6۔جولائی 2017ء کی صبح دائمی مفارقت دینے والے اپنے نو جوان بیٹے سجاد حسین کے نام۔تم نے میرے کتب خانے میں بکھرے اورا ق کے پلندے سے یہ مضامین تلاش کیے،کمپیوٹر پر کمپوزکیے اور اِن کی طباعت کی تمنا اپنے دِل میں لیے اچانک عدم کی بے کراں وادیوںکی جانب کُوچ کر گئے ۔ہمارے خواب آہ و فغاں کرتے ہیں کہ اجل کے بے رحم ہاتھوںنے مرکزِ تعبیر ہی چھین لیا۔مضامین کی یہ تصویر دیکھ کر دِل تھام لیا کہ صاحبِ تصویر تو دائمی مفارقت دے گیا ۔تمھارے جانے کے بعدفضا میں سمے کے سم کے ثمر عجب گُل کھلایا کہ آب ِ رواں نے شعلۂ جوالا کی صورت اختیار کر لی اور آستین کے سانپ پھنکارنے لگے۔اس عالم میں میرا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔اللہ کریم تمھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہم الم نصیب جگر فگاروں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
فقیر
غلام شبیر
اور اب یہ کہتا ہوں،یہ جُرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں ،کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی ہنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں ،ہجراورہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دِل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہی حدوں تک اُبھرتی ،یہ لہر جس میں ہوں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا،رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں ،میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوںیا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں ،کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اَب ہے یہی ابتدا ٔ میں تھا امجد ؔ
کریم تھا،مری کوشش میں انتہا رکھتا
( مجید امجد )
سجاد حسین کی یاد میں
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاں نثار اختر (1914-1976)