویلی قریب آتی چلی جارہی تھی مگر کوئی احساس اسے مضطرب کیے ہوئے تھا کوئی خیال تھا جو اسے جھنجوڑ رہا تھا وہ احساس ، وہ خیال تھا سویرا کا ،جس سے اس کا بڑا ہی عجیب رشتہ تھا وہ اس کی کزن بھی تھی اس کے پیارے چاچو کی بیٹی ، تو ساتھ ہی ساتھ اس کی زبردستی کی منکوحہ بھی تھی جسے وہ ذہنی طور پر کبھی قبول نہیں کر سکا تھا اس کے بھی کچھ خواب تھے اتنی جلدی وہ بھی ایک بچی سے نکاح !! اس کو ضد دلا گیا تھا اور وہ اپنی زندگی کو مزید الجھنوں سے سے بچانے کیلئے اپنی جان چھڑا کر حویلی سے ، شاہ بی بی سے ، پاکستان سے ، سب سے بہت دور چلا گیا تھا لیکن اب اسے نا چاہتے ہوئے بھی واپسی کا فیصلہ کرنا پڑا تھا وہ سویرا کی وجہ سے اپنے ماں باپ سے مزید دور نہیں رہ سکتا تھا ۔۔۔
ایک طویل سفر کے بعد گاڑی ایک بڑی سی جاہ و جلال والی حویلی کے سامنے رکی
" شاہو !! میرے بھائی اترو حویلی آگئی ہے !!" رخسار نے پیار سے کہا
وہ تیزی سے اپنی طرف کا دروازہ کھول کر کر باہر نکل آیا ۔۔۔
" چلو شاہو !! اندر چلو سب تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔۔۔" رخسار نے اسے ٹوکا جو ٹکٹکی باندھے حویلی کے در و دیوار کو دیکھ رہا تھا
وہ دھیمے دھیمے قدم اٹھاتے اندر داخل ہوا جہاں دالان کی سیڑھیوں پر سفید غرارے اور سفید دوپٹے میں لپٹی پر نور چہرے والی شاہ بی بی ان کے ساتھ اس کی جان سے پیاری ماں زاہدہ اس کا انتظار کر رہی تھیں وہ تیزی سے ان کی جانب بڑھا ۔۔
" شاہ بی بی !! امی جان !!! " وہ باری باری دونوں سے ملا
ان دونوں دادی اور ماں کی محبتوں اور شفقتوں کیلیئے وہ ترس گیا تھا اس نے تڑپ کر شاہ بی بی کے ہاتھ چومے اور ان کے پرشفیق وجود سے لپٹ گیا ۔۔۔
" میرا بچہ میرا شاہو !! " شاہ بی بی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
" شاہ بی بی چلیں اندر چلیں شاہو لمبا سفر طے کر کے آیا ہے اندر چل کر آرام سے باتیں کرتے ہیں ۔۔۔" اکرم نے آگے بڑھ کر کہا
_______________________________________
وہ اپنے کمرے میں زاہدہ تائی کے دئیے نیلے رنگ کے کرتے پاجامہ میں ملبوس لمبے گھنے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی جب خوش باش سی رخسار دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی
" ماشاءاللہ !! بہت پیاری لگ رہی ہو " انہوں نے بے ساختہ اس کی نظر اتاری
" رخسار آپی !! آپ آگئی ؟؟ "
" جی میری پیاری بنو صرف میں ہی نہیں تمہارے وہ بھی آگئے ہیں ۔۔" وہ شرارت سے بولیں
"چلو باہر چلو ! شاہ بی بی بلا رہی ہیں اس بہانے شیرو کو بھی دیکھ لینا ۔۔۔"
" رخسار آپی پلیز !! آپ تو مجھے سمجھیں !! آخر یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے کیا میں اتنی بری ہوں کہ آپ سب مجھے زبردستی ان کے سر پر ڈال رہے ہیں ۔۔۔" وہ روہانسی ہوئی
" سویرا چندا !! ایسا مت سوچو تم تو اتنی پیاری ہو دیکھنا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا اور میرا بھائی تمہیں پھولوں کی طرح رکھے گا ۔۔" انہوں نے کھوکھلی سی تسلی دی
" آپی آپ لوگوں کو انہیں مجبور نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔" سویرا کے آنسو پلکوں کی باڑ پھلانگ کر نکل آئے
" سویرا !! وہ اپنی خوشی سے خود آیا ہے یہ رشتہ مجبوری نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ۔۔" انہوں نے پیار سے اس کے آنسو پونچھے
"رخسار آپی !! مجبوری کے رشتوں میں محبت کی لطافت تو مر جاتی ہے نا ؟؟ " اس نے سوال کیا
" سویرا !! اتنی کم عمری میں یہ دادی اماں جیسی باتیں کیسے کر لیتی ہوں ؟؟ چلو جلدی سے منھ دھو کر باہر آؤ میں شاہ بی بی کے کمرے میں تمہارا انتظار کررہی ہوں ۔۔۔"
_______________________________________
بڑے کمرے میں بیٹھک جمی ہوئی تھی شاہ بی بی زاہدہ تائی اکرم بھائی سب ہی شہریار کے ساتھ بیٹھے اس کا حال احوال پوچھ رہے تھے تبھی شاہ بی بی نے اس کے چہرے پر جمی تھکن کو غور سے دیکھا
" شاہو !! چند گھنٹے آرام کرلو پھر رات کے کھانے پر ملتے ہیں ۔۔۔" شاہ بی بی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
"میں ٹھیک ہوں شاہ بی بی !! آپ بیٹھیں اتنے عرصے بعد ملے ہیں دل ہی نہیں کررہا کہ میں آپ کو چھوڑ کر اپنے کمرے میں جاؤں ۔۔۔" شہریار نے بڑی عقیدت سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
" شاہو بیٹا !! شاہ بی بی ٹھیک کہہ رہی ہیں تھوڑا آرام کر لو آؤ تمہیں کمرہ دکھا دوں سویرا بیٹی نے تمہارا کمرہ خود تیار کروایا ہے ۔۔۔" زاہدہ نے پیار سے کہا
" شاہ بی بی !! چلیں آپ کو تو کمرے تک چھوڑ دوں اور اماں مجھے میرے کمرے کا راستہ پتا ہے گھر سے دور ضرور گیا تھا لیکن کچھ بھولا نہیں ہوں میں۔۔۔ " وہ سیدھا کھڑا ہوا اور شاہ بی بی کا ہاتھ تھام کر ان کے کمرے کی جانب بڑھا
شاہ بی بی کا کمرہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ویسا ہی تھا وہ ایک آسودہ سی سانس بھرتے ہوئے ان کے نماز کے تخت پر لیٹ گیا شاہ بی بی نے پیار سے اسے دیکھا اور اس کے پاس بیٹھ کر اس کے سر میں پیار سے ہاتھ پھیرنے لگیں انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت کا پہیہ کئی سال پیچھے گھوم گیا ہے جب شہریار روز ان کے پاس ایسے ہی لیٹ کر لاڈ اٹھواتا تھا ۔
اتنے لمبے سفر کے بعد اپنی ماں جیسی دادی کے پاس لیٹ کر وہ نیند کی پرسکون وادی میں اتر گیا تھا شاہ بی بی نے اس کے اوپر چادر ڈالی اور کمرے میں پردے گرا کر لائٹ بند کرنے کے بعد خود تسبیح لیکر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔۔
________________________________________
سویرا کمرے سے باہر نکل کر پانی پینے کچن میں آئی تو اندر سے آتی آوازیں سن کر ٹھٹک سی گئی خاموشی سے دروازے سے اندر جھانکا تو کچن میں ایک گہما گہمی مچی ہوئی تھی یہاں تک کے پھپھو بھی اپنے جوڑوں کا درد بھلائے ملازمین کو ہدایات دے رہی تھی وہ گومگو کی کیفیت میں کھڑی تھی جب فرزانہ پھوپھو کی اس پر نگاہ پڑی
نیلے لباس میں اس کی سفید رنگت جگمگا رہی تھی لمبے بالوں کی چوٹی بنائے گلابی رخساروں پر خفت سے جھکی سیاہ لرزتی پلکیں فرزانہ کا بی پی ہائی کر گئیں
" تم یہاں کھڑی کیا کررہی ہو ؟؟ " وہ ناقدانہ انداز سے اس کے نکھرے نکھرے سراپے پر نظر ڈالتے ہیں بولیں
" وہ وہ پھپھو ۔۔۔"
" وہ کیا اور یہ اتنی تیاری کس خوشی میں ؟ عید ہے کیا آج ؟ ۔۔۔" انہوں نے لتاڑا
" پھپھو !! میں تو بس پانی پینے آئی تھی ۔۔" وہ ان کی غصیلی نظروں سے گھبرا اٹھی
" فوراً نکلو یہاں سے میں نہیں چاہتی تمہاری منحوسیت کا سایہ بھی شیرو پر پڑے اور خیال رکھنا جب تک شیرو ادھر ہے تم اس کے سامنے مت آنا !! میرے بھائی کو تو کھا ہی چکی ہو ۔۔" وہ پھٹ پڑیں
" پھپھو کیوں اس معصوم کو ڈانٹ رہی ہیں ؟؟ اور سویرا ۔۔۔" رخسار نے اندر آتے ہوئے پہلے فرزانہ پھوپھو پھر سویرا کو مخاطب کیا
" سویرا پھپھو صحیح کہہ رہی ہیں کچھ دن میں تمہاری رخصتی ہے اس لئیے ابھی شاہو سے پردہ ہی کرو تو اچھا ہے ایسا نا ہو وہ تمہاری یہ پیاری من موہنی سی صورت دیکھ کر کل کی ہوتی رخصتی آج کروا لے ۔۔ " رخسار نے اسے پیار سے چھیڑا
"رخسار !! یہ کیا بدتمیزی ہے ؟؟ تمہیں بات کرنے کی تمیز آخر کب آئے گی اور تم ؟؟ تم چلو نکلو یہاں سے دفع ہو جاؤ ۔۔" انہوں نے رخسار کو ٹوکتے ہوئے حقارت سے سویرا کو باہر جانے کا اشارہ کیا
سویرا کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی وہ دھیرے سے رخسار کو ہٹاتی ہوئی پیچھے ہٹ گئی رخسار نے تاسف سے فرزانہ پھوپھو اور سویرا کو دیکھا پھر اندر آکر گلاس میں ٹھنڈا پانی نکالا
" دیکھو رخسار !! تم کچھ عقل سے کام لو شہریار وجاہت ذہانت اور مینٹل لیول میں اس اس سویرا سے کئی گنا زیادہ ہے یہ دوٹکے کی لڑکی کا اس سے موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئیے تم اس منحوس سویرا کو میرے شاہو کے سر پر تھوپنے کی کوشش مت کرو ۔۔" وہ نخوت سے بولیں
" تھوپنے والی کیا بات ہے ؟ یہ دونوں تو پہلے سے ہی نکاح جیسے مقدس رشتے میں بندھے ہوئے ہیں !! پھپھو ہماری سویرا بھی لاکھوں میں ایک ہے اور دیکھنا شاہو اس کے ساتھ بہت خوش رہیگا ۔۔"رخسار رسان سے سمجھاتے ہوئے بولیں
" ارے وہ تو میرے شاہو کے جوتے کے برابر بھی نہیں ہے میرا شاہو جیسا سارے خاندان میں ایک بھی ڈھونڈ کر دکھاؤ تو میں جانوں ، ایسا جوان کامیاب اخلاق والا بچہ ہے ۔۔" فرزانہ تڑخ کر بولیں
رخسار نے خاموشی سے پانی کا گلاس اٹھایا اور باہر نکل گئی
سامنے ہی سویرا چپ چاپ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی ہوئی تھی وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئیں اور پانی کا گلاس اس کی سمت بڑھایا جسے سویرا نے چپ چاپ تھام لیا
" سویرا !! تم پھپھو کی باتوں کو دل پر مت لینا وہ تو بس ایسے ہی کہتی رہتی ہیں "
" آپی !! " وہ سیدھی ہوئی
" آپی مجھے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے شاید میری قسمت ہی خراب ہے پھپھو بھی ٹھیک ہی تو کہتی ہیں میں ہو منحوس ۔۔"
" سویرا میری بہن بے شک تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ شاید شاہو اور تمہارا ایک ہونا قسمت میں لکھا تھا اور قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے میں مانتی ہوں چاچو کے انتقال کے بعد تم شہریار کی ذمہ داری تھی اور وہ تمہیں چھوڑ کر چلا گیا لیکن تم دیکھنا اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔"
" آپی !! میں نے کہا نا مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے میں ایسے ہی ٹھیک ہوں آپ بس کسی بھی طرح یہ شادی کینسل کروا دیں ۔۔"
" اگر کوئی شکایت نہیں ہے تو پھر اپنی زندگی کو ازسرنو شروع کرنے کی تیاری کرو یاد رکھو زندگی کو گزارنے کے لیے سر کے سائیں کا ہونا بہت ضروری ہے !! خیر تمہیں شاہ بی بی نے بلایا تھا تم چلو میں بھی چائے لیکر آتی ہوں ۔۔"
_____________________________________