افراد قصّہ
بحرقطب شمالی اور بحرہند، بحرمتوسط اور بحر جاپان کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ چلا گیا ہے جو الطائی کہلاتا ہے۔ اس کی ہری بھری وادیوں اور سرسبز بلندیوں سے وہ قومیں اور وہ رہنما اُبھرے جو ایشیا میں دور دور تک پھیل گئے۔ پیکنگ، دہلی، سمرقند تک اور یورپ کے قلب تک بھی۔ ان میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جو نقطۂ نظر کے اختلاف کے ساتھ دلوں میں خوف اور نفرت، تعظیم اور فخرکے جذبات پیدا کرتے ہیں؛ چنگیز خاں، تیمورلنگ، مغل شہنشاہ اور ایطلا تک ان میں شریک ہیں جنھیں الطائی کے قازق اورمنگول اپنے پُرکھوں میں شمار کرتے ہیں۔
ایسے رہنماؤں کے نقش قدم پر جو چلے وہ خود بھی رہنماؤں کی طرح سخت کوش، پر اعتماد، حوصلہ مند، نڈر اور مہماں نواز لوگ تھے اور آج بھی اُن کی آس اولاد میں یہی خصائص پائے جاتے ہیں۔ وہ ہروقت کمربستہ رہتے ہیں کہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دنیا کے دوسرے سرے پرپہنچ جائیں۔ کسی جنگجو سردار کی رہنمائی میں ایسے کارنامے انجام دیں جن سے شہرت حاصل ہو۔ اپنی کلائیوں پرشکرے بٹھائے اپنے محبوب پہاڑوں میں بے دھڑک گھوڑ ے دوڑاتے پھریں۔ ہر بہار اور خزاں کے موسم میں اپنے نمدہ دار خیموں کوحسب ضرورت وا دیوں میں بلندی یا پستی میں نصب کریں اور بیرونی دنیا سے بےخبر رہ کر اپنے گلّوں کو چراتے رہیں اوریہ بے خبری اس حد تک ہو کہ اس عظیم “راہ ریشمی” کی بھی انھیں پروا نہ ہوجو چین اور یورپ کے درمیان پھیلی پڑی ہے اور جس پر سے پانچ سو سال پہلے مارکو پولو اپنے گھوڑے پر سواربالکل ان کے خیموں کے دروازوں کے سامنے سے گزرا تھا۔
لیکن مارکوپولو کے زمانے کو صدیاں بیت گئیں اور جیسے جیسے یہ صدیاں الطائی کے قریب سے گزرتی گئیں دنیا چھوٹی ہوتی چلی گئی اور الطائی کے بسنے والوں کو دنیا کے سمٹنے کی اس وقت تک نہ تو اطلاع ہوئی اور نہ انھیں اس کی کوئی پروا ہوئی جب تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں بیرونی دنیا نے رفتہ رفتہ انھیں اپنے گھیرے میں نہ لے لیا۔ اس اثنا میں خود ان کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور وہ بجائے سمٹنے کے پھیلنے لگے۔ انہی کی طرح ان کے مویشی، دو کوہان والے اونٹ، دنبے، بھیڑ، بکریاں اور پسندیدہ گھوڑے بھی بڑھتے چلے گئے۔ منگول بیشتر مشرق کی طرف پھیلے۔ قازقوں کی بڑی تعداد مغرب کی طرف چلی اور اس علاقہ میں پھیل گئی جوسوویت قازقستان کہلاتا ہے۔ آہنی پردے کی سیدھی جانب یہ علاقہ تقریباً اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ پورا یورپ لیکن ان کی کچھ تعداد مشرق کی طرف زنگاریہ کے علاقہ میں اور ایک بڑے پہاڑی سلسلے میں پھیل گئی جو تئین شان یا کوہ ملکوتی کہلا تا ہے۔
یہ سچی کہانی قازقوں کے ایسے جنوبی گروہ سے متعلق ہے جس کا روایتی مسکن اسی علاقہ میں ہے جس پر روسی اورچینی شہنشاہیت میں صدیوں سے تنازعہ چلا آتا ہے۔ اسی صدی کے شروع میں ان دونوں کے درمیان جو خطِ تقسیم تھا وہ الطائی سلسلۂ کوہ کے ساتھ ساتھ اور ملکوتی سلسلۂ کوہ کے شمال میں تھا لیکن اس تقسیم پر نہ تو روسی قانع تھے نہ چینی۔ اس متنازعہ سرحد کے دونوں طرف مٹی میں سونا تھا، خام دھاتیں تھیں، کوئلہ تانبا وغیرہ تھا اور یورینیم دھات بھی۔ یہ وہی علاقہ تھا جس پرکبھی قازق آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور اس کے حقیقی مالک بھی تھے۔ بیش قیمت معدنیات کے علاوہ کوہِ الطائی اور کوہِ ملکوتی اور دوسرے زیریں سلسلہ ہائے کوہ مویشیوں اور بھیڑوں کے لیے عمدہ چراگاہیں بھی اپنےدامن میں رکھتے ہیں۔
زمانہ ماضی میں قازق یہ کرتے کہ ان دونوں لالچی شہنشاہیت پسندوں کوآپس میں لڑوا دیتے۔ یہ طریقہ ابتدا میں کامیابی سے چلتا رہا لیکن بالشویک چیرہ دستی نے زار کی بالا دستی کو غصب کر لیا تو یہ چال ناکا م ہوگئی، روس میں اشتراکی حکومت کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے اندرہی اشتراکیوں نے چین کے صوبہ سنکیانگ پر اقتصادی اور اس کے بعد سیاسی قبضہ کرلیا۔ اسی صوبے میں ہماری کہانی کے آٹھ لاکھ قازق آباد تھے، ایک ذرا سے وقفے کے علا وہ اسی زمانے سے اشتراکیوں کا قبضہ چلا آتا تھا۔
گذشتہ ربع صدی سے الطائی اور کوہ ملکوتی کے قازق بڑی دلیری سے مگر نا کام لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جب حملہ آور ان کے وطن میں گھس آئے تو بجائے نگوں ساری سے شکست قبول کرنے کے قازقوں نے انھیں لڑ کر نکال دینا چاہا۔ جنگجوئی قازقوں کے خون میں رچی ہوئی ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھیں جنگ سے محبت ہے، مگر اب ان کی جنگ کسی مفاد یا ناموری کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے طرز زندگی کو بچانے کے لیے تھی اور جب ان میں تاب مقاومت باقی نہ رہی تو بچے کھچے قازق تکلا مکان اورتبّت کے تپتے ہوئے صحراؤں اور بے برگ و گیاہ پہاڑوں میں نکل گئے مگر انھوں نے شکست قبول نہیں کی۔ راہ میں بہت سے مر گئے لیکن ان کی کچھ تعداد کوئی دو ہزار کے قریب صعوبتیں جھیل کر کشمیر پہنچ گئی اور تھوڑے عرصہ بعد ترکی نے انھیں دعوت دی کہ آکر ان کے ملک میں آباد ہوجائیں۔ یہیں انھوں نے ہمیں اپنی کہانی سنائى۔ بلکہ دراصل ہم خاص طور سے ان کے پاس گئے اور انھیں اس پر آمادہ کیا کہ ہمیں اپنی کہانی سنائیں۔ کیونکہ ادھر تویہ واقعات پیش آرہے تھے اورادھراشتراکی ان واقعات کو بیرونی دنیا سے چھپائے ہوئے تھے۔ پھر ہماری سمجھ میں اس کی وجہ فوراً آ گئی کہ اسے وہ کیوں پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔
جب ہم قازقوں سے ان کے واقعات سن رہے تھے توہمارا تخیل بار بار ماضی کے دھندلکوں میں ابراہیمؑ، اسحٰقؑ، یوسفؑ، موسٰیؑ، داؤدؑ، یوحناؑ اور الیاسؑ پیغمبروں کی طرف جاتا تھا۔ قازقوں اور قدیم عبرانیوں کے طرز زندگی میں بے حد مشابہت ہے یا تھی۔ حالانکہ قازق ترکوں کی طرح مسلمان ہیں اور چودھویں صدی سے بھی پہلے سے مسلمان چلے آتے ہیں۔ وہ اس کے بھی مدعی ہیں کہ ان کی اور ترکوں کی نسل ایک ہی ہے اور ان میں سے بعض واقعی ترکوں سے مشابہ ہوتے ہیں مگربیشتر ان میں سے منگولی ناک نقشے کے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا طرزِ زندگی اس زمانے سے چلا آتاہے جب سارے ایشیا میں گھومتے پھرتے قبیلوں نے ایک عام انداز کی زندگی کا ڈول ڈالا۔ یہ طرز زندگی ان بزرگوں کے طرز زندگی سے بہت ملتا جلتا ہے جن کا ذکر عہد نامۂ قدیم میں آیاہے اور آج کل کے بدوی قبائل کی زندگی سے بھی، اور ان گا تھ اور ہن قوموں سے بھی جو ازمنۂ تاریک میں یورپ کو تخت و تا راج کر رہی تھیں۔ مگر ہمیں اکثرحیرت ہوتی ہے اس خیال سے کہ ہم اس زمانے کو اگرعہد تار یک سے موسوم کرتے ہیں تو آنے والی نسلیں ہمارے زمانے کو کس نام سے پکاریں گی۔
جہاں تک مجھے علم ہے قازقوں کی خانہ بدوش زندگی کے حالات اب تک کسی نے نہیں لکھے لہذا ہم نے ان کے کارناموں اور صعوبتوں کی داستانِ پاستان لکھنے کی کوشش کی ہے مگر کسی غیر کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ خود انہی کے نقطۂ نظر سے۔ اس سے پہلے کہ ان کا طرز زندگی فراموش ہو جائے ہم یہ دکھا نا چا ہتے ہیں کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے اوراب بھی دل و جان سے ہیں اور ان پر اشتراکیت کا عذاب نازل ہونے سے پہلے وہ کس قسم کی زندگی بسرکرتے تھے، جب انھیں ایک گھٹیا نوآباد قوم قرار دے کران کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا گیا تو انھوں نے اسی طرح مدافعت کی جیسے ہم نے ہٹلر کے تفوق جتانے پر کی تھی۔ چین کے صوبہ سنکیانگ یا جسے غیر چینی باشندے مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، میں بسنے والے آٹھ لاکھ قازقوں میں سے کم ازکم ایک لاکھ اب مر چکے ہیں۔
جب یہ بچے کھچے تارکین وطن کشمیرپہنچے تو جوکچھ بھی مختصر حالات ہیں اس عظیم قازقی داستانِ پاستان کے اخباروں میں پیش کیے گئے، ان سے ایک غیرمعمولی اخلاقی توانائی اور جرات مندانہ سرتابی کا اظہارہوتا تھا۔ اس واقعہ میں بہ انداز دگر وہی عزم صمیم کارفرما نظرآتا ہے جوان پیشرو زائرین میں موجزن تھا جنھوں نے انگلستان کو ترک کر کے بحر اوقیانوس کے اس پار ایک نئی جماعت کے قیام کی ٹھانی تھی یا ان بضد اور باہمت بنی اسرائیل میں پایا جاتا تھا جنھوں نے فرعون سے سرتابی کی اور حضرت موسٰیؑ کی سرکردگی میں صحرامیں نکل کھڑے ہوئے اور ان دس ہزار یونانیوں میں بھی کارفرما تھا جن کے ایشیا کے ایک اور علاقے سے بچ نکلنے کے واقعے کو زینوفون نے لافانی بنا دیا۔ جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ قازق محسوس کرتے ہیں کہ کشمیر میں وہ سکون سے نہیں رہ سکیں گے اور حکومت ترکیہ کے مدعو کرنے پر ترکی جانے والے ہیں تو ہم نے طے کر لیا کہ ہم خود ترکستان جائیں گے اوران سے معلوم کریں گے کہ انھوں نے اس درجہ خوفناک سفر کو طے کرنے کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں کیوں ڈالا اور پھر آزادی تک پہنچنے کے لیے انھوں نے جو دو ہزار میل کی مسافت طے کی اس میں ان پر کیا گزری۔
یہ داستان دراصل انیسویں صدی کے اختتام پر ١٨٩٩ء سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ سال ہے جس سال عثمان بطور یعنی عثمان سورما پیدا ہوا۔ چینی تقویم کے مطابق جس کی پیروی قازق کرتے تھے۔ یہ سال “جنگی سورما” کا سال شمارکیا گیا۔ اس زمانے میں قازق قبائلی ہمیشہ کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ چنگیز خاں ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے زمانے سے۔ روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ سے یہ طے کیا کہ کس کے خیمے دائیں ہاتھ کو اورکس کے خیمے بائیں ہاتھ کو لگائے جائیں گے چا ہے میدان ہوں چاہے یہودیہ کی پہاڑیاں۔ بالکل اسی طرح قازقوں نے اپنے درمیان اور منگولی پڑوسیوں کے درمیان کوہ الطائی اور کوہ ملکوتی اور ان پہاڑوں کے بیچ کی زمین جو زنگاریہ کہلاتی ہے، عبرانی بزرگوں کی طرح تقسیم کرلی۔ کچھ اور لوگ جو اس حصۂ زمین پر رہتے تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے وہ بھی رہتے رہے۔ عبرانی بزرگوں ہی طرح موسموں کے مطابق قازق اپنے خیموں کی جگہ بدلتے رہے۔
موسم بہار اور موسم گرما میں یہودیہ سے کہیں اونچے پہاڑوں پر قازق چڑھ جاتے، پہاڑوں کی چراگاہیں سطح سمندر سے دس دس بارہ بارہ ہزار فٹ بلندی پرہوتیں۔ برف کی تہ تک جہاں برف ہمیشہ جمی رہتی ہے ان میں رس بھرا سبزہ لہلہاتا رہتا۔ جب خزاں کی سرد ہوائیں برف بدوش آتیں تو یہ قبائل وسطی ایشیا کے وسیع صحراؤں اورلق دق میدانوں کے کنارے اُتر آتے۔ یہاں انھیں اپنی روزی بلکہ رہائش اور لباس کے لیے بھی خدا ہی کا آسرا ہوتا یا پھر اپنے مویشیوں کا۔ اس سارے علاقہ میں قازق جہاں چاہتے گھومتے پھرتے۔ اکثر ان کی کلائیوں پر شِکرے بیٹھے ہوتے جیسے کسی زمانے میں ہمارے بڑوں کو ان کا شوق تھا۔ وہ اپنے گھوڑوں پر سوار چلتے رہتے اور کئی کئی مصرعوں کے بند گاتے جاتے اور بند کسی لمبی آکار پر ختم ہوتا اور یہ آکار وادیوں میں دیر تک ارغنوں کی طرح گونجتی چلی جاتی۔
ترکی میں جو قازق مہاجر اب موجود ہیں ان میں سے سب نہیں بیشتر وہ ہیں جن کا تعلق کیرائی قبیلے سے ہے، یہ قبیلے والے اُلّو کے پروں کا ایک طرہ اپنی تمک یا ٹوپی میں لگاتے ہیں تاکہ قازقوں کے دوسرے قبیلوں میں ممیّز رہیں۔ پورے کیرائی قبیلے کے افراد کی تعداد لاکھوں پر ہے لیکن اشتراکیوں کی عملداری سے پہلے عموماً وہ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے، ہر چھوٹے قبیلے میں کوئی سو خاندان ہوتے تھے، تین چار سو افراد۔ ان کا ایک سردار ہوتا تھا، دولت کے اعتبار سے وہ چاہے مالدار نہ ہوں لیکن جانوروں کے لحاظ سے وہ آسودہ حال ہوتے تھے۔ ایک اوسط قبیلے کے پاس کچھ انفرادی اور کچھ شرکتی سب ملا کر کوئی دس ہزار بھیڑیں، دو ہزار مویشی، دو ہزار گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ ہوتے، لہذا جہاں ان کا پڑاؤ ہوتا وہاں شور مچا رہتا۔ بے شماربھیڑیں اوران کے بچے ممیاتے، مویشی ڈکراتے، اونٹ بَلبلاتے، ان آوازوں میں اونٹ کے گھونگھرؤں کی جھنکار، مویشیوں کے گلے میں لٹکے ہوئے گھنٹوں کی آواز اور بھیڑوں کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں کی صدائیں شامل ہو کر عجب شور برپا کرتیں۔
جب قازق پڑاؤ بدلتے توجتنے تندرست جا نور ہوتے سب پر قبیلے والوں کا طرح طرح کا سامان لادا جاتا اور چھوٹے بچے بھی لاد د یے جاتے۔ بچے جب ذرا بڑے ہو جاتے تو انھیں پہلے بھیڑ پر سوار کیا جاتا،پھر گائے پر اور آخر میں گھوڑے پر۔ یوں چھوٹی سی عمر ہی میں ہرقازق لڑکا اور لڑکی عمدہ شہسوار بن جاتی۔ چینیوں یا اشتراکیوں سے بہت سے لڑکوں نے اپنی پہلی لڑائی دس سال کی عمرمیں لڑی، حالانکہ جدید قازق رہنماؤں میں سب سے مشہور رہنما عثمان بطورجن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے بارہ سال کی عمرسے پہلے کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوا۔
لڑائی کے فن میں عثمان بطور کا استاد ایک چھاپہ ماررہنما بوکو بطور تھا۔ یہ قازقوں میں اسی طرح مشہورتھا جیسے انگلستان میں رابن ہڈ، البتہ مشرقی ترکستان کے باہر اسے بہت کم لوگ جانتے تھے۔ بوکو بطورکے زمانے میں مانچوحکومت تھی۔ ٹیکس لینے والے چینی حکام قازقوں کے علاقوں میں در آتے اور ان کے مویشی زبردستی لے جاتے، اسے وہ ٹیکس وصول کرنا کہا کرتے؛ اسی طرح چینی کسان گھس آتے اور قازقوں سے ان کی کھیتی باڑی کرنے کی زمین چھین لینے کی کوشش کرتے۔ ان دونوں حملہ آوروں سے قازق لڑتے رہتے۔ بعد کے زمانے میں چینی اور روسی اشتراکیوں نے کوشش کی کہ قازق مارکس کے بتائے ہوئے طریقوں پراپنی زندگی بسرکریں۔ وہ قازقوں کو پکڑ لے جاتے اور ان سے زمینوں پرغلاموں کی طرح کام لیتے یا روسی مالکوں کی کانوں اورکارخانوں میں ان سے جانوروں کی طرح سلوک کرتے۔ قازق ان اشتراکیوں سے مسلسل لڑتے رہے۔
قازقوں کا ایک سردار حسین تجّی آج کل ترکیہ میں دیویلی کے قریب رہتا ہے، ہم نے جب اس سے دریافت کیا کہ تم نے اپنا وطن کیوں چھوڑا؟ تو اس نے کہا:
“جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ انسان مرجائے۔ جانور انسان کو خدا سمجھتا ہے، یہ بالکل لغو بات ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کو خدا سمجھنے پر مجبور کیا جائے۔”
اس سے تقریباً ایک صدی پیشتر ایک اور قازق رہنما کائن سری نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات اس وقت کہی تھی جب روسیوں نے ایک قازق کو رشوت دے کر صلح کی شرطیں منوانی چا ہی تھیں۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ روسی قاصد نے قازق سے جب پوچھا : “مضبوط سینگوں والا مینڈھا چاہے کتنے ہی بڑے گلے کا رہنما کیوں نہ ہو کیا شیر کا مقابلہ کر سکتا ہے؟”
کائن سری نے کہا:
“وہ شخص جو کسی بڑے مقصد کے لیے جال بچھاتا ہے اپنی مردانگی کو جال ہی میں چھوڑ جاتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ انسان لڑ کرمرجائے یا بے آب صحرا میں دم توڑ دے، بجائے اس کے کہ بےعزتی کو قبول کر لے اور غلام بن کر زندہ رہے؟”
اس عقیدہ کے ساتھ ہمارے ہی زمانے کے قازق کمرمیں تلوار لگاتے، ہتھ گولے پیٹی میں لٹکاتے، رائفل یا مشین گن شانے پر آویزاں کرتے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر میدان جنگ میں کود پڑتے، اب ان میں چنگیز خاں اوراطلا اور تیمورلنگ کی طرح ملک گیری یا کشورکشائی کا جذبہ نہیں تھا، وہ اب آخری لڑائی لڑ رہے تھے اپنے محبوب طرز زندگی کو بربادی سے بچانے کے لیے۔ دو نہایت قوی شہنشاہیاں سوویت یونین اورچین، چنگیز خاں سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ بے رحم، اسے مٹا دینے پر تلی ہوئی تھیں۔ قازقوں کو اس کا احساس تھا کہ اتنے زبردست غنیموں سے وہ کبھی جیت نہ سکیں گے۔ مگر اس کے باوجود ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ حسین تجّی اور کائن سری کی طرح وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔
وہ لڑائی جوچینی قومی تحریک کے خلاف شروع ہوئی اور بعد میں چینی اور روسی متفقہ اشتراکیت کے خلاف جاری رہی، ۱۹۳۰ء اور ۱۹۵۱ء کے درمیا نی وقفوں کے ساتھ نہایت شدّت سے بڑھتی رہی۔ ۱۹۵۶ء میں یہ جنگ اپنے پورے عروج پر تھی۔ تکلا مکان کے لق و دق صحرا اور شمالی تبت کے سنگلاخ پہاڑوں میں قازق تارکینِ وطن کشمیر پہنچنے کے لیے راہ تلاش کررہے تھے۔ جہاں تک ہمارے قصے کا تعلق ہے اس ہجرت کا انجام پندرہ مہینے کے بعد ٥٤،١٩٥٣ء میں ہوا : یعنی کشمیر سے ترکی کا ہوائی، بّری اور بحری سفر۔ یہاں ترکی حکومت کی مہربانی سے ان قازق مہاجرین کو مسکن ملا اگرچہ شاید وہ پکی چھتوں وانے مکانوں پر اپنے خیموں ہی کو ترجیح دیتے ہوں۔
قازقوں کا قصّہ سنانے سے پہلے ان خاص خاص اشخاص کا تعارف کرا دینا ضروری ہے جن سے ہمیں حالات معلوم ہوئے۔ پہلا شخص علی بیگ ہے، یہ اپنے وطن میں ایک سردار تھا۔ ترکی قانون کسی ایسے عہدے کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ شاید اعلیٰ افسروں کے علاوہ ترکیہ میں سب انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے لیکن علی بیگ ان افراد میں سے ایک ہے جو برابر ہوتے ہوئے بھی اوروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ جس کسی نے بھی سلیحلی میں علی بیگ سے اُس کے گھر پر ملاقات کی ہے اس نے خود دیکھ لیا ہوگا کہ وہ اب بھی کوئی تین سو خاندانوں کے قبیلے کا سردار ہے۔ اسی کے پڑوس میں اس کا زمانۂ جنگ کا رفیق و معاون حمزہ رہتا ہے۔ علی بیگ اور حمزہ، انہی دونوں نے قازقوں اور اشتراکیوں کی طویل کش مکش کے واقعات ہم سے بیان کیے ہیں جنھیں ہم اس کتاب میں درج کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ اسی جدال و قتال میں نمایاں طور پر بسر ہوا ہے، ہم ان کے بے حد شکر گزارہیں اور دل سے مدّاح ہیں۔ اور اگر ہم سے سمجھنے میں کہیں کوتاہی ہو گئی ہو یا نادانستگی میں ہم سے کوئی غلط بیانی ہوگئی ہوتو ہم صمیم قلب سے ان سے معافی کے خواستگار ہیں۔ اس موقع پر ہم اپنے اس انگریز دوست کی بھی ستائش کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ ترکی گیا اورترجمان کے متفرق فرائض ادا کرتا رہا۔ ہم ڈگلس کیرو تھرز رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے طلائی تمغہ یافتہ کے بھی شکر گزارہیں جنھوں نے وسطی ایشیا کے متعلق اپنی بے مثل جغرافیائی معلومات نہایت کشادہ دلی سے ہمارے سامنے پیش کر دیں اور اپنی نادر تصاویر کا قیمتی ذخیرہ بھی ہمارے حوالے کردیا۔ آخرمیں حسن، علی بیگ کے بیٹے کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے کہ بہت سا ترجمے کا مفید کام انھوں نے کیا۔
آسودگی کے زمانے میں علی بیگ کے پاس تین بڑے خیمے تھے، یعنی ہر بیوی کے لیے ایک خیمہ۔ ان خیموں میں علی بیگ کی بھیڑوں ہی کے اون سے بنائے ہوئے نمدے کا استر لگا ہوا تھا۔ علی بیگ چونکہ سردار تھا اس لیے اس کے خیمے سفید تھے، باقی قبیلے والوں کے خیمے یا تو کالے تھے یا بھورے خاکستری۔ جب وہ اپنی جاڑوں کی قیام گاہ سے گرمیوں کی قیام گاہ کو روانہ ہوتا تو ہر خیمہ اتار لیا جاتا اور اس کے مختلف حصّے جو کئی کئی من کے ہوتے لپیٹ کر اونٹوں اور بیلوں پر لاد دیے جاتے۔ ہر خیمے کے دس یا بارہ حصّے ہوتے تھے۔ جب ان سب کوجوڑ کر خیمہ نصب کیا جاتا تو اس کی سوزن کاری کی سقف کوئی تیس فٹ کے قطرمیں پھیلی ہوتی۔ اس کے بیچوں بیچ دھواں خارج کرنے والے گول سوراخ کے نیچے ایک بڑا آہنی ظرف ہوتا جسے پانچ چھ قوی الجثہ آدمی بہ مشکل اٹھا کرعلی بیگ کے بڑے سے بڑے اونٹ پر لادتے۔ ان دنوں علی بیگ “مِنگ باشی” یعنی ہزار خاندانوں کا سردار تھا اور اس کے ذاتی مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کی تعداد ہزاروں پر پہنچتی تھی۔ جس قبیلے کا علی بیگ سردار تھا، اس قبیلے والوں کے پاس تین لاکھ بھیڑیں، چودہ پندرہ ہزار چھوٹے بڑے مویشی، نو دس ہزار دودھیالی گائیں اور شاید ایک ہزاراونٹ تھے، ان کے علاوہ اتنے گھوڑے تھے کہ ہر مرد، عورت، لڑکے اور لڑکی کو سواری کے لیے ایک ایک گھوڑا مل جائے۔
علی بیگ اور حمزہ اپنے وطن میں پڑوسی تھے۔ حمزہ کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اپنی قوم کے دشمنوں سے اس نے دست بدست کم سے کم ایک سو سولہ لڑائیاں لڑی ہیں۔ اس وقت بھی اس کی عمر صرف۳۳ سال ہے لیکن دس سال کی عمر میں وہ اپنے بیس سالہ بڑے بھائی یونس حجی کے شانہ بشانہ لڑائی میں شریک ہوا تھا۔ قد و قامت میں وہ علی بیگ سے چھوٹا ہے لیکن ذہنی اعتبار سے وہ اتنا ہوشیار ہے کہ بیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے کرنل کے برابر کا رتبہ اس نے حاصل کرلیا تھا۔
اپنے وطن مشرقی ترکستان میں علی بیگ، حمزہ اور ان کے قبیلے والے موسم گرما میں زیادہ تر دہی اور پنیر کھاتے اور جاڑوں میں گوشت، روٹی تمام سال کھاتے تھے۔ قازق گھر والیوں کو اپنی اس ہنرمندی پر بڑا ناز ہے کہ دودھ سے وہ چھبیس قسم کی چیزیں بنا سکتی ہیں۔ ان میں پتھر کی طرح سخت، بھیڑ کا پنیرہوتا ہے جسے وہ اشتہا انگیزی کے لیے کھانے سے پہلے چباتے رہتے ہیں اور خمیر کی ہوئی چھاچھ “کومیس” بھی ہوتی ہے جسے سفرمیں مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے ہیں اور اسے دعوتوں میں مزے لے لے کر پیتے ہیں۔
سب سے اچھی کومیس وہ سمجھی جاتی ہے جو گھوڑی کے دودھ سے تیار کی جاتی ہے لیکن عموماً ہرجانور کے دودھ سے تیار کی جا سکتی ہے۔ حسب ضرورت دودھ دینے والا جانور ہونا چاہیے۔ اشتراکیوں کی تاخت سے پہلے وہ قازق خاندان بہت غریب سمجھا جاتا تھا جس کے خیمے میں کومیس کا ایک مشکیزہ آویزاں نہ نظر آئے۔ مشکیزہ کے منہ میں ایک ڈوئی سی پڑی رہتی اور جب بھی گھر کا کوئی آدمی اس کے قریب سے ہو کر گزرتا تو زور زور سے اس ڈوئی کو گھما دیتا تاکہ خمیر خوب اچھا اٹھے۔
ترکیہ میں ایک اور مہاجر جو خصوصیت سے قابل ذکرہے، وہ شخص ہے جس نے کوہ الطائی کے عثمان بطور کے حالات ہمیں بتائے۔ اس کے ساتھی اسے کارا ملّا کہتے ہیں، بھاٹ کارا ملّا۔ ہماری ملاقات سے کچھ ہی پہلے کارا ملانے عثمان سورما کی شان میں ایک رزمیہ نظم کہی تھی۔ ہم دیویلی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، ہم نے اسے اپنی جائے قیام پر بلا کر اپنے دستی ٹیپ ریکارڈ پر یہ نظم ریکارڈ کرلی تھی۔ ترکیہ کے عین قلب میں یہ ایک چھوٹا سا تجارتی شہر ہے سلیحلی کی بستی سے چارسو میل کے فاصلے پر۔ سلیحلی میں قازق مہاجروں کا ایک اور گروہ ٹھہرا ہوا تھا جس میں سب ملا کرسات آٹھ سوقازق تھے۔
کارا ملّا نے اپنی رزمیہ نظم کچھ گا کراور کچھ لحن سے اور کچھ تحت اللفظ سُنائی۔ جس پس منظر میں اس نظم کو پیش کیا گیا وہ نہایت نامناسب تھا۔ اپنے وطن مشرقی ترکستان میں کارا ملّا نہایت اعزاز کے ساتھ سردار کے خیمے میں بیٹھتا۔ خیمے کے بیچ میں بڑی سی دیگ اُپلے یا لکڑی کی آنچ پرچڑھی رہتی۔ بل کھاتا ہوا دھواں آہستہ آہستہ خیمے کی نمدہ دارسقف کی طرف اٹھتا اور اوپر کے گول سوراخ میں سے نکل کر رات کی سرد ہوا میں تحلیل ہو جاتا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیمے کے دروازے کا پردہ اُٹھتا اور مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں چپکے سے اندر آجاتیں۔ جوجو اندر آتا جاتا اپنے کفش پوش ایک طرف کو اتار دیتا اور حسب حیثیت قریب یا دور کی جگہ پر بیٹھتا جاتا۔ خیمے کی درمیانی آگ کے چاروں طرف زمین پر نمدے کا فرش ہوتا۔ گدوں، نمدوں اور گھر کے بُنے ہوئے قالین پاروں پر سب آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے خاموش اور آنکھیں پھاڑے۔
دیویلی میں کارا ملّا کے سامعین صرف چھ سات قازق ہو تے جو اسی کی طرح مہاجرتھے اور اسی کی طرح انمل بے جوڑ یورپی کپڑے پہنے ہوتے جو ترکی ہمدردوں کے عطا کردہ ہوتے۔ ان کے علاوہ سامعین میں ایک ترکی فلسفی تھا، لسانیات کی پروفیسر ایک ترکی خاتون تھیں، ان کے شوہرجو انہی کی طرح اسی جامعہ میں ایک مدرس تھے، ان دونوں کا ایک مشترک معاون تھا قازق زبان بولنے والا، ہمارا وہ ساتھی جسے ہم انگلستان سے لائے تھے اور اس وقت ریکارڈنگ مشین چلا رہا تھا۔ خیمے کے خاموش پردے کے بدلے یہاں ایک لکڑی کا دروازہ تھا، جب اس میں سے لوگ اندر آتے یا باہر جاتے تو یہ زور سے چرچراتا۔ ذرا ذرا سی دیر کے بعد کوئی لاری شور مچاتی کھڑکی کے قریب سے گزرتی رہتی یا مرغا بانگ دینے لگتا، اور جب ہم نے ریکارڈ مکمل کرنے کے بعد کارا ملّا اور اس کے دوستوں کو سُنایا تو یہ ساری آوازیں بھی اس میں شدت کے ساتھ موجود تھیں۔
مشرقی ترکستان میں قازقوں کے گرمائی مسکن شاہراہوں سے اتنے فاصلے پر ہوتے تھے کہ لاریوں کے دھماکوں سے ان کے سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا تھا لیکن بعد کے زمانے میں یہ لاریاں ان کے سرمائی مسکنوں کے قریب سے گزرنے لگی تھیں، یہ لاریاں عموماً روسی اشتراکیوں کی ہوتی تھیں اور ان میں مشرقی ترکستان کی لوٹ کا سامان بھرا ہوتا تھا اُسی لُوٹ کو وہ خراج کہتے تھے۔ زندہ جانور، کسانوں سے چھینا ہوا بے پیسے کوڑی کا گیہوں، وہ خام دھاتیں اورسونا تک لُوٹ کے سامان میں شامل ہوتا تھا جسے الطائی میں بیگاروں سے کھدائی کر کے حاصل کیا جاتا تھا۔
عثمان بطورکا جو رزمیہ گانا کارا ملّا سنایا کرتا تھا اس میں بھی قازق شاعری کی طرح قدیم تاریخ اور روایت کے اتنے ناقابل فہم اشارے اورحوالے تھے کہ ہم کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اس میں ایک مصرع تھا “وہ جو طلائی کفتان پہنتا ہے”، اس پر ہم دیر تک غور کرتے رہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر چند ہفتے بعد ہم کونیا کا عجائب گھر دیکھنے گئے جس میں رقص کرنے والے درویشوں کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ یہاں ہم نے دیکھا کہ اس فرقے کے بانی نے چھ سات سو سال پہلے ایک قسم کا خرقہ پہنا تھا جو کفتان کہلاتا تھا۔ یہ ایک خاص قسم کا کرتا تھا جو سینہ بند پر پہنا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کا پہننے والا دشمن کے ہتھیاروں سے محفوظ رہتا ہے لیکن شاید بدقسمتی سے عثمان کے کفتان میں یہ خوبی نہیں تھی۔ سالہا سال تک وہ دشمنوں کے گزند سے محفوظ ضرور رہا لیکن بالآخر اشتراکیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
عثمان بطور کومرے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں مگر قازقوں میں اس کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں اوراس کا بھی ہمیں یقین ہے کہ آہنی پردے کے پیچھے بھی اکثر قازق گھرانوں میں یہ کہانیاں کہی جاتی ہوں گی، اس کے مداحوں نے اس کے نام سے ایک سنہ بھی مقررکر دیا ہے، اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی تو قازق کہیں گے “عثمان بطور کے ۴۰ میں یہ بات ہوئی تھی”۔ مگراس عقیدت کے با وجود بعض مہاجروں نے کارا ملّا کی رزمیہ نظم پرخاصی لے دے کی کہ اس نے بطلِ حُرّیت سے شجاعت کے بعض وہ واقعات منسوب کردیے جو دراصل دوسرے سورماؤں کے کارنامے ہیں۔ اس کہانی میں اس قسم کے چند کارناموں کا ذکر آیا ہے۔ اگر ہم نے غلطی سے انھیں کسی غلط شخص سے منسوب کر دیا ہو تب بھی اس کا کافی ثبوت موجود ہے کہ یہ کارنامے انجام ضرور دیے گئے لہذا بہادری کے ان واقعات کو قازقوں کی عظیم رزمیہ کے اجزا سمجھنا چاہیے جو ایک فرد کے کا نا موں سے کہیں زیادہ حیثیت رکھتی ہے کہ ایک پوری قوم کے کارناموں پر مشتمل ہے۔
جب کوئی بھاٹ اپنے گیت سناتا تو ساتھ ساتھ ڈمبری بھی بجاتا۔ ڈمبری ایک لمبا سا ساز ہے ستار کی طرح کا، مگر اس میں صرف دو تار ہوتے ہیں اس لیے اسے ایک قسم دو تارہ سمجھنا چاہیے۔ کارا ملا جیسےاستاد ان تاروں کو کچھ اس انداز سے چھیڑتے ہیں کہ ہر تارایک زخمے سے دو آوازیں دیتا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک زخمے میں دو سُر کیسے پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر مشّاق استاد کے زخمےسے پیدا ہونے والے سُر اس وقت تک گونجتے رہتے ہیں جب تک دوسرا زخمہ نہ لگا یاجائے۔ دیویلی میں کئی دفعہ میں نے اس ساز کو بجاتے دیکھا ہے۔ سازکار کبھی تو بڑے انہماک سے اسے بجاتے ہیں اور کبھی بڑی بے توجہی سے۔ کا را ملا ایک دھن بڑی دلکش بجاتا ہے، یہ دھن بہت موثر اور دکھ بھری تھی،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنے وطن واپس جانے کی آرزو اس میں تڑپ رہی ہے۔ اس نے بتا یا تھاکہ یہ دھن الطائی کی ہے مگر اس کا نام اس نے نہیں بتایا۔
بہت سے قازق ڈمبری بجانا جانتے ہیں اور ترکی میں جن سے ہماری ملاقات ہوئی نہ صرف گانا جانتے تھے بلکہ دھن پر اپنے بول بھی کہہ لیتےتھے۔ سینکڑوں سال پرانی دھنوں پر انھوں نے اپنے نئے نئے بول اُٹھالیے تھے۔ اس قسم کے بہت سے نو ساختہ گانوں کے ریکارڈ بھر کے ہم اپنےساتھ لے آئے لیکن عموماً یہ نئے بول ان لوگوں کے کہے ہوئے ہیں جو ہمیں اپنا گانا سنایا کرتے تھے مثلاً کارا ملاّ، علی بیگ کی تینوں بیویاں، پندرہ سولہ برس کے لڑکے لڑکیاں یہ گانے بناتے اور گاتے۔ایک دھن ہم سلیحلی سے بھی ریکارڈ کرکے لائے تھے۔ یہ دھن ایک عجیب شکل کے ساز پر بجائی گئی ہے۔ یہ سیدھی سادی سی بانسری ہے جس میں صرف تین سوراخ ہوتے ہیں اس بانسری کا نام سیبزکا ہے۔ بانسری بجانے والا بانسری کے او پری سرےکے اندر اپنی زبان اس طرح داخل کرتا ہے کہ اس سے سیٹی کی آواز پھونک مارنے پر پیدا ہوتی ہے۔ یہ بانسری ایک کلے کی طرف رہتی ہے اور دوسرےکلے سے مشک باجے کی طرح ایک بانسری صرف آس دیتی رہی ہے۔ اِس پر اسرار طریقہ سے وہ ایک ایسا غیرمعمولی نغمہ پیدا کرتا ہے جو کارا کی روانی کی عکاسی کرتا ہے۔ کارا، کالا، ارتعش وہ بڑا دریاہے جو کوہ الطائی سےنکل کر سوویت قازقستان اور سائبیریا کے چوڑے چوڑے بنجر میدانوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا دریائے اوب میں جاملتا ہے جوآگے چل کر بحر منجمد شمالی میں جا گرتا ہے۔
جہاں تک ہمیں علم ہے ہم نے جتنے قازقی نغمے دیویلی اور سلیحلی میں ریکارڈ کیے وہ پوری آزاد دنیا کے لیےبالکل ناشنیدہ ہیں سوائے شایدایک گیت کے جسے روسی فوج نے جنگ کے زمانے میں اپنا کوچ کا گیت بنالیا تھا۔ ہمارے ریکارڈ کیے ہوئےسرمائے میں ایک گیت کا عنوان ہے “بگلے کی پرواز”، یہ گیت علی بیگ کی دو بیویوں خدیجہ اور مولیا نے گایا ہے۔ بگلوں کو قازق بُرےشگون کے پرندوں میں شمارکرتے ہیں اس لیےیہ گیت غمناک ہے۔ اسی طرح ایک اور درد ناک گیت “نوحہ” ہے، یہ گیت ایک دس سال کی لڑکی نے گایا ہے اور اس میں اپنے مرحوم باپ کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ “پریم تاؤ میرے وطن کےپہاڑ” ایک ایسا گیت ہے جس میں اپنے وطن کو بڑی دلسوزی سے یاد کیا گیا ہے اور مشرقی ترکستان کے پہاڑوں کی جتنی محبوب چوٹیاں ہیں، ان سب کا بڑی محبت سے اس گیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک اور گیت جو مولیا کا گایا ہوا ہے “بادر بودہ” کہلاتا ہے۔ کارا ملا اور اس کے ہمنواؤں نے “اطفال مکتب” کا گیت ریکارڈ کرایا جس کا مصرع ہے “کرو علم حاصل بنامِ خدا”۔ “یہ بدلتی ہوئی دنیا” اور “اے دنیا” جو دو گیت ہیں، غالباً چار سو سال پہلے ان کی دُھنیں بنی تھیں، لیکن جو بول ان میں گائے گئے ہیں، وہ خاص طور پر ہمارے لیے اب لکھے گئے ہیں۔ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ قازقوں کو اپنی روایتی دھنوں پر نئے بول کہنے کا بڑا شوق ہے۔ ان کے تصور کے لیے تو یہ بات اچھی ہے لیکن سورماؤں کے کارناموں پر جو پرانی رزمیہ داستانیں لکھی گئی تھیں وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
جب بھاٹ کارا ملا اپنی رزمیہ منظومات ریکارڈ کرا چکا تو ہم نے اس سے فرمائش کی کہ عربی رسم الخط میں انھیں لکھ بھی دے، کیونکہ قازق عموماً عربی ہی میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے کارا ملا اور اس کے دوستوں کی دعوت کی۔ اگر الطائی کے سلسلۂ کوہ کے خیمے میں ہم اس کے مہمان ہوتے تو ہم سب کو ایک ہی گہری رکابی میں اپنی انگلیاں ڈبو ڈبو کر کھانا پڑتا اور چونکہ قازقوں کے آداب طعام سے ہم ناواقف تھے اس لیے شاید ہماری انگلیاں جھلس بھی جاتیں، لیکن دیویلی میں ہم سب چھری کانٹے سے کھاتے تھے، اس لیے ترکی ہوٹل کا مالک رکابیوں میں کھانا لگا لگا کر لاتا رہا، حسین تجی کارا ملا کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف مَیں تھا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو حسین تجی نے بھاٹ پر پُر لطف فقرے کسنے شروع کیے۔ کارا ملا خاموشی سے انھیں انگیز کرتا رہا بلکہ اور سب کی طرح بظاہر ان سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ہم سب نے مل کر اسے اکسانا شروع کیا کہ وہ بھی کچھ بولے، اس پر اس نے دبی زبان سے کہا:
“اگر مجھے یہ اپنی ٹوپی عاریتاً دے دے تو میں اسے اس کی تگنی قیمت ادا کروں گا”۔
حسین تجی کا دبلا پتلا ناک نقشہ اور منگولی چہرہ تھا، ہلکی نیلی آنکھیں اور چھدری چگی ڈاڑھی ایک رنگ کالی تھی، اس میں ایک بال بھی سفید نہیں تھا، حالانکہ وہ ساٹھ سے اوپر تھا۔ بہت بڑے گھیر کی گول ٹوپی اس کے سر پر رکھی عجیب چیز دکھائی دیتی تھی۔
حسین تجی سے کارا ملا کم از کم دس سال چھوٹا ہے مگر اپنے معمر دوست کے برعکس اس کے اگلے دانت سارے غائب ہیں۔ اس کی وجہ وہ صعوبتیں ہیں جن سے زندگی میں اسے دوچار ہونا پڑا۔ یقیناً اس کا اصلی نام کارا ملا نہیں ہے جس کے معنی ہیں کالا مُلّا، بلکہ اس کا نام کریم اللہ ہے۔ شاید اس وجہ سے اس کا نام کارا ملا پڑ گیا ہو کہ اس کا رنگ کالا تھا، یا اس وجہ سے کہ وہ تعویذ گنڈے ملاؤں کی طرح کرتا ہو گا۔ بہرحال ہم وثوق سے وجہ تسمیہ نہیں بتا سکتے۔ لیکن وہ ایک سچا مسلمان ہے اور سچے مسلمان جادو ٹونے اور ٹوٹکے نہیں کیا کرتے۔ البتہ قازقوں میں بھی ایسے نیم ملا ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے عالموں کی دیکھا دیکھی اس قسم کے ڈھونگ رچا لیتے ہیں۔
تفصیلی حالات تو آگے چل کر ہمیں معلوم ہوں گے۔ حسین تجّی نے اشتراکیوں کی تاخت سے تنگ آ کر بیس سال ہوئے اپنا آبائی مقام بارکُل چھوڑ دیا تھا اور غزکل – غازکول نام کی ایک جھیل کے قریب بود و باش اختیار کر لی تھی۔ غازکول کے لفظی معنی ہیں ہاتھ بھر کی جھیل ڈول کی شکل کی۔ لہذا اس کا نام سُنتے ہی ہر قازق سمجھ جاتا ہے۔ یہ ایک تنگ اور لمبی سی جھیل ہے جس کی شکل ڈول جیسی ہے۔ قازق نام بامعنی ہوتے ہیں اور جنھیں ان کی زبان آتی ہے وہ نام ہی سے اس کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں۔ ایک نام مجھے بہت پسند آیا “چہکتی چڑیوں کی وادی”۔ لیکن ایسے ناموں میں ایک بڑی دقت بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ دور دور کے علاقوں میں بھی ناموں کا توارد ہو جاتا ہے۔ سست رو خانہ بدوش کےلیے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تیز رفتار زمانے کے باشندوں کے لیے ایک ہی جیسے نام پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
جب حسین تجّی بارکل اور غزکل میں اپنے نمدہ دار خیموں میں بیویوں اور بچوں اور لواحقین کے ساتھ رہا کرتا تھا تو اس کا ایک دوست تھا، سلطان شریف۔ یہ بھی قریب ہی رہتا تھا۔ ہماری ملاقات سلطان شریف سے “مرکز قیام” میں ہوئی۔ یہ مرکز استنبول کے قریب ہے۔ قازق مہاجروں کو زمین دینے سے پہلے ترکی حکومت کچھ عرصہ “مرکز قیام” میں رکھتی ہے۔
سلطان شریف سے ہمارا تعارف مشرقی ترکستان کے ایک اور مہاجر محمد امین بغرا نے کرایا جس کا اب اپنا نہایت خوشنما گھر استنبول کے روبرو باسفورس کے ایشیائی علاقے میں ہے۔ محمد امین قازق نہیں ہے، ترکی کا رہنے والا ہے، یہ ان ترکوں میں سے ہے جو زمیندار ہیں اور تاجر ہیں اور مشرقی ترکستان میں اسی وقت سے آباد رہے ہیں جب سے قازق وہاں آباد ہوئے، ان کی تعداد بھی قازقوں سے زیادہ ہی ہے۔ لیکن محمد امین کا باپ خُتن کا امیر تھا اور خود محمد امین سنکیانگ کی علاقائی حکومت کا نائب صدر تھا۔ مشرقی ترکستان ہی کو چینی لوگ سنکیانگ کہتے ہیں۔ جب ١٩٤٩ء میں اشتراکیوں نے اس علاقائی حکومت پر قبضہ کیا تو محمد امین وہاں سے بچ نکلا اور کشمیر پہنچ گیا۔ اس افتاد کے پڑنے کی وجہ سے وہ ان تمام سازشوں سے واقف ہے جن کی وجہ سے اسے ترک وطن کرنا پڑا اور جو قازق مقاومت میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
علی بیگ، حمزہ، کارا ملا، حسین تجّی، سلطان شریف اور محمد امین سب ابھی جیتے ہیں۔ مشرقی ترکستان کی جہدِ آزادی میں ان کے علاوہ جن لوگوں نے حصہ لیا اور جن کے ناموں اور کارناموں کا اس کتاب میں ذکر ہے، وہ سب مر چکےہیں مگر ان کی یاد ان کے بہادر ساتھیوں کے دلوں میں زندہ ہے۔