غزکل میں عثمان کی جنگ پسپائی کے ساتھ قازق کشمکش آزادی کا ایک اور باب ختم ہوا۔ ٤٩ـ ١٩٤٤ء میں جب ان کی کامیابی شباب پر تھی تو آزاد قازقوں نے عملاً قازقوں کی روایتی چراگاہوں کو آزاد کرا لیا تھا؛ الطائی، تار باغتائی، خلدزا، تئین شان کے شمالی ڈھلان اور درمیانی علاقہ۔ سوویت حکومت کی کھلی مداخلت کے ساتھ مسلسل مد و جزر ہوتا رہا۔ پہلے الطائی ہاتھ سے نکلا۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے تار باغتائی اور خلدزا، بائیتک بوغدو، کیوچنگ، تئین شان، کیو کلوک سبھی ہاتھ سے نکل گئے۔ آخر میں بارکل کے چھن جانے کے بعد قازق ایک ایسے علاقے میں گھر کر رہ گئے جو ان کے روایتی مسکنوں سے کالے کوسوں تھا۔ اس علاقے کو انھوں نے اپنا مامن سمجھ کر آباد کیا تھا۔ صرف تیرہ سال پہلے اس کا گھیرا مشکل سے ڈھائی سو میل کا ہوگا۔ اس کے تین طرف خشک یا نیم خشک صحرا اور پہاڑی سلسلے تھے، چوتھے رخ بے رحم و ظالم دشمن کھڑا خون کی پیاس بجھانے کے لیے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ وہ قازقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا نہیں چاہتا تھا، مبادا وہ اپنے قرب و جوار کے غلام بنائے ہوئے لوگوں کے دماغوں میں ہوائے آزادی بھر دیں۔
اس تنگ جائے قیام میں عثمان بطور کے پہنچنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے سکون رہا۔ کبھی کبھی ہوائی جہاز ان کے سروں پر غراتے۔ حمزہ اکثر اطلاع دیتا رہتا کہ اشتراکی گشتی دستوں سے ہماری بیرونی چوکیوں کی آویزش ہوئی لیکن دونوں طرف سے چند گولیاں چلنے کے بعد وہ حملے کا انتظار کیے بغیر لوٹ گئے۔ اکثر نہیں کبھی کبھی اجنبی مسافر گھوڑے یا اونٹ پر سوار ادھر نکل آتے۔ یہ اجنبی پر امن لوگ ہوتے لیکن بیرونی چوکیوں سے انھیں اس وقت گزرنے دیا جاتا جب ان سے خوب جرح کر لی جاتی۔ لیکن اب جب کہ غزکل کے پڑاؤ کا ہر شخص اشتراکیوں کے گھس آنے کے خطرے سے خوب آگاہ تھا، یہ چنداں ضروری نہیں تھا کہ اشتراکی پٹھوؤں کو دور رکھا جائے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کے ذریعہ یہ معلوم کیا جائے کہ قازقوں کے گھیرے کے باہر کیا ہو رہا ہے۔
چالیس آدمیوں کے قتل کے واقعے کے بعد تنگ ہوانگ کسی کا جانا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ دو ایک دفعہ حسین تجی کے بعض آدمیوں نے وہاں جانے کی ہمت کی لیکن یہ ایک خطرناک اقدام ہوتا تھا جس میں جان جوکھم زیادہ اور فائدہ کم تھا۔ ہمت کرنے والوں کو نہ صرف اشتراکی بیرونی چوکیوں سے بچنا پڑتا جو قائم ہی اس لیے کی گئی تھیں کہ آزاد قازق دوسرے لوگوں سے نہ ملنے پائیں، بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ ان مسلح محافظوں سے بچا جائے جو شہر کے دروازوں پر متعین تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ تخریبی عناصر کی جانچ کرتے رہیں، ہتھیاروں پر نظر رکھیں اور اسے گرفتار کر لیں جو اپنے آنے کی کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے۔ ان تمام مشکلات سے بچ جانے کے بعد جب با ہمت لوگ فصیل دار شہر کے اندر پہنچ جاتے تو انھیں ایسے واقف کاروں کی طرف سے چوکنا رہنا پڑتا جو اشتراکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جھٹ انھیں پکڑوا دیتے۔ یہاں کے بسنے والے دوستوں تک سے بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کہتے تھے کہ کہیں اشتراکیوں کے کان میں اس کی بھنک نہ پڑ جائے کہ یہ بات ہم نے کہی ہے۔
چراگاہوں کے بعد صحرا پھیلا ہوا تھا اس لیے شمال کی طرف سے اشتراکیوں اور پہاڑوں کے باعث کٹ جانے کی وجہ سے قازق اپنی ایک چھوٹی سی دنیا میں گھر کر رہ گئے تھے۔ یہ زندگی انھیں ہمیشہ سے پسند تھی لیکن ان کی اس دنیا پر لالچی لوگ دانت لگائے بیٹھے تھے اور اسے ان سے چھین لینے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔
مہینوں لڑتے رہنے کی وجہ سے قازقوں کے پاس جنگی سامان اور بھی کم رہ گیا۔ اشتراکی بیرونی چوکیوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ اس لیے رسدی قافلوں کو پہلے کی طرح لوٹ لینا اب آسان نہیں تھا۔ ادھر پھر وہ مجبور ہو گئے تھے کہ اپنے پڑاؤ میں خانہ ساز ہتھیار تیار کریں خصوصاً موٹی موٹی گولیاں ٹھوس سیسے کی، آدھے انچ یا اس سے بھی زیادہ موٹی۔ اپنی بنائی ہوئی بندوقوں کے لیے ایسی ہی گولیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق یہ گولیاں ممنوع اور خلاف قانون تھیں لیکن قازقوں کو غیر قانونیت اور غیر تحفظیت میں سے ایک کو اختیار کرنا ہی تھا کیونکہ مقابلہ ایسے دشمن سے تھا جو کسی قانون کی پابندی نہیں کرتا سوائے اس قانون کے جس سے اس کا کام نکلتا ہو۔ قازق اسے گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ بالکل غیر محفوظ رہ جائیں۔
عثمان بطور کے آ جانے پر میدان میں جتنی بھی قازق فوجیں تھیں سب کی کمان اس کے حوالے ہو گئی۔ لیکن ہر گروہ کی کمان گروہ کے سردار کے ہاتھ میں رہی۔ یہ سردار اگر چاہتا تو عثمان بطور کا حکم مانتا لیکن اسے آزادی تھی کہ خود بھی جو چاہے سو کرے لیکن ہمیشہ بغیر کسی استثنا کے بنیادی پالیسی کا فیصلہ حر الطائی یا جنگی کونسل میں رائے شماری سے کیا جاتا اور ان کی تعمیل عثمان بطور کے ذمہ ڈالی جاتی۔ اب جو ہدایات وہ دیتا ان کی پابندی سب کو کرنی پڑتی۔
پالیسی کی بنیادی شقیں ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی ہوتیں کہ اب جہاں ہم ہیں کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ اشتراکیوں سے نمٹ لیں گے۔ اگر نہیں نمٹ سکتے تو آگے کو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اشتراکیوں کی بڑھتی ہوئی قوت کی خبریں علی بیگ کو حمزہ کی پہاڑی بیرونی چوکیوں سے پہنچتی رہتی تھیں۔ ان کے پیش نظر وہ اس تجویز کے حق میں تھا کہ موسم سرما ختم ہوتے ہی غزکل چھوڑ کر ہمیں تبت میں سے ہو کر ہندوستان نکل جانا چاہیے۔ اگر ان کے گزر جانے پر دلائی لامہ رضا مند ہو تو خیر، ورنہ انکار کی صورت میں قوت استعمال کی جائے۔ عثمان اور جانم خاں کی رائے یہ تھی کہ غزکل کے علاقہ میں ہم ہمیشہ اپنا بچاؤ کر لیا کریں گے۔ اگر ہمیشہ نہیں تو کم سے کم اس وقت تک جب تک سیاسی حالات دوبارہ بدل نہ جائیں۔ اس کا انھیں تجربہ ہی تھا کہ سیاسی حالات دیر سویر بدلتے ہی رہتے ہیں۔ انھوں نے دلیلیں پیش کیں کہ چینی سیاسی قوتوں کے مد و جزر اور اس سے بڑھ کر شخصیتوں کے تصادم سے بالآخر اشتراکیوں کا زوال شروع ہو جائے گا یا ان میں پھوٹ پڑ جائے گی اور پھر قازق اس قابل ہو سکیں گے کہ اپنے مسکنوں کو لوٹ جائیں اور چین سے زندگی بسر کرنے لگیں۔
علی بیگ نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ اس حقیقت سے متاثر تھا کہ چینی اور روسی حکومتیں در اصل مل کر کام کر رہی تھیں۔ اسے یقین نہیں تھا اور نہ ہے کہ یہ اسی طرح مل کر ہمیشہ کام کرتی رہیں گی یا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتا رہے گا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب تک یہ اشتراک قائم رہے گا اس کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی کہ دو ایسے طاقتور حریفوں کی متحدہ فوجوں سے آزاد قازق نبرد آزما ہو سکیں گے۔ لہذا اس کی رائے یہ تھی کہ وقت نکل جانے سے پہلے ہمیں اشتراکیوں کی پہنچ سے باہر نکل جانا چاہیے۔ جیسے یول بارز اور دوسرے قازق پانچ مہینے پہلے کر چکے تھے۔
چناچہ دو ہی راہیں آزاد قازقوں کے لیے کھلی تھیں جن پر وہ بحث کر رہے تھے۔ جہاں تھے وہیں جمے رہیں اور لڑتے رہیں یا دشمنوں کے گھیرے کو توڑ کر باہر نکل جائیں۔ قدرتی رکاوٹوں مثلاً تکلا مکان، صحرا الطائی اور کنلون پہاڑ اور ہمالیہ کا سلسلہ ان سب کو انھیں عبور کرنا ہوگا۔ پھر زندہ دشمن تھے جن میں صرف اشتراکی ہی شامل نہیں تھے بلکہ تبتی بھی جو شاید مخالفت کر بیٹھیں۔ ان سے بھی آزاد قازقوں کو نمٹنا ہوگا۔ اس وقت آزاد قازقوں کی تعداد تین چار ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ عورتوں اور بچوں سمیت ایشیائے کوچک میں زینوفون اور اس کے دس ہزار یونانی جس مخمصے میں پھنس گئے تھے وہ ان خطرات کے مقابلے میں شمّہ بھر بھی نہیں تھا جو قازقوں کو درپیش تھے، حالانکہ یونانیوں کی تعداد قازقوں سے تقریباً تین گنی تھی۔ لڑ کر نکلنے کی صورت میں انھیں ایشیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں کی مشترکہ افواج سے نبرد آزما ہونا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی قدرتی رکاوٹوں کو عبور کرنا تھا۔
لہذا اس پر متعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عثمان بطور، جانم خاں اور بہت سے دوسرے لیڈر اس مہم کو سر کرنے سے کیوں باز رہے۔ دونوں خرابیوں میں سے کم خرابی مزاحمت تھی۔ خصوصاً عثمان بطور کے لیے جو اس یقین سے متاثر تھا کہ بوکو بطور کی پیشین گوئی پوری کرنے کے کے لیے قسمت نے مجھے آلہ کار بنایا ہے: “ایک نہ ایک دن ہم ان کافروں کو انھی صحراؤں میں دھکیل دیں گے جہاں سے وہ آئے ہیں اور وہاں ہم انھیں برباد کر دیں گے چاہے ان کی تعداد تکلا مکان کے ذروں جتنی ہی کیوں نہ ہو”۔
۱۹۵۰ء کے آخری تین مہینوں اور ۱۹۵۱ء کی جنوری میں مسلسل انھی باتوں پر بحث مباحثے ہوتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کس طرح کرنا چاہیے۔ روایتاً مشرقی ترکستان میں جاڑے کا پہلا دن ۱۱ نومبر کو پڑتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ برفباری اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے اور برف پڑجانے کے بعد لڑائی لڑنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ گھوڑوں کی از سر نو نعل بندی کرنی ہوتی ہے اور خاردار نعل باندھے جاتے ہیں جیسے کوچنگ کے قریب چھاپہ پڑنے پر عثمان بطور نے اپنے گھوڑے کے باندھے تھے اور دشمنوں کے نرغے سے بچ نکلا تھا۔ اگر ایسے نعل نہ ہوں تو گھوڑے برف پر قدم نہیں رکھ سکتے۔ ریوڑوں اور گلوں کو چرنے کے لیے چراگاہیں نہیں ملتیں تو انھیں خشک گھاس کھلائی جاتی ہے جسے گرمیوں میں جاڑوں کے پڑاؤ میں رکھ دیا جاتا ہے۔
لہذا دیکھ بھال کے لیے یا چھاپہ مارنے کے لیے جو دستے جاتے وہ رسد اپنے ساتھ لے جاتے اور جاڑوں میں قازق اپنے خیموں میں عموماً بیکار رہتے۔ چینی بھی اس موسم میں لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے کیونکہ برف کی وجہ سے ان کی رسد بروقت نہیں پہنچ سکتی تھی اور اکثر ان کے فوجیوں کے پاس جاڑوں کی وردیاں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ یہی کیفیت اشتراکی ہشت راہ لشکر کی ۱۹۵۰-۵۱ء میں تھی۔ اور ۱۹۳۳ء اور ۱۹۴۳ء کے درمیان شنگ کی فوجوں اور کومنٹینگ فوجوں کا یہی حال تھا۔ اس کے باوجود حمزہ کے آدمی پہاڑی راستوں کی نگرانی کرتے رہے۔ حالانکہ پچھلی گرمیوں میں مسلسل مقامی حملوں نے انھیں زبردستی پیچھے ہٹادیا تھا۔ ستمبر ۱۹۵۰ء میں عثمان بطور کے آجانے پر یہ حملے رفتہ رفتہ ختم ہوگئے اور پورے نومبر دسمبر اور جنوری میں محاذ پر سناٹا رہا۔
ایک حرُ الطائی کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ یکم فروری ۱۹۵۱ء کی صبح کو یکایک اشتراکیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ کونسل کے خیمے میں سرداروں نے دو رائفلیں چلنے کی آوازیں سنیں اور ان کے بعد شیر کے غرانے کی طرح مشین گنوں کی آوازیں انھیں سنائی دیں اور خیمےکے باہر شور مچنے لگا، اشتراکی آگئے، اشتراکی آگئے۔ انھوں نے قریب رکھے ہوئے ہتھیار اٹھائے اور خیمے سے نکل کر لپکے۔ لوگ بھی اپنے اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے اور چند لمحوں ہی میں سردار اور اُن کے آدمی یا تو لڑائی میں شریک ہونے کی غرض سے اُڑے جارہے تھے یا اپنے خیموں کی جانب۔ یہ خیمے قریب بھی تھے اور پندرہ بیس میل کے فاصلے پر بھی۔ عورتوں اور بچوں نے بغیر کسی کے کہے جلدی جلدی خیمے اُتارنے شروع کر دیے یا جانوروں کی طرف دوڑے اور خیموں کے معاملے کو واپسی پر چھوڑا کہ کبھی اگر واپس آئے تو دیکھا جائے گا۔
اشتراکیوں نے بالکل بے خبری میں حملہ کر دیا تھا پھر بھی ہر قازق پڑاؤ چل پڑا تھا۔ دس ہی منٹ میں کسی کے ساتھ خیمے تھے، کسی کے ساتھ نہیں تھے۔ اور برف کے باوجود سب قریب کے پہاڑوں کی جانب چلے جا رہے تھے۔ ہر پڑاؤ کے گرد لڑنے والے آدمیوں کا پردہ سا پھیلا ہوا تھا۔ دشمن کے گھڑ سواروں اور شتر سواروں پر وہ گولیاں چٹخا رہے تھے، اپنے ڈرتے ہوئے ریوڑوں اور گلوں کو سمیٹتے اور اکٹھے کرتے جا رہے تھے اور دشمن کی بکتر گاڑیوں سے اسے دور ہنکا لے جا رہے تھے۔ اتفاق سے سارے قازق سردار ایک ہی جگہ جمع تھے۔ اگر وہ اپنے اپنے آدمیوں میں ہوتے تو یہ حملہ یقیناً ناکام ہو جاتا۔ اشتراکی حملہ آوروں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ترکی میں جو مہاجر تھے ان کے قول کے مطابق پیدل، گھڑ سوار، شتر سوار اور بکتر بند گاڑیاں سب ملا کر کوئی تین ہزار آدمی تھے۔ لیکن حملہ آوروں کا سب سے خطرناک جزو بکتر بند گاڑیاں صرف کھلے علاقے میں کار آمد ثابت ہو سکتی تھیں اور حملہ شروع ہونے کے گھنٹہ بھر کے اندر ہی بیشتر قازق پہاڑوں میں جا پہنچے تھے۔
حسب دستور اشتراکیوں نے قازق گھڑ سواروں سے بھڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سرداروں، ان کے گھر والوں اور ان کے جانوروں میں تفرقہ ڈالنا چاہا۔ گھر والوں کو گرفتار کرنے میں وہ قطعاً ناکام رہے اور جانوروں میں سے بھی آدھے ان کی دستبرد سے بچا لیے گئے لیکن سرداروں کو پھانسنے میں وہ بہت کامیاب رہے۔
عثمان کی سترہ سال کی بیٹی آز آپے اپنے باپ کے ساتھ سوار ہو کر حر الطائی میں شریک ہوئی تھی۔ حالانکہ اس کا بیٹا شیر درمان میلوں دور خان امبل کے پہاڑوں میں اپنے پڑاؤ میں رہ گیا تھا۔ حملے کی منادی سنتے ہی باپ اور بیٹی گھوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ بیٹی دو سو قدم آگے تھی۔ جب وہ ایک تنگ رہ گزر میں سے جا رہے تھے تو عثمان بطور نے دیکھا کہ بہت سے اشتراکی اپنی کمین گاہ سے نکل آئے اور انھوں نے لڑکی کو گھوڑے پر سے کھینچ لیا۔ تعداد میں اشتراکی دو سو سے کم نہ ہوں گے لیکن جب عثمان بطور نے ان پر تاخت کی تو وہ سب کے سب پلٹ کر بھاگے۔ عثمان بطور اکیلا تھا اور مشین گن سے گولیاں برسا رہا تھا۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ان میں سے کتنے مار گرائے مگر جو زندہ بچے وہ بھاگ نکلے۔ جب وہ اپنی بیٹی کے پاس پہنچا تو وہ زخمی نہیں تھی لیکن اس کا گھوڑا مر چکا تھا۔ وہ اُچھل کر باپ کے پیچھے بیٹھ گئی اور دونوں پلٹ کر پھر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے اور عثمان نے اس کی منجمد سطح پر سے اپنا گھوڑا گزارا لیکن برف ناہموار تھی اور اس کا گھوڑا رپٹ کر گر گیا۔ سوار گر پڑے اور گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
عثمان بطور کے پاس اپنی مشین گن تھی اور اس کی بیٹی کے پاس ایک خود کار طمنچہ تھا۔ انھوں نے گھوڑے کے گولی مار دی اور اس کی لاش کی اوٹ لے کر کئی گھنٹے تک دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ مگر کوئی مدد اس عرصے میں نہیں پہنچی۔ کیونکہ ان کے دوستوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں ہیں؟ اشتراکی قریب آتے گئے اور ان کا گھیرا چھوٹا ہوتا گیا۔ انھوں نے گولیاں نہیں چلائیں کیونکہ انھیں احکام تھے کہ عثمان کو زندہ گرفتار کیا جائے۔
بالآخر وہ اتنے قریب آ گئے کہ چاروں طرف سے دوڑ کر عثمان پر جا پڑیں۔ انھوں نے اتلاف جان کی پروا نہیں کی۔ قازق مہاجر کہتے ہیں کہ اس کوشش میں دو سو سے کم نہیں مارے گئے۔ جب اشتراکی چاروں طرف سے ان پر جھپٹ پڑے تو عثمان اور آز آپے نے بچی ہوئی گولیاں بھی چلا دیں۔ اس کے بعد اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے سوا اور کوئی بھی چارہ کار نہیں تھا۔
اشتراکیوں نے عثمان کی مشکیں کس لیں اور کوئی من بھر کا ایک پتھر ان میں لٹکا دیا۔ پھر انھوں نے اسے ایک گھوڑے پر چڑھا دیا اور اس کے دونوں پاوں رسّی سے کس کر باندھ دیے اور اس ہئیت سے اسے تنگ ہوانگ لے گئے جو یہاں سے پچاس میل دور تھا۔ یہاں کئی دن اور کئی رات اسے اذیتیں دیں اور کبھی کبھی اسے گھوڑے پر چڑھا کر اس طرح بازاروں میں گھمایا کہ اس کے آگے ایک اعلان ہوتا اور ایک اعلان پیچھے ہوتا جس پر لکھا ہوتا تھا: “یہ ڈینگ مارتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا مگر آزاد نہیں کرا سکا۔” لیکن انھوں نے اس کے منہ پر ڈھاٹا نہیں باندھا تھا۔ اس لیے عثمان چیخ چیخ کر تماشائیوں سے کہتا جاتا: “میں مر جاؤں کا مگر جب تک دنیا قائم ہے میرے آدمی لڑتے رہیں گے۔”
آخر میں اسے ارمچی لے جایا گیا جہاں کچھ دنوں میں اشتراکیوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسے مجمع عام میں قتل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا تاکہ خوف سے لوگوں کی ہمتیں پست ہو جائیں۔ پہلے انھوں نے اس کا منہ کالا کیا اور ایک لاری میں اُسے کھڑا کر کے بڑے بازاروں میں گھمایا۔ اس کے گلے میں ایک اعلان لٹکایا جس پر پہلے اعلان کو بدل کر یوں لکھا تھا: “یہ کہتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا لیکن یہ خود انگریزوں اور امریکیوں کے ہاتھوں میں بِک گیا۔” اس کے بعد وہ اسے شوئی مو کوؤ لے گئے۔ اس نام کے معنی ہیں “پن چکیوں کی وادی۔” ہر طبقہ کے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے نمائندے یہاں بھیجیں تاکہ وہ اسے قتل ہوتا دیکھیں۔ ان میں بچے تھے جو ہر اسکول سے آئے تھے۔ لوگ تھے ہر طبقے اور پیشے کے۔
شوئی موکوؤ میں گرم پانی کے چشمے ہیں اور تہ در تہ پہاڑوں کی تنگ وادیوں میں دلدلیں ہیں۔ یہ پہاڑیاں ان بڑے سر بفلک پہاڑوں کے بچے ہیں جو ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ان چشموں کے متعلق مشہور ہے کہ ان میں بیماریاں دُور کرنے کے خواص ہیں۔ ان میں سے بعض پر غسل خانے بنائے گئے ہیں۔ کچھ چشموں پر مقامی بسنے والوں نے دھوبی گھاٹ بنا رکھے ہیں اور بعض سے پن چکیاں چلا کر بستی والوں کے لیے آٹا پیسا جاتا ہے۔ قرب و جوار میں کچھ لوہے اور کوئلے کی کانیں بھی ہیں۔ ١٩٤٩ء کے ناگہانی انقلاب کے بعد سوویت حکومت نے یہاں تین بڑی بڑی بھٹیاں بنائی ہیں، نہ جانے اپنے استعمال کے لیے یا چینیوں کے استعمال کے لیے۔ ارمچی کا سلاح خانہ بھی شوئی موکوؤ ہی میں ہے جس کے چاروں طرف بارکیں، کیمپ اور پریڈ کے میدان ہیں۔
عثمان بطور اور اس کی بیٹی کو یکم فروری ۱۹۵۱ء کو گرفتار کیا گیا تھا اور اگست تک عثمان کو قتل نہیں کیا تھا۔ اشتراکی اخباروں نے قتل گاہ کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ارمچی کے لوگ خود بخود جوق در جوق چلے آ رہے تھے تاکہ اس غدار کا انجام دیکھیں جس نے انھیں سرمایہ داروں کے باتھ بیچ ڈالنا چاہا تھا۔ ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ لوگوں کو وہاں اس لیے جانا پڑا کہ سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے یقین ہے کہ اشتراکیوں نے اُسے تماشا یوں بنایا کہ انھیں بغاوت ہو جانے اندیشہ تھا، وہ عوام کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ دیکھو ہماری مخالفت کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہذا مقتل نہ صرف زبردستی کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا بلکہ بازار بھی زبردستی کے تماشائیوں سے پٹے پڑے تھے اور اس بھیڑ بھڑکّے میں عوامی پولیس کے خفیہ گُرگے بھی کثرت سے گھلے ملے ہوئے تھے۔ چشم دید گواہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ وہاں موجود تھے وہ بہت خوفزدہ تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ اشتراکیوں سے سب متنفّر تھے اور ان کی یہ بے رحمی دیکھ کر ان کے دل بھر آئے تھے لیکن وہ اس خوف سے رو نہیں سکتے تھے کہ کہیں عوامی پولیس انھیں گرفتار نہ کر لے۔
عثمان کا مُنہ کالا کیا گیا تھا۔ اور اس کے گلے میں حقارت آمیز اعلان پڑا تھا۔ جب وہ اپنے مقتل کے قریب پہنچنے لگا تو ایک کارخانے کے سامنے سے گزرا جس میں سیاسی قیدی عورتیں فوجیوں کے لیے وردیاں بنا رہی تھیں، ان میں اس کی بیٹی آز آپے بھی تھی۔
غزکل پر اچانک حملہ کر کے اشتراکیوں نے قازق سرداروں میں سے صرف عثمان بطور ہی کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک اور سردار تھا جانم خان، جو سنکیانگ کا سابق وزیر مالیات تھا۔ اس کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی کہ وہ اشتراکیوں کے چنگل میں کیسے پھنس گیا لیکن اسے بھی ایک وقت تک اذیتیں دے کر اس کے سرکاری تفتیش کرنے والوں نے اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی اور اپنے دستور کے مطابق انھوں نے جانم خاں کو بہت رضامند کرنے کی کوشش کی کہ اپنے بال بچوں اور متعلقین سے اپیل کرے کہ وہ اپنے آپ کو حاکموں کے حوالے کر دیں تاکہ سب کی جانیں بچ جائیں مگر وہ نہ مانا اور اگر وہ ایسا کر بھی گزرتا تب بھی اس کے آدمیوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ ہر قازق بلکہ صوبے کا ہر باشندہ جانتا تھا کہ اگر کسی قیدی کے گھر والے اپنے آپ کو حوالے بھی کر دیتے ہیں تو قیدی کے انجام میں کوئی فرق نہیں آتا۔
عثمان بطور کے قتل کے عینی گواہ کا بیان ہے کہ جب جانم خاں کو مقتل میں لایا گیا تو اس نے اپنے آپ کو بڑی شان سے سنبھالے رکھا۔ عثمان کو کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جانم خاں کو ارمچی میں ذاتی طور پر بہت لوگ جانتے تھے کیونکہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر یہیں مامور تھا۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس کے دوستوں نے کوئی مظاہرہ نہیں کیا نہ شہر میں اور نہ مقتل میں، لیکن جب رات ہوئی اور دن کی کہر پہاڑوں کے پہلوؤں پر سے سرک گئی تو دیکھا گیا کہ انھوں نے صدر مقام کے اوپر کی پہاڑیوں کے جنگلوں میں آگ لگا دی ہے اور سارے آسمان پر کئی دن تک دھوئیں کے غٹ کے غٹ مردے کی کالی چادر کی طرح پھیلے رہے یہاں تک کہ آگ خود ہی جل بجھی یا بارش سے بجھ گئی۔ مگر نہایت قیمتی تعمیری لکڑی کے ہزاروں ایکڑ اس آگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اشتراکیوں کو صدر مقام کے قرب و جوار میں قازقوں کی بغاوت کا اس قدر خوف تھا کہ کئی ہفتے بعد تک سڑکوں پر حفاظتی دستے گشت کرتے رہے۔
غزکل میں جب یہ مہلک لڑائی ہوئی تو جانم خاں کا بیٹا دلیل خاں اور عثمان بطور کا بیٹا شیر درماں دونوں بچ نکلے اور ان دونوں کے باپ گرفتار ہو گئے۔ دلیل خاں نے تبّت پار کرنے کی خطرناک مہم سر کی، یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کس راستے سے وہ خیریت سے ہندوستان پہنچ گیا۔ یقین ہے کہ وہ اب بھی وہیں ہوگا۔ اس کے برعکس شیر درماں مشرقی ترکستان ہی میں رہا۔ وہ ابھی تک وہیں ہے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد عرصۂ دراز تک اس نے لڑائی جاری رکھی۔
اس کا ثبوت خود اشتراکیوں ہی سے ملتا ہے۔ اگست ۱۹۵۳ء میں غزکل کی تباہی کے اٹھارہ مہینے بعد کشمیر میں بعض قازق مہاجر سری نگر کے ترکستانی ہوٹل میں ایک نشریہ سن رہے تھے، اُرمچی کے ایک اشتراکی معلّن نے ایک خبر سنائی جسے سن کر یہ آزاد قازق اچھل پڑے۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ شیر درمان اور اس کے چھوٹے بھائیوں نے اشتراکیوں کی طرف سے صلح کی فیاضانہ پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ سنکیانگ میں اب امن و امان ہے۔
اس خبر کے سننے تک کشمیر میں عثمان بطور کے دوستوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ شیر درمان جیتا ہے یا مر گیا۔ اس اعلان کو سن کر ان میں بجلی سی دوڑ گئی۔
ان سننے والوں میں سے ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا: “واللہ اگر شیر درمان اب تک جیتا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ اس نے اپنے باپ کے قاتلوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔ معلّن نے جھوٹا اعلان کیا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ شیر درمان زندہ ہے اور اشتراکی اسے دبا نہیں سکے کیونکہ یہ لڑکا اپنے باپ کا خلف الصدق ہے۔ اس کے علاوہ ہم اشتراکیوں کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اس کی اطاعت قبول کر لینے کی خبر اس لیے نشر کی ہے کہ جو لوگ ناواقف ہیں وہ اسے سن کر پست حوصلہ ہو جائیں۔ ضرور اس نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اشتراکیوں کو ڈر ہے کہ کہیں وہ اس سے بڑی کامیابیاں حاصل نہ کرے جبھی تو انھوں نے ایسی خبر نشر کی ہے۔”
اس پر ایک نوجوان بولا: “اگر شیر درمان اب بھی لڑے جا رہا ہے تو ہمیں واپس چل کر اس کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہونا چاہیے۔”
بزرگوں نے اس تجویز کی تائید میں سر ہلائے۔
ان میں سے ایک نے کہا: “شاباش! مگر یہ بات تم نے جوش میں کہی ہے۔ بھلا تم وہاں جا کیسے سکتے ہو؟ ہندوستانیوں نے ہم سے ہمارے ہتھیار لے لیے اور تبّت کے لوگوں کو آزاد قازقوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور ان کے ملک میں اشتراکی فوجوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مزید برآں جس راہ سے ہم آئے ہیں اگر اس کے علاوہ کسی اور راہ سے واپس جانے کا ارادہ کریں تو جو سرحدیں پاکستان، افغانستان اور نیپال کے روبرو ہیں سب کی نگرانی اشتراکی سپاہی کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم تارکینِ وطن واپس جا کر کوئی نیا فتنہ فساد برپا کر دیں اور ہندوستانی بھی اشتراکیوں کے ساتھ اپنی سرحدوں کا پہرہ دے رہے ہیں تاکہ اشتراکی ان پر یہ اتہام نہ لگانے پائیں کہ تم نے قازقوں کو اشارہ دے کر یہ فساد کھڑا کرا دیا۔”
جوشیلے نوجوان نے کہا: “جس راستے سے ہم آئے تھے اس پر بہت کم بستیاں ہیں۔ ہم تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن طاقت میں زیادہ ہیں۔ ہم دشمنوں سے بھی بھگت لیں گے اور توتُک اس –گہری کُہر– اور پہاڑوں اور نئی اور پرانی برف سے بھی نمٹ لیں گے۔”
بزرگوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ اس کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ اگر دس نے ہمّت کی بھی تو مشکل سے ایک وہاں زندہ پہنچ سکے گا۔ دیکھو نا ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔ ہندوستانیوں نے ہم سے ہتھیار رکھوا لیے کیونکہ ہم ان کے ملک میں سیاسی مہاجرین کی حیثیت سے داخل ہوئے ہیں۔ لیکن ایک نہ ایک دن انتقام لینے کا وقت بھی آئے گا اور اس کے لیے ہم کمر بستہ رہیں گے۔
سنکیانگ کی سرحدیں بلکہ سارے چین کی بالکل بند کر دی گئی ہیں، نہ صرف قازق تارکین وطن کے لیے بلکہ آزاد دنیا کے غیر جانب دار ناظروں کے لیے بھی۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ جاننا نا ممکن ہے کہ مہاجروں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ یا یہ کہ چینی اشتراکیوں نے اس دور دراز علاقے کے بسنے والوں کو مطیع کرنے کی دشواری کے پیش نظر واقعی سنکیانگ کو خود مختاری دے دی۔ اگست ۱۹۵۵ء میں شائع ہونے والے ایک سرکاری اعلان میں اشتراکیوں نے اسی کا ادّعا کیا ہے۔ یہ اعلان شیر درمان کے صلح کی پیش کش کو قبول کرنے کے اعلان کے پورے دو سال بعد کیا گیا۔ اس کے بعد کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ "خود مختار یوئی غر جمہوریت سنکیانگ" کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف گروہوں کو جن میں قازق بھی شامل ہیں اپنی مقامی حکومت بنانے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یوئی غر دوسرا نام ہے ترکی کا۔ اگر ہم اس اعلان پر اس کی ظاہری حیثیت سے غور کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مقامی قوموں کو پیکنگ اور ماسکو سے آزاد ہو کر اپنے امور کا انتظام خود کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ لیکں اگر واقعی ایسا ہوا تو ان کا پہلا کام اشتراکیت کو ختم کرنا ہوتا۔ لہذا “خود مختاری” کے معنی یقیناً یہ ہوئے کہ جو احکام دیے جائیں ان کی تعمیل کی جائے۔
بہرحال کچھ بھی ہو، اگست ۱۹۵۳ء کے ریڈیو اعلان سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ یکم فروری ۱۹۵۱ء کے اچانک حملے کے بعد خان امبل کے پہاڑوں میں شیر درمان کو اشتراکی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شیر درمان کے ساتھ اتنی قوت تھی کہ اٹھارہ مہینے تک وہ اشتراکیوں کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا اور یہ کانٹا اتنا بڑا تھا کہ انھیں مصالحت کی پیش کش کرنی پڑی۔ حالانکہ انھیں لڑنے والوں، ہتھیاروں اور اسلحۂ جنگ کے لحاظ سے آزاد قازقوں پر بے انتہا فوقیت حاصل تھی۔ صرف اسی ایک واقعے سے قازقوں کے ہتھیاری کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر ہتھیار، ہر گولی جو شیر درماں اور اس کے ساتھی استعمال کرتے تھے یا تو خانہ ساز ہوتی، یا مردہ دشمنوں یا لوٹے ہوئے رسدی قافلوں سے یہ اسلحہ فراہم کیے جاتے۔ ہوائی جہاز یہ دیکھنے کے لیے برابر پرواز کرتے رہتے کہ وہاں وہ کہاں چھپا ہوا ہے۔ اسے نہ صرف لڑنے والے آدمیوں کو یکجا رکھنا پڑتا بلکہ ریوڑوں اور گلوں، خیموں اور آدمیوں اور ان کے خاندانوں کو سمیٹے رہنا پڑتا۔ کیونکہ انھیں سے اسے مدد اور ہر قسم کا آرام ملتا تھا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں رہ سکتا تھا۔ اچانک حملے سے محفوظ رہنے کے لیے اسے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا اور دشمن کے پٹھوؤں سے بھی۔ بہتر زمانہ آنے پر قازق بھاٹ شیر درمان کی رزمیہ کہانی ضرور لکھیں گے، جیسے ترکی میں دیویلی کے قریب وسطی اناطولیہ کے میدان میں آ بسنے والے کارا ملّا نے عثمان بطور کی رزمیہ داستان لکھی ہے۔
نہیں کہا جا سکتا کہ قازق نقطۂ نظر سے عثمان بطور کی رزمیہ کوئی عظیم نظم ہے یا نہیں۔ کارا ملّا کے بعض ساتھیوں کا بیان ہے کہ اس میں غلط بیانیاں بھی ہیں، لیکن اس سے قازقوں کے اس طرز فکر کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے جس نے ایسے شدید خطرات میں ان کی ہمت کو پست نہیں ہونے دیا۔ ایک لحاظ سے یہ نظم عثمان بطور کی لوح مزار کی عبارت ہے۔ شاید وقت آنے پر شیر درمان کا کتبہ لکھا جائے جس کے پڑھنے سے معلوم ہو کہ اس نے بوکو بطور کی پیشین گوئی کو کس طرح پورا کیا اور اپنے باپ کی توقعات کو بھی۔ حالانکہ قازقوں کے دشمن تکلا مکان کی ریت کے ذرّوں سے بھی زیادہ تھے، اس پر بھی اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے پیارے وطن سے نکال باہر کیا اور ان صحراؤں میں انھیں واپس دھکیل دیا جن میں سے نکل کر وہ وطن عریز کو چرانے آ گئے تھے۔
غزکل کی لڑائی جس کا آغاز آزاد قازق کماندارِ اعلیٰ اور اس کے ایک معاون کی گرفتاری سے ہوا۔ تین دن اور تین رات تک مسلسل جاری رہی اور اس کا انجام اس پر ہوا کہ اشتراکی پیچھے ہٹ گئے۔ باقی ماندہ سردار خصوصاً علی بیگ اور اس کے دو مددگار حمزہ اور قائنیش ادھر اُدھر گھوڑے دوڑاتے پھر رہے تھے تاکہ قازق سوار یکجا ہو کر حملے کریں، ایک مقام اتصال مقرر کریں کہ پہاڑوں میں کہیں سر جوڑ کر بیٹھیں، جن پر تاخت زیادہ ہو رہی تھی انھیں مدد پہنچائیں۔ اشتراکیوں کے سست رفتار شتر سواروں پر موقع دیکھ کر ٹوٹ پڑیں، اپنے خیمے اُتاریں۔ بکھرے ہوئے ریوڑوں کو سمیٹیں اور چھاپے مارنے کی تجویزیں بنائیں۔
علی بیگ کی بیوی مولیا نے خود اپنی ہمّت سے ایک چھاپہ مارا۔ جس وقت اشتراکیوں کا حملہ شروع ہوا تو اس کے پڑاؤ کی عورتوں اور بچوں کو اتنا وقت نہیں ملا کہ اپنے خیمے اُتار لیتے۔ بس اتنا موقع ملا کہ پہلے اپنے بچوں کی طرف لپکیں اور پھر اپنے گھوڑوں کی طرف، جب اوروں کی طرح مولیا بھی روانہ ہونے لگی تو کسی کا ایک کم عمر بچّہ اسے دکھائی دیا جو گھبراہٹ میں چھوٹ گیا تھا۔ اپنی زین پر سے نیچے جھک کر اس نے ایک ہاتھ سے بچّے کو اٹھا لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرپٹ چل پڑی۔ اشتراکی گھڑ سوار ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ کچھ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس کے گولی نہیں لگی ورنہ بعد میں اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں میں گولیوں کے کئی سوراخ تھے۔
دراصل پہاڑوں کی جانب عورتوں کا یوں سرپٹ روانہ ہو جانا کوئی گھبراہٹ کی دوڑ نہیں تھی بلکہ ایک ایسی پسپائی تھی جو بخوبی تکمیل کو پہنچی۔ حالانکہ پہلے سے اس کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔ چکّر کاٹ کر یہ عورتیں اس راستے پر جا نکلیں جہاں پہاڑوں میں ان کے بیشتر جانور چر رہے تھے۔ جب تک تعاقب کرنے والے وہاں پہنچیں مولیا اور ایک چرانے والے لڑکے نے یہ طے کر لیا کہ چپکے سے اپنے پڑاؤ پر پہنچ کر کچھ اپنا سامان نکال لائیں۔ جب وہ خیمے پر پہنچا تو انھوں نے دیکھا کہ دشمن نے ابھی اسے لوٹا نہیں ہے۔ انھیں یہاں دو مشین گنیں اور کچھ کارتوس بھی مل گئے۔ لہذا اب انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ خیمے ہی میں ٹھہرے رہیں اور جب دشمن ادھر آئے تو اس کا قرض مع سود چکا دیا جائے۔ دشمن نے پہلے تو تعاقب کیا اور جب ان کے ہاتھ کوئی نہیں آیا تو وہ لوٹ مار کے خیال سے پڑاؤ پر واپس آیا۔ مولیا اور چرواہے نے دشمنوں کو خیمے کے قریب آ جانے دیا۔ اور جب وہ بالکل پاس آ گیا تو انھوں نے دونوں مشین گنیں چلا دیں۔ دشمن گھبرا کر چھپنے کے لیے بھاگے، اتنے میں اس کے بہت سے آدمی ہلاک ہو چکے تھے۔ اشتراکیوں نے ان دونوں مشین گنیں چلانے والوں پر اندازے سے گولیاں پانچ گھنٹے تک چلائیں اور جب علی بیگ اور اس کے آدمی پڑاؤ پر واپس آئے تو وہاں سے دشمن کھسک گئے۔ مولیا کے ہمّت کر لینے سے ان کا سارا مال و اسباب بچ گیا جس میں علی بیگ کی مشہور دیگ بھی تھی۔
اطمینان ہونے پر جب قازقوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ قازق زیادہ نہیں مارے گئے تھے۔ انفرادی کوششوں اور مولیا جیسے حوصلے کے کارناموں کی بدولت انھوں نے اپنے بیشتر خیمے بھی بچا لیے اور گھر کا سامان بھی اور کم از کم پندرہ ہزار جانور بھی بچ گئے۔ اونٹ، مویشی، بھیڑیں اور گھوڑے۔ ان کا اتنا کر لینا کوئی بہت عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ یہ ہم جانتے ہی ہیں کہ قازقوں کی ہر عورت اور بچّہ بھی خوب لڑنا جانتا ہے۔ حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں یہ لوگ بد حواس نہیں ہوتے۔ مزاج کے لحاظ سے دیہاتی نہیں ہوتے حالانکہ نسلی اعتبار سے چرواہے ہوتے ہیں لیکن تیز دماغ ہوتے ہیں اور مشکل سے رام ہونے والے۔
بے شک یہ ممکن ہے کہ اشتراکیوں کا یوں چھوڑ کر چلا جانا اس خیال سے ہو کہ ہم نے ان کے دو سب سے بڑے سرداروں کو گرفتار کر ہی لیا ہے، اب یہ لوگ آپ ہی منتشر ہو جائیں گے۔ پہلے ہی ہلّے میں انھوں نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی تھی اس سے زیادہ انھیں اور کیا چاہیے تھا۔
جب باقی ماندہ قازق سرداروں کو مل کر بیٹھنے کا موقع ملا تو جائزہ لینے پر انھوں نے اس وقت سمجھ لیا کہ اب ان کے لیے ایک ہی راہِ عمل کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہ تبّت میں پہنچ جائیں اور اگر وہ گزرنے نہ دیں تو ان سے لڑ کر ہندوستان پہنچا جائے۔ اس پر وہ سب متفق الرائے ہوئے کہ سب کا ایک ساتھ سفر کرنا ناممکن ہوگا۔ اب بھی تین ہزار مرد، عورتیں اور بچے تھے۔ جانور اور خیمے الگ رہے کیونکہ انھیں ابھی چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ تنگ وادیوں اور پہاڑیوں کی گھاٹیوں میں سے انھیں گزرنا تھا اور اتنے زیادہ آدمیوں کے اکھٹے جانے میں قطار کئی میل لمبی بنتی۔ اگر اشتراکیوں کے ہوائی جہاز اس پر حملہ کر دیں یا گھاٹی کی چٹانوں پر سے دشمن گولیاں چلاتا تو یہ لمبی قطار منتشر نہیں ہو سکتی تھی۔ کسی درّے میں سے گزرتے وقت اس قطار کے ایک سرے کا تعلق دوسرے سرے سے بالکل نہ رہتا یا پھر سب کو بہت آہستہ چلنا پڑتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ابھی فروری کا مہینہ تھا اور تبّت کا بد ترین جاڑا ابھی آنا باقی تھا۔ اگر قافلہ اس سے چھوٹا ہوتا تب بھی کھانے اور چائے کا مسئلہ کسی وقت بھی اندیشہ ناک ہو سکتا تھا اور اتنے بڑے قافلے کے لیے ان مشکلات کا کوئی حل ہی نہیں تھا۔
لہذا آزاد قازق جو بچ رہے تھے انھوں نے اپنے اپنے سردار چنے اور چھوٹے چھوٹے گروہ بنا لیے اور اشتراکیوں کی اطاعت قبول کرنے کے بجائے ایک بالکل انجانے مستقبل کی جانب روانہ ہو گئے۔ حسین تجی کا قول ایک مرتبہ پہلے نقل کیا جا چکا ہے یہاں پھر دہرایا جاتا ہے: جانور کی طرح زندہ رہنے سے یہ بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔ جانور انسان کی طرف اس طرح دیکھتا ہے جیسے خدا کی طرف دیکھ رہا ہو۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کی طرف اس طرح دیکھے۔
چنانچہ علی بیگ، دلیل خاں، سلطان شریف اور خود حسین تجی نے یکے بعد دیگرے پڑاؤ کو چھوڑا اور اپنے اپنے گروہ اور گلوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جنوب کی جانب الطائن پہاڑوں کے جانے پہچانے راستوں پر بھیانک اور عظیم کنلُون پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان پہاڑوں سے یہ لوگ واقف نہیں تھے۔ صرف اتنا جانتے تھے کہ ان کی دوسرے طرف تبت کی اجنبی سرزمین ہے جس پر گزر کر انھیں ہندوستان پہنچنا تھا۔ ہر گروہ نے اپنا راستہ خود انتخاب کیا اور ہر ایک کو نئے نئے واقعات پیش آئے۔ ان کی طرح جو چودہ مہینے پہلے کیو کلوک سے روانہ ہو کر اشتراکی چوکیوں سے بچ نکلے تھے۔ بعض تبت میں خوش نصیب رہے کہ اس میں سے گزرنے میں انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا اور تبت کے رہنے والوں اور تبت کے پہاڑوں سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ کچھ ایسے تھے جن کے مرد، عورتیں اور بچے آدھے مر گئے اور ان کے جانور آدھے ضائع ہو گئے۔ سب کو اپنا وطن چھوڑنے سے نفرت تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دوبارہ یہاں واپس آنا نصیب نہیں ہوگا لیکن واپس جانے کا خیال کسی کو خواب میں بھی نہیں آیا۔
علی بیگ کے ذاتی گروہ میں اب کے دو سو چونتیس افراد تھے۔ انھیں میں حمزہ اور قائنیش مع اپنی بیوی بچوں کے تھے۔ علی بیگ کی تین بیویاں چھ بچے اور صرف ایک بھائی جو بچ رہا تھا ساتھ تھا۔ باقیوں میں کوئی ایک سو چالیس مرد تھے اور باقی عورتیں اور بچے۔ ان کے ساتھ کئی ہزار بھیڑیں، کئی سو مویشی اور گھوڑے اور کوئی ساٹھ اونٹ تھے۔ جن میں سے ایک پر، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، علی بیگ کی زبردست دیگ لدی ہوئی تھی۔
یہ قافلہ رول کی شکل کی جھیل سے فروری کے پہلے ہفتے کے آخر میں روانہ ہوا، غزکل کی لڑائی ختم ہونے کے چوتھے دن ہی، اور اس سڑک پر چل پڑا جو علی بیگ نے ڈگلس میکیرنن کے لیے تجویز کی تھی۔ ان کا پہلا مقابلہ اشتراکی فوجوں سے روانہ ہونے کے دوسرے دن ہوا اور آخری مقابلہ اس وقت ہوا جب کشمیر کی سرحد پر وہ داخلے کی اجازت آ جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہندوستان کی سرحد پر وہ ٨ اگست ١٩٥١ء کو پہنچے۔ جھیل غزکل سے روانہ ہونے کے ساڑھے چھ مہینے بعد۔ اس عرصے میں انھوں نے بامِ دنیا کے نہایت بنجر اور غیر متواضع علاقے میں سفر کیا۔ راستے میں انھیں کئی لڑائیاں لڑنی پریں اور کتنی ہی چھوٹی بڑی جھڑپیں بھی ہوئیں اور تقریباً اس سارے عرصے میں انھیں قدرتی رکاوٹوں سے اتنی شدید کش مکش کرنی پڑی کہ شاید ہمالیہ کی چوٹیوں، ایورسٹ اور کنچن چنگا کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں ہی کو کرنی پڑی ہوگی۔