مجھے لکھنا ہے
سنسان جنگل کی انہونی خوشی پر
جو سیاحوں کے آنے پر؍ویرانے کا قتل کرتی ہے
مگر گھورتی دیواریں
مائیکروسکوپ سے دیکھی جانے والی خوشی کو
جشن منانے سے روکتی ہیں
مجھے لکھنا ہے؍دو پرسنٹ بیٹری پر
جس کا بلڈ پریشر لو ہونے پر بھی
استعمال کرنے والے کا احساس
بے نیازی سے چارجنگ پہ لگا رہتا ہے
اور وہ بیٹری
سرخ آنکھوں سے زرد جسم کا بوجھ اٹھائے
عمر کی بھیک مانگتی
بے بسی کی پوشاک اوڑھ لیتی ہے
مجھے لکھنا ہے؍نہ تولی جانے والی شرم پر
جس کے کپڑوں کو پیمانے سے ماپ کر
تنگ لباس پہنانے کے بعد
ہوس کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے
اور پھر اضافی کپڑے جو تم پھینکتے ہو
ایک عدد کھلے لباس سے مرحوم
شرم کا جنازہ ہر لمحہ اٹھتا ہے
مجھے لکھنا ہے
قلم کی نوک پہ
جو ہر رنگ کی کہانیاں لکھ لکھ نہیں تھکتی
درد کو بغیر ماپے اپنے اندر جذب کرتی ہے
مگر اس کے درد سے عاری
تم اپنے حساب کتاب والا رجسٹر
اس کے احساس کی بچی کھچی نیلی روشنائی سے
ختم کر دیتے ہو
اور اس کا وجود کھوکھلا ہو جاتا ہے
مجھے لکھنا ہے؍اس گندے کوڑے پر
جو درندہ صفت انسان سے بہتر ہے
استعمال شدہ چیز کو؍جھولی میں پناہ دیتا ہے
اپنے کوڑے سے
ان ہاتھوں کی غلاظت چھپا لیتا ہے
مجھے لکھنا ہے؍ان موضوعات پر
جنہیں ’’حساس‘‘ کا نام دے کر
بھینج دیا جاتا ہے
اور آزاد خیالی اس گھٹن میں
حساسیت پہ؍ اپنا وار کرتی رہتی ہے
زبر اور زیر کی درمیانی لائن
تماشائی بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔