سیلِ گریہ طویل ہو جائے
اور دریائے نیل ہو جائے
ایسی جادوئی آنکھیں ہیں وللہ
دشت دیکھے تو جھیل ہو جائے
گال سے ہونٹ چومنا چاہوں
اور رستہ طویل ہو جائے
چیخ ہچکی کی شکل میں ابھرے
کوئی اتنا علیل ہو جائے
یہ محبت ہے دائمی صدمہ
تیرے جیسا ذلیل ہو جائے
یا ہتھوڑا بنے بہادری سے
یا مرے دل پہ کیل ہو جائے
سیکھ کر اس سے جھوٹ کا چکر
عام بندہ وکیل ہو جائے
جس پہ وہ شخص مجھ سے بحث کرے
کوئی ایسی دلیل ہو جائے