تاریخ کے ایک موڑ پر شمالی ہندوستان میں احیاء پرست طاقتیں کافی سرگرم ہو جاتی ہیں۔ اس ذہنیت کے شکار لوگ لسانی عصبیت کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر زبان کی تقسیم یہیں سے شروع ہوتی ہے اور طریقۂ کار یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس زبان کو جو روزِ اول سے ہی فارسی رسمِ خط میں لکھی جاتی تھی، ناگری حروف (یا دیوناگری رسمِ خط) کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک الگ زبان ہے۔ اس نئی اور غیر فطری زبان کا نام ’’اعلیٰ ہندی‘‘ یا ’’ناگری ہندی‘‘ رکھا جاتا ہے۔ چوں کہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی پر قائم ہے، لہٰذا جب اس نو زائیدہ زبان کو دیوناگری رسمِ خط میں لکھا گیا تو اس کا قواعدی ڈھانچا وہی رہا جو اردو کا تھا۔ اسی بنیاد پر اسے ’’کھڑی بولی ہندی‘‘ بھی کہا گیا تاکہ اسے اودھی، برج بھاشا، راجستھانی اور دوسری بولیوں سے ممیز کیا جاسکے۔ دیوناگری رسمِ خط اس سے پہلے انھیں بولیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔اردو کو دیوناگری رسمِ خط کا جامہ پہنانے کے علاوہ اس میں سے عربی فارسی کے الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ رکھ دیے گئے۔ اس طریقۂ کار کو اختیار کرنے سے جو ایک علاحدہ زبان بنائی گئی اسے دھیرے دھیرے ہندوؤں کی اکثریت نے اپنا لیا۔ اردو اپنی جگہ پر اسی طرح سے قائم رہی، لیکن اس کے بولنے والوں اور اسے اپنی زبان کہنے والوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی جس سے اِسی سر زمینِ ہند میں جو اس کی مرزبوم تھی، یہ اقلیتی زبان بن کر رہ گئی۔ انیسویں صدی کے آغاز سے اس نئی زبان کو ادبی زبان کی حیثیت سے استعمال کیا جانے لگا۔ چٹرجی کے مطابق ’’اس خالص کھڑی بولی ہندوستھانی کے پہلے ہندو مصنف منشی سدا سکھ تھے جنھوں نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں ’بھگوت گیتا پُران‘ کا ترجمہ ’سُکھ ساگر‘ کے نام سے نثر میں کیا اور اس کے لیے انھوں نے دیوناگری رسم خط استعمال کیا جو برج بھاکھا اور اودھی کے لیے پہلے سے مستعمل تھا، اور علمی الفاظ کے لیے سنسکرت کی جانب رجوع کیا‘‘(ص ۲۱۱)۔اس کے بعد ۱۸۰۰ء میں کلکتے میں فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آیا جہاں للوجی لال اور سدل مشر نے ’’اعلی ہندی‘‘ میں نثری تصانیف لکھیں۔ اور یہ سب کچھ انگریزوں کی سرپرستی میں اور انھیں کی ہدایت پر ہوا۔ ایک انگریز مصنف فرینک ای۔ کی (Frank E. Keay) نے اپنی کتاب A History of Hindi Literature(ہندی ادب کی تاریخ) میں اس حقیقتِ حال کو یوں بیان کیا ہے:
"Modern 'High Hindi' was developed from Urdu by the exclusion of Persian and Arabic words and the substitution of those of pure Indian origin, Sanskrit or Hindi". (P.4).
( ’’جدید ’اعلیٰ ہندی‘ اردو میں سے فارسی اور عربی الفاظ کو خارج کر کے اور ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی کے خالص ہندوستانی نژاد الفاظ رکھ کر بنائی گئی‘‘۔)
اسی کتاب میں وہ مزید لکھتا ہے:
"Lallu Ji Lal was a Brahman whose family had come originally from Gujarat, but had long been settled in North India. Under the direction of Dr. John Gilchrist he and Sadal Mishra were the creators of modern 'High Hindi'. Many dialects of Hindi were, as we have seen, spoken in North India, but the vehicle of polite speech amongst those who did not know Persian was Urdu. Urdu, however, had a vocbulary borrowed largely from the Persian and Arabic languages, which were specially connected with Muhammadanism. A literary language for Hindi-speaking people which could commend itself more to Hindus was very desirable, and the result was produced by taking Urdu and expelling from it words of Persian or Arabic origin, and substituting for them words of Sanskrit or Hindi origin." (P. 83).
( للو جی لال ایک برہمن تھے جن کے خاندان کا تعلق اصلاً گجرات سے تھا، لیکن جو عرصۂ دراز سے شمالی ہندوستا ن میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی ہدایت پر انھوں نے سدل مشر کے ساتھ مل کر جدید ’اعلی ہندی‘ کی تخلیق کی۔ شمالی ہندوستان میں، جیسا کہ ہم نے دیکھا، بہت سی بولیاں بولی جاتی تھیں لیکن جو لوگ فارسی سے واقف نہیں تھے وہ شائستہ ذریعۂ اظہار کے طور پر اردو کا استعمال کرتے تھے۔ اردو کا ذخیرۂ الفاظ بڑی حد تک فارسی اور عربی زبانوں سے مستعارتھا جن کا خصوصی تعلق اسلام سے تھا۔ ہندی بولنے والوں کے لیے ایک ایسی ادبی زبان کی شدید ضرورت تھی جو ہندوؤں کی زیادہ مطلب برآری کر آسکے۔ اس کا نتیجہ یوں سامنے آیا کہ اردو کو لے کر اس میں سے فارسی یا عربی الاصل الفاظ نکال دیے گئے، اور ان کی جگہ پر سنسکرت یا ہندی الاصل الفاظ رکھ دیے گئے۔)
ہندوؤں میں اس نئی زبان کے استعمال کے بارے میں کی(keay) لکھتا ہے:
"The Hindi of Lallu Ji Lal was really a new literary dialect. This 'High Hindi', or 'Standard Hindi' as it is also called, has had however a great success. It has been adopted as the literary speech of millions in North India. Poetical works still continue to be written in Braj Bhasha, or Awadhi, or other old dialcts, as High Hindi has not been much used for poertry. But whereas before this time prose works in Hindi were very rare, from now onwards an extensive prose literature began to be produced." (Pp.83-84)
( للوجی لال کی ہندی درحقیقت ایک نئی ادبی زبان تھی۔ یہ ’اعلیٰ ہندی‘، یا جسے ’معیاری ہندی‘ بھی کہتے ہیں، کافی مقبول ہوئی۔ ادبی زبان کی حیثیت سے اسے شمالی ہندوستان کے لاکھوں لوگوں نے اپنا یا۔ شعری تصانیف اب بھی برج بھاشا، یا اودھی، یا دیگر قدیم بولیوں میں لکھی جاتی رہیں، کیوں کہ اعلیٰ ہندی کو شاعری کے لیے زیادہ استعمال نہیں کیاگیا۔ لیکن چوں کہ اس سے پہلے ہندی میں نثری تصانیف کا بڑی حد تک فقدان تھا، اس لیے اس کے بعد سے نثری ادب کی وسیع پیمانے پر تخلیق عمل میں آئی۔)
جارج اے۔ گریرسن (George A. Grierson) نے بھی اپنے Linguistic Survey of India(لسانیاتی جائزہ ہند) کی نویں جلد کے حصّۂ اول میں یہی بات کہی ہے۔ لیکن اس نے بالکل صاف لفظوں میں یہ حقیقت بیان کر دی ہے کہ للوجی لال کو ’’پریم ساگر‘‘ لکھنے کے لیے گل کرسٹ نے ہی جوش دلایا تھا۔ گریرسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’پریم ساگر‘‘ کی زبان اردو سے ہرگز مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فارسی الفاظ کی جگہ للوجی لال نے ہند آریائی الفاظ رکھ دیے ہیں۔ گریرسن لکھتا ہے:
"This Hindi, therefore, or, as it is sometimes called, 'High Hindi' is the prose literary language of those Hindus of Upper India who do not employ Urdu. It is of modern origin, having been introduced under English influence at the commencement of the last century. Up till then, when a Hindu wrote prose and did not use Urdu, he wrote in his own dialect, Awadhi, Bundeli, Braj Bhakha, or what not. Lallu Lal, under the inspiration of Dr. Gilchrist, changed all this by writing the well-known 'Prem Sagar', a work which was, so far as the prose portions went practically written in Urdu, with Indo-Aryan words substituted wherever a writer in that form of speech would use Persian ones." (P.46)
(لہٰذا یہ ہندی، یا جسے کبھی کبھی ’اعلی ہندی‘ بھی کہتے ہیں، بالائی ہندوستان کے ان ہندوؤں کی نثری ادبی زبان ہے جو اردو کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ زمانۂ حال کی پیداوار ہے اور اس کا رواج گذشتہ صدی کے آغاز سے انگریزوں کے زیرِ اثر شروع ہوا۔ اُس وقت تک جب بھی کوئی ہندو نثر لکھتا تھا اور وہ اردو کا استعمال نہیں کرتا تھا، تو اپنی بولی، اودھی، بندیلی، برج بھاکھا وغیرہ میں لکھتا تھا۔ للولال نے ڈاکٹر گلکرسٹ کے جوش دلانے پر معروف کتاب ’پریم ساگر‘ لکھ کر سب کچھ بدل ڈالا۔ یہ ایک ایسی تصنیف ہے، کہ جہاں تک کہ نثری اجزاء کا تعلق ہے یہ عملاً اردو میں لکھی گئی ہے اور اس زبان کے لیے مصنف جہاں فارسی الفاظ استعمال کرتا، وہاں اس نے ہند آریائی الفاظ رکھ دیے۔)
بعض ہندی دوست یہ سمجھتے ہیں کہ گریرسن اور دوسرے انگریز عالموں نے جان بوجھ کر یہ ’غلط فہمی‘ پھیلائی ہے کہ اردو میں سے عربی و فارسی الفاظ کو نکال کر اور ان کی جگہ پر سنسکرت کے الفاظ رکھ کر ’جدید ہندی‘ کی تعمیر کی گئی ہے، لیکن ایسی ’’موجودہ مصنوعی ہندی‘‘ کے بارے میں انصاف پسند ہندو دانشوروں کی بھی وہی رائے ہے جو گریرسن اور دوسرے انگریز عالموں کی ہے۔ ہندی کے ایک ممتاز عالم اور دانشور ایودھیا پر سادکھتری کا بھی یہی خیال ہے جس کا خلاصہ شِتی کنٹھ مشر نے اپنی کتاب ’’کھڑی بولی کا آندولن‘‘ میں ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
’’برج بھاشا میں تمام ملکی و غیر ملکی الفاظ کے ملنے سے اردو کا ارتقا عمل میں آیا۔ اور اردو میں سے عربی فارسی کو جان بوجھ کر چھانٹے نیز ان کی جگہ پر سنسکرت کے ٹھیٹھ الفاظ رکھنے سے موجودہ مصنوعی ہندی کا ارتقا ہوا ہے‘‘۔ (ص ۱۶۷)۔
کھتری کی یہ رائے کہ برج بھاشا میں دیگر زبانوں کے الفاظ کے ملنے سے اردو بنی، اگرچہ صحیح نہیں، تاہم جدید ہندی کے ارتقا کے بارے میں ان کا نظریہ حقیقت پسندانہ ہے۔
ایک اور ہندی مصنف چندر دھر شرما گلیری نے بھی اپنی کتاب ’’پرانی ہندی‘‘ میں واضح الفاظ میں یہ بات دہرائی ہے کہ زمانۂ حال کی ہندی اردو میں سے عربی اور فارسی الفاظ کو بے دخل کر کے بنائی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہندوؤں کی تخلیق کردہ پرانی شاعری جو کچھ بھی ملتی ہے وہ برج بھاشا یا پوربی، ویس واڑی، اودھی، راجستھانی اور گجراتی وغیرہ ہی میں ملتی ہے۔ یعنی ’پڑی بولی‘ میں پائی جاتی ہے۔ ’کھڑی بولی‘ یا پکّی بولی یا ریختہ یا موجودہ ہندی کے موجودہ نثر و نظم کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں مستعمل فارسی عربی کے خالص یا تحریف شدہ الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ سنسکرت یا ہندی کے تتسم اور تدبھو الفاظ رکھنے سے ہندی بنا لی گئی‘‘۔ (ص ۱۰۷)۔
جیساکہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ اردو میں کھڑی بولی کو بنیاد بنا کر نثر لکھنے کی روایت کافی قدیم ہے اور یہ سلسلہ دکن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ شمالی ہند میں بھی، کلکتے میں ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج کے قیام سے کافی پہلے سے، اردو میں نثری نمونے ملنا شروع ہو جاتے ہیں اور ’’کربل کتھا‘‘ (فضلِ علی فضلی)، ’’قصّۂ مہر افروز و دلبر‘‘ (عیسوی خاں بہادر)، ’’نو طرزِ مرصع‘‘ (میر محمد حسین عطا خاں تحسین)، ’’عجائب القصص‘‘ (شاہ عالم ثانی)، ’’قصّہ ملک محمد و گیتی افروز (مہر چند کھتری)، اور سلکِ گہر‘‘ (انشاء اللہ خاں انشاء) اردو کی وہ نثری تصانیف ہیں جو فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل لکھی جاچکی تھیں۔ زمانۂ حال کی ہندی میں کھڑی بولی کے نثری نمونے انیسویں صدی سے پہلے ناپید ہیں۔ اس زبان میں یہ سلسلہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔اور یہاں کی لکھی ہوئی للوجی لال کی ’’پریم ساگر‘‘ زمانۂ حال کی کھڑی بولی ہندی کی پہلی کتاب قرار پاتی ہے۔ اس بات کی تائید معروف ہندی اسکالر اور ماہرِلسانیات بال گووند مشر کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جو ای۔ انا ملائی کی مرتبہ کتاب Language Movements in India( ہندوستان کی لسانی تحریکیں) میں شامل ان کے مضمون "Language Movements in Hindi Region" ( ہندی علاقے کی لسانی تحریکیں) سے منقول ہے۔:
'It may be mentioned that the use of Khadi Boli Hindi for prose was initially promoted and patronized by the Fort William College authorities from the beginning of the nineteenth century." (P. 72)
(نثر کے لیے کھڑی بولی ہندی کا استعمال سب سے پہلے فورٹ ولیم کالج کے اربابِ حل و عقد کی سرپرستی میں انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوا۔)
انیسویں صدی کے اواخر تک ہندوؤں میں یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ شاعری کے لیے برج بھاشا کا استعمال کیا جاتا تھا اور نثر کھڑی بولی ہندی میں لکھی جاتی تھی۔اس وقت برج بھاشا کا طوطی بول رہا تھا۔ اور یہ ہندوؤں میں راجستھان سے لے کر بہار تک ادبی ذریعۂ اظہار کی حیثیت سے بیحد مقبول تھی اور اس میں نثری نمونے محض خال خال پائے جاتے ہیں۔ بال گووند مشر اپنے اسی مضمون میں کہتے ہیں کہ یہ ادبی صورتِ حال ’’بے قاعدہ اور انتہائی مصنوعی‘‘(anomalous and highly artificial) تھی۔ چنانچہ جلد ہی ایک’’ تحریک‘‘ شروع کی گئی جس کے نتیجے میں شاعری کی زبان کی حیثیت سے برج بھاشا کو ہٹا کر’’ کھڑی بولی پر مبنی زبان کو رواج دیا گیا‘‘ جو تمام ادبی اصناف کے لیے یکساں استعمال کی جاسکے۔
اردو نثر کا ارتقا چٹرجی ۱۸۰۰ء کے آس پاس بتاتے ہیں اور اسے ہندی نثر کے ارتقا کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اعلیٰ ہندی یا معیاری (کھڑی بولی) ہندی کا نثر کی زبان کی حیثیت سے ارتقا تقریباً اردو کے ساتھ ہی ہوا، یعنی کلکتے میں انگریزوں کے زیرِ سرپرستی انیسویں صدی کے آغاز سے‘۔ ‘ (ص ۱۶۷)۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’برج بھاکھا اور اودھی جیسی خالص بولیوں سے قطعِ نظر، معیاری ہندی یا اعلیٰ ہندی کو ادب کے لیے استعمال کرنے کی کوشش اردو کے مقابلے میں زیادہ قدیم ہے،‘‘ جس کا سلسلہ وہ پندرھویں صدی تک لے جاتے ہیں اور مثال میں کبیر کی شاعری کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’کبیر کی شاعری کی زبان بحیثیتِ مجموعی ہندی ہے، نہ کہ اردو۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’زبان کا نام ہندی (جسے پہلے ’ہندوی‘ کہتے تھے) ہندوستانی اور اردو ناموں کے مقابلے میں زیادہ قدیم ہے‘‘ (ص۱۶۷)۔ کبیر کی شاعری کی زبان کو اعلی ہندی یا معیاری (کھڑی بولی) ہندی بتانا محلِ نظر ہے۔ کبیر کا تعلق اصلاً بھوجپوری کے علاقے سے تھا، لیکن وہ ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے، لہٰذا ان کی زبان پر مختلف بولیوں کے اثرات پڑے اور ان کی زبان ’’سدھکڑی بھاشا‘‘ کہلائی۔ یہ کھڑی بولی کی بنیاد پر معیاری بنائی گئی اعلیٰ ہندی یا اردو کے بالمقابل قائم کی گئی ’ہندی‘ ہرگز نہیں۔ چٹرجی نے کھڑی بولی ہندی کی ادبی تاریخ کو ماضی میں دور تک لے جانے کے لیے خواہ مخواہ کبیر کا نام پیش کیا۔ چٹرجی جو ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ کو اردو کا قدیم نام تسلیم کر چکے تھے، وہی اب ان ناموں کو جدید ’’ہندی‘‘ کے قدیم ناموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور چوں کہ’’ اردو‘‘ نام بعد میں پڑا اس لیے اردو کو بعد کی زبان بتاتے ہیں جب کہ ہندی کے ممتاز عالم دھیریندر ورما کا خیال ہے کہ ’’تاریخی اعتبارسے کھڑی بولی اردو کا استعمال ادبی کھڑی بولی ہندی کے استعمال سے زیادہ قدیم ہے‘‘۔(’ہندی بھاشا کا اتہاس‘، ص ۶۰)۔ زبانوں کی تاریخ میں یہ اکثر ہوتا آیا ہے کہ زبان پہلے تشکیل پاتی ہے اور اس کا نام بعد میں پڑتا ہے یا رکھا جاتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال ہمارے سامنے سنسکرت زبان کی ہے۔ سنسکرت زبان پورے شمالی ہندوستان میں مغرب تا مشرق پورے ایک ہزار سال تک (۱۵۰۰ تا ۵۰۰ قبل مسیح) پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی رہی۔ اس دوران میں چاروں وید تخلیق کیے گئے اور پانِنی نے اس زبان کی نہایت منضبط قواعد تخلیق کی جو ’’اشٹادھیائی‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ لیکن اس طویل عرصے کے دوران اس زبان کا کوئی نام نہیں پڑا۔ پانِنی نے اس کے لیے صرف ’’بھاشا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا نام ’’سنسکرت‘‘ بہت بعد میں جا کر پڑا۔ لفظ’’سنسکرت‘‘ پہلے زبان کے معنی میں مستعمل نہیں تھا، بلکہ اس کے لغوی معنیٰ تھے، ’شسستہ وشائستہ‘۔ بعد میں یہی لفظ اسمِ لسان کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ پالی زبان کا نام بھی بعد میں پڑا۔ برج بھاشا، کھڑی بولی اور بعض دوسری بولیوں کے نام بھی بعد میں پڑے۔ اردو کا بھی حال یہی ہے کہ اسے پہلے دوسرے کئی ناموں سے پکارا گیا پھر بعد میں جا کر اس کا موجودہ نام ’’اردو‘‘ پڑا لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جب سے اس کا نام اردو پڑا تب سے اس کی پیدائش عمل میں آئی۔ اردو کے مخالفین اردو کی تاریخ کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ یہی دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس غلط بیانی اور کج فہمی کی ابتدا سنیتی کمار چٹرجی سے ہوتی ہے جنھوں نے یہ کہا تھا کہ ’’اردو کا سترھویں صدی کے خاتمے سے قبل ادبی زبان کی حیثیت سے کوئی وجود نہیں تھا‘‘ (ص ۱۶۲)۔