راستے سارے پہلے تو حور روتی رہی پھر سوچا کہ اس طرح تو وہ احمد کے سامنے کمزور ثابت ھو گی
اور وہ کمروز ہی نہیں بننا چاہتی تھی
اسی خیال کے تحت اس نے اپنے آ نسو صاف کیے اور باہر سڑک کی طرف رخ موڑ کر بیٹھ گئی
احمد نے حور کی اس حرکت کو نوٹ کیا اور ہلکا سا مسکرا دیا
وہ بظاہر تو گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا مگر مکمل دھیان حور کی طرف تھا
(اف یہ محبت )
گھر آ گیا ھے حور
چلو اندر
احمد نے گاڑی اپنے گھر کے آ گے روکی اور خود باہر نکل کر حور کی طرف کا دروازہ کھولا
انھیں یہاں آ تے ھوئے رات ھو گئی تھی کیونکہ شام کو تو وہ وہاں سے نکلے تھے اور پھر احمد ڈرائیو بھی سلو سلو کر رہا تھا کہ زیادہ وقت وہ حور کے ساتھ گزار سکے
مجھے نہیں جانا
حور ترچھی نظر احمد پر ڈال کر بولی
لہجے سے نفرت صاف ظاہر تھی
یہ ڈرامے تم ہمارے کمرے میں کر لینا یآپھر کل
ابھی اندر چلو
کیونکہ مجھے بہت نیند آ رہی ہے ویسے بھی دو دنوں سے سویا نہیں ھوں اس لیے اب سکون سے سونا چاہتا ھوں
احمد ہکلا سا حور کی طرف جھک کر بولا
جس سے حور خود میں ہی سمٹ گئی مگر بولی کچھ نہیں
پہلے تو احمد نے کچھ دیر حور کا انتظار کیا مگر جب حور اپنی جگہ سے نہ ٹس سے مس نہ ھوئی
تو پھر احمد نے گہرا سانس لیا اورحور کا ھاتھ پکڑ کر اسے باہر نکالا
احمد کے اس طرح ھاتھ پکڑنے سے حور اچانک ھوش میں آئی اور پھر نفرت سے اپنا ھاتھ احمد کے ھاتھ سے کھینچ کر نکالا
آ ہ
حور کے اس طرح کرنے سے اس کے اپنے ھاتھ پر ہی چوٹ لگ گئی اور منہ سے ہلکی سی کراہ نکلی
اف پاگل ھو تم بالکل حور
لگ گئی نا چوٹ
احمد پریشانی سے حور کی طرف بڑھا مگر حور غصے سے بولی
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ھاتھ لگانے
ھاں
دوبارہ اگر میرے پاس بھی آ ے نا
تو جان سے مار دوں گی تمہیں اور اگر تمہیں کچھ نہ کر سکی تو خود کی جان لے لوں گی
حور غصے سے پھنکاری
اوکے ریلیکس حور
نہیں کروں گا کچھ لیکن پلیز تم گھر کے اندر چلو
احمد نے حور کو دیکھا اور پھر ہلکے سے بولا
احمد کو حور کا اس طرح اپنا ھاتھ چھڑوانا اور پھر اس طرح کی باتیں اچھی تو نہیں لگی تھیں مگر وہ اس وقت کوئی تماشا نہیں چاہتا تھا اور پھر حور کی ناراضگی بنتی بھی تھی
آ خر احمد نے بھی تو اس کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا تھا اسی خیال کے تحت وہ چپ رھا
حور نے احمد کی بات سنی اور پھر بغیر اسے دیکھے اندر کی طرف چل پڑی
تو احمد بھی مسکرا کر اس کے پیچھے چل دیا
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ دونوں ھال میں ہی پحنچھے تھے کہ اچانک فروز اور فضا ان کے سامنے آ گئے
احمد یہ
فضا نے احمد کے ساتھ حور کو دیکھا تو حیرانگی سے بولی
آپی میں آپ کو سب کچھ بتاتا ھوں لیکن پہلے پلیز کچھ کھانے کے کو دے دیں اور حور تم جاؤ کمرے میں
2 فلور پر لفٹ سائیڈ کا فرسٹ روم ہمارا ھے تم جا کر فریش ھو جاؤ پھر دونوں مل کر کھانا کھائیں گے
احمد نے حور کو یہاں سے بھیجنا چاھا تاکہ وہ فضا اور فروز سے بات کر سکے
مگر کہنے کا انداز ایسا تھآجیسے دونوں میں بہت محبت ھو اور ابھی ابھی لو میریج کر کے آ رھے ھوں
ویسے لو میریج تھی بھی مگر صرف احمد کی طرف سے کیونکہ حور کی طرف سے تو یہ صرف شادی بھی نہیں تھی
کیونکہ بقول حور کے گن پوائنٹ پر ھوئی شادی شادی نہیں ھوتی
حور بھی یہاں سے جلد از جلد جانا چاہتی تھی اس لئے چپ چاپ احمد کی بات سنی اور سیڑھیاں چڑھنے لگی
جبکہ احمد فضا کو آ نے کا اشارہ کرتے ھوئے سامنے موجود گسٹ روم میں چلا گیا تو فضا اور فروز بھی اس کے پیچھے چل پڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی آپ کو پتہ تو ھے کہ میں حور کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اس لئے میں نے اس سے شادی کر لی
مگر کیسے احمد حور کا آج نکاح ھو رہا تھا کسی اور سے تو تم کیسے اس سے شادی کر سکتے ھو اور وہ بھی یوں اکیلے مجھے یا فروز کو بتانے کی تم نے ضرورت بھی محسوس نہیں کی
سچ سچ بتاؤ تم نے زبردستی سے تو حور سے نکاح نہیں کیا اور اگر ایسا ھے تو تمہیں ایسے نہیں کرنا چاھیے تھا احمد
میں نے یا موم ڈیڈ نے تمہاری تربیت ایسی تو نہیں کی تھی
فضا خفا خفا سی احمد سے پوچھ رہی تھی جبکہ فروز بت بنا سب کچھ بس سن رہا تھا مگر بولنے کی ہمت نہیں ھو رہی تھی
وہ تو خوش ھو رھا تھا کہ احمد حور سے شادی نہیں کر سکے گا اور پھر اسی غم میں مجنوں بنآپھرتا رھے گا
نا آ فس پر دھیان دے گا اور نہ پراپرٹی سنبھالنے کے قابل رھے گا تو سب کچھ اس کا ہی رہ جائے
مگر یہ کیا ایسا تو کچھ بھی نہیں ھوا بلکہ وہ شادی کر کے آ گیا اور خوش بھی پھر رہا ھے تو کیا یہ صرف اس کی حسرت رہ جائے گی کہ وہ اس ساری پراپرٹی کا واحد مالک ھو
بتاؤ احمد میری کیا صرف اتنی سی اہمیت ھے تمہارے نزدیک کہ تم مجھے کچھ بتا نہیں رھے
بولو احمد کیا یہ سب سچ ھے
فروز اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے فضا کی آ واز واپس ھوش میں لائ
نہیں آپی پلیز ایسا مت سوچیں
آپ کو پتہ تو ھے کہ آپ کیا ھیں میری لیے
موم ڈیڈ کی ڈیتھ کے بعد ایک آپ ہی تو ھیں میرا واحد رشتہ جس سے میں اپنا ہر دکھ درد بیان کرتا ھوں
آپ کے علاوہ میرا ھے ہی کون
احمد بھرائی ہوئی آواز میں بولا
اور یہ سچ بھی تھا احمد صرف 12 سال کا تھآجب ان کے پیرنٹس ایک کار ایکسیڈنٹ میں اس دنیا میں انھیں اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلے گئے تب صرف فضا 18 سال تھی اور اس طرح اپنے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جانے سے بہت خوفزدہ بھی
تو فروز جو اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس نے فضا کو شادی کی آفر کی اس خیال کے تحت کہ وہ ساری دولت کا خود مالک بن جائے گا کیونکہ احمد تو ابھی بچہ تھا وہ کہاں یہ سب سنبھال سکتا تھا
اور پھر فضا بھی کیونکہ خود مجبور تھی اس لئے فروز سے شادی کر لی کہ اس طرح اسے ایک محافظ مل گیا تھا
احمد میرے بچے آئی ایم سوری
مجھے اس طرح تم سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن میں اچانک اس طرح حور کو دیکھ کر بہت شوکڈ ھو گئ تھی اور پتہ نہیں کیا کیا بول گئی
میں بہت شرمندہ ھوں
فضا شرمندگی سے بولی جبکہ احمد جلدی سے بولا
کوئی بات نہیں آپی
میں جانتا ھوں کہ آپ کے دل میں میری شادی کے لئے بہت سے ارمان ھیں اس لئے آپ تھوڑی سی غصہ کر گئیں لیکن اب کیونکہ شادی تو ھو چکی ھے تو اس لئے آپ وہ سب ارمان میرے ولیمے پر پورے کر لیں
احمد شرارت سے بولا تو فضا بھی مسکرانے لگی
چلیں اب کچھ کھانے کو تو دے دیں
سچ میں بہت بھوک لگی ہے
احمد نے مسکین سی شکل بنائی تو فضا اس کے سر پر چت لگا کر کی کچن میں چلی گئی
وہ فضا کو سینٹی کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ اس سے کوئی سوال جواب نہ کرے اور اسے جھوٹ نہ بولنآپڑے
اور سچ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا
اور اب کیونکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ھو گیا تھا اس لئے خوشی خوشی وہ بھی فضا کے پیچھے چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
حور احمد کے بتائے ہوئے کمرے میں داخل ھوئ اور کمرے کآجائزہ لینے لگی
ایک درمیانے سائز کا بہت صاف ستھرا اور خوبصورت سا کمرہ تھا حور نے سب سے پہلے روم لوک کیا اور پھر جا کر بیڈ پر گر سی گئی
کیا کیا سوچا تھا اس نے اپنی زندگی کے بارے میں
مگر ھوا کیا
حمزہ کا ڈر کر اسے احمد کے حوالے کر دینا
لوگوں کی باتیں اس پر لگائے الزامات
اور سب سے بڑھ کر اسے مزمل صاحب کا رویہ یاد آ رھا تھا
کیوں بابا آپ نے بھی مجھے چھوڑ دیا اور اس گنڈے کے حوالے کر دیا
کیوں کیا آپ نے ایسا بابا
کیوں
حور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور مزمل صاحب سے شکوے کرنے لگی مگر اس وقت اسے سننے والا کوئی بھی نہیں تھا وہ اچانک خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی
اور پھر اسی طرح روتے روتے وہ گہری نیند میں سو گئی وہ ایسی ہی تھی جب بھی ٹینشن میں ھوتی تو گہری نیند میں سو جاتی اس طرح وہ خود کو ریلیکس کرتی تھی
اور اب بھی کر رہی تھی
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
احمد نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور حور کے لئے ٹرے میں کھانا رکھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا
جبکہ فروز کی تو مانو بھوک ہی مر گئی تھی اسی لئے تھوڑا سا کھانا زبردستی کھایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا
اپنے کمرے کے باہر پہنچ کر جیسے ہی احمد نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو ناکامی کا سامنا کرنآپڑا کیونکہ دروازہ اندر سے لوکڈ تھا
اف حور
احمد نے زیر لب حور کا نام لیا اور ٹرے کو سامنے رکھے ٹیبل پر رکھ کر فضا کے پاس اپنے روم کی چابی لینے آ گیآجو اس وقت برتن سمیٹ رہی تھی
آپی میرے روم کی چابی کہاں پڑی ھے
احمد تیز لہجے میں بولا تو فضا نے عجیب سی نظروں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا
اور پھر بولی
میرے کمرے میں بیڈ کے پاس پڑی سائیڈ ٹیبل کے دراز میں ھے تمہارے کمرے کی چابی
فضا غور سے احمد کے چہرے کآجائزہ لے رھی تھی جیسے اس کا ذیہن پڑھنے کی کوشش کر رہی ھو
اوکے تھینک یو
احمد نے جلدی سے کہا اور فضا کے کمرے کی طرف چل پڑا
احمد جب فضا کے کمرے میں داخل ھوا تو فروز احمد کو دیکھ کر سونے کا ڈرامہ کرنے لگا
جبکہ احمد کو اس بات سے کوئی غرض بھی نہیں تھی
اس نے تو جلدی سے چابی اٹھائ اور اپنے کمرے کا دروازہ کھولنے لگآپھر دروازہ کھلتے ہی باہر پڑی کھانے کی ٹرے اٹھائ اور کمرے میں داخل ھو گیا
مگر یہ کیا
حور تو آ رام سے بیڈ کے بالکل درمیان میں وہی دلہن کے کپڑوں میں سو رہی تھی
اور سب سے بڑھ کر حور احمد کے فیورٹ پلو جس پر دو بلو آیز بنی ھوئی تھیں اسے ہگی دے کر سو رہی تھی
یہ پلو احمد نے حور کی آ نکھوں کو جب دیکھا تھا تب لیا تھا اور اسے روزانہ وہ خود ہگ کر کے سوتا تھا
احمد نے حور کو دیکھا تو ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ گئی
پھر اس نے کھانا واپس لے جا کر کچن میں رکھا اور خود کمرے میں واپس حور کے پاس آ گیا
کوئی بات نہیں حور تم میرے پلو کو ہگ کر کے سو رہی ھو تو میں تمہیں ہگ کر کے سو جاتا ھوں کیونکہ ویسے تو مجھے نیند نہیں آ ے گی
احمد شرارت سے بولا اور پھر حور کو ہگ کر کے سو گیآجبکہ حور بھی گہری نیند میں تھی اس لئے اسے احمد کے ہگ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزمل ہمیں حور کے پاس جانا چاہئے پتہ نہیں میری بچی کس حال میں ھو گی
آپ کیسے حور کو اس لڑکے کے ساتھ بھیج سکتے ھیں
کتنا خطرناک ہے وہ اسلحہ رکھتا ھے اپنے پاس
اگر اس نے حور کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو
آپ پلیز میری بچی کو گھر واپس لے آئیں
صبا بیگم صبح سے مزمل صاحب سے ایک ہی بات کی ضد کر رہی تھی کہ وہ حور کو یہاں واپس لے آئیں
رات کو تو ان کے گھر میں ایک ماتم سآپھیلا ہوا تھا کسی کو کسی کا ھوش نہیں تھا بس سب اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے
اور یہ حال صرف صبا بیگم اور مزمل صاحب کا ہی تھا کیونکہ ناہید بیگم اور حمزہ تو یہاں سے جلد از جلد نکلنے کی تیاریوں میں مصروف تھے
نہیں صبا
میں حور کو یہاں نہیں لا سکتا کیونکہ حور اب اس لڑکے کی بیوی بن چکی ھے اب ہمارا حور پر کوئی حق نہیں رھا اور اسی وجہ سے میں نے کل حور کو جانے سے نہیں روکا
مزمل صاحب ٹوٹے ھوئے انداز میں بول رھے تھے جیسے اپنا سب کچھ ھار چکے ھوں
لیکن مزمل اگر وہ ہماری حور پر ظلم و ستم کر رھا ھوا تو
صبا بیگم نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
آپ کو ایک دفعہ تو جا کر دیکھنا چاھیے
ھاں تم ٹھیک کہ رہی ھو
مجھے جانا
مزمل میں اور حمزہ ابھی واپس ملتان جا رھے ھیں تو سوچا کہ تمہیں بتا دو
مزمل صاحب ابھی بول ہی رھے تھے کہ ناہید بیگم اچانک وہاں آ کر بولیں
کیونکہ ہمیں کوئی شوق نہیں ھے یہاں ذلیل و خوار ھونے کا اور مزنے کا
بھئ ہمیں اپنی جان بہت عزیز ھے اور وہ گنڈا تو میرے معصوم سے بیٹے کی جان کا دشمن بنا ھوا ھے
تو اس لئے ہم جا رھے ھیں اور تم بھی ہم سے دوبارہ کوئی رابطہ رکھنے کی کوشش مت کرنا
اللّٰہ حافظ
ناہید بیگم نے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کی اور بغیر مزمل صاحب کآجواب سنے گھر سے باہر نکل گئیں ناہید بیگم کے نکلتے ہی حمزہ بھی بغیر کچھ بولے وہاں سے چلا گیا
جبکہ مزمل صاحب شوکڈ سے یہ سمجھنے کی کوشش کر رھے تھے کہ کوئی اتنا خود غرض کیسے ھو سکتا ھے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔