زمین کھودیں اور کھودتے ہی چلے جائیں۔
چٹانوں کی گہرائی میں سرنگ بنائیں اور اسکی تاریکی میں نیچے ہی نیچے اترتے چلے جائیں۔۔۔۔۔
تصور تو کیجئے ذرا۔۔۔ کیسا لگے گا آپ کو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکسیکو کے خوبصورت شہر چیہواوا (Chihuahua) سے لگ بھگ اسی کلومیٹر دور چٹیل پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے، جو سیئرا ڈی نیکا (Sierra de Naica) کے نام سے مشہور ہے۔
سن 2000 میں یہاں کھدائی کی جارہی تھی جو قدرتی غاروں کے سلسلے سے گزرتی ہوئی پہاڑوں کے نیچے ہی نیچے اترتی چلی جا رہی تھی۔ بہت سے کان کن اس مہم میں شریک تھے۔
جب کھدائی کرتے کرتے وہ تقریباً ایک ہزار فٹ نیچے پہنچے تو اچانک انہیں یوں لگا جیسے وہ کسی نئی دنیا میں آگئے ہوں۔ ان کے چاروں طرف سفید نیم شفاف جپسم کے کرسٹل کی دیواروں، فرش اور چھت کا بنا ہوا ایک ایسا ہال نما غار تھا جس کی لمبائی نوے فیٹ اور چوڑائی تیس فیٹ تھی۔
اس منظر نے ان پر دبدبہ طاری کر دیا تھا۔ یہ اتنے عظیم الشان کرسٹلز تھے کہ ان کے ایک ایک ٹکڑے کی لمبائی 36 فٹ اور وزن پچاس ہزار کلوگرام تک تھا۔
اس غار کی دریافت کے بعد صرف چند سائنسدانوں کو ہی اس تک رسائی دی گئی۔
سپین کی یونیورسٹی آف گرینیڈا کے جیولوجسٹ، جوآن مینوئیل گراسیا روئز (Juan Manuel Gracia Ruiz) ان خوش نصیب سائنسدانوں میں سے تھے جنہیں اس غار تک رسائی دی گئی۔ اس نے ریسرچ کر کے اس غار کے کرسٹلز کی عمر کا اندازہ لگایا۔ یہ کرسٹلز دو کروڑ ساٹھ لاکھ سال قدیم تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب آتش فشاؤں نے ان پہاڑوں کی بنیاد رکھی۔ زیرِ زمین غار وجود میں آئے اور ان میں منرلز سے بھرپور گرم پانی بھر گیا۔ آتش فشانی لاوا کی وجہ سے اس پانی کا درجہ حرارت 58 ڈگری سینٹی گریڈ پر قائم رہا۔ یہ درجہ حرارت منرلز کے کرسٹل میں تبدیل ہونے کے لئے مثالی ہوتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں سال تک درجہ حرارت کے ایک سطح پر رہنے کی وجہ سے کرسٹلز ناقابلِ یقین جسامت اختیار کرتے چلے گئے۔
2009 میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ایک اور سائنسدان کرٹس سٹل Curtis Suttle نے اس کرسٹل غار کا دورہ کیا۔ کرٹس میرین بائیولوجی اور وائرولوجی کا ماہر تھا۔
اس نے اس غار کے تالاب میں موجود پانی کے نمونے لئے اور ان کی جانچ کے لئے یونیورسٹی لے آیا۔
کرٹس کو نہ تو چٹانوں سے دلچسپی تھی، نہ کرسٹلز سے اور نہ ہی منرلز سے۔ اسے تو بس ایک ہی چیز سے دلچسپی تھی اور وہ شے تھی وائرس۔ کوئی عام سائنسدان سنے تو اسے شاید بیوقوف سمجھے کہ ایک ایسی غار جو اپنی تشکیل سے لے کر لاکھوں سال تک حیاتیاتی دنیا سے کٹی رہی، وہاں کسی جاندار شے کا کیا کام۔ مگر کرٹس سٹل کو نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ ان نمونوں میں کوئی بہت ہی حیرت انگیز حقیقت چھپی ہوئی ہے۔
یونیورسٹی کی لیب میں پہنچ کر اس نے پانی کے ان نمونوں کو ایک طاقتور خردبین کے ذریعے دیکھا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ کیا ہی ناقابلِ یقین نظارہ تھا جب اس نے پانی کے ایک قطرے میں وائرسز کے ریلے کے ریلے دیکھے۔۔۔۔ اس قدر کثیر تعداد۔۔۔۔ حیرت انگیز۔۔۔۔ بہت حیران کن۔۔۔۔۔
صرف ایک قطرے میں بیس کروڑ وائرس۔
یہ وائرس کہاں سے آئے؟ کیسے تقسیم در تقسیم ہوتے رہے اور نمو پاتے رہے؟ اور اتنے طویل عرصے بعد بھی کیسے سلامت ہیں؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات اٹھتے چلے گئے۔ یقیناً یہ وائرس گردوپیش کے سمندر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی افزائش بھی کسی نہ کسی جاندار پر ضرور ہوئی ہو گی۔
سن 2013 تک اس غار سے مزید منفرد مائکروبز (microbes) کی دریافت ہوئی جن میں زیادہ تر ایسے بیکٹیریا سے تعلق رکھتے تھے جو پہلی بار دریافت ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ بیکٹیریا وائرس کے لئے اچھے میزبان رہے ہوں۔ اور انہی کی بدولت یہ اتنی کثیر تعداد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ بہت سے امکانات ہو سکتے ہیں، مگر ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ ہمیں وائرس کے بارے میں بہت کچھ ابھی جاننا ہے۔ بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہے۔