"دیپ جلتا رہا تیرگی میں کہیں"
گم رہے ہم مگر چاندنی میں کہیں
دھوم تھی شور تھا ہر طرف جابجا
اشک بہتے رہے خامشی میں کہیں
اس کی طرزِ ادا تھی بہت نغمگیں
کھو گئے ہم سبھی چاشنی میں کہیں
پھول قرطاس پر چار سو کھل اٹھیں
ذکر ہو گر ترا شاعری میں کہیں
ہوش رہتا نہیں مے کشی میں کبھی
زندگی ہے نہاں بیخودی میں کہیں
پس بلا لیجئے اپنے دربار میں
مر ہی جائیں نہ اب تشنگی میں کہیں