اسلام و علیکم رانا احمد بات کر رھے ھیں
احمد آ فس سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف جا رھا تھآجب اچانک اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی
جی ھاں میں رانا احمد بات کر رہا ہوں
سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں کیا آپ اپنا تعارف کروانآپسند کریں گے
احمد نے سلام کآجواب دینے کے بعد کہا
ھاں کیوں نہیں
میں سعد قریشی بات کر رھا ھوں وہ میں آپ کی حیدرآباد والی زمین خریدنا چاہتا ہوں پہلے تو آپ کے بہنوئی فروز سے 3 کروڑ میں ڈیل ھو گئی تھی مگر اب وہ 5 کروڑ مانگ رھے ھیں میں نے آپ کو صرف اس لئے کال کی ھے کہ آپ انھیں سمجھائیں کہ جب پہلے ڈیل ھو چکی ھے تو اب وہ رقم کیوں بڑھا رھے ھیں
آپ پلیز ان سے بات کر کے مجھے بتا دیں میں آپ کی کال کا ویٹ کروں گا
سعد قریشی نے جلدی جلدی اپنی بات مکمل کی اور پھر احمد کے بولنے کا ویٹ کرنے لگآجبکہ احمد کچھ دیر تک تو خاموش رھا اور پھر دو ٹوک انداز میں بولا
جی نہیں شکریہ ہم نے یہ ڈیل نہیں کرنی
نہ 3 کروڑ میں اور نہ 5 میں
معزرت چاہوں گا کہ آپ کا ٹائم ویسٹ ہوا
اللّٰہ حافظ
احمد نے کہہ کر جواب سنے بغیر کال کاٹ دی اور موبائل کو غصے میں گاڑی کی سیٹ پر پیخ کر گاڑی کا رخ گھر کی طرف کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ احمد ابھی تک کیوں نہیں آ ے
جلدی آجائیں احمد
بہت ضروری بات کرنی ھے آپ سے
حور بولتی ھوئی بار بار احمد کو کال کر رہی تھی مگر اس کا موبائل مسلسل بند جا رھا تھا
کیا کروں باہر جا کر ویٹ کروں احمد کا
مگر باہر تو وہ گھٹیا شخص فروز بیٹھا ھے
تو کیا ھوا میں ڈرتی تھوڑی ھوں اس سے
ھاں میں باہر جا کر احمد کا ویٹ کرتی ھوں
حور سوچتے ھوئے اٹھی ابھی اس نے کمرے کا دروازہ ہی کھولا تھا کہ نیچے سے احمد کے غصے سے بھری آ واز سنائی دی
احمد آ گئے
اور احمد اتنا غصہ کس پر اور کیوں کر رھے ھیں ابھی تو میں نے انھیں کچھ بھی نہیں بتایا تو پھر
حور سوچتے ھوئے سیڑھیاں اترتی ھوئی ھال میں آ ئ تو اسے احمد ھال میں سرخ چہرے کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آیآجو فروز سے کسی بات پر جھگڑ رھا تھا
تو حور چپ چاپ احمد کی بات سننے لگی
کیوں کیا فروز بھائی
اگر آپ کو پیسے ہی چاھیے تھے تو مجھ سے یآپھر آپی سے لے لیتے مگر وہ زمین کیوں بیچنے کی کوشش کی یہ جانتے ھوے بھی کہ وہ زمین ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتی ھے
سوچیں زرہ اگر وہ ڈیل ھو گئی ھوتی تو کس طرح میں موم ڈیڈ کا وہاں یتیم خانہ بنانے کا خواب پورا کرتا
کس طرح سکون سے رہتا
کیوں کیا آپ نے
ایک دفعہ پوچھنا تو دور بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا
وہی زمین نظر آ ئ تھی آپ کو
بولیں
احمد غصے میں فروز کی آ نکھوں میں دیکھتے ھوئے پوچھ رھا تھا مگر فروز احمد کی بات کو نظر انداز کرتے ھوئے ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھآجیسے یہاں پر کوئی دوسرا موجود ھو ہی نہ
فروز بھائی میں آپ سے بات کر رہا ہوں جواب دیں مجھے
احمد نے پاس پڑا واز اٹھایا اور اسے سامنے لگی ایل ای ڈی میں دے مارآجس سے ایل ای ڈی تو بند ھو گئی مگر فروز دانت پیستے ھوئے وہیں بیٹھا رھا
سنائی نہیں دے رھا آپ کو بکواس کر دہا ھوں میں
احمد فروز کے سامنے آ کر اس کے بازو کو پکڑ کر فروز کو اٹھاتے ھوئے بولآجبکہ فروز نے فوراً احمد کے ھاتھ کو جھٹکا اور پھر احمد کو دھکا دیآجس سے احمد کچھ فاصلے پر ھوا مگر خود کو گرنے سے بچا لیا
احمد
فضا اور حور دونوں اکھٹی بولیں
ششش
اب مجھے کسی کی آ واز نہیں آئے
فروز نے خونخوار نظروں سے فضا اور حور کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر اپنی نظریں احمد کی طرف کیں
سچ سننا ھے نا تم سب کو تو سنو
ھاں میں نے وہ زمین بیچنی چاہی یہ جانتے ھوے بھی کہ وہ تمہیں کتنی عزیز ھے
تاکہ اس کے بکنے سے تمہیں تکلیف ھو
ھاں دولت چاھئے مجھے یہ ساری دولت اور اسے ہی حاصل کرنے کے لئے میں نے فضا سے شادی کی لیکن نہیں ابھی تو تم زندہ تھے یعنی کہ اس گھر کا اور اس دولت کا وارث زندہ تھا تو کچھ مجھے کیسے ملتا میں نے تو کوشش بھی کی کئ دفعہ تمہیں مارنے کی مگر ہمیشہ بچ جاتے تھے تم
یاد ھے تمہیں جب تم مری گئے تھے اور تمہارا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا وہ ایکسیڈینٹ میں نے کروایا تھا مگر نہیں تم تب بھی بچ گئے اور ایک دفعہ جب کچھ لڑکوں سے تمہاری لڑائی ھو گئی تھی اور انھوں نے تمہیں بہت مارا تھا وہ لڑکے بھی میں نے بھیجے تھے مگر تم پھر بھی بچ گئے
بڑے ہی ڈھیٹ ھو تم تو
فروز اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں لگ رھا تھا
پھر تم نے حور سے شادی کی بات کی
مگر وہاں سے انکار ھو گیا میں نے تو سوچا کہ تم اسی غم میں مرمرآجاؤ گے مگر تم تو حور سے نکاح کر کے آ گیے
اور حور وہ بھی تمہیں ایکسیپٹ کر کے بیٹھ گئی
ھاے حور کتنی خوبصورت ھو تم
فروز نے ڈری سہمی حور کو دیکھ کر کہا اور پھر سے بولا
لیکن تم بھی اس احمد کو ہی محبت کرتی ھو مجھے تو ٹھیک سے جواب بھی نہیں دیتی مگر مجھے تمہیں حاصل کرنا تھا اس لئے تمہارے ولیمے کی رات گھر کی لائٹ خراب کر کے آیا تھا تمہارے پاس حور
تمہیں حاصل کرنے کے لئے
مگر تم بھاگ گئی میرے ارمانوں پر پانی پھیر کر
کیوں ہر وہ چیز تمہیں مل جاتی ھے جو جو چاہتے ھو
فروز چیخ کر بولآجبکہ احمد غصے سے فروز کے پاس آ یا اور اس کے منہ پر ایک پنچ مارآجس سے فروز لڑکھڑا کرصوفے پر گر گیا
تیری ہمت کیسے ھوئی میری حور کے پاس جانے کی
جان سے مار دوں گا میں تجھے
احمد غصے میں بولتے ھوئے فروز کو ایک اور پنچ مارنے لگا مگر فروز اپنی پسٹل نکال کر احمد کی طرف کر کے بولا
بس بہت کر لی بکواس
غصہ آ رھا ھے کہ میں تیری حور کے پاس گیا تھا
مگر اب جب تو مر جائے گا تو تیری حور ہمیشہ کے لیے میری ھو جائے گی پھر تو کرنا غصہ قبر میں
فروز اپنی ناک سے نکلتے ہوئے خون کو ھاتھ سے صاف کرتے ھوئے بولآجبکہ حور شوکڈ سے بس یہ منظر دیکھ رہی تھی
مگر فضا چپ چاپ احمد کے روم میں گئی اور احمد کی گن اٹھا کر واپس ھال میں آ گئی
چل بیٹے کلمہ پڑھ لے
ورنہ وہ بھی نصیب نہیں ھو گا
فروز پسٹل کا رخ احمد کے سر کی طرف کر کے بولآجبکہ احمد فروز سے وہ پسٹل چھیننے کے بارے میں سوچ رھا تھا
ایک دو اور
فروز
فضا نے فروز کو آ واز دی اور پھر فروز کے رخ موڑتے ہی
ٹھاہ
ابھی فروز تین بولنے کے ساتھ احمد پر گولی چلانے ہی والا تھا کہ فضا کے بلانے پر اس کیطرف دیکھنے لگآجس سے فضا نے بغیر کچھ سوچے سمجھے فروز پر گولی چلا دی اور خود زمین پر بیٹھ کر فروز کو مرتے ھوئے دیکھنے گی
جبکہ فروز لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر گرا اور فرش پر اس کا خون تیزی سے بہنے لگا
فروز بھائی
احمد نے بڑھ کر فروز کو زمین پر سے اٹھانا چاہا مگر وہ صرف اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رھا تھا کیونکہ گولی اس کے دل پر لگی تھی
حور حور ایمبولینس کو فون کرو جلدی
احمد نے چیخ کر بت بنی حور سے کہآجس سے حور نے ایک نظر احمد پر ڈالی اور پھر گرتی پڑتی فون سٹینڈ تک گئی اور ابھی ریسیور اٹھایا ہی تھا کہ اسے فضا کی آ واز سنائی دی
مر چکا ھے وہ
ایمبولینس بلانے کی ضرورت نہیں ہے
فضا بے تاثر چہرے کے ساتھ بولی جبکہ احمد فروز کو وہیں چھوڑ کر بھاگ کر فضا کے پاس آ یا
آپی آپ کو کچھ نہیں ھو گا یہ قتل آپ نے نہیں کیا میں نے کیا ھے اپنے دفاع میں
ٹھیک ھے اور آپ اور حور پولیس کو بھی یہی بیان دیں گی
احمد فضا کے دونوں ھاتھوں کو اپنے ھاتھوں میں پکڑ کر اسے سمجھا رھا تھا
نہیں احمد تمہیں میری قسم تم ایسا کچھ نہیں کہو گے
یہ میں نے کیا ھے اور اس کی سزا بھی مجھے ملے گی
یہ آ دمی زندہ رہنے کے قابل نہیں تھا احمد
اس کا مرنا ہی بہتر تھا اور مجھے اسے مارنے پر کوئ پچھتاوا نہیں ہے
فضا بے تاثر چہرے کے ساتھ احمد سے بات کر رہی تھی جبکہ احمد بس فضا کو دیکھے جا رھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 سال بعد
ارمان بیٹے آپ ابھی تک تیار نہیں ھوے آپ کو پتہ ھے نا کہ آج آپ کی پھپھو آ رہی ھیں
چلو جلدی کرو آپ کے بابا آپ کی پھپھو کو لے کر آ تے ہی ھوں گے
حور کھلونوں سے کھیلتے ہوئے ارمان کو دیکھ کر بولی جو ابھی بھی کھلنے میں مصروف تھا
ارمان بیٹے
کیوں تنگ کر رھے ھو مجھے
ھاں کیوں تنگ کر رھے ھو اپنی ماما کو
حور ارمان کے بکھرے ہوئے کھلونے اٹھا رہی تھی اور ساتھ ساتھ اسے تیار ھونے کا بول رہی تھی جب فضا کمرے میں داخل ھوتی ھوئی بولی جبکہ احمد بھی فضا کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ھوا
فضا کو احمد کی پاور کی وجہ سے صرف 5 سال کی سزا ھوئی تھی اور آج وہ واپس اپنی گھر آ گئی تھی جبکہ ان 5 سالوں میں اللّٰہ نے حور اور احمد کو ایک خوبصورت سا بیٹا عطا کیا تھا
جو شکل وصورت میں احمد جیسا تھآجبکہ آنکھیں حور پرگئی تھیں یعنی نیلی
ارمان بیٹے ادھر آؤ
فضا نے ارمان کو اپنی طرف بلایا تو وہ چلتا ھوا فضا کی گود میں چلا گیا اور فضا اس سے لاڈ کرنے لگی جبکہ احمد حور کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور وہ دونوں فضا اور ارمان کو دیکھنے لگے
بے شک ہر مشکل کے بعد آ سانی ھے جیسا کہ اب حور احمد فضا کی زندگی پر سکون اور آرام دہ ھو گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد