ماہین اس وقت کینٹین میں بھیٹی تھی....
سجل تم ہی تو میری پہلی اور آخری دوست تھی تم ہی چلی گئی میں کیا کرو ت،ہارے بغیر بہت اداس ہو یار میں اپنی باتیں کس سے شیر کرو گی پہلے ماما تھی پھر تم آئی اور اب تم بھی چلی گئی....ماہین سوچھوں میں ہی سجل سے مخاتب تھی....
زہے زصیب آج اتنے دن بعد تم جنگلی شیرنی....حیدر ماہین کو دیکھ کر بولا...
میں اتنے دنوں بعد نہیں تم یونی میں نہیں تھے اتنے دن....ماہین حیدر کو دیکھ کر بولی اور آخری بات پر زبان داتوں میں دبا لی....
اوہو مس کر رہی تھی مجھے جبھی مجھے اتنی ہچکیاں آرہی تھی.....حیدر ماہین کی بات پر شرارتی انداز میں بولا....
تمہیں کوئی مس کرے گا سوچ ہے تمہاری میں تو شکر منارہی تھی کہ یونی میں انتے دن سکون تھا.....ماہین اپنے جوں میں واپس آتے ہوئے بولی...
ہاہاہاہا خیر تمہاری دوست نظر نہیں آرہی کہاں ہے وہ جس کی وجہ سے دشمنی شروع ہوئی ہے....حیدر نظریں ادھر ادھُر ڈراتے ہوئے بولا....
تم سے مطلب.....ماہین کچھ دیر خاموش ہونے کہ بات بولی....
وہ وہ میں سوچ رہا تھا کیوں نہ دوستی کرلے معافی مانگ لو مجھ سے اور یہ دشمنی ختم کرو.....حیدر سنجدگی سے بولا....
ہاہاہاہا ویری فنی معافی اور تم سے مر کر بھی نہیں مانگو گی سمجھے.....ماہین غصے سے بولی...
ٹھیک ہے آگے کی زمہ دار تم خدُ ہو میں نہ آج آخری موقعہ دیہ تھا لیکن مزید نہیں.....حیدر بھی تیش سے بولا....
جاؤ جاؤ.....ماہین حیدر کو بولتے ہوئے اپنا بیگ لیکر کینٹین سے نکل گئی....
اور حیدر کی نظروں نے ماہین کے وجود کا دور تک پیچھا کیا اور فون نگال کر کسی کو کچھ ٹائپ کرنے لگا....
___________________________
ہیلو کیا خبر ہے کیپٹن....
میجر کام ہوگیا اب نے جیسے بولا تھا ویسے ہی فیصو کے دو گدام میں آگ لگا دی ہے بس اُس کا ٹھکانہ نہیں پتہ چل رہا لیکن امید ہے جلدی پتہ چل جائے گا....کیپٹن نے خوش گوار لہجے میں بولا....
گڈ کیپٹن میں اُس پر کام کر رہا ہو فیصو کا تھکانہ پتہ چل جائے گا جلد ہی میں ابھی یہ خبر کرنل کو دیتا ہو اللہ حافظ.....اب بس اپنی موت کے دن گننہ شروع کردو فیصو تم میرے ہاتھوں نہیں بچ سکتے کیوں کہ میجر جب کوئی مشن شروع کرتا ہے تو یہ سوچ کر کرتا ہو کہ یا تو دشمن بچہ گا یا میں.....میجر اپنے خیالوں میں ہی فیصو سے مخاطب تھا....اور پھر کرنل عمران کو کال کرنے لگا...
___________________________
الو کہ پٹھوں تم لوگ کیا کر رہے تھے جو گودام میں آگ لگ گئی.....فیصو تیش اور غصے سے غضب ناک ہوتے ہوئے چلایا...
صاحب جی صبح پتہ نہیں کیسے آنکھ لگ گئی اس کے بعد جب آگ لگنے سے دوھہ اٹھا تو پتہ چلہ کہ گودام میں آگ لگی ہے.....
تم لوگ رات میں اتنی چراتے کیوں ہو جو نشہ میں مرے رہتے ہو اب دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے سمجھے دفہ ہوجاؤ یہاں سے......فیصو چلایا....
آخر یہ کر کون سکتا ہے کون ایسا دشمن آگیا تو فیصو سے مقابلہ کرے اتنا مال جل گیا اب پھر سے ڈرگز کے آڈر دہیا پڑے گا سب پیجھے بھی پڑھے ہیں......فیصو سوچ سوچ کر پریشان ہورہا تھا...
___________________________
باسل جیسے بولا ہے ویسے ہی ہونا چاہیئے سمجھے.....حیدر باسل کو دیکھتے ہوئے سنجدھے لہجے میں بولا....
ہاں جانی سمجھ گیا بلکل ویسے ہی ہوگا توُ فکر نہ کر.....باسل حیدر کے شانے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا....
گڈ ایسا ہی ہونا چاہیئے اور حرم اور ایمن کو فون کر کے بولوں کے میرے گھر پر آجائے رضا کو تم اپنے ساتھ لے جا جو کام بولا ہے وہ کر جلدی نکل میں شام تک گھر آتا ہو تو سب ویسا ہی کر جیسا بولا ہے.....حیدر باسل کو حکمانہ انداز میں بولا...
جو حکم آپ کا بادشاہ سلامت....باسل اٹھتے ہوئے بولا...
کمینے....حیدر باسل کے انداز پر مسکرا دیا....
___________________________
ماہین یونی سے نکل کر روڈ تک جارہی تھی روڈ یونی سے ٹھوڑا دور تھا اس وقت لوگ بھی موجود نہیں تھے اندار ہی اندار ماہین خوف زدہ ہورہی تھی تبھی ایک گاڑی آکر ماہین کے پاس رکی ماہین دیکھنے ہی والی تھی کہ کون ہیں اتنے میں پیچے سے ماہین کے منہ پر کسی نے رومال رکھ دیا جس سے ماہین فوری ہی بہوش ہوگئی اور اُس کو گاڑی میں ڈال کر گاڑی فول اسپیڈ پر روا تھی....