شہریار کی حسب معمول فجر کے وقت آنکھ کھلی۔ سویرا ابھی بھی سو رہی تھی۔ اس نے آہستگی سے سویرا کو خود سے الگ کیا اور اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔
ٹریک سوٹ پہن کر وہ جاگنگ کے لیے تیار تھا۔ سویرا ابھی بھی سو رہی تھی۔ جو کہ معمول کے خلاف تھا۔ وہ گھڑی پہنتے ہوئے سویرا کے پاس آیا اور غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
چہرے کی سوجن ختم ہو چکی تھی اور انگلیوں کے نشانات کی سرخی بھی مدھم پڑ چکی تھی۔ اس نے سویرا کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو چونک گیا۔ اسکا ماتھا بخار کی حرارت سے ہلکا ہلکا گرم ہو رہا تھا۔
وہ اسے سوتا چھوڑ کر باہر نکلا اور سیڑھیاں اترتے ہوئے اپنا فون نکال کر اینا کو کال ملائی۔
" ہیلو " اینا کی نیند میں ڈوبی آواز ابھری۔
" اینا گیٹ اپ! مجھے ٹھیک آدھے گھنٹے میں لاؤنچ میں ملو۔ " وہ دو ٹوک انداز میں بولتا ہوا فون بند کرچکا تھا۔
اینا گہری نیند سو رہی تھی۔ جب شہریار کی کال آئی۔ وہ جو اسے ٹھیک آدھے گھنٹے بعد نیچے بلا رہا تھا۔ اس نے ٹائم دیکھا صبح کے پانچ بج رہے تھے۔
" افف ایک تو یہ باس بھی! مجھے انہیں کل آفس فون بھجوانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ بلکہ ان کے فون کے دو ٹکڑے کر دینے چاہیے تھے۔ "
وہ جھنجھلاتے ہوئے اٹھی۔ اس کے پاس بس آدھا گھنٹہ تھا۔ وہ جلدی جلدی سے تیار ہو کر اپنی ڈائری اور پین لیکر ٹھیک اٹھائیس منٹ میں نیچے موجود تھی۔ جب شہریار باہر سے اندر داخل ہوا۔ ہالف سلیو ٹی شرٹ، ماتھے پر بکھرے بال اور ہلکا ہلکا سا بڑھا ہوا شیو اس کے چہرے کو مزید وجاہت بخش رہا تھا۔ اینا کی نظروں میں ستائش ابھری۔
" ان کو تو موویز میں کام کرنا چاہیے تھا۔ یہ اچھی بھلی ماڈلنگ فیلڈ چھوڑ کر پتہ نہیں بزنس میں کیوں آگئے؟ وہ چڑیل ان پر عاشق ہے تو اس میں سارا قصور ان کی اس ڈیشنگ لک کا ہے۔ " وہ سوچ رہی تھی۔
" مس اینا! " شہریار نے اس کی نظروں کے سامنے چٹکی بجائی۔
" یس باس! " وہ اس کی شخصیت کے سحر سے نکلتے ہوئے اٹینشن ہوئی۔
" یہ ڈیکوریشن کس نے کروائی ہے؟ "
" سر انٹیریئر ڈیزائن کمپنی ہائر کی تھی۔ انہوں نے ہی کیا ہے اور میں نے مس عروہ کی پسند کی کلر تھیم رکھوائی ہے سارے فلاورز میں۔ " وہ الجھی۔
" I don't like the interiors ۔۔change it۔ "
وہ حکم دے رہا تھا۔
" بٹ سر! شام میں پارٹی ہے۔ اب اتنی جلدی کیسے۔ " اینا پریشان ہو گئی تھی اس کے حکم سے۔
" تمہارے پاس دس گھنٹے ہیں! انف ٹائم ہے سب بدلنا ہوگا ، کیسے یہ تمہارا ہیڈک ہے۔"
" سر آپ بتائیں آپ کو کیسی ڈیکوریشن چاہیے۔"
" سمپل ، ایلیگنٹ اور ہاں مس عروہ کا کال کریں اور ان سے کہیں کہ اپنے سب فرینڈز اور فیملی کو بھی انوایٹ کریں۔۔"
" پر سر! اس طرح گیسٹ لسٹ بہت بڑھ جائیگی۔ " اینا ٹھیک ٹھاک پریشان ہو گئی تھی۔ اتنے لاسٹ منٹ پر وہ اتنی تبدیلیاں کروا رہا تھا۔
" اوکے سر! اور کیا فلاورز ارینجمنٹ بھی بدلنا ہوگا؟ "
" یس اینا مجھے یہ سرخ اور پیلے للی پسند نہیں ہیں۔ "
" سر آپ مس عروہ کو ذہن میں رکھ کر پھولوں کا کلر بتا دیں میں ارینج کرتی ہوں۔ "
" ہمم ۔۔۔" اس کی نظروں میں سویرا کا گلابی سا چہرا لہرایا۔
" پنک اور سفید گلاب ارینج کریں اور ہاں کیک بھی دو ہونے چاہیے۔ "
" دو کیک؟ " اینا کراہ اٹھی۔
" یس دو کیک ایک پر مس سویرا کا نام ہونا چاہیے۔ " وہ اسے حکم دیتا ہوا اوپر چلا گیا۔
" مس سویرا۔ " اینا نے دہرایا اس کی ساری کوفت کہیں دور بھاگ گئی تھی۔
" سر کرنا کیا چاہ رہے ہیں م؟ ایک پارٹی میں دو دو دھماکے او گاڈ اٹس ٹو مچ۔
شہریار اوپر اپنے کمرے میں آیا تو سویرا نماز پڑھنے میں مگن تھی۔ پورا کمرہ صاف ستھرا سمٹا ہوا تھا۔ وہ ایک نظر اس پر ڈالتے ہوئے لباس تبدیل کرنے چلا گیا۔
سویرا نے نماز پڑھ کر جائے نماز سمیٹی۔ اب اس کا ارادہ نیچے جا کر اینا کی مدد کرنے کا تھا۔ وہ بچپن سے ہی زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرتی چلی آئی تھی اور اب اس موڑ پر زندگی اس کیلئے جو چیلنچ لیکر آئی تھی۔ وہ اسے قبول کر چکی تھی۔ اپنی حیثیت کا تعین کر چکی تھی۔ وہ صرف ایک ملازمہ تھی اور بس جسے شہریار کا گھر سنبھالنا تھا۔ اس کے دیے گئے کام سر انجام دینے تھے۔
شہریار آفس جانے کی مکمل تیاری کے ساتھ تیار اپنی شرٹ کے کف لنکس لگاتا ہوا ڈریسنگ روم سے باہر نکلا تو سویرا کو دروازہ کھولتے دیکھ کر چونک گیا۔
" کہاں جا رہی ہو؟ " اس نے سوال کیا۔
وہ اس کے سوال پر ٹھٹک کر رکی۔
" نیچے اینا کی ہیلپ کروانے۔ "
" اوہ اینا کی ہیلپ! کیوں؟؟ میں تمہیں کام بتا دیتا ہوں۔ ایسا کرو پہلے تو میرے لیے ناشتہ اور کافی ریڈی کرو اور ہاں پارٹی تو رات گئے تک چلے گی۔ تم اپنی نگرانی میں گیسٹ روم تیار کروا لینا۔ شاید کوئی مہمان ٹھہرنا چاہے اور ہاں میں ہیوی کھانا پسند نہیں کرتا تو میرے لیے ڈنر میں کچھ لائٹ بنا کر رکھ دینا۔" وہ اس کے اداس اترے ہوئے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے ہدایات دے رہا تھا۔
وہ خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتی ہوئی نیچے جانے لگی تھی۔ جب شہریار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
" اب تم مجھے کبھی بھی ایسے ملگجے حلیہ میں نظر نا آؤ۔" اس نے دھیرے سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو چھوا۔
" تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں۔" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا۔
" نصیب خوبصورت ہونا چاہیے ورنہ سب بیکار ہے۔" وہ دھیرے سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔
" خیر اپنے ان بالوں کو سمیٹ کر رکھو۔ مجھے یہ بیڈروم سے باہر کھلے نظر نہیں آنے چاہیے۔ انڈر اسٹینڈ ؟ " وہ دور ہٹتے ہوئے گویا ہوا۔
" جی بہتر۔ " وہ اپنے لمبے بالوں کو جوڑے میں لپیٹ کر سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے تابعداری سے بولی۔
" میں لنچ تک آجاؤں گا۔ تم شام کی تقریب کیلئے اپنے کپڑے وغیرہ تیار کر لینا۔ " وہ اسے ہدایات دیتا ہوا لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گیا۔
******************
وہ شہر سے بہت دور کنٹری ہاؤس رینٹ پر لیکر نکلا تھا۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی وہ سختی سے لب بھینچے ڈرائیو کررہا تھا ابھی اسے شام کیلئے تیار ہونا تھا۔
" پلیز مجھے بچا لو! وہ وہ میرے ساتھ زبردستی کررہا ہے۔ مجھے سب سے دور لے جاؤ۔" اس کے کانوں میں سسکتی ہوئی آواز گونج رہی تھی۔
____________
وہ شہریار کی ساری ہدایات کو ذہن میں دہراتے ہوئے نیچے اتر آئی تھی پورے فارم ہاؤس میں ایک گہما گہمی مچی ہوئی تھی اینا سب ملازمین کے سر پر کھڑی ہدایات پر ہدایات دے رہی تھی ساتھ ساتھ فون پر کیٹرنگ والوں سے مینیو ڈسکس کررہی تھی سارے ملازمین کی وہ خوب دوڑیں لگوا رہی تھی دوسری طرف بریڈلی بڑے آرام سے پیر پسارے کافی پیتا ہوا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا
" ہیلو بریڈلی کیا ہورہا ہے ۔۔۔۔" وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی
" گڈ مارننگ !! میں بس تمہارے ہسبنڈ کی منگنی کی تیاریاں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔" وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا
" سویرا سوئیٹ ہارٹ !! تم ادھر نیچے کیا کررہی ہو؟؟ اوپر جاؤ اپنا سب سے بیسٹ ڈریس نکالو بیوٹی سلیپ لو تمہیں آج سب سے بیسٹ سب سے بیوٹی فل دکھنا چاہئیے۔۔۔" اینا تیزی سے اس کے پاس آکر بولی
" مجھے انہوں نے کچھ کام بتائیں ہیں وہ کر لوں پھر اوپر چکی جاؤ گئی ۔۔۔" وہ نرمی سے بولی
" واٹ ؟؟ باس نے تمہیں کام کرنے کو کہا ہے ؟؟ تمہیں !!! " وہ حیران ہوئی
" اس میں اتنی حیرانی کی کیا بات ہے بس تھوڑا سا کام ہی تو ہے ۔۔۔۔" سویرا نے کہا
" اینا ڈارلنگ تم اپنا کام کرو اور اس دماغ سے خالی لڑکی کو میں دیکھ لیتا ہوں " بریڈلی اٹھتے ہوئے بولا
" اوکے اس کا خیال رکھنا کہیں کوئی چوٹ ووٹ نہ لگوا لے ورنہ باس نے مجھے شوٹ کر دینا ہے ۔۔۔" اینا سویرا کو گھورتے ہوئے بریڈلی کو ہدایات دیتی ہوئی آگے بڑھ گئی
" اوکے مس سویرا !! چلئیے حکم فرمائیں کون سا عظیم کام ہمیں کرنا ہے ۔۔۔" بریڈلی نے کورنش بجا لاتے ہوئے پوچھا
" ان کیلئے سمپل سا لنچ اور ڈنر ریڈی کرنا ہے وہ تقریب کا ہیوی کھانا نہیں کھائیں گے ۔۔۔" سویرا کچن کی طرف بڑھی
بریڈلی نے کچن میں پہنچ کر ایپرن پہنا اب وہ نہایت مہارت سے سبزیاں چوپ کررہا تھا
" سویرا یار تم اسٹوو آن کرو اور چکن بوائل ہونے رکھو آج تمہارے کھڑوس ہسبنڈ کو چکن منچورین کھلاتے ہیں وہ بھی پھیکا سا ۔۔۔"
سویرا نے بریڈلی کے ساتھ مل کر کھانا پکا کر ڈش میں نکال کر رکھا اب وہ کچن کا سارا پھیلاوا سمیٹ رہی تھی
کچن سے فارغ ہو کر اس نے ہاؤس کیپر کے ساتھ گیسٹ رومز کا رخ کیا اپنی نگرانی میں ساری جھاڑ پونچھ کروا کر وہ اوپر کونے پر بنے کمرے میں آئی جہاں اینا نے رات اس کا سامان رکھوا دیا تھا ارادہ تھوڑی دیر کمر سیدھی کرنے کا تھا ۔ کمرے میں آکر وقت دیکھا تو دوپہر کا ایک بج رہا تھا وہ ظہر کی نماز کیلئے وضو کرنے چلی گئی ۔۔
وہ آفس سے اپنے اہم کام نبٹا کر دوپہر کو گھر پہنچا تو سامنے ہی اینا اور بریڈلی کاموں میں مصروف نظر آئے وہ ان سے ہیلو ہائے کرتا ہوا اوپر اپنے کمرے میں پہنچا دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ ایکدم واپس پلٹا اور راہداری کے آخری سرے پر بنے کمرے میں داخل ہوا اس کے اندازے کے عین مطابق سویرا اسی کمرے میں موجود نماز پڑھ رہی تھی ۔۔۔
" پکی مولانی ہے یہ لڑکی پتہ نہیں اس دور میں کیا کررہی ہے یہ ۔۔۔۔" وہ آرام سے اندر آکر بیٹھ گیا
سویرا سلام پھیر کر دعا مانگے بغیر جائے نماز لپیٹ رہی تھی ۔جب شہریار کی آواز پر چونک گئی
" سنو کیا دعا نہیں مانگو کی ؟؟ " وہ پوچھ رہا تھا
" نہیں !! " وہ سادگی سے کہتی ہوئی کھڑی ہوئی
" کیوں ؟؟ "
" کیونکہ میں شاید اللہ کو بھی پسند نہیں ہوں میری دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔"
" استغفر اللہ !! یہ کیا بکواس ہے ؟؟ ۔۔۔۔" وہ اسے گھورتا ہوا بولا
" آپ ادھر کیسے ؟ کوئی کام ہے کیا ؟ " سویرا نے دھیمی آواز میں پوچھا
" مجھے پتہ تھا تم ادھر ہی ملو گی کیونکہ اوپر کا چیمبر تو تمہارا ہے ہی نہیں اور نا ہی ایک بار کی کہی بات تمہاری عقل میں آتی ہے ۔خیر روم میں آؤ کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔۔" وہ کھڑا ہوا
" یہ بھی تو روم ہی ہے آپ ادھر ہی بات کر لیں ۔۔۔" وہ ہمت کر کے اس کی نفی کر گئی
ابھی وہ اس کی سمت بڑھنے ہی لگا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا جونس کی کال تھی وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا
" روم میں آؤ !! اور مائنڈ میں بٹھا لو مجھے انتظار کرنا پسند نہیں ہے ۔۔۔" وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے فون کال ریسیو کرتا ہوا باہر نکل گیا
" ہیلو جونس !! خیریت ، اس وقت کال کی کیا شام میں پارٹی میں نہیں آرہے ہو ؟ "
" شیری یہ تمہارے اور عروہ کے بیچ میں کیا چل رہا ہے ؟؟ " جونس نے اس کے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا
" کیا مطلب ؟؟ تم کہنا کیا چاہ رہے ہو ؟؟ "
" صبح عروہ اچانک سے میرے فلیٹ پر چلی آئی تھی اس کا رو رو کر برا حال ہو رہا ہے اس نے سویرا پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کا اور تمہارا رشتہ خراب کررہی ہے ،شیری عروہ میری دوست ہے اور مجھ سے برداشت نہیں ہوگا اگر تم اسے چیٹ کرو گے ۔۔۔" جونس سنجیدگی سے بولا
" جونس !! سویرا کو اس معاملے میں مت گھسیٹو ۔۔۔" وہ سرد لہجے میں بولا
" شیری یار وہ کہہ کر گئی ہے کہ اگر سویرا کو بیچ میں سے نہیں ہٹایا تو وہ خودکشی کر لےگی اسی لئیے تمہیں فون کر کے سچویشن پوچھ رہا ہوں میں تم دونوں کا دوست ہوں بہتر ہے کہ تم عروہ کی غلط فہمی دور کرو وہ سمجھ رہی ہے کہ سویرا نے تم پر ڈورے ڈالے ہیں ۔۔۔" جونس کچھ پل کیلئے خاموش ہو گیا
" جونس !! بیفکر رہو آج ساری غلط فہمیاں دور کردونگا ۔۔۔۔" وہ فون رکھتے ہوئے بولا
سویرا جو چپ چاپ سر جھکائے اس کے پیچھے آرہی تھی فون سے نکلتی آواز اور ان دونوں کی گفتگو سن کر چونک گئی جیسے ہی شہریار نے فون رکھا وہ اس کے سامنے آگئی
"میں کبھی بھی آپ دونوں کے بیچ میں نہیں آئی میں بھلا ایسا کیوں کرونگی ؟؟مجھے پتہ ہے آپ مجھے پسند نہیں کرتے میں کیوں ۔۔۔۔۔" وہ رو پڑی سارے دن کا غبار اس کے آنسوؤں میں امنڈ آیا تھا
" تم !!! " وہ اس کے قریب آیا
" مجھے روتی ہوئی لڑکیاں زہر لگتی ہیں آئندہ اگر میں نے تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھے تو یقین کرو ٹانگیں توڑ کر پاکستان بھجوا دونگا ۔۔۔" وہ سختی سے اسے ٹوک رہا تھا
" اب یہ ملکہ جذبات کے فیز سے نکلو جب دیکھو روتی صورت اور شام کیلئے میرے کپڑے تیار کرو ۔۔۔۔"
" میں !! میں کیسے تیار کروں مجھے تو مردانہ کپڑے سینے نہیں آتے ۔۔۔وہ اس کے نئے حکم پر پریشان ہو گئی
" مسز شہریار !! اپنی عقل استعمال کرنا سیکھئیے !! " اس نے طنزیہ انداز میں بولا
" الماری میں میرا ڈریس رکھا ہے اسے پریس کر کے لاؤ ۔۔۔" وہ اس کی عقل پر افسوس کرتے ہوئے گویا ہوا
سویرا نے آگے بڑھ کر الماری کھولی جہاں اس کا نیا ٹکسیڈو لٹک رہا تھا
" یہ تو سوٹ ہے اور بالکل نیا ہے کریس بھی اچھی خاصی ہے ۔۔۔"
" جب کہہ دیا پریس کرو تو جاؤ پریس کر کے لاؤ ۔۔۔۔" وہ خشک لہجے میں بولا
*********************
سویرا نے اپنی خاموشی سے ،اپنی سادگی سے شہریار کے دل میں اپنی جگہ بنائی تھی وہ چاہتا تھا کہ سویرا اسے جان لے اسے دل سے قبول کرے اس کا دل بنا کسی پلاننگ کے بنا کسی وجہ کے سویرا کی جانب کھنچا چلا جا رہا تھا جذبے منھ زور ہو رہے تھے اور وہ احمق لڑکی اسے سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔
" سنئیے آپ کے کپڑے پریس کردئیے ہیں ۔۔۔" وہ کپڑے سلیقے سے ہینگر میں ہینگ کئیے اس کے پاس لے کر آئی
شہریار نے اس کے ہاتھ سے ہینگر لیکر بیڈ پر رکھا اور اس کی لمبی بھیگی پلکوں کو بغور دیکھتے ہوئے اس کی نازک مرمریں کلائی اپنی گرفت میں لی
" سنو !! تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا اپنے وجود کا حصہ بنانا یہ سب میں نے کسی مجبوری میں یا دباؤ میں نہیں کیا ہے ۔۔۔۔"وہ گھمبیر لیجے میں بول رہا تھا
" پلیز !! میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔۔" سویرا نے کلائی چھڑوانی چاہی
" ادھر دیکھو ، میری آنکھوں میں ۔۔۔۔" وہ دھیرے سے اس کا چہرہ اٹھاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا
سویرا نے اپنی جھکی پلکیں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا مگر فوری نظریں جھکا لیں وہ جن نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ اس کا دل دھڑکا گئی تھی ۔۔۔
" میں نے کہا تھا نا کہ مجھے یہ آنکھیں کبھی بھی بھیگی نظر نہ آئیں ۔۔۔۔" وہ اس کی پلکوں کو چھوتے ہوئے بولا
" کیا مصیبت ہے !! دل کیوں بغاوت کررہا ہے کیوں ان کی طرف کھنچ رہا ہے ۔۔۔۔" وہ اپنی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی
" کچھ کہو گی نہیں ؟؟ " وہ اس کی پلکوں پر چمکتے آنسوؤں کو بڑے دھیان سے اپنی انگلیوں کی پوروں میں سمیٹ رہا تھا
" آپ تیار ہو جائیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔" وہ جھجک کر نظریں چراتی ہوئی بولی
" سنو لڑکی !!جتنا میں نے تمہیں جانا ہے اور سمجھا ہے اتنا تو شاید تم بھی خود کو نہیں جانتی ہوگی !! بس اپنے ننھے سے دماغ میں بھرا بھوسہ نکال کر باہر پھینک دو اور مجھ سے، میرے گھر سے ، دور جانے کا خیال بھی اپنے نزدیک پھٹکنے مت دینا میں اپنی عزت کے معاملے میں بہت جنونی ہوں اور تم !!! " اس نے ہنکارہ بھرا
" تم میری عزت ہو مسز شہریار !! یہ کبھی مت بھولنا " وہ اسے وارن کررہا تھا
"شام میں ڈھنگ سے تیار ہوجانا کچھ چاہئیے ہو تو اینا کو انفارم کر دینا ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اپنا لیب ٹاپ لیکر کام میں مصروف ہو گیا
**************
شام ہو رہی تھی پورا فارم ہاؤس برقی لائیٹس سے جگمگا رہا تھا چاروں جانب سفید اور گلابی پھولوں کی بہار تھی مہمان آنا شروع ہوچکے تھے نیوی بلیو میکسی میں اینا سب کا استقبال کررہی تھی ہلکا ہلکا آرکسٹرا اپنی دھن بجا رہا تھا چاروں جانب باوردی ویٹرس ڈرنک سرو کررہے تھے جب شہریار لان میں داخل ہوا ۔۔۔ سفید شرٹ کے اوپر بلیک کوٹ ہلکا ہلکا سا بڑھا ہوا شیو اس کی پرسنیلٹی میں چار چاند لگا رہا تھا وہ سب کی ستائشی نگاہوں کا مرکز بڑے اطمینان سے پر اعتماد چال چلتا ہوا سب سے ملتا ملاتا اینا کے پاس آیا ۔۔
" سر مس عروہ دو منٹ میں گیٹ پر ہونگی آپ نے انہیں رسیو کرنا ہے ۔۔۔" اینا نے اسے ہدایات دی
" اینا !! وہ جب آجائے تو میرے پاس لے آنا ۔" وہ کہتا ہوا مہمانوں کی طرف بڑھ گیا
" باس !! " اینا تلملا کر رہ گئی
تھوڑی ہی دیر میں عروہ اپنے پیرنٹس کے ساتھ گیٹ پر موجود تھی ۔۔۔
اینا نے آگے بڑھ کر انہیں ویلکم کیا ۔۔
" شہریار کدھر ہے ؟؟ " عروہ نے چاروں جانب نگاہیں دوڑائیں
" باس ادھر مہمانوں کے ساتھ ہیں آئیں میں آپ کو گائیڈ کروں ۔۔۔" وہ سجی سنوری عروہ کو دیکھتے ہوئے بولی
بلیو میرون امتزاج سے بنی انڈین اسٹائل چولی اور کمر سے نیچے بندھے گھاگرے میں عروہ کا حسن نمایاں ہورہا تھا آج اس نے اپنے گھونگریالے بالوں کا اونچا جوڑا بنایا تھا جس سے اس کی گردن اور بیک لیس چولی سے جھلکتا جسم شیشے کی طرح چمک رہا تھا وہ سب کی توجہ کھینچ رہی تھی نازک سی جیولری میں ،پارٹی میک اپ سے سجا اس کا چہرہ کسی آسماں سے اتری اپسرا کا سا روپ اختیار کر گیا تھا وہ پہلے ہی بہت خوبصورت تھی پر آج تو اس کی چھب ہی نرالی تھی ۔۔۔
" واؤ مسٹر شہریار یہ آپ کی گرل فرینڈ تو بہت ہاٹ ہے ۔۔۔" اس کے بزنس پارٹنر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا
شہریار نے ناگواری سے عروہ کو دیکھتے ہوئے اس آدمی کا ہاتھ اپنے شانے سے ہٹایا
" شیری !! " عروہ نے پاس آکر اسے پکارا
وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے عروہ کے پیرنٹس سے آگے بڑھ کر ملا انہیں ان کی ٹیبل تک پہنچا کر پلٹا تو عروہ منھ پھلائے کھڑی تھی
" شیری !! تم بہت روڈ ہو دیکھو سب مجھے دیکھ رہے ہیں تمہاری قسمت پر رشک کررہے ہیں اور ایک تم ہو !!! "
" عروہ !! یہ کیا واہیات ڈریس پہنا ہے ؟؟ اس سے بہتر تو تم اسکرٹ پہن کر آجاتی ۔۔۔" وہ ناگواری سے بولا
" او گاڈ شیری !! یہ تو ایشین ڈریس ہے اب تمہیں اس میں بھی پرابلم ہے کیا ؟؟ اور تم مجھے گیٹ پر رسیو کرنے کیوں نہیں آئے ؟ کتنا اچھا لگتا نا جب ہم دونوں لو برڈز کی طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک ساتھ اندر آتے ۔۔۔" وہ اس کے بازو میں ہاتھ ڈال کر اس کے شانے پہ سر رکھتے ہوئے بولی
"عروہ behave !! " اس نے آہستگی سے اس کو دور کیا
" مجھے اس طرح اچھا نہیں لگتا اور لڑکی اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی اینٹری کرتے ہوئے ججتی ہے ویسے بھی مجھ سے ایسے چونچلے نہیں اٹھائے جاتے " وہ اکھڑ انداز میں بولا
" اوکے میرے اینگری ہیرو !! چلو آؤ میرے فرینڈز سے تو مل لو ۔۔۔" وہ بڑی ہوشیاری سے ٹاپک بدل گئی
********************
"سویرا آخر کب تم تیار ہوگی نیچے سب مہمان آچکے ہیں تمہاری اینا نے فون کر کر کے میرا دماغ کھا لیا ہے ۔۔" سوٹ پینٹ میں جیل سے بالوں کو اسٹائل سے جمائے بریڈلی اندر داخل ہوا
" واؤ یار تم تو بہت پریٹی لگ رہی ہو !! " وہ سویرا کو دیکھ کر ٹھٹکا
" دیکھا نا میں نے منع کیا تھا اینا کو پر اس نے میرا میک اپ کروا دیا دیکھو تو بالکل کارٹون لگ رہی ہوں ۔۔۔" وہ جھنجھلائی
" خیر کارٹون تو تم اوپر سے بنی بنائی ہوں لیکن اس وقت ٹرسٹ می !! تم سے اچھا کوئی نہیں ہوگا اس محفل میں ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا
" چلیں !! " سویرا نے قدم بڑھائے
ادھر سے نہیں ہم ٹیرس کی سیڑھیوں سے لان میں اتریں گے ۔۔۔" وہ اسے روکتا ہوا بولا
" اینا ہم نیچے اتر رہے ہیں ۔۔۔۔" اس نے سیڑھی کے پاس پہنچ کر اینا کو اطلاع دی
*****************
وہ بیزاری سے عروہ کے دوستوں سے مل رہا تھا جن میں لڑکے لڑکیاں سب شامل تھے جب اچانک سے لان میں اندھیرا چھا گیا اور پھر ایک اسپاٹ لائٹ آن ہوئی جو گھومتی ہوئی لان کی سیڑھیوں کی طرف بڑھی سفید پھولوں سے سجی سیڑھیوں پر گھبرائی ہوئی سویرا کھڑی تھی وہ سب کی توجہ خود پر مبذول پا کر گھبرا کر پیچھے مڑی تو بریڈلی غائب تھا
وہ ایک پل کو اسے دیکھ کر ٹھٹکا تھا اس نے نفیس فینسی سا گلابی کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا ساتھ میں شیفون کا کام والا لمبا سا دوپٹہ جس کو اس نے ہمیشہ کی طرح سلیقے سے سر پر جمایا ہوا تھا لمبی موٹی چوٹی بائیں کندھے سے آگے جھول رہی تھی چند شریر لٹیں اس کے خوبصورت چہرے کا احاطہ کئیے ہوئے تھیں سارے مہمانوں کی توجہ اس کی طرف تھی وہ جو کسی مشرقی شاہزادی کی طرح سہج سہج کر قدم اٹھا رہی تھی ایک دم لائٹ اور سب کی توجہ خود پر دیکھ کر گھبرا کر دوسری ہی سیڑھی پر رک گئی تھی
" شیری !! یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔" عروہ شہریار کا ہاتھ پکڑ کر بولی اس کے چہرے پر الجھن تھی
اس نے بڑے اطمینان سے عروہ کا ہاتھ ہٹایا اور تیزی سے لمبے لمبے قدم اٹھاتا سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے سویرا تک پہنچا
" اٹس اوکے مسز !! ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔" اس نے سویرا کو اپنے حصار میں لیا۔
وہ سب لوگوں کی توجہ خود پر مرکوز دیکھ کر گھبرا گئی تھی اس سے پہلے وہ پلٹ کر واپس جاتی سامنے سے شہریار اس کی طرف تیزی سے چلتا ہوا آیا اور آتے ہی اسے اپنے مضبوط حصار میں لے کر سب سے چھپا چکا تھا وہ شاید اس کا ڈر بھانپ چکا تھا ۔۔۔
" اٹس اوکے مسز! ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔" وہ اس کے کان میں سرگوشی کررہا تھا اسے ایک اطمینان سا اپنی رگ رگ میں اترتا ہوا محسوس ہوا ۔
" تم ٹھیک ہو ؟؟ " شہریار نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے پوچھا
"جی! " وہ اتنے لوگوں کے سامنے اس کی قربت سے گھبرا گئی تھی
" چلیں پھر! " وہ اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے بولا
" سب دیکھ رہے ہیں آپ ہاتھ تو چھوڑیں۔" وہ نروس ہوئی۔
شہریار نے اس کے نازک سے ہاتھ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کی اور اسے لیکر آرام سے نیچے اترنے لگا۔ وہ دونوں ایک ساتھ بالکل پرفیکٹ نظر آرہے تھے۔ سب کی نظروں میں ستائش تھی۔ سارے مہمان ان دونوں کے نیچے پہنچتے ہی کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگے تھے۔
" عروہ! بیٹا یہ سب کیا ہے؟ کون ہے یہ لڑکی؟ " عروہ کے ڈیڈ نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا
" ڈیڈ! یہ یہ شیری کی کزن ہے پاکستان سے آئی ہے۔" ابھی عروہ بات کر ہی رہی تھی کہ شہریار، سویرا کو اینا اور بریڈلی کے پاس چھوڑ کر ان کی ٹیبل پر آیا۔
" شہریار یہ سب کیا ہے؟ " عروہ کی ممی نے غصہ دباتے ہوئے پوچھا۔
" مسز سہراب! ری لیکس۔۔"
"عروہ! تم نے اپنے پیرنٹس کو نہیں بتایا کیا؟ " وہ آرام سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
" کیا بات ہے کیوں ہماری عزت کا جنازہ نکال رہے ہو تم دونوں؟ بتاتے کیوں نہیں وہ لڑکی کون ہے اور تمہاری اس کے ساتھ اتنی نزدیکی؟ " مسز سہراب تلملا اٹھیں۔
" ویل! وہ لڑکی مسز شہریار ہے میری وائف۔۔۔"
" تم نے ہمیں دھوکہ دیا۔ اس طرح بھری محفل میں بلا کر ذلیل کیا؟ میں تمہیں چھوڑو۔۔۔" عروہ کے ڈیڈ غرائے۔
" مسٹر سہراب ۔۔۔۔" شہریار نے ان کی بات کاٹی۔
" میں نے آپ کوئی دھوکہ نہیں دیا ہے۔ سویرا سے میرا نکاح لڑکپن میں ہوا تھا اور آپ کی بیٹی کو میں ساری حقیقت بتا چکا تھا۔ میں تو آپ سے بھی ملنا چاہ رہا تھا۔ مگر عروہ نے منع کردیا۔" وہ سکون سے بولا۔
" عروہ یہ سچ کہہ رہا ہے۔" مسٹر سہراب نے عروہ کو گھورا
" اور تم، جب تمہاری پہلی بیوی موجود ہے تو پھر یہ منگنی کا تماشہ کیوں لگایا؟ میری بیٹی کو ذلیل کرنے کے لیے؟ " وہ دوبارہ اس کی طرف پلٹے۔
" جناب میں نے آپ کی بیٹی کو صاف کہہ دیا تھا کہ میں اپنی وائف کو نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر اسے پھر بھی مجھ سے رشتہ جوڑنا تھا۔ وہ دوسری بیوی تک بننے کو تیار تھی۔ اب آپ بتائیں۔ ساری سچائی آپ کے سامنے ہے۔ ادھر آپ کی ہی عزت کیلئے کسی بھی گیسٹ کو انگیجمنٹ کا بلاوا نہیں دیا گیا ہے۔ بلکہ سرپرائز پارٹی اناؤنس کی ہے۔"
" مگر شہریار! " مسٹر سہراب نے اپنا سگار میز پر رکھا
" ڈیڈ پلیز اب اور کوئی بات نہیں اور شیری میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں۔ ہماری انگیجمنٹ ہوگی اور آج ہی ہوگی بس۔" وہ سہراب صاحب کی بات کاٹتے ہوئے غصہ سے بولی
" انیف عروہ! بس اٹھو اور گھر چلو ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔" اس کی ممی نے ٹوکا
" لسن ممی! اگر شیری میرا نہیں ہوا تو ۔۔۔۔ تو میں اس لڑکی کو جان سے مار دونگی۔۔" وہ غرائی
" وہ لڑکی میری وائف ہے۔ اگر ہوا بھی اسے چھو کر گزرے گی تو میں برداشت نہیں کرونگا۔ تو سوچو جو اسے نقصان پہچانے کا سوچے گا، میں اس کا کیا حشر کروں گا۔ " شہریار سرد لہجے میں بولا۔
" بس بہت ہوگیا اٹھو یہاں سے گھر چلو۔" مسٹر سہراب نے عروہ کا ہاتھ پکڑا
" ڈیڈ میں خود کو شوٹ کر لونگی اور شیری تم۔ میری موت کے ذمہ دار تم ہوگے۔" وہ غصہ سے لرز رہی تھی۔
" شہریار کیا میں اکیلے میں تم سے بات کر سکتا ہوں؟ " سہراب صاحب نے ریکوئیسٹ کی۔
شہریار اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ان کو لے کر آگے بڑھا ہی تھا کہ سامنے سے جونس آتا نظر آیا۔
" مبارک ہو دوست۔" وہ بڑی خوشدلی سے اس کے گلے لگا
" سب ٹھیک تو ہے؟ " اس نے حیرت سے شہریار کے اور مسٹر سہراب کے سنجیدہ چہرے کو دیکھا۔
" تم بھی ساتھ آجاؤ۔ " شہریار نے اسے بھی ساتھ آنے کا کہا اور یہ تینوں مرد حضرات فارم ہاؤس کے اندر لِونگ روم میں آگئے۔
" شہریار! عروہ بچپن سے بہت شدت پسند ہے۔ وہ ہر چیز جو اسے پسند آجائے اس پر اپنا حق سمجھتی ہے۔" مسٹر سہراب نے بات شروع کی۔
" سر! میں کوئی چیز نہیں ہوں اور جب عروہ میری طرف بڑھی تھی۔ میں نے اس وقت بھی آپ کو خود انفارم کیا تھا کہ میں سیریس نہیں ہوں۔ میری فیملی نہیں مانے گی اور میں اپنی فیملی کے خلاف نہیں جاؤنگا۔ "
" شہریار وہ واقعی خود کو شوٹ کر لےگی۔" مسٹر سہراب نے پریشانی سے کہا
" آخر ہوا کیا ہے ؟؟ " جونس نے ان دونوں کو کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
شہریار نے جونس کو شروع سے لیکر آخر تک کی بات تفصیل سے بتائی۔
" وہ خودکشی کی دھمکی دے رہی ہے۔ " شہریار نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
" کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اس سے منگنی کر لو۔ پھر حالات کے سنبھلتے ہی توڑ دینا ؟؟ میری بچی کے لیے یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ " مسٹر سہراب نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔
" مگر! اس سے سویرا, میری وائف ڈسٹرب ہوگی۔ ابھی بھی دو روز سے وہ ڈھنگ سے سوئی نہیں ہے۔ بس چپ چاپ سب سے چھپ کر آنسو بہا رہی ہے۔ " وہ الجھا
" شیری! سویرا کو میں نے بہن بولا ہے اسے ہم مل کر سمجھا لینگے بلک۔۔۔۔" جونس کہتے کہتے رکا
" مجھے عروہ بہت پسند ہے میں اسے لائک کرتا ہوں اور اسے اس فیز سے نکلنے میں ہیلپ بھی کرونگا۔ بس آج تم یہ منگنی کر لو تاکہ وہ کچھ الٹا سیدھا نا کرے۔" جونس نے سمجھایا۔
" اوکے لیکن یہ منگنی میرے نزدیک بس ایک ڈھونگ ہے اور کچھ نہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ آپ سب یہ ذہن میں رکھیے گا۔" وہ سرد لہجے میں بولتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
******************
سویرا اینا اور بریڈلی کے ساتھ تھی شہریار کے سارے دوست احباب اس سے ملنا چاہ رہے تھے۔ اس کے بارے میں جاننا چاہ رہے تھے۔ وہ اتنی نگاہوں کا منظر بن کر ٹھیک ٹھاک بوکھلائی ہوئی تھی۔ جب شہریار اندر فارم ہاؤس سے نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔ وہ سویرا کو دیکھے بغیر سیدھا عروہ کے پاس گیا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں میں آنسو آنے کو بیتاب تھے۔ دل میں ایک خوف سا تھا۔
" بھئ یہ پارٹی ہے۔ کچھ ماحول بناؤ، میوزک چلاؤ۔ " جونس ان کے پاس آکر اینا سے مخاطب ہوا۔
" یس سر! میں اسٹارٹ کرواتی ہوں ۔۔ " اینا نے اثبات میں سر ہلایا
" کیسی ہو سویرا !! " اینا کے جانے کے بعد وہ سویرا سے مخاطب ہوا
" جی ٹھیک ۔۔۔" وہ ہولے سے دور کونے پر بات کرتے ہوئے شہریار اور عروہ کو دیکھتے ہوئے بولی
اسی وقت لائٹ سا میوزک بلند آواز میں چلنے لگا سب لوگ کھا پی رہے تھے کھل کر انجوائے کررہے تھے کئی کپلز میوزک انجوائے کرتے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے جھوم رہے تھے
*********************
"شہریار !! تم بس اتنا بتا دو کہ منگنی کررہے ہو یا نہیں ؟؟ بلکہ منگنی چھوڑوں ایسا کرو نکاح کر لو مجھ سے ۔۔۔" وہ اپنا بازو چھڑوا کر درخت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی
" عروہ !! میں تم سے پیار نہیں کرتا یہ تم بھی جانتی ہو پھر کیوں اپنی زندگی داؤ پر لگانا چاہتی ہو ؟؟ " شہریار نے اس سے سنجیدگی سے پوچھا
" شیم آن یو شہریار !! ایک عام سی معمولی سی لڑکی کیلئے تم مجھے ٹھکرانا چاہتے ہو ، مجھے !! جس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے سب مرے جاتے ہیں ۔۔۔" اس کے لہجے میں نفرت سے زیادہ تضحیک تھی
" وہ عام لڑکی نہیں ہے وہ مسز شہریار ہے انڈر اسٹینڈ ۔۔۔" وہ جتاتے ہوئے بولا
" ہونہہ مسز شہریار مائی فٹ !! اس میں ایسی کیا خوبی ہے بولو ؟؟ نا وہ تمہارے ساتھ کسی بزنس میٹنگ میں جاسکتی ہے نا ہی تمہارے سرکل میں موو کر سکتی ہے آخر اس چڑیل میں ہے ہی کیا جس کی خاطر آج تم مرے جارہے ہو ؟؟ میں خود کو جان سے مار لونگی لیکن تمہیں اس کا نہیں ہونے دونگی ۔۔۔۔" عروہ کا لہجہ ہنوز تھا
" عروہ اس میں کیا ہے یہ تم نہیں سمجھو گئی ہر مرد کی خواہش ایک پاکباز بیوی کی ہوتی ہے جس کا دائرہ اس کے شوہر کے گرد گھومتا ہو نا کے شوہر کے سرکل کے گرد خیر لیو اٹ ہم منگنی کررہے ہیں لیکن ایک بات کان کھول کر سن لو تم سویرا سے دور رہو گی ۔۔۔۔" وہ دو ٹوک انداز میں بولا
" سیریسلی !! او گاڈ شیری لو یو سو مچ مجھ سے ویٹ نہیں ہو رہا کب تم میری انگلی میں اپنے نام کی رنگ پہناؤ گے ۔۔۔۔۔" وہ خوشی سے جھوم اٹھی
شہریار نے ایک پل کو اس کا یہ بدلتا ہوا روپ دیکھا ۔۔۔
میں سویرا سے بات کر کے آتا ہوں تم جب تک اپنے پیرنٹس کے ساتھ سینٹر اسٹیج پر چلو ۔۔۔" وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے سویرا کی طرف بڑھا جو جونس سے بات کرتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
" جونس ایکسکیوز از !! " وہ سویرا کا ہاتھ پکڑ کر جونس سے ایکسکیوز کرتے ہوئے اندر چلا آیا
" آپ کہاں ۔۔۔۔"
"ششش !! " وہ اسے چپ کراتے ہوئے اوپر اپنے بیڈ روم میں لے آیا
" آپ ادھر کیوں آئے ہیں ۔۔۔۔" گلابی خوبصورت لباس میں اس کا معصوم چہرہ اس قدر دلکش لگ رہا تھا کہ وہ بےخود سا ہونے لگا
" تم اپنے ہسبنڈ کے ساتھ ہو سوئیٹ ہارٹ کوئی ٹینشن مت لو ۔۔۔" وہ اسے خود سے قریب کرتے ہوئے بولا
" سنو !! محبت کی پہلی سیڑھی اعتماد ہوتی ہے اس لیے میں چاہے جو بھی کروں تمہیں مجھ پر یقین رکھنا ہوگا وعدہ کرو کبھی بھی بدظن نہیں ہوگی ۔۔۔" وہ اسے اپنی گرفت میں لیے پوچھ رہا تھا
سویرا نے بھلا کب شہریار کا ایسا روپ دیکھا تھا وہ اسے سمجھ نہیں پا رہی تھی اس کے چہرے پر شرم و حیا کے دلکش رنگ پھیل گئے تھے
" تم بہت خوبصورت ہو اور تمہاری ساری دلکشی تمہاری حیا تمہارا گریز ہے ہمیشہ ایسی ہی رہنا ۔۔۔" وہ اس کے چہرے پر بکھری لٹوں کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے گھمبیر آواز دھیرے سے بولا
شہریار نے اسے اپنی گرفت سے آزاد کرکے سائیڈ ٹیبل پر سے جیولری باکس اٹھا کر رنگ اور چین باہر نکالی
" یہ ہمارے نکاح کا گفٹ جو مجھ پر ادھار تھا ۔۔۔" وہ اس کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے بڑی توجہ سے رنگ پہناتے ہوئے بولا
" آپ ۔۔
" ششش !! " وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش کروا گیا
" اور یہ تمہارا رونمائی کا گفٹ جو مجھے تمہیں پرسوں رات دینا چاہیے تھا ۔۔۔" وہ بیش قیمت چین لاکٹ اس کی نازک سی سفید شفاف گردن میں پہناتے ہوئے بولا
سویرا اس کی مضبوط گرفت اور پرجوش انداز پر حیران تھی آج پہلی بار شہریار کے لہجے میں محبت اور چاہت کے پرزور جذبوں کی مہک تھی ایک جنون تھا ۔۔۔
چند لمحوں کی پرفسوں خاموشی کے بعد کے بعد شہریار نے سویرا کو شانوں سے تھام کر بیڈ پر بٹھایا
" میں ابھی کچھ دیر بعد عروہ سے منگنی کر رہا ہوں یہ میری مجبوری سمجھ لو ۔۔۔" وہ کھڑا ہوا
" تم ابھی یہی رہو مگر ٹھیک پندرہ منٹ بعد نیچے نظر آؤ اوکے ۔۔۔" وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ابھرتی ہوئی نمی سے نظریں چراتے ہوئے پلٹ کر نیچے تقریب میں چلا گیا
تھوڑی دیر بعد سویرا اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھی اور کھڑکی میں آکر کھڑی ہو گئی جہاں سے نیچے روشنیوں کے حصار میں شہریار عروہ کو انگوٹھی پہنا رہا تھا عروہ کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ !!؟ وہ ناچاہتے ہوئے بھی رو رہی تھی۔۔۔پھر وہ پردہ برابر کرتے ہوئے پیچھے ہٹی پندرہ منٹ ہو چکے تھے اسے شہریار کے حکم کے مطابق نیچے جانا تھا ۔۔۔
وہ اپنا حلیہ درست کر کے نیچے آئی سامنے ہی اینا اور بریڈلی کھڑے ہوئے تھے وہ بجھے ہوئے قدموں سے چلتی ہوئی ان کے پاس آئی
" یہ تمہارا باس کیا پاگل ہے جو اس لومڑی کو رنگ پہنا دی ۔۔۔۔" بریڈلی شدید غصہ میں تھا
" اور تم !! کیسی بیوی ہو ؟؟ اسے روکا کیوں نہیں ۔۔۔" وہ سویرا پر برسا
" بریڈلی تم ۔۔۔۔" اینا نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا
" میں اب ادھر ایک منٹ بھی نہیں رک سکتا ۔۔۔" وہ اینا کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے اندر کمرے میں چلا گیا
اینا سویرا کو دیکھ کر زبردستی مسکراتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس کا دل بہلانے کی کوشش کررہی تھی
*************************
چھ فٹ سے نکلتا قد نیلی آنکھیں سنہرے بال ورزشی جسامت جدید تراش کے سوٹ میں ملبوس بالوں کو الٹا جما کر سیٹ کئیے ہوئے وہ ہینڈسم جوان گاڑی سے اترا ۔۔
دربان اس کی وجاہت سے مرعوب ہوتے ہوئے اس کو سلیوٹ کرتے ہوئے گیٹ کھول چکا تھا وہ چاروں اطراف دیکھتے ہوئے دور باغ میں آرگنائز کی گئی تقریب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ تبھی تالیوں کی گونج سنائی دی سامنے اسٹیج پر مشہور بزنس ٹائیکون مسٹر شہریار اپنی گرل فرینڈ کو رنگ پہنا رہا تھا اس نے کسی کی تلاش میں چاروں جانب نظریں گھمائیں پر وہ کہیں نہیں تھی اچانک سے اس کی نظر اوپر کی طرف اٹھی ۔۔۔
ہاں یہ وہی تھی جسے دیکھنے کیلئے ملنے کے لیے وہ تڑپ رہا تھا وہ اپنی ساحر آنکھوں میں آنسو لیے ساری دنیا سے انجان بس شہریار کو دیکھ رہی تھی اس کی توجہ شہریار پر مرکوز دیکھ کر اسے اپنے اندر ایک آگ سی اٹھتی محسوس ہوئی اس سے پہلے وہ اندر کا راستہ ڈھونڈتا وہ پردہ برابر کر کے غائب ہو گئی ۔وہ آگے بڑھا اس کو ہر صورت اس سے ملنا تھا آخر وہ اس کا مہمان تھا اس کے بلاوے پر آیا تھا ۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ اسے دوبارہ نظر آئی وہ کسی لڑکی کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی ۔وہ اپنے سیٹ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی جانب بڑھا
" ہیلو لیڈیز !! "
سویرا اور اینا نے ایک ساتھ اسے دیکھا
" ہیلو !! آپ کون ؟؟ میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔۔۔"اینا نے جواب دیتے ہوئے پوچھا
" میری تعریف تو یہ خوبصورت پرنسس کریگی جس کی کشش میں ، میں کھنچا چلا آیا ۔۔۔" وہ سویرا کو دیکھے ہوئے بولا
" واؤ سویرا یو آر لکنگ بیوٹی فل ۔۔۔۔" ڈاکٹر اینڈریو سویرا کے قریب آکر بولا
"کیا آپ ہر لڑکی پر اسی طرح لائن مارتے ہیں ؟؟" اینا نے اسے گھورا
" تم ٹھیک تو ہو ؟ روئی تھی کیا ؟؟ " اینڈریو اینا کو نظر انداز کرتے ہوئے سویرا سے مخاطب ہوا جو سر جھکائے فرش کا ڈیزائن حفظ کررہی تھی
" کیا آپ ہر مہمان سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں ؟؟ " اینا نے چوٹ کی
" جی نہیں ہر ایک سے کیوں پوچھوں گا ؟؟ جن سے تعلق ہے بس ان سے پوچھ رہا ہوں ۔۔" وہ اینا کو گھور کر بولا
" کیوں ؟؟ یہ آپ کی بہن لگتی ہے کیا ؟؟ " اب کے اینا نے بھولے پن کی انتہا کردی
" دیکھیے مس !! میں آپ کو وارن کررہا ہوں آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اس میٹر سے دور رہو ۔۔۔" اینڈریو ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولا
" سویرا چلو ادھر سے ۔۔۔۔۔" اینا نے سویرا کا ہاتھ تھاما
"آپ تشریف لے جا سکتی ہیں سویرا ادھر ہی مجھے کمپنی دیگی ۔۔۔" اینڈریو نے ایک جھٹکے سے سویرا کا ہاتھ اینا کی گرفت سے چھڑوایا ۔
سویرا پلٹ کر جانے کے ارادے سے مڑی
" رک جاؤ سویرا !! میں آج کسی بھی صورت تمہیں اپنی بات سنے بغیر جانے نہیں دونگا ۔۔۔" اینڈریو ہٹیلے انداز میں اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا
اس کے انداز پر سویرا نے خوف سے اسے دیکھا اس کی نگاہوں کی جارحانہ چمک پر سویرا کو اپنے اندر سرد سی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی وہ ہمت کر کے مضبوط لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی ۔
" سر مجھے آپ میں ، اور آپ کی باتوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے میں میرڈ ہوں اور آپ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔۔۔"
" جانتا ہوں ، بہت اچھی طرح سے تمہاری اس پیپر میرج کی حقیقت کو جانتا ہوں لیکن سوئیٹ ہارٹ میں تمہیں وارن کررہا ہوں تم اسے چیلنج سمجھ لو یا جو بھی مگر تم صرف اور صرف اینڈریو کی ہو ۔۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر پھنکارا۔