قازقوں کو کشمیر میں داخل ہونے سے جب روک دیا گیا تو اس کی تلخی اور بھی زیادہ محسوس ہوئی کہ سرے سے اس کا کوئی اندیشہ ہی نہیں تھا۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ بات تو ہونی شدنی تھی کیونکہ تبتیوں نے پہلے ہی ہندوستانی افسر کو بھڑکا دیا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ قازقوں نے سنکیانگ سے نکلنے اور تبت میں داخل ہونے کی طرح یہاں بھی زبردستی اپنا راستہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے بس یہی کیا کہ سرحد سے ایک میل دور ہٹ گئے۔ مگر اس طرح کہ سرحد انھیں دکھائی دیتی رہے۔ جو خیمے بچ رہے تھے انھیں لگا کر وہ انتظار کرنے اور سستانے لگے۔ اگلے چند ہفتوں میں غزکل کے چند اور قازقوں کے گروہ آ پہنچے اور کشمیر میں داخل ہونے کی انھوں نے بھی درخواست کی مگر انھیں بھی ناکامی ہوئی۔ ہندوستانی افسر نے سب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے وطن کو لوٹ جائیں، لیکن اس مشورے پر کسی نے عمل نہیں کیا۔
کچھ دنوں بعد اشتراکی بھی آ پہنچے۔ انھوں نے اپنی فوجیں سب کی نظروں سے دور رکھیں اور سیاسی قاصد ہندوستانیوں کے پاس بھیجے اور “مفاہمتی ٹکڑیاں” جن میں سنکیانگ کے باشندے شامل تھے، قازقوں کے پاس بھیجیں کہ لگے بندھے وعدے کر کے قازقوں کو وطن واپس چلنے پر آمادہ کریں۔ بعض قازق جو بارکل میں عثمان بطور کے ساتھ تھے، مصالحتی ٹکڑیوں سے پہلے مل چکے تھے اور ان کے متعلق سب کچھ جانتے تھے۔ اتنا کہ ان کی کسی بات پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مہاجر بھی بہت کچھ جانتے تھے، لہذا وہ مفاہمت کرنے والوں کی باتیں سنتے رہے اور انھیں بالکل پریشان نہیں کیا۔ مگر جب وہ روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی نہیں گیا۔
اس کے بعد ایک بے چین خاموشی کا زمانہ گزرا اور اسی میں نو سال کا ننھا عبد المطلب اچانک پڑاؤ میں آتا دکھائی دیا۔ پانچ مہینے سے وہ سفر کر رہا تھا، بالکل اکیلا۔ کیونکہ علی بیگ کے قافلے سے وہ الگ ہو گیا تھا۔ اس کا گھوڑا ابھی زندہ تھا اور ایک بھیڑ بھی، لیکن ان میں سے کسی میں بھی اتنی زندگی نہیں تھی جتنی کہ ان کے مالک میں تھی۔ وہ اپنے بل بوتے پر پہاڑوں اور وادیوں، چشموں اور چٹانوں اور برف اور یخ میں سے ہو کر آیا تھا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس نے کوئی چھ سو میل کا سفر طے کیا تھا۔ بیشتر سفر ایسے علاقے میں سے کیا تھا جو سطح سمندر سے بارہ یا چودہ ہزار فٹ اور بعض جگہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ اور بھی کئی یتیم لڑکیاں اور لڑکے پیچھے رہ جاتے، کیونکہ ہر شخص تھکا ہوا تھا اور اسے خود اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی خبر گیری کرنی دوبھر ہو رہی تھی۔ عموماً یہ ہوتا کہ یہ پیچھے رہ جانے والے رات کو قافلے کے پڑاؤ میں آ ملتے یا دو دو تین تین دن کے بعد قافلے کو پکڑ لیتے۔ کچھ البتہ لاپتہ ہو جاتے۔ عبد المطلب اپنی مرضی سے اکیلا سفر کرتا آیا تھا۔ بچوں کے ایسے نمایاں کارناموں سے قازق واقف ہی ہوتے ہیں مگر عبد المطلب کا زندہ سلامت آ جانا اُن کے نزدیک بھی ایک معجزہ تھا۔
جب عبد المطلب پیچھے رہ گیا تو اس کے گلے میں فوجیوں کا ایک کرمچ کا تھیلا پڑا تھا جس میں روٹی اور خشک غلہ بھرا تھا۔ اس کی کمر میں ایک چُھری بھی پیٹی میں لگی ہوئی تھی۔ جب اسے خشک گھاس یا پتے یا گلی ہوئی لکڑی کہیں مل جاتی تو وہ چُھری اور چقماق سے آگ جھاڑ لیتا۔ علی بیگ کے قافلے کے پیچھے پیچھے وہ اپنے چھوٹے سے گلے کو لیے چلتا رہتا۔ اس کے لیے یہ ایک بچوں کا کھیل تھا جس میں اسے مزہ آتا۔ اُسے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا قافلہ اکثر دکھائی دیتا رہتا۔ لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، قافلہ اس کی نظروں سے اوجھل رہنے لگا اور جب قافلہ اُسے بالکل ہی دکھائی نہ دیتا تو علامتوں سے وہ راستہ معلوم کر لیتا۔ سخت زمین اور پتھروں پر جانوروں کے کھروں کے نشان اسے دکھائی دے جاتے یا پھر بھیڑ بکریوں کی مینگنیاں نظر آ جاتیں، جنھیں قافلے والے جلانے کے کام میں نہیں لاتے تھے۔ وہ ان علامتوں کو بچپن سے جانتا تھا اور ان کے معنی بھی خوب سمجھتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے اسی عمر کے بچے آزاد دنیا میں باپ کو کار چلاتے دیکھ کر ہی کار چلانا خود بخود سیکھ جاتے ہیں۔
اس کی خوش نصیبی سے جس قافلے کے پیچھے وہ چل رہا تھا اس کے بعض جانور اس قدر تھک گئے تھے کہ چلنے سے معذور ہو گئے تھے اور بلندی کی لطیف ہوا نے ان کے مرے ہوئے جانوروں کو سڑنے نہیں دیا تھا اور نہ مردہ خور جانوروں اور پرندوں نے انھیں کھایا ہی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے کرمچ کے تھیلے میں ان کا گوشت بھرتا چلتا اور اپنی چُھری سے گوشت کاٹ کاٹ کر اپنے جانوروں کو کھلاتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ آگ جلا کر گوشت کو سینک لیتا لیکن اس کے جانوروں کو اور خود اسے کچا گوشت ہی کھانا پڑتا۔ رات کو عموماً وہ دو چٹانوں کے بیچ میں کوئی دراڑ تلاش کر لیتا اور اس میں دبک کر آرام سے سو رہتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کوئی درندہ اس کے قریب نہیں پہنچ سکے گا، حالانکہ ایک دفعہ کوئی اس کی ایک بھیڑ رات کو اٹھا بھی لے گیا۔ اس کا لبادہ بھیڑ کی پوستین کا تھا۔ سردی کا وہ ویسے ہی عادی تھا اس لیے یہاں بھی اُسے سردی کم ہی لگتی تھی۔ جب برفیلی کہر چھا جاتی تب بھی وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا۔ کیونکہ رات کو نکلنے والے شکاری جانور بھی اس کہر میں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ لہذا وہ سوتا اور جاگ کر کھاتا اور پھر سو رہتا۔ لیکن جب زبردست ہوا کُہر کو اڑا لے جاتی اور مینگنیوں کو بھی تو پھر راستہ تلاش کرنے میں اسے مشکل پیش آتی۔ اس کے لیے بدترین وقت وہ تھا جب ایک اور راستے نے شمالاً جنوباً اس کے راستے کو کاٹا کیونکہ اُسے معلوم نہیں تھا کہ کب اس کا اور تبتیوں کا سامنا ہو جائے گا۔ مگر وہ ڈرا اب بھی نہیں بلکہ زیادہ ہوشیار ہو گیا۔
عبد المطلب کا آ جانا ایک اعجاز تھا۔ اس سے قازقوں کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ انھوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ اللہ کی مرضی یہ نہیں ہو سکتی کہ اسے اتنی دور صحیح سلامت پہنچا دینے کے بعد عین منزل کے سامنے ہم سب کو مر جانے دے۔
لیکن عبد المطلب بھی مرتے مرتے بچا اور اس کے ساتھ دوسرے قازق بھی۔ ایک رات اشتراکی فوجوں نے اچانک قازقوں پر اسی طرح حملہ کر دیا جیسے غزکل میں کیا تھا۔ لیکن ان سب قازقوں کا دستور تھا کہ سوتے بھی تو اپنی رائفل اور کارتوسوں کی پیٹی اپنی دسترس میں رکھ کر سوتے اور اندھیرے میں بھی اسے اسی طرح تلاش کر لیتے جیسے روشنی میں۔ جلدی سے اپنے کپڑے اور ہتھیار اٹھا کر وہ اپنے خیموں اور خوابگاہوں میں سے نکل کر بھاگے اور پہاڑوں میں جا کر دن نکلنے تک چھپے رہے۔ اس موقع پر عورتیں اور بچے پڑاؤ ہی میں رہے اور یہ پہلا اتفاق تھا کہ اشتراکیوں نے انھیں چھوڑ کر مردوں کا پیچھا کیا۔ مگر جب دن نکل آیا تو قازق پہاڑوں میں اونچے چڑھ چکے تھے اور انھوں نے وہاں سے فوراً جوابی حملہ کیا۔ حملہ آور پسپا ہوئے، بہت سے مارے گئے اور ان کے ہتھیار قازقوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں دو ہتھ گولے بھی تھے۔
اشتراکیوں کے حملے اور قازقوں کے جوابی حملے سے ہندوستانی بہت متاثر ہوئے اور جب ایک بار پھر قازق قاصدوں نے سرحد پر جا کر انھیں بتایا کہ اگر انھیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تو ان کا کیا حشر ہوگا، تو افسر انچارج نے ان کی درخواست پر اس شرط کے ساتھ غور کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ پہلے اپنے ہتھیار سب ان کے حوالے کر دیں تاکہ ان کے پُرامن ارادوں کی تصدیق ہو جائے۔ قاصدوں نے اس شرط کو بخوشی منظور کر لیا اور ہتھیار حوالے کرنے کے لیے ایک وقت کا تعین کر لیا گیا۔ جب وقت مقررہ آیا تو قازق سرحد پر حاضر ہو گئے جہاں ہندوستانیوں نے ان سے ہتھیار رکھوا لیے۔ ان میں وہ دونوں ہتھ گولے بھی تھے جو لڑائی میں قازقوں کے ہاتھ آئے تھے۔ لیکن ہندوستانیوں نے کہا، ہم ابھی تمھیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ دلّی سے ابھی تک اس کی اجازت نہیں آئی ہے۔ لیکن انھوں نے وعدہ کیا کہ اجازت ضرور دی جائے گی۔
اس نئی تاخیر سے نہایت مایوس ہو کر قازق بے ہتھیاروں کے اپنے پڑاؤ کی طرف جانے لگے تو انھوں نے دیکھا کہ ہندوستانی انھیں اشارے سے بلا رہے ہیں۔
جب وہ ہندوستانی افسر کے پاس پہنچے تو وہ بولا: “جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، جب تک میرے پاس اجازت نہ آ جائے، میں تمھیں اپنے علاقے میں داخل نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم اپنے علاقے کے باہر بھی تمھاری حفاظت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ تم اپنا بچاؤ آپ کرو۔ تم اپنے ہتھیار واپس لے جاؤ۔ شاید تمھیں آج ہی ان کی ضرورت پڑ جائے۔”
نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آگاہی عمدہ پیش بینی کا نتیجہ تھی یا نہایت باخبر رہنے کی لیکن یہ واقعہ ہے کہ چند گھنٹے بعد ہی اشتراکیوں نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ ہندوستانی سرحد کے سامنے یہ پوری لڑائی لڑی گئی۔ اس کا آغاز یوں ہوا کہ اشتراکیوں نے گیارہ قازقوں کو گرفتار کیا اور فوراً ان کے سر اُڑا دیے۔ لیکن آخر میں قازقوں نے اپنے دشمنوں کو مار بھگایا۔ اب کے بھی وہ حسب دستور اوپر چڑھ گئے اور بلندی پر سے بے خوف و خطر ہو کر ان پر گولیاں چلاتے رہے اور مقتولین کا بھی پورا بدلہ لے لیا۔ لیکن ان گیارہ مقتولین میں محمد تُروی کاری ایک فرشتہ صفت ملّا بھی تھا۔ قرآن مجید کا بہت عمدہ حافظ۔ اس کی نیک نفسی اور قابلیت کا شہرہ دور دور پھیلا ہوا تھا۔ اس کے مارے جانے کا قازقوں کو بہت رنج ہوا۔
یہ لڑائی آخری تھی۔ سرحد کے ہندوستانی کماندار کو اب یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی کہ اگر انھیں کشمیر میں داخل ہونے سے مزید روکا گیا تو ان کا کیا انجام ہوگا۔ گیارہ بندھے ہوئے قیدیوں کے سر اس کی آنکھوں کے سامنے اُڑائے گئے تھے۔ بلکہ قازقوں کا کہنا ہے کہ اس بھیانک منظر کو ہندوستانیوں نے فلما بھی لیا تھا تاکہ وہ اوروں کو بتا سکیں کہ اشتراکیوں نے کیا کارروائی کی تھی۔ لہذا سرحد ان کے لیے کھول دی گئی اور وہ قازق جو مناس، کیو کلوک، کیو چنگ، بارکل، غزکل اور تبت کے پُر صعوبت سفر کی لڑائیوں سے بچ رہے تھے اب محفوظ و مامون ہو گئے تھے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جو امن و حفاظت کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ لڑائیوں میں کال سے اور خانہ بدوشی کے باعث اشتراکیوں کے ہاتھوں کتنے قازق مارے گئے۔ شنگ کے زمانے سے ماوزی تنگ کی عملداری تک اٹھارہ سال کے عرصے میں کچھ نہیں تو ایک لاکھ قازق ضرور مارے گئے۔
جب بچے کچھے قازق ١٠ اکتوبر ١٩٥١ء کو اجازت حاصل کر کے کشمیر میں داخل ہوئے تو انھیں اپنے باقی ماندہ ریوڑ، گلے اور ذاتی چیزیں اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت مل گئی۔ لیکن انھیں اپنے ہتھیار اور کل سامان جنگ سرحد پر رکھ دینا پڑا۔ اس میں علی بیگ کی دور بین، قطب نما اور نقشہ تو گیا ہی، اس کی وہ تلوار بھی گئی جس کے بارے میں اس کے خاندان میں روایت چلی آتی تھی کہ یہ تلوار خود چنگیز خاں کی عطا کردہ ہے۔
قازقوں کو سب ملا کر سرحد کے تبّتی رخ پر باون دن انتظار میں پڑا رہنا پڑا، اس کے بعد انھیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔ حالانکہ محمد امین بغرا جو ترکی لیڈر تھا اور سری نگر میں رہتا تھا، اطلاع پاتے ہی دلّی روانہ ہو گیا تاکہ ذاتی طور پر قازقوں کی طرف سے مسٹر نہرو سے اپیل کرے۔ غزکل اور ہندوستانی سرحد کے درمیان انھوں نے اشتراکیوں سے چھ لڑائیاں لڑیں اور جب اجازت آنے کے انتظار میں سرحد پر پڑے رہے تو دو اور لڑائیاں ہوئیں۔ تبّتیوں سے بھی ان کی تین جھڑپیں ہوئیں۔ غزکل سے علی بیگ کے ساتھ جو دو سو چونتیس افراد روانہ ہوئے تھے، صرف ایک سو پچھتر زندہ سلامت رہے۔ گیارہ ہزار بھیڑیں، ساٹھ گھوڑے، سینتیس گائیں اور پینتالیس اونٹ لڑائیوں میں، کم خوراکی سے اور بیماریوں میں ضائع ہوئے۔ وہ جانور الگ رہے جنھیں انھوں نے اپنے کھانے کے لیے حلال کیا۔ دوسرے گروہوں کی صحیح تعداد ہمیں معلوم نہیں ہو سکی لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ غزکل سے کوئی دو ہزار آٹھ سو قازق روانہ ہوئے تھے اور پندرہ سو اور اٹھارہ سو کے درمیان ان میں سے کشمیر پہنچے۔ ان میں سے بعض اب بھی ہندوستان میں ہیں۔ اس کے برعکس بعض وہ قازق جو سالہا سال سے ہندوستان اور پاکستان میں رہ رہے تھے، ان مہاجروں کے ساتھ ترکی چلے گئے جو غزکل سے آئے تھے۔ ترکی میں مشرقی ترکستان سے بعض قازق بیس سال پہلے چلے گئے تھے اور اب خاصے مال دار ہو گئے ہیں۔ بھیڑوں کی بدولت نہیں تجارت کی بدولت۔
سرحد عبور کرنے کے بعد قازق سڑک کے ذریعے لیہ گئے جہاں موہادی سین، ہندوستانی جرنیل بنفسِ نفیس ان سے ملے اور انھیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر پہنچانے کی پیشکش کی۔ شاید انھوں نے سمجھا ہوگا کہ قازق اس پیش کش کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہوائی جہازوں سے ڈرتے تھے اور انھیں تباہ کاری کے آلات شمار کرتے تھے، لیکن سب نے اسے منظور کر لیا، سوائے بیس آدمیوں کے جنھوں نے جانوروں اور خیموں کو سڑک کے ذریعہ لے جانے کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ پیش کیا۔ جب قازق کشمیر کے صدر مقام میں پہنچے تو جن کے پاس خیمے نہیں تھے انھیں عارضی طور پر صفا کدل سرائے میں ٹھہرایا گیا لیکن انھیں معلوم ہوا کہ اس کے سارے کمروں میں ترکی اترے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی مال دار مہاجر تھے جو اپنی دولت لے کر موقع سے فرار ہو گئے تھے اور بغیر لڑے جھگڑے امن کی جگہ میں پہنچ گئے تھے۔ لہذا چند قازقوں کو کچھ عرصے کے لیے سرائے کے کھلے صحن میں قیام کرنا پڑا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا اور سردی خوب بڑھ چکی تھی اور ان کے پاس آگ جلانے کو ایندھن نہیں تھا اور ابھی تبّت کے سفر کے مصائب کے اثرات بھی پوری طرح زائل نہیں ہوئے تھے۔
لیکن یہ سارے معاملات اخیر میں ٹھیک ہو گئے۔ اس پر بھی بعض قازقوں نے محسوس کیا کہ وہ کشمیر میں آباد ہو کر خوش نہیں رہ سکتے حالانکہ یہاں کے لوگ انھی کی طرح مسلمان تھے۔ کشمیر کا ہر شخص بے اطمینان تھا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان میں اس پر تنازع تھا کہ کشمیر کس ملک میں شامل ہو۔ یہ سوال ایسا تھا جسے کشمیریوں کو خود حل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے تھا لیکن اس وقت کوئی اور ملک بھی ایسا نہیں تھا جہاں قازق چلے جاتے۔ قازقوں کے سردار علی بیگ، دلیل خان، حسین تجی اور دوسرے جو ہمارے قصّے میں نہیں آتے، اس معاملے پر اکثر غور کرتے اور ہمیشہ اس نتیجہ پر پہنچتے کہ انھیں صبر سے کام لینا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ علی بیگ نے کشمیر میں پہنچنے کے بعد ہی صدر ٹرومین اور مسٹر چرچل کو خطوط بھیجے تھے اور انھیں قازقوں کی زدہ حالت کی طرف توجہ دلائی تھی۔
ادھر قازق منتظر تھے اور سوچ رہے تھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ علی بیگ کے پاس کلکتہ سے اطلاع پہنچی کہ سعالی کا بارہ سال کا لڑکا عبد الستار ستمبر ۱۹۵۱ء میں کلکتہ پہنچ گیا تھا، لیکن ماں باپ کے بغیر کیونکہ وہ دونوں مر چکے تھے۔ چٹھی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دولت مند تاجر عبد الغانم کا بھی بارہ سال کا لڑکا عادل عبد الستار کے ساتھ ہے اور توکتوگن مورخ عبد الکریم کا نو سال کا لڑکا بھی، جسے لانے کے لیے ارمچی پر اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے کے بعد حمزہ اور عادل کو بھیجا گیا تھا، لیکن وہ سعالی اور ترکی سردار یول بارز اور امین طہٰ ملّا کے ساتھ ستمبر ۱۹۵۰ء میں غزکل سے نکل کر لاسہ روانہ ہو گیا تھا۔
علی بیگ نے عبد الستار کو فوراً خط بھیجا کہ تم دونوں لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر کشمیر چلے آؤ۔ انھوں نے خوشی خوشی اس دعوت کو منظور کر لیا۔ یہاں پہنچ کر عبد الستار نے سارے واقعات سُنائے کہ ان تینوں کے والدین کیسے مارے گئے اور یہ لڑکے کس طرح بچ بچا کر کلکتہ پہنچے۔
یہ کہانی بجائے خود ایک رزمیہ داستان ہے اور کشمیر میں جو قازق بھاٹ تھے انھوں نے اسے دلیری کے کارناموں کی ایک نظم بنا دیا۔ یہ نظم قازقوں کے دستور کے مطابق اپلوں اور لکڑیوں کی آگ کی مدھم روشنی میں کسی رات کو خیمے میں گائی جانی چاہیے اور اس طرح پشت در پشت گائی جاتی رہے گی۔ یہ نظم تاریخی اشاروں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی، اس لیے ہم نے وہ سیدھی سادی کہانی لے لی ہے جو علی بیگ اور عبد الستار نے خود سنائی تھی۔ اس پر منظوم داستانِ شجاعت مرتب کی گئی تھی۔ ہم یہاں ایک بار پھر یہ جتانا چاہتے ہیں کہ جب یہ واقعات پیش آئے تو عبد الستار اور عبد الغانم دونوں بارہ بارہ سال کے تھے اور توکتوگن نو سال کا۔
عبدالستار نے کہا:
غزکل سے نکلنے کے بعد ہم ایک مہینے تک سفر کرتے رہے لیکن ہمیں کوئی اشتراکی دکھائی نہیں دیا۔ پھر سردی بہت بڑھ گئی اور برف بہت پڑ گئی اور ہم آگے نہ بڑھ سکے۔
جو ٹولی یول بارز کے ساتھ سفر کر رہی تھی اس میں سب نہیں تو بیشتر چینی تھے اور میرے باپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں چند سفید روسی بھی شامل تھے اور کچھ اپنے آدمی تھے جو قازق تھے۔ ہمارے ساتھ کچھ جانور بھی تھے جنھیں میرا باپ اور یول بارز ساتھ لیتا آیا تھا۔ اور جب ہمیں کھانے کے لیے ان میں سے کسی کو حلال کرنے کی ضرورت ہوتی تو جھگڑا ہونے لگتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک دن یول بارز کا ایک آدمی میرے خیمے میں گھس آیا۔ میرا باپ آگ پر جھکا ہوا تھا۔ اس شخص نے طمنچے سے میرے باپ کی پیٹھ میں گولی مار دی، زخم کاری لگا، باپ نے چیخ ماری اور عبد الکریم اور عادل جو قریب کے خیموں میں تھے، دوڑے ہوئے آئے کہ دیکھیں کیا ہوا۔ اس شخص نے ان دونوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس پر امین طہٰ ملّا ایک جرمن طمنچہ ہاتھ میں لیے غصّہ میں بھرا یول بارز کے پاس پہنچا اور اسے فاشِسٹ ہونے کا طعنہ دیا۔ کیوں کہ اس نے اس قسم کے ظلم کو روا رکھا تھا۔ یول بارز کے ساتھیوں نے امین طہٰ ملّا کو پیچھے سے آ کر پکڑ لیا اور اسے رسیوں میں جکڑ کر تلوار سے مار ڈالا۔ اس کے بعد ان چاروں مرنے والوں کی بیویوں نے واویلا مچایا اور اپنے منہ ناخنوں سے نوچ ڈالے اور ان کے منہ لہو لہان ہو گئے۔ پھر انھوں نے چُھریاں سنبھالیں تاکہ یول بارز کو مار ڈالیں کیونکہ اس نے ان کے شوہروں کو قتل کرنے سے اپنے آدمیوں کو روکا نہیں تھا۔ لیکن یول بارز کے نوکروں نے ان سب عورتوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اور عادل کے دو بیٹوں کو مار ڈالا۔ ان میں سے ایک چودہ برس کا اور دوسرا پندرہ برس کا تھا۔
میرے باپ کے زخم کاری لگا تھا مگر وہ ابھی جی رہا تھا۔ اِس نے مجھے اپنے پاس بلا کر کہا یہ طمنچہ لو اور بھاگ کر پہاڑ میں چھپ جاؤ۔ لیکن دن کو بھاگنے سے میں ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے دیکھ لیں اور پکڑ کر ان کی طرح مجھے بھی مار ڈالیں، لہذا میں عبد الکریم کے خیمے میں گیا۔ وہاں مجھے توکتوگن اور عبد الغانم ملے اور جب رات کا اندھیرا پھیل گیا تو ہم تینوں پڑاؤ میں سے چھپتے چھپاتے نکلے۔ ہم نے اپنے اپنے باپ کے طمنچے ساتھ لے لیے تھے۔ برف خاصی گہری پڑی ہوئی تھی اور ہم پیدل ہی چل پڑے تھے۔ رات کو اور برف گری اور ہمارے پاؤں کے نشان اس میں دب گئے۔ جب ہم کافی دور نکل آئے تو ایک چٹان کے نیچے پڑ کر سو گئے۔ یہ ہمیں معلوم ہی تھا کہ یول بارز کے آدمی ہمیں تلاش نہیں کر سکیں گے۔
اگلے دن صبح کو ہم نے دیکھا کہ یول بارز ہمیں ڈھونڈ رہا ہے اور نام لے لے کر ہمیں آوازیں دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے: “میں تمھیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہے کہ تمھارے ماں باپ مارے گئے۔” مگر ہم نہیں گئے اور وہ ہمارا کھوج نہیں لگا سکا۔
جب شام ہوئی تو ہمیں بھوک لگنے لگی کیونکہ ہم اپنے ساتھ جو تھوڑی سے روٹی لے کر چلے تھے اسے ہم کھا چکے تھے۔ رات اندھیری تھی اور چاند غائب تھا۔ اس لیے ہم دبکتے دبکاتے پڑاؤ پر واپس پہنچے۔ جب ہم ان خیموں پر پہنچے جن میں ہمارے ماں باپ رہتے تھے تو دیکھا کہ انھیں جلا ڈالا گیا ہے اور ہمارے ماں باپ کی لاشیں ان کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔ انھیں دفن تک نہیں کیا گیا تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ برف بہت سخت جمی ہوئی تھی۔ جلے ہوئے خیموں میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لیے ہم دوسرے خیموں میں گُھسے اور ان میں ہمیں بہت کچھ کھانے کو مل گیا۔ پھر ہم نے اپنے تین اونٹ کھولے اور ان پر سوار ہو کر بھاگے۔
چاند نہ ہونے پر بھی یہ لڑکے رات بھر چلتے رہے اور اگلے دن شام تک کہیں نہیں ٹھہرے۔ پھر وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرے اور اس طرح سوئے کہ دو پہرہ دیتے اور ایک سوتا۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ایک اکیلا پہرہ دے گا تو شاید جاگ نہیں سکے گا۔ صبح ہونے سے پہلے ان کا سفر پھر شروع ہو گیا تھا اور دوسرے اور تیسرے دن وہ سفر ہی کرتے رہے۔ چوتھے دن وہ ایک جمے ہوئے دریا پر پہنچے۔ اس پر چلنے سے اونٹوں نے انکار کر دیا۔ اس لیے دریا کے بہاؤ کے رُخ پر وہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ چلتے چلتے وہ کہاں پہنچ جائیں گے۔
انھوں نے پلٹ کر دیکھا کہ کہیں ان کا تعاقب تو نہیں کیا جا رہا ہے تو دیکھا کہ اونٹ پر سوار یول بارز اکیلا چلا آ رہا ہے۔ اس نے آواز دے کر ان سے کہا: “رُک جاؤ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمھیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔” مگر لڑکوں نے اپنے اونٹ اور تیز کر دیے اور یول بارز نے جب یہ دیکھا کہ درمیانی فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے تو اس نے گولی چلائی جو توکتوگن کے اونٹ کے لگی اور اونٹ گر پڑا۔ ادھر توکتوگن گرے ہوئے اونٹ کے نیچے سے نکل کر عبد الستار کے پیچھے سوار ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ ادھر عبد الغانم نے یول بارز پر گولی چلا دی۔ مگر فاصلہ زیادہ تھا اور یول بارز اپنا اونٹ ان کی طرف بڑھائے چلا آ رہا تھا۔ مگر گولی اس نے کوئی اور نہیں چلائی۔
باقی ماندہ دونوں اونٹوں کو مار مار کر تینوں لڑکے بالآخر جمے ہوئے دریا پر سے گزر گئے اور اس طرح دلائی لامہ کے تبتی سپاہیوں کی پناہ میں پہنچ گئے جنھوں نے ان سے ہتھیار رکھوا لیے اور یول بارز کا پیچھا کر کے پکڑ لائے اور اس کی رائفل بھی رکھوا لی۔
عبد الستار نے کہا: “ہماری سمجھ میں ان کی زبان نہیں آتی تھی۔ اس لیے ہم نے سپاہیوں کو اشارے سے بتایا کہ ہم یول بارز کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمیں مار ڈالے گا۔ اس لیے انھوں نے ہمیں اس سے علاحدہ رکھا اور ہمارے ساتھ نرمی کا سلوک کیا اور کہا: “ہم تمھیں لاسہ لے جائیں گے اور دلائی لامہ کے آگے پیش کریں گے وہی تمھارا فیصلہ کریں گے۔” ہمیں اس سے اطمینان ہو گیا کیونکہ ہمارے مقتول والدین بھی لاسہ ہی پہنچنے کے لیے سفر کر رہے تھے اور جب ہم لاسہ پہنچے اور اپنے اونٹوں پر بازاروں میں سے گزر رہے تھے تو پینتیس سفید روسی جو ترکستان سے بچ نکلے تھے ہمارے قریب سے گزرے اور انھوں نے ترکی زبان میں ہم سے پوچھا: “تم بچے کس کے ہو؟” میں نے کہا: “میں عبد الستار ہوں اور سعالی کا بیٹا ہوں۔” ان میں سے ایک چیخ کر بولا “سعالی؟ سعالی تو میرا دوست ہے۔ وہ کہاں ہے؟” اور جب میں نے اُسے بتایا کہ اسے یول بارز کے آدمیوں نے مار ڈالا تو اس نے اپنے ساتھیوں کو اطلاع دی اور سب نے چیخنا شروع کیا: “وہ شخص یول بارز کہاں ہے؟ ہم اسے قتل کریں گے!” میں نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں بتایا کہ وہ پیچھے اونٹ پر سوار آ رہا ہے اور وہ سب کے سب اس کی طرف لپکے لیکن تبتی سپاہیوں نے انھیں روک لیا اور کچھ اور لوگ بھی ان کی مدد کو آ گئے اور انھوں نے سفید روسیوں سے ہتھیار رکھوانے شروع کر دیے۔ اس پر سفید روسیوں نے مزاحمت کی اور اپنے ہتھیاروں سے محروم نہ ہونے کی خاطر وہ لاسہ میں سے تیزی سے نکل گئے اور آواز دے کر ہم سے کہتے گئے کہ ہم تم سے کلکتہ میں ملیں گے، مگر معلوم نہیں پھر وہ کہاں گئے۔ لاسہ میں پہنچنے کے بعد تینوں لڑکوں کو جیل میں نہیں رکھا گیا بلکہ ایک گھر میں۔ وقت آنے پر دلائی لامہ نے انھیں طلب کیا۔ لزا خاں ایک بڈھا قازق ١٩١٣ء میں بوکو بطور کے ساتھ فرار ہو کر تبت آ گیا تھا اور یہیں رہ پڑا تھا۔ یہ بڈھا قازق ترجمان بنا۔
عبد الستار نے کہا: “دلائی لامہ میری طرح ایک کم عمر لڑکا تھا۔ اس کا طرزِ عمل ہمارے ساتھ دوستانہ تھا”۔ تینوں قازقوں سے اس نے پوچھا: “تم کہاں سے آئے ہو؟”
عبد الستار نے جواب دیا:
“ہم ارمچی سے آئے ہیں۔ ہم تینوں کے باپوں کو یول بارز نے قتل کر ڈالا اور ہمارا سامان اور ہمارے اونٹ سب اس نے چھین لیے۔ ہم اس سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے کہ آپ کے سپاہیوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ لیکن ہمارے ہتھیار انھوں نے ہم سے لے لیے۔”
یہ سُن کر دلائی لامہ نے یول بارز کو حاضر کرنے کا حکم دیا اور جب وہ پیش ہوا تو اس نے بڑی سادگی سے پوچھا:
“ان لڑکوں کے باپوں کو تم نے کیوں قتل کیا؟”
یول بارز نے کہا: “مجھے تو اس بات کی کوئی خبر نہیں لیکن شاید میرے آدمیوں سے ان کا جھگڑا ہوا اور وہ مارے گئے۔ مگر میرا ان کے قتل میں ہاتھ نہیں ہے۔”
اس پر دلائی لامہ نے کہا:
“اچھا اسے چھوڑ دو۔ لیکن ان کے باپوں کا سامان کہاں ہے۔ ان کا سونا، اونٹ اور دوسری چیزیں تمھارے پاس ہیں یا ان لڑکوں کے پاس؟”
یول بارز نے کہا: “سب میرے پاس محفوظ ہیں۔”
دلائی لامہ نے کہا:
“سب چیزیں میرے پاس لاؤ اور میرے سامنے ان لڑکوں کے حوالے کرو تاکہ مجھے معلوم ہو جائے کہ کوئی چیز غائب نہیں ہوئی۔”
یول بارز کے خیمے اس عرصے میں اس کے بیٹے یعقوب کے ساتھ لاسہ پہنچ چکے تھے۔ لہذا یول بارز نے اپنے خیموں سے تمام سامان منگایا اور دلائی لامہ کے حکم کے مطابق سارا سامان لڑکوں کے حوالے کر دیا۔
عبد الستار نے کہا: لیکن دلائی لامہ اب بھی برہم تھا اور اس نے یول بارز کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یول بارز نے یہ چال چلی کہ جلدی سے وہاں سے کھسک گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک سرخ چغہ پہن کر آ گیا اور اعلان کر دیا کہ میں نے بدھ مذہب اختیار کر لیا ہے۔ اس پر دلائی لامہ نے موت کا حکم منسوخ کر دیا اور یول بارز کو معافی دے دی۔
مگر وہ لاسہ سے بھی جلدی ہی نکل گیا۔ کیونکہ عبد الستار کے بیان کے مطابق لانچاؤ سے اشتراکی فوجیں اس عرصے میں یہاں آ پہنچی تھیں۔ کسی نے ان سے ان تین قازق لڑکوں کا تذکرہ کر دیا اور اشتراکی کماندار نے عبد الستار کو بلا بھیجا اور پوچھا: “تمھارے باپ کو کس نے قتل کیا؟”
عبد الستار نے اسے بتایا کہ اس کا باپ کس طرح قتل ہوا۔ اس پر اشتراکی کماندار نے کہا:
“اگر تمھارا باپ اس یول بارز کے ساتھ فرار نہ ہوتا تو آج اپنے وطن میں ایک بڑا آدمی ہوتا۔ آؤ اب ہمارے ساتھ چلو۔ ہم تمھیں ارمچی واپس بھیج دیں گے اور وہ عظمت جو سعالی کو وہیں رہ جانے کی صورت میں ملتی، تمھارے بڑے ہو جانے پر تمھیں ملے گی۔”
عبد الستار نے کوئی جواب نہیں دیا اور اشتراکی افسر نے ایک اور چھوٹے افسر کو بلا کر حکم دیا کہ عبد الغانم اور توکتوگن کو بھی بلا لاؤ اور ان تینوں لڑکوں کی نگرانی اس وقت تک رکھو جب تک کہ یہ ارمچی نہ بھیج دیے جائیں۔ لیکن جاڑے کا موسم تھا اور سڑکیں سفر کرنے کے قابل نہیں تھیں اس لیے انھیں لاسہ ہی میں رکنا پڑا۔ عملاً اب وہ اشتراکیوں کی قید میں تھے، لیکن یہ لڑکے اب بھی دلائی لامہ کی پناہ میں تھے اور اسی گھر میں آرام سے رہتے تھے جس میں انھیں لاسہ پہنچنے پر رکھا گیا تھا، دن کے وقت انھیں بازار جانے اور گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔
اتفاق سے لاسہ میں چند ہندوستانی سوداگر آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کبھی مشرقی ترکستان پہلے بھی ہو آیا تھا۔ وہ ترکی زبان روانی سے نہیں بول سکتا تھا، پھر بھی اٹک اٹک کر کچھ بول لیتا تھا۔ اس نے عبد الستار سے باتیں کیں اور لڑکوں نے اسے بتایا کہ اس کا باپ سعالی کس طرح مارا گیا اور یہ بھی بتایا کہ ارمچی میں اشتراکی کیسے آئے تھے۔ عبد الستار نے جب جانچ لیا کہ یہ سوداگر کیسا آدمی ہے تب اس نے کہا: آپ جب موسم بہار میں ہندوستان واپس جانے لگیں تو ہم تینوں کو بھی اپنے ساتھ لیتے جائیے۔
سوداگر نے کہا: “کاش میں تمھیں اپنے ساتھ لے جا سکتا۔ یہ کام بے حد خطرناک ہے۔ میں تو بس ایک تاجر ہوں، کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں، نہ جاسوس ہوں اور نہ سپاہی۔ بھلا میں اتنا بڑا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہوں کہ تبت سے چوری کر کے باہر لے جاؤں؟ اور چوری بھی مال کی نہیں بلکہ تین نو عمر لڑکوں کی کروں۔ اور یہ لڑکے بھی وہ ہوں جنھیں اشتراکی بہت اہمیت دیتے ہوں، یہاں تک کہ ان کے گھر پر پہرہ بھی لگا رکھا ہو؟” لہذا عبد الستار نے اس معاملہ کو ملتوی کر دیا اور پھر کبھی اس کا ذکر نہ کیا۔ حالانکہ سوداگر سے ان لڑکوں کی ملاقات ہوتی رہی اور دوسرے امور پر باتیں ہوتی رہیں۔ ان باتوں میں برسبیل تذکرہ سوداگر کے کلکتہ جانے کا ذکر ہوتا اور اس مال کا بھی جو وہ یہاں سے خرید کر اپنے ساتھ لے جانے والا تھا۔ سوداگر سے لڑکوں نے یہاں تک پوچھ لیا کہ آئندہ وہ پھر کب لاسہ واپس آئے گا۔
جب موسم بہار آیا اور سوداگر اپنے سفر پر روانہ ہونے لگا تو اس نے عبد الستار کو خدا حافظ کہا اور بولا: “میں تین دن بعد چلا جاؤں گا۔ اب آئندہ تم سے شاید ملاقات نہ ہو سکے۔” عبد الستار نے بھی اسے بہ امان خدا کہا اور جلدی سے عبد الغانم اور توکتوگن کے پاس پہنچا اور بولا: “وہ وقت آ پہنچا ہے جس کا ہمیں اتنے دن سے انتظار تھا اور جو کچھ ہمیں اب کرنا ہے وہ بھی ہم پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔” اسی رات کو تینوں لڑکے جو ایک ہی کمرے میں سوتے تھے، پہلے ایک دوسرے کے کندھے پر چڑھ کر اوپر کی کھڑکی میں پہنچے اور پھر باہر چپکے سے اُتر گئے۔ انھوں نے پہلے ہی سے سوچ سمجھ رکھا تھا کہ شہر میں سے کس راستے سے باہر نکلیں گے کہ کوئی انھیں روکے ٹوکے نہیں، صبح ہونے سے پہلے پہلے وہ میلوں دور نکل چکے تھے۔ زیادہ فاصلہ انھوں نے دوڑ بھاگ کر طے کیا تھا۔ کیونکہ سوائے تین چار دن کے کھانے اور تھوڑے سے سونے کے جو دلائی لامہ نے یول بارز سے انھیں دلوایا تھا ان کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ سونے کا ذکر عبد الستار نے خود نہیں کیا لیکن اگر ان کے پاس اس وقت سونا تھا بھی تو کلکتہ پہنچنے میں اور پھر وہاں سے کشمیر جانے میں وہ سب خرچ ہو گیا ہوگا۔
جب صبح کی روشنی پھیلی تو وہ اس سڑک سے ہٹ گئے جس پر چل رہے تھے۔ لیکن سڑک کو انھوں نے اب بھی اپنی نظر میں رکھا، کیونکہ عبد الستار نے سوداگر سے باتیں کرنے میں اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اسی سڑک سے اس کا گزر ہوگا۔ لیکن وہ یہ بھی خوب جانتا تھا کہ یہاں ٹھہر کر سوداگر کا انتظار کرنا اور اس کے ساتھ ہو جانا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ اشتراکی اس سوداگر کا پیچھا کر کے تلاشی لے سکتے تھے اور لڑکے اگر ان کے ہاتھ لگ جاتے تو وہ انھیں پہلے لاسہ واپس لاتے اور بعد میں انھیں ارمچی بھیج دیتے۔
لہذا جب پھر رات آئی تو تینوں لڑکے پھر سڑک پر آ کر چلنے لگے۔ مگر پہلے سے کم رفتار کے ساتھ، کیونکہ وہ سوداگر اور اس کے قافلے سے تین دن پہلے روانہ ہوئے تھے۔ تیسری رات کو جب انھیں خوب اطمینان ہو گیا کہ رات اور دن میں کسی وقت بھی ان کا تعاقب نہیں کیا گیا تو وہ اور بھی آہستہ چلتے رہے اور چوتھی رات کو وہ اسی جگہ چھپے رہے جہاں ایک دن پہلے پہنچے تھے۔ دو جاگ کر پہرہ دیتے رہے اور ایک سوتا رہا، بالکل اسی طرح جیسے یول بارز سے بچ کر بھاگنے میں انھوں نے کیا تھا۔ لیکن موسم خوشگوار تھا اور دھوپ میں ہلکی ہلکی گرمی تھی اس لیے وہ خوش ہوتے رہے اور مطمئن ہوتے گئے کہ جو ساعت بھی گزر جاتی ہے، ان کی گرفتاری کے خطرے کو اور دور کر جاتی ہے، بلکہ اب انھیں یقین ہو چلا تھا کہ مہم ہنسی خوشی سر ہو جائے گی۔
چھ دن بعد سوداگر وہاں پہنچا جہاں یہ لڑکے تھے اور جب عبد الستار نے اپنے چھپنے کی جگہ سے باہر نکل کر اس سے اپنی پناہ میں لینے کی درخواست کی تو سوداگر کچھ دیر کے لیے برہم ہو گیا۔ پھر اس نے لڑکے کو پیار کیا اور اس کی پیٹھ تھپک کر کہا: “تم نے اچھا کیا کہ پہلے نہیں ملے۔ اشتراکیوں نے واقعی ہمارے قافلے کی تلاشی اگلے ہی دن لے لی۔ میرے ساتھ جو لوگ ہیں، وہ قابل اعتماد ہیں اس لیے اب تم کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔” تھوڑی دیر میں ان تینوں لڑکوں کو ہندوستانی کپڑے پہنا دیے گئے۔ یوں یہ مہم سچ مچ ہنسی خوشی سر ہو گئی اور علی بیگ کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت ملنے سے چند ہفتے پہلے یہ لڑکے ستمبر ١٩٥١ء میں کلکتہ پہنچ گئے۔
جب عبد الستار اپنے باپ کے مارے جانے اور اپنے دو دفعہ بچ جانے کا قصہ سُنا چکا تو علی بیگ نے اس سے پوچھا: “تم ارمچی کیوں نہیں چلے گئے۔ اشتراکی افسر نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمھیں وہی عہدہ دیا جائے گا جو تمھارے باپ کا تھا اور وہ سارا ساز و سامان بھی جسے وہ چھوڑ کر یول بارز کے ساتھ چلا گیا تھا۔”
عبد الستار نے فوراً جواب دیا: “اگر میرا باپ چاہتا کہ میں ترکستان میں رہوں تو وہ مجھے اپنے ساتھ نہ لے جاتا۔”
ان تین کم عمر بندوقچیوں عبد الستار، عبد الغانم اور توکتوگن کی کہانی قازق رزمیہ کا نہ صرف موزوں نقطۂ عروج ہے بلکہ اس امر کی بھی بیّن شہادت ہے کہ قازق قوم ان تمام صعوبتوں کے باوجود جنھیں اسے برداشت کرنا پڑا اب بھی کسی سے نہیں دبتی اور بڑی شان سے زندہ ہے۔ وہ لوگ جن کی زندگی اور موت سے یہ صفحات بھرے پڑے ہیں، اپنے پیچھے ایک ایسی نسل چھوڑ گئے ہیں جن کی رگوں میں شجاعت کا وہی خون دوڑ رہا ہے جو بطور روایت کا حامل ہے اور اسی تندی کے ساتھ جس سے کہ ان کے پرکھوں کی رگوں میں دوڑتا تھا۔ بقول قازقوں کے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب ہمارا خون دوسری نسلوں میں منتقل ہوگا یا نہیں اور ہمیں اشتراکیت کے اس عذاب سے کب نجات ملے گی جو ہماری انفرادیت کو غارت کرنے کے درپے ہے، اس انفرادیت کے جس کے پچاس سال تذکرے سے یہ کتاب متعلق ہے۔
قازقوں کی باقی کہانی اب کچھ زیادہ باقی نہیں رہی۔ ہم اس کا بیشتر حصہ سُن چکے ہیں، تھوڑا سا بیان اور رہ گیا ہے۔ کشمیر میں پندرہ اجیرن مہینے قازقوں نے بسر کیے۔ آزاد دنیا نے ان کے یہاں پہنچنے کی اطلاع پائی اور پھر ان کے وجود کو فراموش کر بیٹھی۔ پندرہ مہینے کے اس عرصے کے بعد ترکی حکومت نے کشادہ دلی سے ان قازقوں کو مسکنوں کی پیش کش کی اور اقوام متحدہ نے انھیں خشکی اور سمندری راستے سے استنبول پہنچانے کا انتظام کیا۔ یہاں کی حکومت نے غور سے ان کا مشاہدہ کیا کہ ان میں اشتراکیت کا زہریلا مادہ تو سرایت نہیں کیے ہوئے ہے۔ جب ادھر سے انھوں نے اپنا اطمینان کر لیا تو انھیں ترکی زبان سکھائی گئی، جسے انھوں نے چند مہینوں میں سیکھ لیا۔ حالانکہ ترکی زبان لاطینی حروف میں لکھی جاتی ہے اور قازقوں کو عربی رسم الخط کی عادت ہے۔ بالآخر ١٩٥٤ء میں انھیں مختلف نو آبادیوں میں پہنچا دیا گیا جہاں ترکی حکومت نے انھیں رہنے کے لیے مفت گھر دیے۔ زمینیں مفت دیں، جن پر ہل چلائے جا چکے تھے اور بیج ڈالا جا چکا تھا۔ ان کے ٹیکس بھی اس شرط پر معاف کر دیے کہ وہ دس سال یہاں رہیں اور کھیتی باڑی کریں۔
ان قازقوں نے جو دیویلی بھیجے گئے، جو شہر کائی سری کے قریب ہے، اس پیش کش کو قبول کر لیا۔ ان میں حسین تجی، کارا ملا بھاٹ، کم عمر عبد الستار بھی شامل ہیں جنھیں ہم جانتے ہیں۔ وہ قازق جو علی بیگ اور حمزہ کے ساتھ سلیحلی میں آباد ہوئے، انھوں نے حکومت سے اجازت چاہی کہ کاشت کاری کا کام کرنے کے بجائے انھیں زمین کھودنے کے مزدوروں میں شامل کر لیا جائے تاکہ اپنی مزدوری میں سے جو کچھ پس انداز کر سکیں اس سے بھیڑیں اور مویشی خرید لیں۔ ترکی حکومت نے دانشمندی سے ان کی تجویز کو منظور کر لیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ جانوروں کی پرورش کرنے میں قازقوں کی قوم دنیا بھر کی قوموں سے سبقت لے گئی ہے۔ سلیحلی کے قریب ایک نئے پن بجلی کے منصوبے کے سلسلے میں ایک بند بنایا جانے والا ہے۔ اس کا کام اپریل ١٩٥٥ء میں شروع ہونے والا تھا۔ اس کے بنانے کے لیے بہت سے مزدوروں کی ضرورت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم سے کم اگلے پانچ سال تک سلیحلی کے قازق اچھی مزدوریاں کما سکیں گے، پھر وہ اس لائق ہو جائیں گے کہ دوبارہ گلہ بانی کر سکیں۔
نومبر ١٩٥٤ء میں جب ہم قازقوں کے ترکی میں پہنچنے کے تین مہینے کے بعد ان کے پاس گئے تو انھوں نے اس قلیل عرصے ہی میں چند بھیڑیں خرید لی تھیں، حالانکہ بے روزگاروں کو ترکی حکومت جو گزارہ دیتی ہے وہ ہمارے سکے کے مطابق بارہ آنے یومیہ ہوتا ہے۔ ہم نے ان سے یہ دریافت نہیں کیا کہ یہ بھیڑیں اُن کے پاس کیسے آئیں، کیونکہ قازق اسے پسند نہیں کرتے کہ ان کے معاملات کی پرچول کی جائے۔ مگر ان کی مہمان نوازی کی یہ کیفیت ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنے مہمان کی خاطر تواضع کے لیے وہ اپنے ریوڑ کی آخری بھیڑ بھی بہ خوشی ذبح کر دیتے ہیں۔ ہمارے دو دوست جو ہمارے ساتھ ترکی گئے تھے اور جو قازق زبان خوب بولتے ہیں، سلیحلی میں دس دن علی بیگ کے ہاں مہمان رہے۔ جب انھوں نے اس مہمان نوازی کا بدلہ کچھ غذائی تحفوں سے کرنا چاہا تو علی بیگ بہت ناراض ہوا۔
چونکہ مہمان نوازی کے قوانین توڑنے نہیں چاہئیں اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے پاس بھیڑیں کہاں سے آئیں۔ غالباً کسی مہربان اور دانش مند سلیحلی کے ترک باشندے نے مناس کے اسمٰعیل حجی کی طرح اس بات کو جان لیا کہ قازق ہماری بھیڑوں کو ہم سے بھی اچھی طرح رکھ سکیں گے اور چند بھیڑیں یہ سمجھ کر ان کے حوالہ کر دیں کہ اس میں دونوں کا بھلا ہوگا۔ نومبر ١٩٥٤ء کے آخر میں کوئی سو بھیڑیں اور دو چار مینڈھے ان کے پاس تھے۔ اس کے بعد بچوں کا ایک جھول نکل بھی آیا ہوگا اور ان کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہوگی۔ ریوڑ کی رکھوالی ایک قازق چرواہا اور اس کے بیوی بچے کرتے ہیں۔ اس چرواہے کا انتخاب سب مل کر ایک خاص اجتماع میں کرتے ہیں۔ بھیڑیں ایک سال کے لیے اس کے حوالے کر دی جاتی ہیں، جس کے اختتام پر گنتی کی جاتی ہے اور اُسے دُگنی بھیڑیں لوٹانی پڑتی ہیں۔ جتنی زیادہ ہوں وہ چرواہے کی اور جتنا اون اور پنیر اس عرصے میں تیار ہو وہ بھی اسی کا ہوتا ہے۔ کئی بھیڑوں کے ہاں دو دو اور تین تین بچے ہوتے ہیں۔ اس حساب سے ستمبر ١٩٥٥ء میں گویا ایک سال بعد چرواہے کے پاس کم سے کم اپنی پچاس بھیڑیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ سلیحلی کے قازقوں کے پاس کتنی بھیڑیں ہو جائیں گی۔
علی بیگ اور حمزہ جیسے لوگوں کا مسئلہ جو صوبۂ سنکیانگ میں افسرانہ حیثیت رکھتے تھے، چرواہوں اور زمین کھودنے والوں کے مقابلے میں بہت دشوار ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اسے کیسے حل کر سکیں گے۔ اور یہ آپ جانتے ہی ہیں کہ نجی معاملات کی پرچول کرنا قازقوں کو ناپسند ہے۔ تاہم اس کا ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ضرور کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو بھی حل کر لیں گے۔ اس عرصے میں علی بیگ نے جس کے پانچ بچے تبت کے سفر میں کُہر کی بیماری سے مر گئے تھے، چالیس اور یتیم بچوں کو اپنا متبنی بنا لیا ہے کیونکہ ان بچوں کے والدین کا ذمہ دار اس ترک وطن کے سیلاب میں علی بیگ ہی تھا۔ ان بچوں میں سے بعض اب اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن علی بیگ اپنی نظر میں اور خدا کی نظر میں بھی خود کو ان سب چالیس یتیم بچوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ حالانکہ ترکی قانون اس معاملے میں بالکل خاموش ہے۔ اگر کسی کو بھوکا رہنا پڑے تو سب سے پہلے علی بیگ خود بھوکا رہے گا۔ اس کے بعد اس کے بچے اور سب سے آخر میں یتیم بچے اور ان میں سے بھی اگر ممکن ہو تو سب نہیں۔
لیکن ہمارا خیال ہے علی بیگ، اس کے بال بچے اور متبنی بچے، ان میں سے کوئی بھی سچ مچ بھوکا نہ رہے گا۔ لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ انھیں کچھ عرصے کے لیے روکھی سوکھی ہی پر گزارہ کرنا ہوگا۔ اس خود عائد کردہ فرض سے علی بیگ کیسے عہدہ برآ ہوگا، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔
لیکن علی بیگ، حمزہ اور تمام قازق مہاجروں کا کچھ فرض یقیناً آزاد دنیا پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی سے آزاد دنیا نہ صرف انصاف کرے گی بلکہ ایک خدمت بھی انجام دے گی۔ ایک مثالی زندگی کے لیے قازقوں نے آنسو، پسینہ اور خون بہا کر ایک بہت بڑی جنگ لڑی ہے اور وہ سختیاں جھیلی ہیں جو دوسری عالمگیر جنگ میں بھی ہمیں پیش نہیں آئیں۔ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اشتراکیت کی قوت اور کمزوری کو براعظم ایشیا کے وسیع و بے قرار قلب میں دیکھا ہے جہاں اشتراکی نوآبادیات کے بھیدوں کو آزاد تصورات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی جاتی۔
قازقوں کی اپنی ایک ثقافت ہے جس کی بنیاد مادی دولت پر نہیں ہے، اگرچہ قازق اکثر دولت مند ہوتے ہیں۔ ان کے طرز زندگی نے انھیں معمول سے زیادہ قوت برداشت اور ہمت دی ہے۔ آزاد دنیا سے انھیں بہت محبت ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں اور آزاد دنیا کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔ حالانکہ آزاد دنیا قازقوں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی۔
١٩٤٣ء اور ١٩٤٨ء کے درمیانی عرصے کے سوا، قازق بلکہ سارے مشرقی ترکستان والے ١٩٣٠ء کے بعد سے تقریباً کٹے رہے۔ اس کے کچھ جغرافیائی اسباب ہیں جن کا ذکر ان صفحات میں کیا گیا ہے۔ لیکن صوبہ دار شنگ کے زمانے سے پہلے جب اسکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی، قازقوں کو برطانیہ عظمیٰ اور امریکہ سے ایک ایسی وابستگی ہو گئی تھی جس میں اعتقاد بھی شامل تھا۔
ہمارے پیش نظر اس وقت ایک خط ہے جسے علی بیگ کے بیٹے حسن نے اپنے باپ کی طرف سےلکھا ہے، کیونکہ وہ خود انگریزی سے ناواقف ہے۔ اس میں جس ضرب المثل کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ اس زمانے کی ہے جب سوویت مداخلت نے ان کی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا تھا۔ پچاس سال پہلے خود برطانیہ کے لوگ بھی اسے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔
خط میں لکھا ہے:
“ہمارے ترکستان میں ایک مثل مشہور ہے کہ سورج برطانیہ سے طلوع ہوتا ہے اور برطانیہ ہی میں غروب ہوتا ہے۔ ہماری قوم جانتی ہے کہ برطانیہ ایک طاقتور ملک ہے۔ ثقافتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے۔ ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ ہمارے مصائب برطانیہ کے لوگوں کو بتا دیں۔”
ایک خانہ بدوش سے ایسے خط کے لکھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن علی بیگ نے حسن سے یہی لکھوایا ہے، اور ہاں اس کے سمجھنے میں غلطی نہ ہونے پائے، علی بیگ نے خیرات نہیں مانگی ہے بلکہ صرف ہمدردی اور معاملات کو سمجھنے کی درخواست کی ہے۔
جب ہمارے قازق زبان بولنے والے دوست نے دس دن کے قیام کے بعد سلیحلی سے رخصت ہونا چاہا تو علی بیگ نے اپنی ایک بیوی سے کہا:
“جاؤ۔ تم رخصتی دعوت کی تیاری کرو۔” اور باقی دونوں بیویوں سے کہا: “تم رخصتی نظم لکھو۔ اس نے نظم کی فرمائش کی تھی، اسے نظم ملنی چاہیے۔”
لہذا خدیجہ اور مولیا نظم لکھنے چلی گئیں اور کوئی دو گھنٹے میں انھوں نے اپنی نظم مکمل کر لی۔ حسب دستور اس میں ناقابل فہم اشارے اور حوالے زیادہ ہیں اور طویل بھی بہت ہے۔ سب ملا کر کوئی تیرہ بند ہیں اور ان میں قازق تاریخ کے حوالوں کی بھرمار ہے۔ لیکن ہم نے اس کی صدا بندی کر لی ہے اور ذیل میں اس کا مفہوم درج کرتے ہیں:
“تمھارا آزاد ملک تا دیر زندہ رہے اور تمھاری قوت پائندہ رہے مسٹر چرچل!
ہمیں اشتراکیت کی لعنت سے چھٹکارا دلاؤ
ہماری مدد کرنے کا فیصلہ ابھی کرو
اے شانۂ زریں کے سورما!
اے انگلستان! تیرا نام عظیم ہے اور تیری عظمت عظیم تر،
تیری قوت کی تاریخ ہزار سال سے زیادہ ہے۔
ہمارے سینوں میں امید موجزن ہے کہ ہمارا ملک آزاد کرایا جائے گا۔
اے شانۂ زریں کے سورما!”
قازقوں کا کہنا ہے کہ “شانۂ زریں کے سورما” کا عہدہ چنگیز خان اعظم نے قائم کیا تھا اور عجب اتفاق ہے کہ بالکل اسی زمانہ میں ایڈورڈ سویم نے ١٣٤٨ء میں “ساق بندِ زریں کے سورما” کا عہدہ برطانیہ میں قائم کیا تھا۔ مدت ہوئی کہ قازقوں کا یہ عہدہ ختم ہو چکا۔ اب تو محض اعلیٰ ترین اعزاز کے طور پر اسے برتا جاتا ہے۔
ایسی نظم اور ایسے لوگ آزاد دنیا کو للکارتے ہیں اور غیرت دلاتے ہیں۔ جو کچھ قازقوں پر بیت چکی ہے، اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا وطن دوبارہ آزاد ہو کر رہے گا۔ وہ ایسے ایشیائی لوگ ہیں جن کے سر چینی اور اشتراکی قوتوں کے آگے اب تک نہیں جھکے ہیں۔ ایشیا میں اشتراکی نظام کی قوت اور کمزوری سے یہ لوگ خوب واقف ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اشتراکیت نے اپنے پنجے کس طرح گڑوئے ہیں اور ان پنجوں کو کیسے ڈھیلا کیا جا سکتا ہے۔ قازقوں کے کارنامے اس امر کی صریح شہادت ہیں کہ ایشیا کا دل جس میں اشتراکیت قوت کا مرکز ہے ایسے مردوں اور عورتوں سے بھرا پڑا ہے جو ہر اس چیز سے نفرت کرتے ہیں جس کی نمائندگی اشتراکیت کرتی ہے۔