شہریار نے تالیوں کی گونج میں عروہ کو رنگ پہنا دی تھی عروہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا سب مہمان مبارکباد دے رہے تھے ۔عروہ کو شہریار کی بیزاری اچھی طرح سے محسوس ہو رہی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی شہریار کو چھوڑ نہیں پا رہی تھی مسئلہ شہریار نہیں تھا بلکہ مسئلہ سویرا تھی ۔ اس کا ذہن سویرا جیسی دبو پاکستانی گھریلو ٹائپ لڑکی سے شکست کھانے کو تیار نہیں تھا اپنی سوچوں میں گم وہ غائب دماغی سے شہریار کے ساتھ کھڑی تھی جب اس کی نظر اسٹیج سے ذرا دور سویرا اور اس کے ساتھ کھڑے ڈاکٹر اینڈریو پر پڑیں ۔اس کی ساری پژمردگی کہیں دور جا سوئی اس نے تیزی سے شہریار کے بازو میں ہاتھ ڈالا
" شیری !! ڈارلنگ وہ دیکھو تمہاری وائف کس آدمی سے بات کر رہی ہے ۔۔۔۔" وہ ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولی
شہریار نے اس سمت دیکھا تو اس کی آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے وہ آدمی سویرا کا ہاتھ پکڑ کر راستہ روکے کھڑا تھا اور سویرا کے چہرے پر بلا کا خوف تھا ۔شہریار عروہ کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے تیزی سے اس سمت بڑھا ۔
" یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔؟ " شہریار کی سرد آواز گونجی
" او مسٹر شہریار !! کانگریجولیشن فار یور انگیجمنٹ ۔۔۔۔" اینڈریو نے تپاک سے کہا
" ہاتھ چھوڑو !! " شہریار غرایا اس کی آنکھوں میں خون اترا آیا تھا
" شیری ریلیکس یہ گیسٹ ہیں ۔۔۔" عروہ نے اس کا بازو تھام کر کہا
شہریار نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو عروہ کی گرفت سے چھڑوایا اور سویرا کا ہاتھ اینڈریو کی گرفت سے نکال کر اسے اپنے پیچھے کیا
" اسے کس نے انوائیٹ کیا ہے ؟؟ " وہ اینڈریو کے گریبان کو جکڑتے ہوئے اینا سے پوچھ رہا تھا
" باس !! یہ شاید مس عروہ کے گیسٹ ہوں ۔۔۔" اینا نے تیزی سے جواب دیا
"مم مجھے کیا پتا ؟؟ مسٹر تم بتاؤ کس نے بلایا ہے تمہیں ؟؟ " عروہ نے اینا کو گھورتے ہوئے الٹا اینڈریو سے پوچھا
" مسٹر شہریار !! مجھے سویرا نے انوائیٹ کیا ہے اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اس تقریب میں بور نہیں ہونے دیگی ۔۔۔۔" اینڈریو نے اپنا گریبان چھڑوایا
" شٹ اپ !! میری وائف کا نام بھی تمہاری زبان پر نہیں آنا چاہئیے ۔۔۔" شہریار نے اسے زور سے دھکا دیا
" تم ایک بار اس سے پوچھ تو لو ؟؟ کیوں سوئیٹ ہارٹ بتاؤ اپنے اس سو کالڈ ۔۔۔
اینڈریو کی بات ابھی بیچ میں ہی تھی کہ شہریار غضب ناک انداز میں اس پر پل پڑا وہ اسے گھونسے پر گھونسا مار رہا تھا اور عروہ فق چہرے کے ساتھ شہریار کا جنون دیکھ رہی تھی ۔
" ہاؤ ڈیر یو کالڈ ہر سوئیٹ ہارٹ !! تیری اتنی مجال ۔
وہ بپھر چکا تھا سارے مہمان متوجہ ہو چکے تھے تبھی اینڈریو نے شہریار کو زور سے دھکا دیا وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوا پھر تیزی سے دوبارہ اینڈریو کی طرف لپکا
عروہ نے پیچھے کھڑی تھر تھر کانپتی ہوئی سویرا کو دیکھا اور چلتی ہوئی اس کے پاس آکر رکی
" مبارک ہو !! آج تمہاری وجہ سے سارے مہمانوں میں شہریار کا تماشہ بن چکا ہے آخر تم اس کی زندگی سے چلی کیوں نہیں جاتی ہو ؟؟ کیوں اپنی منحوسیت سے اس کی زندگی بھی خراب کر رہی ہو ؟؟ " وہ پھنکاری
" سر پلیز چھوڑ دیں پولیس کیس بن جائیگا ۔۔۔۔" اینا نے ریکوئسٹ کی جونس بھی شور سن کر اس طرف آچکا تھا
" شہریار یار چھوڑ دے اسے ۔۔۔" وہ ان دونوں کے بیچ میں آیا
" مسٹر شہریار !! تم نے بلاجواز مجھ پر ہاتھ اٹھا کر اچھا نہیں کیا ۔۔۔۔" اینڈریو نے اپنی آستین سے اپنے ہونٹوں سے رستا خون صاف کیا
" میں یہاں تمہاری وائف کے بلاوے پر آیا تھا جو اب چپ چاپ کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہے ۔ہمت ہے تو پوچھو اس سے کہ مجھے ادھر کیوں بلایا تھا ۔۔۔۔" وہ غرایا
" اینا !!!! " شہریار سرد لہجے میں بولا
" یس یس سر !! " وہ تیزی سے پاس آئی
" سویرا کو اندر لے کر جاؤ ۔۔۔۔" وہ سہمی ہوئی سویرا پر نظر ڈالتے ہوئے بولا
" اوکے باس ۔۔۔۔" وہ تیزی سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سویرا کی طرف بڑھی اور ساکت کھڑی سویرا کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
" مجھے اپنی بیوی سے کچھ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے تم اپنا یہ ناٹک بند کرو اور آئندہ اپنی گندی زبان پر کبھی بھی میری بیوی کا نام نہیں لینا ورنہ زندہ زمین میں گاڑ دونگا !! ناؤ گیٹ آؤٹ ۔۔۔۔" وہ چلایا
"اتنا اندھا اعتماد ؟؟؟ واؤ ۔۔۔۔"اینڈریو نے طنزیہ انداز میں کہا
" مسٹر تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔" جونس نے سختی سے اینڈریو کو باہر کا راستہ دکھایا ۔
" ابھی تو جا رہا ہوں لیکن اپنی یہ تضحیک میں بھولونگا نہیں میں بھی دیکھتا ہوں تم کب تک اسے اپنی قید میں رکھتے ہو دیکھنا سویرا خود آئیگی میرے پاس ۔۔۔۔" وہ سرد لہجے میں بولا
" یو باسٹرڈ !! " شہریار تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور اس کو گریبان سے پکڑ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے منھ پر مارا
" اینا آپ پارٹی ختم کروائیں اور مہمانوں کو رخصت کریں ۔۔۔۔" جونس نے جلدی سے اینا کو فون کیا جو سویرا کو اندر لے کر گئی تھی
" شہریار !! چھوڑو اسے تماشہ بن رہا ہے ۔۔۔۔۔"
" اس ذلیل نے میری بیوی کا نام اپنی ناپاک زبان سے کیسے لیا ؟؟؟ ۔۔۔۔" شہریار نے جونس کا ہاتھ جھٹکا
" تم ابھی کے ابھی اس جگہ سے دفع ہو جاؤ ۔۔۔" جونس نے اینڈریو کو گھورا اور شہریار کا بازو سختی سے جکڑتے ہوئے اسے زبردستی اندر لے گیا ۔
"اب مزید اور کتنی ذلت اٹھاؤ گی ؟؟ چلو اب گھر چلیں ۔۔۔" مسز سہراب ساکت کھڑی عروہ سے مخاطب ہوئیں
" ممی !! وہ وہ اس دو ٹکے کی لڑکی کیلئے اتنا پاگل ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔" عروہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
" وہ دو ٹکے کی لڑکی اس کی بیوی ہے ۔خدارا اب تو ہوش کے ناخن لو اور چلو یہاں سے ۔۔۔۔"مسز سہراب نے لب بھینچتے ہوئے کہا
" تو !! تو پھر میں کیا ہوں ؟؟ کون ہوں ؟؟ " عروہ نے ہذیانی انداز میں ان کو شانوں سے جکڑا
" یہ سوال تم گھر چل کر سکون سے بیٹھ کر خود سے پوچھنا ۔۔۔۔" مسٹر سہراب نے آہستگی سے اسے تھاما اور واپسی کیلئے مڑ گئے
******************
" سویرا !! تم تھک گئی ہو گئی اب تم آرام کرو میں مہمانوں کو رخصت کر کے آتی ہوں ۔۔۔۔" اینا سویرا کو اوپر لیکر آئی ۔
" اینا !! سچی میں نے سر کو نہیں بلایا ۔۔۔۔" وہ جاتی ہوئی اینا کا ہاتھ پکڑ کر بولی
" سویرا ہنی !! سب کو پتہ ہے کہ تم نے اس بدتمیز آدمی کو نہیں بلایا تم پریشان مت ہو آرام کرو میں بھی تھوڑی دیر میں آتی ہوں ۔۔۔۔" اس نے سویرا کے ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا
" لیکن وہ !!! وہ مجھ سے خفا ہو نگے ۔۔۔
" الٹا سیدھا مت سوچو سب ٹھیک ہے اور اب بس میں واپس آکر بات کرتی ہوں ۔۔۔۔" اینا اسے ٹوکتے ہوئے نیچے چلی گئی اسے سب مہمانوں کو جلد از جلد رخصت کرنا تھا
سویرا اینا کے جانے کے بعد پریشانی سے چکر کاٹ رہی تھی اب پتا نہیں شہریار کا رویہ کیا ہو اس کا سوچ سوچ کر برا حال ہو رہا تھا ۔وہ وہیں بیڈ پر سر تھام کر اپنے نصیبوں کو رونے لگی ۔
" یا اللہ !! میں نے کبھی بھی تیری نافرمانی نہیں کی بلکہ کسی کی بھی نافرمانی نہیں کی پھر تو مجھے میری کس خطا کی سزا دے رہا ہے ؟ اس شخص نے میرا کردار ، میرے شوہر کی نظروں میں داغدار کر دیا ہے اب وہ مجھے چھوڑ دینگے !! کیوں میرے مولا کیوں مجھے تماشہ بنا رہا ہے ۔۔۔۔" وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے اپنے اللہ سے شکوہ کر رہی تھی
" اس سے پہلے وہ مجھے باتیں سنا کر ذلیل کر کے اپنی زندگی سے نکالیں مجھے خود ہی ان کی زندگی سے نکل جانا چاہئیے وہ تو ویسے بھی عروہ سے منگنی کر چکے ہیں مجھے ان کے بیچ سے نکل جانا چاہئیے ۔۔" کچھ دیر بعد وہ آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھی اور کمرے سے نکل کر شہریار کے روم کی طرف بڑھی ۔
اندر کمرے میں پہنچ کر وہ چاروں جانب خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی دیوار پر آویزاں شہریار کی پورٹریٹ کے پاس جا کر اس نے اپنی سسکی دباتے ہوئے شکوہ کناں نظروں سے اس پورٹریٹ کو دیکھا ۔پھر آنسو صاف کرتی ہوئی سائیڈ میز پر رکھے شہریار کے لیب ٹاپ کے پاس آئی ۔۔
" یہ ہمارے نکاح کا گفٹ جو مجھ پر ادھار تھا ۔۔۔" اس کی آنکھوں میں وہ خوبصورت منظر لہرایا جب شہریار نے بڑی توجہ سے اسے رنگ پہنائی تھی۔
اپنی انگلی میں انگوٹھی کو پیار سے دیکھتے ہوئے اس نے نم آنکھوں سے رنگ اتاری اور چوم کر لیب ٹاپ پر رکھ دی پھر اس نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی گردن سے لپٹی شہریار کے پیار کی نشانی اس چین کو بمشکل اتارا ۔۔۔
" اب آپ کا مجھ پر کوئی احسان ، کوئی ادھار نہیں رہا ۔۔۔۔۔" وہ چین انگوٹھی کے ساتھ رکھ کر تیز قدموں سے چلتی ہوئی واپس اس کونے والے کمرے میں آئی کمرہ لاک کر کے سب سے پہلے اپنا سامان پیک کیا اس کا ارادہ اینا کے ساتھ جانے کا تھا
*****************
" جونس تم نے مجھے کیوں روکا ؟؟ " شہریار نے غصہ سے اپنا آپ چھڑوایا
" یار تم ایک سمجھدار ذہین انسان ہو اور فکر مت کرو ہم اس بدتمیز کو ڈیل کر لینگے ابھی اتنے مہمانوں میں تماشہ لگانا مناسب نہیں تھا ۔" جونس نے سمجھایا
" میرے سوا کوئی اس کا نام لے مجھے گوارا نہیں اور وہ !!! اس ذلیل آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔" شہریار کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔
" شیری کنٹرول یار !! اب تیرا یہ دیوانوں جیسا حال دیکھ کر تو میں نے بھی شادی سے توبہ کر لی ہے اچھا بھلا کول مائنڈ بندہ تھا تو اور اب پکا مجنوں دیوانہ لگ رہا ہے ۔۔۔" جونس نے افسوس سے کہا
" جونس میں ابھی بھی کول ہوں لیکن پتہ نہیں کیوں جب سے وہ میرے ساتھ آئی ہے میں اس کیلئے بہت پوزیسیو ہوتا جارہا ہوں میں کوشش کے باوجود اسے اپنے ذہن سے نہیں نکال پاتا اسی لئیے میں نے اپنے اور اس کے رشتے کو تسلیم کیا اور اب میں خود کو سمجھ نہیں پا رہا بس دل چاہتا ہے اسے کہیں قید کرکے سب کی نظروں سے چھپا کر رکھ دوں وہ بہت چھوٹی ہے یار اسے اچھے برے کی تمیز نہیں ہے ۔۔۔" شہریار کے لہجے میں تھکن تھی الجھن تھی
" اچھا اب تم جاؤ آرام کرو اور سویرا سسٹر کو دیکھو وہ بھی اس سب سے ڈر گئی ہوگی ۔۔۔" جونس نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھا
جونس کو گیسٹ روم میں ٹہرا کر شہریار اوپر اپنے کمرے میں آیا اس کا موڈ ابھی بھی بہت خراب تھا ڈھیلے ڈھالے انداز میں وہ کمرے میں داخل ہوا لائٹ آن کر کے نظر بیڈ پر ڈالی تو سویرا ادھر نہیں تھی ۔اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا سوئیاں رات کا ایک بجا رہی تھیں اس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہونا شروع ہوگئی ابھی وہ پلٹ کر باہر جانے ہی والا تھا کہ اس کی نظریں سائیڈ میز پر رکھے اپنے لیب ٹاپ کے اوپر رکھی انگوٹھی اور چین پر پڑیں ۔وہ چلتے ہوئے میز تک آیا اور انگوٹھی اور رنگ کو اٹھا کر غور سے دیکھتے ہوئے لب بھینچے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا سویرا نے اس کی محبت سے پہنائی رنگ اور چین اتار کر اس کی ذات کی نفی کی تھی وہ رنگ کو زور سے مٹھی میں بھیجتے ہوئے باہر نکلا اس کا رخ کونے پر بنے اسی کمرے کی طرف تھا جہاں سویرا بار بار اس کے منع کرنے کے باوجود پائی جاتی تھی ۔۔۔
اس نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا تو دروازہ لاک تھا یہ سب اس کی برداشت سے باہر تھا اس نے بنا سوچے سمجھے ایک زور دار کک لکڑی کے دروازے کو لگائی اور لگاتا چلا گیا ۔۔۔
سویرا نے شور کی آواز سن کر آہستہ آہستہ اپنی نیند میں بوجھل پلکیں اٹھائیں اس کا ذہن ابھی بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا دفعتاً دروازے سے زور سے اٹھنے والی آواز سے خوف کی ایک تیز لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی کو چھو گئی گھبرا کر اس نے اپنا دوپٹہ سرہانے سے اٹھا کر اوڑھا اور دروازے کی طرف بڑھی اس سے پہلے وہ دروازہ کھولتی ، دروازہ ایک زور دار جھٹکے سے ٹوٹ کر کمرے کے اند
سبزہ زار سے ڈھکی ہوئی بڑی سی حویلی میں چہل پہل اپنے عروج پر تھی دو دن بعد ان سب کی لندن کی فلائٹ تھی وہ شہریار کو سرپرائز دینے کے لئیے ایک ہفتے پہلے ہی لندن پہنچ رہے تھے حالانکہ زاہدہ بیگم کافی دنوں سے جانے کیلئے شاپنگ کررہی تھی لیکن پھر بھی مطمئن نہیں تھی آئے دن وہ اور رخسار بازار کے چکر لگا رہی تھی جو فرزانہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے تھے ۔آج بھی وہ دونوں بازار سے واپسی پر شاہ بی بی کے کمرے میں سامان بکھرائے ان کی رائے لے رہی تھی
" شاہ بی بی یہ دیکھیں میں نے آپ کی طرف سے سویرا کیلئے یہ کامدار سوٹ اور زرقون کے ٹاپس لئیے ہیں ۔۔۔" زاہدہ نے انہیں جوڑا دکھایا
" ماشاءاللہ بہت اچھا ہے اللہ پہننا نصیب کرے ۔۔۔" شاہ بی بی کی آنکھوں میں ستائش اتر آئی
" رخسار اب کیا ادھر بیٹھی پرائی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوتی رہو گئی ؟؟ سمیٹو یہ سارا کوڑا اور میرے لئیے چائے بنا کر لاؤ ۔۔۔" فرزانہ نے اندر داخل ہوتے ہی رخسار کو لتاڑا
" فرزانہ تم پھر شروع ہو گئی ۔۔۔" شاہ بی بی نے رخسار کا پھیکا پڑتا چہرہ دیکھ کر انہیں ٹوکا
" شاہ بی بی آپ بھی تو دیکھیں اس منحوس کیلئیے یہ دونوں میرے بھائی کا پیسہ دونوں ہاتھوں سے برباد کررہی ہیں ۔میں کہے دیتی ہوں کہ اس کرم جلی نے میرے شہریار کو پریشان کر رکھا ہو گا ۔۔۔" وہ زاہدہ کو گھورتے ہوئے بولیں
" فرزانہ !! اب پریشان رکھا ہے یا آباد یہ تو وہاں جا کر ہی پتہ چلیگا لیکن اگر تمہارے لچھن یہی رہے تو میں تمہیں ادھر نہیں جانے دونگی ۔۔۔" شاہ بی بی نے بیزاری سے کہا
" شاہ بی بی !! اب آپ مجھے نہیں روکیں گئی بس دو دن کی بات ہے پھر دیکھنا میں ثابت کرکے رہو گی کہ شاہو اس منحوس کے ساتھ خوش نہیں ہے ۔۔۔۔" فرازنہ نے چیلنج کیا
"بنو !! شاہو کے پاس پورا ایک سال ہے ویسے بھی میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی ہونے میں وقت لگتا ہے تم فکر نا کرو خوشی خوشی جاؤ اور گھوم پھر کر واپس آؤ ۔خبردار جو میرے بچوں کے معاملے میں کچھ بولیں اگلی فلائٹ سے واپس بلوا لونگی ۔۔۔۔" شاہ بی بی نے انہیں تنبیہہ کی
*****************
دروازہ کے گرتے ہی شہریار غصہ میں بپھرا ہوا اندر داخل ہوا ۔۔سامنے ہی گلابی کرتا پاجامے والے پارٹی ڈریسں میں ملبوس سویرا تھر تھر کانپ رہی تھی وہ مٹھیاں بھینچتے ہوئے اس کی سمت بڑھا ۔۔۔
سویرا چیخ مار کر تیزی سے پیچھے ہٹی دروازے کے گرتے ہی غصہ میں بپھرا ہوا شہریار اندر داخل ہوا وہ اس کی سرخ آنکھوں اور پتھر کی طرح سخت چہرے کو دیکھ کر گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس آرہا تھا وہ ڈر کے مارے کانپنے لگی تھی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے جیسے ہی شہریار اس کے نزدیک آیا اس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں ۔۔۔
" تم ۔۔۔" اس نے سویرا کے بھیگے چہرے کو غصہ سے دیکھ کر لب بھینچے
" میں کیا تمہیں الو کا پٹھا لگتا ہوں ؟؟ جو میری ہر بات ہر حکم کی نفی کرنا تم ضروری سمجھتی ہو ؟؟ بولو جواب دو ؟؟ " وہ دھاڑا
" تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے اچھا سلوک کیا جائے میری جان کا عذاب بن گئی ہو تم ۔۔۔۔
وہ سختی سے اس کی کلائی کو اپنی مضبوط گرفت میں لیتے ہوئے اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا پورے فارم ہاؤس میں سناٹا چھایا ہوا تھا سارے کمرے ساؤنڈ پروف ہونے کی وجہ سے سب پر سکون نیند سو رہے تھے وہ اسے لیکر تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھا باہر نکلتے ہی تیز ہوا اور پانی کی بوچھاڑ نے ان دونوں کو بھگو ڈالا ۔
بھاگتے قدموں کے ساتھ پورٹیکو میں آتے ہی شہریار نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر پٹخنے والے انداز میں دھکیلا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کی وہ لب بھینچے تیز ڈرائیو کرتے ہوئے واپس شہر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا سویرا نے ایک شکایتی نگاہ اپنے ہمسفر پر ڈالی جو اس کے آنسوؤں سے ، اس کی ذات سے بے نیاز نظر آرہا تھا اس کے چہرے کی سرد مہری سویرا کی رگ رگ میں خوف کی لہر دوڑا رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ شہریار اب ڈاکٹر اینڈریو کی باتوں میں آکر اسے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔وہ اسے بتانا چاہتی تھی کی اینڈریو کو اس نے نہیں بلایا ، وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ کس طرح اینڈریو پہلے دن سے اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا لیکن شہریار کا غصہ دیکھ کر اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی ۔ تبھی گاڑی ڈس بیلنس ہو کر لڑکھڑائی۔
" شٹ !! " شہریار نے جھنجھلا کر گاڑی روکی اور نیچے اترا یہ شہر کو جاتی ایک کچی سڑک تھی جہاں رات کی ڈرائیونگ خطرناک سمجھی جاتی تھی وہ موسم کی شدت سے بے نیاز گاڑی سے اتر کر پچھلا ٹائر دیکھ رہا تھا جو پنکچر ہوگیا تھا اس نے ڈگی سے اسپیئر ٹائر اتارا ، ٹائر تبدیل کرنے کیلئے جیک نکالا اور اکڑوں بیٹھ کر ٹائر تبدیل کرنے لگا ۔۔
سویرا جو برستی بارش اور ماحول سے بے نیاز اپنی سوچوں میں گم تھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ کی آواز سن کر چونک کر اپنے حواس میں آئی ، گاڑی رکی ہوئی تھی چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا ونڈ اسکرین پر تیزی سے بوندیں گررہی تھی اگلے ہی لمحے آسمان میں زور سے بجلی چمکی اور بادل گرجے وہ سہم کر رہ گئی یہ موسم یہ گرج چمک اس کے اندر خوف بھر رہا تھا۔۔۔
" سنئیے !!! " وہ کپکپاتے ہوئے بولی لیکن وہ ہوتا تو سنتا
اسے لگا شہریار اسے اس ویرانے میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہے وہ بنا سوچے سمجھے گاڑی سے اتری ۔۔۔۔
تیز بوچھاڑ نے اسے سر تا پیر پانی میں شرابور کر دیا تھا وہ کپکپاتے ہوئے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے شہریار کو ڈھونڈتی ہوئی آگے بڑھی چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ آسمان پر زور سے بجلی کے چمکنے سے دراڑیں سی پڑی ۔۔۔اس کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی ۔۔۔
شہریار جلدی جلدی ٹائر بدل رہا تھا جب اسے سویرا کی چیخ کی آواز سنائی دی وہ تیزی سے اٹھا اندر جھانکا گاڑی خالی تھی ۔اس نے جلدی سے دروازہ کھول کر گاڑی کی ہیڈ لائٹ آن کی تھوڑے فاصلے پر ہی سویرا آنکھیں بند کئیے تھر تھر کانپتی ہوئی نظر آئی وہ گاڑی سے اتر کر اس کی سمت بڑھا اور بنا سوچے سمجھے اس کے پاس پہنچ کر اسے اپنی پناہ میں لے لیا ۔۔۔
" اٹس اوکے !! کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔" وہ دھیرے سے اس کے کان میں بول رہا تھا بارش کی تیزی سے برستی بوندوں نے ، سویرا کے نازک وجود کی نرمی نے نے اس کے ٹینس احساسات کو ایک خوشگواریت بخش دی تھی وہ سب کچھ بھلا کر سویرا میں گم ہونے لگا تھا ۔۔
" مجھے لگا !! آپ مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہیں ۔۔۔۔" سویرا اپنی سراسیمگی پر قابو پاتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی
شہریار کے اعصاب پر سویرا کی آواز بجلی بن کر گری اس نے ایک جھٹکے سے سویرا کو خود سے الگ کیا
" تم سے اسی بات کی امید رکھی جاسکتی تھی اور تم کس کی اجازت سے گاڑی سے نکلی ؟؟ بہت شوق ہے تمہیں گھر سے نکلنے کا ، گاڑی سے نکلنے کا ۔۔۔دل تو چاہتا ہے تمہیں یہیں کہیں زندہ گاڑ کر گھر چلا جاؤں ۔۔۔" وہ سخت مشتعل نظر آرہا تھا
" آپ ۔۔۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں ۔۔۔۔" وہ اپنی بھیگی آنکھیں مسلتے ہوئے بولی
" سنو لڑکی !! میرا دماغ مزید خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے جا کر گاڑی میں بیٹھو ابھی میں مرا نہیں ہو جو تم باہر نکلنے کو بیتاب ہو رہی ہو ۔۔۔۔" وہ غرایا۔
دو گھنٹے کی ریش ڈرائیونگ کے بعد وہ لندن اپنے گھر پہنچ چکے تھے ۔
" نیچے اترو ۔۔۔۔" وہ سرد لہجے میں گاڑی بند کرتے ہوئے سویرا سے بولا
وہ گاڑی لاک کرکے مین دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی سویرا بوجھل قدموں سے اس کے پیچھے چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی وہ چابی اپنی مخصوص جگہ پر رکھ کر اپنے کمرے میں جا چکا تھا ۔وہ کافی دیر کھڑی سوچتی رہی کہ کدھر جائے اگر اپنے کمرے میں گئی اور شہریار برا مان گیا تو ؟؟ اب وہ مزید اسے غصہ دلانا نہیں چاہتی تھی تھوڑی دیر بعد وہ ہمت کرکے شہریار کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔
شہریار جو ٹھنڈے پانی سے شاور لیکر باہر نکلا ہی تھا اپنے کمرے میں سویرا کو کھڑا دیکھ کر ٹھٹکا ۔۔
" مم مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔۔" وہ بڑی مشکل سے گھگیاتے ہوئے بولی
" سوری مجھے تم سے ، تمہاری کسی بات سے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے تم جا سکتی ہو ۔۔۔" وہ بھرپور تلخی سے بولا
" آپ پلیز میری بات تو سنیں !! میں نے اس آدمی کو نہیں ۔۔۔۔
" کیا میں نے تم سے کوئی سوال کیا ؟؟ " وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے دھاڑا
سویرا اس کی بے رخی ، بے اعتنائی دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔
سویرا نے جس طرح تحائف اس کے منھ پر مارے تھے اسے بھولنا آسان نہیں تھا اور شہریار تو ویسے بھی مشکل پسند تھا اور یہ سامنے کھڑی پانی کی طرح آنسو بہاتی ہوئی لڑکی نے اس کے دل میں بڑی خاص جگہ بنائی تھی وہ اسے چاہنے لگا تھا واقعی جو تقدیر میں لکھا ہو وہ ہو کر رہتا ہے اسی کو قسمت کہتے ہیں اور ہماری قسمت بنانے والا ہمارا اللہ ہم سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے تو پھر ہمیں بھی خوش دلی سے اس کی رضا میں راضی ہو کر اپنی قسمت کو خوشی خوشی اپنا لینا چاہئیے اس نے سویرا کو اپنایا اسے اپنا احساس دلایا اور بدلے میں اس بیوقوف لڑکی نے اس کا ہی دماغ گھما کر رکھ دیا تھا ۔ لیکن اب وہ اس کی مزید بیوقوفیوں کو برداشت نہیں کرسکتا تھا اسے سبق سکھانا ضروری تھا ۔۔۔
"میں تمہیں ایک سلجھی ہوئی لڑکی سمجھنے لگا تھا لیکن تم نے ثابت کردیا کہ تم ایک عقل سے پیدل بیوقوف لڑکی ہو ۔۔۔" وہ چلتے چلتے رکا
" آپ !! مجھے ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ۔۔۔"
" تم نے جو کیا وہ ٹھیک تھا ؟؟ بولو جواب دو ؟؟ "وہ غرایا
" میں نے !!" وہ حیران ہوئی
" میں نے کیا کیا ہے ؟؟ " وہ پریشان ہوئی
" میرے پیار سے دئیے گئے تحائف میرے منھ پر مارنے کے بعد تم اتنی معصوم کیسے بن سکتی ہو؟؟ ۔۔۔"
" آپ !! میں نے تو آپ کی مشکل آسان کرنی چاہی تھی میری وجہ سے ، میری منحوسیت سے آپ بھی پریشان ہو رہے ہیں اور وہ آدمی !! آپ مجھے نکال دینگے اس لئیے میں نے سوچا ۔۔۔۔"وہ سسک اٹھی
" کیا سوچا ؟؟"
" شاید آپ ہمارے بڑوں کے جوڑے اس زبردستی کے رشتے سے نکلنا چاہیں تو میں خود ۔۔
"سنو لڑکی !!تم لڑکیوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ عقل استعمال کرنی نہیں آتی اور تم تو ویسے بھی عقل سے پیدل ہو ، جو میرے جذبات و احساسات کو سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتی ہو ۔ لیکن میں تمہیں ، ہماری زندگی کو تماشا بنانے کی اجازت ہر گز نہیں دونگا "
" آپ !! آپ پلیز مجھے واپس پاکستان بھجوا دیں مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا ۔" وہ بمشکل دھیمے لہجے میں بولی
کہنے کو تو بہت کچھ تھا وہ ہاسٹل شفٹ ہونا چاہتی تھی اپنا کیرئیر بنانا چاہتی تھی شہریار کو فیصلہ کرنے کی آزادی دینا چاہتی تھی لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی
" ایک بار میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو کہ تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا !! " وہ اسے شانوں سے تھامتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
سویرا نے گڑبڑا کر اپنی نظریں جھکا لیں اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا چند پل خاموشی سے گزرے شہریار کی خود پر جمی نگاہوں نے اسے پریشان کر دیا تھا۔۔
" نظر ملاؤ اور کہوں کہ تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔۔" وہ غرایا
" پلیز مجھے جانے دیں ۔
" آئی لو یو ڈیم اٹ !! اتنی سی بات تمہاری عقل میں کیوں نہیں سماتی ہے اور میں اس طرح تمہیں ہر گز بھی اپنی زندگی سے ، اپنے گھر سے اپنے دل سے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ۔۔۔" وہ پھٹ پڑا
سویرا کی سانسیں اس انکشاف کو سن کر تھم سی گئی تھی شہریار کا یہ اعتراف محبت اس کے لئیے ناقابل یقین تھا وہ سن سی ہو گئی تھی ۔
" تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے بات کی جائے دفع ہو جاؤ اپنے کمرے میں اور خبردار جو میری اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نکالا ۔۔۔۔" وہ ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا ہوا دور ہٹا
******************
وہ چپ چاپ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی شہریار کا دھوپ چھاؤں جیسا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
" شہریار !! کتنے روپ ہیں آپ کے ؟؟ میں آپ کو کیوں سمجھ نہیں پا رہی ؟ کیا آپ واقعی مجھے نہیں چھوڑیں گے ؟؟ " کئی سوالات اس کے ذہن میں ہلچل مچا رہے تھے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی
" میری تو زندگی ہی اب آپ ہیں ، سارے راستے آپ پر آکر ختم ہو جاتے ہیں لیکن آپ عروہ کے ہیں آپ نے اس سے منگنی کی ، میں کیسے بتاؤں کہ میں نہیں چاہتی وہ آپ کے ساتھ ہو آپ کے پاس ہو ۔۔۔" وہ اس سے خیالوں میں باتیں کررہی تھی رات سرکتی جارہی تھی فجر کا وقت ہوتے ہی وہ نماز کیلئے اٹھ گئی نماز پڑھ کر وہ کچن میں آئی تو شہریار حسب عادت جاگنگ کیلئے نکلا ہوا تھا اس نے جلدی سے فرج سے فریش موسمی نکال کر جوس بنانا شروع کیا وہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔جوس بنا کر ناشتہ تیار کرکے اس نے نیوز پیپر کے ساتھ میز پر رکھا ہی تھا کہ شہریار واپس آگیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا وہ دل مسوس کر رہ گئی ۔۔۔
کافی دیر بعد وہ کوٹ پینٹ میں ملبوس اپنا بریف کیس پکڑے کمرے سے نکلا وہ تیزی سے اسے دیکھ کر کھڑی ہوئی ۔۔
" آپ کا ناشتہ !!! "
وہ اسے اگنور کرتا ہوا سیدھا
آفس پہنچ کر اس کا سب سے پہلا سامنا اینا سے ہوا ابھی وہ اس سے بات کرہی رہا تھا کہ جونس کا فون آگیا وہ اینا سے ایکسکیوز کرتے ہوئے فون اٹھا کر آگے بڑھا
__________
" شہریار کدھر ہو یار !! بنا بتائے غائب ہو گئے اور اوپر ایک کمرے کا دروازہ بھی ٹوٹا پڑا تھا وہ تو اینا نے بتایا کہ رات اس نے تمہیں سویرا کے ساتھ جاتے دیکھا تھا ورنہ میں تو پولیس کال کرنے والا تھا ۔۔۔"
" اٹس اوکے جونس !! بس میرا موڈ گھر جانے کا بن گیا تھا تو میں چلا آیا ۔۔۔۔"
" اوکے مگر دروازے کی کیا کہانی ہے ؟؟ "
" کچھ نہیں یار بس مجھے ذرا سا غصہ آگیا تھا ۔۔۔"
" او گاڈ شیری !! تیرا غصہ !! سویرا تو ٹھیک ہے ؟؟ "
" وہ محترمہ بالکل ٹھیک ہیں انہیں کیا ہونا ہے!! اب میں چلوں میری ابھی دو منٹ میں ہائیکو انڈسٹری کے ساتھ میٹنگ ہے ۔۔۔"
" گڈ لک فار یور میٹنگ ۔۔۔۔" جونس نے فون رکھ دیا
وہ میٹنگ کے بعد تندہی سے اپنے سارے پینڈنگ کام نبٹا رہا تھا جب لنچ کے وقت اسے سویرا کا خیال آیا اس نے کرسی سے پشت لگاتے ہوئے فون اٹھا کر سویرا کا نمبر ڈائل کیا پر بیل جاتی رہی اس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔۔
" یہ لڑکی فون کیوں نہیں اٹھا رہی ؟؟ " اس نے دوبارہ نمبر ڈائل کیا مگر کوئی فرق نہیں پڑا
اب اسے پریشانی لاحق ہونا شروع ہوگئی تھی سویرا سے وہ کسی بھی قسم کی حماقت کی امید رکھ سکتا تھا اس نے فائل بند کرکے اینا کو اندر بلوایا
" مس اینا !! آپ آج کی ساری اپائنٹمنٹ کل پر ٹرانسفر کردیں ۔۔۔"اس نے حکم دیا
" بٹ باس !! اتنے ارجنٹ نوٹس پر کینسل ؟؟ " وہ الجھی
"مجھے کچھ کام ہے میں جا رہا ہوں آپ جونس سے فالو اپ کریں ۔۔۔۔" وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"اوکے باس ۔۔۔۔" اینا نے تابعداری سے سر ہلایا
*******************
سویرا کے فون نہ اٹھانے پر وہ آفس سے آج جلدی گھر چلا آیا تھا دروازہ ان لاک کر کے وہ اندر داخل ہوا تو پہلی نظر سیدھی اوپن کچن کی جانب اٹھی لیکن سویرا ادھر نہیں تھی وہ چابی اور بریف کیس اپنی جگہ پر رکھ کر سویرا کے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسے سسکی کی آواز سنائی دی ۔۔۔
"ایک تو یہ لڑکی لگتا ہے رونے کے علاوہ اسے اور کوئی کام نہیں آتا ۔۔۔۔" وہ ناگواری سے بڑبڑایا
اس کی بڑبڑاہٹ سن کر سویرا نے نظریں اٹھا کر اس کی سمت دیکھا اور ہڑبڑا کر بستر سے اٹھی اور سائیڈ پر رکھا دوپٹہ اٹھا کر سر پر ڈالنے کے بعد نظریں جھکا کر کھڑی ہو گئی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھی ناک اور رخسار شدت گریہ کی وجہ سے سرخ ہوئے پڑے تھے گھنی سیاہ اٹھتی گرتی نم پلکیں شہریار کو شدت سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی کچھ پل وہ بڑی خاموشی سے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا پھر دھیرے دھیرے سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے نزدیک آیا ۔۔
" تم رو رہی ہوں ؟؟ کیوں؟؟ وجہ بتاؤ ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
" آپ آگئے !! میں آپ کیلئے چائے لاتی ہوں ۔ ۔۔۔" وہ سائیڈ سے گزر کر جانے لگی
" کیا یہ میری بات کا جواب ہے ؟؟ " وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے بولا
" میں نے کہا تھا کہ آئندہ تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دکھنے چاہئیے !! کہا تھا کہ نہیں ؟؟؟ " وہ سختی سے بولا
" مم میں رو تو نہیں رہی ۔۔۔۔" سویرا بھرائے ہوئے لہجے میں بولی
" اچھا !! " شہریار نے اسے گھورا
" وہ تو آپ کی وجہ سے ۔۔۔۔" سویرا بولتے بولتے چپ ہو گئی
" میری وجہ ؟؟ تم میری وجہ سے رو رہی ہو ؟؟ " اس نے اچھنبے پوچھا
" اب جواب دو اور فار گاڈ سیک اللہ نے زبان دی ہے استمال کرو یہ لفظ توڑ توڑ کر بولنا چھوڑ دو ورنہ میں نے تمہاری زبان ہی کاٹ کر پھینک دینی ہے ۔۔۔"وہ جھنجھلا اٹھا
" آپ نے ناشتہ نہیں کیا تھا ۔۔۔۔۔" سویرا نے شکوہ کیا
" کیا ؟؟ تم صبح سے میرے ناشتہ نا کرنے پر رو رہی ہو ؟؟ " شہریار نے حیرت سے اسے دیکھا
سویرا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے شرمندگی سے سر جھکا لیا
" یعنی کل سے اب تک تمہیں صرف میرا ناشتہ نا کرنا ہی قابل افسوس لگا ہے ؟؟ حد ہے مسز شہریار ۔۔۔۔" وہ ٹھیک ٹھاک تپا
" میں لنچ چھوڑ کر آیا ہوں کچھ کھانے کو دو اور ہاں ۔۔۔۔ " وہ کمرے سے نکلتے نکلتے رکا
" تمہارا سیل فون کدھر ہے ؟؟ کب سے فون کررہا تھا رسیو کیوں نہیں کیا ؟ ۔۔۔" اس نے سوال کیا
" وہ فون تو ۔۔۔۔" سویرا گڑبڑائی
" جملہ مکمل بولا کرو آئندہ اگر آدھا ادھورا جملہ بولا تو سچ میں تمہاری زبان ہی کاٹ ڈالوں گا ویسے بھی کسی کام کی تو ہے نہیں ۔۔۔" وہ اسے خشک لہجے میں ٹوکتے ہوئے بولا
" وہ فون تو رات ادھر فارم ہاؤس میں ہی رہ گیا تھا ۔۔"
" کیوں؟؟ تم سے ایک ذرا سا فون سنبھالا نہیں جاتا اور میں تمہاری وجہ سے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے اپنے اہم اپائنٹمنٹ چھوڑ کر آیا ہوں کہ کہیں محترمہ مر مرا نا گئی ہوں ۔۔۔"
"آپ نے فون اٹھانے کا موقع ہی کب دیا تھا میرے تو کپڑے بھی ادھر ہی رہ گئے ہیں ۔۔۔" اب کے وہ جلدی سے مکمل جملہ بولی
" اپنی حرکتیں کبھی مت دیکھنا خیر لنچ لگاؤ میں فریش ہو کر آتا ہوں ۔۔۔" وہ اسے گھورتے ہوئے باہر نکل گیا
****************
صبح فجر کا وقت تھا سویرا نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی آج سے یونیورسٹی کھل رہی تھی وہ اینڈریو کے خوف سے یونیورسٹی جانے سے ڈر رہی تھی اسے شہریار سے بات کرنی تھی لیکن شہریار کے رویے سے بھی ڈر لگ رہا تھا ۔ وہ جلدی جلدی اپنا بیگ تیار کر کے اپنے لمبے گیلے بالوں کو سلجھا کر خشک ہونے کیلئے پشت پر کھلا چھوڑ کر کچن میں آئی شہریار کسی بھی لمحے جاگنگ سے واپس آنے والا تھا اس نے جوس نکال کر میز پر رکھا اور واپس کچن کی طرف مڑی ہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی ۔۔
بلیک ٹراؤزر شرٹ میں ماتھے پر بکھرے بال لئیے شہریار اندر داخل ہوا ۔۔
" اسلام علیکم ۔۔۔آپ کا جوس ۔۔" وہ گلاس اٹھا کر اس کے پاس آئی
شہریار نے سر ہلاتے ہوئے جوس کا گلاس اس کے ہاتھ سے لیا اور اس کی تیاری کو بغور دیکھا
" یہ اتنی صبح کدھر جانے کی تیاری ہے ؟؟ " اس نے ابرو اچکا کر پوچھا
" وہ مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔۔۔۔" وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
" ابھی تو میرے پاس وقت نہیں ہے شام میں آفس سے آکر تمہاری بات سنوں گا ۔۔۔" وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے اندر چلا گیا
سویرا نے اسے اندر جاتے دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا جو بھی ہو وہ شہریار کو سب کچھ بتائے بغیر یونیورسٹی جانے کا رسک لینا نہیں چاہتی تھی اور میڈیکل کی پڑھائی تھی چھٹی بھی نہیں کر سکتی تھی وہ جلدی سے انڈا فرائی کر کے بلیک کافی مگ میں انڈیل کر شہریار کا ناشتہ ٹرے میں سجا کر اس کے کمرے کی طرف بڑھی دروازہ کھلا ہوا تھا وہ ہلکی سی دستک دے کر اندر داخل ہوئی ۔۔۔
شہریار شاور لیکر بنا شرٹ پینٹ پہنے گلے میں تولیہ ڈالے ابھی باہر نکلا ہی تھا کہ ناشتے کی ٹرے اٹھائے سویرا اندر داخل ہوئی وہ اسے بنا شرٹ کے دیکھ کر گڑبڑا گئی اور رخ پھیر کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔
" کیا ہے کیوں آئی ہو ؟ "اس نے روکھے انداز میں پوچھا
" آپ کا ناشتہ ۔۔۔۔" وہ نظریں جھکائیں ٹرے اس کی سمت بڑھاتے ہوئے بولی
" میں باہر ٹیبل پر آرہا تھا خیر ادھر میز پر رکھ دو ۔۔۔" وہ اس کے نزدیک آکر اس کے سرخ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بولا
" سنو !! " اس نے ٹرے رکھ جاتی ہوئی سویرا کو روکا
" تم مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہوں ؟؟ میں کوئی آدم خور ہوں جو تمہیں کچا چبا جاؤنگا۔۔۔۔" اس کی گھمبیر آواز میں شوخی کی رمق لہرائی
وہ کانپتے ہاتھوں سے سر پر ٹکے دوپٹے کو مزید ٹھیک کرنے لگی شہریار نے ایک نظر اس کی گھبراہٹ کو دیکھا
" بولو تمہیں کیا بات کرنی تھی مجھ سے ؟ ریلیکس ہوجاؤ اور بتاؤ کیا کہنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔" وہ پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ تھا
" تو یہ طے ہے کہ تم کچھ بولو گی نہیں !! اوکے پھر یونہی سہی ۔۔۔" وہ بڑے اطمینان سے بازو باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا
سویرا چپ چاپ سر جھکائے کھڑی تھی جب کمرے میں خاموشی چھا گئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی پلکیں اٹھائیں سامنے ہی شہریار اپنے دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹے بڑے انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
" میں تمہارا منتظر ہوں مسز !! اور یہ بات تو لکھ لو جب تک تم اپنی بات نہیں کہو گی میں ادھر سے نہیں ہلنے والا ۔۔۔" وہ گھمبیر لہجے میں بولا
" آج سے اسٹیڈیز اسٹارٹ ہو گئی ہیں اور مجھے جوائن کرنا ہے ۔۔۔۔" وہ نظریں جھکائیں ہی بولی
" تم میری طرف دیکھ کیوں نہیں رہی ؟؟ " شہریار نے الٹا سوال کیا
"وہ آپ آپ ۔۔۔۔" اس کی آواز لڑکھڑائی
"آپ کیا ؟؟ " وہ اس کے دوپٹے سے جھانکتے بالوں کو اپنی مٹھی میں لیکر ان کی نرمی محسوس کرتے ہوئے بھاری گھمبیر لہجے میں بولا
" آپ پلیز شرٹ تو پہن لیں ۔۔۔۔" وہ آنکھیں میچتے ہوئے تیزی سے کہہ گئی
شہریار نے غور سے اس کے چہرے پر پھیلے شرم و حیا کے رنگ دیکھے اور میکانیکی انداز میں اس کی روشن پیشانی پر مہر محبت ثبت کر کے پلٹا اور بیڈ پر پڑی شرٹ اٹھائی ۔۔
" اب تم آنکھیں کھول سکتی ہو ؟؟ " وہ شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے بولا
" اگر تم مجھ سے اسکول جانے کی بات کرنے آئی ہوں تو سوری جب تک تمہارا فون نہیں جاتا میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتا ۔۔۔۔"اس کے لہجے میں سرد مہری تھی
" میری کلاسز مس ہو جائینگی اور فون تو ادھر فارم ہاؤس میں ہے وہ کیسے آئیگا ۔۔۔" سویرا روہانسی ہوئی
" دیکھو مسز !! میں ہر وقت فارغ نہیں ہوتا کل بھی تمہاری وجہ سے سارے کام چھوڑ کر گھر بھاگا چلا آیا تھا اور اب تم باہر جاؤ اور میرے رابطے میں نا رہو یہ ممکن نہیں ہے شرافت سے گھر میں بیٹھو ۔۔۔۔" وہ ٹائی کی ناٹ باندھ کر کوٹ اٹھاتے ہوئے بولا
" جی ٹھیک ہے ۔۔۔" سویرا کا دل بھر آیا تھا اس نے چہرہ جھکا لیا
" شام میں تیار رہنا فون لینے چلیں گے اوکے ۔۔۔۔" وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بریف کیس اٹھا کر باہر نکل گیا ۔۔
***********************
ریڈنگ ویک ختم ہوچکا تھا یونیورسٹی کھل چکی تھی وہ صبح سویرے ہی کیمپس آچکا تھا اور اب فرسٹ پراف کی کلاس کو نظر میں رکھے ستون سے ٹیک لگائے سویرا کا انتظار کررہا تھا آتے جاتے اسٹوڈنٹس اس کی پرسنیلٹی کو سراہتے ہوئے گزر رہے تھے پر وہ سب سے بے نیاز تھا سویرا نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا پہلے خود راہ و رسم بڑھائی پھر اپنے شوہر کی بے اعتنائی کا رونا رویا اور پارٹی میں بھی خود انوائیٹ کرکے اس کی بے عزتی کروائی ۔۔۔۔پارٹی کا سوچ کر اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو گئیں ٹائم ہوچکا تھا سب اسٹوڈنٹس اپنی اپنی کلاسز میں پہنچ چکے تھے پر وہ سویرا نہیں آئی تھی ۔۔۔
" مس سویرا میں تو تمہیں سیدھا سادھا معصوم جان کر تمہاری طرف بڑھا تھا لیکن اب میں تمہاری اس معصومیت کا پردہ فاش کردونگا ایسی جگہ لے جا کر مارونگا کہ تمہارا وہ سو کالڈ ہسبنڈ تمہیں ڈھونڈتا رہ جائیگا ۔۔۔" وہ سگار مسلتے ہوئے آگے بڑھا
اسٹاف روم میں پہنچ کر اس نے اپنا سیل نکالا اور سویرا کو میسنجر پر کال کرنے لگا وہ کال پر کال کررہا تھا مگر وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی
" فون اٹھاؤ اور مجھ سے بات کرو ورنہ تمہارا وہ حشر کرونگا کہ تم کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہو گی ۔۔۔" اس نے میسج کیا
اب اسے سویرا کے یونیورسٹی آنے کا انتظار تھا وہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ تھی آخر کب تک گھر بیٹھ سکتی تھی
__________________________
سلیم صاحب، زاہدہ تائی ، اور فرزانہ پھپھو تینوں اس وقت ائیر پورٹ پر موجود تھے بورڈنگ ہو چکی تھی اب اس فلائیٹ کے اڑنے کا انتظار تھا ۔۔
" آج پہلی بار میں اپنے بچے کا گھر دیکھوں گی اور سلیم میں کہہ دیتی ہوں کہ میرے کسی معاملے میں تم میاں بیوی ہرگز ٹانگ نہیں اڑاؤ گے اسی شرط پر میں نے اکرام کی دوسری شادی کینسل کی ہے ۔۔۔"