الطائی پہاڑوں میں عثمان کی جائے پیدائش سے کوئی ڈھائی سو میل کے فاصلے پر ایک شہر مناس ہے جہاں مقامی قازق خانہ بدوش اور ترکی اور دوسرے کسان خرید و فروخت کے لیے جایا کرتے ہیں۔ خانہ جنگی کی زد میں آنے سے پہلے اس کی آبادی چالیس ہزار تھی۔ سوویت سرحد جو آگے جا کر ٹھیک اس کے عقب میں ترشول کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جو سڑک چلتی ہے، اس پر صوبے کا صدر مقام اُرمچی ہے، اس سے پچاس میل مغرب کی جانب مناس ہے۔
مناس اس صوبے کا صدر مقام بھی ہے جو اسی کے نام پر صوبہ مناس کہلاتا ہے۔ اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو تیئن شان کےعظیم سلسلۂ کوہ سے نکلتا ہے۔ اس سلسلۂ کوہ کے شمال میں شہر مناس واقع ہے۔ یہ دریا بھی مناس کہلاتا ہے، پہاڑوں کی چٹانی بلندیوں سے یہ دریا تیزی سے اچھلتا کودتا اور سینکڑوں برف کے تودوں سے تقویت حاصل کرتا، مناس کے شہر سے صرف چند میل کے فاصلے پر رونما ہوتا ہے اور پھیل کر ایک چوڑی گزرگاہ بنا لیتا ہے۔ اس پر ایک لکڑی کا پل ہے جس کے کم از کم نو در ہیں۔ پہاڑوں میں اس دریا کی گزرگاہ صرف چند میل کی ہے لیکن وہ اتنے ہی فاصلے میں دس ہزار فٹ نیچے اترتا ہے کیونکہ مناس شہر سطح سمندر سے صرف تین ہزار فٹ اونچا ہےاور سات سو فٹ اُرمچی سے نیچا۔ اُرمچی سطح سمندر سے تین ہزار فٹ اُونچا ہے۔ ان دونوں مقاموں کے پیچھے تیئن شان یا کوہ ملکوتی کی سر بفلک چوٹیاں اور اچھوتی برف کی دندانے دار ماہی پشت دیواریں ہیں جو اُرمچی کے جنوب میں بوغدو الہ یا کوہِ رب تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں۔
دریائے مناس اگرچہ اتنا بڑا دریا ہے لیکن وہ سمندر تک نہیں پہنچتا اور دلدلوں اور دور دور تک پھیلے ہوئے سرکنڈوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ یہ سرکنڈے بیس بیس فٹ اونچے ہوتے ہیں اور ان میں جنگلی جانور رہتے ہیں، اگر کوئی شخص ان سرکنڈوں میں پہنچ جائے تو اسے چوکنا رہنا پڑتا ہےکہ کہیں کوئی جنگلی سُور اُس پر نہ جھپٹ پڑے یا بد قسمتی سے کسی ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں کوئی شیرنی اپنے بچوں کو لیے بیٹھی ہو۔ لیکن اس نقصان کی تلافی یوں ہو جاتی ہے کہ یہ سرکنڈے ان لوگوں کو پناہ بھی دیتے ہیں جو قانون کی گرفت سے بچے رہنا چاہتے ہیں، یا اگر کوئی مفرور دستہ اِن میں چھپ رہے تو پلٹ کردشمن پر چھاپہ بھی مار سکتا ہے۔ پچاس سال سے وقتاً فوقتاً ایسا ہوتا بھی چلا آ رہا ہے۔
لیکن فی الحال دریائے مناس کے نچلے حصے سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ اس کے ایک امدادی دریا سے واسطہ ہے، جو قزل ازون کہلاتا ہے۔ یہ دریا پہاڑ کے برف پوش سینے سے نکلنے والے کوئی بارہ چودہ چشموں کے ملنے سے بنتا ہے۔ ان میں سے ہر چشمہ بیس سے تیس فٹ تک چوڑا ہے، مگر چار فٹ سے گہرا کوئی نہیں ہے۔ قزل ازون کے منبعے وہ تین بڑی چوٹیوں کے عظیم تودہ ہائے برف ہیں جو پہلو بہ پہلو بیس ہزار فٹ کی بلندی پر سے شمالی میدان کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔اسی میدان میں مناس ان سے سولہ ہزارفٹ نیچے ہے، اگرچہ ان سے مناس کا فاصلہ صرف پچاس میل ہی ہے۔
قزل ازون میں پانی چونکہ برف کے تودوں میں سے آتا ہے اس لیے عموماً نہایت صاف و شفاف ہوتا ہے لیکن بارشوں کے بعد اس کے امدادی چشمے عجب اشارتی طور پر سرخ ہو جاتے ہیں، یہ سرخی کسی پہاڑی کی معدن ہے اور اسی رنگ کی وجہ سے یہ دریا قزل ازون یا دریائے سرخ کہلاتا ہے۔
دریائے سرخ کی وادی میں اونچی اور میٹھی گھاس کثرت سے پیدا ہوتی ہے، چینیوں کی تاخت سے پہلے قازق خانہ بدوش اپنے ریوڑوں کو یہیں چرایا کرتے تھے۔ گرمیوں میں اس وادی کے اوپری حصے میں چلے جاتے اور جاڑوں میں نچلے حصے میں اتر آتے، بالکل اسی طرح جیسے الطالی کے باشندے کیا کرتے اور یہاں دریائے سرُخ کے کنارے ١٩٠٨ء میں علی بیگ اور ١٩٢٢ء میں حمزہ پیدا ہوا۔ یہ دونوں سردار تھے جو قازق خود مختاری کے لیے بعد کی جہد آزادی میں عثمان بطور کے پہلو بہ پہلو لڑتے رہے۔
علی بیگ کا ابتدائی حصۂ عمر نسبتاً پُرامن گذرا۔ اس کا باپ رحیم بیگ ایک سرخیل تھا جس کا کام چینیوں سے لڑنا نہیں بلکہ ان سے گفت و شنید کرنا تھا، بلکہ ان کے مطالباتِ زر میں کمی کرانے کے لیے رشوت دینا بھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو قازقوں کے روایتی طرز زندگی کے مطابق پروان چڑھایا لہذا علی بیگ جب دس سال کا ہوا تو خیمے کے مکتب میں ملا سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوا۔ اس سے پہلے ہی اسے اپنے باپ کی بھیڑیں چرانے کی خدمت سونپ دی گئی تھی اور سترہ سال کی عمر تک وہ اس خدمت کو انجام دیتا رہا۔
حمزہ کی پرورش بالکل مختلف طریقے پر ہوئی۔ جب وہ سات سال کا ہوا تو اس کے باپ کا انتقال ہو گیا اور اس کی دیکھ بھال اس کے ایک بڑے بھائی یونس حجی کے سپرد ہوئی جو بوکو بطور کے ماتحت یک ہزاری سردار تھا اور اسی نسبت سے وہ الطائی کے عثمان سے قریبی وابستگی رکھتا تھا۔
یونس حجی بوکو بطور کے ساتھ تبت نہیں گیا، شاید اس وجہ سے کہ اس میں چھاپہ ماری کا جذبہ زیادہ شدت سے کارفرما تھا۔ اسے خون میں سنسنیاں دوڑانے والے کارنامے اس سے زیادہ پسند تھے کہ صحراؤں اور پہاڑوں کو عبور کر کے اس جنتِ ارضی میں پہنچ کر دائمی امن کی فضا میں اپنے مویشی چرانے لگے جس کا سکون خطرے میں پڑ چکا تھا۔ چنانچہ حمزہ کی زندگی کے ابتدائی سال بلکہ تیس سال تقریباً مسلسل محاربوں میں گزرے تھے۔ وہ اس سال مکتب میں داخل ہوا تھا جس سال اس کے باپ کا انتقال ہوا، مگر اُسے تین سال بعد ہی مکتب چھوڑ دینا پڑا۔ کیونکہ١٩٣٢ء میں جب وہ دس سال کا تھا تو بڑا بھائی مقامی مسلمانوں کے ان گروہوں میں شریک ہو گیا جو صوبے کی چینی حکومت سے برسر پیکار تھے۔ خانہ بدوش قازق جب چھاپہ ماری کی لڑائی لڑتے تو اس میں نہ صرف مرد شریک ہوتے بلکہ عورتیں اور بچے بھی۔ اپنے گھروں کا سامان اور ریوڑ اور گلے بھی ان مقاموں کے قریب لے جاتے جہاں انھیں جدال و قتال کے لیے جانا پڑتا۔ لہذا دو سال تک یعنی دس سال کی عمر سے بارہ سال کی عمر تک، حمزہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا اور بعض اوقات اپنے بھائی کی طرح کسی کی چھینی ہوئی بندوق یا طپنچہ یا تلوار ہی لے کر لڑائی میں شریک ہو جاتا۔ دوسرا اتنا ہی اہم کام وہ یہ بھی سیکھ گیا کہ بڑے بڑے نمدے کے خیمے اونٹوں اور مویشیوں پر کس طرح پندرہ منٹ کے اندر اتارے اور تہہ کر کے لادے جا سکتے ہیں تاکہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑ سکیں۔ جب وہ سوتا تو اپنی بندوق، گولی بارود اور تلوار اور ان کے ساتھ اپنے گھوڑے کی لگام اور زین بھی اتنے قریب رکھ کر سوتا کہ فوراً ہی ان تک رسائی ہو جائے۔ یہ بات بھی اس نے سیکھ لی تھی۔
کم سنی کے باوجود چھاپہ ماری میں حمزہ کتنا مشہور ہو گیا تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا نام اشعر پڑ گیا تھا یعنی اتنی ہوشیاری سے بچ جانے والا جیسے کہ مکھی بچ جایا کرتی ہے۔
ہمیں حمزہ نے اس کی کہانی سنائی، جیسی کچھ بھی اسے یاد تھی کہ اس موقع پر اس کے بھائی نے کیوں حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ سنکیانگ کے چینی صوبہ دار یانگ تسنگ ہے ہن کو جس سے بوکو بطور لڑتا اور ناکام ہوتا رہا، ١٩٢٨ء میں چینی دشمنوں ہی نے مار ڈالا تھا۔
قازق اس کو ایک جانور سمجھتے تھے لیکن ایک انصاف پسند جانور، یا اگر ایسا نہیں تو کم از کم ایسا جانور جس کے ساتھ احترامی سلوک کیا جائے لیکن جو حکومت اس کے مرنے کے بعد قائم ہوئی، اس نے قازقوں اور دوسرے مقامی مسلمانوں کو دبانا شروع کر دیا۔ ان مسلمانوں میں ترک تھے اور تن گن بھی جو ترک نہیں تھے، چینی تھے۔ سنکیانگ کی سرحد پر چین کے شمال مغربی صوبوں میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں ایک تنگن جنرل ماؤچنگ ین نے ١٩٢٩ء میں اتنی کامیابی کے ساتھ علم بغاوت بلند کیا کہ ایک دفعہ تو اس نے آزاد جمہوریۂ مشرقی ترکستان کے قیام کا اعلان بھی کر دیا اور بڑی طاقتوں سے کہا کہ اس جمہوریہ کو تسلیم کریں۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کی فوجیں ارمچی کے دروازوں پر پہنچ گئی تھیں مگر اُسے فتح نہ کر سکیں۔
یونس حجی اس لڑائی کے میدان میں اتنے قریب تھا کہ جنگ کی دھمک دریائے سرخ کے کنارے اس کے موٹے نمدے کے خیمے میں بھی محسوس ہو رہی تھی۔ جنرل ماتنگن تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چینی بھی تھا اور مسلمان بھی۔ یونس حجی کا نظریہ قازق نقطۂ نظر سے یہ تھا کہ چینی مسلمان بہرحال عام چینیوں سے بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا، اپنے خاندان والوں اور حمزہ کو لیا اور اپنے ریوڑ لے کر جنگ آزادی میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑا ہوا اور جنرل ماچنگ ین کے تحت نہیں، بلکہ اس کے پہلو بہ پہلو لڑائی میں شامل ہو گیا۔
“ما” کے معنی ہیں گھوڑا اور یہ نام عموماً چینی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ ہماری کہانی میں “ما” نام کے اور جنرلوں کا بھی ذکر آئے گا۔ یہ جو جنرل ما تھا اسے لوگ “بڑے گھوڑے” کے نام سے بھی جانتے تھے اور اس کے کارنامے اتنے اہم ہیں کہ چین کے اس حصے کے گرد جو صحراؤں اور پہاڑوں کی بندشیں ہیں، انھیں پھلانگ کر ان کی شہرت بیرونی دنیا میں پہنچ گئی لیکن ان میں بہت سے باتیں ایسی بھی ہیں جو ہماری اس کتاب کے دائرے سے خارج ہیں۔ ہم نے صرف ان واقعات کو لیا ہے جو قازقوں کی جنگ آزادی پر اثر انداز ہوئے۔
جب حجی یونس نے ١٩٣٢ء میں حملہ آوروں میں شمولیت کی تو اس نے الطائی کے عثمان کو بھی شرکت کی دعوت بھیجی۔ عثمان اس وقت ٣٣ سال کا تھا، یونس حجی سے چند سال چھوٹا، لیکن وہ علاقۂ جنگ سے اتنی دور تھا کہ دھماکوں کی آوازیں اس تک نہیں پہنچتی تھیں، اس لیے اس کی روحِ پیکار بیدار نہ ہوئی تھی۔ لہذا اس نے ٹھنڈے دل سے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس نظر سے یونس حجی جنرل ما کو دیکھتا تھا، بالکل اس کی مخالف نظر سے عثمان نے اسے دیکھا۔ عثمان کے نزدیک سب سے بڑی قابل غور بات یہ تھی کہ جنرل ما اگرچہ مسلمان ہے لیکن چینی تو پھر بھی ہے۔ اس نوبت پر عثمان قازقی جنگِ آزادی میں چینیوں کی سرداری کا تو ذکر ہی کیا، ان کی مدد تک قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ بھی پوری مدد اس نے چینیوں سے قبول نہیں کی۔ ایک لحاظ سے یونس حجی نے بھی چینیوں کی مدد منظور نہیں کی اور نہ کبھی اس معاملہ کو اہمیت دی کہ “بڑا گھوڑا” ما کیا کر رہا ہے۔ یونس حجی اپنی لڑائی خود ہی لڑتا رہا۔ یہ بغاوت خاص طور سے اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ یہ پہلی بغاوت تھی جس میں سوویت حکومت کا ہاتھ واضح نظر آتا ہے، یوں اس سے پہلے بھی چینی علاقوں میں روسی درپردہ شورشیں برپا کرا چکے تھے۔ اس باب میں سرخ ماسکو نے سفید سینٹ پیٹرز برگ ہی کی حکمت عملی ورثے میں پائی تھی اور اسی پر آئندہ تعمیر بھی ہوتی رہی۔ جب زار کی حکومت ختم ہوئی تو سرخوں سے بچنے کے لیے کتنے ہی سفید روسی فرار ہو کر سنکیانگ کے چینی علاقے میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اب وہ اس عذاب میں مبتلا ہو گئے کہ ان کے ایک طرف تو اپنے وطن روس کی محبت تھی اور دوسری طرف اشتراکیت سے نفرت، کیونکہ ماسکو کی پالیسی ان دونوں کا عجیب و غریب آمیزہ تھی۔ لہذا سفید روسیوں کی موجودگی سے کبھی تو سوویت حکومت کو اپنے منصوبوں کی تکمیل میں مدد ملتی کبھی اس علاقے پر قابو رکھنے میں ان کی طرف سے مزاحمت ہوتی، اس حقیقت کا اظہار یہاں یوں کرنا پڑا کہ اس سے اس پس منظر کے بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے جس پر قازق کہانی عملاً پیش کی گئی تھی۔ ١٩٣٤ء کے آتے آتے، یعنی قازق جنگ آزادی میں حجی یونس کے میدانِ جنگ میں آنے کے دو سال کے اندر ہی اندر اُرمچی میں سوویت قونصل جنرل ایپری سوف صوبے بھر میں سب سے زبردست حاکم بن چکا تھا۔ وہ شخص جس نے خفیہ پولیس منظم کی اور روسی جس کے ذریعے ملک میں دہشت پھیلا رہے تھے وہ ایک روسی تھا جس کا نام پوگودن تھا۔ انہی دو آدمیوں کے زیر اثر اشتراکی اداروں کا وہ جال سارے ملک میں پھیلا، جو روسی مشیروں کے تحت تھا۔ جن میں سے بعض سفیدوں کے روپ میں چینی سرحد پر آئےا ور ایسے “ماہر” بن کر جنھیں ماسکو نے عاریتاً دیا ہو، ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے آپ کو “سرخ” ظاہر نہیں کیا۔ ١٩٣٢ء میں “بڑا گھوڑا” ما ارمچی کے دروازوں سے پیچھے دھکیل دیا گیا کیونکہ مقتول گورنر یانگ کے جانشین جنرل چن شو جن نے چینی حکومت کو بغیر بتائے ہوئے سوویت حکومت سے ایک معاہدہ کیا کہ صوبائی حکومت کے ہر شعبے میں “مشیروں” کو متعین کرنے کے عوض اور روسیوں کو تجارت کرنے کی خصوصی آسانیاں دینے کے بدلے میں اسے جنگی ہتھیار مل جائیں، اس طرح وہ بہت سے سفید روسی فوجی جو جنرل چن کی طرف سے بڑے گھوڑے “ما” سے لڑ رہے تھے دراصل سرخ روس کے مسلح کیے ہوئے تھے اس کے کچھ ہی عرصے بعد ان پر سرخ روسیوں کا پورا قبضہ بھی ہو گیا۔ لیکن اس زمانے میں سوویت حکومت بڑے گھوڑے ما کو بھی اسلحہ دے رہی تھی اور اس کوشش میں مصروف تھی کہ قازقوں، ترکیوں، منگولیوں اور دوسری ترکستانی قوموں کے قومی شعور کو ابھار کر سیاسی اور جنگی ہتھیار بطور چینیوں کے خلاف بروئے کار لا سکے، بالکل اسی طرح جیسے زاری روس بوکو بطور کو ہتھیار دیتا تھا۔ اشتراکی روس اب یونس حجی اور عثمان کو اسلحہ دے رہا تھا۔ جنرل چن کے ساتھ جو خفیہ معاہدہ کیا گیا تھا اس سے سوویت حکومت کو متوقع فوائد حاصل نہیں ہو سکے کیونکہ ١٢؍ اپریل ١٩٣٣ء کو اس کا زوال ہو گیا۔ اگلے سال ماسکو نے بڑے گھوڑے ما کی حوصلہ افزائی کی کہ ارمچی کا دوبارہ محاصرہ کر لے، اس پر نئے چینی صوبیدار شنگ شی ستائی نے اپنے پیش رو کا تتبع کرتے ہوئے اپنی حکومت سے نہیں ماسکو سے امداد کی درخواست کی۔ سوویت حکومت نے اس دفعہ اور بھی مُنہ پھیلایا اور ایک ایسے معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی رو سے چینی صوبہ سنکیانگ ایک سوویت نو آبادی بن کر رہ گیا۔ اسی کے ساتھ شنگ نے اعلان کیا کہ مقامی قوموں کی کل شکایات کا تدارک کیا جائے گا۔
یعنی قازقوں کو جلد محسوس ہو گیا کہ ان کی شکایتیں بجائے گھٹنے کے اور بڑھ رہی ہیں۔ تیرہ ہزار چینی “رضا کار” منچوریا کے پناہ گزین جو جاپانیوں سے بچ کر سائبیریا میں نکل گئے تھے اب سوویت چینی سرحد کو عبور کر کے الطائی اور دوسرے ان شمالی صوبوں میں در آئے جہاں بیشتر قازق آباد تھے اور صوبیدار شنگ کا واسطہ دے کر انھیں “ہموار” کرنے لگے۔ ان کے اس طرز عمل پر قازقوں نے شنگ کو قصوروار ٹھہرایا حالانکہ روسیوں نے انھیں تربیت دی تھی اور انھیں ہتھیار بند کیا تھا۔ ادھر صوبے کے بیرونی علاقوں میں یہ ہو رہا تھا، اُدھر خود صوبائی حکومت پوری طرح روسی قبضے میں آتی جا رہی تھی؛ ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ قازق جو دنیا کی سب سے زیادہ انفرادی قوم ہیں، یکایک اس اشتراکیت سے دوچار ہو گئے جسے صوبیدار کے اشتراکی مشیروں نے ان پر ٹھونس دیا تھا۔ یہ صوبیدار اپنے آپ کو نمائندہ ظاہر کرتا تھا چینی کومنٹنگ کا جو اشتراکیت کے خلاف ہیں۔ اس قلب ماہیت سے اگر قازق بھونچکے ہو کر رہ گئے ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
دراصل قازق کئی سال میں جا کے اس حقیقت کو سمجھے کہ خود قازقوں ہی کی مثل کے مطابق روسی “دو مونہوں” سے بول رہے تھے اور ہر منہ الگ زبان بول رہا تھا۔ ایک منہ “ارمچی” کے مشیروں کی زبان سے چینی صوبیدار شنگ کا نام لے کر بول رہا تھا اور رفتہ رفتہ صوبے کے نظم و نسق کو اشتراکیت میں تبدیل کر رہا تھا۔ دوسرا منہ خفیہ طور پر صوبائی حاکموں کے خلاف مقامی قوموں کے کانوں میں تاجروں اور روسی ایجنٹوں کے ذریعے بغاوت پھونک رہا تھا اور نفرت انگیز چینیوں کو نکال باہر کرنے میں اس کی امداد کے وعدے کر رہا تھا۔
عثمان، یونس حجی اور دوسرے قازق رہنما لڑنے والے لوگ تھے، سیاستداں نہیں تھے لیکن رفتہ رفتہ ان پر یہ حقیقت کھل گئی کہ انھیں فریب دیا جا رہا ہے اور سوویت حکومت انھیں صرف مہروں کی طرح استعمال کر رہی ہے تاکہ ایسی بدنظمی پھیل جائے کہ روسی مشرقی ترکستان اور اس کی دولت پر نظم و قانون کا نام لے کر قبضہ کر لیں یا یوں سمجھیے کہ مقامی قوموں کے لیے سوویت کی دوستی کا دکھاوا ایک زبردست فریب تھا جس کی آڑ میں وہ اشتراکیت پھیلا رہا تھا۔
یونس حجی اور کمسن حمزہ بڑے گھوڑے ما کی طرف سے لیکن اپنے طور پر ١٩٣٢ء-٣٤ء دو سال تک لڑتے رہے۔ اس دوران میں یونس کو یاد آیا کہ بوکو بطور کے چھاپے مار دست بدست لڑائی میں باقاعدہ افواج کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے اس لیے اس نے چینی انداز پر اپنے ساتھیوں کو تربیت دینی شروع کی۔ ہماری رائے یہ ہے کہ جنرل ما کی باقاعدہ فوجوں کو کسی شہر کا محاصرہ کرتے دیکھ کر یونس کو خیال آیا کہ اپنی فوجوں کو اسی قسم کی تربیت دے۔ لہذا انھیں باقاعدگی سے لڑنا سکھایا تاکہ روس کے تربیت یافتہ اور صوبیدار شنگ کے رضا کاروں سے اچھی طرح نمٹ سکیں لیکن آزاد قازق اس قسم کی لڑائی لڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے حالانکہ بعد میں سوویت سرحد کے قریب سنکیانگ کے صوبے خلدزا سے جو قازق روسیوں نے بھرتی کیے وہ اس طریق جنگ کو اچھی طرح سیکھ گئے۔ آگے مناسب موقع پر ہمیں معلوم ہوگا کہ سوویت حکومت نے اپنے غلام بنائے ہوئے قازقوں کو کس طرح تربیت دی کہ قانوناً جو علاقہ چینیوں کا تھا اس کی زمین پر آزاد قازقوں سے لڑیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس سے بہت کچھ واضح ہو جائے گا کہ ایشیا میں اشتراکیت کو کیسے فروغ دیا گیا۔
١٩٣٤ء کے اختتام پر صوبہ دار شنگ کے تحت جو صوبائی چینی حکومت تھی اس نے جنرل ما کی باغی فوجوں کی کمر توڑ دی تھی ان “ہتھیاروں”، “رضاکاروں” اور “مشوروں” کی مہربانی سے جو برادرانہ طور پر شنگ کو سوویت حکومت نے پیش کیے تھے۔ خود جنرل ما نے باوجود اپنی شکست فاش کے سوویت ترکستان میں پناہ لی، اس کے بعد اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ ترکی میں جو قازق مہاجر ہیں ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وہ روسی لشکر میں ایک افسر بن گیا لیکن یہ امر مشتبہ ہے گو نا ممکن نہیں۔
جب بغاوت فرو ہوئی تو یونس حجی اور حمزہ جو اب بارہ سال کا تھا دریائے سُرخ پر واپس آ گئے اور حمزہ خیمے کے مکتب میں پھر جانے لگا۔ اور بھی بہت سے دل برداشتہ قازق لوٹ آئے مگر ان میں سے دو نے کچھ دنوں بعد سوچا کہ ان کے پرانے گھر خاصے بے آرام ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ ١٩٣٦ء میں انھوں نے اپنے خیمے اکھاڑے اور جیسا کہ بوکو بطور پہلے کر چکا تھا، اپنے گلّے اور ریوڑ لے کر اپنے مسکنوں سے نکل کھڑے ہوئے اور مشرقی تئین شان پہاڑوں میں بارکل کے میدانوں اور بلند علاقوں میں چراگاہیں تلاش کرنے نکل گئے تاکہ وہاں آرام سے رہ سکیں۔ ان کے نام ہیں حسین تجّی اور سلطان شریف اور ہم ان سے ترکی میں پہلے مل چکے ہیں۔ مگر جب یہ وطن سے نکلے تو انھیں اور ان کے بیشتر ساتھیوں کو جن کی تعداد شاید پندرہ ہزار تھی، اس کا بھی خیال نہیں تھا کہ وہ سنکیانگ کی سرحد یا تبت سے آگے جا سکیں گے۔
حسین تجّی اور سلطان شریف جنوب کی طرف چلتے رہے اور شہر حامی سے آگے نکل گئے جو کیومل بھی کہلاتا ہے اور چین کی طرف سے گوبی کے صحرائے عظیم کو عبور کرنے کے بعد پہلا شہر یہی آتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے تکلا مکان کا وسیع صحرا طے کیا جس میں صرف ریت ہی ریت نہیں ہے اور اگرچہ آج کل اس کا بڑا حصّہ بنجر ہے تاہم کہیں کہیں اس میں جو اُجڑی ہوئی آبادیوں کے نشان ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی یہ صورت ہمیشہ سے نہیں تھی، بوکو بطور کی طرح بالآخر یہ بھی بُرے شگون والی جھیل غزکل پر پہنچ گئے جو ڈول کی طرح لمبی اور سیدھی ہے۔ انھیں یہاں اچھی چراگاہ مل گئی لیکن اتنی اچھی نہیں جتنی بارکل کی تھی۔ یہ چراگاہ جھیل کے چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا کچھ حصّہ تیمورلک صوبے میں تھا جو جھیل کے شمال اور مغرب میں ہے اور کچھ حصّہ خان امبل کے پہاڑوں میں جو مشرق کی طرف چنگھائی صوبے میں ہے۔ اس کے علاوہ انھیں معلوم ہوا کہ تجارتی شہر تنگ ہوانگ جہاں بدھ کے ہزاروں بتوں کے مشہور غار ہیں اور چین کے بہت سے حصوں سے جاتری جہاں جوق در جوق جاتے ہیں، صوبہ کنسو کی سرحد کے اس پار قریب ہی واقع ہے۔
قازق چونکہ خانہ بدوش تھے اس لیے جب کبھی چینی حکام ٹیکس وغیرہ وصول کرنے میں زیادہ تشدد کرتے تو سنکیانگ،کنسو اور چنگھائی ان تین علاقوں میں سے کسی ایک کو اپنی رہائش کے لیے انتخاب کر لیتے۔ قازق اپنے خیمے اور جانور لے کر کسی ایک صوبے میں چلے جاتے اور وہاں کے افسر انھیں درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے پڑا رہنے دیتے۔ حسین تجّی اور سلطان شریف کو جب بارکل میں لڑائی لڑنی پڑی اور جب انھیں تکلا مکان کو عبور کرنا پڑا تو ان کے جانوروں کا بہت نقصان ہوا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ان کے پاس اونٹ، بھیڑیں اور گھوڑے اتنے ہو گئے کہ وہ بارکل سے بھی زیادہ دولتمند ہو گئے۔ بدھ کے ہزاروں بتوں کے غاروں والا شہر تنگ ہوانگ اگرچہ پہاڑوں کی دوسری طرف ستّر میل کے فاصلے پر تھا پھر بھی قازقوں کے لیے ضروریات کی خرید و فروخت کے لیے بہت اچھی منڈی تھی کیونکہ یہاں جاتری بہت آتے تھے حالانکہ قریب سے قریب شاہراہ سے بھی یہ شہر ستّر میل دور تھا۔
ان پندرہ ہزار قازقوں میں سے جو حسین تجّی اور سلطان شریف کے ساتھ بارکل سے آئے تھے کوئی پانچ ہزار، کچھ عرصے بعد چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر ہندوستان جانے کے ارادے سے روانہ ہونے لگے۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کتنے پہنچے اور کس راستے سے گئے، ہو سکتا ہے کہ وہ تبّت اور نیپال سے لاسا اور کھٹمنڈو ہو کر گئے ہوں یا غالباً ختن، یارقند اور کاشغر اور قراقرم پہاڑوں کو عبور کر کے گئے ہوں۔ جو غزکل میں رہ گئے تھے ان میں سے بعض گھبرا کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔ کچھ ایسے تھے جو دوستوں سے ملنے وطن آتے جاتے رہے اور ان کے دوست ان سے ملنے کے لیے یہاں آتے جاتے ر ہے۔ اس طرح بہت قریبی تو نہیں لیکن غزکل کے قازقوں اور دور شمال میں الطائی پہاڑوں اور تئین شان میں بسنے والے قازقوں میں تعلق قائم رہا۔ بھاٹ کارا ملّا ان قازقوں میں سے ایک تھا جو غزکل گئے اور ہندوستان تک ہو آئے مگر اس نے ہم سے کہا کہ ہندوستان اسے پسند نہیں آیا کیونکہ وہ مرطوب بھی تھا اور گرم بھی، اسی وجہ سے اس کے بہت سے بہادر ساتھی ملیریا، ٹائیفائڈ اور ہیضہ سے مر گئے۔ لہذا وہ مشرقی پاکستان واپس آ گیا اور ۱۹۵۰ء تک وہیں رہا۔ اس کے بعد واقعات کچھ ایسے رونما ہوئے کہ اسے مجبور ہو کر انتخاب کرنا پڑا کہ واپس ہندوستان جائے یا اشتراکیت کو قبول کرے۔ فیصلہ کرنے میں اسے دیر نہیں لگی۔ حسین تجّی اور سلطان شریف نے بغیر یہ جانے ہوئے کہ دشمن دراصل اشتراکیت ہے، ۱۹۳۰ء ہی میں فیصلہ کر لیا تھا پھر کارا ملّا کی طرح ان کے سامنے بھی یہی دو راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اشتراکیت ان کے طرزِ زندگی کو کس طرح متاثر کرے گی، ویسے ہی انھوں نے بھی کارا ملّا کی طرح فیصلہ کر لیا۔
لیکن قدیم راہ ریشمیں، تکلا مکان،غزکل، تیمورلک، خان امبل پہاڑوں اور تنگ ہوانگ پر تیرہ سال اور گذر جاتے ہیں تب قازقوں کی کہانی میں ان کی اہمیت کا وقت آتا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو ان کا حصّہ اس میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم ۱۹۳۴ء میں واپس چلتے ہیں اور غزکل سے سات سو میل دور چل کر تیز دماغ حمزہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ اب بارہ سال کا ہے اور اپنے بھائی یونس حجی سے استدعا کر رہا ہے کہ ان کے پڑاؤ کے خیمے کی مسجد میں جو ملّا نے مکتب کھول رکھا ہے، اس سے نکال کر اسے کسی اور بہتر مکتب میں بھیج دیا جائے۔ آخر میں یونس حجی اس کی بات مان لیتا ہے اور حمزہ کو مناس بھیج دیتا ہے جہاں قازق استاد عبداللطیف نے دریائے مناس کے کنارے اپنا ایک خیمہ لگا رکھا ہے اور شاگردوں کو “بنام خدا” درس دیتا ہے جیسا کہ قازق مکتب کے بچوں کے گیت میں اس کا مذکور ہے۔ حمزہ سچا مسلمان ہے لیکن تاریخ، جغرافیہ، حساب اور عام تعلیم میں صرف مذہبی نقطۂ نظر سے درک حاصل کرنا نہیں چاہتا بلکہ وسیع تر نقطۂ نظر سے بصیرت حاصل کرنی چاہتا ہے لہذا وہ اب کے مناس کے ایسے مکتب میں داخل ہوتا ہے جس کا معلم عبد العزیز قازق نہیں ہے بلکہ ترک ہے۔ عبد العزیز کی قومیت ہی اس بات کی علامت تھی کہ دو مونہی اشتراکی حکمتِ عملی منصوبے کے مطابق ٹھیک نہیں چل رہی۔ مقامی قوموں کو چینیوں کے خلاف اُبھارنے کی حد تک ان کی پالیسی پوری طرح کامیاب تھی لیکن انھیں ایک دوسرے کے خلاف بھی ابھار رہی تھی۔ انھیں یہ محسوس کرا رہی تھی کہ مشرقی ترکستان کے تمام غیر چینی بسنے والے جو پوری آبادی کے ۹۵ فیصدی تھے اگر آزادی حاصل کرنی چاہتے ہیں تو انھیں متحد ہو جانا چاہیے۔ جب سوویت کے خفیہ ایجنٹوں نے مقامی قوموں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے قومی شعور کو بڑھائیں تو ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے مختلف قومی گروہوں میں اور ان تمام گروہوں اور چینیوں میں نا اتفاقی پھیلانی شروع کر دی۔ ماسکو جانتا تھا کہ ترکوں، قازقوں، منگولیوں، ازبکوں اور دوسروں میں اتحاد باہمی جس قدر بڑھے گا چینی حکومت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد انھیں نگل جانا اسی قدر دشوار ہو جائے گا۔
عبد العزیز اپنے شاگردوں کو نہ صرف مذہبی تعلیم دیتا بلکہ مذہب کے علاوہ دوسری ہدایات بھی دیتا۔ صوبیدار شنگ نے سوویت حکومت سے ۱۹۳۴ء میں جو معاہدہ کیا تھا اس کی رو سے اسکولوں کو اجازت نہیں تھی کہ آئندہ انگریزی کی تعلیم بدستور دیتے رہیں۔ اس کے علاوہ پورے صوبے میں مقامی زبان میں نئی کتابیں پڑھائی جانے لگیں۔ اس معاہدے کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا لیکں تمام کتابیں سوویت حکومت کے مجوزہ نصاب میں داخل ہو گئی تھیں یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ سوویت اور شنگ کے معاہدے پر دستخط ہونے سے بہت پہلے ہی سوویت حکومت نے سنکیانگ کے چینی صوبے کو اشتراکی بنانے کی تدبیریں کر لی تھیں۔
نئی کتابیں بڑی احتیاط سے مرتب کی گئی تھیں تاکہ قازقی، ترک اور منگولی معلمین اور والدین کو اس کا شبہ بھی نہ ہونے پائے کہ اشتراکیت اس ذریعے سے ان قوموں میں داخل کی جا رہی ہے۔ کتابیں مرتب کرنے والوں نے جا بجا سوویت نظام کی خوبیوں اور نظام سرمایہ داری کی برائیوں کا موازنہ کیا تھا اور مشرقی ترکستان والوں کو یہ باور کرایا تھا کہ آج کل تم سرمایہ دارانہ نظام کے شکار ہو۔
مثال کے طور پر بارہ سال کی عمر والے حمزہ اور اس کے ہم سبقوں کو جہاز ٹیٹانِک کے ڈوبنے کا قصّہ کچھ اس طرح سنایا تھا:
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بہت بڑا جہاز تھا، دنیا میں اس سے بڑا جہاز اور کوئی نہیں بنا، اس کے مالک چند انگریز سرمایہ دار تھے۔ انھوں نے اس جہاز میں ایک بینڈ رکھا تھا تاکہ مسافر خوب ہنسی خوشی سفر کریں۔ سارے مسافر جب عیش و عشرت میں پڑ گئے تو جہاز کے ملازم بھی اپنے فرائض کی طرف سے بے پروا ہو گئے اور تساہل کرنے لگے، اپنے اپنے فرض سے وہ غافل ہو گئے اور خود بھی مزے اُڑانے لگے۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ ایک دن آدھی رات کے بعد یہ بڑا جہاز ایک برف کے پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ بینڈ نے جلدی سے ناچ کی والہانہ دھنیں بجانی موقوف کر دیں اور اس کے بعد مذہبی دھنیں بجانی شروع کیں لیکن خدا سے اب رجوع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ چند منٹ میں جہاز ڈوب کر سمندر کی تہ میں بیٹھ گیا، صرف چند دولتمند سرمایہ داروں نے روپیہ دے کر کشتیوں میں جگہ حاصل کر لی اور ڈوبنے سے بچ گئے۔ باقی سارے مسافر اور جہاز کے ملازم غرق ہو گئے۔
ان کا حسرت ناک انجام دیکھ کی ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور سرمایہ داری کو ہمیں ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر جہاز کا کوئی سوویت کپتان ہوتا اور جہاز کے ملازم سوویت ہوتے تو ان غلطیوں کا ارتکاب کبھی نہ کرتے جن کے باعث ٹیٹانِک غرق ہوا اور اتنی ساری قیمتی جانیں اس کے ساتھ تلف ہوئیں۔”
اس قسم کی ہدایتی کہانیوں میں ملا کر صحیح سائنسی تعلیم دی جاتی تھی۔ چنانچہ حمزہ نے عبد العزیز کی سوویت کتب نصاب میں پہلی دفعہ پڑھا کہ دنیا گول ہے، اسے یقین نہیں آیا اور وہ جو ملّا اسے مذہبی تعلیم دیا کرتا تھا اس سے دریافت کرنے جا پہنچا۔ ملّا نے اسے نہایت وثوق سے تاکید کی کہ ایسے نظریات کو ہرگز قبول نہ کرنا کیونکہ ایسی باتیں کفر ہوتی ہیں۔
حمزہ سے اس نے کہا “تم خود میدان میں جا کر دیکھ لو۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ دنیا سپاٹ ہے، اگر کوئی سیدھا چلتا جائے تو کئی دن بعد اس کے کنارے پر پہنچ جائے گا اور اگر وہ پھر بھی نہ رکا تو نیچے گر پڑے گا۔”
عبد العزیز کے شاگردوں بلکہ بلکہ ان کے بزرگوں میں بھی اس موضوع پر بحث مباحثے ہوتے رہے۔ اس وقت یعنی ١٩٣٥ء میں کچھ مغربی یورپ میں رہنے والے اور چند ہندوستانی مشرقی ترکستان میں آباد تھے، ان میں ایک مناس میں بھی تھا۔ اس کے قازق اور ترک دوستوں نے اس مسئلے کے متعلق اس کی رائے معلوم کرنی چاہی۔ اس نے انھیں بتایا کہ میں کچھ ایسے لوگوں سے واقف ہوں جو جہاز میں سوار ہو کر پوری دنیا کے گرد گھوم آئے اور جہاں سے روانہ ہوئے تھے پھر اسی مقام پر لوٹ آئے۔ یہ سن کر مقامی مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ نصاب کی کتابوں نے بالکل صحیح بات بتائی ہے۔ اس طرح کی تصدیقوں سے قازقوں کا اعتماد سوویت کی صدق بیانی میں بڑھتا چلا گیا۔
مناس کے مکتب میں حمزہ دو سال رہا یعنی ١٩٣٦ء تک۔ اسی سال حسین تجّی اور سلطان شریف بارکل سے نکل کر اس جھیل کے کنارے جا کر خیمہ زن ہوئے اور گھمسان کے رن میں حمزہ بھی شامل ہو گیا۔
علی بیگ جو اس وقت تک اس قبیلے کے ٹیکسوں کے مسائل طے کرنے کا افسر تھا، اب وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہو کر یونس حجی کی سرکردگی میں دس ہزاری سردار بن گیا۔ جب صوبیدار شنگ نے یہ خبر سنی تو اس نے علی بیگ پر دس لاکھ تائل جرمانہ کر دیا۔ اس رقم کا مطلب ہوا پانچ ہزار گھوڑے، دو ہزار اونٹ یا چار ہزار مویشی یا تیس ہزار بھیڑیں۔ ظاہر ہے کہ علی بیگ اتنا بڑا جرمانہ ادا نہیں کر سکتا تھا لیکن مناس کے مسلمانوں نے جن میں ترک بھی شامل تھے اور قازق بھی، باغیوں سے ہمدردی کی اور آپس میں چندہ کر کے علی بیگ کی طرف سے یہ جرمانے کی رقم ادا کی۔
روسیوں کی خفیہ امداد کی وجہ سے یہ بغاوت دور دور پھیل گئی، اب کے اس میں الطائی کا عثمان بھی شریک ہو گیا، بغاوت کا ایک مرکز مناس بھی تھا۔ یہاں سے تین شخص جنگی سرگرمیوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک قازق تھا جس کا نام باعی ملّا تھا (عثمان بطور کا خسرنہیں) دوسرا ایک منگول تھاجس کا نام جی جن یعنی “زندہ بدھ” تھا جو کوہستان الطائی کا رہنے والا تھا اور تیسرا ایک ترک کسان اسمٰعیل حجی نامی تھا جس کا “چو آنگ تسو” یعنی بڑا کھلیان ان سڑکوں پر تھا جو سوویت قازقستان کو آتی جاتی تھیں اور پل مناس کے قریب ملتی اور جدا ہوتی تھیں۔
اسمٰعیل حجی کے گھر میں سے شاہراہوں کا مقام اتصال صاف دکھائی دیتا تھا۔ جتنی آر جار ارمچی سے پچاس میل جنوب مشرق کی جانب اور سوویت سرحد کو دو سو میل مغرب اور شمال مغرب کی جانب ہوتی سب کو وہ اپنے گھر میں سے دیکھ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اونچے سرکنڈوں کے جنگل قریب ہی تھے، اگر ذرا بھی خطرہ محسوس کرتے تو اسمٰعیل حجی اور اس کے دونوں شریکِ بغاوت ان سرکنڈوں میں فوراً آسانی سے جا چھپتے، یہاں اندیشہ صرف جنگلی سور ہی کا ہو سکتا تھا۔ لہذا صوبیدار شنگ کے سپاہی اکثر اس باغیوں کے صدر مقام کے قریب آتے رہے مگر باغیوں کے سرداروں کو گرفتار نہ کر سکے شاید انھیں اس کا علم ہی نہ ہو کہ سردار یہاں رہتے ہیں۔
اسمٰعیل حجی خود ایک معمر، پستہ قد، تنگ سینہ اور دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ اس کے دبلے سادھوؤں کے سے چہرے پر چھوٹی کالی ڈاڑھی کی جھالر سی لگی ہوئی تھی۔ دیکھنے میں وہ بہت کمزور دکھائی دیتا تھا لیکن وہ بڑا پکا قوم پرست، رحمدل اور مہذب انسان تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہ کسی مسلمان بھائی نے اس سے کچھ مانگا ہو اور اسے نہ ملا ہو۔ اس میں تعصب بھی نہیں تھا، جیسا کہ منگول اور جی جن سے اس کی دوستی سے ثابت ہے۔ یہاں پھر اس کی شہادت موجود تھی کہ سوویت کی جوڑ توڑ ناکام ہو رہی تھی۔ اس تگڈم کا تیسرا رکن باعی ملا بھی اسی ناکامی کی ایک اور شہادت تھا۔کیونکہ وہ ایک قازق تھا اور اس وقت الطائی اور تیئن شان کے قازقوں کا سردار۔
اسمٰعیل حجی علاوہ کسان ہونے کے کہ اپنی زمین خود کاشت کرتا تھا، کوئی بارہ ہزار بھیڑوں کا مالک بھی تھا۔ ان میں سے بیشتر کو وہ عام شرائط پر ٹھیکے پر دے دیتا تھا یعنی ٹھیکہ لینے والے سے سال کے اختتام پر دگنی تعداد میں بھیڑیں واپس لیتا۔ اون، پنیر اور جانور جو زیادہ پیدا ہوئے ہوں وہ ٹھیکیدار کے۔ اسمٰعیل حجی نے کوئی تین ہزار بھیڑیں انھیں شرائط پر دریائے سرخ کے علاقے میں بسنے والے علی بیگ اور یونس حجی کے قبیلے کو دے رکھیں تھیں۔ اس طرح ان کی دوسری سرگرمیوں کی طرف دشمنوں کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا۔
تینوں سردار بیٹھے ہوئے مشورہ کرتے رہتے اور لاریاں جن میں سے اکثر میں فوجی سوار ہوتے ان کے گھر کے قریب سے ارمچی کو آتی جاتی رہتیں۔ یہ لاریاں عموماً روسی ہوتی تھیں اور ان میں منجملہ اور چیزوں کے سامان حرب بھی ہوتا چینیوں کے لیےبھی اور باغیوں کے لیے بھی۔ اکثر ان میں روسی سامان تعمیر اور تعمیر کرنے والے ہوتے جو ایک نئی شاہراہ سوویت سرحد سے لانچاؤ تک بنا رہے تھے۔ یہ شاہراہ صحرائے گوبی سے ہو کر پندرہ سو میل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ لانچاؤ سے یہ شاہراہ چنگ کنگ کو چلی گئی ہے، جو کبھی پہلے چین کا دار الحکومت تھا۔ وہ علاقہ جس کا تعلق ہمارے قصے سے ہے یعنی جو لانچاؤ تک ہے، ١٩٣٨ء میں بن گیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال اور نگرانی چینی حکومت نہیں سوویت حکومت کرتی تھی۔ صوبہ کنسو کا صدر مقام لانچاؤ جہاں یہ علاقہ ختم ہوتا ہے چین کے سب سے بڑے دوسرے دریا ہوانگ ہو کے کنارے ہے۔ یہ دریائے پیکنگ کے جنوب میں بحر زرد میں گرتا ہے۔ سوویت سرحد سے بحر اوقیانوس کا جو فاصلہ ہے اس دو تہائی فاصلے پر لانچاؤ خود واقع ہے،لہذا ١٩٣٨ء میں جمہوریۂ چین کے دل پر سوویت اثرات پوری طرح چھا چکے تھے۔
شاہراہ کو بنانے کے لیے ایک لاکھ سے اوپر قازق، ترک، منگول اور دوسرے ترکستانی باشندے زبردستی پکڑ کر لائے گئے یعنی شاہراہ کا جو مفہوم ہے وہ اس سے پورا نہیں ہوتا۔ قافلے کی پرانی راہ اور اس میں بس اتنا فرق تھا کہ یہ سڑک بجائے ادھر ادھر پھٹتے جانے کے مستقلاً سیدھی چلی گئی تھی، یہ ندی نالوں میں سے بھی گزرتی اور خشک آبی راہ گزاروں پر سے بھی، جن میں ایک دم تیز بہتا ہوا پانی آجاتا ہے۔ اسے پوری طرح پکّا بھی نہیں کیا گیا۔ جب یہ بن گئی تو اس پر سیکڑوں لاریاں اور موٹریں دوڑنے لگیں، پہلے اس راستے کو طے کرنا ایک خطرناک مہم سمجھا جاتا تھا۔ چُنکنگ، نانکنگ اور پیکنگ سے سوویت سرحد تک پہنچنے میں جتنا وقت لگتا تھا، اب اس میں کئی کئی ہفتوں کی کمی آگئی۔ اس شاہراہ کے بنائے جانے سے پہلے اُرمچی کو پیکنگ سے جانے میں صحرائے گوبی عبور کر کے جانے کے بدلے، روسی ریلوں سے جانے میں کم وقت لگتا تھا۔
لیکن اگر اس روسیوں کی بنائی ہوئی سڑک نے مرکزی چین کو باہر کی طرف پھیلے ہوئے چینی صوبوں سے قریب تر کر دیا تو اس نے چین کے اندرون کو اسی قدر سوویت روس سے بھی قریب تر کر دیا اور اس نے سب سے مغربی علاقے سنکیانگ کو مع اس کے پسماندہ وسائل کے سوویت ریاست کے اتنے قریب کر دیا کہ اسی کا ایک حصہ بن جانے میں بس تھوڑی ہی سی کسر رہ گئی، آج بھی ظاہراً دوستی کے باوجود چینی اور روسی دونوں حکومتیں جانتی ہیں کہ اب بھی کوئی دو سو میل چوڑی زمین کی پٹی ایسی ہے، خلد زا اور تارباغتائی کے درمیان اور سنکیانگ کی شمالی حد کے ساتھ جہاں کسی سرحد کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس پورے علاقے کے مدعی چین اور سوویت روس دونوں ہیں۔
لیکن ١٩٣٦ء میں یہ سڑک ابھی بننی شروع نہیں ہوئی تھی اور سنکیانگ پر روس کے قبضہ کرنے کے ارادے اتنے واضح نہیں ہوئے تھے، اس لیے تیز نظر رکھنے والے جو بظاہر اسمٰعیل حجی کے کھلیان کے باہربھیڑوں کی نگرانی کر رہے تھے، روسی لاریوں اور ان میں سوار ہونے والوں کو دیکھ کرخوشی کے نعرے لگاتے تھے۔ لاریوں کے علاوہ اونٹوں کی لمبی قطاریں آتی تھیں جن پر گیہوں، چائے، نمک اور غالباً افیون لدی ہوئی تھی اور یہ سب چیزیں مناس کی منڈی میں جاتی تھیں یا اس سے بھی آگے کسی اور شہر کا رخ کرتیں۔ اسی قسم کے کارواں اون سے لدے، روسی سرحد کی جانب تارباغتائی یا خلدزا کو جاتے دکھائی دیتے۔ تارباغتائی کو چغوچک اور خلدزا کو ایلی بھی کہتے ہیں۔ بعض دفعہ مویشیوں کے گلے اور بھیڑوں کے بڑے ریوڑ بھی سست رفتاری سے اسی سمت جاتے نظر آتے کیونکہ جب سوویت میں اشتراکیت کی تحریک نے زور پکڑا تو قازقوں کے ساتھ ان کے تمام جانور بھی وہاں سے نکل گئے۔ حکومت اب مشرقی ترکستان سے بڑی تعداد میں جانور خرید رہی تھی۔ ان کی قیمت کی ادائیگی سے چینی صوبیدار شنگ کی مدد کرنی مقصود تھی تاکہ وہ اس بغاوت کو فرو کر سکے، جسے سوویت حکومت نے ہوا دی تھی۔
اسمعیل حجی کے گھر میں تینوں سردار “سرخ ڈاڑھی والوں” کے مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے تھے، یہ سرخ ڈاڑھی والے ان چینی فوجوں کے بچے کھچے سپاہی تھے جنھیں جاپانیوں نے منچوریا سے نکال دیا تھا۔ یہ لوگ حال ہی میں مشرقی ترکستان میں، سوویت علاقے میں سے الطائی، خلدزا اور تارباغتائی ہوتے ہوئے در آئے تھے۔ علی بیگ اور حمزہ کو اب یقین آ گیا ہے کہ سرخ ڈاڑھی والے کو خاص طور پر سوویت حکام نے تربیت دے کر مشرقی ترکستان میں بھیجا تھا کیونکہ ان میں سے بعض پہاڑی لڑائیوں میں قازقوں سے بخوبی لڑ سکتے تھے اور بعض پروپیگنڈا کرنے میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ مگر واقعہ یہ تھا کہ جتنا پروپیگنڈے کا اثر ہوتا تھا اس سب پر ان سرخ ڈاڑھی والوں کے مظالم پانی پھیر دیتے تھے۔
ان سے قازقوں کی ٹکر فوراً ہی ہو گئی کیونکہ مشرقی ترکستان میں یہی لوگ ایسے تھے کہ وار کا جواب وار سے دیتے تھے اور ایسے ہتھیار بھی رکھتے تھے جن سے وار کر سکیں۔ رفتہ رفتہ قازقوں کو اس کا احساس ہوا کہ سرخ ڈاڑھی والے اشتراکیوں کے ایجنٹ ہیں۔ ان سے قازقوں کو ایک تو اس وجہ سے نفرت ہونے لگی کہ یہ سوویت کے کارکن تھے، دوسرے ان کے بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے۔ یونس حجی ان قازقوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ان کی سیاسی اہمیت کو تاڑ لیا تھا مگر کئی سال تک انھیں یہ نہ معلوم ہو سکا کہ یہ سوویت حکومت کے بھیجے ہوئے ہیں، وہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ لال ڈاڑھی والے چینی اشتراکیوں کے آوردے ہیں، جن کی نمائندگی شنگ کرتا ہے۔ اتنے یہ حقیقت حال سے آگاہ ہوں، مشرقی ترکستان میں اشتراکیت اپنے پنجے جما چکی تھی۔