سارے دروازے کھل چکے تھے۔۔۔
مگر۔۔۔
ساتواں در کھلنا باقی تھا۔۔۔
آج کی رات نہ سونا یارو
آج ہم ساتواں در کھولیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1936 کا سال تھا، جب برطانوی سائنسدانوں نارمن پائری (Norman Pirie) اور فریڈ باڈن (Fred Bawden) نے دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ وائرس میں پروٹین سو فیصد کی بجائے 95 فیصد ہوتی ہے اور باقی 5 فیصد ایک پراسرار دھاگہ نما مالیکیول ہوتا ہے جو نیوکلیئک ایسڈ کہلاتا ہے۔
یہ وہی نیوکلیئک ایسڈ ہے جس سے جینز اور کروموسومز بنتے ہیں۔ مگر فی الحال ابھی جینز دریافت نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی کروموسوم کا ڈبل ہیلکس ماڈل دریافت ہو پایا تھا۔ اسکے بارے میں سائنسدان بہت کم جانتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوکلیئک ایسڈ کی دو اقسام ہیں، پہلی DNA یا ڈی آکسی رائبو نیوکلیئک ایسڈ اور دوسری RNA یا رائبو نیوکلیئک ایسڈ۔ وائرس میں دونوں اقسام ممکن ہیں۔ مگر ایک وائرس میں ایک ہی مالیکیول ہوتا ہے۔ صرف ڈی این اے یا صرف آر این اے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وہ دہائی تھی جس میں خردبین کی طاقت کو کئی گنا بڑھا لیا گیا تھا۔ الیکٹران مائکروسکوپ ایجاد ہو کر منظرِ عام پر آ چکی تھی۔ اس کی مدد سے 1939 میں وائرس کو براہِ راست دیکھ لیا گیا۔ یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ نمک کے ایک چھوٹے سے ذرے جتنی جگہ پر لاکھوں، کروڑوں وائرس سماسکتے ہیں۔
1950 تک وائرس کی بہت سی خصوصیات منظرِ عام پر آگئیں، مگر اب بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ کیوں کچھ وائرس، انسان کیلئے بالکل بے ضرر ہوتے ہیں اور کچھ بہت خطرناک۔
آج ہم جانتے ہیں کہ وائرس بہت سی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں، مثلاً؛
1۔ عام نزلہ زکام
2۔ پولیو
3۔ ایڈز
4۔ ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی وغیرہ
5۔ خسرہ
6۔ چکن پاکس
7۔ ممپس یا کن پیڑے
8۔ ڈینگی
9۔ چکن گنیا
10۔ ریبیز (کتے کا کاٹا)
11۔ انفلوئنزا ۔۔۔۔۔ اور اب
12۔ کورونا
ان تمام بیماریوں میں زکام سب سے عام بیماری ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسان دعویٰ کر سکے کہ اسے کبھی زکام نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زکام Common Cold
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم یونانی طبیب، بقراط کا خیال تھا کہ زکام جسمانی رطوبتوں میں کسی قسم کے توازن کے بگڑنے سے ہوتا ہے۔
اگلے دو ہزار سال تک انسانی علم اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔
1914 میں جرمن مائکرو بائیولوجسٹ والتھر کروس (Walther Cruse) نے اپنے ساتھیوں اور کچھ طلباء پر چند سادہ تجربات کر کے ثابت کیا کہ یہ بیماری کسی نامعلوم جراثیم سے ہوتی ہے۔
1927 میں امریکی سائنسدان الفونسے نے ثابت کر دیا کہ یہ وائرس سے ہونے والی بیماری ہے۔ مگر کونسے وائرس؟ یہ اب بھی معلوم نہیں تھا۔
مزید تین دہائیاں صرف یہ جاننے میں لگیں کہ یہ وائرس دراصل رائنووائرس (Rhinovirus) ہے۔
نزلہ زکام کے مریض اپنے ہاتھوں سے ناک کو چھوتے ہیں، جس سے یہ وائرس ان کے ہاتھوں پہ لگ جاتا ہے۔ پھر انہی ہاتھوں سے دروازہ کھولتے ہیں، اشیاء پکڑتے ہیں اور دوسروں سے مصافحہ کرتے ہیں یا تین فٹ سے کم فاصلے پر چھینک مارتے ہیں، جس سے یہ وائرس دوسروں کے جسم میں منتقل ہوجاتا ہے، خصوصاً ناک کے ذریعے۔ (اسی طرح کرونا وائرس بھی منتقل ہوتا ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر وائرس کی منتقلی کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے۔ مثلاً
ریبیز وائرس، کتے کے کاٹنے سے اس کی لعاب کے ساتھ انسان میں منتقل ہوتا ہے۔
ایڈز کا وائرس انتقالِ خون یا آلودہ سرنج یا جنسی تعلقات سے منتقل ہو جاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس اے کی منتقلی کھانے پینے کی اشیاء اور گندے ہاتھوں سے کھانا پکانے یا کھانے سے ہوتی ہے۔
ہیپاٹائیٹس بی اور سی بھی انتقالِ خون یا آلودہ سرنجز، ریزر یا جنسی تعلقات سے ہوتے ہیں۔
ڈینگی اور چکن گنیا کے امراض، ایک خاص قسم کے مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتے ہیں۔
پولیو بھی چھوٹے بچوں میں کھانے پینے کی آلودہ اشیاء سے ہوتا ہے۔