رات کو سب کھانے کے ٹیبل پر موجود ڈنر کر رھے تھے مگر احمد تب بھی چپ تھا اور بار بار خونخوار نظروں سے حور کو دیکھ رہا تھا
حور تو پہلے ہی ڈر گئی تھی احمد کی پھانسی دلوانے والی دھمکی سے مگر اب اسے لگ رھا تھا کہ پھانسی تو کیا ھو گی احمد اسے پہلے ہی اپنے ھاتھوں سے قتل کر دے گا
ھاے اللّٰہ
میں نے کیوں کیا ایسے
خود اپنی موت کو آ واز دی ھے
ہاف سائیکو تو یہ پہلے ہی تھا مگر پیلو کے صدمے میں مکمل سائیکو ھو گیا ھے
اب میں کیا کروں
یہ تو مجھے پیلو سے بھی بری موت دے گا یعنی پیلو سے بھی چھوٹے ٹکڑے
نہیں
حور کھانا کھانے کے دوران مسلسل احمد کی خونخوار نظروں سے ڈر کر سوچنے لگی کہ وہ اس کا کیا حشر کرے گا
اور پھر انجانے میں سوچتے سوچے اونچی آ واز میں نہیں کہ کر چلائی
کیا ھوا حور
حور کے اس طرح چیخنے سے فضا اچانک بولی جبکہ احمد حور کے ڈرے ھوئے چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگا مگر بھی جلدی سے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیے پانی کا گلاس اپنے منہ سے لگایا
نہی۔۔۔۔۔نہیں ک۔۔۔۔۔کچھ نہیں ااپی
وہ بس
حور ابھی کوئی بہانہ بنا ہی رہی تھی کہ فضا دوبارہ بولی
اچھا چھوڑو مجھے تم سب کو ایک خوش خبری سنانی ھے کہ پرسوں میں نے اور فروز نے مل کر تم دونوں کا ولیمہ رکھا ہے
میں سب کو انوائیٹ کر چکی ھوں اس کے علاوہ تم دونوں نے اگر کسی اور کو بھی انوائیٹ کرنا ھے تو کرلو
کیونکہ ولیمے میں صرف ایک دن ہی بچا ھے
فضآجوش سے احمد کو دیکھ کر بولی جبکہ احمد نے مسکرا کر فضا کو تھینکس کہا
حور نے بس ایک نظر فضآپر ڈالی اور پھر سر جھکا کر بیٹھ گئی
اور اب میں سونے جا رہی ھوں کیونکہ صبح بہت سے کام ھیں مجھے تو اب تم سب بھی جا کر سو جاؤ
کیونکہ کھانا تو سب کھا چکے تھے اس لئے فضا کہ کر برتن سمیٹنے لگی تبھی حور بھی اٹھ کر فضا کی مدد کرنے لگی اور برتن اٹھا کر کچن کی طرف چل پڑی
تبھی فروز اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
ٹیبل سے اٹھا تو احمد بھی مگر کمرے میں جانے سے پہلے کچن میں فضا اور حور پاس آ یا اور آ ہستہ سے ایک تیزی اور بڑی سی چھری اٹھا کر واپس کمرے میں چلا گیا
کیونکہ فضا اور حور دونوں کی کمر تھی احمد کی طرف اس لئے وہ احمد کو دیکھ نہ سکیں
چلو حور تم بھی جا کر سو جاؤ
فضا اپنے کمرے میں جانے سے پہلے حور سے بولی اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ حور احمد سے ڈر کر کمرے میں نہیں جا رہی تھی اس لئے واک کرنے کے بہانے لان میں چلی گئی
اب تک تو سائیکو سو گیا ھو گا
یعنی میں روم میں جا سکتی ھوں
کافی دیر تک وہاں واک کرنے کے بعد جب حور کی ٹانگوں میں درد ھونے لگا تو احمد کے سو جانے کا سوچ کر آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑی
جیسے ہی حور نے دروازہ کھولا تو پورے کمرے میں نایٹ بلب کی ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی
لگتا ھے سائیکو سو گیا ھے
حور نے اندر جھانک کر احمد کو دیکھا تو وہ بیڈ پر اسے لیٹا ھوا نظر آ یا
حور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر بیڈ کے پاس آئی تو اسے احمد کمبل کو منہ تک لیے ھوئے نظر آ یا
کہا بھی تھا کہیں اور جا کر سونا مگر نہیں
ادھر ہی آجاتا ھے سونے کے لئے جیسے اور کوئی جگہ ہی نہیں ملتی ہے اسے
اب اس کی وجہ سے مجھے صوفے پر سونآپڑے گا
ارے کمبل تو ایک ہی ھے اب اب کیا لوں گی
سائیکو سے کمبل چھین لوں
نہیں
نہیں اٹھ گیا تو مار ہی ڈالے گا مجھے
سائیکو سو کیسے رہا ھے سکون سے
مگر مجھے کمبل کے بغیر نیند ہی نہیں آنی
حور نے غصے سے کہ کر بیڈ سے سرھانہ اٹھایا اور ابھی صوفے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اچانک احمد نے کمبل سے نکل کر حور کا ھاتھ کھینچا اور اسے بیڈ پر گرایآپھر خود اس پر جھکک کر اس کے گلے پر چھری رکھ دی
جبکہ حور اس اچانک حملے پر چیخ پڑی مگر پھر اپنے گلے پر چھری رکھی دیکھ کر فوراً چپ کر گئی
تم کیا سمجھ رہی تھی کہ میں اتنی جلدی اپنے پلو کے قاتل کو معاف کر دوں گا
ھاں
جان بستی تھی میری پلو میں
اس لیے اس کی جان لینے والی کو میں خود اپنے ھاتھوں سے جان سے ماروں گا
جس طرح تم نے میرے پلو کے ٹکڑے کیے تھے نا ویسے ہی تمہارے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کروں گا
پھر مجھے اور میرے پلو کو سکون ملے گا
احمد حور کی خوفزدہ آنکھوں کو اپنی سرخ آنکھیں سے گھورتے ھوئے بولا
جبکہ خوف سے حور کے آنسو بہنے شروع ہو چکے تھے
س۔۔۔۔۔۔۔سو۔۔۔۔۔۔۔سوری
پ۔۔۔۔پلیز احمد
م۔۔۔۔۔مجھے مت ما۔۔۔۔۔مارو
تم تتتو م۔۔۔۔۔محبت کر۔۔۔۔کرتے ھو م۔۔۔۔۔مجھ سے
حور خوف سے مکمل طور پر کانپ رہی تھی اور پھر اسی طرح کانپتے ھوئے بولی
احمد نے گہری نظروں سے حور کے کانپتے ہوئے وجود کو دیکھا اور پھر چھری اٹھا کر اس کے ہونٹوں پر رکھی
ششش
ٹھیک ہے نہیں مارتا تمیں
ویسے یہ میرے پلو سے بے وفائی ھو گی مگر پھر بھی تم پر ترس کھا لیتا ہوں
مگر تمہیں بھی میری بات ماننی ھو گی
جو میں کہوں گا وہی کرنا ھو گا
احمد اب چھری کو حور کے چہرے پر پھیر رھا تھا
او۔۔۔۔۔اوکے
م۔۔۔۔مجھے من۔۔۔۔منظور ھے تم۔۔۔۔۔تمہاری شر۔۔۔۔شرط
حور نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں اور پھر روتے ھوئے بولی
آہ ھاں
تم نہیں آئندہ سے تم مجھے آپ کہوں گی
اور اگر تم نے دوبارہ مجھے تم کہ کر مخاطب کیا نا
تو مجھ سے برا سچ میں کوئی نہیں ھو گا حور
میرے غصے کو تمہارے یہ آنسو بھی نہیں روک سکیں گے
اس لئے دوبارہ اس بات کا خیال رکھنا
اور اب سو جاؤ
بس یہی شرط ھے میری
احمد نے حور کے بالوں کو اس کی پیشانی سے پیچھے کیا اور پھر کس کر کے چھری سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور لیٹ گیا
جبکہ حور جو پتہ نہیں کیا کیا سوچے بیٹھی تھی کہ احمد کوئی اور ڈیمانڈ کرے گا
بے یقینی سے اسی طرح بیڈ پر لیٹی رہی
سیدھی ھو کر سرھانے پر لیٹو حور اور سو جاؤ تمہاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کروں گا تمہارے ساتھ
سو ریلیکس
اتنا تو بھروسہ کر ہی سکتی ھو مجھ پر
احمد نے حور کو جتانا ضروری سمجھا کہ وہ احمد کے خلاف غلط سوچنا چھوڑ دے
حور نے احمد کی بات سنی تو شرمندہ سی سرھانہ سیدھا رکھ کر خود بھی سمٹ کر لیٹ گئی
احمد نے حور کو لیٹے ھوئے دیکھا تو اٹھ کر ڈریسنگ روم میں گیا اور ایک الگ سنگل کمبل لے کر حور کے اوپر دے دیا اور پھر خود واپس اپنی جگہ پر لیٹ کر کمبل چہرے تک اوڑھ کر سو گیآجبکہ حور بھی کچھ دیر تک احمد کے بارے میں سوچنے کے بعد خود بھی نیند کی وادی میں اتر گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے کیسے پرسوں احمد اور حور کا ولیمہ ھو سکتا ھے
یعنی حور ہمیشہ کے لئے احمد کی ھو جائے گی
فروز تب سے ہی اندر ہی اندر جل رہا تھآجب سے اسے حور اور احمد کے ولیمے کآپتہ چلا تھا اس لئے اب بھی بیڈ پر لیٹا ھوا یہی سوچ رھا تھا
مجھے جلد سے جلد کچھ کرنا ھو گآجس سے حور اور یہ دولت دونوں میری ھو جائیں
مگر کیا کروں
وہ بھی اتنے کم ٹائم میں
کچھ تو کرنا ھو گا کیونکہ حور تمہیں احمد کا تو میں کبھی نہیں ھونے دوں گا
حاصل کر کے ہی رھوں گا تمہیں
چاھے ایک دفعہ ہی سہی
فروز نے حور کا تصور کرتے ہوئے خباثت سے سوچا اور پھر اپنے اگلے عمل کے بارے میں پلینگ کرنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور
حور اٹھو فجر کی نماز پڑھ لو
میں بھی مسجد میں جا رھا ھوں
حور کی صبح آ نکھ احمد کے اٹھانے سے کھلی تو اس نے آنکھوں کو اچھے سے کھول کر دیکھا تو اسے احمد سر پر نماز والی ٹوپی لیے ھوئے خود پر جھکا ہوا نظر آ یا
جلدی اٹھو ورنہ نماز قضا ھو جائے گی
احمد نے حور کے ھاتھ کو پکڑ کر اٹھایا تو حور آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی
جی آپ جائیں میں اٹھ گئی ھوں
حور نے احمد کو دیکھ کر کہا
واہ حور
کافی فرمابردار ثابت ھو رہی ھو تم تو
احمد مسکرا کر حور سے بولا اور پھر کمرے سے باہر نکل گیا
میں نے کیا فرمابرداری کر دی
حور نے دماغ پر زور دیا اور پھر خود بھی حیران رہ گئ کہ کس طرح خود ہی اس کے منہ سے احمد کے لئے آپ لفظ نکلا
تو کیا میں واقع میں احمد کی عزت کرنے لگی ھوں
حور کچھ دیر تک تو احمد کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر نماز قضا ھونے کے ڈر سے جلدی سے اٹھ کر باتھ روم میں وضو کرنے چلی گئی
اس بات سے انجان کہ یہ تو دل کو دل کی راہ ھوتی ھے جب احمد اس سے محبت کرتا ھے تو حور کو تو اس سے محبت لازمی ھونی تھی
اور یہ حور کی محبت کی ابھی ابتدا تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔