اپریل ١٩٤٨ء میں چیانگ کائی شیک دوبارہ ریاست چین کا صدر اعلی نامزد ہوا تو نان کنگ میں اس کے اعزاز میں جو جشن منایا گیا اس میں شرکت کرنے کے لیے قازق نمائندہ حمزہ اور عثمان بطور کا بیٹا شیر درمان منتخب کیے گئے۔ حمزہ کی عمر اب چھتیس سال کی تھی اور شیر درمان اس سے دو ایک سال چھوٹا تھا۔ حمزہ چینی زبان روانی سے بول سکتا تھا لیکن شیر درمان چینی میں بات چیت نہیں کر سکتا تھا۔
جلسوں سے جب بھی فرصت ملتی تو شیر درمان اور حمزہ نان کنگ میں اپنا بیشتر وقت جنرل پائی چنگ سی سے مشورے کرنے میں گزارتے۔ یہ جنرل چینی وزیر جنگ تھا اور اس نے چین کے تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ خصوصاً غیر چینی قازقوں اور ترکیوں اور چینی تن گنوں کو ایک کرنے کا۔ انھیں منظم کر کے اشتراکیوں کے خلاف ایک متفقہ فوج بنانی تھی جو مغربی رخ سے حملہ آور ہو۔ اشتراکی روز بروز قوت پکڑتے جا رہے تھے کیوں کہ انھیں کچھ مدد تو سوویت حکومت سے مل رہی تھی اور کچھ نان کنگ کے باہمی اختلافات سے۔ شمالی مغربی صوبوں کے کل مسلم مندوبین جنرل پائی کے زبردست حامی تھے اور اپنی بستیوں کی طرف سے اسے پوری مدد کا یقین دلا رہے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں انھیں معلوم ہوگیا کہ کومنٹنگ کی کونسلوں میں جنرل پائی کا اثر زائل ہوتا جا رہا ہے اور جنرل اسیمو کے ساتھ جو گروہ اشتراکیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا حامی تھا، زیادہ با اثر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شمال مغربی صوبوں سے جو مسلمان آئے تھے بالخصوص سنکیانگ سے انھوں نے مقدور بھر کوشش یہ سمجھانے کی کی کہ اس مل جل کر رہنے سے ان پر کیا گزر چکی تھی۔ شنگ کی خفیہ پولیس، لال ڈاڑھی والوں کے مظالم، غلامی، عملاً صوبے کو سوویت یونین کے حوالے کر دینا، ساتھ نہ دینے والے رہنماؤں کا غائب ہو جانا، مذہبی جبر، خاندانی زندگی کی بربادی۔
ایک سفید ریش بزرگ نے اس کی حقیقت ہم سے ایک تشبیہی قصے کی صورت میں یوں بیان کی:
“مل جل کر رہنا اس کویل کی طرح ہے جو کسی دوسرے پرندے کے گھونسلے میں اس کے انڈوں کے پاس اپنے انڈے اطمینان سے دے دینے کا حق جتاتی ہے۔ پھر جب کویل کے انڈوں میں سے بچے نکل آتے ہیں اور پر پرزے نکال لیتے ہیں، وہ اس پرندے کے بچوں کو گھونسلے سے باہر نکال پھینکتی ہے جس کے ساتھ وہ مل جل کر رہتی رہی اور پرندے کے بچے زمین پر گر کر مر جاتے ہیں اور آرام سے سو جاتے ہیں کیوں کہ مر جاتے ہیں اور گھونسلے میں بھی پھر امن ہو جاتا ہے۔”
لیکن حمزہ کا بیان یہ ہے کہ جتنی گفتگو اس موقع پر ہوئی وہ ساری کی ساری سیاسی جوڑ توڑ پر ہوئی۔ کوئی قوی عملی شکل ایسی اختیار نہیں کی گئی جو قازقوں کی مرضی کے مطابق ہوتی۔ لہذا جب شیر درمان اور حمزہ چینی دار الحکومت میں دو مہینے ضائع کرنے کے بعد ارمچی واپس آئے تو انھوں نے آکر اپنے سرداروں کو بتایا کہ کومنٹنگ سے کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی:
“وہ ایک دوسرے سے باتیں بناتے ہیں اور سودے بازی کرتے ہیں اور بازاری دکان داروں کی طرح باتیں کرنے میں انھیں مزہ آتا ہے۔ اگر ان کی قیمت کافی لگ جائے تو ان میں سے کئی خود بک جانے کو تیار ہیں۔ اگر یہ لوگ اور ان کے چند امریکی مشیر بھی ہماری طرح نو سال شنگ کی عمل داری میں رہے ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ اشتراکی قیمت اچھی خاصی لگاتے ہیں لیکن جب وہ ان کی آمادگی دیکھ لیتے ہیں اور ان کی بولی کام کر جاتی ہے تو وہ سب کچھ واپس لے لیتے ہیں لیکن جب نان کنگ میں ہم نے انھیں یہ باتیں بتائیں تو انھوں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔”
ان دونوں نوجوان قازقوں کو اپنے گھر واپس آئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ان پر پہلی ضرب پڑ گئی۔ نان کنگ سے جنرل سنگ سی لیئن کو واپس آنے اور اس کے بدلے جنرل تاؤ تزیو کو چینی فوجوں کی کمان سنبھال لینے کے احکام جاری ہو گئے۔ حمزہ اور شیر درمان نے اس کے یہ معنی نکالے کہ وزیر جنگ جنرل پائی گومنتانگ سیاست دانوں سے لفظی جنگ ہار گیا اور سرحدی تنازعات کے لیے جنرل شنگ کی سرکردگی میں متفقہ کارروائی کرنے کی جو پالیسی طے ہوئی تھی اس کے بدلے مشرقی ترکستان میں مصالحتی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ حالانکہ چین کا یہی وہ حصہ تھا جہاں سوویت حکومت آسانی سے اشتراکیوں کی مدد کر سکتی تھی اور کر رہی تھی۔
علی بیگ نے حمزہ سے پوچھا: “اس تاؤ سے ہم کیا توقع رکھیں۔ جنرل سنگ کو ہم جانتے پہچانتے ہیں اور اس نے ہمارے آدمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کہ اس نے انھیں ہتھیار دیے، کم سہی، کیوں کہ خود اس کے پاس زیادہ نہیں تھے اور اس نے ہم پر بھروسا کیا۔ لیکن یہ تاؤ کیا کرے گا؟”
حمزہ نے نفرت سے کہا: “یہ کرے گا کیا ہمیں ہتھیار واپس کرنے کا حکم دے گا اور پھر شاید یہ ہتھیار اس اندیشے سے اشتراکیوں کے حوالے کر دے گا کہ وہ انھیں ہمارے قبضے میں دیکھ کر ناراض نہ ہوں۔”
علی بیگ نے کہا: “اگر اس نے اپنے ہتھیاروں کا مطالبہ کیا تو دیکھنا میں کیسا جواب دیتا ہوں۔”
جنرل تاؤ نے وہی کیا جس کی پیشین گوئی حمزہ نے کی تھی۔ اس نے بیان دیا کہ باقاعدہ چینی فوج میں جس حکم کے مطابق قازق بھرتی کیے گئے تھے اسے اس کے پیش رو جنرل سنگ نے غلط سمجھا تھا۔ جنرل تاؤ نے یہ بھی بتایا کہ معاہدۂ ایلی نے مقامی قوموں کو یہ حق دیا تھا کہ اپنی مقامی فوج میں جسے چاہیں بھرتی کریں۔ اصل صورت حال چونکہ یہ تھی اس لیے ہتھیار واپس کیے جانے چاہئیں اور وردیاں بھی۔ اگر قازقوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہو تو انھیں مقامی حکومت سے یہ چیزیں حاصل کرنی چاہئیں، لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ اشتراکیوں اور کومنٹنگ کے درمیان ایک پر امن فیصلہ تمام اختلافات کا ہونے والا ہے، اس لیے ہتھیاروں کی چنداں ضرورت ہی نہیں تھی۔
یہاں یہ بات بھی سن لیجیے کہ جب اشتراکیوں نے اقتدار حاصل کر لیا تو جنرل تاؤ ارمچی ہی میں رہا اور اس کا رتبہ انھوں نے بڑھا دیا۔
ارمچی میں جب تاؤ آیا تو اس وقت چینی لشکر کی قازق فوجیں عثمان بطور کی سرکردگی میں سوویت اور منگولی حملہ آوروں سے لڑی رہی تھیں۔
عثمان بطور دراصل چینی حکومت کی فوجوں کو حملہ آوروں کے مقابلے میں جنرل تاؤ کی اعلی کمان میں لا رہا تھا۔ اس کے علاوہ جس وقت تاؤ نے یہ کہا کہ اب قازق چینی باقاعدہ فوجوں میں شامل نہیں رہے اس وقت سوویت حکومت نے علاقۂ الطائی کو مع اس کے قیمتی معدنیات کے ممنوع علاقہ قرار دے دیا تھا اور اس کی سرحد کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا تاکہ پرچول کرنے والی آنکھیں یہ نہ دیکھ سکیں کہ چینی علاقے میں سوویت کان کن کیا کر رہے ہیں۔
علی بیگ اور حمزہ کے بیان کے مطابق سوویت حکومت اب بھی الطائی پر قابض ہے (اسے انھوں نے سائبیریا کے الطائی صوبے میں شامل کر لیا ہے)، اس کے علاوہ خلدزا اور تار باغتائی کے بہت سے علاقے بھی روسیوں کے قبضے میں آ چکے تھے۔ حالانکہ چیانگ کائی شیک چین سے باہر نکال دیا گیا تھا اور اس کے بدلے اشتراکی ماوزی تنگ وہاں حکومت کر رہا تھا۔
جنرل تاؤ کے طرز عمل نے مشرقی ترکستان کی تمام مقامی قوموں کو یقین دلایا کہ کومنتانگ حکومت سے کوئی توقع مدد کی نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب قومیں ایک دوسرے سے قریب ہونے لگیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگست ١٩٤٨ء میں علی بیگ نے محسود صابری کو تمغۂ ابلائی خاں دیا۔ یہ محسود صابری حکومت کا ترکی صدر تھا اور پہلا غیر قازق تھا جسے یہ اعزاز ملا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جو تمغا اسے ملا وہ ١٩٤٥ء کی طرح صرف تمغۂ آزادی نہیں کہلاتا تھا بلکہ اسے ابلائی خاں سے موسوم کیا گیا تھا جو قازق تاریخ میں روسیوں سے شروع انیسویں صدی میں لڑ کر شہرت حاصل کر چکا تھا۔
قازقوں سے محسود صابری کو تمغا ملے تین مہینے ہوئے تھے کہ چینی ساتھ رہنے والوں نے جوڑ توڑ کر کے اسے صدارت کی جگہ سے ہٹوا دیا۔ اس کے بعد سے عملاً صوبۂ سنکیانگ مرکزی حکومت کے زیر اثر نہیں رہا۔ اس کی قسمت اب جنرل چانگ کے ہاتھ میں تھی جو شمال مغربی چین کے جنرل اسیمو کے مصالحتی صدر دفتر کا ناظم اعلی تھا۔ خود جنرل چانگ جنرل تاؤ کی طرح بالکل یقین رکھتا تھا کہ کچھ ہی عرصے میں اشتراکی قابض ہو جائیں گے۔ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے انتظامات کر لیے۔ علی بیگ کا کہنا تو یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جنرل چانگ نے درخواست کی تھی کہ ارمچی میں جنرل تاو کو متعین کر دیا جائے کیونکہ وہ روسیوں کے ساتھ اچھی نباہتا ہے۔
محسود صابری کے بعد صدارت پر برہان شہیدی فائز ہوا۔ اس کے متعلق اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جنرل تاؤ اور جنرل چانگ کی طرح وہ اس وقت بھی بدستور صدر رہا جب اشتراکیوں نے ارمچی پر قبضہ کر لیا اور کھلم کھلا عنان حکومت سنبھال لی۔ صوبے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے پہلا کام برہان شہیدی نے یہ کیا کہ عثمان بطور اور علی بیگ دونوں کو ریاست کا دشمن قرار دے دیا۔ لیکن جتنا سخت یہ اعلان تھا اتنی سخت گیری سے اس پر عمل کرنے کی اس میں قوت نہیں تھی۔ اس لیے دونوں کے نمائندے بے روک ٹوک ارمچی میں آتے جاتے رہے اور ان مسلمان ممبروں سے ملتے رہے جو صوبائی حکومت میں شامل تھے اور ترکستان کی خود مختاری کی حمایت کرنے پر اب بھی قائم تھے؛ ان میں سب سے نمایاں قازق سردار سعالی سکریٹری جنرل اور جانم خاں وزیر مالیات تھے۔ قازق ان دونوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی وجوہ حسب موقع پیش کی جائیں گی۔
۱۹۴۸ء میں جنرل تاؤ اور برہان شہیدی کے بر سر اقتدار آجانے سے جو کچھ آئندہ ہونے والا تھا اس کی پرچھائیں مستقبل پر صاف دکھائی دینے لگیں۔ ۱۹۴۸ء کا سال دوسرے ملکوں کے لیے جو مشرقی ترکستان سے بہت دور تھے نہایت ہنگامہ خیز تھا۔ کیونکہ یہ ۱۹۴۸ء ہی تھا جس میں سوویت حکومت نے پراہا میں اشتراکی ناگہانی انقلاب برپا کرایا اور ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ اور پولینڈ کی اشتراکی ٹولیوں کو شہ دی کہ غیر اشتراکی ٹولیوں کے اس کابوس سے نجات پائیں جس سے جرمنوں کے اخراج کے بعد سے وہ اتحاد کیے ہوئے تھیں۔ مختصر یہ کہ جب یورپ میں اشتراکی ساتھ رہنے کے زمانے کو اس طرح ختم کر رہے تھے کہ یا تو اپنے ہم آشیاں کو نگل لیتے یا انھیں آشیاں سے باہر دھکیل دیتے تو چین کے اشتراکی بھی انھی کی پیروی کی تیاریاں کر رہے تھے۔
مارچ ۱۹۴۹ء تک قازقوں اور ترکوں کی آزادی کے لیے اشتراکی خطرہ کوئی سایہ نہیں رہا تھا بلکہ ایک تیزی سے قریب آتی ہوئی حقیقت بن گیا تھا۔ لہذا علی بیگ نے ایک بار پھر کوشش کی کہ ترکستانی مسلمانوں سے جن میں وہ تن گن دستے بھی شامل تھے جو اب تک چینی باقاعدہ فوج میں شامل تھے اشتراکیوں کے خلاف ایک محاذ قائم کرے۔ ان کے کماندار جنرل ماچنگ ہسیانگ نے اس تجویز کو پسند کیا لیکن یہ کہا کہ چونکہ جنرل پائی نان کنگ میں اپنا اثر کھو چکا ہے اس لیے ایسے اقدام میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اس نے قازقوں کے اس شبہ کی تصدیق کی کہ چینی مصالحتی ناظم اعلیٰ جنرل چانگ جس کا صدر دفتر لانچاؤ میں تھا غیر مصالحتی افسروں کو لانچاؤ سے آنے جانے نہیں دیتا تاکہ نان کنگ جاکر جنرل چیانگ کائی شیک سے حقیقت حال نہ کہہ دیں یا ارمچی میں جنرل تاؤ کے اقتدار کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس طرح اُرمچی کا زمینی اور ہوائی تعلق چین سے بالکل منقطع ہوگیا تھا۔ جنرل تانگ یا جنرل تاؤ کے ساتھ مل کر رہنے کے نظریے سے جس کسی کو بھی اختلاف ہوتا وہ ارمچی میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
جنرل تاؤ کے جاسوسوں نے قازقوں اور تن گنوں کی گفتگو کا پتہ چلا لیا اور جنرل ما کے پاس فوراً حکام آگئے کہ ان قازق لٹیروں سے تعلقات منقطع کر لیے جائیں جنھیں ریاست نے دشمن قرار دے دیا ہے۔
جنرل ما جنرل تاؤ کے ماتحت تھا۔ اس لیے احکام ماننے پر مجبور تھا لیکن جب رات آئی تو بہت سے تن گنوں کی رائفلیں اور مشین گنیں اور گولیاں اور ہتھ گولے بھی کسی نہ کسی طرح گیہوں کی بوریوں میں پہنچ گئے اور یہ بوریاں اونٹوں پر لدی ہوئی شہر کے دروازوں پر تاؤ کے پہرہ داروں کی نظروں کے سامنے سے دن دہاڑے گزرتی چلی گئیں۔ ساربانوں نے مناس کا راستہ لیا لیکن شہر پہنچنے سے پہلے، جس پر تاؤ کی فوجیں قابض تھیں، سب سے آگے کے اونٹ کو ایسی راہ پر ہنکا دیا جو پہاڑوں میں چلی جاتی تھیں۔ دوسرے اونٹ چونکہ خانہ بدوشوں کے دستور کے مطابق اگلے اونٹ سے رسی بندھے ہوئے تھے اس لیے جدھر اگلا اونٹ چلا یہ بھی چلے گئے، دوسرا قافلہ بھی پہلے قافلے کے پیچھے ہولیا اور ان کے ساربانوں نے انھیں چلنے دیا۔ کیونکہ ساربان سارے مسلمان تھے۔ اگرچہ سب قازق نہیں تھے، وہ اشتراکیوں سے نفرت کرتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر سیدھے سادے آدمی تھے اور جو بھی ان پر جوا رکھنا چاہتا اس کے آگے اپنا سرجھکا دیتے۔ جب علی بیگ کے آدمیوں نے اس خفیہ سامان کو نکال لیا تو گیہوں بھر بوریوں میں بھر دیا اور قافلے کو لوٹا کر پھر شاہراہ پر ڈال دیا۔
اس عرصے میں جنرل ما کے قاصد سفر کرکے خفیہ طور پر پہاڑوں میں علی بیگ کے صدر مقام پہنچے یہ طے کرنے کے لیے کہ اشتراکی جب پیش قدمی کریں تو انھیں کیسے روکا جائے۔ ترکی نمائندے بھی وہاں موجود تھے اور مذاکرات گھنٹوں ہوتے رہے۔ زمین پر ابھی برف پڑی ہوئی تھی کیونکہ مارچ ہی کا مہینہ تھا۔ لیکن نمدے دار خیموں کے اندر خوش گوار گرمی تھی اور کھانے کے لیے سال بھر کے برّے بھی موجود تھے لیکن ماحول کچھ کشیدگی کا تھا۔ جتنے بھی وہاں موجود تھے ان میں سے ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ میں اپنے ساتھی پر بھروسا کرسکتا ہوں یا نہیں؟ کہیں وہ اشتراکی تو نہیں ہے اور اس سے بدتر یہ کہ کہیں ارمچی جا کر بھانڈا تو نہیں پھوڑ دے گا کہ جنگی کونسل نے یہ یہ فیصلے کیے ہیں محض اس امید پر کہ اگر اشتراکی جیت جائیں تو اس صلے میں اس کی جان بچ جائے۔
بہت سوچ بچار اور گفت و شنید کے بعد قازق ترکی تُن گن کی مشترکہ جنگی کونسل نے فیصلہ کیا کہ ہماری فوجوں کا اجتماع کارا شہر اور توکسن کے درمیان کیا جائے۔ یہ دونوں شہر تئین شان پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں پر ہیں۔ لانچاؤ کے روبرو اور اشتراکیوں کی پیش قدمی ادھر ہی سے ہو سکتی تھی۔ تن گنوں کے لیے یہ کام بہت سہل تھا۔ کیونکہ ان کے بیشتر مسلح آدمی ارمچی میں تھے اور ایک سڑک بھی موجود تھی۔ ترکیوں کے لیے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ کیونکہ ان کے لیے لڑنے والے آدمی ہی کم تھے۔ لیکن علی بیگ اور اس کے قازقوں کے لیے اس کا یہ مطلب تھا کہ تئین شان کے شمالی رخ پر ان کے جو روایتی مسکن تھے انھیں چھوڑا جائے۔ یہ صحیح ہے کہ علی بیگ اور حمزہ کی ۱۹۴۴ء کی بغاوت میں قازقوں اور چینیوں کی جو لڑائی مناس میں ہوئی تھی اس کے بعد قزل ازون کی وادی چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ لیکن وہ پہاڑوں کے شمال ڈھلانوں پر رہتے رہے اور جب چاہتے واپس بھی چلے جاتے۔اب انھیں سلسلۂ کوہ کو عبور کر کے دوسری طرف جانا اور اپنے لیے مسکن تلاش کرنا تھا اور اپنے ریوڑوں اور گلوں کے لیے ایسے علاقے میں چراگاہیں ڈھونڈنی تھیں جہاں بارش نسبتاً بہت کم ہوتی تھی اور سوائے خدا کے کسی کو علم نہیں تھا کہ اب آئندہ پھر واپس آنا کب نصیب ہوگا۔
علی بیگ نے ایک سرسری سا نقشہ اس راستے کا بنایا، جس پر تارکین وطن کو اپنا طویل سفر کرنا تھا۔ انھیں اس کے متعلق کچھ نہیں معلوم تھا کہ کب یہ سفر شروع کرنا پڑ جائے گا۔ اس کا بیٹا حسن انگریزی بولتا اور لکھتا ہے۔ کشمیر میں اس نے انگریزی سیکھی تھی۔ اس نے اپنے باپ کی ہدایتوں کے مطابق مقاموں کے نام لاطینی حروف میں لکھے۔ یہ سفر اپریل کے وسط میں شروع ہوا جب برف اتنی پگھل گئی کہ قازق اپنے لدے ہوئے جانوروں کو اس عظیم سرمایۂ آب پر سے گزار لے جائیں جو پندرہ ہزار فٹ اونچی دیوار کی طرح ڈیڑھ سو میل تک چلا جاتا ہے اور اس میں کہیں بھی اتنا شگاف نہیں ہے کہ کوئی اس میں سے گزر جائے۔ دورانِ سفر میں ان کے مشرق کو وہ تین دیو آسا برف پوش چوٹیاں تھیں جو سطح سمندر سے اکیس ہزار فٹ اونچی تھیں اور قازقوں اور ان کے ریوڑوں اور ان کے شاہین سے شکار کھیلنے والے گروہوں کو سدا سے دیکھتی چلی آئیں تھیں۔
بیشتر راہ انھیں بغیر کسی سڑک کے طے کرنی پڑی اور جانوروں کے لیے چلنا بڑا مشکل ہورہا تھا کیونکہ ان پر خیمے اور گھریلو سامان لدا ہوا تھا۔ اسی میں علی بیگ کی وہ بڑی سی آہنی دیگ بھی تھی جسے اونٹ کی پیٹھ پر رکھنے کے لیے چھ قوی آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اپنے سفر میں وہ کارا تاؤ — کالے پہاڑوں — میں سے گزرے، یہ پہاڑ تئین شان سلسلۂ کوہ کا ایک حصہ ہیں۔ پھر زورِمتی، اُستی، اُش تاثیر کائی اور کیو کلوک سے گزرے۔ ان میں سے جہاں تک ہمیں علم ہے صرف کیو کلوک نقشوں میں درج ہے۔ اسی کیو کلوک میں چینیوں سے بوکو بطور اپنی آخری سے پہلی لڑائی لڑا تھا۔ کیو کلوک کے معنی ہیں “گھاس کی جگہ”۔ یہ مقام کیوک تاؤ یعنی نیلے پہاڑوں میں ہے۔ کیو کلوک کے قریب وہ اس سڑک پر آ گئے جو اُرمچی سے طُرفان کو جاتی ہے۔ طُرفان دنیا کا سب سے نیچا آباد شہر ہے جو سطح سمندر سے کم و بیش ایک ہزار فٹ نیچا ہے۔
علی بیگ ابھی کیو کلوک پہنچا ہی تھا کہ اسے اطلاع ملی۔ دو سب سے اہم ترکی سردار عیسیٰ بیگ اور محمد امین بغرا جو وزیر نو تعمیرات اور ڈپٹی سکریٹری جنرل تھے، خفیہ طور پر اُرمچی سے فرار ہو گئے تھے کیونکہ انھیں یقین ہو گیا تھا کہ اب حالات بد سے بدتر ہی ہوتے جائیں گے۔ ان دونوں سے یہ توقع تھی کہ اشتراکیت کے خلاف جو متفقہ محاذ بنایا جائے گا اس میں یہ بھی شریک ہوں گے، اس لیے ان کا چلا جانا اس محاذ پر ایک کاری ضرب تھی۔ ان کے ساتھ ارمچی کے کوئی چار سو باشندے اور ان کے بال بچے بھی چلے گئے۔ اس پارٹی کے پاس کسی قسم کے ہتھیار نہیں تھے اور جب پندرہ چینی اشتراکی سپاہیوں کے ایک گشتی دستے نے انھیں کشمیر کی سرحد پر جا لیا تو انھوں نے ان میں سے بہت سوں کو لوٹ کر جانے پر رضامند کر لیا لیکن عیسیٰ بیگ اور محمد امین واپس چلنے پر رضامند نہیں ہوئے۔ اس لیے انھیں اپنے گھر والوں کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی آزادی دے دی گئی۔ ابھی صرف اپریل ہی تھا اور قراقرم پہاڑ جن پر سے ان کا راستہ تھا، سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ بلند تھے اور ان پر گہری تازہ برف پڑی تھی، ان پر سے بھی وہ کسی نہ کسی طرح گزر گئے۔ لیکن محمد امین کی بیٹی سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ وہ، اس کی بیوی اور بیٹا پہلے کشمیر کے صدر مقام سری نگر گئے۔ یہاں کئی سال رہے پھر استنبول چلے گئے۔ عیسیٰ بیگ آخر میں فارموسا چلا گیا۔ اگر آپ یہ پوچھیں کہ چینی اشتراکی فوج جہاں لڑ رہی تھی، اس سے ایک ہزار میل دور اشتراکی گشتی دستے نے ان بد نصیبوں کو کیسے جا لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ روسی سرحد کا فاصلہ صرف پچاس میل تھا۔
اشتراکیوں کے خلاف متحدہ محاذ میں ترکیوں کی شمولیت کی امید ایک دم سے یوں ختم ہو گئی۔ ١٥ اپریل ١٩٤٩ء کو علی بیگ نے ایک اور جنگی مجلس شوریٰ طلب کی۔ یہ اجتماع خالص “حر الطائی” تھا چنگیز خاں کے نمونے پر، کیونکہ اس میں صرف قازق شامل تھے۔ حر الطائی نے علی بیگ کو اپنا سردار چُنا اور سب کی رائے یہ ہوئی کہ وہ کیوچنگ جا کر عثمان بطور سے ملے اور اسے متحدہ حملے کے لیے آمادہ کرے تاکہ اُرمچی کو جو دونوں سڑکیں مشرق سے آتی تھیں، انھیں اشتراکی ہشت راہ فوج پر بند کر دیا جائے۔ یہ فوج اس وقت سنکیانگ پر بڑھنے کے لیے کنسو میں جمع ہو رہی تھی۔
اسی زمانے میں اشتراکیوں کے خلاف جو تین قوموں کا مشترکہ محاذ بنایا جا رہا تھا، اس میں تن گنوں کی شمولیت معدوم ہونے لگی۔ عثمان بطور سے ملنے ابھی علی بیگ روانہ نہیں ہوا تھا کہ ایک تن گن نمائندہ اس سے ملنے آیا اور اس نے بتایا کہ جنرل تاؤ چینی لشکر میں سے تن گن فوجوں کو خارج کر دینے کی دھمکی دے رہا ہے اور ان سے ہتھیاروں کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
تن گن نمائندے نے کہا: “اگر ہم ہتھیار واپس کرتے ہیں تو ہمارے ہزاروں آدمی قتل کر دیے جائیں گے، اس لیے ہم اس کا یہ حکم نہیں مانیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اور آپ مل جائیں اور ہماری فوجیں مل کر لڑیں۔ رحم کے لیے پکار پکار کر مر جانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم لڑ کر مر جائیں؟”
علی بیگ اس پر رضا مند ہو گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ تن گنوں کے لیے دو ہی صورتیں ہیں، یا تو حکم کی تعمیل کریں یا پھر بغاوت کریں کیونکہ تاؤ اب بھی چین کی حکومت کا سرکاری نمائندہ تھا۔ تن گن چینی بھی تھے اور مسلمان بھی۔ انھوں نے جنرل ما بڑے گھوڑے کے زمانے میں پہلے بغاوت کی تھی اور شدید نقصان اٹھایا تھا اس لیے علی بیگ سوچ میں پڑ گیا اور وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اب کے وہ کیا کریں گے۔ ان لوگوں کے حالات بہت نازک تھے اور ان کے مسکن چنگھائی اور کنسو کے صوبوں میں تھے، جن کا فاصلہ سات آٹھ سو میل کا تھا۔ آخر میں ان کے جنرل اپنے بال بچوں کو لے کر فرار ہو گئے۔ چھوٹے افسروں اور سپاہیوں کو اشتراکی ہشت راہ لشکر نے اپنے قبضے میں لے لیا اور انھیں اپنی تعلیمات پلا کر محافظ دستوں کی صورت میں تقسیم کر دیا، لیکن ان میں سے بعض نے بغاوت کی، اپنی بارکیں جلا ڈالیں اور ہتھیار اور رسد لے کر قازقوں سے جا ملے۔
اب مشترکہ مسلم محاذ میں صرف قازق رہ گئے تھے۔ گھٹتے گھٹتے اب ان کی تعداد پندرہ ہزار فوجیوں کی رہ گئی تھی۔ حالانکہ خلدزا کی بغاوت کے وقت چالیس ہزار تھی۔ ان کے مقابلے پر چینی اشتراکی پارٹی تھی جو برابر قوت حاصل کرتی رہی تھی۔ اس کی نمائندگی مشہور ہشت راہ لشکر کرتا تھا جس کی ہتھیار بندی اور پشت پناہی سوویت یونین کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بہکائی سکھائی خلدزا قازق فوج بھی تھی جس میں پندرہ ہزار سپاہی تھے اور روسیوں کے راست قبضے میں تھی۔ آخر میں جنرل تاؤ کی سرکردگی میں چینی فوجیں تھیں، جن میں دس ہزار فوجی تھے اور جن سے بھی لڑنے کا حکم افسر دیں ان سے لڑنے کو تیار تھیں۔ لیکن اتنی بے یقینی اور اتنے تفاوت کے باوجود آزاد قازقوں نے ہمت نہیں ہاری۔
مئی ١٩٤٩ء میں جب کیوچنگ کے قریب عثمان بطور کے خیمے میں علی بیگ ملنے گیا تو اس وقت تک دونوں سرداروں پر واضح ہو چکا تھا کہ سوائے اپنے قازقوں کے کسی پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھیں صاف نظر آ رہا تھا کہ جنرل تاؤ اشتراکیوں سے جا ملے گا۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ یہ کیا کہ عثمان بطور کیوچنگ سے ہٹ کر کارا شہر توکسن علاقے میں چلا جائے جہاں مویشیوں کو موسم گرما میں چارہ مل سکتا تھا اور غنیم کے شدید حملے کرنے پر تئین شان پہاڑوں میں اور بھی اندر ہٹایا جا سکتا تھا۔ پچھلے تجربے کی بنا پر انھیں معلوم تھا کہ وہ یہاں محفوظ رہیں گے اور دشمن انھیں تلاش کر کر کے تھک کر لوٹ جائے گا۔
لیکن جب عثمان بطور نے جنوب مغرب کی جانب کارا شہر جانا چاہا تو اُسے معلوم ہوا کہ جنرل تاؤ کی فوجوں نے راستہ روک رکھا ہے۔ کھلے علاقے میں فراری جنگ کرنے میں اپنے ریوڑوں اور گلوں سے اسے ہاتھ دھونے پڑتے، اس لیے اس نے جنوب مشرق کی طرف مڑ کر بارکل جانے کا فیصلہ کیا۔ بارکل کے معنی ہیں “چیتوں کی جھیل”۔ یہاں طویل سلسلۂ کوہ تئین شان کا پہاڑی مشرقی سرا ہے اور ایک محفوظ کھلی ہوئی جگہ ہے۔ ١٩٣٦ء میں ترکِ وطن کر کے غزکل جانے سے پہلے حسین تجی اور سلطان شریف یہیں رہتے تھے۔ بارکل فصیل دار شہر حامی یا کیومل کے شمال میں ہے، جہاں سے ١٩٤٣ء میں روسی حفاظتی دستہ ہٹا لیا گیا تھا۔ حامی صوبۂ کنسو کی سرحد سے دور نہیں ہے۔ یہیں ہشت راہ لشکر سنکیانگ میں پیش قدمی کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا تھا۔ اشتراکی جن دو راستوں میں سے ایک کے ذریعے آ سکتے تھے اس کے بالکل قریب بارکل تھا اور دوسرے سے کارا شہر دُور نہیں تھا۔ بارکل کے گرد جو پہاڑ ہیں وہ کوئی پندرہ ہزار فٹ اونچے ہیں اور ان میں گرما اور سرما دونوں میں مویشیوں کو چارہ مل سکتا ہے۔
جب کیوچنگ میں علی بیگ عثمان بطور سے مشورہ کر رہا تھا تو دونوں سرداروں نے طے کیا کہ ارمچی واپس جانے پر علی بیگ کو امریکی قونصل ہال پیکسٹن سے ملاقات کرنی چاہیے۔ جہاں تک علی بیگ کی ذات کا تعلق تھا یہ ایک خطرناک مرحلہ تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے اس کے دشمن ریاست ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ مسٹر پیکسٹن کے سیاسی مرتبے کے لحاظ سے مسٹر پیکسٹن کا ایسے “بد کردار” شخص کی پذیرائی کرنا نہایت خطرناک بات تھی لیکن اس پر بھی وہ رضامند ہو گئے۔ اس ملاقات کے بارے میں علی بیگ نے کم سخنی سے کام لیا۔ زیادہ اس وجہ سے بھی کہ ١٩٤٩ء کے موسم گرما میں اُرمچی سے جاتے ہی ہال پیکسٹن مر گیا، اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے سے کچھ ہی پہلے۔ لیکن یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ قازق سردار نے اس سے دریافت کیا ہوگا کہ آزاد جمہوریتوں سے قازقوں کی واحد ضرورت – اسلحۂ جنگ – کو پورا کیے جانے کے امکانات ہیں یا نہیں۔ وہ اور عثمان بطور اب بھی سر ونسٹن چرچل کی طرح مطمئن تھے کہ جنگ کے بادل کتنے ہی گھرے ہوئے کیوں نہ ہوں، اگر ہمیں کام کے اوزار مل جائیں تو ہم کام کو ختم کر دیں گے۔ لیکن سمندر پار رسد پہنچانا اور بات ہے، چاہے سمندر آبدوزوں سے بھرا پڑا ہو اور قلب ایشیا میں قریب سے قریب دوست ملک کی بندرگاہ کراچی سے رسد پہنچانا کچھ اور بات ہے۔ ایک تو یہاں سے دو ہزار میل کا فاصلہ، دوسرے دنیا کے سب سے اونچے اور بے راہ پہاڑوں پر سے۔ لہذا ہال پیکسٹن آزادی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جو پیش کر سکتا تھا، وہ ہمدردی اور مشورہ تھا۔ وہ ہتھیار خریدنے کے لیے قازقوں کو روپیہ بھی پیش نہیں کر سکتا تھا کہ وہ امریکہ کے حریفوں سے ہی ہتھیار خرید لیں۔ لیکن اس وقت تک ارمچی بیرونی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا۔ امریکی اور برطانوی نمائندوں کے پاس اپنے قاصد ملازم بھی نہیں رہے تھے اور ان کی معمولی ڈاک کی جانچ پڑتال بھی لانچاؤ میں جنرل چانگ کے مصالحتی صدر دفتر میں کی جاتی تھی۔
علی بیگ کو مسٹر پیکسٹن نے جو مشورہ دیا اس میں یقیناً یہ بڑی قوی دلیل بھی شامل تھی کہ مقامی قوموں کو اپنے اختلافات دور کر کے اپنے ذرائع یکجا کر لینے چاہئیں۔ اس صورت میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ وہ سختی سے مزاحمت کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ لیکن یہ مشورہ بہت تاخیر سے ملا اور اس کا رُخ بھی غلط آدمیوں کی طرف تھا۔ ترکی تابِ مقاومت تو اسی وقت ختم ہو گئی تھی جب عیسی بیگ اور محمد امین بُغرا ملک سے نکل گئے۔ دو ایک ترکی جانباز اب بھی باقی تھے جن میں سے ایک شخص یول بارز بطورِ خاص قابل ذکر ہے۔ آگے چل کر ہم حسب موقع اس بارے میں بہت کچھ سُنیں گے۔ تن گن بھی تیزی کے ساتھ ترکیوں کی طرح ناامیدی سے بے دست و پا ہوتے چلے جا رہے تھے۔
جون ١٩٤٩ء میں ہال پیکسٹن سے خفیہ بات چیت کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد علی بیگ نے فیصلہ کیا کہ مسلم محاذ بنانے کی سعیِ لاحاصل سے دست بردار ہو جائے اور ان غیر مسلم منگولوں سے گفتگو کی جائے جو کارا شہر توکسن صوبے میں بڑی تعداد میں موجود تھے اور خود علی بیگ اور اس کے ساتھی بھی یہیں تھے۔ قرب و جوار میں سب سے بڑا منگول سردار کارا شہر کا وانگ تھا۔ یہ ایک زبردست سردار بھی تھا اور اس کی مقامی حیثیت بھی بہت زیادہ تھی۔ ایسے شخص کے ساتھ قدیم آداب و رسوم کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری تھا۔ اس لیے اس کے پاس جانے سے پہلے علی بیگ نے تیس قازق سرداروں کی ایک حُر الطائی طلب کی۔ یہ سردار علی بیگ کی ذاتی رہنمائی کو تسلیم کر چکے تھے۔ انھوں نے پہلے بنیادی سوال پر بحث مباحثہ کیا، اگر ہم اشتراکیت سے لڑیں تو ہمارے لیے جیت جانے کا کیا کوئی موقع ہے۔ سب کی رائے یہ ہوئی کہ جیتنے کا موقع ضرور ہے۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ہم ہار گئے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے بارے میں عموماً رائے یہ تھی کہ اس صورت میں قازق قبیلوں کو اپنے ریوڑ اور گلے تکلا مکان صحرا میں سے گزار کر غزکل کی طرف لے جانے چاہئیں جہاں بوکو بطور نے اپنی آخری لڑائی لڑی تھی۔ اور جہاں ١٩٣٦ء میں حسین تجی اور سلطان شریف نے پناہ لی تھی اور اس وقت سے اب تک محفوظ و مامون رہے تھے۔ جنگی کونسل نے محسوس کیا کہ یہ دور دراز مقام اشتراکیوں کے لیے اس قدر فاصلے پر ہے کہ وہ ان کے لیے اپنے آپ کو زحمت نہیں دیں گے، اور بعد میں جب جبر و تشدد ختم ہو جائے گا جیسا کہ ہر جبر و تشدد ختم ہی ہو جایا کرتا ہے تو ہم اپنے اپنے گھروں کو یہاں سے سدھار جائیں گے۔ ایسی صورتیں کئی بار ان کے آبا و اجداد کے زمانے میں پیش آ چکی تھیں لیکن اب کی بار یہ صورت اب تک پیش نہیں آئی تھی۔
یہ عام فیصلے کرنے کے بعد کونسل نے وانگ کا اتحاد حاصل کرنے کے فوری سوال پر توجہ دی۔ یہ خدمت علی بیگ کے سپرد کی گئی اور تفصیلی ہدایات، آداب و رسوم اور عملی موضوعات مرتب کی گئیں۔ علی بیگ کو اپنے ساتھ دو نہایت عمدہ گھوڑے چھانٹ کر لے جانے اور وانگ کو پیش کرنے تھے۔ اگر ان کے بدلے وانگ نے دو اتنے ہی اچھے گھوڑے علی بیگ کو نہیں دیے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ مرحلہ ختم ہو گیا۔ لیکن اگر ابتدائی باتیں بخیر و خوبی ختم ہو گئیں تو اگلا قدم قسموں اور حلف کے تبادلے کا ہونا چاہیے۔ اس صورت میں وانگ کو اس طرح قسم کھانی پڑے گی کہ اس کا منہ رائفل کی نال پر ہو، ایک کارتوس اس کے سر پر، اگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو علی بیگ کو کوئی معقول عذر کر کے گھر واپس آ جانا چاہیے اور قازق سرداروں کے جو جنگی منصوبے ہیں ان کا کوئی تذکرہ وہ اس سے نہ کرے۔ اس موضوع پر جنگی کونسل نے تفصیل سے بحث کی۔ بعض کا خیال تھا کہ وانگ کو کسی صورت میں یہ نہیں بتانا چاہیے کہ قازق میدان جنگ میں اپنے کتنے آدمی لا سکیں گے اور انھیں اشتراکیوں کے خلاف کس طرح استعمال کریں گے۔ یہ بڑی احمقانہ بات ہوگی۔ اوروں کا کہنا یہ تھا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ وانگ تمھیں یہ بتائے کہ وہ کتنی فوجیں دے سکتا ہے اور وہ کس حد تک ہتھیار بند ہیں تو ہمیں بھی اسے اسی قسم کی معلومات مہیا کرنی چاہیے، لہذا علی بیگ کو اس کا اختیار دے دیا گیا کہ سب کچھ وانگ کو بتا دے۔
وانگ نے علی بیگ کا خیر مقدم گرم جوشی سے کیا اور تحفوں اور قسموں کا تبادلہ دونوں کے حسب مرضی ہو گیا۔ وانگ نے اسے بتایا کہ وہ کتنے آدمی دے سکتا ہے اور علی بیگ نے اس سے کہا کہ جب ان کی ضرورت ہوگی تو اطلاع دی جائے گی۔ اس وقت تک وانگ کو اور کچھ نہیں کرنا تھا۔ جب اس کا وقت آیا تو اس وقت بھی وانگ نے کچھ نہیں کیا لیکن دھوکا یا فریب نہیں کیا بلکہ واقعات ہی کچھ اس قدر تیزی سے بدلتے جا رہے تھے۔
وانگ سے یہ ملاقات ٨ جولائی ١٩٤٩ء کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد بظاہر کچھ سکون رہا۔ مگر اشتراکی صوبے کو اپنے قبضہ میں لینے کے منصوبے بناتے رہے۔ ٥ اگست کو ہال پیکسٹن سے ایک اور ملاقات ہونے والی تھی جس میں کل قازق سردار تحریک مقاومتِ متحدہ کی ترقی کی کیفیت اس سے بیان کرنے والے تھے، لیکن وقت کے وقت عثمان بطور نے کہلا بھیجا میں شریک نہیں ہو سکوں گا۔ اس لیے یہ ملاقات ملتوی کر دی گئی۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد مسٹر پیکسٹن اُرمچی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے، جاتے ہوئے وہ اپنے اختیارات اپنے نائب قونصل ڈگلس میکیرنن کو سونپ گئے تھے۔
علی بیگ کو اس کی اصل وجہ معلوم نہ ہو سکی کہ عثمان بطور اس ملاقات میں شریک کیوں نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ اس ملاقات میں کوئی ایسا شخص بھی شریک ہو رہا ہو جس پر عثمان بطور کو اعتماد نہ ہو لیکن اغلب یہ ہے کہ وہ نگرانی کی چوکیوں اور گشتی دستوں کے اس جال سے نہیں نکل سکتا تھا جو تاؤ کی چینی فوجوں نے پھیلا رکھا تھا۔ مصالحتی دستے جسے چاہتے روک دیتے اور صرف ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کو گزر جانے دیتے۔ ان دستوں نے علی بیگ کے اس قاصد کو گرفتار کر لیا تھا جسے کارا شہر کے منصوبوں سے آگاہ کرنے کے لیے عثمان بطور کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس بدبخت نے اذیتیں پانے پر راز کی کتنی باتیں بتا دیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اشتراکیوں نے بڑے کامیاب جاسوس لگا رکھے تھے اور انھیں قازقوں کے ارادوں اور نقل و حرکت کی ساری خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔
جب اگست ١٩٤٩ء بالآخر ختم ہونے لگا تو چینی قوموں کا اقتدار اُرمچی سے اُٹھ جانے کی صرف تاریخ کا تعین باقی رہ گیا۔ صوبائی صدر برہان شہیدی اور دوسرے خفیہ اشتراکیوں نے اپنے نقلی چہرے اُتار ڈالے تھے اور کھلم کھلا ہشت راہ لشکر کی آمد کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اشتراکیوں کے مخالف جو بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے تھے، جو باقی رہ گئے تھے وہ پر تول رہے تھے، جنھوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا وہ صبح ڈرتے ڈرتے اٹھتے کہ دیکھیے آج کا دن کیا دکھاتا ہے۔ بہت سی دکانیں بند ہو گئی تھیں۔ بہت سے مکان خالی پڑے تھے۔ اگر گھر والوں کو راہ فرار معلوم ہوتی تو اس سے بھی زیادہ مکان خالی نظر آتے۔
قازق وزیروں میں سے جانم خاں اور اس کے بیٹے دلیل نے بارکل میں عثمان بطور سے جا ملنا طے کیا لیکن اپنے دوستوں تک کو اپنے ارادے کی ہوا نہیں دی۔ کسی نہ کسی طرح وہ چند مسلح آدمیوں کے ساتھ حفاظت سے بارکل پہنچ گئے۔ عثمان بطور کو ایک اور حلیف یول بارز مل گیا تھا۔ یہ وہ قوی ترک تھا جس نے اپنے گرد اشتراکیوں کے مخالفین کا ایک ملا جلا گروہ جمع کر لیا تھا۔ ان میں چند اسی کی طرح کے ترک تھے۔ لیکن زیادہ تر وہ چینی فوجی تھے جنھوں نے اشتراکیت کو قبول نہ کرتے ہوئے تاؤ کی مصالحتی فوجوں سے کنارہ کر لیا تھا۔ یول بارز خود ستر سال کا تھا لیکن اس کی عمر نے نہ تو اس کا حوصلہ کم کیا تھا اور نہ ارادوں کو متزلزل کیا تھا۔
جانم خاں کے سوا بہت سے قازق سرداروں نے ارمچی ہی میں رہ جانا پسند کیا۔ اس خیال سے کہ وہ تئین شان پہاڑوں سے کچھ زیادہ دور نہیں تھی اور اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے پر وہ ان پہاڑوں میں پناہ لی سکتے تھے۔
ستمبر کے دن آہستہ آہستہ گزرتے گئے اور شہر میں کھنچاؤ بڑھتا گیا۔ ہشت راہ لشکر کے آنے میں دیر کیوں ہو رہی تھی؟ جب وہ آ جائے گا تو کیا وہ بھی شنگ اور اس کے لال ڈاڑھی والوں کی طرح ظلم و ستم کرے گا۔ کیا یہ لشکر اپنے ساتھ شنگ کے روسی تربیت یافتہ اور روسیوں کے اشاروں پر چلنے والی خفیہ پولیس اور گمنام درخواستوں کے لیے سفید بکس بھی لائے گا۔ شنگ جس ذاتی کاروبار اور ذاتی ملکیت کو ضبط نہیں کر سکا تھا، اس کا اب کیا ہوگا۔ ان افراد کا انجام کیا ہوگا جنھوں نے ذاتی طور پر سیاسیات میں کبھی حصہ نہیں لیا اور ان کا جنھوں نے حصہ لیا۔ کیا نئے آقا دوبارہ عوامی کاموں کے لیے جبریہ مزدوری اسی طرح کرائیں گے جیسے شنگ نے اپنے زمانے میں کرائی تھی اور اس کے خلاف بہت غم و غصہ پھیلا تھا۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اشتراکیوں کے واقعی بر سر اقتدار آ جانے سے بہت عرصہ پہلے ہی انھیں دور رکھنے کے لیے ارمچی کے باشندوں کی تمام امیدیں مٹ چکی تھیں۔ باہر پہاڑوں میں جو قازق تھے صرف انھی میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ اب باقی رہ گیا تھا اور بہت سے قازق کچھ ایسی حرکتیں کرنے کی سوچ رہے تھے کہ روسی ان سے تنگ آ کر مصالحت کی کچھ شرائط طے کر لیں اور غیر مشروط اطاعت قبول کرنے پر مصر نہ ہوں۔
اشتراکیوں نے جو پہلی چال چلی اس کا کسی کو سان گمان بھی نہیں تھا۔ سارے شہر میں اعلانات چسپاں کرا دیے گئے کہ اگلے دن ہر باشندہ شاہراہ پر جا کر روسی ہوائی اڈے پر جانے والے ہشت راہ لشکر کو خوش آمدید کہے۔ جو شخص بھی صبح دس بجے کے بعد گلیوں یا گھر میں بغیر پولیس کے خاص اجازت نامے کے پایا جائے گا، اسے بغیر کسی مقدمے کے فوراً گولی مار دی جائے گی۔
اس وقت اُرمچی میں تین ہوائی اڈے تھے جو چینی، امریکی اور روسی کہلاتے تھے۔ روسی ہوائی اڈہ شمال مغرب میں تھا۔ شہر کے دروازوں سے کوئی چھ میل دُور اس دار الحکومت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی۔ جنھیں اپنی جان کا خطرہ تھا، وہ سب جا چکے تھے۔ پھر بھی ایک لاکھ تیس ہزار باقی رہ گئے تھے۔ لہذا صبح سویرے ہی سے ہوائی اڈے کی سڑک پر لوگ انبوہ در انبوہ چلے جا رہے تھے؛ بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں بہت سوں کی گودوں میں بچے تھے؛ تندرست اور بیمار، غریب اور امیر۔ ستمبر کا آغاز تھا اور جب سورج چڑھا تو ساری فضا خاک سے اٹ گئی اور سانس گھنٹے لگا، گرمی ناقابل برداشت ہو گئی۔ ہوا بالکل بند تھی اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں کے گھسٹتے ہوئے قدموں سے جو خاک اڑ رہی تھی، فضا میں بادلوں کی طرح چھا رہی تھی اور کپڑوں پر برس رہی تھی۔ آزادی دلانے والوں کا استقبال کرنے جو لوگ جا رہے تھے ان کے حلق اور پھیپھڑوں میں یہ خاک گھسی جا رہی تھی۔
یہ انبوہِ کثیر سارے دن ہوائی اڈے پر انتظار کرتا رہا لیکن ہشت راہ لشکر نہیں آیا۔ آخر میں لوگوں کو گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی گئی اور جب وہ تھکے ہارے اور بھوکے پیاسے واپس پہنچے تو تازہ اعلانات نے انھیں خبردار کیا کہ اگلے دن پھر ہوائی اڈے جائیں۔ دوسرے دن بھی سب گھسٹتے ہوئے گئے اور لشکر نہیں آیا، لیکن تیسرے دن ہشت راہ لشکر یا اس کا پیش دستہ سچ مچ آ گیا۔ کوئی دو سو روسی ڈکوتا ہوائی جہاز جنھیں روسی جہاز راں چلا رہے تھے، فوجیوں کو بھر بھر کے لاتے اور اڈے پر اُتارتے رہے۔ کوئی چار پانچ ہزار چینی اشتراکی فوجی اور ان کے روسی اسلحہ اسی طرح اُتارے گئے۔ یہ جہاز آتے جاتے اور اپنا بوجھ اتارتے جاتے اور جمع شدہ انبوہ اطاعت شعاری سے آزادی دلانے والوں کے لیے نعرے لگاتا۔ نعرے لگوانے والے سرکاری آدمیوں کے آواز اٹھانے پر مجمع کے دل نہیں صرف آوازیں ساتھ دیتی رہیں، وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ورنہ ان کے گولی مار دی جاتی۔ ان کی تصویریں بار بار اُتاری جا رہی تھیں تاکہ اگر کسی کا مُنہ بند ہو یا چہرہ افسردہ ہو یا ہاتھ میں جھنڈیاں نہ ہوں تو اس کا پتہ چل جائے۔ شہر اور ہوائی اڈے کے درمیان انسانی سمندر تین دن تک اترتا چڑھتا رہا۔ اگر کسی کے دل میں مخالفانہ مظاہرہ کرنے کی تجویز بھی تھی تو سیل کر رہ گئی۔
جو اشتراکی ارمچی میں پہلے سے موجود تھے، وہ اس تین دن کی لازمی جاترا میں بیکار نہیں رہے۔ پارٹی کے معتمد ممبروں اور پولیس نے سارے شہر کو ایک ایک گھر کر کے بدخواہوں اور مخالفانہ دستاویزوں اور قیمتی چیزوں کے لیے بھی چھان مارا۔ اس طرح جو معلومات اور رقمیں حاصل ہوئیں، ان سے چین کی اشتراکی پارٹی نے صوبے میں مصالحت کا اگلا قدم اٹھایا۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کتنے بدنصیب ہوائی اڈے نہ جانے کی پاداش میں یا گھروں سے مجرم قرار دینے والا سامان برآمد ہو جانے کی وجہ سے گولیوں کا نشانہ بنے یا سنگینوں پر چڑھے۔
قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کسی نے بھی اس کارروائی کا سارا انتظام کیا تھا، وہ قازق اور منگول تاریخ کا عالم تھا، کیونکہ مفتوحہ شہر کے تمام باشندوں کو باہر نکال کر اپنے فاتحوں کا خیر مقدم کرنے پر مجبور کرنے کا دستور چنگیز خاں کا بنایا ہوا تھا۔ ایڈورڈ سویم نے جو چنگیز خاں کا ہم عصر تھا اس میں ترمیم کی کہ کیلے کے شہریوں کو حکم دیا کہ گلوں میں طوق و زنجیر ڈال کر رحم کی التجا کرنے شہر سے باہر آئیں، لیکن اشتراکیوں نے ارمچی کے بسنے والوں سے اپنی اطاعت گزاری کا تین دفعہ مظاہرہ کرا کے چنگیز خاں کو بھی مات کر دیا۔
ہشت راہ لشکر کی آمد کی خبر آس پاس کی آبادیوں میں فوراً پھیل گئی۔ چند گھنٹوں ہی میں یہ خبر علی بیگ نے کیو کلوک کے قریب کیومش میں سُن لی۔ اس نے حمزہ اور اشتراکیوں کے مخالف پرچے “ریویو” کے تقسیم کرنے والوں کو پچاس گھڑ سواروں کے ساتھ ایک طے شدہ مقام اتصال پر بھیج دیا۔ یہاں سے انھیں اُرمچی میں بعض قازق سرداروں کو قاصدوں کے ذریعے یہ اطلاع بھجوانی تھی کہ یہاں ان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے پانچ سردار ہمارے قصے میں اہم حصہ لیتے ہیں: سعالی اور جانم خان، یہ دونوں صوبائی حکومت کے رُکن تھے اور ان سے ہم پہلے مل چکے ہیں؛ ایک دولت مند تاجر عادل اور عبد الکریم مورخ، پانچویں کا نام خدادان ہے۔ یہ ایک بوڑھے با اثر قازق سردار کی بیوی تھی۔ اس سردار کو سب خدادان کا شوہر کہا کرتے تھے کیونکہ قبیلہ پر حکم بیوی ہی کا چلتا تھا اور سردار کے انتقال کے بعد اس کی گدی بیوی ہی نے سنبھال لی تھی۔ سب ملا کر کوئی پندرہ سردار تھے جن کے پاس حمزہ اور قائنیش نے قاصد روانہ کیے۔ ان سب کو اپنے ساتھ اپنے بال بچے، مسلح ملازم، ہتھیار بند ساتھی اور اپنی قیمتی چیزیں بھی لانی تھیں۔ بشرطیکہ اشتراکیوں کی تیز نگاہوں سے انھیں اب تک بچائے رہے ہوں۔
یہ جائے اتصال پیائی یانگ کئو میں تھی۔ پہاڑوں میں یہ ایک دلکشا مقام تھا۔ حمزہ نہیں جانتا تھا کہ تاؤ کی مصالحتی فوج یا خود ہشت راہ لشکر نے اس کی موجودگی کا پتہ چلا لیا تھا یا نہیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اطلاع پا کر وہ ناکہ بندی نہ کر دیں۔ اس لیے اس نے اس چھوٹی سی بستی کے باہر محافظ متعین کر دیے تاکہ تمام راستوں کی نگرانی کرتے رہیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ آنے والوں کے انتظار میں بیٹھ گیا۔
جن مہاجرین کو دعوت دی گئی تھی وہ اپنے اپنے گھر بار لے کر آنے لگے۔ یہاں تک کہ جانم خاں اور خدادان کے سوا سب آ گئے۔ سعالی اپنے ساتھ بہت سے سفید روسیوں کو لے آیا۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ اگر روسیوں کے ہاتھ میں پڑ گئے تو جان سلامت نہیں رہ سکتی۔
کئی گھنٹے بعد خبر آئی کہ جانم خاں اور اس کا بیٹا دلیل چند ساتھیوں کے ہمراہ خفیہ طور پر عثمان بطور کے پاس بارکل چلے گئے اور کسی کو اپنی روانگی کی اطلاع نہیں دی۔ اس قاصد کے بعد ہی دوسرا قاصد یہ خبر لایا کہ خدادان نے اُرمچی ہی میں ٹھہرے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حمزہ نے کہا: “مجھے یہی توقع تھی۔ کیا ہم پہلے سے نہیں جانتے تھے کہ کوئی ہمارے بھید اشتراکیوں کو دے رہا ہے۔ اب بات صاف ہو گئی کہ باغی کون ہے”۔
قائنیش نے فلسفیانہ انداز میں کہا: “شاید مٹاپے کی وجہ سے وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتی۔ ہاں اپنے شوہر کے سر پر ہر وقت سوار رہتی ہے۔”
حمزہ بولا: “وہ اتنا بڈھا ہے کہ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ خیر ان باتوں میں ہم اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ دشمن کے ہم پر آن پڑنے سے پہلے ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیے۔”
قائنیش نے کہا: “ہم پچاس ہیں، ہزار پر بھاری پڑیں گے۔”
حمزہ نے جواب دیا: “یہ سچ ہے۔ لیکن ہم لڑنے نہیں آئے۔ پیٹ بھر کے لڑنے کا وقت بھی آ رہا ہے۔”
قائنیش نے کہا: “سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”
یہاں سے سب گھوڑوں پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔
راستے میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی اور سب خیریت سے کیومش پہنچ گئے۔ چند روز بعد علی بیگ کو اطلاع ملی کہ خدادان واقعی اشتراکیوں سے جا ملی ہے، نہ صرف اپنے شوہر کو ساتھ لے گئی ہے بلکہ اس پورے قبیلے کو بھی دشمنوں میں لے گئی جس کے سربراہ دونوں میاں بیوی تھے۔ یہ ایک کاری ضرب تھی جس سے علی بیگ اور عثمان بطور کے لڑنے والے آدمیوں میں خاصی کمی ہو گئی۔ صرف یہی عورت ایک نمایاں قازق سربراہ تھی جو بغیر لڑے جھگڑے خوشی سے اشتراکیوں کی طرف دار ہو گئی۔ شاید قائنیش نے جو فقرہ اس کے بارے میں از راہ تمسخر کہا تھا سچ ہی تھا۔ قازق مہاجروں کا بیان ہے کہ وہ عورت کیا تھی، پہاڑ تھی اور شاید وہ سمجھتی ہوگی کہ لڑائیوں کی بھاگ دوڑ اس کے بس کی نہیں ہے۔ اس کے آ ملنے سے اشتراکیوں کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ اب تک زندہ ہے اور ١٩٥٣ء تک یہی اطلاع تھی کہ وہ اپنے قبیلے کی سربراہ ہے۔
ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ ترکی میں جو قازق مہاجر تھے اس پر اعتراض کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
ان میں سے ایک نے اس کی توضیح یوں کی کہ جو کچھ مرد کرتا ہے وہی عورت بھی کرتی ہے۔ ہر شخص کا معاملہ اپنے اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر ہم اس کی جگہ ہوتے تو شاید ہم بھی وہی کرتے جو اس نے کیا۔ لیکن اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی اس کی بُرائی کو جانچے گا۔
لیکن اگر قازق کہیں اشتراکیوں کو شکست دے دیتے اور خدادان ان کے ہاتھ میں آ جاتی تو اُسے مار ڈالتے۔