ابھی وہ کلاس لیکر نکلی ہی تھی کہ ڈاکٹر اینڈریو اچانک سے اس کے آگے آگئے
" مس سویرا !! رکو تو مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔" اس نے آگے آکر راستہ روک لیا
" پلیز سر !! آپ اس طرح میرا راستہ مت روکا کریں یہ سب اچھا نہیں لگتا ۔۔۔" سویرا نے کوفت سے کہا
" اگر تم آرام سے میری بات سن لیا کرو تو مجھے بھی اس طرح تمہارے راستے میں نا آنا پڑے ۔۔۔" وہ معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے بولا
" سر آپ آخر کیا چاہتے ہیں ۔۔۔" وہ زچ آکر بولی
" سویرا تم !!! یہ تم پوچھ رہی ہو ؟؟ کہ میں کیا چاہتا ہوں ؟؟ او گاڈ ہر رات تمہاری آواز سن کر سوتا ہوں صبح اٹھتے ہی تمہارے میسجز چیک کر کے اپنے دن کا آغاز کرتا ہوں اور تم ادھر یونیورسٹی میں ایسے اجنبی بن جاتی ہو جیسے جانتی ہی نہیں ہو ۔۔۔" اینڈریو نے اس کی حسین کالی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا
" مجھے نہیں پتہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مگر پلیز آپ میری راہ چھوڑ دیں میں شادی شدہ ہوں اور آپ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں اب اگر آپ نے آئندہ میرا راستہ روکا تو میں میں ۔۔۔۔۔" وہ اپنا آنچل سمیٹ کر اسے دھمکی دیتے دیتے چپ ہو گئی
" تو میں کیا ؟؟ سویٹ ہارٹ ویسے بھی مجھے اس راہ پر لا کر تم اس طرح سے کیسے اگنور کر رہی ہو اور رہی تمہاری شادی تو اس کی حقیقت بھی مجھے پتا ہے ۔۔۔" وہ الجھا
اس سے پہلے سویرا اسے جواب دیتی اس کا فون بج اٹھا
" سویرا اسٹوپڈ کدھر ہو تم ؟؟ کب سے ڈھونڈ رہا ہوں ۔۔۔۔" بریڈلی کی تپی ہوئی آواز گونجی
سویرا نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیا
" پلیز جلدی سے آجاؤ میں باہر کوریڈور میں ہوں ۔۔۔"
اینڈریو حیرت سے سویرا کے ہاتھ میں فون دیکھ رہا تھا سویرا نے اس کی نظریں اپنے فون پر مرکوز دیکھ کر تیزی سے فون بند کرکے بیگ میں رکھا
" سنو !! تم نے تو کہا تھا تم فون یونیورسٹی نہیں لاتی !!! مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ۔۔۔۔" ڈاکٹر اینڈریو نے سختی سے پوچھا
" مجھے نہیں پتہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔" سویرا جو اب تک بڑی بہادری سے اس کا سامنا کر رہی تھی اب اس کا جارحانہ رویہ دیکھ کر گھبرا گئی
" سویرا لیٹس گو !! لیب اسٹارٹ ہو رہی ہے۔ ۔۔ " بریڈلی نے اچانک سے آکر اس کا ہاتھ پکڑا
" ہے یو !! تم دیکھ نہیں رہے یہ مجھ سے بات کررہی ہے اینڈ ہاؤ ڈئیر یو ٹو ٹچ ہر ۔۔۔۔" ڈاکٹر اینڈریو نے تلخی سے کہتے ہوئے بریڈلی کا ہاتھ الگ کیا
" سر آپ ٹیچر ہیں میں رسپیکٹ کرتا ہوں لیکن یہ میری دوست ہے اور آپ اسے کم از کم میری موجودگی میں ڈرا نہیں سکتے ۔۔۔" بریڈلی سویرا کو پیچھے کرتے ہوئے بولا
" بریڈلی چھوڑو !! چلو یہاں سے ۔۔ " سویرا نے اس کی آستین کھینچ کر اسے متوجہ کیا
" واؤ سویرا !! بڑا یارانہ بنا لیا ہے تم نے ، رات کو فون پر مجھ سے دل بہلاتی ہو اور دن میں اس کو پھانس رکھا ہے لیکن مجھ سے دھوکہ تمہیں بہت مہنگا پڑیگا ۔۔۔۔" اینڈریو غرایا
" تمیز سے بات کرو ۔۔۔ " بریڈلی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکا دیا
اس سے پہلے کہ معاملہ مزید بگڑ جاتا اسٹوڈنٹس کا ایک ریلہ اپنی کلاسس لیکر باہر نکلا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سویرا نے بریڈلی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور آنکھوں سے ادھر سے ہٹ جانے کی التجا کی ۔۔۔
سویرا اور بریڈلی چلتے ہوئے لیب تک پہنچ چکے تھے ۔۔
" تم نے مجھے روکا کیوں ؟؟ " بریڈلی نے ناراضگی سے منھ پھلایا
" دیکھو خواہ مخواہ تماشہ لگ جاتا ۔۔" وہ سادگی سے بولی
" سویرا یہ ڈاکٹر کیا کھسکا ہوا ہے ؟؟ آخر کس طرح کی باتیں کررہا تھا کہیں یہ تمہیں کسی بڑی مصیبت میں نا پھنسا دے ۔۔۔" بریڈلی نے لیب کوٹ پہنتے ہوئے کہا
" کیا واقعی میں کسی مصیبت میں پھنس سکتی ہوں ؟؟ " اب سویرا تھوڑا سا گھبرا گئی
" دیکھو ریڈنگ ویک اسٹارٹ ہو رہا ہے اب دس دن کیلیئے تو یونیورسٹی بند ہو رہی ہے اس لئیے اب دس دن بعد ہی اس سڑے ڈاکٹر کو دیکھتے ہیں اور تم فکر مت کرو میں ہوں نا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔" وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا
" اللہ بریڈلی تم بہت اچھے دوست ہو ۔۔۔" سویرا کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی
" خیر اب اتنا بھی اچھا نہیں ہوں بس اب تمہیں بھی میرا ایک کام کرنا ہوگا ۔۔۔" بریڈلی نے اسے گھورا
" کیسا کام ؟؟ " سویرا پریشان ہو گئی
" کوئی بم بلاسٹ کرنے کا نہیں کہہ رہا جو تمہارے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی ہیں بس تم میری اپنی دوست اینا سے سیٹنگ کروا دوں ۔۔۔" بریڈلی نے اس کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے اپنی ڈیمانڈ پیش کی
" مگر اینا تو شاید تم سے بڑی ہے ۔۔۔"
" تو اس سے کیا ہوتا ہے ؟؟ ایک تو تم ایشین لوگ کبھی بھی اس بڑے چھوٹے کے چکر سے نہیں نکلتے !! وہ مجھے اچھی لگی ہے شاید میری ہم عمر ہوگی یا پھر ایک آدھ سال بڑی پر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تم بس اسے میرے ساتھ ڈیٹ پر جانے کے لیے ایگری کرو ۔۔۔" وہ دو ٹوک لہجے میں بولتے ہوئے اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا
" اللہ اللہ اب میں یہ بھی کرونگی ۔۔۔" سویرا بڑبڑاتی ہوئی اپنی سیٹ پر چلی گئی
******************
جمعہ کا دن تھا شہریار آج پورا دن میٹنگز میں مصروف رہا تھا ابھی فارغ ہو کر آفس میں آیا تھا اور اب اپنا فون چیک کر رہا تھا عروہ کی بیس مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں
اس نے اپنا کوٹ اتار کر ایک بازو پر لیا بریف کیس دوسرے ہاتھ میں پکڑ کر کانوں پر بلو ٹوتھ لگا کر عروہ کو کال ملائی اور باہر نکل آیا ارادہ گھر جانے کا تھا باوردی دربان نے اسے آتے دیکھ کر جلدی سے دروازہ کھول کر سلام کیا وہ سر کے اشارے سے جواب دیتے ہوئے کال سن رہا تھا
" شیری کب سے کال کررہی ہوں آخر تم ہو کدھر ؟؟ " وہ خفا خفا سے انداز میں بولی
" کم آن عروہ !! مجھے ہزاروں کام ہوتے ہیں گرو اپ ہر وقت یہ شکوہ شکایات مجھے پسند نہیں ہیں ۔۔۔۔" وہ اس کے خفا لہجہ پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے بولا
" کتنے روڈ ہو تم شیری !! کبھی تو پیار سے بھی بات کرلیا کرو ۔۔۔" وہ دھیمی ہوئی
" کم ٹو دا پوائنٹ ، کیوں فون کررہی تھی ؟؟ " اس نے ٹوکا
" ممی ڈیڈی تم سے ملنا چاہ رہے ہیں تاکہ نیکسٹ ویک اینڈ پر ہماری انگیجمنٹ پارٹی ارینج کی جا سکے ۔۔۔" وہ سنجیدہ ہوئی
" اوکے تم اپنے پیرنٹس کو گھر لے آؤ ، اس میں کون سی بڑی بات ہے ۔۔۔" وہ گاڑی اسٹارٹ کر کے روڈ پر نکل آیا
" نہیں شیری !! تمہارے گھر نہیں ادھر وہ تمہاری سو کالڈ بیوی ہے میں نہیں چاہتی میرے گھر والوں کو اس کا پتہ چلے اس لئیے تم کل رات کا ڈنر میرے گھر کرو ۔۔۔" عروہ نے ضدی لہجے میں کہا
" عروہ میں جھوٹ بول کر رشتہ قائم کرنے والوں میں سے نہیں ہوں تم اپنے پیرنٹس کو سب بتا دو ورنہ میں خود بتا دونگا۔۔۔" وہ دوٹوک لہجے میں بولتے ہوئے فون بند کرگیا
گھر کے پاس ڈرائیو وے میں اس نے اپنی گاڑی پارک کی اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گھر کی طرف بڑھا اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر کچن کی طرف اٹھی جہاں سویرا حسب معمول کھانا پکانے میں مصروف تھی وہ آرام سے اپنی چابی اور بریف کیس مخصوص جگہ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھا سویرا کے سلام پر حسب معمول سر ہلاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
شہریار کے اندر جاتے ہی سویرا نے چولہے کی آنچ کم کی اور گلاس میں پانی نکال کر شہریار کے کمرے کی طرف بڑھی دروازے پر پہنچ کر ناک کیا
" آجاؤ ۔۔۔" شہریار کی مصروف سی آواز گونجی
" یہ پانی ۔۔۔۔" سویرا نے پانی اس کے سامنے کیا
" سنو ایک اسٹرانگ سی بلیک کافی لیکر آؤ ۔۔۔" وہ گلاس اٹھاتے ہوئے بولا
" ڈنر بھی ریڈی ہے ۔۔۔۔" سویرا نے دھیمے سے کہا
شہریار نے اسے گھور کر دیکھا
" جی میں کافی لاتی ہوں ۔۔۔" وہ بوکھلا کر باہر نکل گئی
وہ جلدی جلدی سے کافی بنا کر کپ میں انڈیل ہی رہی تھی کہ فریش فریش سا ٹراؤزر اور ہالف ٹی شرٹ پہنے ہوئے شہریار اندر داخل ہوا
" وہ میں بس کافی لا ہی رہی تھی ۔۔۔۔" وہ تیزی سے بولی مبادا وہ غصہ ہی نا ہوجائے
" ڈنر میں کیا ہے ؟؟ " وہ اس کا ڈر نظر انداز کرتے ہوئے بولا
" جی وہ بریانی بنائی ہے ۔۔۔" سویرا نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا
" ٹھیک ہے ڈنر سرو کرو ۔۔۔" وہ آرام سے فرج سے کوک کا کین نکال کر میز کی طرف بڑھا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا
سویرا نے جلدی سے ٹرے میں بریانی نکالی فرج سے دہی کا باؤل نکال کر ٹیبل پر رکھا پلیٹیں لیکر آئی اور خود بھی آرام سے بیٹھ گئی یہ ایک ان دیکھا سا ربط بن گیا تھا رات کا کھانا خاموشی سے وہ دونوں ساتھ کھاتے تھے ۔۔۔
شہریار نے کھانا کھاتے ہوئے ایک نظر سویرا پر ڈالی جو سادہ سے قمیض شلوار میں ملبوس سر پر دوپٹہ اوڑھے نظریں جھکائے کھانا کھانے میں مگن تھی
" تم کھانا اچھا بناتی ہوں ۔۔۔۔" اس نے سویرا کو مخاطب کیا
سویرا نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو ہمیشہ خاموشی سے ناشتہ اور ڈنر کرتا تھا سویرا سے تو کبھی نرمی سے بات ہی نہیں کرتا تھا اور آج کھانے کی تعریف کررہا تھا
" میں کل عروہ کے پیرنٹس کو ڈنر پر انوائیٹ کررہا ہوں وہ اپنی بیٹی کا سسرال دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا
" کھانا باہر سے آرڈر کرونگا تم اگر کچھ کرنا چاہو تو کر لینا ۔۔۔" شہریار نے نیپکن سے منھ صاف اور اٹھ گیا
سویرا خاموشی سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں نا چاہتے ہوئے بھی ڈبڈبانے لگی تھیں ۔۔
" یہ تو طے تھا کہ راستے الگ ہونے ہیں لیکن اتنی جلدی ۔۔۔۔۔۔" وہ خاموشی سے آنسو پیتے ہوئے اٹھی
" مجھے اب جاب کر لینی چاہیے جتنی جلدی میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤ گی اتنا ہی ہم۔سب کیلیئے اچھا ہوگا ۔۔۔۔" وہ جاب جوائن کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی
اپنے کمرے میں آکر اس نے اینا کو فون ملا کر جاب کرنے کی رضامندی ظاہر کردی تھی لیکن اینا نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ شہریار کو جاب کا ضرور بتا دے صبح ہفتہ تھا وہ اسے ٹھیک سات بجے پک کر کے کیفے ڈراپ کرنے کے لیے آرہی تھی ۔
" ذلت اٹھانے سے بہتر ہے کہ انسان تکلیف اٹھا لے اگر انہیں بتائے بغیر جاب کی تو کیا پتہ غصہ ہو کر یونیورسٹی ہی چھڑوا دیں ۔۔۔۔" وہ کافی دیر گھٹنوں پر سر رکھے خاموشی سے سوچتی رہی پھر بڑی ہمت کرکے اٹھی اور سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے شہریار کے کمرے کی جانب بڑھی دروازہ کھلا ہوا تھا سامنے ہی شہریار فون پر بات کررہا تھا اس نے بات کرتے ہوئے ایک اچٹتی سی نظر سویرا پر ڈالی اور اسے اندر آنے کی سر ہلا کر اجازت دی ۔
" تم فکر مت کرو کل ہی تمہارے پیرنٹس سے بات کرکے ڈیٹ فکس کرتا ہوں بس تم سب بھول کر ہماری منگنی کی تیاری کرو ۔۔۔" وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بول رہا تھا
سویرا نے ایک نظر اس پر ڈالی بلیک ٹراؤزر پر بلیک ہی ٹی شرٹ پہنے چہرے پر بلا کی سنجیدگی لئیے بھی وہ شاندار لگ رہا تھا سویرا نے اسے دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ مسلے جو بھی تھا اسے آج ہر قیمت پر شہریار سے ابھی اپنی جاب کی بات کرنی تھی ۔
" کیا کام ہے ؟؟؟ " شہریار نے فون بند کر کے گم سم کھڑی ہاتھ مسلتی سویرا کو گھورا
" مجھے آپ سے اجازت چاہئیے تھی میں جاب کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔" وہ سانس روکتی ہوئی تیزی سے کہہ گئی
شہریار کے چہرے پر ایک استہزائیہ سی مسکراہٹ ابھری لندن جیسے شہر میں جاب کا ملنا وہ بھی سویرا جیسی لڑکی کیلیئے ناممکنات میں سے تھا اس نے بڑی دلچسپی سے سویرا کو دیکھا ۔۔۔
" ایک تو تم گھریلوں لڑکیوں کے ساتھ پتا نہیں کیا پرابلم ہے ذرا سا گھر سے باہر کیا نکلتی ہو لگتا ہے دنیا فتح کر لوگی ٹھیک کہتی ہے عروہ ۔۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا
" سنو لڑکی ! تم ادھر پڑھنے آئی ہو بہتر ہے اس پر توجہ دو یہ جاب وغیرہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے سیدھے سیدھے اپنی تعلیم مکمل کرو اور میری جان چھوڑو ۔۔۔" وہ اکتائے ہوئے لہجہ میں بولا
سویرا نے سکتے کی سی حالت میں اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے سر کا سائیں تھا لیکن کسقدر اس کی ضرورتوں سے اس کی پریشانیوں سے انجان تھا کتنے آرام سے اپنی منگنی کی تیاریاں کررہا تھا اور اس سے جان چھڑانے کا کہہ رہا تھا ۔
وہ خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئی آج اسے شہریار اپنی زندگی سے مکمل طور پر نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اس کا دماغ بالکل ماؤف تھا اور ٹانگوں سے جیسے جان سی نکل رہی تھی وہ بمشکل خود کو گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے تک لائی ۔۔۔
" میں اپنے آپ کو کیوں ان پر مسلط کر رہی ہوں ؟؟ کیوں خود کو اسقدر ذلیل کروا رہی ہوں ؟؟ " سوچنے کے قابل ہوتے ہی اس کے دماغ میں پہلا خیال اپنی عزت نفس کا آیا
یہ ذلت ہی تو تھی کہ اس کے ہوتے ہوئے بھی وہ عروہ کو اس پر ترجیح دے رہا تھا اس نے تو کبھی اس رشتے کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا ۔۔۔سویرا نے خود کو سمیٹا اور کھڑی ہو کر صبح جاب پر جانے کیلئے کپڑے نکالنے لگی ساری تیاری کرکے وہ اپنی الماری کے پاس آئی اور اس میں سب سے نچلے خانے میں رکھے اپنے ڈاکومنٹس کے نیچے سے اپنے مرحوم بابا کی تصویر نکالی اسے چوما اور سینے سے لگا کر بستر پر لیٹ گئی ۔
" بابا کبھی کبھی زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوجاتا ہے نا ؟؟ اتنی تکلیف تو کبھی پھپھو کی باتوں سے نہیں ہوئی جتنی آج ان کی منگنی کی خبر سن کر ہوئی ہے ۔ کاش میں نے پھپھو کی بات مان لی ہوتی میں !! کاش میں یہاں نہیں آئی ہوتی !! کاش مجھے ان سے ۔۔۔۔۔۔۔وہ سسک اٹھی
کیا یتیم ہونا گناہ ہے بابا ؟؟ "
" کیا یتیم ہونا گناہ ہے ؟؟ "
وہ روتے روتے انہی لفظوں کی تکرار کرتے ہوئے سو گئی ۔۔۔۔۔
****************
سویرا کے جانے کے بعد وہ بھی اپنی ای میلز چیک کر کے سونے لیٹ گیا آنکھیں بند کرتے ہی دو سیاہ آنسوؤں سے بھری آنکھیں اس کے ذہن کے پردے پر ابھر آئیں ۔۔۔
" شٹ !! میں نے بھی اسے کچھ زیادہ ہی سنا دیا بچی ہی تو ہے اس سب میں اس کا کیا قصور ہے ۔۔۔" وہ خود کو ملامت کرتا کروٹ بدل گیا اس کی آنکھوں میں بار بار سویرا کا مایوس سکتے کے عالم میں اسے دیکھنا آرہا تھا تنگ آکر تکیہ پھینکتے ہوئے وہ اٹھا اور کچن سے نیند کی گولی لینے کے لیے باہر نکلا ساتھ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اندر لائٹ بھی جل رہی تھی ۔
" اس لڑکی کو اتنی تمیز نہیں کے دروازہ بند کر کے لائٹ آف کر کے سوتے ہیں ۔۔۔۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے کے اندر آیا لائٹ آف کرنے سوئچ بورڈ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اس کے کانوں میں سویرا کے سسکنے کی آواز سنائی دی وہ نا چاہتے ہوئے بھی پلٹ کر بیڈ کے پاس آیا
سویرا کسی تصویر کو اپنے سینے سے لگائے نیند میں سسک رہی تھی اس کے گھنیری سیاہ پلکیں بھیگی ہوئی تھی گالوں پر آنسوؤں کی لکیر جمی ہوئی تھی وہ سسک رہی تھی ۔
شہریار نے دھیرے سے اس کے ہاتھوں سے تصویر نکالی ۔۔۔
وہ اپنے پیارے اکلوتے چاچو کی تصویر دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹک گیا سرد سا پڑ گیا یہ لڑکی اس کے چاچو کی جان تھی جو آج اس طرح نیند میں اپنے باپ سے باتیں کررہی تھی ۔۔۔
اس نے سویرا کے اوپر لحاف ڈالا اور چاچو کی تصویر ہاتھ میں لئیے لائٹ آف کر کے دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔
کمرے میں آکر اس نے فون اٹھا کر عروہ کو میسج کیا ۔۔۔
" کل کا پروگرام کینسل تم مجھے صبح دس بجے کیفے وکٹوریہ میں ملو ۔۔۔"
****************
وہ صبح سات بجے بلیک جینز کے اوپر میرون کرتی پہنے سر پر اسکارف اوڑھے تیار تھی شہریار حسب معمول جاگنگ پر گیا ہوا تھا اس نے
شہریار کے لئیے جوس اور ناشتہ میز پر رکھ دیا تھا کچھ ہی دیر میں اینا آچکی تھی اس نے فون کرکے سویرا کو باہر آنے کا کہا ۔۔
وہ تیزی سے اپنا پرس اٹھاتی ہوئی گھر لاک کرکے باہر نکلی جہاں فریش سی اینا اس کا انتظار کر رہی تھی وہ کافی دنوں سے یونیورسٹی جا رہی تھی خاصا اعتماد بحال ہو چکا تھا لیکن آج زندگی میں پہلی مرتبہ جاب پر جاتے ہوئے وہ بری طرح سے نروس ہو رہی تھی
" سویرا !! پلیز ری لیکس یار جاب پر جا رہی ہو محاذ پر نہیں ۔۔۔" اینا اس کی نروسنس بھانپ کر ٹوکتے ہوئے بولی
" نہیں میں کہاں گھبرا رہی ہوں ۔۔۔۔" وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی
" اچھا چلو کیفے آگیا ہے آرام سے کام سیکھنا کیتھی بہت اچھی ہے ، دیکھنا تمہیں اچھا لگے گا ۔۔۔" اینا نے اسے گیٹ پر ڈراپ کیا
کیتھی نے بڑی گرم جوشی سے سویرا کو ویلکم کیا اور یونیفارم کی ہالف سلیو بلیک شرٹ اور پنک مخصوص ویٹرس والا ایپرن پکڑا کر چینج کرنے بھیج دیا
لمبے گھنے سیاہ بالوں کی اونچی پونی بنائے سیاہ شرٹ اور پنک ایپرن میں وہ مومی گڑیا سب کی توجہ کھینچ رہی تھی کیتھی اسے خود ٹرین کررہی تھی ۔۔۔
" سویرا ہنی !! تم تو بہت فاسٹ سیکھ رہی ہو اچھا اب دیکھو وہ جو سامنے کی چار ٹیبلز ہیں وہ تمہاری ذمہ داری ہیں آرڈر لو کچن میں آکر کک سے ٹرے بنوا کر کسٹمرز کو سرو کرو ۔۔۔۔" دو گھنٹے کی ٹریننگ کے بعد کیتھی نے سویرا کو کام بتایا
___________________________________
وہ جاگنگ کرکے ٹریک سے واپس آیا تھا سامنے ہی ٹیبل پر اس کے لئیے فریش جوس ڈھکا رکھا تھا کچن کی لائٹ بند تھی وہ جوس اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا ساتھ ساتھ سویرا کے کمرے کی طرف نظر ڈالی تو دروازہ بند تھا ۔۔۔
" سو گئی ہوگی بیچاری ۔۔۔۔" وہ سوچتا ہوا جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے اپنے جم کی طرف بڑھ گیا ہفتہ کا دن تھا آج کئی مہینوں بعد وہ فری تھا ۔۔۔
عروہ شہریار کو سرپرائز دینے کے لیے صبح آٹھ بجے اس کے گھر کے دروازے کے باہر موجود تھی کلچ میں سے چابی نکالی کر اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا وہ شہریار کے کمرے میں داخل ہوئی وہ بھی خالی تھا لیکن برابر میں شیشے کی دیوار سے وہ جم میں ایکسرسائز کرتا نظر آرہا تھا بنا شرٹ کے اس کا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا مضبوط بازوؤں کے پھولے پھولے مسلز وہ مبہوت سی ہو گئی تھی ۔بنا پلکیں جھپکائے وہ اسے دیکھ رہی تھی اور خود پر فخر سا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
" یہ ہینڈسم اسمارٹ آدمی صرف اور صرف میرا ہے ۔۔۔۔" وہ دھیرے سے جم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور دبے قدموں چلتی ہوئی بنچ کی طرف آئی جس پر شہریار چت لیٹا ویٹ لفٹنگ کر رہا تھا ۔۔۔
" واؤ شیری !! تمہاری باڈی تو بہت زبردست ہے ۔۔۔" وہ جگمگاتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی
شہریار جو ویٹ لفٹنگ میں مصروف تھا عروہ کی آواز سن کر چونک گیا ویٹس کو نیچے رکھتے ہوئے سیدھا ہو کر کھڑا ہوگیا
" تم کب آئیں ؟؟ " شہریار نے تولیہ اٹھاتے ہوئے پوچھا
" بس ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہیں ڈھونڈتے ہوئے تمہارے کمرے تک آئی پھر وال سے تمہیں ایکسرسائز کرتے دیکھا !! ویری امپریسو شیری ۔۔۔" وہ دھیرے سے پاس آکر اس کے مضبوط بازوؤں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
" ڈونٹ ٹچ می !! " وہ تیزی سے اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا
" کم آن شیری !! تم میرے ساتھ ہر بار ایسے ہی کرتے ہو کبھی بھی فزیکل نہیں ہوتے آخر تمہارے ساتھ پرابلم کیا ہے ؟؟ " عروہ کا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب ہوا
" پرابلم ؟؟ سنو عروہ عزت صرف لڑکیوں کی میراث نہیں ہوتی ، مردوں کی بھی ہوتی ہے مجھے شادی سے پہلے کے فضول ریلیشن شپ گناہ سے بڑھ کر کچھ نہیں لگتے ۔۔۔" وہ اپنی شرٹ پہنتے ہوئے بولا
" شیری !! پھر میں کیا ہوں ؟؟ " عروہ نے سنجیدگی سے پوچھا
" تم میری دوست ہو ۔۔۔۔" وہ لاپرواہی سے بولا
" بس دوست ؟؟ " عروہ نے افسردگی سے اسے دیکھا
" جب تک کوئی شرعی رشتہ نہیں بن جاتا تب تک صرف دوست ہو اس کے بعد جب میرا تم پر حق ہوگا تو پورے حقوق کی ادائیگی بھی کرونگا اور تمہیں اپنے رنگ میں بھی ڈھال لونگا ۔۔۔" وہ تنقیدی نظروں سے شارٹ اسکرٹ اور سلیولیس بلاؤز میں بالکل باربی ڈول کی طرح چمکتی ہوئی عروہ کو دیکھتے ہوئے بولا
" تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟؟ میں تمہیں صاف صاف بتا رہی ہوں میں تمہاری سو کالڈ دیسی وائف کی طرح کبھی بھی نہیں ہو سکتی تمہارے سامنے کچھ اور اور باہر ۔۔۔۔۔"
" اسٹاپ اٹ عروہ !! تم باہر لاؤنچ میں میرا ویٹ کرو میں شاور لیکر آتا ہوں ۔۔۔" وہ عروہ کی بات کاٹتے ہوئے اپنے روم میں داخل ہوگیا
" اوکے میں ویٹ کرتی ہوں جلدی آنا اب نو تو بج چکے ہیں مجھے ناشتہ کرنا ہے ۔۔۔" وہ اسے تنبیہہ کرتے ہوئے بولی
" میں آتا ہوں تم جب تک ریسٹورنٹ سلیکٹ کرو ۔۔۔"
" اس ٹائم کون سا ریسٹورنٹ کھلا ہوتا ہے ؟؟ ہم کسی اچھے سے کیفے میں چلتے ہیں ۔۔۔" وہ کہتی ہوئی باہر لاؤنچ کی طرف بڑھ گئی
******************
شہریار عروہ کو ویسٹ کے ایک بہت ہی مشہور کیفے وکٹوریہ میں لایا تھا وکٹورین طرز پر بنا یہ کیفے اس وقت صبح کے ناشتے کے لئیے بھرا ہوا تھا وہ ایک میز منتخب کرتے ہوئے اس پر بیٹھ گیا
"شیری تم نے رات کا پلان کیوں کینسل کیا ؟؟ "عروہ نے مینیو اٹھاتے ہوئے پوچھا
" عروہ میں ابھی ایک سال تک کسی بھی چکر میں پڑنا نہیں چاہتا میری شاہ بی بی سے کمٹمنٹ ہے میں ایک سال بعد ہی اس مصیبت رشتے سے چھٹکارا پا کر کوئی اسٹیپ لینا چاہتا ہوں ۔۔۔" ۔
" شیری !! تو اس سب میں میں کدھر ہوں میرے جذبات میری فیلنگ تمہیں ان سب کی کوئی فکر نہیں ۔۔۔" وہ چٹخ گئی
" دیکھو عروہ شادی کی کمٹمنٹ تم سے کی ہے تو اسے نبھاؤں گا بھی ، تم اس لڑکی سے خود کو کمپئیر مت کرو وہ لڑکی میری زندگی میں کہیں نہیں ہے ۔۔۔" وہ رسان سے بولا
" تو پلیز کم سے کم منگنی تو کرلو ، مجھے کچھ تو آسرا دو ۔۔۔"
" اوکے اس ویک اینڈ پر سادگی سے رسم کرتے ہیں شادی دھوم دھام سے کرینگے ۔۔" وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا
" سر آپ آرڈر کیلیئے تیار ہیں ؟؟ " ایک سریلی سی آواز ابھری
شہریار اپنے سامنے کھڑی ویٹرس کو دیکھ کر چونک گیا ویٹرس کے مخصوص لباس میں وہ لڑکی اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ اس کی گھبراہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی
" سر ، مس آپ آرڈر لکھوا دیں ۔۔۔۔"
" مس نہیں میم اوکے ؟؟ اور جاؤ کسی دوسری ویٹرس کو بھیجو ۔۔۔" عروہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے نخوت سے بولی
" اوکے ۔۔ " وہ سر ہلاتے ہوئے وہاں سے ہٹ گئی
شہریار کی ساری توجہ اب سویرا پر تھی کب دوسری ویٹرس آئی عروہ نے کیا آرڈر کیا اسے کچھ خبر نہیں تھی بس وہ سویرا کو اس طرح ویٹرس کے روپ میں دیکھ کر حیران تھا
" شیری کم آن تمہارا بریک فاسٹ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔ " عروہ نے اسے سوچوں سے نکالا
" بس کرو اتنی ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لیکر کیوں ہوا کو فریز کررہے ہوں ۔۔۔"
" یار اس ایشین ویٹرس کو دیکھو ہائے سو بیوٹیفل میری تو نظر ہی نہیں ہٹ رہی ہے ۔۔۔"
پیچھے کی میز پر بیٹھے لڑکوں کی آوازیں شہریار کا غصہ بڑھا رہی تھی
" اس کے چہرے پر کتنی معصومیت ہے میں تو بس اب اسے پٹا کر ہی رہونگا ۔ ۔۔"
وہ بہت دیر سے برداشت کررہا تھا لیکن اب
شہریار نے ایک جھٹکے سے کرسی پیچھے کھسکائی اور پلٹ کر اس لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکے سے کھینچا
" یہ آپ کیا کررہے ہیں چھوڑیں اسے ۔۔۔" ایک افراتفری سی مچ گئی
شہریار نے اب اسے گھونسے مارنے شروع کر دئیے تھے اس لڑکے کے ساتھی شہریار کو گھیرے میں لے چکے تھے پر شہریار بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح سب کی ٹھکائی لگا رہا تھا کیفے کی مینجمنٹ بھی باہر نکل آئی تھی
" شیری پلیز چھوڑو یہ سب پولیس کیس بن جائیگا چلو یہاں سے ۔۔۔" عروہ نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا
شہریار نے ایک جھٹکے سے اس لڑکے کو اٹھا کر میز پر پٹخا اور اپنے والٹ سے سو سو پاؤنڈ کے کئی نوٹ نکال کر اپنی میز پر رکھتا ہوا کونے پر کھڑی تھر تھر کانپتی ہوئی سویرا کو خون آشام نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا
*******************
عروہ کا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب تھا کتنے اچھے موڈ میں وہ اور شہریار اپنی منگنی پلان کررہے تھے سب فائنل ہو گیا تھا اور پھر وہ سویرا بیچ میں آگئی ۔۔وہ ٹہل ٹہل کر اپنا غصہ نکال رہی تھی جب ایک خیال سے اس کی آنکھیں جگمگانے لگی اس نے تیزی سے فون اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا
" سنو جونس کیا تم ابھی مجھ سے ملنے آسکتے ہو۔۔" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی
اسے جونس کی اپنے لئیے پسندیدگی کا اچھی طرح اندازہ تھا وہ اب جونس کو اپنا ہمدرد بنا کر سویرا کو نیچا دکھانا چاہتی تھی
جونس جو بڑے آرام سے اپنے پینٹ ہاؤس میں سیٹرڈے منا رہا تھا اپنے فون پر عروہ کی کال اور پھر اس کی بھرائی ہوئی آواز سن کر پریشان ہو گیا اور تیزی سے اپنے سنہرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا اپنی اسپورٹ کار کی چابی اٹھا کر بڑی تیز رفتاری سے عروہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا
بیل بجاتے ہی عروہ نے دروازہ کھولا اور اس کو دیکھتے ہی اس کے شانے پر سر ٹکا کر رونے لگی
" کیا ہوا ہے عروہ ؟؟ پلیز کچھ بتاؤ ، ہنی تم مجھے پریشان کررہی ہو ۔۔۔" جونس نے پریشانی سے کہا
" سوری جونس میں نے تمہیں بھی پریشان کردیا لیکن کیا کروں اس مشکل وقت میں بس مجھے تمہارا ہی خیال آیا ۔۔۔" وہ آنسو پوچھتے ہوئے پیچھے ہٹی
" آخر ہوا کیا ہے ۔۔" وہ الجھا
" اندر تو آؤ ،میں تمہیں سب بتاتی ہوں ۔۔۔" وہ اسے لیکر سیدھی اپنے کمرے میں آئی
" جونس تم نے دعویٰ کیا تھا کہ تم میرے دوست ہو ہمیشہ میرا ساتھ دو گے ۔۔۔" عروہ نے تمہید باندھی
" میں نے اپنی زندگی کے چار سال شہریار کے انتظار میں اس کے ساتھ کی آس میں گزارے ہیں اور اب یہ شہریار کی سو کالڈ کزن ہمارے بیچ میں آرہی ہے وہ میرے شیری کو چھین رہی ہے ۔۔۔۔" عروہ رو رو کر سویرا کے ظلم و ستم نمک مرچ لگا کر بیان کررہی تھی
" آر یو شیور عروہ ؟؟ وہ لڑکی ایسی لگتی نہیں ہے ۔۔۔" جونس الجھا
" وہ ایسی ہی ہے ؟؟ "
" ٹھیک ہے آج ویسے بھی مجھے شہریار کی طرف جانا ہے میں اس سے بات کرتا ہوں ۔۔۔"
" جونس پلیز میرا نام مت لینا تم نہیں جانتے وہ اس لڑکی کیلیئے ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتا ۔۔۔"وہ آنسو پوچھتے ہوئے بولی
جونس اسے تسلی دیکر جا چکا تھا اب وہ مگن ہو کر میوزک سن رہی تھی اسے اچھی طرح پتا تھا کہ شہریار کبھی بھی اپنے اور سویرا کے رشتے کی حقیقت نہیں بتائے گا الٹا وہ سمجھے گا کہ سویرا نے شاید جونس کے کان بھرے ہیں
*****************
وہ عروہ کو گھر چھوڑ کر کافی دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرتے ہوئے گھر آیا ۔دوپہر ڈھل چکی تھی عروہ نے اسے لنچ پر روکنے کی بہت کوشش کی تھی پر اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا ۔
" سویرا !!! " وہ اندر داخل ہوتے ہی پہلی بار اس کا نام لیکر چلایا
وہ جو اندر کمرے میں کتابیں پھیلائے پڑھ رہی تھی اس کی آواز سن کر ، اپنا نام سن کر ایک لمحے کو چونک سی گئی
" سویرا ادھر آؤ ۔۔۔" وہ اسے پکارا رہا تھا اس منھ سے نکلا اپنا اسے اجنبی اجنبی سا لگ رہا تھا وہ تیزی سے دوپٹہ سلیقے سے سر پر لیتی ہوئی لیونگ روم میں آئی
" جی !! " وہ دہلیز پر کھڑی تھی
" تم نے کس سے پوچھ کر ، کس کی اجازت سے جاب کی ؟؟؟ " وہ اس کی طرف بڑھا
سویرا کو اس کے لہجہ سے اس کی سرخ آنکھوں سے خوف سا محسوس ہو رہا تھا
" کیا بک رہا ہوں میں ؟؟ تمہیں سنائی نہیں دیتا کیا ۔۔۔" شہریار چپ چاپ سر جھکائے کھڑی سویرا پر چلایا
سویرا کی آنکھوں میں نمی امنڈ نے لگی تھی
لیکن اس وقت اس کو اپنے لئیے اسٹینڈ لینا تھا
"اب نہیں تو کبھی نہیں ۔۔۔"وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی
" میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی ہوں آپ بہت جلد شادی کرنے والے ہیں اور پھر شاید عروہ میم کو میرا یہاں رہنا اچھا نہیں لگے اس لئیے میں میں ۔۔۔" اس کی آواز بھرا گئی
"سنو لڑکی !! ۔۔۔" شہریار نے اس کی بات کاٹی
" تم وہ جاب نہیں کروگی اینڈ دیٹس فائنل ۔۔۔" وہ سختی سے کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
سویرا کچھ دیر خاموشی سے سر جھکائے کھڑی رہی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے شہریار کا غصہ اس کی جان پر بن آیا تھا تو دوسری طرف عروہ کا رویہ وہ دل برداشتہ سی ہو کر اپنے کمرے میں آئی
بار بار شہریار اور عروہ کی باتیں اس کے ذہن میں گونج رہی تھی پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ سامنے رکھی کتابوں کو گھورتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر گئی ۔۔۔
********************
شہریار اپنے جم میں پنچنگ بیگ پر اپنا غصہ نکال رہا تھا اس کے کانوں میں بار بار ان لڑکوں کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔
" ڈیم اٹ !! وہ جو کچھ بھی کرے مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔"
" ویسے بھی عروہ اسے یہاں برداشت نہیں کریگی مجھے کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے ۔۔۔"
فون کی گھنٹی نے اس کی سوچوں کو بریک لگایا
بڑی مشکل سے اپنے اشتعال ہر قابو پا کر وہ اندر کمرے میں آیا تو اس کا سیل فون بجے چلا جا رہا تھا ۔۔
" بابا سائیں۔۔۔"وہ نمبر دیکھ کر چونکا اور تیزی سے فون اٹھایا
" اسلام علیکم بابا سائیں کیسے ہیں آپ ۔۔۔" وہ ادب سے بولا
" میں تمہاری ماں اور فرزانہ ٹھیک پندرہ دن بعد لندن آرہے ہیں اپنے بچوں سے ملنے کیلئے ۔۔۔" چند باتوں کے بعد بابا سائیں نے اسے اپنی طرف سے سرپرائز دیا
" جی بابا سائیں!! اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہوگی کہ میرے اپنے میرے گھر آئیں ۔۔۔" وہ سنبھلتے ہوئے بولا
"اچھا شاہو بیٹا ، ذرا سویرا بیٹی سے تو بات کرواؤ میں اپنی بیٹی کو بھی یہ اچھی خبر سنا دوں ۔۔۔" انہوں نے فرمائش کی
" بابا سائیں وہ تو اپنے کمرے میں سو رہی ہے ابھی ادھر رات ہوگئی ہے ۔۔۔" شہریار نے رات آٹھ بجاتی گھڑی کو دیکھتے ہوئے انہیں ٹالنا چاہا
" اپنے کمرے میں ؟؟ شاہو کیا وہ تمہارے ساتھ نہیں رہتی ۔۔۔۔" بابا سائیں نے سرد لہجے میں پوچھا
" ساتھ ہی ہے بابا سائیں میں ابھی گھر سے باہر ہوں اس لئیے ایسا کہا ۔۔۔" اس نے جلدی سے بات بنائی
" چلو خیر ہے بعد میں بات کروا دینا ۔۔" بابا سائیں نے سنجیدگی سے کہا اور فون رکھ دیا
"ڈیم اٹ یہ لڑکی تو دن بہ دن میرے لئیے مصیبت بنتی جا رہی ہے ۔۔۔" اس نے فون بند کرکے بیڈ پر پھینکا اور باہر کچن میں چلا آیا
پورا کچن صاف ستھرا اس کا منھ چڑا رہا تھا ان گزرے چند ماہ میں اسے رات کا کھانا گھر پر کھانے کی عادت ہو گئی تھی کچھ سویرا کے ہاتھ کا ذائقہ بھی اسے گھر کی یاد دلاتا تھا ابھی وہ فرج کھولے کچھ کھانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی
اس نے اکتائے ہوئے انداز میں دروازہ کھولا تو سامنے ہی جونس کھڑا تھا
" ہیلو شہریار ۔۔۔ " وہ پرتپاک لہجے میں بولتا ہوا اندر داخل ہوا
" تم نے میسج کیا تھا کہ وقت ملے تو ملنا تو میں نے سوچا اپنے دوستوں کے لئیے وقت ملنے کا ویٹ نہیں کرنا چاہئیے بلکہ وقت نکالنا چاہئیے ۔۔۔" جونس خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولا
" اوہ یس !! آؤ بیٹھو پہلے تو یہ بتاؤ کیا کھاؤ گئے میں فوڈ ہی آرڈر کرنے والا تھا ۔۔"
" یار اپنی کزن سے کہو کچھ بنا دے وہ بہت اچھا پکاتی ہے ۔ ۔" جونس نے اسے بغور دیکھتے ہوئے فرمائش کی
"وہ شاید آرام کررہی ہے میں تھائی فوڈ آرڈر کررہا ہوں ۔۔۔" شہریار نے سنجیدگی سے کہا اور فون ملا کر آرڈر پلیس کرنے لگا
"شیری !! سچ بتاؤ سویرا تمہاری کون ہے ؟؟ "
*************