سائنسدانوں نے جب بھی، جہاں بھی وائرس کا پیچھا کیا، انہیں شاذ ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
چاہے وہ زمین کی گہرائی ہو۔۔۔۔
یا صحارا کی ریت کے بکھرے ہوئے ذرات۔۔۔۔
یا زیرِ زمین پوشیدہ جھیلیں۔۔۔۔
انہوں نے نہایت آسانی اور برق رفتاری سے وائرس دریافت کئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2009 کا ہی سال تھا، کرٹس سٹل کی طرح کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر، ڈینا وِلنر (Dana Willner) نے غیر متوقع ٹھکانوں پر وائرس کی تلاش کی مہم شروع کی۔
اب کے اس خاتون سائنسدان نے انسانی پھیپھڑوں کو مرکزِ نگاہ بنایا۔
اپنی ریسرچ کے دوران اس نے بہت سے صحتمند اور سسٹک فائبروسس (systic fibrosis) کی بیماری میں مبتلا افراد کے بلغم (Sputum) کے نمونے حاصل کئے۔ (واضح رہے کہ بلغم ہر صحتمند انسان میں بھی ہر وقت پیدا ہوتا رہتا ہے جو غیر محسوس طریقے سے اس کے حلق سے معدے میں جاتا رہتا ہے)۔
اسے ان نمونوں سے ڈی این اے کے لاکھوں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے۔ ان میں سے اکثر انسانی ڈی این اے سے تعلق رکھتے تھے مگر بہت سے وائرس کے ڈی این اے بھی ہاتھ لگے۔
اس سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ صحتمند انسانی پھیپھڑے مکمل طور پہ sterile یعنی جراثیموں سے پاک ہوتے ہیں۔ مگر یہ نمونے اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔ ان میں اوسطاً وائرس کی 174 انواع دریافت ہوئیں اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اکثریت یعنی نوے فیصد وائرس بالکل نئے تھے اور پہلی بار دریافت ہوئے تھے۔
ان دریافتوں نے سائنسدانوں کو وائرس کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال سے انسان وائرس کو صرف موت اور بیماری کے حوالے سے جانتا آیا ہے۔
قدیم رومن سلطنت میں وائرس کا لفظ سانپ کے زہر کے معنوں میں لیا جاتا تھا۔
لاطینی زبان میں اس کا مطلب "زہر" ہے۔ اور قدیم دور میں زیادہ تر ایسی بیماریوں کو کسی قسم کے زہر کا ہی نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔
گذشتہ چند صدیوں میں وائرس کے مفہوم میں یہ تبدیلی آئی کہ اس سے ایسا مائع مراد لیا جاتا تھا جو اچھوت کی بیماریوں کا باعث بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرعی آفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ وائرس اپنے موجودہ جدید مفہوم میں پہلی بار انیسویں صدی کے اوخر میں استعمال ہوا جب ہالینڈ کی زراعت میں ایک آفت نازل ہوئی۔ اس آفت نے دیکھتے ہی دیکھتے کھیت کے کھیت اجاڑ دئیے۔
اس آفت کا بڑا حملہ تمباکو کی فصل پر ہوا۔ اس کے پتوں پر چھوٹے چھوٹے دھبے نمودار ہوتے اور پودے کی افزائش رک جاتی۔ اس بیماری کو ٹوبیکو موزائک (Tobacco Mosaic) کا نام دیا گیا۔
آخر تنگ آکر 1879 میں ہالینڈ کے کسان، ایڈولف میئر (Adolf Mayr) کے پاس مدد کے لئے پہنچ گئے۔ ایڈولف میئر ایک زرعی کیمیادان تھا۔ اس نے بیماری کی وجوہات پر کام کرنے کی حامی بھر لی۔
سب سے پہلے اس نے ماحول کا جائزہ لیا، پھر درجہ حرارت، مٹی کی کیمیائی ترکیب اور سورج کی روشنی کا بھی معائنہ کیا۔
اسے صحتمند اور بیمار پودوں کے ماحول اور دیگر عوامل میں کوئی فرق نہ ملا۔
پھر اس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے ان پودوں پر فنجائی کا حملہ ہوا ہو مگر اسے کوئی فنگس بھی نہ مل سکا۔
آخر اس نے یہ کِیا کہ ایک بیمار پودے کا رس نکال کر اسے صحتمند پودے میں انجیکٹ کیا۔ ایسا کرنے سے پودا بیمار ہو گیا۔ اس تجربے سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بیمار پودے میں کسی قسم کے خردبینی جرثومے ہیں جو بیماری پھیلا رہے ہیں۔
چنانچہ اس نے ان جرثوموں کو کلچر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح کلچر کے نمونوں میں بیکٹیریا کی بہت سی کالونیاں پیدا ہوئیں۔ ان میں سے بعض تو اتنی بڑی تھیں کہ ننگی آنکھ سے بھی دکھائی دے جاتی تھیں۔ تاہم جب میئر نے ان بیکٹیریا کو صحتمند پودے پر منتقل کیا تو اس پودے کو کچھ بھی نہ ہوا۔ کوئی بیماری پیدا نہ ہوئی۔
1886 میں مایوس ہو کر میئر نے اپنی ریسرچ روک دی اور یوں وائرس کا وجود منظرِ عام پر نہ آ سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریافتوں کا سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1892 میں روسی سائنسدان، ڈیمٹری آئیوونوسکی (Dmitry Ivanowski) نے ثابت کیا کہ یہ بیماری تمام بیکٹیریا کو مکمل فلٹر کرنے کے باوجود پھیل جاتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ بیکٹیریا سے بھی ننھے کوئی جراثیم ہیں جو پودوں کی اس بیماری کے ذمہ دار ہیں۔
چند برس بعد ہالینڈ کے ہی ایک اور سائنسدان مارٹینس بیجیرِنک (Martinus Beijerinck) نے اس ریسرچ کو وہیں سے شروع کیا جہاں سے میئر نے چھوڑا تھا۔ اس کا بھی یہی خیال تھا کہ تمباکو کی اس موزائک بیماری کے ذمہ دار بیکٹیریا نہیں ہیں بلکہ کوئی اور شے ہے۔ کوئی ایسی شے جو بیکٹیریا سے بھی کئی گنا چھوٹی ہے۔
اس نے ایک بیمار پودا لیا اور اسے اچھی طرح کچل کچل کر باریک پیسٹ بنا لیا۔ پھر اسے ایک ایسے باریک فلٹر سے گزارا جس میں سے نہ تو پودے کے خلئے گزر سکیں اور نہ ہی بیکٹیریا۔
اس فلٹر سے صاف شفاف محلول حاصل ہوا۔ جب اس نے اس محلول کو صحتمند پودے میں انجیکٹ کیا تو وہ جلد ہی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔
مارٹینس یہیں پر ہی نہیں رکا بلکہ اس نے نئے بیمار پودوں کا رس نکال کر جب مزید صحتمند پودوں میں انجیکٹ کیا تو سب پودے بیماری میں مبتلا ہو گئے۔
ان سب تجربات سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ بیماری کسی ایسے خرد نامیوں (microbes) کی وجہ سے ہو رہی ہے جو بیکٹیریا سے بھی بہت بہت چھوٹے ہیں اور یہ اپنے آپ کو تقسیم در تقسیم بھی کر سکتے ہیں۔
1898 میں مارٹینس نے اسے "زندہ اچھوت سیال" (contagious living fluid) کا نام دیا۔ اس کے مطابق اس سیال میں جو کچھ بھی ہے وہ نہ صرف بہت چھوٹی شے ہے بلکہ بہت سخت جان بھی ہے۔ اتنی سخت جان کہ اس پر نہ تو الکحل کا اثر ہوتا ہے اور نہ کھولتے ہوئے پانی کا۔
مارٹینس نے بیمار پودے کے رس سے ایک فلٹر پیپر بھگو لیا، پھر اسے اچھی طرح خشک ہونے دیا۔ تین مہینے بعد وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب اس نے اس خشک فلٹر پیپر کو پانی میں ڈال کر اسے صحتمند پودوں میں منتقل کیا تو تمام پودے بیمار ہو گئے۔
مارٹینس نے ان عجیب و غریب خرد بینی جانداروں کے لئے وائرس کا لفظ استعمال کیا اور ساتھ ہی یہ تصریح بھی کی کہ نہ تو یہ حیوانات ہیں، نہ نباتات اور نہ ہی بیکٹیریا یا فنجائی ہیں۔ یہ تو کوئی اور ہی مخلوق ہے۔ مگر یہ کیا ہے؟ وہ پورے وثوق سے کچھ نہ کہہ سکا۔
اگلے چند برسوں میں یہ حقیقت دریافت کر لی گئی کہ مارٹینس کے دریافت شدہ وائرسز اکیلے نہیں، ان کی اور بھی ان گنت اقسام ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کئی دیگر بیماری پھیلانے والے وائرسز کی لیبارٹری میں افزائش کے کامیاب تجربے بھی کئے گئے۔ مگر ان تمام تجربات میں کسی طرح کے غذائی مادوں کی بجائے دیگر جانداروں کے خلیوں کا استعمال کیا گیا۔
ان سب تجربات کے باوجود اب بھی سائنسدان واضح نہیں تھے کہ آخر یہ وائرس ہیں کیا؟ یہ کنفیوژن اتنی بڑھی کہ انہیں یہ بھی یقین نہیں تھا کہ یہ زندہ مخلوق ہیں یا کوئی بے جان شے۔
1923 میں برطانوی وائرولوجسٹ، فریڈرک ٹوارٹ (Fredrick Twort) نے یہاں تک اعلان کر دیا کہ وائرس کی فطرت کو جاننا نا ممکن ہے۔
یہ کنفیوژن کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔ 1935 میں ایک سائنسدان وینڈیل سٹینلے (Wendell Stanley) نے پھر ٹوبیکو موزائک وائرس لئے اور نہ صرف یہ دریافت کر لیا کہ یہ پروٹین پر مشتمل ہیں بلکہ عام نمک کی طرح ان کے کرسٹلز بھی بنا کر محفوظ کر لئے۔
یہ پہلی بار تھا کہ انسان ننگی آنکھ سے وائرس کو دیکھ رہا تھا۔
کئی ماہ بعد جب ان کرسٹلز کو پانی میں گھولا گیا تو یہ وائرس گھل کے غائب ہو گئے مگر ان کی بیماری پھیلانے کی صلاحیت قائم رہی۔ اس ریسرچ کے شائع ہونے پر نیویارک ٹائمز نے یہ سرخی لگائی۔
"زندگی اور موت کا قدیم فرق اپنا جواز کھوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈینا وِلنر کی ریسرچ دیکھئے۔