جو لوگ ان سے واقف نہیں تھے وہ غزکل سے قازقوں کو نکلتے دیکھ کر سمجھتے کہ حملہ آور انھیں بڑی آسانی سے ہلاک کر ڈالیں گے۔ ہزاروں بھیڑیں جن میں کئی کے ہاں بچے ہونے والے تھے، بے قاعدگی سے راستہ کے دونوں طرف برف میں سے کہیں کہیں جھانکتی ہوئی زرد گھاس پر مُنہ مارتی چلی جا رہی تھیں۔ بھیڑوں ہی میں بیل اور گائیں گھریلو سامان سے لدی پھندی بکھری ہوئی تھیں۔ بچے دینے والی گھوڑیوں پر بوجھ لدا ہوا نہیں تھا اور وہ خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں۔ بعض گھوڑیوں کے پیچھے ان کے بچے لگے ہوئے تھے۔ گھوڑے بھی بہت سارے تھے اور اپنی گھوڑیوں اور بچوں کی طرف رشک سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے علاوہ دو کوہان والے بالوں دار اونٹ تھے۔ جن کے بال جاڑے کی وجہ سے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک کی نکیل دوسرے کی دُم سے بندھی ہوئی تھی۔ یوں سب ایک قطار میں چل رہے تھے۔ ان پر سامانِ جنگ لدا ہوا تھا۔ فالتو ہتھیار، نمدے دار خیموں کے حصے، لکڑی کے چوکھٹوں پر احتیاط سے لپٹے ہوئے لکڑی کے بڑے بڑے صندوق جن پر پیتلی چادریں چڑھی ہوئی تھیں، ان میں لباس تھے، ضروری کاغذات تھے اور شاید کچھ کتابیں بھی تھیں خصوصاً قرآن شریف۔ اور ایک اونٹ تھا جو سب سے اونچا اور طاقتور تھا، یہ اپنی پیٹھ پر صرف علی بیگ کی زبردست دیگ اٹھائے بڑے فخر سے چل رہا تھا۔
ان جانوروں کی نگرانی گھوڑوں پر سوار مرد، عورتیں اور بچے کر رہے تھے۔ کم سنوں کو چھوڑ کر باقی سب کے ہاتھوں میں ہتھ گولے، رائفلیں، مشین گنیں یا خود کار ہتھیار تھے۔ دس برس کی عمر سے جو بھی اوپر تھا، مرد ہو یا عورت، ہر ایک ان میں سے ہر ہتھیار کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اس پھیلے ہوئے بے ترتیب قافلے کے آگے اور پیچھے اور پہلوؤں میں گھڑ سوار مردوں کا ایک حجاب سا بنا ہوا تھا۔ جانور آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور یہ نگراں ان سے کچھ فاصلے پر زمین کی ناہمواری اور برف کی گہرائی کے لحاظ سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
تارکین وطن کے اس قافلے کے لیے علی بیگ نے ایسا راستہ انتخاب کیا تھا جو آباد شاہراہوں اور بستیوں سے دُور ہے تاکہ اس قافلے کی اشتراکیوں سے اچانک مُڈبھیڑ نہ ہونے پائے۔ اس قافلے کا رُخ جنوب کی طرف تھا۔ انھیں الطائن پہاڑوں میں سے گزر کر تبت کی شمالی سرحد پر کنلُون پہاڑوں میں جانا تھا۔ علی بیگ جانتا تھا کہ ان پہاڑوں کے پیچھے تبت کی عظیم سطح مرتفع ہے جو سطح سمندر سے بارہ پندرہ ہزار فٹ اونچی ہے۔ لیکن غزکل سے نکلنے کے بعد وہ ایسے علاقہ میں آ گیا تھا جس کا نہ تو کبھی کوئی نقشہ بنا اور نہ کبھی کسی نے اس علاقے میں سفر کیا تھا۔ علی بیگ کا بیان ہے کہ ہم سے پہلے اس علاقے کو کسی نے طے نہیں کیا۔ اس کا ہمیں یقین ہے۔
یہ بات جلدی ہی کُھل گئی کہ غزکل کی لڑائی کے بعد جب اشتراکی واپس چلے گئے تو انھوں نے دیکھ بھال کرنے والے گشتی دستے متعین کر دیے تاکہ قازقوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ سفر کے شروع ہی میں علی بیگ کا قافلہ ایک ایسے ہی دستے کے پھندے میں پھنسنے سے بال بال بچ گیا۔ خوش قسمتی سے علی بیگ نے اپنی دور بین سے سامنے کی پہاڑیوں کا جائزہ لیا۔ اس وقت ان کے راستے کے دونوں طرف چٹانیں تھیں جہاں آگے جا کر یہ گھاٹی تنگ ہوتی تھی وہاں علی بیگ کو شبہ ہوا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ اس نے پتہ لگانے کے لیے چند آدمیوں کو آگے بھیجا۔ جب وہ آگے بڑھ کر ان چٹانوں پر چڑھے تو اچانک کوئی بیس اشتراکیوں کے ایک دستے کے سر پر پہنچ گئے۔ یہ انھیں دیکھتے ہی اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے اور دونوں طرف سے چند گولیوں کے چلنے کے بعد اوپر وادی کی طرف فرار ہو گئے۔ علی بیگ نے ان کا پیچھا نہیں کیا اور کچھ دیر بعد وہ بھی رک گئے، تاکہ قازقوں پر نگرانی جاری رکھیں۔
لیکن تھوڑی دور کے بعد وہ راستہ چھوڑ کر ایک پہلو کی وادی میں مڑ گئے اور علی بیگ کو ان کے پیچھے اپنے آدمی بھیجنے پڑے اس اندیشے سے کہ کہیں قافلے کے ادھر سے گزرنے پر وہ پہلو سے حملہ نہ کر دیں۔ لیکن اشتراکیوں نے اس وقت تک حملہ نہیں کیا جب تک کہ پورا قافلہ گزر نہ گیا۔ اس کے بعد وہ پہلو کی وادی سے نکل “حد ادب” رکھتے ہوئے تعاقب کرتے رہے۔
قازق اپنے بوجھ سے لدے ہوئے جانوروں کو ہنکا کر آگے بڑھتے رہے اور کئی گھنٹے اشتراکیوں کا دستہ ان کے پیچھے منڈلاتا رہا۔ علی بیگ حمزہ اور قائنیش اب اس دستے کی موجودگی سے ہراساں نہیں تھے اور اپنے سرداروں کی طرح قافلے کے دوسرے لوگ بھی ان کے پیچھا کرنے سے خائف نہیں ہو رہے تھے۔ زمین اب پھر بہت شکستہ آ گئی تھی اور جب قافلہ ایک تنگ وادی میں داخل ہوا تو اسے سمٹنا پڑا۔
علی بیگ نے کہا: “اچھا مقام ہے یہ۔”
حمزہ نے تائید کی: “ہاں اچھا ہے بلکہ بہت خوب ہے کیونکہ اس سفر میں یہ پہلا اچھا مقام آیا ہے۔ اگر انھیں شبہ ہو گیا اور انھوں نے تاڑ لیا تو مفت میں ہمیں مصیبت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا اور ہمیں ان سے نمٹنے کا اس سے بہتر موقع اور نہیں ملے گا۔”
علی بیگ اور قائنیش نے ایک رائے ہو کر اس موقع پر چھاپہ مارنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد کے اچھے موقع کو بھی چھوڑ دیا لیکن تیسرے موقع پر علی بیگ نے حمزہ سے کہا: “کتنے آدمیوں کی ضرورت ہے؟”
حمزہ نے کہا: “پانچ یا کچھ زیادہ۔ لیکن بہتر ہوگا کہ راستے کے دونوں طرف پہاڑیوں پر پانچ آدمی اور بٹھا دیے جائیں۔ شاید کوئی اور راستہ بھی ہو جو ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اگر چھاپے کے شبہے میں اشتراکی اس طرف چلے گئے تو ان پر ایک اور چھاپہ پڑ جائے گا اور انھیں زندہ واپس جانا نصیب نہیں ہوگا۔”
علی بیگ نے کہا: “اچھی ترکیب سوچی تم نے۔”
حمزہ نے خود پندرہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور باقی قافلہ خوش خوش آگے بڑھتا رہا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ اتنے میں کسی نے گانا شروع کر دیا اور شکاری گیت کی لمبی تان وادی کی ننگی چٹانوں سے ٹکرا کر گونجتی چلی گئی۔
جب چھاپہ کی وادی سے کوئی آدھ گھنٹہ بعد رائفل چلنے کی آواز آئی تو گانا ایک دم سے بند ہو گیا۔ کوئی تین منٹ تک یا اس سے بھی کم دھماکے سنائی دیے۔
قائنیش نے کہا: “اتنی کم گولیاں چلیں، یا تو چال ناکام رہی یا اس میں سارے ہی پھنس کر مر گئے۔”
پورا قافلہ اب رک گیا تھا اور گانا بھی بند ہو گیا تھا، حالانکہ اس کا حکم کسی نے نہیں دیا تھا اور کوئی ایک منٹ بعد حمزہ اپنے پانچ آدمیوں میں سے تین کے ساتھ سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔
جب حمزہ نے گھوڑے کی لگام کھینچی تو قائنیش نے پوچھا: “شکار کیسا رہا؟”
حمزہ نے ہنس کر کہا: وہ گھوڑوں پر سوار اس صورت سے آگے آئے کہ دو آگے تھے دو پیچھے اور انھوں نے نہ دائیں کو دیکھا اور نہ بائیں کو۔ ہم نے اگلے دو سواروں کو چلنے دیا اور ان کے بعد سولہ سواروں کے دستے کو بھی، اور منتظر رہے کہ پچھلے دو سوار بھی دام میں آ جائیں۔ مگر اگلے دونوں سوار ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکے تھے اور دستہ بھی ہمارے سامنے سے گزر چکا تھا مگر پچھلے دو سوار اتنی دُور رہ گئے تھے کہ تمام چڑیوں کے پھنس جانے سے پہلے ہی مجھے مجبوراً گولی چلانی پڑ گئی۔ دو سو قدم تک تو ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔ ان میں سے تین جو اکٹھے جا رہے تھے، پہلے ہی ہلے میں ڈھیر ہو گئے۔ باقی تیرہ گھوڑوں پر سے کود کود کر راستے کے برابر کی چٹانوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگے مگر وہاں پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے ان کا بھی خاتمہ جلدی ہو گیا۔ پیچھے جو دو سوار رہ گئے تھے انھوں نے گولیوں کی آواز سنتے ہی اپنے گھوڑے پھیرے اور بچ نکلے۔
علی بیگ نے پوچھا: “اور وہ جو دو آگے تھے؟”
حمزہ نے کہا: “ہاں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا وہ کہاں گئے۔ تم نے بھی انھیں دیکھا؟”
قائنیش بولا: “وہ ادھر آئے ہی نہیں۔ اس لیے گولیوں کی آواز سُن کر وہ کسی اور راستے سے کترا کر نکل گئے۔ خیر وہ کسی طرف بھی گئے ہوں، تھوڑی دیر میں وہ بھی سنگوا لیے جائیں گے۔ ہمارے ہر پہلو پر پانچ پانچ اچھے آدمی چھوٹے ہوئے ہیں۔”
علی بیگ نے حمزہ سے کہا: “دو آدمی تمھارے بھی کم ہیں۔ وہ خیریت سے تو ہیں ناں؟”
حمزہ نے بتایا: “سولہ گھوڑے اور سولہ رائفلیں ہاتھ آئی ہیں۔ انھیں لانے کے لیے میں اپنے آدمیوں پر زیادہ بار نہیں ڈال سکتا کہ مبادا ان دو خطائیوں سے راستے میں سامنا ہو جائے۔”
علی بیگ نے قائنیش سے کہا: “چھ آدمی لے جاؤ اور مال غنیمت لے آؤ۔ سپاہیوں کے ساز و سامان کے علاوہ اگر ان کی وردیاں ٹھیک ہوں تو انھیں بھی لے آنا۔ انھیں اٹھانے کے لیے ہمارے پاس خالی جانور موجود ہیں۔ پھر کیا خبر کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو اور اس کے ختم ہونے سے پہلے ہمیں کس کس چیز کی ضرورت پیش آئے۔”
قائنیش گھوڑے پر سوار ہوا اور چلتے وقت ہنس کر کہتا گیا: “لڑے تو حمزہ اور مال غنیمت میں لاؤں۔ اگلی باری میری ہوگی۔”
تھوڑی دیر کے بعد کچھ اور گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور اسے کے بعد ہی دونوں طرف پہاڑیوں پر بیٹھنے کے لیے جو دو دستے بھیجے گئے تھے سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے آ گئے۔ ان میں سے ایک کے پاس چھینے ہوئے دو گھوڑے اور دو رائفلیں بھی تھیں۔
حمزہ سے علی بیگ نے کہا: “بیس میں سے اٹھارہ شکار، اچھا رہا۔” لیکن اگر بیس پورے ہی ہوتے تو شکار ہزار گنا اچھا رہتا کیونکہ وہ دو جو بھاگ گئے جا کر بتا دیں گے کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں، کاش پانچ کے بدلے میں نے دس آدمی تمھارے ساتھ کیے ہوتے تو ان دونوں کا بھی پیچھا کیا جا سکتا۔”
حمزہ نے کہا: “اللہ کی مرضی۔ وہی جانتا ہے کہ ہم انھیں جا لیتے یا نہیں، مگر دس آدمی اور دس گھوڑے پانچ آدمیوں اور پانچ گھوڑوں سے پہلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ممکن تھا کہ دس کے ساتھ ہم دیکھ لیے جاتے اور ہمارے دشمن چھاپے سے بچ جاتے اور لڑائی بھی ہوتی جس میں ہمارے بھی کچھ آدمی مارے جاتے۔ پھر رات بھی قریب ہے۔ وہ دونوں جلد از جلد کل شام سے پہلے اپنے آدمیوں میں واپس نہیں پہنچ سکیں گے یا شاید پرسوں پہنچیں، اس حساب سے ہمارے پاس تین دن ہیں یا چار پانچ، اس سے پہلے وہ لوٹ کر ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ سوائے اللہ کے اور کون جانتا ہے کہ ان تین ہی دن میں کیا ہونے والا ہے۔”
علی بیگ نے اس کی بات مانتے ہوئے کہا: “حق تو یہی ہے۔ الحمد للہ۔ ہم آج کی رات محفوظ ہیں اور کل کی رات بھی بشرطیکہ آگے اور اشتراکی دستے نہ ہوں لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔”
مگر ہوا یہ کہ دیکھ بھال کرنے والے ہوائی جہاز نے انھیں اگلے دن سہ پہر کو دیکھ لیا۔ اس لیے ان دو آدمیوں کا بچ نکلنا کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں رہا۔ ہوائی جہاز نے غوطہ مارا اور ان پر مشین گن سے گولیاں چلائیں لیکن جگہ چونکہ کھلی ہوئی تھی، قازق ایک دم سے پھیل گئے اور گولیاں کسی جانور تک کے نہیں لگیں۔ ہاں ان سے چند جانور بدک ضرور گئے۔ قازقوں نے جواب میں گولیاں چلائیں اور بعض نے کہا ہم نے جہاز میں گولی پیوست کر دی۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی تب بھی ان کی گولیاں کارگر نہیں ثابت ہوئی، کیونکہ ہوائی جہاز غرا کر سیدھا اوپر اٹھتا چلا گیا۔ علی بیگ اور حمزہ نے یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ جس سمت میں انھیں جانا تھا وہ ان کے قافلے کے پیچھے تھی۔ اس سے ظاہر ہو رہا تھا ثابت نہیں ہو رہا تھا کہ ان کے آگے یا ان کے پہلوؤں پر تبت میں اشتراکی چوکیاں نہیں تھیں، لیکن اس پر بھی انھوں نے بڑی احتیاط برتی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ لاسلکی سے ان کے قافلے کے مقام کی اطلاع دی جا سکتی تھی اور خبر پا کر انھیں روکنے کے لیے گشتی دستے آ سکتے تھے۔
اگلے دس دن میں علی بیگ کے قافلے پر اوسطاً ہر دو دن میں ایک حملہ ہوتا رہا۔ یہ حملے زمینی ہوتے تھے۔ صرف ایک ہوائی ہوا تھا۔ قازق کہتے ہیں کہ ہم نے ہوائی جہاز گرا لیا تھا اس کے بدلے ہمارے چند جانور مارے گئے، آدمی کوئی نہیں مارا گیا۔ زمینی دستے جو حملے کرتے تھے ان میں بیس سے تیس آدمی ہوتے اور سوائے ایک کے یہ حملہ آور لاریوں یا بکتر بند گاڑیوں میں نہیں بلکہ گھوڑوں پر سوار ہوتے تھے۔ یہ بھی کہ یہ لوگ خطائی ہوتے تھے خلدزا کے بھرتی کیے ہوئے غلام قازق نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے ان سے نمٹنا آزاد قازقوں کے لیے آسان ہوتا تھا۔
ایک دفعہ جو حملہ ہوا تھا اس میں قافلے کے حفاظتی دستوں نے دیکھا کہ فوجیوں سے بھری ہوئی دو لاریاں چنگھاڑتی چلی آرہی ہیں، راستہ بہت ناہموار تھا اس لیے ڈرائیور مجبور تھے کہ راستے بھر آگے نظر جمائے رہیں اور ادھر ادھر نہ دیکھیں۔ اور گھنٹوں ان میں ہچکولے کھاتے رہنے کی وجہ سے لاریوں میں فوجی تھک کر چور ہو رہے تھے۔ لہذا جب قازقوں کے پچھلے حفاظتی دستے نے جس میں اتفاق سے اس وقت صرف دو ہی آدمی تھے ڈرائیوروں کو تین چار ہی گز کے فاصلے سے گولیاں چلا کر مار ڈالا تو لاریاں بے قابو ہو کر الٹ گئیں اور ان میں آگ لگ گئی جو فوجی ان میں سوار تھے ان پر دو چار ہی گولیاں چلانی پڑیں باقی سب دب کر یا جل کر مر گئے۔ ان کے تقرییاً سارے ہتھیار بھی ضائع ہو گئے۔ لیکن دونوں قازقوں نے چند خود کار آلات اور کچھ کارتوس پھر بھی حاصل کر ہی لیے اورجب انھیں لے کر روانہ ہوئے تو ایک نے ہنس کر دوسرے سے کہا: “اچھا ہوا کہ صرف دولاریاں تھیں ایک تمھارے لیے اور ایک میرے لیے۔” دوسرے نے جواب دیا:
“میری خودکار رائفل میں چھ گولیاں چلتی ہیں اور تمھاری رائفل میں بھی۔ لہذا اگر بارہ لاریاں بھی ہوتیں تو کیا تھا دو گولیاں اگر خطا بھی ہو جاتیں تو دس لاریاں پھر بھی ہمارے قبضے میں ہوتیں۔ اگر اتفاق سے بعض لاریاں بہت دور پیچھے ہوتیں جو ہماری مار سے باہر ہوتیں تو ہم پہلے اگلی لاریوں کو تباہ کرتے پھر لپک کر اپنے گھوڑوں پرسوار ہو کر پچھلی لاریوں پر پہنچ جاتے۔ انھیں خبر بھی نہ ہوتی کہ آگے کیا گزر چکی ہے کہ اتنے میں ہم ان کا بھی خاتمہ کر دیتے۔”
اشتراکی سوار فوجوں سے لڑائیوں میں قازقوں کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ مرنے والے سب مرد ہی نہیں تھے کیونکہ عورتیں اور لڑکیاں بھی اب لڑ رہی تھیں۔ جیسے غزکل میں مردوں کے شانہ بشانہ مولیا لڑی تھی۔ جانوروں کی حفاظت بچوں پر چھوڑ دی جاتی کہ جیسی بھی کر سکیں کریں۔ یہ چھوٹے بچے بھی وقت پڑنے پر بڑی ہمت دکھاتے تھے۔ جیسا کہ آگے چل کر مناسب مقام پر بیان کیا جائے گا۔
جب قازق الطائن پہاڑوں سے نکل کر کنلن پہاڑوں کے جنوب مشرقی بازو پر چڑھ گئے تو لڑائی بند ہوگئی۔ اشتراکیوں نے یہاں ان کا پیچھا نہیں کیا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ قازق اس پہاڑ میں سے زندہ نہیں گزر سکیں گے لیکن وہ اسے زندہ پار کر گئے اور ان کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا حالانکہ تبتی جاڑے کا بد ترین مہینہ فروری تھا۔ جب برف بہت خراب ہوتی اور ڈر ہوتا کہ ان پر جانور پھسل پھسل کر اپنی ٹانگیں توڑ لیں گے تو قازق ان کے چلنے کے لیے برف پر نمدے اور قالین بچھا دیتے۔ یوں سب نہیں تو بیشتر صحیح سلامت نکل گئے لیکن اس طرح سفر بہت سست اور سخت ہو گیا۔ آدمیوں کے لیے بھی اور جانوروں کے لیے بھی خصوصاً بچوں کے لیے لیکن لوٹ کر جانے کا خیال کسی کے دل میں نہیں آیا۔
علی بیگ اور اس کے بیٹے حسن نے ان مقاموں کے نام لکھے ہیں جن سے غزکل چھوڑنے کے بعد وہ گزرے مثلاً اوشاکتی، اوزِن کُل جو غالباً کسی جھیل کا نام ہے، محمود کلغان، جنیش خشوف، سرجون، تبّت ایشی، سنکیر۔ ہم نے کسی نقشے میں یہ نام نہیں دیکھے۔ صرف اس بھدے نقشے میں یہ نام درج ہیں جو علی بیگ نے ہمارے لیے خود بنایا اور غالباً ان میں بیشتر نام خود قازقوں ہی کے رکھے ہوئے ہیں۔
جب قازق اس سطح مرتفع پر پہنچے جو کنلن پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں کے حاشیے پر ہے تو انھوں نے دیکھا کہ تبت والے انھیں بلندی سے دیکھ رہے ہیں۔ علی بیگ نے ایک دستے کے ساتھ حمزہ کو فوراً روانہ کیا کہ ان سے جا کر ملے اور ان سے دوستی قائم کرنے کی کوشش کرے لیکن حمزہ کے پہنچنے سے پہلے تبّتی پہرہ دار بھاگ گئے۔ حمزہ نے دور فاصلے پر ایک دیہات دیکھ لیا۔ اور اس شام علی بیگ نے کچھ آدمیوں کو اس میں بھیجا کہ دیہات میں بسنے والوں کو رضامند کرکے راستہ بتانے والے لائیں وہ جا کر دو آدمی لے آئے جو علی بیگ اور اس کے قافلے کو ایک بڑے دیہات میں لے گئے لیکن اس دیہات کے لوگ بدمزاج تھے اور انھوں نے کھانا اور چارہ بھی قازقوں کے ہاتھ بیچنے سے انکار کر دیا، حالانکہ ان کے پاس دونوں چیزیں افراط کے ساتھ موجود تھیں۔ ان کی زندگی بقول علی بیگ کے ایسی تھی جیسے سنگی زمانے کے آدمیوں کی۔ ادھر تو وہ جھک جھک کررہے تھے ادھر قازق نگرانوں نے دیکھا کہ دیہات کے اطراف میں لوگ ہاتھوں میں ہتھیار لیے جمع ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ قازق تعداد میں بہت کم تھے اور جگہ بھی بالکل کھلی ہوئی تھی۔ اس لیے تبّت والوں کے حملہ کرنے سے پہلے خود قازقوں نے فورا حملہ کر دیا اور ذرا سی دیر میں انھیں بھگا کر جوکچھ کھانا دانہ درکار تھا لے کر خالی گاؤں میں آگ لگا دی۔ پھر ان دونوں تبتیوں کو ساتھ لے کر جو انھیں اس گاؤں میں لائے تھے وہ انھی کی رہنمائی میں وہاں سے آگے چل پڑے۔
رہنماؤں نے انھیں اس سڑک تک پہنچانے کا ذمہ لیا تھا جو لاسہ کو جاتی تھی۔ ستمبر ۱۹۵۰ء میں جب غزکل چھوڑا تو سعالی اور یول بارز نے لاسا جانے ہی کا منصونہ بنایا تھا۔ اس زمانے میں اشتراکیوں نے تبت پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ البتہ چند اشتراکی اسی وقت پہنچے تھے جس وقت سعالی اور یول بارز پہنچے تھے۔ لیکن جب ۱۹۵۱ء کی فروری کے آخر میں علی بیگ وہاں پہنچا تو اسے علم نہیں تھا کہ اشتراکی اس ملک میں موجود ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی اندیشے کے وہ تبتی رہنماؤں کے ساتھ چلتا رہا اس امید پر کہ یہ راستہ اسے اور اس کے قافلے کو پہلے لاسہ لے جائے گا اور پھر تبت کے عین بیچ میں سے ہو کر نیپال اور اس کے بعد ہندوستان پہنچا دے گا۔
رہنما انھیں کُھلے علاقے میں لے گئے جہاں ہوا نے برف کو اڑا دیا تھا اس لیے فروری کے اواخر ہی میں جانوروں کے چرنے کے لیے وہاں کچھ چارہ موجود تھا اور راستہ بھی زیادہ چڑھائی کا یا دشوار گزار نہیں تھا۔ سردی بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ حالانکہ یہ مقام سمندر سے کم از کم بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ایسے مقام پر آگئے جہاں اونچے اونچے نرسل تھے۔
علی بیگ مناس کا رہنے والا تھا جہاں اسی قسم کے نرسل تھے۔ ان نرسلوں کے اندر کیا ہو سکتا تھا؟ اس تصور سے علی بیگ پریشان ہونے لگا۔ اور جب اس نے دیکھا کہ کچھ اونٹ غیر منجمد دلدل میں دھنسنے لگے تو وہ کھٹک گیا۔ وہ گھوڑا دوڑا کر یہ دیکھنے آگے بڑھا کہ قافلے کو آگے جانا چاہیے یا لوٹ جانا چاہیے، اس کے آگے بڑھتے ہی نرسلوں میں سے گولیاں چلنے لگیں پھر اس نے دیکھا تبتی رہنما دونوں کے دونوں بجائے پلٹ کر بھاگنے کے گھوڑے دبائے اسی جانب چلے جارہے ہیں جدھر سے گولیاں چلی تھیں لہذا علی بیگ نے ان کے بچ نکلنے سے پہلے انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
لیکن وہ اپنا داؤ کر چکے تھے۔ علی بیگ کا سوتیلا بھائی زین الحمید اس وقت نرسلوں کے قریب تھا۔ جب گولیاں چلنی شروع ہوئیں وہ ان بیس اونٹوں کی قطار کی نگرانی کر رہا تھا جن پر ان کا اپنا سامان لدا ہوا تھا۔ پہلی باڑ چلنے پر آگے کا اونٹ مارا گیا۔ اس کی دم سے پچھلے اونٹ کی جو نکیل بندھی ہوئی تھی ٹوٹی لہذا دوسرا اونٹ ٹھہر گیا کہ اگلا اونٹ آگے بڑھے تو یہ بھی چلے مگر اگلا اونٹ مر چکا تھا۔ زین الحمید جب اس کی نکیل کاٹنے کے لیے آگے بڑھا تو اس کی ٹانگ میں گولی لگی اور وہ بھی گر پڑا۔
جب علی بیگ اس کی مدد کو لپکا تو گولیاں سنسناتی ہوئی اس کے قریب سے گزریں اور کچھ گولیاں اس کے لباس کو داغتی ہوئی نکل گئیں لیکن وہ اپنے بھائی کے پاس زخمی ہوئے بغیر پہنچ گیا اور اسے کسی نہ کسی طرح کھینچ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ وہ اونٹوں کو وہیں چھوڑ کر علی بیگ کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا اور دونوں وہاں سے بچ کر محفوظ مقام پر آ گئے۔ اگر تبتی کچھ دیر تک اور گولیاں چلاتے رہتے تو پورے قافلے کا صفایا کر دیتے مگر حسن اتفاق سے قازق زیادہ مارے نہیں گئے۔ زین الحمید چند روز بعد زخم کی تکلیف سے مر گیا لیکن علی بیگ کا تقریباً سارا ذاتی ساز و سامان اس جھڑپ میں جاتا رہا اور اسی میں وہ دیگ بھی گئی جو اگلے اونٹ پر لدی ہوئی تھی۔ اور جب اسے اپنے لباس کا جائزہ لینے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ اس میں چھ گولیوں نے بغارے ڈال دیے ہیں مگر وہ خود زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کے خراش تک نہیں آئی۔
نرسلوں کی دلدل ایک وادی میں تھی جس کے قریب ہی سخت اور خشک زمین پہاڑیوں تک چلی گئی تھی۔ پہاڑیوں کے پیچھے سڑک تھی۔ جیسے ہی گولیاں چلنی شروع ہوئیں قافلے والے بغیر کسی ہدایت کے فوراً خشک زمین پر آگئے اور گولیوں کی زد سے باہر ہو گئے۔ جب گولیاں رک گئیں تو علی بیگ نے قافلے کو رک جانے کا حکم دیا تاکہ قافلے کے کچھ لوگ اگر پیچھے رہ گئے ہوں تو وہ بھی آ جائیں تھوڑی دیر میں کچھ آدمی جانور لے آئے مگر دو نہیں آئے یہ نو سال کے عبد المطلب کے ماں باپ تھے۔
اس فریب کے بعد علی بیگ نے طے کر لیا کہ آئندہ تبتی رہنماؤں پر کبھی بھروسا نہ کیا جائے۔ صرف اپنے قطب نما اور اور اسکول کے اٹلس میں سے پھاڑے ہوئے نقشے سے کام چلایا جائے۔ ستمبر ١٩٤٧ء میں مناس کے قریب بہکائے ہوئے خلدزا کے قازقوں سے جو لڑائی ہوئی تھی اس کے بعد یہ نقشہ علی بیگ کو پڑا ہوا ملا تھا اور اس نے اٹھا کر اسے جیب میں رکھ لیا تھا۔ نہ جانے کیوں جب ہم نے اس سے یہ قصہ سنا تو اس نقشے کو دیکھنا چاہا مگر اس نے کہا کہ جب ہم نے ہندوستانی سرحد کو عبور کیا تو ہمارا کل فوجی سامان ہم سے لے لیا گیا۔ اسی میں وہ نقشہ، قطب نما اور دور بین بھی ضبط کر لی گئی۔ بعد میں علی بیگ نے اپنی یادداشت سے ایک نقشہ بنا کر ہمیں بھیجا جس میں اور بھی نام درج تھے۔ یہ سارے نام سوائے ایک کے اس کے بیٹے حسن نے لاطینی حروف میں لکھے تھے، وہ ایک نام علی بیگ نے عربی حروف میں لکھا تھا اور نام تھا جبل طوسون۔ یہ نام ہم نے کسی اور نقشے میں آج تک نہیں دیکھا۔ پہلا نقشہ جو تھا اس میں سارے نام خط نسخ میں درج کیے گئے تھے۔ اس میں نام کچھ زیادہ نہیں تھے لیکن نقشے میں پہاڑوں اور دریاؤں کے رخ درج تھے۔ اس سے علی بیگ کو کچھ اندازہ ہو گیا کہ قافلے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
نرسلوں کی وادی کے حاشیے پر جو پہاڑیاں تھیں اس پر چڑھنے کے بعد علی بیگ نے کچھ فاصلے پر سڑک جاتی دیکھی اور اس پر مسلح آدمیوں کے دستے لاسہ کی طرف جاتے دکھائی دیے۔ علی بیگ نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ اشتراکی سپاہی ہیں اور علی بیگ سمجھ گیا کہ دونوں تبتی رہبروں نے دوہرا فریب کیا تھا، پہلے اپنے آدمیوں ہی سے کٹوانا چاہا اور ان کے ناکام رہنے کی صورت میں اشتراکیوں سے انھیں ختم کرانے کی تدبیر کی۔ ان حملوں سے بچ نکلنے پر علی بیگ نے خدا کا شکر ادا کیا اور سڑک کا رخ اچھی طرح جانچ لینے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو پھر وادی کی طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد قازق بجائے جنوب کی طرف جانے کے مغرب کی طرف چلتے رہے اور لاسہ کے بدلے کشمیر کی طرف بڑھتے رہے۔
علی بیگ جب اپنے قافلے میں واپس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ نو سال کے یتیم عبد المطلب میں اور چند بزرگوں میں بڑے زور کی دوستانہ بحث ہو رہی ہے۔ ماں باپ کے مر جانے سے ننھا عبد المطلب ہی اس خاندان میں باقی رہ گیا تھا۔ اپنے والدین کا تنہا وارث ہونے کی حیثیت سے ان کے جانوروں کا مالک ہو گیا تھا۔ جانوروں میں ایک گھوڑا تھا، دو گائیں اور کوئی دس بارہ بھیڑیں تھیں۔
علی بیگ نے پوچھا: لڑکے کو کیا تکلیف ہے؟
بزرگوں نے کہا: کچھ بھی نہیں، تم خود اس سے پوچھ لو۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اس کی عقل بھی جاتی رہی۔
علی بیگ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی عبد المطلب نے مطالبہ کے انداز میں کہا: “کیا میں اپنے باپ کے گھر کا مالک نہیں ہوں اور وہ جو جانور سامنے کھڑے ہیں کیا میرے نہیں ہیں؟”
علی بیگ نے کہا: “بے شک”۔
اس پر عبد المطلب نے کہا: “تو ان لوگوں کو منع کرو کہ میرے معاملات میں دخل نہ دیں۔ اپنی ملکیت کے ساتھ جو میں چاہوں سو کروں۔ یہ روکنے والے کون ہوتے ہیں؟”
علی بیگ نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور بولا: “یقین رکھو کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ تم ان کا کیا کرنا چاہتے ہو؟”
عبد المطلب نے کہنا شروع کیا: “اگر اشتراکیوں سے بچ نکلنے کے بعد میرے ماں باپ خود ہی روانہ ہو جاتے اور اتنے بڑے قافلے کے ساتھ نہ چلتے تو اتنے چھوٹے گروہ پر اشتراکیوں کی نظر بھی نہیں پڑتی اور آج وہ زندہ ہوتے لہذا میں اب اس قافلے کے ساتھ سفر نہیں کروں گا اور تنہا اپنے جانوروں کو لے کر خود ہی سفر کروں گا۔ اس طرح ہم ان لڑائیوں سے بچ جائیں گے جو آئندہ اشتراکیوں سے ہونے والی ہیں۔ میں اور میرے جانور مارے جانے سے بچ جائیں گے اور ہم بغیر کسی نقصان کے ہندوستان پہنچ جائیں گے۔”
علی بیگ نے پوچھا: “مگر تم راستہ کیسے معلوم کروگے؟”
عبد المطلب نے فورا جواب دیا: “جب میں اتنے بڑے قافلے کے پیچھے چلوں گا تو راستہ کیسے بھولوں گا؟”
"لیکن اگر اشتراکیوں اور تبتیوں نے تمھیں دیکھ لیا تو تمھیں مار ڈالیں گے اور ہم قریب نہیں ہوں گے کہ تمھیں بچا لیں۔”
عبد المطلب نے مسکت جواب دیا: “کیا آپ کے بچانے سے میرے ماں باپ کی جان بچ گئی؟”
علی بیگ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے سوچ میں پڑ گیا۔ ان کا سفر خطرات سے بھرا ہوا تھا اور چاہے سب مل کر سفر کریں چاہے الگ الگ۔ سب کی زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں تھی۔ اگر اس کی مرضی ہوگی تو سب خیریت سے سفر کر لیں گے، اور عبد المطلب بھی۔ اور اگر اللہ کو یہ منظور نہیں ہے تو مجبوری، اس کے علاوہ لڑکا بہت جلد تنہائی سے گھبرا کر پھر اپنے ساتھیوں سے آ ملے گا، دو ایک دن میں نہیں تو ایک آدھ ہفتے میں۔ اگر وہ پیچھے بھی رہے گا تو اس کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں ہوگا۔ یہی میل دو میل۔
چنانچہ علی بیگ نے سوچ کر عبد المطلب سے کہا:
“اچھا تو اپنے جانوروں کو لے کر جس طرح چاہو سفر کرو اور جب اکیل سے اکتا جاؤ تو ہم سے پھر آ ملنا۔ فی امان اللہ!”
عبد المطلب نے کہا: “آپ بھی بسم اللہ کیجیے۔ خدا حافظ۔”
یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے اور چھوٹے سے ریوڑ کے پاس چلا گیا اور جب قافلہ روانہ ہوا تو وہ ٹھہرا رہا۔ جانور اگر حسب عادت دوسرے جانوروں کے ساتھ جانا چاہتے تو وہ اپنے باپ کے گھوڑے پر سوار ہو کر انھیں روک لیتا اور انھیں اس وقت تک روکے رہا کہ وہ جانوروں کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئے، خود چونکہ گھوڑے پر سوار تھا اس لیے قافلے کو دیکھتا رہا۔
قافلے والے اسے پلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، خصوصاً عورتیں اس کے پیچھے رہ جانے پر اسے دیکھتی رہیں اور تاسف سے سر ہلاتی رہیں لیکن کچھ اور لوگوں نے کہا:
“چھوڑو بھی۔ جس طرح خدا ہمارے ساتھ ہے اس کے بھی ساتھ ہے”۔
دن پہ دن قافلہ آگے بڑھتا رہا اور عبد المطلب کے بارے میں قازق باتیں کرتے رہے اور کہتے رہے: “آج وہ صرف ایک میل پیچھے ہے اب تنہائی سے گھبرا گیا ہوگا۔ کل تک وہ ہم میں آملے گا یا آج ہم میں اور اس میں دو میل کا فاصلہ ہے۔ تھک گیا۔ شاید وہ یا اس کے جانور بیمار ہو گئے یا اس کا گھوڑا لنگ کر رہا ہے کیا خیال ہے تمھارا چل کر اس کی مدد کریں۔”
پھر سب کی رائے ہوتی:
“نہیں اسے اس کے حال پر چھوڑو ہم تو خود پریشانی میں مبتلا ہیں اس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔ اسے اللہ پر چھوڑو۔”
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو گھوڑے دوڑا کر عبد المطلب کے پاس پہنچ جاتے اور اس سے اس کی کیفیت دریافت کرتے۔ وہ ان کے سوالوں کے جواب ہمیشہ خوش دلی سے دیتا اور کہتا: “جیسا کہ تم خود دیکھ رہے ہو میں اور میرے جانور خیریت سے ہیں” یا “ایک بھیڑ مر گئی اسے چارہ نہیں ملا۔ مگر باقی سب ٹھیک چل رہی ہیں۔”
پرسش کرنے والا کہتا: “یہی حال ہمارا ہے اور بھیڑوں کے ساتھ یہ مصیبت ہے کہ وہ گوشت نہیں کھاتیں حالانکہ دوسرے مویشی کھا لیتے ہیں اور گھوڑے بھی کبھی کبھی گوشت کھا لیتے ہیں۔”
اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور لوگوں نے عبد المطلب کا خیال رکھنا چھوڑ دیا۔ پھر وہ وقت آیا کہ عبد المطلب قافلے والوں کو نظر آنا بند ہو گیا اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی قوت نے جواب دے دیا۔ جیسے کہ خود ان کی قوت جواب دے چلی تھی۔ اور جو لوگ اس پر بھی اسے یاد کرتے تو اسے مردہ سمجھ کر اس کا سوگ مناتے۔
اسی اثنا میں مارچ شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ تیز ہوائیں چلنے لگیں جو برف کو اڑا کر اس کے تودے لگانے لگیں۔ یوں کچھ راستہ صاف نکل آتا اور قافلہ آگے بڑھ جاتا مگر جانوروں کے لیے چارہ نایاب تھا۔ ان کی رفتار بھی سست پڑ گئی تھی کیونکہ کنلن پہاڑوں کو عبور کرنے کے بعد جانور تھک گئے تھے اور آگے سفر کرنے کے لیے انھیں طاقت کی ضرورت تھی۔ علی بیگ نے نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ آگے راہ سفر تالابوں میں سے ہو کر جاتی ہے، دریاؤں کے کنارے کنارے نہیں جاتی۔ لہذا قافلے والوں کے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور ان کی حالت بھی درست ہونی چاہیے کیونکہ راہ کٹھن تھی اور بعض جگہ بالکل سپاٹ چڑھائی آتی تھی۔ سارا علاقہ بالکل بنجر، بھیانک اور بہت بلندی پر تھا۔ سانس تک لینا اس میں دشوار تھا۔
شروع میں وہ ایسے علاقے سے گزرے جہاں بہت کم بستیاں تھیں اور ان بستیوں کے تبتی دشمنی کرتے تھے۔ ان میں سے بعض دیہاتوں کے رہنے والے تھے اور بعض خانہ بدوش لیکن قازقوں نے اب ان سے دوستی کرنے کی کوشش نہیں کی اور سب کو اپنا دشمن سمجھا لہذا جب قازقوں کو کھانے دانے کی ضرورت ہوتی تو ان سے زبردستی لے لیتے۔ اگر پالتو جانوروں کی ضرورت ہوتی تو ان سے جانور بھی لے لیتے خصوصاً بھیڑیں۔ یاک انھوں نے نہیں لیے۔ دو ایک دفعہ انھوں نے غزکل سے آنے والے چھوٹے گروہوں کو بھی دیکھا جو انھی کی طرح کشمیر جا رہے تھے لیکن سردار ایک دوسرے کو سلام کہلوانے کے بعد اپنی اپنی راہ لگ جاتے۔ وہ جانتے تھے کہ چھوٹے گروہ بنا کر سفر میں دوسروں کی نظر ان پر کم پڑتی ہے اور جانوروں کو چارہ بھی کچھ زیادہ ہی مل جاتا ہے۔ اس کا سب کو اطمینان تھا کہ لڑائی میں دشمن کو مار بھگائیں گے۔ بعض اوقات چند افراد ایک گروہ کو چھوڑ کر دوسرے گروہ میں آجاتے تاکہ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ ہو جائیں یا کسی اختلاف کی وجہ سے وہ گروہ بدل لیتے مگر ایسا بہت کم ہوتا تھا۔
علی بیگ کا قافلہ اسی طرح کوئی ایک مہینے تک سفر کرتا رہا اور وہ اس سفر سے حسب توفیق لطف اندوز بھی ہوتا رہا۔ پہاڑوں نے ان کے لیے مسلسل حیرت کے باب کھول رکھے تھے۔ عظیم آسمان سے باتیں کرتے ہوئے ڈراؤنے ختم نہ ہونے والے، کالی کالی چوٹیاں، کسی کسی پر برف کا تاج رکھا ہوا مگر دور دور تک درخت کا نام و نشان تک نہیں۔ حالانکہ جنگلی جانور یہاں کثرت سے تھے۔ جنگلی گدھے (جنھیں علی بیگ زبرا کہتا تھا)، ریچھ، جنگلی بکرے، ہڑیال (قد آور چھوٹے گدھے کے برابر بھیڑیے)، لومڑیاں اور کئی اور جانور جن کے نام قازقوں کو معلوم نہیں تھے۔ ایک جانور تھا جو جنگلی گائے کہلاتا تھا لیکن غالباً وہ یاک ہوگا۔ علی بیگ آج تک نہیں سمجھ سکا کہ یہ گھاس پتی کھانے والے جانور کیسے ان پہاڑی علاقوں میں زندہ رہتے تھے جہاں کئی کئی ہفتے سفر کرنے کے بعد برائے نام گھاس نظر آتی تھی یا میلوں دور الگ تھلگ علاقوں میں کچھ سبزہ ہوتا تھا۔
کالے پتھر کے بارے میں قیاس کیا جاتا تھا کہ یہ ایک قسم کا بسالت ہے۔ بہرحال وہ کچھ بھی ہو اس میں قیمتی معدنیات ضرور تھیں اور علی بیگ کا بیان ہے کہ ان کی تحقیق بھی شروع کر دی گئی ہے۔ انھی میں سے ایک کے متعلق علی بیگ نے کہا تھا کہ ایک ایسا پتھر ہے کہ جو رات کے وقت چراغ کی طرح روشنی دیتا ہے۔
سورج غروب ہونے کی سمت میں جیسے جیسے قازقوں کا قافلہ چلتا رہا، تبتی باشندے کم ہوتے چلے گئے اور ان کے کسی بستی میں پہنچ لینے کا انتظار بھی نہیں کیا جاتا لہذا کھانا اور چارہ انھیں حسب ضروت ان خالی بستیوں سے مل جاتا تھا۔ زیادہ کھلی ہوئی سطح مرتفع پر ہوا کے تند جھونکے خشک گھاس پر سے برف ہٹا دیتے۔ سفر کے دوران میں قازق کئی جھیلوں پر بھی پہنچے اور انھیں پانی افراط سے ملا لیکن درختوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ جب کشمیر کی سرحد قریب آنے لگی تو درخت دکھائی دینے لگے۔ جلانے کے لیے چونکہ لکڑی نہیں ملتی تھی اس لیے اپنے مویشیوں کے گوبر سے کام چلاتے۔ مرد بعض دفعہ شکار کے لیے پہاڑی وادیوں میں نکل جاتے اور ہرن اور جنگلی گدھے مار کر اپنے گھوڑوں پر لاد لاتے۔ اپنے جانوروں کے لیے خرگوش مار لاتے۔ یوں انسانوں اور حیوانوں کے لیے کھانے کی کمی نہیں تھی لیکن جانور بڑی بد دلی سے گوشت کھاتے اور بعض تو بالکل نہ کھاتے۔
مئی ١٩٥١ء کے شروع میں گرمیاں آ چکی تھیں۔ قازقوں کا قافلہ اچانک ایک بڑے تبتی دیہات میں پہنچ گیا۔ حسب دستور قازقوں نے آگے بڑھ کر اس پر حملہ کرنا چاہا مگر دیہات والے اسے خالی کر کے پہلے ہی بھاگ چکے تھے اور قازقوں نے اپنی ضروریات کا سامان یہاں سے لے کر اپنا قافلہ آگے بڑھا دیا۔ قافلہ اب سطح مرتفع کے اختتام پر پہنچ رہا تھا اور ایسے علاقے میں جا رہا تھا جو رفتہ رفتہ اونچا ہوتا چلا جا رہا تھا اور زیادہ بنجر اور نا ہموار بھی۔ یہاں تک کہ قازق سطح سمندر سے اٹھارہ یا بیس ہزار فٹ بلندی پر چلے جا رہے تھے۔ یہ اونچائی تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ ایورسٹ کے کوہ پیماؤں کو آکسیجن کے بغیر عبور کرنی نا ممکن ہوگئی تھی لیکن سوائے قازقوں یا چند تبتیوں کے کوئی اور اس علاقے میں سے نہیں گزرا اس لیے اس کی صحیح اونچائی کا پتہ نہیں چلایا جا سکتا۔
ویران دیہات سے گزرنے کے دو دن بعد قازق ایک ایسی تنگ گھاٹی پر پہنچے جو بڑی وادی ہی کے اختتام پر تھی۔ لیکن اس میں راستہ صاف تھا اور اندازہ ہوتا تھا کہ اس راستے سے ایک اور سطح مرتفع پر قافلہ پہنچ جائے گا اور وہاں شاید چراگاہ بھی مل جائے۔ اس تنگ گھاٹی میں داخل ہونے سے پہلے علی بیگ پیشروؤں کے ساتھ چل رہا تھا۔ تنگ گھاٹی کو دیکھ کر وہ کچھ بے چین ہونے لگا۔ گھاٹی کے پہلو میں جو پہاڑی تھی وہ زیادہ اونچی نہیں تھی لہذا وہ اس پر اپنے گھوڑے کو چڑھا لے گیا تاکہ نیچے کے راستے کو دور تک دیکھ لے۔ ایک مناسب مقام پر ٹھہر کر اس نے اپنی دور بین سے راستے کا جائزہ بڑی احتیاط سے لیا، اسے کوئی غیر معمولی بات نہیں دکھائی دی اور وہ پھر قافلے میں شریک ہونے کے خیال سے پلٹا۔
اس کے پلٹتے ہی چھپے ہوئے تبتیوں نے اس پر گولیاں چلانی شروع کر دیں اور ایک دم سے نیچے گھاٹی میں کئی سو تلواریں سونتے اور شور مچاتے نکل آئے اور قازقوں کے رینگتے ہوئے قافلے پر جھپٹ پڑے۔
یہ حملہ بالکل غیر متوقع تھا لیکن جھپٹتے ہوئے گھڑ سواروں کے آ پڑنے سے پہلے قازق ان کے مقابلے کو تیار ہو چکے تھے۔ مردوں اور لڑکوں نے اپنے گھوڑوں کا رخ دشمن کی طرف کیا اور اپنی تلواریں سونت لیں۔
جن کے پاس تلواریں نہیں تھیں انھوں نے اپنے خاردار سونٹے ہی سنبھال لیے۔ عورتوں اور بچوں نے خود ہی جانوروں کو گھاٹی میں جانے سے روک لیا اور گھیر کر انھیں بڑی وادی میں ہنکانا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قازق قافلے اور جھپٹے ہوئے تبتیوں کے درمیان قازق گھڑ سواروں کا ایک پردہ سا حائل ہو گیا۔ علی بیگ پہاڑی پر سے اتر کر نیچے آنے بھی نہیں پایا تھا کہ اس کے آدمی جوابی حملہ کر کے تبتیوں میں جا گھسے تھے۔
اب جو لڑائی ہوئی وہ زمانۂ قدیم کے گھڑ سواروں کی وہ آویزش تھی جو چنگیز خاں اور سنہری لشکر کو پسند تھی۔ دشمنوں کی صفوں میں دیوانہ وار گھس جانا اور پار نکل کر پھر منظم ہو کر گھس آنا، تلوار کے وار کرنا، پھر تلوار کے وار روکنا اور پھر وار کرنا اور نشانہ ہمیشہ گھڑ سوار کو بنانا گھوڑے کو نہیں۔ لباس دونوں طرف کے دبیز تھے اس لیے انھیں کاٹنے کے لیے زور دار ہاتھ لگانے کی ضرورت تھی۔ بلکہ تلواروں سے زیادہ اس وقت خار دار سونٹے مہلک ثابت ہو رہے تھے۔ گھوڑوں پر سے گرے بہت، مگر مرے کم۔ قازقوں کا کہنا ہے کہ ہمارے صرف تین آدمی کام آئے، مگر زخمی زیادہ ہوئے۔ زبردست حریف سے یہ لڑائی تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس میں ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کم سے کم دشمن کے بیس آدمی مار ڈالے اور اس سے دوگنے تگنے زخمی کرکے بے کار کر دیے۔ بہت سے گھوڑے اور ہتھیار قازقوں کے ہاتھ آئے، گھوڑے ایک طرح سے اپنے آپ کو قید کراتے تھے کیوں کہ جب گھوڑے کا سوار گر جاتا تو گھوڑا جیتنے والے کے ساتھ ہو لیتا۔ بے سوار کے تندرست گھوڑے میدان جنگ میں ہنہناتے، خُرخُراتے اور اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے اور کنورا کر لڑائی میں گتھے ہوئے سواروں کے پیچھے پیچھے بگ ٹٹ دوڑتے پھرتے۔ ان سے اس منظر کی وحشت و بربریت ہی میں صرف اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان قدیم لڑائیوں کا تصور بھی واضح طور پر ہو جاتا جو قازق اور گھڑ سواروں نے صدیوں پہلے کبھی لڑی تھیں اور فاتحانہ پیکنگ اور دلّی تک یہ سوار پہنچے تھے بلکہ قرونِ تاریک اور قرونِ وسطیٰ میں پورے ایشیا اور پورے یورپ کو انھوں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالا تھا۔ انھیں دیکھنے کے بعد ہمیں بیسویں صدی کے وہ اجتماعی تباہی کے طریقے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں جو انسان اور حیوان کا نام تک مٹا دیتے ہیں اور دنیا کی شکل ہی بدل دیتے ہیں۔
چیختے چلاتے جنگجو اپنے گھوڑوں پر سوار ایک دوسرے پر تلوار کے ہاتھ مارتے رہے یہاں تک کہ شام کا دھندلکا پھیلنے لگا اور تبتی پسپا ہو گئے۔ میدانِ جنگ قازقوں کے ہاتھ رہا۔ فاتحوں نے اپنے زخموں کو پیشاب سے دھویا تاکہ وہ پکنے نہ پائیں اور جیسی کچھ بھی مرہم پٹّی کر سکتے تھے کی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے تین ساتھیوں کی لاشیں دفن کیں۔ تبتیوں کے عمدہ ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لیا، جو بیکار تھے انھیں ضائع کیا۔ پکڑے ہوئے تبت والوں کے گھوڑوں کو اپنے گھوڑوں سے باندھا اور وادی کا رُخ کیا، جہاں ان کے بیوی بچے ان کے منتظر تھے۔
علی بیگ کا بیان ہے کہ اس لڑائی کے بعد تبت والے دور ہی دور رہے لیکن ان کے دیکھ بھال کرنے والے دور بلندیوں پر سے روزانہ دیکھتے رہتے کہ قازق قافلہ کس راستے سے جا رہا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ ساری خبریں ان اشتراکیوں کو دیتے جو لاسہ پر چھا جانے کے بعد تبت کے مضافات میں چھاؤنی چھا رہے تھے۔
قازقوں کو اشتراکیوں کے قرب و جوار میں موجود ہونے کا پہلا اندازہ اس وقت ہوا جب انھیں یکایک معلوم ہوا کہ اشتراکی زمینی فوجیں ان کے تعاقب میں لگی ہوئی ہیں۔ مقامی باشندے ان اشتراکیوں کی مدد کر رہے تھے کیونکہ وہ قازقوں کو اشتراکیوں سے بھی بدتر لعنت سمجھ رہے تھے۔ لیکن غزکل سے چند قازقوں کے گروہ جو تبت پہلے پہنچے تھے ان کی پذیرائی تبتیوں نے خاصی اچھی کی۔ اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید تبت والوں نے علی بیگ اور اس کے قافلے کو جب اپنے ملک میں داخل ہوتے دیکھا تو ان سب کو اشتراکی حملہ آور سمجھا۔ اگر یہ قیاس صحیح تھا تو اشتراکیوں کو اس مغالطے سے خواہ مخواہ فائدہ پہنچ گیا۔
تبت میں اشتراکیوں سے علی بیگ کا جو پہلا مقابلہ ہوا اس میں اس کا قافلہ تباہ و برباد ہوتے ہوتے بچا۔ پہاڑی لڑائیوں کا قازقوں کو بے مثل تجربہ تھا، اسی سے وہ بچ گئے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی یا ان کے الفاظ میں اللہ کا کرم تھا۔ اب جس راستے پر وہ چل رہے تھے، وہ اونچے اونچے پہاڑوں میں ہو کر جاتا تھا اور یہ راستہ یکے بعد دیگرے تین دروں میں سے بھی گزرتا تھا۔ قازق قافلہ دو دروں میں سے خیریت سے گزر گیا۔ کسی نے مزاحمت نہیں کی۔ اب وہ تیسرے درے پر پہنچنے سے پہلے ایک تنگ گھاٹی میں چل رہے تھے۔ علی بیگ کی غیر معمولی حس نے پھر زور کیا اور وہ گھوڑا بڑھا کر تنہا اس مقام پر پہنچا جہاں سے راستہ مڑتا تھا۔ یہاں اس نے دیکھا کہ راستہ کو پتھروں سے بند کر رکھا ہے۔
اس کی وجہ معلوم کرنے کی اسے ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے اپنے گھوڑے کو پھیرا اور اپنے قافلے کی طرف لپکا۔ ابھی وہ قافلے والی سڑک پر کوئی پچاس قدم ہی گیا ہوگا کہ اس کے پیچھے سے گولیوں کی ایک بوچھار آئی مگر نہ تو اس کے کوئی گولی لگی اور نہ اس کے گھوڑے کے۔ جب وہ قافلے میں جا پہنچا تو عقب سے گولی چلنے کی آواز سُنائی دی اور تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص گرفتار کر کے لایا گیا۔ قافلے کے پیچھے اشتراکیوں کا جو مختصر سا دستہ نگرانی کے لیے لگا ہوا تھا، یہ شخص اس کا آخری فرد تھا۔ تیز نگاہوں نے دور ہی سے بھانپ لیا تھا کہ یہ نہ تو خطائی ہے نہ تبتی بلکہ ترکی ہے، قازقوں کے وطن ترکستان ہی کا باشندہ۔ اس لیے قافلے کے عقبی محافظوں نے اسے دانستہ ہلاک نہیں کیا تھا، اس توقع پر کہ اس سے بہت سی باتیں معلوم ہو سکیں گی۔ اس شخص نے ڈرتے ڈرتے چاروں طرف دیکھا اور جب اسے اطمینان ہو گیا کہ کوئی زندہ اشتراکی سپاہی دور دور تک موجود نہیں ہے تو وہ کھل کر باتیں کرنے لگا۔ اس نے بتایا کہ قریب ہی ایک بڑی اشتراکی فوج پڑی ہوئی ہے جس میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور ہوائی جہاز بھی ہیں۔ اس فوج کا ایک دستہ اس وقت سڑک پر پیچھے چلا آ رہا ہے۔ تاکہ تبتیوں کی مدد سے قازقوں کو پھانس لے۔
جب علی بیگ نے اس شخص کو دیکھا اور اس کی روداد سُنی تو اسے کے دل میں آئی کہ اس کی باتوں پر یقین کر لے۔ حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ جے کنڈو تک کوئی ٹینک یا ہوائی جہاز موجود نہیں تھا۔ یعنی مشرق کی جانب کئی سو میل دور تک۔ اس گرفتار شدہ ترکی سے کہا گیا کہ اگر تم چاہو تو امین طہٰ ملّا کی طرح ہم میں شریک ہو جاؤ، چاہے واپس جا کر اشتراکیوں کی فوج میں پھر شامل ہو جاؤ۔ اس شخص نے کہا: میرے بیوی بچے ابھی ترکستان ہی میں ہیں اور زندہ اشتراکیوں میں سے کسی نے نہیں دیکھا کہ مجھے قازقوں نے گرفتار کر لیا۔ اس لیے مجھ پر یہ شبہ نہیں کیا جائے گا کہ میں نے قازقوں کو بھید دے دیے ہیں لہذا میری خواہش یہ ہے کہ میں واپس چلا جاؤں۔ شاید کوئی دن ایسا بھی آجائے کہ میں اپنی بیوی بچوں سے جا ملوں۔
قازقوں نے اسے خدا حافظ کہا اور اس نے بھی انھیں بہ امان خدا کہا کیونکہ وہ بھی انھی کی طرح مسلمان تھا۔
قازق اب دونوں طرف یعنی آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی گھر گئے تھے اور راستے کے دونوں طرف اونچی سپاٹ پہاڑیاں تھیں۔ اب ان کے لیے کوئی راستہ نکلنے کا نہیں تھا۔ لیکن ہراساں نہیں ہوئے۔ علی بیگ نے قائنیش اور حمزہ کو اپنے پاس بُلایا اور بتایا کہ آگے راستہ پتھروں سے بند کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی اشتراکیوں کی نہیں تبتیوں کی معلوم ہوتی ہے۔
اس کے بعد بولا: “تم دونوں مجھ سے چھوٹے اور جوان آدمی ہو۔ اس لیے اپنے ساتھ بیس بیس آدمی لو پیدل، یہ آدمی مضبوط اور چست ہوں۔ آدمیوں کو لے کر تم سامنے کے پہاڑوں پر راستے کے دونوں طرف چڑھ جاؤ۔ مگر پہاڑیوں میں جہاں ذرا سا جھکاؤ ہے، اس سے ذرا پوشیدہ رہنا۔ وہیں راستہ روکا گیا ہے۔ اس جھکاؤ پر بغیر ان کے دیکھے ہوئے جنھوں نے راستہ روکا ہے، پہنچنے میں تمھیں کتنی دیر لگے گی”۔
حمزہ اور قائنیش نے آپس میں مختصر سا مشورہ کر کے جواب دیا: کوئی دو ڈھائی گھنٹے۔
“اچھا تو تین گھنٹے رکھو۔ شاید کوئی اور ایسی رکاوٹ بھی ہو جو یہاں سے نظر نہیں آ رہی یا شاید تبتیوں سے بچنے کے لیے تمھیں پھیر سے جانا ہوگا۔ اس کے بعد جب تم دیکھو کہ ہمارا قافلہ جانوروں کو لیے اس موڑ پر پہنچے جس کا میں تم سے ذکر کر چکا ہوں اور اس کے بعد ہی پتھروں سے راستہ روکا گیا ہے تو تم تبتی چھاپہ ماروں پر چھاپہ مار دینا اور باقی جو کچھ ہونا ہے اسے خدا پر چھوڑ دو، اور جب تک تم روانہ ہونے کے لیے تیار ہو میں بیس اور آدمی لے کر دس عقبی محافظوں کی مدد کو جاتا ہوں تاکہ ادھر ہم اشتراکیوں کو اس وقت تک روکے رہیں جب تک آگے راستہ صاف نہ ہو جائے۔”
لہذا حمزہ اور قائنیش اپنے پیدل دستوں کو لے کر چھاپہ ماروں سے اوپر پہنچنے کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے لگے تاکہ آگے کو راستہ کُھلے۔ ادھر علی بیگ اور اس کے آدمیوں نے جلدی واپس جا کر درمیانی درے کے اوپر پہنچنے کی کوشش کی تاکہ دس عقبی محافظوں کو اشتراکی دستہ نہ دبا لے۔ وہ پہنچ تو گئے مگر عین وقت پر ایک چٹان کے نیچے انھوں نے جلدی جلدی اپنے گھوڑوں کو باندھا اور راستے کے دونوں طرف سپاٹ پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور احتیاط برتی کہ کوئی انھیں دیکھ نہ لے۔ یہاں انھیں وہ دس عقبی محافظ بھی مل گئے جو پہلے سے تاک لگائے بیٹھے تھے کہ دشمن کے پیش دستے کے برآمد ہوتے ہی اسے سنگوا لیں۔ وہ مطمئن تھے کہ اپنے پسپا ہونے تک دشمن کو آگے بڑھنے سے خاصی دیر تک روکے رہیں گے۔
اشتراکی بڑی ہوشیاری سے آگے بڑھ رہے تھے کیونکہ اس ترکی کی زبانی انھیں اشتراکی نگراں دستے کا انجام معلوم ہو چکا تھا لیکن انھوں نے اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی کہ خواہ مخواہ سڑک چھوڑ کر سپاٹ اور بے راہ پہاڑیوں پر چلنا شروع کر دیں لہذا وہ آگے بڑھتے رہے اور صرف ایک پیش دستہ ان سے کچھ فاصلے سے آگے چلتا رہا۔ اشتراکی سب پیدل تھے کیونکہ اس راستے پر گاڑیاں نہیں چل سکتی تھیں۔ علی بیگ نے ان کے پیش دستے کو پچاس قدم کی حد تک آ جانے دیا۔ پھر گولی چلائی اور یہ گولی اشارہ بھی تھا اس بات کا کہ دوسرے قازق بھی گولیاں چلائیں۔ پیش دستے میں بیس آدمی تھے۔ پہلی ہی باڑ میں ان سب کا صفایا ہو گیا۔ دو ایک جو بچ رہے وہ چھپنے کے لیے ادھر اُدھر بھاگے مگر جب انھیں کوئی جائے پناہ نہیں ملی تو وہ اپنی فوج کی طرف پلٹ کر بھاگے اور اس فوج کو بھی انھوں نے گھبرا دیا۔ یہ حالت دیکھ کر بعض قازق ہڑیالوں کی طرح ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر اچھلتے کودتے ان کے اوپر پہاڑیوں پر پہنچ گئے اور انھیں جو ڈھیلے پتھر ملے انھیں خطائیوں پر انھوں نے لڑھکا دیا۔ اس سے ان میں اور بھی انتشار پھیلا اور پورا لشکر درہم برہم ہونے لگا۔ اشتراکی جلدی سے زد سے باہر ہو گئے اور دوبارہ منظم ہو کر درّے پر اس طرح بڑھے کہ قازقوں کی تاخت سے بچے رہیں اور جب انھوں نے کم خطرے کا راستہ اختیار کیا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا سوائے اپنے ہی مردوں کے۔ اگر ذرا تیزی سے آگے بڑھتے تو شاید ننھے عبد المطلب کو جا لیتے مگر اس کے ساتھ اللہ تھا اور وہ بچ گیا۔
علی بیگ نے اپنے تیس آدمیوں میں سے آدھے تو درّے کی نگرانی کے لیے وہیں چھوڑ دیے تاکہ اشتراکی اگر ادھر سے جمع ہو کر آئیں تو انھیں روکیں اور باقی آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر قافلے کی طرف روانہ ہو گیا۔ قافلہ آہستہ آہستہ ابھی تیسرے درّے کی جانب بڑھ رہا تھا اور اس کے آگے عورتیں اور لڑکے تحفظ کا حجاب بنائے ہوئے تھے تاکہ حمزہ اور قائنیش کی واپسی سے پہلے اگر تبتی حملہ کر دیں تو انھیں پسپا کر دیں۔ علی بیگ نے اپنے بقیہ پندرہ آدمیوں سے کہا کہ تم بھی حجاب تحفظ میں شامل ہو جاؤ۔ اور جیسے ہی آگے سے گولیاں چلنے کی آواز سنو، فوراً درّے کے پہرے پر دھاوا بول دینا لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ کیونکہ درّے کے اوپر تبتی نشانہ باز ممکن ہے کہ چھپے بیٹھے ہوں۔ یہ کہہ کر علی بیگ نے ایک مناسب مقام سے اپنی دور بین لگا کر دیکھا تاکہ اطمینان کر لے کہ دشمن پہلو سے تو حملہ نہیں کر دے گا۔ دن بالکل صاف تھا اور چاروں طرف کے بھیانک پہاڑ بے شجر کھڑے تھے۔ کہیں کہیں برف ان پر جمی ہوئی تھی۔ علی بیگ کو سوائے اس راستے کے جس پر قافلہ چل رہا تھا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا۔ لہذا اگر کسی شک کی وجہ سے وہ خائف تھا بھی تو اب وہ خوف رفع ہو گیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد تیسرے درّے کے اوپر سے گولیاں چلنے کی آواز اسے سنائی دی۔ دوربین سے اس نے دیکھا کہ حمزہ کے آدمی تبتیوں پر ہتھ گولے پھینک رہے ہیں اور پھر دیوانہ وار بھاگتے ہوئے لوگ دکھائی دیے کیونکہ تبتیوں نے پہلے کبھی ہتھ گولوں کو پھٹتے نہیں دیکھا تھا اور چٹانوں کو لانگتے پھلانگتے بھاگے جا رہے تھے کہ کہیں چھپنے کی جگہ مل جائے تو اپنی رائفلوں سے گولیاں چلائیں مگر اس کوشش میں وہ قائنیش کے آدمیوں کے سامنے جا پہنچے جنھوں نے ان پر پیچھے سے گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ درّہ چونکہ تنگ تھا اس لیے حمزہ کے آدمیوں سے جو تبتی آڑ میں آ گئے تھے قائنیش کے آدمیوں کے بالکل سامنے جا پہنچے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ نظر نہ آنے والے دشمن کی گولیاں ایک ایک کر کے انھیں مار ڈالیں۔ اس پہلی لڑائی کی طرح دوسری بھی چند منٹ میں ختم ہو گئی اور قازقوں کا ایک آدمی بھی مارا نہیں گیا۔ انھوں نے فوراً آگے بڑھ کر قاصد بھیجے کہ عقبی محافظوں کو بلا لیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ قافلے سے پیچھے کچھ فاصلے سے چلتے رہیں تاکہ اگر اشتراکی پھر نظر آئیں تو قافلے والوں کو آگاہ کر دیں مگر اشتراکی دوبارہ نہیں دکھائی دیے، کم از کم اس وقت نہیں۔
تبتیوں سے پانچ چھ جھڑپیں ہوئی۔ یہ سب محاربے ابتدائی ڈھائی مہینے میں ہوئے۔ اس سارے وقت میں قافلہ برابر آگے بڑھتا رہا اور پندرہ بیس میل روزانہ طے کرتا رہا۔ لیکن قافلہ اب ایسے علاقے میں داخل ہو رہا تھا جس پر پہاڑی کُہر کئی کئی دن تک ہر چیز کو ڈھک لیتی، اس سے قافلے کی رفتار بہت کم پڑ گئی اور قافلے والوں کے مزاج چڑچڑے ہونے لگے۔ پڑاؤ سے ذرا سی دور جانا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں تھا، کیونکہ اس کا بہت اندیشہ تھا کہ جو جائے گا اُسے لوٹ کر آنا پھر نصیب نہیں ہوگا۔
ایک مہاجر نے بتایا کہ “اس کہر میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں بھی اگر جانا ہو تو ہم برابر آوازیں دیتے رہتے تاکہ بھٹک نہ جائیں۔”
اور حالت یہ تھی کہ سب کے پاس خیمے بھی اب نہیں رہے تھے۔ جن کے پاس خیمے نہیں تھے وہ اونٹوں اور گاڑیوں کے بیچ میں سُکڑ سُکڑ کر پڑ رہتے تاکہ گرمی رہے اور بچاؤ بھی۔ بعض ان میں سے خصوصاً وہ بچے جن کے پاس سواری کے لیے جانور نہیں تھے اور جن کی دیکھ بھال کے لیے ماں باپ نہیں تھے، اس قدر تھک جاتے کہ جب قافلہ روانہ ہوتا تو پیچھے رہ جاتے اور جب رات کو قافلہ پڑاؤ ڈالتا تو ان میں سے اکثر پھر قافلے میں آ ملتے۔
کُہر برف کے ذروں سے لدی ہوتی اور یہ ذرّے چنگاریوں کی طرح ہر سانس کے ساتھ پھیپھڑوں کو داغتے اور جس ہوا میں وہ سانس لیتے وہ اس قدر لطیف تھی کہ انسان اور حیوان ذرا سی محنت کرنے پر ہانپنے لگتے۔ جانوروں کے لیے چارہ بالکل نہیں رہا تھا اس لیے سِنکے ہوئے گوشت کے بدلے قازقوں نے انھیں کچا گوشت کھلانا شروع کیا اور خود بھی کچا گوشت کھاتے کیونکہ نہ تو ان کے پاس ایندھن تھا نہ کُہر کی وجہ سے چقماق سے آگ جھاڑ سکتے تھے۔ بیشتر جانور گوشت نہ کھاتے اور بھوکے مر جاتے لیکن کچھ کھا لیتے۔ خصوصاً اونٹ اور گھوڑے کُہر سے جانوروں اور انسانوں کو کھانسی کے دورے پڑنے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سردی اور نمی سے ان کے چہرے کالے پڑ گئے تھے اور بہتے آنسوؤں نے ان پر زخم ڈال دیے تھے۔
جب سنسناتی ہوئی ہوا پہاڑوں کے سنّاٹے میں دہاڑنے لگتی تو کُہر ایک دم سے صاف ہو جاتی۔ یہ ہوا ٹھنڈی یخ ہوتی مگر اس کے ساتھ سورج بھی نکل آتا جس سے ان کے جسم بھی گرماتے اور روحیں بھی۔ ہر تندرست شخص فوراً کام کرنے اُٹھ کھڑا ہوتا۔ جلانے کے لیے گوبر جمع کرتا، جانوروں کو گھیر کر سفر کرنے کے لیے یک جا کرتا۔ اگر کسی میں زیادہ جان ہوتی تو پہاڑوں میں نکل جاتا مگر کہر کے خوف سے زیادہ دور نہیں تاکہ کھانے کے لیے ہڑیال یا غزال مار لائے۔ حالانکہ موسم گرما تھا لیکن جانوروں کے لیے گھاس بہت کم تھی اور جو جانور کہر سے بچ رہے وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئے۔ ان میں سے اگر کوئی ٹھوکر کھا کر گر پڑتا تو پھر اس سے اٹھا نہ جاتا اور اگر یہ گرنے والا جانور بوجھ بھی اٹھائے ہوتا تو اس کا بوجھ کسی اور پر لادا نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ کسی میں بھی اتنا دم نہیں تھا کہ ذرا سا بھی زیادہ بوجھ اور اٹھا لے۔ لہذا خیمے اور گھر کا ساز و سامان رفتہ رفتہ چھوڑا جا رہا تھا اور کشمیر تک بہت کم سامان پہنچ سکا۔
ان غیر معمولی بلندیوں اور کہر نے ایک خاص بیماری پیدا کر دی جس کے نام سے ناواقف ہونے کی وجہ سے قازق اُسے “توتک اِس” یعنی ورمِ کہر کہنے لگے۔ کال کے مارے ہوؤں کا جیسے ایک دم سے پیٹ پھول جاتا ہے اسی طرح اس بیماری میں بیمار کا پیٹ پھول جاتا اور اس کے ساتھ ناک سے خون کی تُللّیاں بندھ جاتیں۔ قازقوں کو اپنے وطن میں جو تکلیفیں اور بیماریاں ہوتی تھیں، ان کے لیے ان کی اپنی دوائیں بہت کچھ ہوتی تھیں، اسی طرح جانوروں کی بیماریوں کی بھی؛ لیکن توتک اس کوئی علاج ان کے پاس نہیں تھا۔ اور لڑائیوں میں قافلے کے آدمی اتنے نہیں مارے گئے جتنے کہ اس بیماری سے مرے۔ علی بیگ کے پانچ بچے توتک اِس سے مرے لیکن اس کی تینوں بیویاں اور اس کا بڑا لڑکا حسن بچ گیا۔
جولائی کے اواخر میں قازق بالآخر نیچے اُترنے شروع ہوئے اور اگست کے شروع میں کچھ علامتیں ایسی انھیں دکھائی دینے لگیں جن سے انھیں معلوم ہونے لگا کہ کوئی آباد علاقہ قریب آ رہا ہے۔ یہاں کے نچلے ڈھلان اب بے شجر نہیں رہے تھے بلکہ ان پر درخت اور سبزہ تھا جسے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ آئے لیکن اسی کے ساتھ انھیں محنت بھی کرنی پڑی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر انھوں نے بھوک کے مارے ہوئے جانوروں کو زیادہ کھا جانے دیا تو وہ مر جائیں گے۔
چلتے چلتے وہ ایک سڑک پر آئے جو شمال سے جنوب کے بدلے مشرق سے مغرب کو جاتی تھی اور علی بیگ نے فوراً طے کر لیا کہ اسی پر چل پڑیں۔ ١٨؍ اگست ١٩٥١ء غزکل چھوڑنے کے ایک سو ترانوے دن کے بعد یہ قافلہ کشمیر کی سرحد کے قریب ایک مقام ردوخ پر پہنچا جو کشمیر کے دار الحکومت سری نگر اور لاسہ کی درمیانی سڑک پر ہے۔
جب قازق سرحد پر پہنچے تو علی بیگ خوش خوش آگے بڑھا تاکہ ہندوستانی سرحد کے محافظوں کو بتائے کہ قافلہ کن لوگوں کا ہے اور کشمیر میں انھیں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ افسر انچارج نے کہا: “مجھے اپنے کاغذات پہلے دکھاؤ۔” علی بیگ نے ایک ترجمان کے ذریعہ کہا: “مگر ہمارے پاس کاغذات نہیں ہیں۔ ہم قازق ہیں، سیاسی مہاجر جو اشتراکیوں سے بہت لڑائیاں لڑ کر سنکیانگ سے بچ کر نکل آئے ہیں۔”
ہندوستانی افسر پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
اس نے پھر کہا: “مگر بغیر کاغذات دکھائے تمھارا ہندوستان میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ تم جو اپنے آپ کو بتا رہے ہو وہی ہو۔ مجھے کیا معلوم تم کون ہو؟”
علی بیگ نے کہا: “لیکن اشتراکی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں پکڑ کر مار ڈالیں؟”
ہندوستانی افسر نے مختصر جواب دیا: “مجھے اشتراکیوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وہ ابھی تک اس ملک کے کسی حصے میں نہیں آئے۔” اس کے سامنے چیتھڑے لگے، بے حال، ہتھیار بند لوگوں کا ایک دستہ کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ یہ لوگ تبتی تو ہیں نہیں اور یقیناً چینی بھی نہیں ہیں۔ ردوخ کا راستہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے سنکیانگ سے آنے والے لوگ عموماً ہندوستان میں داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ تبتیوں نے اسے آگاہ کر رکھا تھا کہ لٹیروں کا ایک گروہ شمال کی طرف سے تبت میں داخل ہو چکا ہے جس نے بہت سے دیہاتوں کو لوٹ لیا۔ دیہات والوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتوں اور قیمتی سامان کو اٹھا لے گیا اور اب مغرب کی طرف مُڑ کر کشمیر کی طرف آ رہا ہے۔ ہندوستانی افسر کو یقین ہو گیا کہ علی بیگ کا گروہ ہی وہ لٹیروں کا گروہ ہے۔
“تم لٹیرے ہو۔ سیاسی مہاجر نہیں ہو۔ وہیں جاؤ جہاں سے تم آئے ہو۔ تم ہندوسان میں داخل نہیں ہو سکتے اور میں اس کی اجازت نہیں دوں گا کہ تم سرحد کے قریب پڑے رہو۔”
علی بیگ نے کہا: “ہم لٹیرے نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ ہم سیاسی مہاجر ہیں۔ ہمیں یہاں پہنچنے کے لیے تبت میں سے گزرنے کے لیے لڑنا پڑا۔ اسے تبتیوں نے لوٹ مار سمجھ لیا ہوگا۔ حالانکہ جب انھوں نے ہماری مدد کرنے سے اور ہمیں گزرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا تو ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ ان سے لڑ کر راستہ لیں۔”
لیکن اب بھی ہندوستانی افسر نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آخر میں ہار کر علی بیگ وہاں سے یہ کہہ کر واپس ہوا کہ: “اگر اب ہم مرے تو ہمارا خون تمھاری گردن پر ہوگا۔”