(مولانا محمد عثمان صاحب فارقلیط چیف ایڈیٹر روزنامہ الجمیعۃ دہلی)
اس کتاب میں قازقستان کے جن مظلوموں کی داستان مظلومی بیان کی گئی ہے اسے افسانہ قرار دینا نہ صرف مظلوموں پر مزید ظلم ہوگا بلکہ کمیونسٹ نظام کی ظالمانہ گرفت کے ساتھ بھی بڑی ناانصافی ہوگی۔ اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کی داستانیں ترک وطن کے مسلسل واقعات سے بھری پڑی ہیں، اسلامی تاریخ کا تو پہلا باب ہی اسی ہجرت سے شروع ہوتا ہے جس نے ترک وطن کے ساتھ وطن کی واپسی کا جذبہ پیدا کیا اور یہ ہجرت واپسی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ جب کبھی فاتح اور طاقتور قوموں نے کمزور قوتوں پر جبر کا حربہ استعمال کیا تو مفتوح اور ناتواں قوموں نے وطن پر ترک وطن کو ترجیح دی اور انھوں نے عزت نفس کی خاطر نہ وطن کے گلستانوں اورشفاف نہروں کی پروا کی اور نہ ان گلی کوچوں کو یاد کیا جہاں انھوں نے بچپن اور جوانی کے ایام گزارے تھے، کیونکہ عزت نفس ہی انسان کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جس پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو اس کتاب میں وہی نفسیاتی حقیقت نظر آئے گی جسے اصطلاح میں صیانت نفس اور قومی غیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اگر ایک طرف مظلوموں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے تو دوسری طرف ہجرت کے ان واقعات کی یاد دلاتی ہے جو اسلامی دنیا کے لیے ہمیشہ باعث افتخار رہے ہیں۔ یہ سبق ہمیں ہجرت ہی سے ملتا ہے کہ اصولوں کی خاطر انسان کو اپنی ہر محبوب متاع سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔ اسلام کے پیغمبر نے مکہ مکرمہ کی جن گلیوں میں پرورش پائی اور جس شہر کے در و دیوار پر آپ نے پیدا ہوتے ہی نظر ڈالی وہ سب اصول اور سچائی کی خاطر قربان کر دیے گئے۔ آپ نے مخالفوں کے جبر و تشدد سے تنگ آ کر اپنے محبوب وطن کو ترک کیا، آپ نے چلتے وقت مکہ کو مڑ کر دیکھا اور یہ کہہ کر کہ “اے میرے وطن مکہ! تو مجھے محبوب ہے مگر جس سچائی کی خاطر تجھے چھوڑنا پڑا ہے وہ تجھ سے بھی زیادہ محبوب ہے” مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، مگر یہ روانگی اس لیے نہ تھی کہ مکہ کی وادی حریفوں کے حوالے کر دی گئی اور انھیں من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا، بلکہ اس لیے تھی کہ کامیابی کے ساتھ واپسی ہو او جبر کو صبر کے ہتھیاروں سے شکست دی جائے۔ آپ کے حریف جو فلسفہ ہجرت سے ناواقف تھے یہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ ہجرت کا ایک مقصد واپسی بھی ہوسکتا ہے، اس لیے انھوں نے یہ سن کر کہ آپ وطن سے بے وطن ہوئے اطمینان کا سانس لیا، ان کا فیصلہ کچھ اور تھا اور قدرت نے کوئی دوسرا ہی فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ آپ مدینہ منورہ پہنچے اور تعمیر کا ایک نقشہ اس طرح ترتیب دیا کہ اس میں واپسی کے تمام رنگین نقوش ابھر آئے اور ہر نقش نے زبان حال سے کہا کہ کاتب تقدیر کے فیصلہ کی تکمیل اسی مکہ میں جا کر ہو گی جس نے خدا کے فرستادہ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
تاریخ کے اہم ترین واقعات میں ایسی مثالیں موجودہیں بعض دفعہ ظلم کی رسی دراز ہوتی ہے اور بعض دفعہ اسے دراز ہونے کی مہلت نہیں ملتی۔ جن ممالک میں ظلم کی رسی دراز ہوئی وہاں یہ خیال ہی دماغوں سے محو ہو گیا کہ اگر ظلم کی ابتدا ہے تو اس کی انتہا بھی ہے۔ جو لوگ ایسے مقامات سے ترک وطن پر مجبور ہوئے وہ گویا اپنی جگہ یہ فیصلہ کر بیٹھے کہ آئندہ ان کی یا ان کی نسلوں کی واپسی نہ ہو گی اور ان کی امتیازی شان کو دوبارہ عروج پانے کا موقع نہ مل سکے گا، لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب طویل زمانہ کے حالات نے پلٹا کھایا اور مظلوموں کو واپسی کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ اصولوں کے مقابلے میں جبر کی شدت اور زمانہ کا طول کوئی چیز نہیں، وہی قومیں جو بے بسی کی حالت میں نکالی گئیں، کسی وقت جا کر انھوں نے اپنے آپ کو اپنے وطن ہی میں پایا اور ان کی ناتوانی نے بھی توانائی کا روپ دھارن کیا۔ یہی نظارہ ہم کو پیغمبر اسلام کی ہجرت میں نظر آتا ہے۔ گو آپ کا زمانہ ہجرت بہت مختصر رہا مگر ہجرت برائے واپسی کا فیصلہ اٹل ثابت ہوا اور آپ اپنے جاں نثار رفقا کے ساتھ مکہ مکرمہ لوٹے اور اس شان کے ساتھ کہ مکہ کی اسلامی مرکزیت تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی اور چودہ سو سال بعد بھی اس کی یہ شان باقی ہے۔
زیر نظر کتاب میں جو داستان بیان کی گئی ہے وہ قازقوں کے اس گروہ سے متعلق ہے جس کا آبائی اور روایتی مسکن سنکیانگ یا چینی ترکستان ہے۔ چونکہ یہ لوگ جنگ جو اور بہادر تھے اس لیے وہ ابتدا میں کمیونسٹوں کے دباؤ کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ایک منظم اور جابر حکومت کا مقابلہ ان کے بس کا نہ تھااس لیے وہ شکست قبول کرنے کے بجائے تکلا مکان اور تبت کے صحراؤں اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں نکل گئے اور مرتے مرتے بھی دو ہزار کی تعداد میں کشمیر پہنچ گئے اور بالآخر حکومت ترکی کی دعوت پر ترکی میں قیام پذیر ہوئے۔ جن لوگوں کو اس بات کی جستجو تھی کہ یہ لوگ اپنے وطن مالوف کو خیرباد کہنے پر کیوں مجبور ہوئے اور کن اسباب کی بنا پر انھوں نے ہجرت کی مشکلات انگیز کیں، وہ ترکی پہنچے اور ان لوگوں سے مل کر وہ تمام باتیں سنیں جو اس کتاب کا جلی عنوان ہیں۔ زیرنظر کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ترکی میں مقیم ان ہی قازقوں کی زبان سے سن کر لکھا گیا ہے، اسی کے ساتھ خانہ بدوش زندگی اور ان کے اجداد کے حالات بھی درج کیے گئے ہیں جواس لحاظ سے کافی دلچسپ ہیں کہ اس سے پہلے ان کی زندگی پر کسی کو لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
جدید قازق رہنماؤں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد رہنما عثمان بطور سب سے زیادہ مشہور ہیں جو جہادِ حریت میں شہید ہوئے۔ عثمان بطور نہ صرف لڑائی کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے بلکہ قیادت کی اہلیت میں بھی بے مثال تسلیم کیے گئے تھے، لیکن ان کی مہارت دو سامراجوں سوویت یونین اور چین کے سامنے اپنا جوہر نہ دکھا سکی۔ انھیں خو داحساس تھا کہ وہ ان نظاموں پر غالب نہیں آسکتے البتہ وہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دے سکتے تھے۔ وہ لڑائی جو روس اور چینی اشتراکیت کے خلافت جاری رہی اور ١٩٣٠ء اور ١٩٥١ء کے درمیانی عرصے میں شدت کے ساتھ بڑھتی رہی، اس کا نتیجہ قازقوں کی ہجرت کی شکل میں نکلا جس کا پورا حال اس کتاب میں درج کر دیا گیا ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان قازقوں کی ہجرت کا نتیجہ واپسی کی شکل میں نہ نکل سکے گا؟ کیا انھیں اور ان کی نسلوں کو پھر سے اپنے وطن مالوف کو دیکھنا نصیب نہ ہوگا؟ اسلامی ہجرت کی نفسیات سے جو چیز ابھرتی ہے اس کے پیش نظر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، ممکن ہے روس یا چین میں کوئی نیا انقلاب آئے جو موجودہ انقلاب کی تلافی کر سکے اور مہاجرین کے لیے اپنی آغوش کھول دے۔
یہ کتاب اگر ایک طرف مظلوموں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے تو دوسری طرف بالشویک روس کے جبر و تشدد کو بھی بے نقاب کرتی ہے کیونکہ بالشویک نظام جو کمیونزم کی دعوت دیتا ہے ایک ایسا ستم گسترانہ نظام ہے کہ اگر اس کے ڈھانچے سے ظلم و جبر کا عنصر نکال دیا جائے تو اس کا درجہ حرارت نفی کے درجے میں آ جاتا ہے۔ یہ نظام جبر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، اس کے خمیر کا تقاضا ہے کہ وہ جبر کو دعوت دے۔ اگر اس جبر کی آزمائش کے لیے کوئی حریف نہ مل سکے تو وہ اس کے لیے اپنے ساتھیوں کو منتخب کر لیتا ہے اور اس کے سربراہ خود اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم مصنف کتاب گوڈ فرے لیاس کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے خود قازقوں کی زبان سے اس داستان کے ٹکڑے جمع کیے اور پھر انھیں وقف عام کر دیا۔ ہم یہاں جناب گوپال متل صاحب کو بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ کتابوں کے انبار سے موتی نکالنے میں ہمیشہ کامیاب رہے، اگر ان کی سعی کارفرما نہ ہوتی تو شاید اس کتاب کا ناظرین کے ہاتھوں میں پہنچنا بہت دشوار ہوتا۔