ہند آریائی لسانیات کے ممتاز عالم سنیتی کمار چٹر جی اپنی تصنیف Indo-Aryan and Hindi(ہند آریائی اور ہندی) میں کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو جس کا ارتقا دہلی میں ۱۱۹۳ء میں مسلم حکومت کے قیام کے بعد عمل میں آیا "modified Western Apabharamsa" (ترقی یافتہ مغربی اپ بھرنش) کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس دور میں شمالی ہند کے میدانی علاقوں کے عوام کی مشترکہ زبان کی حیثیت سے موجود تھی:
"After the settlement of the Turks and Iranis and the establishment of the first Muhammadan ruling house in Delhi, a modified Western Apabhramsa was all that was ready as a Common Language for the masses of the North Indian Plains". (P. 196).
(ترکوں اور ایرانیوں کے سکونت پذیر ہونے اور دہلی میں پہلی بار مسلم حکمرانی کے قیام کے بعد صرف ترقی یافتہ مغربی اپ بھرنش ہی شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوں کے عوام کی مشترکہ زبان کی حیثیت سے موجود تھی۔)
چٹرجی ’’ترقی یافتہ اپ بھرنش‘‘ سے کھڑی بولی کے نکھرے ہوئے روپ کے علاوہ کوئی اور بولی یا زبان مراد نہیں لیتے، مثلاً شور سینی اپ بھرنش (مغربی اپ بھرنش) کی ایک دوسری بولی برج بھاشا کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسے سولھویں صدی میں اہمیت حاصل ہوئی، پھر بھی یہ مخصوص ادبی بولی رہی، عوامی بولی نہ بن سکی۔ چٹرجی کھڑی بولی کے اسی نکھرے ہوئے روپ یا ’’ترقی یافتہ مغربی اپ بھرنش‘‘ کو "Hindusthani" (ہندوستھانی) کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بارھویں _تیرھویں صدی کے بعد کا زمانہ اس کی نشوونما کے لیے نہایت سازگار تھا۔ چٹرجی کی ’’ہندوستھانی‘‘ درحقیقت کھڑی بولی کا ہی نکھرا ہوا روپ ہے جسے ہم ’’اردو‘‘ کا قدیم روپ کہتے ہیں۔ زبان کی اسی شکل کو یعنی آج کی اردو کے قدیم روپ کو ہی ’’ہندی‘‘، ہندوی‘‘ اور ’’ریختہ‘‘ کہا گیا۔ چٹرجی اپنی ’’ہندوستھانی‘‘ کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ وقت کی ضرورت کے ما تحت معرضِ وجود میں آئی۔ خاس طور پر اس کی ضرورت مسلمان حکمرانوں کو تھی جو بدیسی تھے اور یہاں کی کوئی زبان نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ آگے چل کر اسی ’’ہندوستھانی‘‘ کے بارے میں چٹر جی یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
"Nobody began it deliberately and formally as a new language: it was an imperceptible development out of the -a dialect of Western Hindi, stimulated by the Panjabi speech of the first Indian Muslims. It was spoken in the bazaars of Delhi as a matter of course, because Delhi is within the Bangaru tract, where we have an -a dialect. It was not an artificial langauge that grew up in the court and camp of the Turki rulers at Delhi. Its first name was Hindi or Hindwi (Hindawi), which simply meant '(the language) of Hind' or India, or 'of the Hindus.' The other name, Zaban-e-Urdu or 'the language of the Camp', arose much later__ as late as the end of the 17th century, when the Delhi speech was much in evidence in the Deccan with the Mogul emperor sending and leading expedition after expedition against the Deccan Muslim states and the Marathas" ( P. 197).
(اسے کسی نے نئی زبان کی حیثیت سے شعوری اور باضابطہ طور پر ایجاد نہیں کیا: یہ تو مغربی ہندی کی a(ا) بولیوں کے غیر محسوس ارتقا کا نتیجہ تھی، اور اسے اولین ہندوستانی مسلمانوں کی پنجابی زبان سے تقویت حاصل ہوئی تھی۔ یہ آگے چل کر دہلی کے بازاروں میں بولی جانے لگی کہ دہلی بانگٹرو کے علاقے میں واقع ہے جہاں a) ۱) بولی رائج ہے۔ یہ دہلی کے ترک حکمرانوں کے دربار یا لشکر میں ارتقا پذیر ہونے والی کوئی مصنوعی زبان نہ تھی۔ اس کا پہلا نام ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ (’’ہندَوی‘‘) تھا جس کا سیدھا سا مطلب ہے ہندوستان یا ’ہند کی (زبان)‘، یا ’ہندوؤں کی (زبان)‘۔ اس کا دو سرا نام ’’زبانِ اردو‘‘ یعنی ’لشکر کی زبان‘ بہت بعد کی یعنی سترھویں صدی کے اواخر کی پیداوار ہے۔ اس زمانے میں دہلی کا مغل شہنشاہ دکن کی مسلم ریاستوں اور مراٹھوں کے خلاف پے درپے لشکر بھیج رہا تھا اور ان کی رہنمائی کر رہا تھا اور اسی کے ساتھ دہلی کی زبان دکن میں اپنا سکہ جما چکی تھی)۔
چٹرجی کا ’’زبانِ اردو‘‘ سے ’لشکر کی زبان‘ مراد لینا اگرچہ محلِ نظر ہے، لیکن وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ دہلی کی ہی زبان دکن پہنچتی ہے۔ دہلی کی اس زبان کو وہ ’’ہندوستھانی‘‘ کہتے ہیں اور اس کا پہلا نام ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ بتاتے ہیں اور اسی کا دوسرا نام ’’زبانِ اردو‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ چٹر جی کے نزدیک ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ اردو زبان کا ہی قدیم نام ہے اور یہی زبان (یعنی اردو) ’’ہندوستھانی‘‘ ہے۔ چٹرجی نے اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۲۰۶ پر اردو کو شمالی ہندوستان کی ہندوستھانی کے مترادف مانا ہے اور اس کے لیے "Northern Hindusthani or Urdu" (شمالی ہندوستھانی یا اردو) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے دکن میں فروغ پانے والی ’’ہندی‘‘ (قدیم مفہوم میں) کو ’’دکنی اردو‘‘ کہا ہے جس کا آغاز ان کے خیال کے مطابق ’’ہندوستھانی کی ہمسر‘‘ کے طور پر ہوا اور جس میں ادبی روایت پندرھویں صدی سے شروع ہوئی:
"The Deccan Urdu or Hindi literary tradition thus started in the 15th century with what may be called a sister form of Hindusthani; and this tradition continued to have quite a flourishing life, until it merged into that of Northern Hindusthani or Urdu, after paving the way for the latter" (P. 206)
(اس طرح دکنی اردو یا ہندی ادبی روایت کا آغاز پندرھویں صدی میں ہندوستھانی کی ہمسر کے طور پر ہوا اور یہ روایت پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی رہی، یہاں تک کہ شمال کی ہندوستھانی یا اردو کے لیے راستہ ہموار کر کے اس کی روایت میں ضم ہو گئی۔)
اردو کے آغاز و ارتقا کے بارے میں چٹرجی کے یہ بیانات نہایت معقول ہیں اور تاریخی ولسانی حقائق پر مبنی ہیں، لیکن جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنی عالمانہ تصنیف Indo-Aryan and Hindi(ہند آریائی اور ہندی[ میں بڑے متضاد اور گمراہ کن نظریات پیش کیے ہیں اور اردو کے بارے میں ان کا ذہن صاف نہیں ہے۔ چٹرجی کی مذکورہ کتاب کے یہ اقتباسات اگرچہ اب تک کے اردو زبان کے ارتقا اور اس کے تاریخی تناظر کی نہایت صاف، واضح اور روشن تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن حیرت ہوتی ہے جب وہ اسی کتاب میں اردو کے مقابلے میں اچانک زمانۂ حال کی ہندی کو لا کھڑا کرتے ہیں اور ’’ہندوستھانی‘‘ کی اصطلاح کو، جسے وہ اردو کا مترادف مانتے آئے تھے اچانک ’’ناگری ہندی‘‘ کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور اردو کو ’’ہندوستھانی‘‘ کی محض ایک ’’شکل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ دکن میں ارتقا پانے والی اردو کے پورے ادبی سرمایے پر خطِ تنسیخ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں کہ سترھویں صدی کے خاتمے سے قبل ادبی زبان کی حیثیت سے اردو کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔چٹرجی کا یہ بیان علمی دیانت داری کے منافی ہے جسے اردو زبان وادب کا کوئی بھی مورخ یا محقق تسلیم نہیں کرسکتا:
"This Urdu form of Hindusthani was not in existence as a literary language prior to the end of the 17th century". (P. 162)
(ہندوستھانی کی اس اردو شکل کا سترھویں صدی کے خاتمے سے قبل ادبی زبان کی حیثیت سے کوئی وجود نہیں تھا۔)
یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ چٹر جی نے اپنی اس کتاب میں شمال میں امیرخسرو (۱۲۵۳ تا ۱۳۲۵ء) کی ادبی کاوشوں کا اور دکن میں اردو کے ادبی سرمایے کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ انھوں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ہندوستھانی‘‘ کو ادبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں دکن نے پہل کی اور شمالی ہندوستان کے لیے ایک نمونہ قائم کیا۔ چٹرجی ’’ہندوستھانی‘‘ کا قدیم نام ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوی‘‘ پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں اور اس کا دوسرا نام ’’زبانِ اردو‘‘ بھی مان چکے ہیں۔ امیر خسرو کے عہد کی زبان کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے پھر یہ بات دہرائی کہ اس زمانے میں دہلی کے آس پاس جس زبان کی نشوونما ہو رہی تھی اس کا اصلی نام ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ تھا جسے وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے لیے کبھی کبھی ’’دہلوی‘‘ بھی کہہ دیا کرتے تھے۔ چٹرجی نے اسی زبان کے لیے کہیں کہیں ’’دہلوی اردو‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ چٹرجی نے میراں جی، شاہ برہان الدین جانم، خواجہ بندہ نواز گیسودراز، شاہ امین الدین اعلیٰ، محمد قلی قطب شاہ، ملا وجہی اور میاں خوب محمد چشتی جیسے دکنی مصنفین کی شعری و نثری تصانیف کے حوالوں سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچا دی ہے کہ دکن میں ’’اردو‘‘ نے چودھویں، پندرھویں، سولھویں اور سترھویں صدی کے دوران ادبی زبان کی حیثیت سے نمایاں ترقی کی جس سے وہاں ایک "distinctive literary standard" (ممتاز ادبی معیار) قائم ہو گیا۔ اس کے با وصف چٹرجی کا یہ کہنا کہ سترھویں صدی کے خاتمے سے قبل ادبی زبان کی حیثیت سے ’’اردو‘‘ کا کوئی وجود نہیں تھا، نہایت حیران کن ہے۔
اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ولیؔ کی دہلی میں آمد اور ان کی اردو شاعری کا ذکر کرتے ہوئے چٹرجی لکھتے ہیں کہ ’’اس طرح ادبی زبان کی حیثیت سے ہندو ستھانی کی اردو شکل وجود میں آئی‘‘، لیکن چٹرجی یہ بھول گئے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کا آغاز ’’ریختہ‘‘ کی شکل میں ولیؔ کی دہلی میں آمد سے بہت پہلے امیر خسرو کے ہاتھوں ہو چکا تھا، اور اسی ریختہ کی روایت میں ۱۶۲۵ء سے قبل محمد افضل افضلؔ (م ۱۶۲۵ء) اپنی طویل مثنوی ’’بکٹ کہانی‘‘ (بارہ ماسہ) تخلیق کر چکے تھے نیز روشن علی نے ۱۶۸۸ء میں ’’عاشور نامہ‘‘ کے نام سے واقعاتِ کربلا سے متعلق ایک طویل نظم لکھی تھی۔
چٹرجی نے مزید حیرت میں ڈال دینے والی ایک اور بات کہی ہے۔ وہ اردو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ صاف طور پر مسلمانی زبان ہے اور اپنے رجحان اور رویّے کے اعتبار سے بڑی حد تک ’غیر ہندوستانی ‘ہے
’"... a language which is frankly Muhammadan and largely extra-Indian in its inspiration and attitude". P. 224.
دکنی اردو کے ادبی سرمایے کے بارے میں چٹرجی یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ’’ ہندی ادبی روایت‘‘ سے مملو ہے۔ چٹرجی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دکن کے شعرا ’’ہندواسلوب‘‘ میں، ’’ہندی بحریں‘‘ استعمال کرتے ہوئے، ’’ہندو روایت‘‘ کے مطابق شاعری کر رہے تھے، تو کیا یہ تمام چیزیں ’’extra-Indian‘‘(غیر ہندوستانی) ہیں؟ چٹرجی کے الفاظ یہ ہیں:
"Even before the close of the 16th century, North Indian Musalmans were composing religious poetry in the Deccan, in the Hindu style, in native Hindi metres, and with a pronounced Indian vocabulary of Sanskrit and Prakritic words. It was all in the Hindu tradition, so to say, except the script" (P. 205).
( سولھویں صدی کے خاتمے سے پہلے ہی، شمالی ہند کے مسلمان دکن میں مذہبی شاعری کر رہے تھے جو ہندو اسلوب میں ہوتی تھی، جس میں دیسی ہندی بحریں استعمال کی جاتی تھیں، اورجس کے ذخیرۂ الفاظ کا معتدبہ حصّہ سنسکرت اور پراکرت سے لیے گئے ہندوستانی الفاظ پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں رسمِ خط کے علاوہ سب کچھ ہندو روایت کے عین مطابق ہوتا تھا۔)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دکن کی اردو شاعری نیز شمالی ہند کی بھی اردو شاعری جس میں افضلؔ کا بارہ ماسہ (’’بکٹ کہانی‘‘) بھی شامل ہے، ہندو روایات و رجحانات سے پُر ہے۔ اگر زمانۂ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تب بھی اردو میں سیکولر اقدار کی کمی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ادب پر دوسرے مذاہب کے اثرات کے ساتھ ساتھ اسلام کے اثرات بھی پڑے ہیں، لیکن ہندو مذہب، ہندو فلسفے اور ہندو روایات و اساطیر کا بھی اس پر نہایت گہرا اثر ہے۔اس کے با وصف چٹرجی کا یہ کہنا کہ اردو ’’غیر ہندوستانی‘‘ ہے اصابتِ رائے اور انصاف پسندی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اسے چٹرجی کی تنگ نظری اور تنگ خیالی پر ہی محمول کیا جانا چاہیے۔
چٹرجی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کو مسلمان اپنے ساتھ باہر سے نہیں لائے تھے، بلکہ یہ یہیں کی ایک بولی کی کوکھ سے پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور یہیں پروان چڑھی۔ اس کا ادبی ارتقا بھی اسی سر زمین پر ہوا۔ اس پر ’’ہندو روایت‘‘ کی گہری چھاپ پڑی۔ پھر یہ کیسے ’’غیر ہندوستانی‘‘ بن گئی؟
اردو کو ’’مسلمانی‘‘ یا ’’غیر ہندوستانی‘‘ زبان قرار دینے کی چٹرجی کی ’منطق‘ یہ ہے کہ ہندوؤں کو اردو سے دستبردار کر کے ان کی ایک الگ زبان قائم کی جائے۔ چنانچہ انھوں نے بالکل یہی کیا کہ ’’ہندوستھانی‘‘ کو عام اور مشترک زبان بتا کر اس کو دو خانوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کا نام انھوں نے ’’ہندو ہندوستھانی‘‘ رکھا اور دوسری کا ’’مسلمان ہندوستھانی‘‘۔ ہندوہندوستھانی کو انھوں نے ’’ناگری ہندی‘‘ یا ’’سنسکرتی ناگری ہندی‘‘ کے نام سے موسوم کیا اور مسلمان ہندوستھانی کو ’’اردو‘‘ کا نام دیا۔ ’’ہندوستھانی‘‘ کی یہ تقسیم چٹرجی سترھویں صدی کے بعد سے شروع کرتے ہیں۔ان کے خیال کے مطابق ’’سترھویں صدی میں ہندو ہندی (یا ہندوستھانی) یا مسلمان ہندوستھانی یا اردو بہ مقابلہ ہندی نام کی کوئی چیز نہیں تھی‘‘:
"Hindust(h)ani, therefore, came out into the modern world as a vehicle of prose in its twin forms, High Hindi (or Nagari Hindi) and Urdu, about 1800. There was no Hindu Hindi (or Hindusthani) or Musalman Hindusthani, no Urdu as opposed to Hindi in the 17th century: the Muhamadan writers in the Deccan cultivated it, but the vocabulary_ the main bone of contention_was still largely Indian or Hindu; there was a common Hindi or Hindwi or Dahlawi, or to give a later name, Hindustani (Hindusthani) speech, which was the common property of both the Hindus and Muslims." (Pp. 211-12)
(لہٰذا دورِجدید میں ہندوستھانی نثری ذریعۂ تصنیف کی حیثیت سے اپنی جڑواں شکلوں میں، یعنی اعلیٰ ہندی ( یا ناگری ہندی) اور اردو کی شکل میں ۱۸۰۰ء کے قریب وجود میں آئی۔ سترھویں صدی میں ہندو ہندی (یا ہندوستھانی) یا مسلمان ہندوستھانی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، اور نہ ہی اردو بہ مقابلہ ہندی تھی: دکن کے مسلمان مصنفین نے اس کی پرداخت کی، لیکن ذخیرۂ الفاظ جو نزاع کی بنیادی وجہ ہے، اب بھی بڑی حد تک ہندوستانی یا ہندو ہی تھا۔’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوی‘‘ یا ’’دہلوی‘‘ یا جسے بعد کے نام سے پکاریں تو ’’ہندوستانی‘‘ (’’ہندوستھانی‘‘) کہہ سکتے ہیں، ایک مشترک زبان کی حیثیت سے ر ائج تھی، اور یہی زبان ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی مشترکہ میراث تھی۔)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو بلا لحاظِ مذہب و ملت مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی مشترکہ زبان کی حیثیت سے شمالی ہندوستان میں بیسویں صدی کے وسط تک رائج تھی اور اِس ملک کے سچے محبِ وطن ہندو بھی اردو کو اپنی زبان کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ آلوک رائے نے جو منشی پریم چند کے پوتے اور امرت رائے کے بیٹے ہیں اپنی حالیہ تصنیف Hindi Nationalism (ہندی قومیت) میں صفحہ ۱۱۳ پر پنڈت جواہر لال نہرو سے متعلق ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنڈت نہرو کو اپنی اور اپنے اجداد کی زبان ’’اردو‘‘ بتانے میں قطعی کوئی تامل نہیں تھا۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب دستور ساز اسمبلی میں زبان کی بحث زوروں پر تھی اور یہ طے کیا جانا تھا کہ دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں کن زبانوں کا اندراج کیا جائے۔ پنڈت نہرو نے ڈرافٹنگ کمیٹی کے ایک رکن ایم۔ ستیہ نارائن سے کہا کہ وہ زبانوں کی ایک فہرست تیار کریں۔ چنانچہ انھوں نے ہندوستان کی بارہ بڑی زبانوں کی فہرست تیار کر کے پنڈت نہرو کو پیش کر دی۔ نہروجی نے اس فہرست کو کمیٹی میں پیش کرنے سے پہلے اس میں ایک تیرھویں زبان ’اردو‘ کا اضافہ کر دیا۔ جب ان کے ایک ’’ہندی دوست‘‘ نے ان سے پوچھا کہ یہ اردو کس کی زبان ہے، تو پنڈت نہرو غصّے میں آ گئے اور انھوں نے کہا:
’’یہ میری اور میرے باپ داداؤں کی زبان ہے!‘‘
اس پر ان کے ’’ہندی دوست‘‘ نے فوراً جواب دیا:
’’ برہمن ہوتے ہوئے اردو کو اپنی زبان کہتے ہو، شرم نہیں آتی؟‘‘
نہرو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بالآخر دستور ساز اسمبلی میں بشمولِ اردو آٹھواں شیڈول منظور کر لیا گیا۔
اس سے قبل سر تیج بہادر سپرو نے ۱۲/فروری ۱۹۳۹ء کو لکھنؤ میں ’’یومِ چکبست‘‘ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اردو کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے:
’’مجھے اردو زبان سے محبت ہے۔ میں اس کو اپنی زبان سمجھتاہوں اور اپنے ہندوستان کی زبان! مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ اردو میری مادری اور قومی زبان ہے‘‘۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ__
’’میں اس کا کبھی قائل نہیں ہوسکتا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے، بلکہ جتنا دعویٰ مسلمانوں کو اردو پر ہوسکتا ہے اتنا ہی ہندوؤں کو بھی ہونا چاہئیے۔ اس لیے کہ اردو دراصل ہندومسلم اتحاد سے پیدا ہوئی اور اس اتحاد کی واحد یادگار ہے۔‘‘
(منقول از عرضِ حال، ’’یادِ چکبست‘‘)۔
ماضیِ قریب کے ایک اور ہندو محبِ وطن پنڈت آنند نرائن ملّا نے تو ایک بھرے اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ__
’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتاہوں، مگر اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
آخر یہ سب وطن پرست ہندو ہی تو تھے جو اردو کو اپنی زبان بتاتے تھے، لیکن چٹرجی اردو کو مشترکہ زبان بتانے سے گریز کرتے ہیں اور اسے ’’مسلمانی زبان‘‘ بتاتے ہیں۔
چٹرجی اردو کو ’’مسلمانی زبان‘‘ کہنے کے علاوہ ’’مسلمان ہندوستھانی‘‘ بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہ فارسی عربی رسمِ خط میں لکھی جاتی ہے اور فارسی عربی الفاظ کے استعمال کو ترجیح دیتی ہے۔ انھیں دونوں باتوں کی وجہ سے یہ ’’ہندوہندوستھانی‘‘ یا ’’ناگری ہندی‘‘ سے مختلف ہو جاتی ہے۔ چٹرجی کے نزدیک ہندی اردو نزاع کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ ان کے خیال میں یہ ’’بدیسی عناصر‘‘ ہیں جن کی وجہ سے ’’قوم پرستانہ یا وطن پرستانہ مزاج رکھنے والے اور سنسکرت سے محبت کرنے والے ہندو سوچ سمجھ کر ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی سنسکرتی ہندی کی طرف مائل ہونے لگے‘‘ (ص ۲۱۴)۔ ہندوؤں کی احیاء پرست تنظیموں اور گروہوں، مثلاً آریہ سماج، برہمو سماج، شدھی ہندو سنگٹھن اور ہندو مشن وغیرہ نے اس رجحان کو تقویت دی۔ ادھر ناگری پرچارنی سبھا، جس کا قیام ۱۸۹۰ء میں بنارس میں عمل میں آیا تھا، ناگری ہندی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہی۔
ان تنظیموں اور تحریکوں کے درپردہ جو ذہنیت کام کر رہی تھی اس سے سنیتی کمار چٹرجی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ انھوں نے اسی متعصبانہ ذہنیت کے ماتحت ایک عام فہم، مانوس اور چلن میں آئے ہوئے لفظ ’’ہندوستانی‘‘ کا ’شدھی کرن‘ کر کے اسے ’’ہندوستھانی‘‘ بنا لیا جس میں نہ صرف ثقالت اور غرابت پائی جاتی ہے بلکہ مصنوعی پن بھی ہے۔ چٹرجی ’ہندوستانی‘ (اور اسی کے ساتھ لفظِ ’ہندوستان‘) کو بدیسی لفظ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ’’نہایت بوجھل ترکیب‘‘ ہے،پھر کہتے ہیں کہ یہ خالص فارسی لفظ ہے اور عام طور پر اس کا مطلب ہوتا ہے ’’ہندی کی مسلمان شکل یعنی اردو‘‘۔ چٹرجی نے لفظِ ’’ہندوستان‘‘ میں شامل فارسی ’’ستان‘‘ (بمعنی ’جگہ‘) کی ’’ت‘‘ کو ’’تھ‘‘ سے بدل کر اسے سنسکرت ’’ستھان‘‘ کی شکل دے دی جس سے یہ لفظ ’’ہندوستھانی‘‘ بن گیا۔ اس گھڑے ہوئے، بے تکے اور بھونڈے لفظ کو انھوں نے ’’ہندوستانی‘‘ کی ہندیائی گئی شکل قرار دیا۔ ایک جگہ چٹرجی نے خود ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ہندوؤں نے اسے فوراً ہندیاکرہندوستھانی کر دیا‘‘۔ہندوستھانی کی وہ دو شکلیں بتاتے ہیں، ایک ’’ہندو ہندی (یا ناگری ہندی)‘‘ اور دوسری ’’مسلمان اردو‘‘۔
چٹرجی نے لفظِ ’’ہندوستھانی‘‘ گھڑ تو لیا لیکن شاید انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس میں لاحقے کے طور پر اب بھی فارسی کی ’یائے نسبتی‘ موجود ہے، یعنی ہندوستھان + ی = ہندوستھانی۔ چٹرجی عوام الناس کو یہ مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’وقت آگیا ہے کہ ہم ہندیائی گئی شکلوں ’ہندوستھان‘ اور ’ہندوستھانی کو اختیار کر لیں، خواہ ان کا استعمال غیر ملکی نژاد شکلوں ’ہندوستان‘ اور ’ہندوستانی‘ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو‘‘(ص ۱۴۰)۔ ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ چٹرجی کے اس مشورے پر کتنا عمل ہوا اور آج کس لفظ کو قبولِ عام حاصل ہے اور کون سالفظ تاریخ کے دھندلکے میں گم ہو کر رہ گیا۔ (چٹرجی نے یہ مشورہ آج سے تقریباً ۶۵ سال قبل دیا تھا۔)