امرت رائے نے چٹرجی سے ہی اشارہ پاکر اپنی کتاب A House Divided( گھر جو تقسیم ہو گیا) میں اردو کو ولیؔ کے بعد کی اختراع بتایا ہے اور اسے ’’لسانی پھوٹ‘‘ اور ’’علاحدگی پسندی‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ امرت رائے ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوی‘‘ کو اردو کے قدیم نام تسلیم نہیں کرتے اور اردو کے تمام تر قدیم ادبی سرمایے کو(جس میں دکنی ادب بھی شامل ہے) زمانۂ حال کی ہندی کی تاریخ کا جزوِ لاینفک قرار دیتے ہیں۔ اس طرح چٹرجی کی طرح وہ بھی اردو پر ہندی کی لسانی و ادبی قدامت اور فوقیت کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ امرت رائے کے خیال میں اردو کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب سے اس کا نام ’’اردو‘‘ پڑتا ہے اور جب سے اس میں ہندی عناصر کی جگہ عربی فارسی عناصر شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں تقریباً ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
امرت رائے نے اردو پر ’’علاحدگی پسندی‘‘ کا الزام تو عائد کیا ہی ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ اردو کو ہندوستان کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں جگہ دیے جانے پر بھی معترض ہیں۔ ان کے خیال میں ’’اردو کو (اس کے رسمِ خط کے ساتھ) آئین میں ہندی کے علاوہ ایک علاحدہ قومی زبان کی حیثیت دینے میں عجلت اور نا سمجھی سے کام لیا گیا، کیوں کہ یہ فیصلہ مسئلے کی پیچیدہ نوعیت پر اچھی طرح غور کیے بغیر کیا گیا تھا اور مبہم اور سہل انگاری کے تصور پر مبنی تھا۔‘‘ امرت رائے کے انگریزی الفاظ یہ ہیں:
"I am convinced, --- that inscribing Urdu (with its script) in the Constitution as a separate national language apart from Hindi was hasty and ill- conceived in as much as it was based on some vague, simplistic assumptions, without an adequate grasp of the complex nature of the problem." (P. 287)
اس امر کا ذکر بیجا نہ ہو گا کہ امرت رائے نے یہ خیال گیان چند جین کے اس قول سے لیا ہے:
’’ہندوستان کے آئین میں اردو ہندی کو دو زبانوں کی حیثیت سے درج کرنا سیاسی مصلحت ہے، لسانی حقیقت نہیں۔‘‘
جین صاحب کا یہ قول ان کے ایک مضمون ’’اردو، ہندی یا ہندوستانی؟‘‘ مطبوعہ ’’ہندستانی زبان‘‘ (سال ۵، نمبر ۱، اکتوبر ۱۹۷۳ء) میں شامل ہے۔ انھوں نے یہ بات کھل کر نہیں کہی ہے کہ اردو کو ہندوستان کے آئین میں جگہ نہیں ملنی چاہئے تھی، لیکن اقتباسِ بالا کے بین السطور سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ جب ہندی کو آئین میں جگہ دے دی گئی تو پھر اردو کو اسی آئین میں جگہ دینے کا کیا جواز؟ ان کے خیال میں ایسا کرنا محض ’’سیاسی مصلحت‘‘ ہی ہوسکتی ہے، ’’لسانی حقیقت‘‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
گیان چند جین اردو اور ہندی کو ایک زبان تسلیم کرتے ہیں۔ اس خیال کا اظہار انھوں نے اپنے بعض مضامین میں کھل کر کیا ہے۔ اپنے مذکورہ مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
’’اردو ہندی دو الگ زبانیں نہیں۔۔۔اگر چہ اردو ادب اور ہندی ادب دو مختلف اور آزاد ادب ہیں، لیکن اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں نہیں ہیں‘‘۔
اسی خیال کو جین صاحب نے اپنی حالیہ کتاب ’’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ میں نہایت جارحانہ اور متعصبانہ انداز میں، اور فرقہ وارانہ ذہنیت (With communal mindset) کا شکار ہو کر حد درجہ غیر معتدل انداز اور غیر علمی رویہ اختیار کرتے ہوئے پیش کیا ہے جس نے اردو دنیا کو ’سکتے‘ میں ڈال دیا ہے۔ لہٰذا ایک ایسی کتاب جو اردو زبان کو بے وجہ بدنام کرتی ہو، اس کے خلاف غلط اور جھوٹا پروپیگنڈا کرتی ہو، اس کے وجود پر سوالیہ نشان قائم کرتی ہو، اس کی تاریخ کو مسنح کرتی ہو، اور اس کے بولنے والوں کے خلاف نفرت کا بیج بوتی ہو نیز ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت اور شکوک و شبہات پیدا کرتی ہو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اردو کے خلاف زہر اگلنے والی اس کتاب نے سنیتی کمار چٹرجی اور امرت رائے کو بھی مات دے دی ہے۔ یہ وہی گیان چند جین ہیں جنھوں نے ساری زندگی اردو کی کمائی کھائی اور عزت، شہرت، دولت سب کچھ انھیں اردو ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے اور یہ وہی گیان چند جین ہیں جنھوں نے اپنے مذکورہ مضمون ’’اردو، ہندی یا ہندوستانی؟‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میں مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو لکھواتا ہوں‘‘۔ اپنی مادری زبان کے ساتھ کوئی شخص اتنا بڑا ’وشواس گھات‘ یا غداری کیسے کرسکتا ہے؟ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے، ع
یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں
گیان چند جین نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اردو زبان کو مطعون و ملعون کیا ہے اور اس پر ’’تنگ نظری‘‘ کی تہمت لگائی ہے بلکہ اردو رسمِ خط میں بھی کیڑے نکالے ہیں اور دیوناگری رسمِ خط (زمانۂ حال کی ہندی کا رسمِ خط) کی تعریف وتحسین میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں۔عقل حیران ہے کہ گیان چند جین نے آخرِ عمر میں جب کہ وہ سات سمندر پار بیٹھے ہوئے ہیں اور پارکنسن جیسی مہلک بیماری کا شکار ہیں ایسی دل آزار کتاب کیوں اور کس کے اشارے پر لکھی؟ اردو کے بارے میں اس قدر منفی رویے (Negative Approach) کی حامل کتاب تو آج تک ہندی زبان میں بھی نہیں لکھی گئی۔
امرت رائے اگرچہ پریم چند کے بیٹے تھے، لیکن وہ بنیادی طور پر ہندی کے ادیب و عالم تھے۔ انھوں نے اردو اگر سیکھی بھی ہو گی تو اتنی مہارت پیدا نہ کرسکے ہوں گے کہ اس زبان میں لکھی ہوئی دقیق علمی کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ اور ان سے اخذواستفادہ کرسکیں۔ لہٰذا گمانِ غالب ہے کہ امرت رائے نے اپنی مذکورہ کتاب کی تسوید و تصنیف کے دوران گیان چند جین سے بھر پور مدد لی ہو گی کیوں کہ جس زمانے میں امرت رائے اس کتاب کا پہلا ڈرافٹ تیار کر رہے تھے اس زمانے میں دوسال تک گیان چند جین انھیں کے شہر الہٰ آباد میں یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر تھے۔ امرت رائے کی یہ خوش نصیبی تھی کہ وہ علمی تعاون حاصل کرنے کے لیے جب چاہتے جین صاحب سے مل سکتے تھے۔ جب جین صاحب حیدرآباد چلے گئے تب بھی امرت رائے کا رابطہ ان سے برابر قائم رہا اور وہ ہر طرح کی علمی امداد جین صاحب سے حاصل کرتے رہے۔ امرت رائے نے اپنی مذکورہ کتاب کے "Acknowledgments" میں علمی تعاون کے لیے گیان چند جین کا بڑی گرم جوشی کے ساتھ شکریہ ادا کیا ہے اور نہایت صاف گوئی کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ’’کتاب کے اردو مواد کے لیے میں نے کلیتہً معروف اردو اسکالر گیان چند جین پر انحصار کیا ہے‘‘۔ امرت رائے نے اس سلسلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جین صاحب نے ’’نہایت فراخدلی کے ساتھ میری مدد کی اور نہ صرف اس موضوع سے متعلق مجھے کتابیں اور رسائل فراہم کیے، بلکہ خیالات (Ideas) بھی دیے اور ہر طرح کی قابلِ انحصار اطلاعات بھی مجھے مہیا کرائیں‘‘۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جین صاحب سے ’’میرا تبادلۂ خیال انتہائی مفید اور کارآمد ہوتا تھا اور مجھے ہمیشہ اس سے تحریک ملتی تھی۔‘‘
امرت رائے کے ان بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گیان چند جین A House Dividedکی تصنیف میں امرت رائے کے ساتھ برابر کے شریک رہے لیکن سرورق پر بدقسمتی سے صرف امرت رائے کا ہی نام چھپا۔ گیان چند جین کی حالیہ تصنیف ’’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ کو اگر امرت رائے کی مذکورہ کتاب کا تتمہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا، کیوں کہ اردو، اردو بولنے والوں نیز مسلمانوں کے خلاف جو باتیں امرت رائے کی کتاب میں کہنے سے رہ گئی تھیں وہ سبھی باتیں گیان چند جین کی اس حالیہ کتاب میں بلا جھجک کہہ دی گئی ہیں۔ جین صاحب نے علاوہ اور باتوں کے اگر ایک طرف اردو کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ’’اردو کا مزاج تنگ نظری کاہے‘‘ (ص۔ ۱۲۴)، تو دوسری طرف امرت رائے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اردو ایک ’’غیر سیکولر‘‘ اردو ’’شدید مذہبی رجحان‘‘ کی حامل زبان ہے اور اگر اسے مراعات دی گئیں تو یہ ’’سیکولر یک جہتی کے خلاف کام کرے گی‘‘ (ص۔ ۲۸۹):
"It is not altogether unlikely that, in the context of the cynical, vote-oriented power game of politics, Urdu will some day even have recognition as a regional language; but we think that it would be harmful in the national interests of the country to grant this, because as a non-secular element with a strong religious connotation it would work against secular integration". (P. 289).
( اگر چہ یہ بات نا ممکن نہیں ہے کہ ووٹوں کی بنیاد پر کھیلے جانے والے سیاسی اقتدار کے بیڈھب کھیل کے سیاق میں ایک دن اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے گا؛ لیکن ایسا کرنا ہمارے خیال میں ملک کے قومی مفادات کے لیے مضرت رساں ہو گا، کیوں کہ اپنے غیر سیکولر مزاج اور شدید مذہبی رجحان کی وجہ سے یہ (زبان) سیکولر یک جہتی کے خلاف کام کرے گی)۔
اردو زبان کے تاریخی تناظر کے اس مدلل اور مفصل جائزے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ اردو، ہندی (زمانہ حال کی ہندی) سے زیادہ قدیم زبان ہے، اور اس کا ادبی ارتقا بھی ہندی کے ادبی ارتقا سے بہت پہلے ہوا ہے۔
۲۔ ’ہندی‘ (قدیم مفہوم میں)، ’ہندوی‘ ، ’ریختہ‘، ’دہلوی‘، ’گجری‘، ’دکنی‘ اردو ہی کے قدیم نام ہیں، ہندی (زمانۂ حال کی ہندی) کے نہیں۔
۳۔ ہندی دانشوروں کا یہ کہنا کہ چوں کہ موجودہ اردو کا ’اردو‘ نام اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پڑا، لہٰذا اس سے پہلے اردو کا وجود نہ تھا سراسر لغو اور اِن دانشوروں کی کج فہمی اور لسانی تعصب کا آئینہ دار ہے۔
۴۔ ہندی دانشوروں کا یہ بیان بھی سراسر غلط اور لسانی حقیقت کو جھٹلانا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے وسط میں ’اصلاحِ زبان‘ کے نام پر ہندی (جو ان دانشوروں کے مطابق شروع سے چلی آ رہی تھی) میں سے انڈک یا ہندی الاصل الفاظ کو چھانٹ کر نکال دینے سے اور ان کی جگہ پر عربی فارسی کے الفاظ رکھ دینے سے ’اردو‘ نام کی ایک علاحدہ زبان بنائی گئی۔
۵۔ اس بات کے وافر شواہد موجود ہیں کہ زمانۂ حال کی کھڑی بولی ہندی یا ناگری ہندی/ اعلیٰ ہندی کا ارتقا اٹھارہویں صدی کے خاتمے کے بعد غیر فطری طور پر عمل میں آیا۔ اردو زبان جو کھڑی بولی کی بنیاد پر ارتقا پاکر بارہویں صدی کے اواخر سے شمالی ہندوستان میں بلا لحاظِ مذہب و ملّت رائج تھی اور عام بول چال، خواندگی (Literacy) اور شائستہ طرزِ کلام کی زبان بن چکی تھی اور ادبی اعتبار سے بھی نہایت ترقی یافتہ اور متمول تھی، انیسویں صدی کے اوائل میں اسی زبان میں سے عربی فارسی الفاظ کو خارج کر کے اور ان کی جگہ پر سنسکرت کے الفاظ رکھ کر موجودہ ہندی بنائی گی اور اس کے لیے دیوناگری رسمِ خط اختیار کیا گیا۔ شمالی ہندوستان کے ہندوؤں نے جو اُس وقت تک اردو پڑھتے لکھتے تھے دھیرے دھیرے اس نئی اور مصنوعی زبان کو اپنا لیا۔ انیسویں صدی کی ہندو احیاء پرست تنظیموں نے ’ہندی آندولن‘ (ہندی تحریک) چھیڑ کر اس نوزائیدہ زبان کے فروغ کو تقویت پہنچائی۔
۶۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ہندی (دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی زمانۂ حال کی کھڑی بولی ہندی) اردو سے نکلی ہے، لہٰذا حقیقی معنوں میں اس ہندی کو اردو کی شیلی (اسلوب) کہنا زیادہ مناسب ہو گا، نہ کہ اردو کو ہندی کی شیلی سمجھنا (جیسا کہ ہندی دانشوروں کی غیر منطقی دلیل ہے)۔