ارے حور
آرام سے کھاؤ
اتنی جلدی کیا ھے
صبا بیگم نے حور کو ٹوکا
ماما
آ پ کو نہیں پتہ سر حفیظ کتنا ڈانٹتے ھیں ایک تو فرسٹ لیکچر بھی انھی کا ھونا تھا
اوکے ڈن
اب میں چلتی ھوں
بابا آ جائیں باھر
حور ٹیبل سے اٹھتی ھوئی بولی
ارے ناشتہ تو کرنے دو اپنے بابا کو
صبا بیگم نے حور کو گھورتے ہوئے کہا
ھاں تو کر لیں نا
واپس آ کر
جلدی چلیں بابا
حور نے مزمل صاحب کے ھاتھ کو کھنچا تو وہ ٹیبل سے مسکرا کر اٹھ گئے
آ پ کو نہیں پتہ سر حفیظ کا
توبہ توبہ
جلاد ھیں بالکل
حور نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا جبکہ مزمل صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا اور گاڑی سٹارٹ کر دی
مزمل صاحب اور صبا بیگم کے شادی کے کافی عرصے بعد ان کو بہت ترس کر ایک بیٹی ملی تھی
نیلی آنکھوں والی سرخ وسفید پیاری سی جس کا نام انھوں نے حور رکھ دیا تھا
کیونکہ حور ان کی اکلوتی بیٹی تھی اس لئے وہ اس کی ہر بات آ نکھیں بند کر کے مانتے تھے چاھے وہ سہی ھو یا غلط
ان کے اسی لاڈ پیار نے حور کو تھوڑا سا بد تمیز اور بے باک بھی بنا دیا تھا لیکن یہ بات مزمل صاحب اور صبا بیگم کو کون سمجھائے کہ محبت اپنی جگہ لیکن اولاد کی تربیت بہت اچھی کرنی چاہیے تاکہ بعد میں انھیں کوئی نقصان نہ ھو
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ھیلو
احمد نے کال ریسیو کر کے کہا
یار تو سو رھا ھے
ھاں وہ صبح اٹھا تھا لیکن پھر نماز پڑھ کر لیٹا تو پتہ نہیں کب آ نکھ لگ گئی
تو بتا سب خیریت تو ہے
احمد بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھا اور سگریٹ سلگائی
نہیں یار
تجھے یاد ھے
میں نے تجھے بتایا تھا کہ ایک لیکچرار ھے جو پتہ نہیں کون سی ضد کی وجہ سے عثمان کو ہر بات میں نیچا دیکھاتا ہے
اور آ ج تو اس نے حد ہی کر دی یار
عثمان پر چوری کا الزام لگا کر اسے یونی سے نکال دیا
یار تو تو جانتا ہے کہ عثمان ایسا نہیں ہے اس کے فیوچر کا سوال ھے جو کہ وہ حفیظ ختم کرنا چاہتا ہے
پلیز یار تو کچھ کر
عثامہ نے پریشانی سے کہا
تو فکر مت کر میں آ رھا ھوں
اب اس حفیظ کو میں ہی ڈیل کروں گا اپنے سٹائل میں
احمد نے کہ کر کال کاٹی اور اٹھ کر تیار ھونے لگا
رانا اعجاز احمد کے دو ہی بچے تھے فضا رانا
جو کہ احمد سے پانچ سال بڑی تھی اور شادی شدہ تھی مگر پھر بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ احمد کے ساتھ رہتی تھی
اس کے بعد تھا رانا احمد اعجاز
اونچا لمبا سمارٹ سا خوبصورت اور پر کشش جو کہ اپنی فیملی اور دوستوں کے لئے جان تک دینے والا
جس کی وجہ سے اب تک بہت نقصان بھی اٹھایا تھا کیونکہ وہ ہر کسی کے ساتھ مخلص ھو جاتا تھا جبکہ لوگ اسے اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتے تھے
اور اب بھی عثامہ اس کا دوست اسے اپنے کام کے لئے بلا رھا تھا
اور احمد نہ جائے ایسا ھو سکتا ھے بھلا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
او ھو
آ ج تو میڈم آ پ بھی لیٹ ھیں
حور نے صلہ کو دیکھ کر کہا جو کہ ابھی ابھی حور کے ساتھ یونی میں داخل ھو رہی تھی
ھاں وہ بھائی نے لیٹ کروا دیا
اچھا ٹھیک ہے لیکن اب تو چلو ورنہ پکا آ ج تو بڑی انسلٹ ھونی ھے
حور تقریباً بھاگتے ہوئے بولی جبکہ صلہ بھی اس کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی
یہ آ واز کیسی ہے
جیسے ہی وہ دونوں اپنی کلاس کے پاس پہنچیں انھیں کچھ لڑائی جھگڑے کی آوازیں آ رہی تھیں
صلہ نے حور کو دیکھ کر کہا
پتہ نہیں شاید کسی کی کلاس لگ رہی ھو گئی
لیکن تم فکر مت کرو کچھ دیر میں ہم دونوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ھونے والا ھے
حور جل کر بولی اور کلاس کا دروازہ کھول کر ڈرتے ڈرتے اندر قدم رکھا لیکن اگلے ہی لمحے حور سرخ چہرے کے ساتھ آ گے بڑھی اور احمد کے ھاتھ کو جو کہ سر حفیظ کے کالر پر تھا اسے ہٹایا اور احمد کو ایک زور کا دھکا دیا
یہ کیا بد تمیزی ھے
بڑے ھیں وہ تم سے اس بات کا ہی خیال کر لو
خبر دار اگر تم نے انھیں ھاتھ لگانے کی جرآت بھی کی تو
جاؤ یہاں سے ورنہ میں ابھی پولیس کو کال کر رہی ھوں
حور نان سٹاپ بولے جا رہی تھی جبکہ احمد بہت غور سے اس نیلی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھ تھا تھا
نیلی آنکھیں ہمیشہ سے احمد کی کمزوری تھیں اور یہ بات اس نے سوچی ھوئی تھی کہ وہ نیلی آنکھوں والی لڑکی جس سے اسے فرسٹ سایٹ لو ھو جائے اسی سے شادی کرے گا
او ھیلو
تم جاتے ھو یا میں پولیس کو کال کروں
احمد حور کا مکمل جائزہ لینے میں مصروف تھا کہ اچانک حور کی آ واز پر چونکا اور ایک آخری نظر حور پر ڈال کر باہر نکل گیا
جبکہ احمد کے باہر نکلتے ہی سب سٹوڈنٹس نے تالیاں بجانی شروع کر دیں
تو حور تو کچھ زیادہ ہی خوش ھو گئی اور دل ہی دل میں خود کو داد دینے لگی
اس بات سے انجان کہ آ گے کیا ھونے والا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد جب سے گھر آ یا تھا اپنے کمرے میں لیٹا حور کے بارے میں ہی سوچے جا رھا تھا ایسا ہی تو ھوتا ھے محبت میں انسان سارا دن رات بس صرف ایک شخص کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ھے نہ تو اسے دیکھ دیکھ کر تھکتا ھے اور نہ سوچ کر
ایسا ہی احمد کے ساتھ ھو رھا تھا اسے بھی تو حور سے پہلی نظر میں ہی محبت ھو گئ تھی
حور کا چہرہ بار بار اس کی آ نکھوں کے سامنے آ رھا تھا
اس کا بولنا اس کا غصے سے دیکھنا اور سب سے بڑھ کر اس کی نیلی آ نکھیں
ھاے
کون ھو تم اس بات کا پتہ تو میں کل لگاؤں گا
سو مائے پرنسس
سی یو ٹومارو
احمد نے مسکرا کر کہا اور سونے کی کوشش کرنے لگا
جبکہ حور ان سب باتوں سے انجان خود کو پتہ نہیں کیا توپ چیز سمجھنے لگی تھی کہ آ ج اس نے بقول حور کے ایک گنڈے کو یونی سے بھگا دیا
جبکہ وہاں موجود کسی بھی سٹوڈینٹ میں اتنی ہمت نہیں تھی
اف حور
کتنی بہادر ھو تم
اب دیکھنا ساری یونی تمہاری کیسے عزت کرتی ھے اور سر حفیظوہ تو میرے فین ہی ھو گئے ھوں گے
حور نے اپنے بالوں کو جھٹکا اور نایٹ ڈریس کے کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح حور یونی کے گیٹ سے اندر جانے لگی تو اسے احمد گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا نظر آیا
جب احمد نے حور کو خود کو دیکھتے پایا تو وہ کھل کر مسکرانے لگا جبکہ حور احمد کو گھور کر یونی کے اندر چلی گئی
حور غصے میں کلاس میں داخل ھو کر صلہ کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی تو صلہ نے غور سے حور کو دیکھا اور پھر بولی
کیا ھوا تمہیں منہ کیوں سجھایا ھوا ھے
میں کیوںاپنا خون جلا رہی ھوں اس گنڈے کے بارے میں سوچ کر
بھاڑ میں جائے
لیکن دوبارہ اگر مجھے اس نے دیکھا بھی تو آ نکھیں نکال دوں گی اس کی
حور نے دل میں سوچا اور بولی تو صرف اتنا کہ
کچھ نہیں
حور خود کو ریلیکس کرکے بولی
اچھا حور تمہیں پتہ ہے کہ کل وہ لڑکا جس نے سر حفیظ کے ساتھ بدتمیزی کی تھی
صلہ نے حور کو دیکھتے ہوئے کہا
ھاں
کیوں کیا ھوا
حور منہ بنا کر بولی
وہ ہمارے کلاس فیلو عثمان کے بھائی کا دوست تھا اور پتہ ھے کہ سر حفیظ نے عثمان کو یونی سے نکالنے کی کوشش کی چوری کا الزام لگا کر کیونکہ عثمان ردا سے محبت کرتا ھے اور ردا بھی اسے پسند کرتی ہے
مگر سر حفیظ یہ برداشت نہیں کر سکے کیونکہ عثمان غریب جو ھے اگر ان کے سٹیٹس کا ھوتا تو سر حفیظ کو بھلا کیا اعتراض ھونا تھا
اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کروانے میں
مگر سر حفیظ کا تو تمہیں پتہ ہی ھے کہ کیسی سوچ ھے ان کی
صلہ نے ایک ہی سانس میں سب کچھ حور کو بتا دیا
اور تمہیں یہ سب کچھ کیسے پتہ چلا
حور نے ترچھی آ نکھوں سے صلہ کو دیکھا
وہ
وہ علی نے بتایا ھے وہ عثمان کا دوست جو ھے
صلہ شرما کر بولی جبکہ حور نے منہ بنا لیا
علی صلہ کا منگیتر تھا مگر حور کو اس سے خوامخواہ کی چڑ تھی
چلو ایک طرح سے کل اس لڑکے نے ٹھیک ہی کیا مطلب کہ عثمان کا فیوچر تباہ ھونے سے بچ گیا
صلہ مسکرا کر بولی
ھاں ان گنڈوں کو اور کام ہی کیا ھوتا ھے
بلکہ انھیں تو موقع چاھیے ھوتا ھے لڑائی جھگڑا کرنے کا
خیر مجھے کیا
ابھی تک سر حفیظ تو آ ے نہیں تو چلو باہر چلتے ھیں
حور کھڑے ھوتے ھوئے بولی تو صلہ بھی ساتھ اٹھ کر چلنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔